کیا پسند کی شادی کرنا جرم ہے؟
نکاح انسانی زندگی کا ایک خوشگوار اور یادگار لمحہ ہے، جو دل کو سکون دینے والا، محبت اور اعتماد پر قائم ایک پاکیزہ رشتے کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں سے نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اور انسان نئی اُمیدوں، خوابوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں یہی خوشی کا لمحہ لڑکی کےلیے خوف دباؤ اور ظلم کا سبب بن جاتا ہے۔ جس وقت وہ محبت اور تحفظ کی اُمید رکھتی ہے، وہی لمحہ اس کے لیے غم اور بے بسی میں ڈھل جاتا ہے، کیونکہ شادی جیسے نازک فیصلے میں نہ اس کی رائے پوچھی جاتی ہے، نہ اُسے کوئی اختیار دیا جاتا ہے۔ والدین اپنی سمجھ اور تجربے سے فیصلے کرتے ہیں، مگر بیٹی کے جذبات، احساسات اور پسند کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکی خود اپنی پسند کا اظہار کر دے تو اُسے غیرت، تربیت یا کردار کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لڑکیاں جو خوشی سے اپنی زندگی شروع کرنا چاہتی ہیں، وہ اسی رشتے سے بوجھ، دباؤ اور بے زاری محسوس کرنے لگتی ہیں۔ اسلام نے اس نازک مرحلے کو بڑی حکمت اور رحمت سے سنوارا ہے۔ شریعت نے نکاح کو صرف ایک رسمی معاملہ نہیں، بلکہ لڑکی اور لڑکے دونوں کی رضامندی پر مبنی ایک مقدس رشتہ قرار دیا ہے۔ اسی لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ پسند کی شادی کوئی جرم نہیں بلکہ یہ لڑکی کا حق ہے جو اسے شریعت نے دیا ہے۔ اگرچہ والدین عموماً اپنی بیٹیوں کےلیے اچھے رشتہ کا انتخاب کرتے ہیں، لیکن ان پر لازم ہے کہ وہ بیٹیوں کی پسند کو نظر انداز ہرگز نہ کریں، اور بیٹیوں کو بھی چاہیے کہ والدین کی رائے کو اہمیت دیں؛ کیونکہ باہمی اعتماد کامیاب رشتے کی بنیاد ہے۔ اس اعتماد کو قائم رکھنے کےلیے والدین اور اولاد دونوں کو درج ذیل باتیں ذہن نشین رکھنی چاہییں:
1- دین اسلام میں پسند کی شادی ہرگز حرام نہیں، بلکہ نکاح کے لیے لڑکی کی رضامندی بنیادی شرط ہے۔ اسلام تو پاکیزہ محبت کا حل نکاح کو قرار دیتا ہے، جب کہ زبردستی کیا گیا نکاح کو باطل قرار دیتا ہے۔1
2- اسلام لڑکی کو پسند کی شادی کی اجازت ضرور دیتا ہے، مگر ولی کی رضامندی کے بغیر بھاگ کر کی گئی شادی کو باطل قرار دیتا ہے۔2
3- نکاح کا بنیادی مقصد زندگی میں سکون، محبت اور باہمی رحمت کا حصول بیان ہوا ہے۔ اور یہ سکون تبھی حاصل ہوتا ہے جب دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں، دلوں میں قبولیت اور رغبت ہو۔ اگر پسندیدگی نہ ہو اور زبردستی ہو، تو نہ دلوں کو سکون ملتا ہے، نہ محبت پنپتی ہے، اور نہ ہی نکاح کا بنیادی مقصد حاصل ہو پاتا ہے۔
4- محبت کی شادی کرنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ شادی تبھی کامیاب ہوتی ہے جب وہ گناہ سے پاک ہو، کیونکہ پاکیزہ جذبے پر مبنی رشتہ زیادہ پائیدار ہوتا ہے۔ جبکہ گناہ بھرے تعلقات پر مبنی شادی کا انجام عموماً برا ہوتا ہے۔
محترم قارئین کرام!
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پسند کی شادی کا معاملہ محض جذبات یا معاشرتی رسم و رواج کا نہیں، بلکہ یہ ایک اہم شرعی اور اخلاقی معاملہ ہے جس کا براہِ راست تعلق فرد، خاندان اور پورے معاشرے سے جڑا ہوتا ہے۔ اسلام نے اس مسئلے میں نہایت واضح اور متوازن رہنمائی دی ہے۔ نہ اندھی محبت کو جائز قرار دیا، نہ ہی ظلم و جبر کو قبول کیا۔ شریعت نے لڑکی اور لڑکے، دونوں کے لیے نکاح کو ایک باعزت حق کے طور پر پیش کیا ہے، جس میں رضامندی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اور نوجوان، دونوں شریعت کی روشنی میں اپنے رویّوں اور فیصلوں کو پرکھیں۔ والدین اپنی اولاد، خصوصاً بیٹیوں کے جذبات اور پسند کو سمجھیں، اور نوجوان اپنے تعلقات کو پاکیزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ والدین کی رائے اور تجربے کی قدر کریں۔ اگر باہمی اعتماد، شریعت کی رہنمائی اور خلوصِ نیت شامل ہو تو پسند کی شادی نہ صرف جائز، بلکہ ایک کامیاب، خوشگوار اور پائیدار رشتہ بن سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نکاح جیسے پاکیزہ رشتے کو اس کے حقیقی وقار کے ساتھ نبھانے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمارے معاشرے کو ظالمانہ رسومات سے پاک کر کے، شریعت کے نور سے منور فرمائے۔ آمین۔
________________________________________________________________________________
"جب جاوید احمد غامدی 'قرآن و سنت' کہتے ہیں تو 'سنت' سے ان کی مراد…
پراویڈنٹ فنڈ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر حکومت کی طرف سے یہ شرط لازمی…
"قرآن پر نقطے اور اعراب کب اور کیوں لگائے گئے؟ کیا یہ نقطے رسول اللہ…
اللہ رب العزت کے دو نام ”العزیز“ اور ”الحکیم“ کے کیا معنی ہیں؟ کیا یہ…
"قرآنِ مجید کی تفسیر کا صحیح مطالعہ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا قرآنِ کریم…