لیلۃ القدر : فضیلت، وجہِ تسمیہ اور مسنون اعمال

رمضان المبارک کی مقدس راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر ہے. اس رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے. اس رات میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے، بندوں کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں، انکے درجات بلند کیے جاتے ہیں، ایک ہزار مہینوں سے زیادہ عبادت کا ثواب صرف ایک رات میں عطا کر دیا جاتا ہے۔ جس شخص نے یہ ایک رات اللہ کی عبادت میں گزار دی اس نے تراسی سال اور  چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ’’ہزار مہینوں سے افضل‘‘ کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ رب العزت جتنا زیادہ اجر و ثواب عطا فرمانا چاہے گا عطا فرما دے گا۔ جس کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔ اس رات کی فضیلت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ آپ ﷺ اس رات میں خود بھی بہت زیادہ عبادت کرتے تھے اور امت کے لیے بھی اس رات کی عبادت کو پسند فرمایا ہے۔ درج ذیل سطور میں لیلۃ القدر کی فضیلت، وجہ تسمیہ اور مسنون اعمال کی بابت چند باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔

شبِ قدر کی وجہ تسمیہ اور اقوال علماء کرام

حافظ صلاح الدين يوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

قَدرٌ کے معنی قدر و منزلت  بھی ہیں ، اس کے معنی اندازہ اور فیصلہ کرنا بھی ہیں۔ اس میں سال بھر کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے اسے ” لیلة الحُكم ” بھی کہتے ہیں۔ اس کے معنی تنگی کے بھی ہیں. اس رات اتنی کثرت سے زمین پر فرشتے اترتے ہیں کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے. اسی لیے اسے “شبِ قدر” یعنی تنگی کی رات یا اس لیے یہ نام رکھا گیا ہے کہ اس رات جو عبادت کی جاتی ہے اللہ کے ہاں اس کی بڑی قدر ہے اور بڑا ثواب ہے1

علامہ قاضی ثناء الله پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

سميت بها للعظمة والشرف، لأن العمل فيه يکون ذا قدر عند الله2

ترجمہ : اس رات کو شرف و عظمت والی شب اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس رات کو کیا جانے والا ہر عملِ خیر اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر و منزلت والا ہو جاتا ہے‘‘

امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

إنما سمیت بذلك لعظمہا وقدرها وشرفها3  

ترجمہ : چونکہ شبِ قدر کی عظمت، قدر و منزلت اور شرف و مرتبہ باقی راتوں کے مقابلے میں بلند ہے اس لیے اسے ” لیلۃ القدر” کہا جاتا ہے۔

علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

سميت بذلك لأنه أنزل فيها کتابا ذا قدر علی رسول ذي قدر علی أمة ذات قدر4

ترجمہ : اسے شبِ قدر اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑی قدر و منزلت والی کتاب بڑی قدر و منزلت والے رسول پر اور بڑی قدر و منزلت والی امت پر نازل فرمائی‘‘

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :

 إن اللہ تعالی یقضي الأقضیة في لیلة نصف شعبان ویسلمها إلی أربابها في لیلة القدر5    

ترجمہ : بے شک اللہ تعالی نصف شعبان کی رات (یعنی شبِ برات) میں تمام فیصلے فرماتا ہے اور شبِ قدر میں ان فیصلوں کو انکے ذمہ دار فرشتوں کے سپرد فرماتا ہے۔

امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اس رات کو لیلۃ القدر اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات بھی سارے سال کے احکام لکھے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ دخان میں فرماتے ہیں ” اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے6

امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

نزل فيها کتاب ذو قدرٍ علی لسان ذي قدر علی امة لها قدر و لعل اﷲ تعالیٰ إنما ذکر لفظه القدر فی هذه السورة ثلاث مرات لهذا السبب7

اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قابلِ قدر کتاب قابلِ قدر امت کے لیے صاحبِ قدر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت نازل فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں لفظ ” قدر” تین دفعہ آیا ہے۔‘‘

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وسُمِّيت بِذَلك لأن العمل الصالح يكون فيها ذا قدر عند الله لكونه مقبولا8

اس رات کو شبِ قدر  اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ  اس رات کو کیا جانے والا ہر نیک عمل  اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہونے کی وجہ سے قدر و منزلت والا ہو جاتا ہے‘‘

امام علاء الدين علي بن محمد بن إبراہيم بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

سُمِّيت بِذلك لأنّ الأرضَ تَضِيقُ بِالملائکة فيها9

اس رات کو شبِ قدر  اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس رات آسمان سے فرشِ زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔

امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

لِأَنَّ اللہ تَعَالیٰ یُقَدِّرُ فِیْھا مَایَشَاءُ مِنْ أَمْرِہ10  

اس رات کو شبِ قدر اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں ہر آدمی کا رزق و روزی مقرر کیا جاتا ہے،عمر لکھی جاتی ہے، ہر طرح کے فیصلے لکھ کر ذمہ دار فرشتوں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں ۔

امام ابوبکر ورّاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

سمیت بذلك لأن من لم یکن له قدر و لا خطر یصیر فی هذه الیلة ذا قدر إذا أحیاها11

اس رات کو لیلۃ القدر اس وجہ سے کہا گیا کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بے عملی کے سبب کوئی قدر و قیمت نہ تھی، اس رات میں توبہ و استغفار اور عبادت کے ذریعے وہ صاحبِ قدر و شرف بن جاتا ہے۔ یعنی یہ رات عبادت کرنے والے کو صاحبِ قدر بنا دیتی ہے اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہیں تھا۔

شبِ قدر کی فضیلت

نزولِ قرآن

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

 إِنَّا أَنزلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ

(القدر : 1)

ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا۔

یعنی  پورا قرآن لیلتہ القدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل ہوا پھر وہاں سے حسبِ موقع و ضرورت بتدریج نبی کریم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور 23 سال میں اس کے نزول کی تکمیل ہو گئی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اس قرآن کو ” لیلۃ القدر” میں نازل کیا۔ اور سورۃ الدخان کی آیت نمبر 3 میں فرمایا کہ ہم نے اس قرآن کو ” لیلۃ مبارکہ ” میں نازل کیا جس سے معلوم ہوا کہ ” لیلۃ القدر ” اور ” لیلۃ مبارکہ ” الگ الگ راتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی رات کے دو نام ہیں اور لیلتہ القدر رمضان میں ہی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کی آیت

{ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ }( البقرة: 185 )

سے واضح ہے۔

شبِ قدر میں کیا ہوتا ہے؟

شبِ قدر ایسی رات ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ مخلوق کی سال بھر کی تقدیر کا تعین کرتا ہے اور آنے والے پورے سال میں وقوع پذیر ہونے والی زندگی، موت، خیر و شر، عروج و زوال، ہدایت و گمراہی، روزی میں کشادگی و تنگی اور دیگر تمام مخلوقات کی تقدیر، ان کا وقتِ مقرر، ان کا رزق، ان کے اعمال اور ان کے اموال وغیرہ درج کر دیتا ہے۔ شبِ قدر ایسی رات ہے کہ  جس میں اللہ تعالیٰ آئیندہ سال سے متعلق افراد و اقوام کی قسمتوں کے تمام فیصلے فرشتوں کے حوالے کر دیتے ہیں پھر وہ ان پر عمل درآمد کرتے رہتے ہیں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ

(الدخان : 4-5)

اسی رات میں ہر محکم کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ وہ فیصلے ہمارے ہوتے ہیں، بے شک ہم ہی رسولوں کو بھیجتے رہتے ہیں۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

 إِنَّكَ لَتَرَی الرَّجُلَ يَمْشِيْ فِي الْأَسْوَاقِ، وَقَدْ وَقَعَ اسْمُهُ فِي الْمَوْتٰی، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ ، فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ (الدخان : 3، 4) يَعْنِيْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَفِيْ تِلْكَ اللَّيْلَةِ يُفْرَقُ أَمْرُ الدُّنْيَا إِلٰی مِثْلِهَا مِنْ قَابِلٍ12

ترجمہ : تم آدمی کو بازاروں میں چلتا پھرتا دیکھتے ہو حالانکہ اس کا نام مُردوں میں درج ہو چکا ہوتا ہے۔ پھر یہ آیت پڑھی:

اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ  اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ، فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ

 (الدخان : 3، 4)

بے شک ہم نے اسے ایک برکت والی رات  میں نازل کیا ہے، بیشک ہم ڈرانے والے ہیں۔

 کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے۔ اس رات میں دنیا کے معاملات کا آئیندہ سال کی اسی رات تک کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔

معلوم ہوا کہ کائنات کے نظم و نسق کے بارے میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ افراد، اقوام اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کرکے اپنے فرشتوں کے حوالے کردیتا ہے۔ پھر وہ انہی فیصلوں کے مطابق عمل درآمد کرتے رہتے ہیں۔ یعنی افراد یا اقوام کی زندگی اور موت، فتح و شکست، عروج و زوال، قحط اور ارزانی اور رزق وغیرہ سے متعلق فیصلے اسی رات میں کر دیے جاتے ہیں۔

مبارک رات

شبِ قدر ایک مبارک رات ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

 إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ

(الدخان : 3)

بے شک ہم نے اسے ( قرآن پاک کو ) ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔

شبِ قدر کے بابرکت ہو نے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ ایک تو اس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسرا یہ کہ اس میں فرشتوں اور جبریلِ امین کا نزول ہوتا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور چوتھی بات کہ اس رات کی عبادت ہزار مہینے (یعنی 83 سال 4 ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے۔

بابرکت رات سے مراد

بابرکت رات سے مراد شبِ قدر ہے کیونکہ قرآن کا نزول شبِ قدر میں ہوا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ

(سورة القدر :1)

ہم نے یہ قرآن شبِ قدر میں نازل فرمایا۔

شبِ قدر ماہِ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ہی کوئی ایک رات ہوتی ہے اور اسی ماہِ رمضان میں قرآن نازل ہوا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

 شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

(البقرة : 185)

رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا۔

ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل

شبِ قدر کی عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ

(سورۃ القدر : 3)

یعنی شبِ قدر کی عبادت ایسے ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے جن میں شبِ قدر کو شمار نہ کیا جائے ۔

83  سال اور 4 ماہ

امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

وألفُ شَهرٍ تَعدِلُ: ثلاثًا وثمانينَ سَنَةً وأربعةَ أشهُرٍ13

ہزار مہینے 83 سال اور 4 ماہ بنتے ہیں۔

جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گزری اس نے تراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ ’’خیر من الف شھر‘‘ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہے گا عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ لگانا انسان کے بس سے باہر ہے۔

فرشتوں کا نزول

شبِ قدر ایسی رات ہے کہ جس میں جبریل علیہ السلام اور فرشتے کثرت سے خیر و برکت کے ساتھ اترتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ

(القدر : 4)

شبِ قدر ایسی رات ہے کہ جس میں  فرشتے اور جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر امر کے متعلق آئیندہ سال میں جو کچھ ہونے کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے وہ لے کر زمین پر اترتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :

إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ فِي الْأَرْضِ ‌أَكْثَرُ ‌مِنْ ‌عَدَدِ ‌الْحَصَى

(مسند أحمد :10734، و حسَّنه الألباني في السلسلة الصحيحة :2205).

اس رات فرشتے زمین پر ریت کی کنکریوں کی تعداد سے زیادہ ہوتے ہیں۔

تفسیر ابن کثیر میں ” تنزل الملائکۃ ” کی تفسیر میں لکھا ہے:

أي يكثر تنزل الملائكة في هذه الليلة لكثرة بركتها ، والملائكة يتنزلون مع تنزل البركة والرحمة ، كما يتنزلون عند تلاوة القرآن ، ويحيطون بحِلَق الذِّكْر ، ويضعون أجنحتهم لطالب العلم بصدق تعظيماً له “14

اس رات کی برکت کے سبب نزولِ ملائکہ کثرت کے ساتھ ہوتا ہے اور فرشتے برکت و رحمت ساتھ میں لے کر نازل ہوتے ہیں جیسا کہ تلاوتِ قرآن کے وقت نازل ہوتے ہیں اور ذکر وعبادت کی جماعتوں کو اپنے نورانی حلقے میں احاطہ کرلیتے ہیں اور اس رات کی تعظیم کرنے والے طالب علموں کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں۔

سلامتی کی رات

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

سَلامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ

(القدر : 5)

یہ رات سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے۔

یعنی شبِ قدر ایسی رات ہے جو سراسر امن و سلامتی کی رات ہے۔ یہ ایسی رات ہے جس میں فرشتے   ساری رات اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لیے امن و سلامتی کی دعائیں کرتے رہتے ہیں ۔ یہ ایسی رات ہے جس میں صبح طلوع ہونے تک خیر و برکت نازل ہوتی رہتی ہے۔ یہ ایسی رات ہے جو ہر قسم کی برائی اور ضرر سے پاک ہوتی ہے۔ یہ ایسی رات ہے جس میں مؤمنین شیاطین کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ ایسی رات ہے جو تمام کی تمام خیر و بھلائی کی ہے۔ یہ ایسی رات ہے جس میں اللہ کی عبادت و اطاعت، نیکی و بھلائی کے کام بکثرت ہوتے ہیں۔ یہ ایسی رات ہے جس میں کثرت سے ایمان والوں  کو  جہنم سے نجات ملتی ہے۔ یہ ایسی رات ہے جس میں کثرت سے مؤمنوں کو عذاب سے سلامتی نصیب ہوتی ہے۔ یہ ایسی رات ہے جو مکمل سراپا امن و سلامتی ہے۔

لیلۃ القدر سے محرومی ہر قسم کی بھلائی سے محرومی  

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے  ہیں کہ :

دَخلَ رمضانُ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إنَّ هذا الشَّهرَ قَد حضرَكُم وفيهِ ليلةٌ خيرٌ مِن ألفِ شَهْرٍ من حُرِمَها فقد حُرِمَ الخيرَ كُلَّهُ ولا يُحرَمُ خيرَها إلَّا محرومٌ

(صحيح ابن ماجہ:1341، و صحیح الجامع: 2247)

ترجمہ : ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ : تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سےافضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا ساری بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعی) محروم ہو“۔  

ایک رات عبادت میں گزارنے سے تیس ہزار سے زیادہ راتوں کی عبادت کا ثواب مل رہا ہو پھر بھی کوئی شخص محض سستی کی وجہ سے یہ ثواب حاصل نہ کرسکے تو یہ واقعی بہت بڑی محرومی ہے۔

لیلۃ القدر کے مسنون اعمال

لیلۃ القدر میں ایسے کام ہیں جن کا کرنا مستحب ہے کیونکہ یہ بابرکت رات ہے۔ جس نے شبِ قدر میں قیام کرکے اس کی برکتوں اور رحمتوں کو حاصل نہ کیا تو وہ بہت سی بھلائیوں سے محروم ہوگیا۔ اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ لیلۃ القدر کو اجر و ثواب کی نیت سے عبادت، ذکر و اذکار اور استغفار میں گذارے۔ شبِ قدر کے مسنون اعمال میں درج ذیل اہم اعمال شامل ہیں:

قیام الیل

شبِ قدر کی بابرکت رات کو قیام اللیل یعنی نمازِ تراویح  پڑھتے ہوئے جاگ کر گذرانا سنت ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ قدر میں قیام کرنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

مَن قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إيمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ

(رواه البخاري:2014، ومسلم: 760)

جو کوئی شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصولِ ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

یعنی لیلۃ القدر میں قیام کا اجر پچھلے سارے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں کا قیام کس قدر عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے۔ رمضان کی راتوں کا قیام مسنون و مستحب عمل ہے اور انتہائی فضیلت کا حامل مگر واجب نہیں ہے اور اس میں غفلت کرنا بہت بڑی محرومی ہے۔ قیامِ رمضان سے مراد رات کو نماز یا قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ عبادت میں مصروف رہنا ہے۔ اسکاغالب استعمال نمازِ تراویح پر ہوتا ہے۔

اعتکاف

شبِ قدر کے مسنون اعمال میں ایک عمل اعتکاف ہے۔ اعتکاف کے لغوی معنی روکنے، بند کرنے، ٹھہرنے اور لازم رہنے کے ہیں اور شرعی مفہوم یہ ہے کہ مسجد میں ایک خاص کیفیت سے اپنے آپ کو روکنا۔  شبِ قدر کی عبادت کا ثواب حاصل کرنے کے لیے رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف مسنون ہے۔ رسول اللہ ﷺ آخری دس راتوں میں لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے اعتکاف کیا کرتے تھے۔ تاہم اگر کوئی شخص اعتکاف نہ کرسکے تب بھی طاق راتوں کی عبادت میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے۔ ایک سال آپ ﷺ نے اعتکاف فرمایا یہاں تک کہ جب اکیسویں رات آئی جس میں آپ اعتکاف سے نکل آتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا:

من كان اعتكَفَ معي، فلْيعتكِفِ العَشرَ الأواخِرَ، وقد أُريتُ هذه الليلةَ ثم أُنسِيتُها، وقد رأيتُني أسجُدُ في ماءٍ وطِينٍ مِن صَبيحَتِها فالتَمِسوها في العَشرِ الأواخِرِ، والتَمِسوها في كُلِّ وِترٍ 

(رواه البخاري: 2027 و اللفظ له، ومسلم: 1167 )

”جن لوگوں نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے اب وہ آخر کے دس دن بھی اعتکاف کریں، میں نے یہ (قدر کی) رات دیکھ لی تھی پھر مجھے بھلا دی گئی اور میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں اس رات کی صبح کو کیچڑ اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں لہٰذا تم یہ رات آخری عشرے میں تلاش کرو اور وہ بھی طاق راتوں میں“۔

دعا

لیلۃ القدرکے مسنون اعمال میں سے ایک عمل اللہ تعالیٰ سے خوب دعا مانگنا ہے۔ لیلۃ القدر میں قیام اللیل کے ساتھ ساتھ  ذکر و اذکار، دعا اور تلاوتِ قرآنِ مجید کا خوب اہتمام کریں۔ اس رات کی ایک خصوصی دعا ہے جو نبی ﷺ نے اپنی امت کو سکھائی ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :

قلتُ: يا رسولَ اللهِ، أرأيتَ إنْ عَلِمْتُ أيُّ ليلةٍ ليلةُ القَدرِ، ما أقولُ فيها؟ قال: قُولي: اللَّهُمَّ، إنِكَّ عَفُوٌّ تُحِبُّ العَفوَ فاعْفُ عَنِّي 

(صحيح الترمذي:3513، و صحيح ابن ماجه:3119)

میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شبِ قدر مل جائے تو میں کون سی دعا پڑھوں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم پڑھو:

” اللَّهمَّ إنَّكَ عفوٌّ تحبُّ العفوَ فاعفُ عنِّي”

(اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے لہذا تو مجھے معاف کردے۔)

لیلۃ القدر کا وقت

لیلۃ القدر کا وقت رمضان المبارک کی بیسویں رات سے شروع ہوتا ہے۔ شبِ قدر آخری عشرے کی طا ق راتو ں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے اس لیے جو شخص دس راتیں عبادت نہ کر سکے اسے یہ پانچ راتیں ضرور عبادت اور تلاوت و ذکر میں گزارنی چاہیے تاکہ شبِ قدر کی عظیم نعمت سے محروم نہ رہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تَحَرَّوْا ليلةَ القَدْرِ في الوِترِ مِنَ العَشرِ الأواخِرِ مِن رَمَضانَ 

( رواه البخاري :2017، ومسلم: 1169).

شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔

شبِ قدر کی علامات

حافط عبدالستار الحماد حفظ اللہ کہتے ہیں :

مختلف احادیث میں شبِ قدر کے متعلق کچھ نشانیاں بھی بتائی گئی ہیں لیکن ان نشانیوں کا تعلق شبِ قدر کے گزرنے کے بعد سے ہے مگر یہ نشانیاں امکان کے طور پر ہیں بطورِ شرط کے نہیں، مثلاً:

ایک نشانی بارش کا ہونا بھی بتایا گیا ہے مگر کتنے ہی رمضان ایسے گزر جاتے ہیں کہ ان میں بارش نہیں ہوتی حالانکہ ان میں لیلۃ القدر کا ہونا برحق اور یقینی ہے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص نے آخری عشرے کی طاق راتوں میں قیام کیا اور اسے شبِ قدر کا ادراک بھی ہوا لیکن اس نے اس رات کوئی امر بطورِ خوارقِ عادت نہیں دیکھا۔

اس بنا پر ہمارا اعتقاد ہے کہ لیلۃ القدر کے پانے کے لیے خرقِ عادت چیز کا پانا یا دیکھنا ضروری نہیں۔ہم یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ شبِ قدر وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو کوئی خرقِ عادت امر دیکھے۔ اللہ کا فضل و کرم بہت وسیع ہے وہ اس طرح کے کاموں کا محتاج نہیں۔

شبِ قدر اور نبی ﷺ کا معمول

اگر روایات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ آپ ﷺ شبِ قدر کا خاص اہتمام فرماتے اور عبادت کرتے۔ چنانچہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ

(صحيح البخاري:2024)

جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو آپ ﷺ عبادت کے لیے کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔

اس حدیث میں شبِ قدر میں نبی کریم ﷺ کے تین اعمال کا ذکر ہے ۔

کمر کس لیتے ۔  یعنی عبادت کے لیے بیحد جد و جہد فرماتے ۔

شب بیداری کرتے ۔ رات میں عبادت کے لیے خود کو بیدار رکھتے ۔

اہل وعیال کو جگاتے ۔ اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے کیونکہ یہ رات  بڑی فضیلت والی ہے ۔

اللہ کے فضل و کرم سے ہم آخری عشرے میں ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ جہاں اپنے اور اپنے رشتے داروں کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائیاں مانگیں وہاں اپنے ملک میں امن و امان اور عالمِ اسلام کے مسلمانوں کی خیر و فلاح کے لیے دعائیں مانگیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری عبادتوں اور دعاؤں کو قبول فرمائے۔

  1. (تفسير احسن البيان ، سورۃ القدر )
  2. (تفسير مظهری)
  3. (تفسير قرطبی)
  4. (تفسير قرطبی)
  5. (تفسیر قرطبی)
  6. ( فتح الباری ، ص: 255/4)
  7. (تفسیر کبیر، 32 : 28)
  8. ( تفسیر بغوی)
  9. (تفسیر الخازن، 4 : 395)
  10. (تفسیر القرطبی: 20/130)​
  11. (تفسیر القرطبی، 20: 131)
  12. ( مستدرک حاکم، تفسیر سورۃ الدخان :2/448، ح : 3678 )
  13. (تفسير ابن كثير :4/442)
  14. (تفسير ابن كثير 4/531)
الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ: