سوال نمبر 1 : سود کی بنیادی تعریف کیا ہے ؟نیز تجارت ،اجارہ اور سود میں کیا فرق ہے ؟کیونکہ بظاہر سب میں منافع ہی حاصل ہوتا ہے ؟(محمد وقاص رفیق)
جواب: عربی زبان میں سود کو ربا کہتے ہیں ، ربا کا مطلب ہے بڑھنا ، اضافہ ہونا، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ
الحج – 5
’’پھر جب ہم اس پر بارش برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے‘‘۔
فقہاء کی اصطلاح میں سود سے مراد ہے :’’ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق کے لئے وقت ادائیگی میں مخصوص اضافہ جو بغیر کسی عوض کے ہو‘‘۔
بنیادی طور پر سود کی دو اقسام ہیں :
(۱) قرض کا سود : جس میں قرض دے کر زیادہ طلب کیا جائے یا ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں رقم بڑھادی جائے۔
(۲) تجارت کا سود : اس کی دو اقسام ہیں : (أ) زیادتی کا سود(ربا الفضل) (ب) ادھار کا سود (رباالنسیئہ)
(أ) زیادتی کا سود یہ ہے کہ وہ مخصوص اجناس جنہیں شرعی اصطلاح میں ’’سودی اجناس ‘‘ کہتے ہیں میں سے ایک ہی جنس کا تبادلہ کرتے وقت اضافہ کردینا، جیسے مثال کے طور پر :
پانچ تولہ سونا (سکہ کی صورت میں)= چار تولہ سونے کا سیٹ۔
(ب) ادھار کا سود : سودی اجناس کا آپس میں تبادلہ کرتے وقت ادھار کرلینا ، جیسے مثال کے طور پر :
ایک من گندم = ایک من چاول ایک مہینہ بعد۔
تجارت ، اجارہ ، اور سود میں فرق:
تجارت سے مراد خرید و فروخت کے معاملات ہیں ، جس میں ایک شخص اپنی محنت سے ایک چیز بناتا ہے یا اگاتا ہے یا کہیں سے خرید کر لاتا ہے پھر اسے آگے فروخت کرتا ہے ، اس دوران اسے اس چیز کے تلف ہوجانے ، ضائع ہوجانے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے، اسے یہ بھی یقین نہیں ہوتا کہ اس کی یہ چیز فروخت ہوگی یا نہیں اور اگر فروخت ہوگی تو کتنی قیمت پر ہوگی ، اسی طرح اجارہ سے مراد کرایہ داری کے معاملات ہیں ، جس میں ایک شخص اپنی محنت سے حاصل کردہ ایک چیز کو کچھ رقم کے عوض استعمال کی غرض سے دوسرے شخص کے حوالہ کرتا ہے ، اور اس چیز کے تلف ہوجانے کی صورت میں وہ کرایہ سے محروم بھی ہوسکتا ہے ، غرض یہ کہ تجارت اور اجارہ میں اگرچہ ایک شخص کو منافع ضرور حاصل ہورہا ہے لیکن اسے نقصان کا اندیشہ بھی ہے ، اور یہ منافع اسے کسی چیز کے بدلہ میں حاصل ہورہا ہے، جبکہ سود میں سود خور کو کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا اور جو زائد رقم وہ وصول کر رہا ہے وہ کسی چیز یا محنت کے عوض نہیں ہے ، بلکہ وہ صرف اس رقم کے بدلہ ہے جو اس نے قرضدار کو دی ، اب چاہے قرضدار نے جس مقصد کے لئے بھی رقم لی ، چاہے قرضدار کو منافع ہوا ہو یا نقصان ہوا ہو سود خور کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اسے صرف اپنے قرض اور سود سے غرض ہوتی ہے جو قرضدار کو ہر حالت میں ادا کرنا ہوتا ہےاسی لئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ
البقرة – 275
’’اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے‘‘۔
سوال نمبر 2 : کمپنی کی شرعی حیثیت واضح فرمادیں کیونکہ بیشتر کمپنیاں بھی اپنے کاروبار کے لئے بینک سے قرض لیتی ہیں اور اس پر سود ادا کرتی ہیں ؟
جواب: سود لینا اور سود دینا دونوں کا شمار گناہ کبیرہ میں سے ہوتا ہے ، اور دونوں پر اللہ کی لعنت ہے ، سود کے گناہ میں دونوں برابر کے شریک ہیں ، لیکن جہاں تک معاملہ ہے کاروبار کا یا ایسی کمپنی میں ملازمت کا جو سود پر قرض لیتی ہو تو اس حوالہ سے کمپنیوں کی دو اقسام ہیں :
(۱) وہ کمپنیاں اور ادارے جن کا کام ہی سودی لین دین ہو ، اور ان کا منافع بھی سود ہی سے حاصل ہوتا ہو ، جیسے بینک، تو ایسی کمپنی کا کاروبار حرام ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی ملازمت بھی حرام ہے۔
(۲) وہ کمپنیاں اور ادارے جن کا کاروبار سودی نہ ہو اور نہ ہی اس میں کسی اور قسم کے حرام کی آمیزش ہو اور جن کا منافع بھی سود سے حاصل نہ ہوتا ہو بلکہ وہ اپنے منافع سے سود ادا کرتے ہوں ، تو ایسی کمپنی کا کاروبار حلال ہے اور اس میں وہ ملازمت جائز ہے جس کا تعلق سودی لین دین کی لکھت پڑھت یا اعداد وشمار جمع کرنے سے نہ ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سود لینے والے کے کاروبار کا خصوصاً تذکرہ کر کے اسے حرام قرار دیا ہے ، فرمان باری تعالیٰ ہے:
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ
البقرة – 275
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنادیا ہو‘‘۔[البقرة: 275]
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سود پر قرض لینا جائز ہے ، بلکہ سود پر قرض لینے والے پر اللہ کی لعنت ہے ، اور اس لعنت میں کمپنی کا مالک اور وہ ارباب اختیار شامل ہیں جو کمپنی کے مالی معاملات میں تصرف واختیار رکھتے ہیں۔
سوال نمبر 3 : اگر بینکوں کے پاس زیور رکھواکر بلاسود قرضہ لیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ (محمد عرفان)
جواب :بینکوں سے کسی قسم کا معاملہ کرنا ناجائز اور حرام ہے ، چاہے وہ معاملہ سودی ہو یا غیر سودی ، کیونکہ یہ گناہ پر تعاون ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے:
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ
المائدة – 2
’’ گناہ اور زیادتی کے معاملہ میں تعاون نہ کرو‘‘۔
جہاں تک بینک کے علاوہ کسی اور کے پاس زیور رکھوا کر قرض لینے کا تعلق ہے تو وہ جائز ہے ، کیونکہ قرض کے بدلہ رہن رکھوانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بعض معاملات میں رہن رکھنے کی شریعت نے تاکید کی ہے ، فرمان الٰہی ہے:
وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ
البقرة – 283
اور اگر تم سفر پر ہو اور (دستاویز لکھنے والا مل نہ سکے) تو (کوئی چیز) رہن یاقبضہ رکھ کر(قرض لے لو) البتہ زیور بطور رہن کے رکھواتے وقت دو باتیں ذہن نشین ہونی چاہئیں۔
(۱) جو رقم دی جارہی ہو زیور کی قیمت سمجھ کر یا اس کے بدلہ نہ دی جارہی ہو کیونکہ اس صورت میں یہ خرید وفروخت کا معاملہ تصور ہوگا اور ایسی خرید و فروخت جس میں سونا یا چاندی شامل ہوں اسے بیع الصرف کہتے ہیں ، اور بیع الصرف کی شرط یہ ہے کہ معاملہ ہاتھوں ہاتھ نقد ہو اور فریقین میں سے کسی پرکسی قسم کا ادھار یا قرض باقی نہ رہے،حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺسے بیع الصرف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپﷺنے فرمایا:
” إِنْ كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَلَا بَأْسَ، وَإِنْ كَانَ نَسَاءً فَلَا يَصْلُحُ “
’’اگر وہ ہاتھوں ہاتھ ہے تو کوئی حرج نہیں اور اگر وہ ادھار ہے تو جائز نہیں‘‘۔[2]
لہٰذا اگر ایسی کوئی صورت ہے تو اس کا حکم یہ ہوگا کہ یاتو قرض دینے والے کو زیور کا خریدار سمجھا جائے گا اور قرضدار کو زیور کا فروخت کنندہ اور اس صورت میں کوئی قرض باقی نہیں رہے گا ، یا پھر اس معاملہ کو فاسد سمجھ کر ختم کردیا جائے گا۔
(۲) قرض کی واپسی میں کسی زائد رقم کا مطالبہ نہ ہو ، اور نہ ہی تاخیر پر کوئی جرمانہ لگایا جائے۔
سوال نمبر 4 : ایک شخص ہمارے پاس کچھ رقم امانت رکھوانے کے لئے آتا ہے ،ہم اسے یہ مشورہ دیتے ہیں وہ یہ رقم ہمارے پاس بطور قرض حسنہ کے رکھوائے کیونکہ بطور امانت رکھوانے سے چوری کا خدشہ ہے اور اگر وہ یہ رقم ہمیں بطور قرض کے رکھوائیں گے تو ہم اسے کاروبار میں لگائیں گے اور اس سے جو ہمیں منافع ہوگاا سے ہم فلاحی کاموں میں استعمال کریں گے کیاایسا کرنا جائز ہے ؟(محمد رفیق)
جواب :جائز ہے ، بلکہ اس رقم سے ہونے والے منافع کو آپ ذاتی استعمال میں بھی لاسکتے ہیں کیونکہ کاروبار میں نقصان ہونے کی صورت میں بھی بہر حال قرض کی ادائیگی لازم ہے، تو چونکہ نقصان بھی قرضدار نے برداشت کرنا ہے لہذا منافع کا حقدار بھی وہی ہے ، اور دونوں صورتوں میں (یعنی نفع ہو یا نقصان) قرض خواہ کو اتنی ہی رقم لوٹائی جائیگی جتنی اس نے ادا کی تھی ، کسی بھی قسم کی کمی بیشی کرنا جائز نہیں۔
سوال نمبر 5 : لاعلمی کی بنیاد پر جو منافع اور سود حاصل کیا گیا ہے اس کا کیا کیا جائے؟(راشد علی)
جواب: لا علمی کی بنیاد پر اگر سود مل گیا ہے تو اسے فقراء اور مساکین میں بغیر اجر وثواب کی نیت کے صدقہ کردیا جائے۔
سوال نمبر 6 : ایک شخص اپنی بھینس کسی کو ایک سال کے لئے 30000روپے کے عوض سپرد کردیتا ہے کیا پیسے ادا کرنے والے کے لئے اس کا دودھ فروخت کرنا جائز ہوگا؟(نوید ظفر اقبال )
جواب: اس معاملہ کی مکمل وضاحت مطلوب ہوگی کہ یہ معاملہ اجارہ ( کرایہ داری ) کا ہے ، یا قرض کے بدلہ رہن رکھوانے کا؟
اگر یہ معاملہ کرایہ کا ہے کہ کرایہ دار نے تیس ہزار روپے کرایہ کے عوض ایک سال کے لئے بھینس حاصل کی ہے تو اس کے لئے اس سے نفع اٹھانا جائز ہے ، وہ اس کا دودھ بیچ کر نفع حاصل کرسکتا ہے ، اور اگر قرض لے کر بھینس کو بطور رہن کے رکھوایا ہے تو قرض خواہ کے لئے اس صورت میں اس کا دودھ بیچنا جائز ہوگا جب اس بھینس کے چارہ پانی کا بندوبست بھی اس کے سپرد ہو۔ نبیﷺکا فرمان ہے :
“الرهن مركوب ومحلوب”
رہن (اگر مویشی ہوتو ) اس پر سواری بھی کی جاسکتی ہے اور اس کا دودھ بھی نکالا جاسکتا ہے[3]۔
L.C )Latter of Credit) کی شرعی حیثیت
سوال نمبر 1 :L.C لیٹر آف کریڈٹ کی شرعی حیثیت کی وضاحت کریں ؟(حفیظ الرحمن قدر )
جواب: Latter of Credit جسے اردو میں تجارتی اعتمادی دستاویز کہا جاتا ہے ، اس سے مراد وہ دستاویز ہے جو امپورٹر کا بینک ایکسپورٹر کے بینک کو جاری کرتا ہے اور اس میں ایکسپورٹر کو یہ ضمانت دی جاتی ہے کہ امپورٹر کے پاس اس کا سامان پہنچتے ہی اس کا بل ادا کردیا جائے گا۔ LC میں درج ذیل امور نہ پائےجائیں تو وہ جائز ہے:
(1) LC میں بینک یہ ضمانت لیتا ہے کہ اگر امپورٹر بر وقت ادائیگی نہ کرسکا تو اس کی جگہ بینک ادائیگی کرے گا ، اور اس ضمانت کے بدلہ بینک امپورٹر سے فیس وصول کرتا ہے ، یہ فیس غیر شرعی ہے کیونکہ کسی کی ضمانت یا کفالت لینا ایک تعاون ہے اور اس کی فیس لینا بالاتفاق ناجائزہے۔ البتہLCجاری کرتے وقت بینک اپنے اخراجات کی مد میں جو رقم لیتا ہے وہ جائز ہے۔
(2) امپورٹر کے پاس رقم کی عدم موجودگی کی صورت میں اس کی طرف سے بینک ادائیگی کرتا ہے اور بعد میں امپورٹر سے وہ رقم سود کے ساتھ وصول کرتا ہے جو کہ حرام ہے۔
تاخیر پر جرمانہ
سوال نمبر 1 : اسلامی بینک تاخیر پر اگر جرمانہ نہ لگائے تو پھر کوئی بھی مقررہ وقت پر ادائیگی نہیں کرےگا؟لہٰذا اس خدشہ کے تحت کیا یہ جرمانہ ٹھیک نہیں ہے ؟ (سلیم معرفانی میمن)
جواب: سوال میں سائل کی عام مسلمانوں کے حوالہ سے صریحاً بد گمانی نظر آتی ہے جو کہ درست نہیں ، نبیﷺکا فرمان ہے :
” إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الحدِيثِ”۔
بدگمانی سے بچو، بیشک بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے”[4]۔
جہاں تک تعلق ہے تاخیر پر جرمانہ کرنے کا تو ایسا شخص جو جان بوجھ کر تاخیر کرے شریعت کی نظر میں وہ ظالم ہے ، نبیﷺکا فرمان ہے:
“مطل الغني ظلم”
’’مالدار (قرضدار ) کا (ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے‘‘[5]۔
بلکہ شریعت نے اس حوالہ سے قرض خواہ کی رہنمائی بھی کی ہے کہ وہ اس صورت میں کیا کرے؟ نبیﷺ فرمان ہے :
“لي الواجد يحل عرضه و عقوبته”
’’ مالدار کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت اور اس پرسزا کو حلال کردیتا ہے‘‘[6]
لیکن تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ یہ جرمانہ مالی نہیں لگایا جائے گا ، ابن المبار ک ؒاس حدیث کی توضیح میں فرماتےہیں : ’’عزت حلال ہونے سے مراد ہے کہ اس پر سختی کی جائے گی اور اس کی سزا سے مراد ہے کہ اسے قید کردیا جائے گا‘‘[7]۔
اسی طرح اس کی حرمت پر اجماع کو ابن المنذرؒنے بھی ذکر کیا ہے ،فرماتے ہیں :
” أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زيادة أو هدية فأسلف على ذلك: أن أخذ الزيادة على ذلك ربا”
’’اس بات پر تمام علماء کا اجماع ہے کہ جب قرض دینے والا ، قرض لینےوالے پر یہ شرط لگائے کہ وہ اسے بڑھا کر دے گا ، یا کوئی ہدیہ دے گا اور اس شرط پر وہ اسے قرضہ دے تو اس کا یہ زائد رقم لینا سود ہے‘‘[8]۔
تاخیر کا خدشہ ہر دور میں رہا ، لیکن کسی بھی عالم نے اس جرمانہ کو جائز قرار نہیں دیا۔ لہذا مالی جرمانہ کے علاوہ کوئی بھی سزا دی جاسکتی ہے۔
سوال نمبر 2 : کیا کوئی بھی اسکول کا ادراہ اپنے طلباء پر تاخیر سے فیس جمع کرانے کی صورت میں جرمانہ عائد کرسکتا ہے جومدرسین کی تنخواہ میں تاخیر کا باعث بنتی ہے ؟ (عبد الرحمن )
سوال نمبر 3 : لیٹ فیس کا اسلام میں کیا حکم ہے اگر یہ حرام ہے تو اس کا کیا بدل ہونا چاہئے؟قرآن و سنت کی روشنی میں بیان فرمائیں ؟(سبحان محمود)
جواب: اسکول اور کالجز میں فیس دو طرح کی ہوتی ہے :
aایک وہ فیس جو طالب علم پر قرض ہوتی ہے ، یعنی اس نے ایک مہینہ اسکول میں پڑھا ، اسکول میں پڑھائی کے اخراجات اس پر قرض ہیں ، جو اس نے فیس کی صورت میں ادا کرنے ہیں۔ اس فیس پر مالی جرمانہ نہیں لگایا جاسکتا ، کیونکہ یہ سود کے زمرہ میں داخل ہے ،البتہ جان بوجھ کر تاخیر کرنے کی صورت میں کوئی اور سزا دی جاسکتی ہے،جیسا کہ پہلے وضاحت ہوچکی ہے۔
bوہ فیس جو طالب علم پر قرض نہیں ، بلکہ جب وہ ادا کرے گا تو اس کے معاملات پورے ہوں گے جیسے امتحانی فارم ، رجسٹریشن فارم وغیرہ کی فیس ، اس میں اگر وہ تاخیر کرتا ہے اور ادارہ اپنے اخراجات اور زائد محنت کو مد نظر رکھتے ہوئے لیٹ فیس وصول کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ قرض پر اضافہ نہیں ہے ،اور اس میں طالب علم مجبور نہیں ہے بلکہ آزاد ہے کہ چاہے وہ فیس ادا کرے یا نہیں۔
متفرقات
سوال نمبر 1 : Under invoicing کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
جواب:Under invoicing سے مراد ہے کہ خریدو فروخت کے بعد Invoice (بل) میں سامان کی اصل قیمت سے کم قیمت درج کی جائے تاکہ ایکسپورٹر زیادہ سیلز ٹیکس سے بچ سکے اور امپورٹر زیادہ Tariff (درآمدی ٹیکس) سے بچ سکے۔ یہ معاملہ جائز نہیں کیونکہ یہ جھوٹ اور دھوکہ پر مبنی ہے۔
سوال نمبر 2 : اسلامی بینکنگ میں موجود نقائص پر کسی جامع کتابچہ کی نشاندہی فرمادیں ؟(انور سلیم کمال )
جواب: اس حوالہ سے عربی اور انگریزی میں کافی کتب موجود ہیں ، اردو میں فضیلۃ الشیخ ذوالفقار احمدکی کتاب “دور حاضر کے مالی معاملات اور ان کا شرعی حکم ” ایک نہایت عمدہ و جامع کتاب ہے ، اسی طرح جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن سے اشاعت کردہ کتاب “مروجہ اسلامی بینکا ری ” بھی اس حوالہ سے اہم کتاب ہے۔ المدینہ اسلامک سینٹر سے شائع ہونے والا سہ ماہی مجلہ البیان شمارہ نمبر ۶ بھی خاص اسلامی بینکوں کے نقائص اور ان کا صحیح شرعی متبادل کے بیان پر مبنی ہے۔
سوال نمبر 3 :عصر حاضر میں کاروبار کی یہ شکل بھی سامنے آئی ہے کہ چند افراد ملکر ایک کاروباری اسکیم شروع کرتے ہیں جس کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ مثلا وہ چالیس ممبر متعین کرتے ہیں ہر ممبر ہر مہینے دو دو و ہزار روپے ادا کرتا ہے اور ہر ماہ ایک دفعہ قرعہ اندازی کی جاتی ہے جس میں ایک موٹر سائیکل نکال لی جاتی ہے جس کے نام نکل آئے اس سے بقیہ قسطیں معاف کردی جاتی ہیں یہی سلسلہ ہر ماہ جاری رہتا ہے اور اگر کسی کا نام قرعہ اندازی میں نام نہ نکلے تو موٹر سائیکل کی قیمت کی معینہ قسطیں ادا کرنے کے بعد موٹر سائیکل اس کے حوالے کردی جاتی ہے کیا شرعا کاروبار کی یہ نوعیت جائز ہے ؟( محمدرمضان سندھی )
جواب: یہ صورت جائز نہیں کیونکہ اس میں جوا ہے ، جوا کی تعریف علماء یوں کرتے ہیں کہ ’’ایسا معاہدہ جس میں دو یا دو سے زائد شریک ہوں ، ایک کو نفع ہو باقی نقصان میں رہیں اور کسی کے علم میں نہ ہو کہ کون نقصان میں رہے گا اور کون نفع میں‘‘، اس معاملہ میں بالکل یہی صورتحال ہے ، سب سے پہلے جس شخص کا نام نکلے گا وہ سب سے زیادہ منافع میں رہے گا، اور جس کا نام نہ نکلے وہ سب سے زیادہ نقصان میں رہے گا اور جوا کو اللہ رب العزت نے حرام قرار دیا ہے چاہے کھیل میں ہو چاہے خریدو فروخت میں ، فرمان الہٰی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
المائدة – 90
اے ایمان والو! یہ شراب اور یہ جوا ،یہ بت، اورفال نکالنے کے تیر، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں لہٰذا ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاسکو۔
اسے خرید و فروخت نہیں کہا جاسکتا کیونکہ خریدو فروخت کے لئے شرط ہے کہ چیز کی قیمت متعین ہو ، جبکہ یہاں چیز کی قیمت کا تعین نصیب پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ جب قرعہ اندازی میں نام نکلے گا تو اس وقت تک جتنے پیسے ادا کئے گئے ہوں گے اسی کو قیمت شمار کرلیا جائے گا ، اس طرح چیز کی قیمت نامعلوم ہے اورنامعلوم قیمت پر خریدو فروخت ناجائز ہے۔
اسے خرید و فروخت نہیں کہا جاسکتا کیونکہ خریدو فروخت کے لئے شرط ہے کہ چیز کی قیمت متعین ہو ، جبکہ یہاں چیز کی قیمت کا تعین نصیب پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ جب قرعہ اندازی میں نام نکلے گا تو اس وقت تک جتنے پیسے ادا کئے گئے ہوں گے اسی کو قیمت شمار کرلیا جائے گا ، اس طرح چیز کی قیمت نامعلوم ہے اورنامعلوم قیمت پر خریدو فروخت ناجائز ہے۔
سوال نمبر 4 : میں ایک ٹریول ایجنسی میں ملازم ہوں ہم ایک ٹکٹ مثال کے طور پر کلاس کے حساب سے 20000روپے کی ہوتی ہے جسے ہم 22000روپے میں فروخت کردیتے ہیں کبھی اسکی قیمت کم بھی ہوجاتی ہے جیسے 17000روپے کی ہوجاتی ہے تو کیا میں اسکو بقایا رقم واپس کرنے کا پابند ہوں یا وہ میرے لئے جائز ہوگی ؟(مدثر محمود )
جواب: سائل کے سوال سے محسوس ہوتا ہے کہ ٹکٹ بیچتے وقت ٹکٹ اس کی ملکیت میں نہیں تھا بعد میں اس کی ملکیت میں آیا، یا پھر ٹکٹ بیچنے کے بعد ٹکٹ خریدار کی ملکیت میں نہیں گیا اسی وجہ سے ٹکٹ کی قیمت کم ہونے کا فائڈہ ٹکٹ بیچنے کے بعد بھی ٹکٹ بیچنے والے کو ہی مل رہا ہے۔ شریعت کا اصول ہے کہ کوئی چیز بھی اس وقت تک نہ بیچی جائے جب تک کہ وہ بیچنے والے کی ملکیت میں نہ آجائے، نبیﷺ کا فرمان ہے:
“لا تبع ما ليس عندك”
’’جو چیز تمہارے پاس نہیں اسے مت بیچو‘‘[9]۔
بہرحال اگر سائل کی کیفیت یہ ہے کہ وہ ٹکٹ ادھار میں خرید کر پھر انہیں آگے بیچتا ہے تو اس صورت میں مذکورہ منافع کا حقدار وہی ہے کیونکہ جس کمپنی نے اسے ادھار میں بیچا تھا انہوں نے اپنی مرضی سے ٹکٹ کی قیمت کم کی ہے اس سے اگلے خریدار کا تعلق نہیں ہے، اور اگر سائل کی کیفیت یہ ہے کہ وہ ائیر لائن اور خریدار کے درمیان واسطہ بن رہا ہے اور اس کا کمیشن لے رہا ہے تو ٹکٹ کی قیمت کم ہونے کی صورت میں جو پیسے بچ رہے ہیں وہ انہیں خریدار کو واپس کرنے کا پابند ہے۔ واللہ اعلم
سوال نمبر 5 : اگر ہم کسی کمپنی کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں اور اس کمپنی کے ملازم ہمارے ساتھ کام کرنے کے عوض رشوت لیتے ہیں اور اگر ہم اپنا ناقص مال سپلائی کرنے کے لئے رشوت دیں ان دونوں کا شرعی حکم بیان کردیں ؟
جواب: اس سوال کی دو صورتیں ہیں :
(1)سائل اپنا کام بخوبی انجام دیتا ہے اور کام کا حق ادا کرتا ہے لیکن اگر وہ کمپنی کے ملازمین کو رشوت نہ دے تو اس کا حق مارا جاسکتا ہے اور سائل کے لئے کوئی اور راہ نہیں بچتی تو اس صورت میں اپنا حق بچانے کے لئے اگر سائل مجبوراً کچھ رقم ادا کرتا ہے تو اس کے لئے جائز ہے ، البتہ کمپنی کے ملازمین یا ہر وہ شخص جو اس رشوت خوری میں ملوث ہے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔
(2)سائل اپنا کام بخوبی انجام نہیں دیتا ، ناقص مال سپلائی کرتا ہےاور اس کے ساتھ ساتھ کسی حق والے کا حق مارنے کے لئے کمپنی کے ملازمین کو رشوت دیتا ہے تو رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے اور اس صورت میں سائل کی آمدنی بھی حرام شمار ہوگی۔
سوال نمبر 6: ’’دارالحرب کا سود‘‘ اس سے کیا مراد ہے اور اسکا حکم بھی بیان کردیں ؟(حیدر علی )
جواب: دار لحرب سے مراد وہ شہر یا ملک ہے جہاں شرعی احکامات نافذ نہ ہوں ، جہاں حکمران کافر ہوں اور مسلمانوں کے پاس قوت و طاقت نہ ہو۔ دارالحرب کے سود سے مراد یہ ہے کہ بعض علماء کے ہاں دارلحرب یا دارالکفر میں سودی لین دین جائز ہے، ان کی دلیل یہ حدیث ہے کہ:
لَا رِبا بَينَ المُسلِم وحربي وحربي في دار الحرب
جس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ :”مسلمان اور کافر کے درمیان دار الحرب میں کوئی سود نہیں ہے”[10]، یعنی سودی لین دین جائز ہے۔
راجح بات یہ ہے کہ سودی لین دین کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں چاہے وہ دارالاسلام میں ہو یا دارالکفر میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سود کو مطلقاً حرام قرار دیا ہے اور اسے اللہ اور اللہ کے رسولﷺکے ساتھ کھلا اعلان جنگ قرار دیا ، اور اس میں کسی قسم کا کوئی استثناء نہیں ہے، جہاں تک مذکورہ حدیث کا تعلق ہے تو یہ حدیث ضعیف ہے ، کیونکہ یہ مرسل ہے ، اسے تابعی مکحول براہ راست نبیﷺسے بیان کر رہے ہیں ، اور مرسل حدیث کا شمار ضعیف احادیث میں ہوتا ہے ، اور اگر اس حدیث کو صحیح فرض کر بھی لیا جائے تو اس کا وہ معنی نہیں ہے جو ذکر کیا جاتا ہے بلکہ اس کا ترجمہ اس آیت کی طرح ہوگا :
فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ
البقرة – 197
’’تو مباشرت کرنا ، گناہ کرنا جھگڑا کرنا حج میں نہیں ہے‘‘
یعنی ایسے کام کرنا دوران حج جائز نہیں ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوران حج ایسے کام کر بھی لے تو حرج نہیں ہے، اسی طرح حدیث کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ ” مسلمان کے لئے دارالحرب میں کسی کافر سے بھی سودی لین دین جائز نہیں ہے”۔
اسٹاک ایکسچینج
سوال نمبر 1 : کیا کراچی اسٹاک ایکسچینج میں حلال پروڈکٹ کی شئیرز کی لین دین جائز ہے ؟(رفیع احمد )
سوال نمبر 2 : کیا اسٹاک ایکسچینج کا کاروبار جائز ہے یا ناجائزاور کیا ہم اسے مضاربہ سے تشبیہ دےسکتے ہیں؟(عبدالوہاب )
جواب: اسٹاک ایکسچینج میں شئیرز کی لین دین کا کاروبار جائز ہے جب اس میں چند شرائط کو مد نظر رکھا جائے:
(1)صرف شئیرز کی خرید فروخت ہو ، بانڈز کی خریدو فروخت نہ ہو، کیونکہ بانڈز دراصل اس قرض کی دستاویز ہے جس پر سود ادا کیا جاتا ہے۔ یہ بانڈز مختلف کمپنیوں کی جانب سے اور حکومت کی جانب سے جاری کئے جاتے ہیں۔ ان بانڈز کی خرید وفروخت جائز نہیں کیونکہ یہ بانڈز ایک مخصوص رقم کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کو بیچنا رقم کا رقم کے ساتھ تبادلہ کرنا ہے ، اور رقوم کے تبادلہ میں کمی بیشی سود ہے ، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ بانڈز بذات خود ایک سودی لین دین پر مشتمل دستاویز ہے۔
(2)صرف ان کمپنیز کے شئیرز خریدنا اور بیچنا جائز ہے جن کا کاروبار حلال ہو، کیونکہ شئیرز دراصل کمپنی میں شراکت داری کی نمائندگی کرتے ہیں ، اور ایسی کمپنی جو حرام کاروبار کرتی ہو اس میں شراکت داری حرام ہے ، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ
المائدة – 2
’’گناہ اور زیادتی کے کام پر تعاون نہ کرو‘‘۔
(3)شئیرز کی خریدو فروخت ہاتھوں ہاتھ ہو، نقد ہو ، مستقبل کا سودا نہ کیا جائے ، نہ ہی ادھار کیا جائے ، کیونکہ شئیرز کمپنی میں شراکت داری کی نمائندگی کرتے ہیں اور کمپنی کے اثاثوں میں ٹھوس اثاثہ جات (Fixed Assets) بھی ہوتے ہیں اور نقدی (روپے پیسے ) بھی شامل ہوتے ہیں اس لئےشئیرز کو ایک الگ جنس تصور کرتے ہوئے بیچتے وقت اس کی اصل قیمت سے زیادہ بھی وصول کیا جاسکتا ہے ، لیکن اس میں ادھار جائز نہیں ، کیونکہ رقوم کے تبادلہ میں اگر جنس مختلف ہو ، (یعنی مثلاً روپے کے بدلہ ڈالر ، اسی طرح روپے کے بدلہ شئیرز ) تو اس میں کمی بیشی تو جائز ہے لیکن ادھار جائز نہیں ، نبی ﷺکا فرمان ہے:
الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ، فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ، فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ .
’’ سونے کے بدلہ سونا ، چاندی کے بدلہ چاندی ، جو کے بدلہ جو کھجور کے بدلہ کھجور، نمک کے بدلہ نمک برابر ہو اور ہاتھوں ہاتھ ہو اور جب یہ اجناس مختلف ہوں تو جیسے چاہو بیچو جب یہ ہاتھوں ہاتھ ہوں‘‘۔[11]
لہٰذا شئیرز کی خرید وفروخت میں ادھار درست نہیں ، خاص طور پر اس لئے بھی کہ مستقبل کے سودے کے ذریعہ شئیرز کے لین دین میں جوا بھی کھیلا جاتا ہے، اسی طرح صرف وہی شئیرز بیچے جائیں جن کی ملکیت حاصل ہو ، ایسا نہ کیا جائے کہ پہلے شئیرز کا سودا کرلیا پھر کہیں سے وہ شئیرز لے کر خریدار کو تھمادئیے ، کیونکہ نبیﷺکا فرمان ہے :
“لا تبع ما ليس عندك”
” جس چیز کے تم مالک نہیں ہو وہ مت بیچو “[12]۔
[1] تحریر :شعبہ تحقیق و تصنیف المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹرکراچی [2] صحیح بخاری:کتاب البیوع، 2061 [3] 1سنن دارقطنی 2907 [4] صحیح بخاری: 5144 [5] صحیح بخاری :2287 [6] سنن أبي داؤد :3628 [7] سنن أبي داؤد :3628 [8] المغني لابن قدامة 4/354 [9] أبو داود: باب ماجاء کراھیۃ بیع ما لیس عندک [10] معرفة السنن والآثار :7/47 [11] صحیح مسلم: کتاب المساقاة :باب بيع الصرف و بيع الذهب بالورق نقدا [12] أبو داود:3503 ، والترمذي: 1232