السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دیکھیں! ایک بات ذہن میں رکھیں کہ شریعت اور دین وہ ہے جو نبی ﷺکے زمانے میں نازل ہوا، اللہ رب العالمین نے قرآن ِمجید کے اندر صراحت سے اس بات کو بیان کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری حج یعنی حجۃ الوداع کے موقع پر یہ بات کوڈ کردی تھی كہ :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
المائدۃ – 3
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔
تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ۔اور یہ بات ہمارے لیے باعث فخر ہے کہ اللہ رب العالمین نے جو دین ہمیں دیا ہے وہ ایک مکمل دین ہے۔ اُس میں کسی قسم کی کمی یا اس میں کسی قسم کے اضافہ كی، ایڈیشن کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی اِجازت ہے۔ نہ ہمارے لیے اللہ رب العالمین نے یہ گنجائش چھوڑی ہے کہ ہم اس دین كے اندرکسی بھی قسم کا کوئی بھی عمل، جو میں بہتر سمجھتا ہوں جو آپ بہتر سمجھتے ہوں جو کسی اور كے لیے اُس میں بہتری محسوس ہوتی ہو۔اس دین كے اندر ایڈیشن کرسکے، اس کی اب اجازت نہیں ہے ۔اور اگر یہ دروازہ کھول دیا جاۓ تو پھر یہ دین گذشتہ دینوں کی طرح ،ادیان کی طرح اِس کی شکل مسخ ہوکے رہ جائے گی ،تبدیل ہوکے رہ جاۓ گی اور جو مقصد ہے اصل دین کا وہ فوت ہو جاۓ گا۔ اسی لیے جو بھی ایڈیشن ہے جو بھی نئی چیز ہے اس کو دین کے اندر بدعات کا نام دیا گیا ہے اوربدعات کو گمراہی ۔اور نبی ﷺ نے اپنی ناراضگی کا باعث قرار دیا ہے۔
تو ہمارے ہاں بہت سے اعمال ہیں جو لوگوں نے بہت اچھی نیت کے ساتھ اپنائے، اُن کی نیت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن اُس پر عمل کی جو ایک صورت بنالی گئی ہے ، وہ صورت اور اُس کی کوئی دلیل نبی کریم ﷺ کے دور میں نہیں ملتی ۔جیساکہ آج کل ایک عمل ہمارے زمانےمیں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ اور بہت سے لوگ اِس پر عمل پیرا ہیں ، اُس کوگیارہویں شریف کا نام دیا جاتا ہے اور بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ اس دن کو منایاجاتا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں ہےکہ لوگوں کو کھانا کھلانا، دعوت کرنا ،نیکی کا کام کرنا یہ اچھی بات ہے لیکن یہ پورے اسلامی سال کے جو تین سو ساٹھ دن ہیں آپ کسی بھی دن کرسکتے ہیں تو اِس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، آپ ربیع الثّانی میں کیجئے، آپ ربیع اوّل میں کیجئے، آپ مُحرّم میں کیجئے، آپ صفر میں کیجئے ،ا ٓپ رمضان میں کیجئے ،آپ کسی بھی دن نیکی کا کام کیجئے کوئی حرج کی بات نہیں ہے لیکن کسی نیکی کے کام کو کسی خاص دن کے ساتھ جوڑدینا اِس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے کہ میں یہ عمل فلاں دن ہی کروں گا تو اُس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اور یہ دین بن جائے گا،اب یہاں ہمارے پاس کیا دلیل ہے؟ جو احباب گیارہویں مناتے ہیں اُن کی نیت کیا ہے؟ اُن کا مقصد کیا ہے؟ ۔
تو کہتے ہیں کہ یہ جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی وفات کا دن ہے، اُن کی برسی کا دن ہے، گیارہ ربیع الثّانی خاص طور پہ اِس کے تعلق سے گیارہویں منائی جاتی ہے اب تو ہر مہینے کی تقریباً گیارہویں جو ایک میلاد یا ایک عرس ایک تقریب یا کھانا کھلانا ، خاص طور پر ربیع الثّانی کی گیارہویں تاریخ ۔
یہاں دو باتیں ہیں جن کا آپس میں تعارض آرہا ہے اس کو ہمیں سمجھنے کی ضروت ہے ۔وہ لوگ جو جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی برسی مناتے ہیں اُن کا عقیدہ یہ بھی ہےکہ جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ زندہ بھی ہیں اور مدد بھی کرتے ہیں ۔ اب یہ کیسے ہوگیا کہ وہ ان کی برسی منار ہے ہیں وہ زندہ بھی ہیں اور وہ ہماری مدد بھی کررہے ہیں؟ پھر وہی لوگ جو گیارہویں مناتے ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ گیارہویں ہم ایصالِ ثواب کررہے ہیں جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کو ، اور اُنہی کا عقیدہ یہ ہے کہ جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کےتوسط سے ہمارے اعمال بھی قبول ہوتے ہیں ، جب آپ کے اعمال ان کے توسط سے قبول ہورہے ہیں تو ان کو ایصالِ ثواب کی کیا ضرورت ہے؟ ۔ اصل عقیدہ جو اسلامی عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ وفات پا چکے ہیں اور ہمارے لیے غوث ،غوثِ اعظم ،مدد گار، مشکل کُشا، حاجت روا ، صرف اللہ رب العالمین کی ذات ہے۔
یہ ایک عقیدہ ہمیں درست کرلینا چاہیے دوسرا عقیدہ ایصالِ ثواب کا یقینی طور پر جو ہمارے بڑے بزرگ چاہے وہ ہمارے والدین ہوں یا چاہے وہ ہمارے آباواجداد میں سے ہوں یہ چاہے وہ صلحاء، علماء اور ئمہ میں سے ہوں تو اُن کے ایصالِ ثواب کی صورت اللہ رب العالمین نے رکھی ہے کہ آپ کوئی نیکی کا کام کیجئے، کوئی صدقہ کیجئے، کھانا کھلائیے ، اُن کے نام کاکھلا دیجئے اِس میں حرج نہیں ہے لیکن ِاس کے لیے کوئی دن خاص کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے، جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی اپنی کتاب ہے غُنیہ الطالبین جو نہ تو ہمارے پاکستان میں پڑھی جاتی ہے اور نہ پڑھائی جاتی ہے۔ اگراُسے پڑھا اور پڑھایا جاۓ تو بات سمجھ میں آجائے کہ جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کا عقیدہ کیا تھا۔
یہ ایک عقیدہ ہمیں درست کرلینا چاہیے دوسرا عقیدہ ایصالِ ثواب کا یقینی طور پر جو ہمارے بڑے بزرگ چاہے وہ ہمارے والدین ہوں یا چاہے وہ ہمارے آباواجداد میں سے ہوں یہ چاہے وہ صلحاء، علماء اور آئمہ میں سے ہوں تو اُن کے ایصالِ ثواب کی صورت اللہ رب العالمین نے رکھی ہے کہ آپ کوئی نیکی کا کام کیجئے، کوئی صدقہ کیجئے، کھانا کھلائیے، اُن کے نام کا کھلا دیجئے اِس میں حرج نہیں ہے لیکن ِاس کے لیے کوئی دن خاص کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے، جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی اپنی کتاب ہے غُنیہ الطالبین جو نہ تو ہمارے پاکستان میں پڑھی جاتی ہے اور نہ پڑھائی جاتی ہے۔ اگراُسے پڑھا اور پڑھایا جائے تو بات سمجھ میں آجائے کہ جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کا عقیدہ کیا تھا۔
آپ وہ کتاب پڑھئے ، میں اُن حضرات سے جو گیارہویں شریف مناتے ہیں ان سے کہتا ہوں کہ وہ یہ کتاب پڑھیں۔ اُس میں جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے بدعت کو نمایاں کیا ہے کہ جتنے بھی اعمال ہم اپنی طرف سے بناتے ہیں وہ بدعت ہیں اُن کو نہیں کرنا چاہیے اور اُن سے ہی میرا سوال ہے کہ جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی ولادت ۴۷۰ ہجری میں ہے اور اُن کی وفات۵۶۱ہجری میں ہے۔ ۴۷۰ ہجری سے پہلے گیارہویں کی کوئی دلیل دیجئے اور ۴۷۰ ہجری کے بعد ۵۶۱ ہجری تک نوے سال کی جو عمر پائی اُس میں کوئی گیارہویں کی دلیل دیجئے ۔
جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی جو کتا ب ہے غُنیہ الطالبین آپ اُس میں سے کوئی گیارہویں کی دلیل دیجئے یا جناب عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے کسی کے لیے ایصالِ ثواب کیا ہو اُس کی کوئی دلیل دیجئے، اگر آپ کے نزدیک دلیل اور حجت جناب عبدالقادر رحمہ اللہ ہیں۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے لیے اور جناب عبدالقادر رحمہ اللہ کے لیے بھی دلیل صرف اور صرف قرآن و حدیث ہے اور قرآن و حدیث کے اندر اُس کی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے لہذا آپ کھانا کھلائیے ، آپ ایصالِ ثواب کیجئے لیکن اُس کے لیے کوئی دن خاص کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر ہمارے ہاں ہوتا کیا ہے گیارہویں شریف کے اندر، اگر آپ نے ایصالِ ثواب کرنا ہے توآپ صدقہ کریں، مساکین کو کھلائیں ، ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے کہ خود بناکر خود کھا لیتے ہیں اور اپنے ہی گھروں کے اندر وہ دعوتوں کا اہتمام اور یہ سب معاملات :
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّہ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا
الانسان – 8
اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو۔
تو بہرحال ایصالِ ثواب کہ وہ کھانا کھلاتے ہیں باوجود اس کے کہ اُن کو ضرورت ہوتی ہے مساکین کو بھی ، یتیموں کو بھی اور اور قیدیوں کو بھی ایصالِ ثواب کیجئے کھانا کھلایئے، صدقہ خرات کیجئے لیکن اپنے لیے بھی کیجئے اور اپنے بزرگوں کے لیے بھی کیجئے لیکن کوئی دن خاص کرنا اِس کیلئے دلیل کی ضرورت ہے اور اگر آپ نے کوئی دن خاص کرلیا ہے دلیل نہیں ہے تو یہ بدعت ہے ۔ اللہ رب العالمین سے دُعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ہمیشہ قرآن پر اور سُنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔