اصلاحِ نفس و معاشرہ

کیا سیدنا علی کو نبی کریم ﷺ نے خلیفہ مقرر فرمایا تھا؟

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آپ پیارے نبی کریم ﷺ کے چچا زاد، داماد، جانثار ساتھی اور اہلِ بیت میں شامل جلیل القدر صحابی ہیں۔ آپ سے محبت ایمان جبکہ بغض نفاق ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ نبی کریم ﷺ کے ارشادات کو اپنے ذاتی فہم اور نظریاتی تعصب کے ساتھ اس طرح پیش کرتے ہیں، جو نہ سیدنا علیؓ کے قول و عمل سے ثابت ہیں، نہ ہی اہل بیت کی دیگر جلیل القدر شخصیات سے، بلکہ امت مسلمہ کے اجماعی عقائد میں بھی ان دعوؤں کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ پھر وہ ان خود ساختہ فضائل کا اقرار حب علیؓ، جبکہ انکار بغض علی قرار دیتے ہیں۔ ہمیں ایسی خود ساختہ تشریحات اور من گھڑت فضائل کو حب علیؓ کا معیار بنانا ہرگز قبول نہیں ہے، کیونکہ محبت وہی معتبر ہے جو قرآن، سنت، صحابہ اور اہل بیت کے فہم سے ثابت ہو، نہ کہ وہ جو محض جذبات یا مفروضات پر قائم ہو۔
یاد رہے! ہم اہلِ سنت والجماعت صرف وہی فضائل تسلیم کرتے ہیں جو مستند ہوں،نہ کہ وہ جو بظاہر محبت علیؓ کے نام پر ہوں، مگر حقیقت میں سیدنا علیؓ پر ہی بہتان ہوں۔ لہٰذا یہ مطالبہ سراسر باطل ہے کہ پہلے جھوٹی فضیلتیں گڑھی جائیں، پھر انہی کو محبت و عقیدت کا معیار قرار دے کر پوری امت پر ان کو تسلیم کرنا لازم قرار دیا جائے۔ چونکہ ہمیں سیدنا علیؓ سے سچی محبت ہے، اس لیے لازم ہے کہ اُن پر جھوٹ باندھنے والوں کے دعوؤں کو رد کریں۔ انہی جھوٹے دعوؤں میں سے ایک مشہور دعویٰ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سیدنا علیؓ کو اپنا صریح جانشین مقرر فرمایا تھا۔ وہ بطور ثبوت اہل سنت کی کتابوں سے نبی کریم ﷺ کی دو احادیث کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
پہلی حدیث یہ کہ پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ میرے لیے تمہاری وہی حیثیت ہے جو موسیٰ کے لیے ہارون کی تھی، بس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا؟”1
ہم کہتے ہیں کہ یقیناً یہ حدیث سیدنا علیؓ کی فضیلت کو ظاہر کرتی ہے، لیکن نہ اس میں خلافت کا کوئی صریح ذکر ہے،اور نہ ہی سیاق و سباق کے اعتبار سے یہ خلافت پر کوئی دلیل بنتی ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان تو سیدنا علیؓ کی دلجوئی، تسلی اور اُن کی فضیلت کو نمایاں کرنے کے لیے تھا، جیسا کہ درج ذیل امور سے واضح ہوتا ہے۔
1- کیا ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے بعد خلیفہ بنے؟ بالاتفاق نہیں! کیونکہ وہ تو ان کی زندگی میں ہی وفات پا گئے تھے، لہذا یہ قیاس درست نہیں۔2

2- نبی کریم ﷺ نے اپنی غیر موجودگی میں (جیسے جنگ، حج یا عمرے کے مواقع پر) کئی صحابہ کرام کو اپنا وقتی نائب اور خلیفہ مقرر فرمایا، مگر کسی نے بھی اسے خلافت کا دعویٰ کرنے کا جواز نہیں بنایا۔3

3- نبی کریم ﷺ نے یہ جملہ اس وقت فرمایا جب تبوک کے موقع پر سیدنا علیؓ کو اہلِ بیت کی دیکھ بال کے لیے مدینہ میں چھوڑا گیا، اور وہ پیچھے رہنے پر افسردہ ہوئے( اور منافقین نے بھی طعنے دیے کہ نبی ﷺ نے انہیں بوجھ سمجھ کر ساتھ نہ لیا) تو یہ الفاظ ان کی دلجوئی اور تسلی کے لیے تھے، جیسا کہ حدیث کے سیاق سے واضح ہے۔4

اسی طرح دوسری دلیل کے طور پر وہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان پیش کرتے ہیں:
“من كنت مولاه فعليٌّ مولاه”
جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علیؓ بھی مولا ہے۔
اسی حدیث کو بنیاد بناکر بعض لوگ 18 ذوالحجہ کے دن کو “عیدِ غدیر خم” کے نام سے مناتے ہیں اور اسے خلافتِ علی رضی اللہ عنہ کے اعلان کا دن قرار دیتے ہیں، یہ دعوی بھی کئی وجود باطل ہے:
1- یہ دعویٰ نہ قرآن و سنت سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عید اور تعزیے کی بدعت 352ھ میں معزالدولہ نے شروع کی، جو اس کے بدعت اور باطل ہونے کےلیے کافی ہے!5

2- اس حدیث کو کو دلیل بناکر سیدنا علی کو خلیفہ بلا فصل ثابت کرنا انتہائی باطل نظریہ ہے؛ کیونکہ یہ الفاظ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے طور پر نہیں، بلکہ بعض صحابہ کرام کی طرف سے پائی جانے والی وقتی ناراضی کو ختم کرنے اور ان کی فضیلت کو ظاہر کرنے کے لیے کہے گئے تھے۔ اگر خلافت مقصود ہوتی تو نبی ﷺ واضح الفاظ میں “خلیفہ” یا “والی” کا ذکر فرماتے۔ واقعہ یہ تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ مالِ غنیمت کے ایک معاملے میں یمن میں نبی کریم ﷺ کی طرف سے امیر مقرر تھے۔ اس دوران کچھ صحابہ، بالخصوص سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعض فیصلوں سے ناراض ہوگئے۔ (حالانکہ سیدنا علی کا فیصلہ درست تھا) خود سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“میں علی رضی اللہ عنہ سے اس قدر ناراض ہو گیا کہ ان سے دل میں بغض سا پیدا ہو گیا تھا۔”
چنانچہ پیارے نبی کریم ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں علی رضی اللہ عنہ سے بغض ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ ﷺ نے انہیں اس عمل سے روکا۔6
تو یہ وہ بنیادی اسباب تھے جس پر نبی ﷺ نے غدیر خم (مکہ سے مدینہ کے راستے میں ایک مقام) میں خطبہ دیا۔
3- یقینا اس خطبے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی غیر معمولی فضیلت اور ان سے بغض رکھنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے کہ جس پر اہل ایمان کا اتفاق ہے۔ لیکن اس روایت کو بنیاد بنا کر سیدنا علی کو خلیفہ بلا فصل ثابت کرنا حدیث کے سیاق وسباق کے ساتھ ساتھ ظاہری الفاظ کے بھی خلاف ہے؛ کیونکہ حدیثِ غدیر میں “مولیٰ” کا مطلب دوست ہے، حاکم نہیں، ورنہ “والی” کہا جاتا۔ مکمل حدیث سے بھی یہی معنی واضح ہوتا ہے۔7

4- اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ واقعی وصی رسول تھے، تو پھر نبی ﷺ کی مرضِ وفات کے وقت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ خلافت کے بارے میں کیوں سوال کرنا چاہتے تھے، اور وہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر؟ کیا وہ غدیرِ خم کے واقعے سے غافل تھے، جس میں وہ خود بھی شریک تھے؟8

5- اگر غدیر کا اعلان سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو یاد نہ رہا ہوتا، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو یاد دلا سکتے تھے، مگر انہوں نے بھی کبھی اسے خلافت کی دلیل نہیں بنایا۔9

6- سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو آخری وقت تک نبی ﷺ سے حق خلافت سے متعلق سوال کرنے سے بھی گریز کرتے تھے، اس اندیشے سے کہ کہیں منع فرما دیا تو ہمیشہ کےلیے محروم ہی نہ کر دیے جائیں۔10

7- اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ وصی رسول تھے تو انہوں نے تینوں خلفاء کی خلافت کیوں قبول کی؟ نیز شیعہ عقیدہ کے مطابق تو وہ مشکل کشا بھی ہیں، یا مشکل کشا کا عقیدہ چھوڑیں یا خلافت کی وصیت کا دعویٰ، دونوں ساتھ نہیں چل سکتے۔

لہذا مذکورہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ:

1- بیان کردہ دونوں روایات کو سیدنا علی کی خلافت پر بطور دلیل پیش کرنا نہ صرف تاریخی اور عقلی دلائل کے خلاف ہے بلکہ صحابۂ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنھم کی شان کے بھی منافی ہے۔

2- سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سیرت، ان کے اقوال اور طرزِ عمل اس بات کی واضح تردید کرتے ہیں کہ وہ خود کو نبی کریم ﷺ کا نامزد خلیفہ سمجھتے تھے۔

3- دعویٰ خلافتِ بلا فصل، نہ صرف غلط ہے بلکہ گمراہی بھی ہے؛ کیونکہ دین کو سمجھنے کا اصل معیار قرآن و سنت اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا فہم ہے، نہ کہ بعد کے سیاسی نظریات یا فرقہ وارانہ تعبیریں۔

4- یقینا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اور اس محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ان کے فضائل کو قرآن و سنت اور صحیح روایات کی روشنی میں سمجھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل اتنے عظیم ہیں کہ ہمیں ان کے لیے جھوٹ گھڑنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ جھوٹے فضائل تو اُن کے لیے تراشے جاتے ہیں جن کے حقیقی فضائل نہ ہوں، لہذا ان پر جھوٹ باندھنا، درحقیقت اُن کی عظمت کے ساتھ نا انصافی ہے اور ان کے مقام کو بڑھانے کے بجائے متنازع بنانے کے مترادف ہے۔

لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہر قسم کی بدعات اور باطل نظریات سے بچتے ہوئے قرآن و سنت کی واضح تعلیمات اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے منھج کو اختیار کریں تاکہ نجات اور فلاح ہمارا مقدر ہو۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

______________________________________________________________________________________________

  1. (صحیح بخاری: 4416)
  2. (دیکھیے، البدایہ والنھایہ ۱؍۳۱۷،۳۱۸)
  3. دیکھئے:طبقات ابن سعد،ص:8 تا135
    جلد:2)
  4. (دیکھیے: صحیح بخاری: 4416)
    سیرت ابن ہشام(صفحہ: 520، جلد:2)
  5. تفصیل کے لیے دیکھیں: الكامل لابن أثير (549/8) البداية لابن كثير (11/ 243، 265)
  6. (صحیح بخاری 4350)
  7. (دیکھیے، سلسلہ احادیث صحیحہ:3271)
  8. (دیکھیے، صحیح بخاری: 4447)
  9. (دیکھیے، صحیح بخاری: 4447)
  10. (دیکھیے، صحیح بخاری: 4447)
ظہیر شریف

اصل نام "خلیق الرحمن بن شریف طاہر" ہے۔ المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کے زیر انتظام چلنے والا معروف تعلیمی ادارہ جامعہ البیان کراچی سے متخرج اور کراچی یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔

Recent Posts

حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان اختلافات کی حقیقت؟

سیدنا علیؓ نے دار الخلافہ کو مدینہ طیبہ سے کہاں منتقل کیا؟کیا سیدنا علیؓ اور…

3 days ago

یزید کو خلیفہ نامزد کرنے پر سیدنا امیر معاویہ ؓ پر اعتراض کیوں؟

کیا سیدنا امیر معاویہ ؓ نے اپنے بیٹے کو خلیفہ نامزد کرکے اسلام کی تاریخ…

3 days ago

شہدائے کربلا کے وہ نام جو چھپائے جاتے ہیں؟

شہدائے کربلا کے چند مخصوص ناموں کو آخر کیوں چھپایا جاتا ہے؟ اہم وجہ جانیے!کربلا…

3 days ago

واقعہ کربلاء کی حقیقت | قاتلین حسینؓ کون؟

یزید کی بیعت کا حکم مدینہ تک کیسے پہنچا؟سیدنا حسینؓ تک جب پیغام پہنچا تو…

3 days ago

صرف شہداء کربلا ہی کا دن کیوں؟

کیا کربلاء تاریخِ اسلام کا سب سے المناک واقعہ ہے؟تاریخِ اسلام میں سب سے مظلومانہ…

3 days ago

دلوں کو فتح کرنے والے چار اخلاقی اصول

اخلاقِ حسنہ، دینِ اسلام کا حسن اور ایک مسلمان کی پہچان ہیں۔ اس آڈیو میں…

3 days ago