عزیز مسلمان بھائی اور بہن !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
رمضان المبارک کا عظمتوں اوربرکتوں والا مہینہ ہم سے رخصت ہوا چاہتا ہے۔ اس مہینے میں ہم سب نے خوب محنت کی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری محنتوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔ دیگر عبادات کی طرح رمضان کی عبادات کی قبولیت کے آثار بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ وہ اس حوالے سے اپنے اندر آنے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لے اگر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے اندر کوئی مثبت اور مستحکم تبدیلی نہیں آئی تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ہماری محنت میں کہیں کوئی خامی رہ گئی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ رمضان کے اختتام کے حوالے سے کچھ نکات ذہن میں رکھیئے۔ دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اس ماہ ِمبارک سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ۔
بنیادی سوالات
«کیا ہم نے اپنے نفسوں کی تربیت کر لی؟ اور کیا ہمیں تقویٰ کی دولت حاصل ہوگئی ؟
«کیا ہم نے اپنی شہوات پر فتح پالی؟ یا ہماری عادتوں اور دل نے ہمیں شکست دیدی؟
«کیا ہم نے اطاعت کرکے اور گناہ سے کنارہ کش ہوکر سکون حاصل کرلیا؟
«کیا ہم نے اس ماہِ مبارک میں صبر کی تعلیم پالی؟
«کیا ہم نے قرآن کریم کی تلاوت کی سعادت حاصل کی اور اس کی آیات پر غور بھی کیا؟
« کیا ہم نے رحمت و مغفرت اور جہنم سے آزادی کا سبب بننے والے اعمال کئے؟
یہ سوالات ہر ایک کو اپنے آپ سے پوچھنے چاہئیے کہ میں نے رمضان سے کیا فائدہ حاصل کیا؟
مقاصدِ رمضان ۔۔۔ پرہیزگاری کا حصول
روزوں کی فرضیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس کا مقصد بھی واضح فرما دیا یعنی:
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
البقرة – 183
تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ ۔
رمضان المبارک کا مہینہ ایمانی درسگاہ میں تربیت کا ایک 30 روزہ دورانیہ ہے جس دوران مسلمان بقیہ گیارہ مہینوں میں نفس و شیطان کے خلاف معرکہ آرائی کے لئے تیاری کرتا ہے۔ ایسا شخص جو اس ماہِ مبارک میں بھی کچھ نہ کر پایا وہ کب اپنی زندگی کو بدلے گا ؟ رمضان المبارک واقعی اپنے آپ کو بدلنے کا مہینہ ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ اس ماہِ مبارک میں ہم اپنی عادات و اطوار جو شریعتِ الہٰی کے خلاف ہوں بدلیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ
الرعد – 11
یقینا اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلیں۔
غور کریں ! کہ ایک عورت نے رسی بٹی، جب مکمل رسی بنالی اور وہ بھی بڑی مضبوط و خوبصورت! پھر بغیر کسی وجہ کے وہ اس رسی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگی اور ایک ایک دھاگہ الگ الگ کردیا ۔ اب لوگ اس عورت کو پگلی نہیں تو اور کیا کہیں گے ؟ یہ اس شخص کی مثال ہے جو رمضان المبارک کے بعد غیبت ،جھوٹ، چغل خوری ، بد گمانی اور دیگر نافرمانیوں کی طرف واپس لوٹتا ہے اور دوبارہ اللہ تعالیٰ کی بغاوت پر اُتر آتا ہے ، دوبارہ گناہوں کے گندے تالاب میں غوطہ لگانا چاہتا ہے ۔ کل تک تو وہ اپنے رب کے سامنے سربسجود تھا آج اس کی ناراضگی پر تُلا کھڑا ہے لیکن شاید اُسے یاد نہیں کہ آنے والے کل (روزِ قیامت) اس نے پھر اسی رب کے حضور لاچار کھڑے ہونا ہے اور نامۂ اعمال میں یہ سب نافرمانیاں بھی تحریر ہونگی۔
عدمِ قبولیت کی نشانیاں
ماہِ رمضان تو شیطان کی قید ، مسلمان کی تربیت اور گناہوں سے بچنے کیلئے دفاعی حصار کی مضبوطی اور استحکام کا مہینہ ہے مگر رمضان کے گزرنے کے بعد ابلیس کی آزادی کے اثرات ہم مسلمانوں پر واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ لہٰذا رمضانی عبادت گذار بننے سے بچیں ۔
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ہمیں صرف رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ یاد آتا ہے اور پھر رمضان المبارک کے بعد !! مؤ من روزے دار کا یہ وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ عید کے دن خوش ہوتا ہے اور رمضان کے روزوں کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ کی تعریف و تحمید کرتا ہے۔ وہ روتا بھی ہے اس ڈر سے کہ کہیں اس کے روزے نمازیں درجہ قبولیت سے رہ نہ جائیں جیسا کہ بعض سلف صالحین کے بارے میں منقول ہے کہ وہ رمضان کے بعد مہینوں روتے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے روزوں کی قبولیت کی دعائیں مانگتے رہتے تھے ۔جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ عید کے دن جس سے ایک دن قبل رمضان کا اختتام ہوا، لہو و لعب کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عید کے روز سے ہی ہم فرض نمازیں ضائع کرنا شروع کردیتے ہیں رمضان المبارک میں نمازِ تروایح جو کہ نوافل ہیں اس کے لئے تو مسجدیں بھرجاتی ہیں لیکن افسوس وہ فرض نماز جس کو قصداً اور شرعی عذر کے بغیر چھوڑنے والا کافر بن جاتا ہے اس کیلئے مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ نیزعید کے دن ہی سے فلمیں ، گانے ، فحاشی کی محفلیں اور تفریح گاہوں میں مرد و زن کے اختلاط کا آغاز شروع ہو جاتا ہے ۔ اس انداز سے ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں !! اور یہ ہوتا ہے ہمارے رمضان کا اختتام ۔۔۔ !! یہ شکر کا طریقہ نہیں اور روزوں کی قبولیت کی علامت بھی نہیں بلکہ یہ رمضان جیسی نعمت کی ناشکری ہے۔ یہ واقعی روزوں اور تراویح کی عدمِ قبولیت کی نشانی ہے ۔
عبادات میں سستی اور عدم دلچسپی کی بنیادی وجوہات اور سدِّ باب
وجہ یہ ہے کہ ہم رمضانی عبادات گذاروں کا اصل مقصد صرف زیادہ ثواب کی جستجو ہوتی ہے یعنی ہماری عبادت محض طمع کی کیفیت کے تحت ہوتی ہے جبکہ اوّلین ترجیح اللہ تعالیٰ کا خوف ہونا چاہیئے اور پھر اس کے بعد طمع رکھے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا:
يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا
السجدة – 16
’’ا ور وہ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں ۔ ‘‘
خوف سے مراد حساب و کتاب کی فکر اور لقائے رب کا احساس ہے ۔ چنانچہ اگر عبادت خوفِ الہٰی کے تحت کی جاتی ہے تو عبادت کی جستجو بقیہ مہینوں میں بھی برقرار رہتی ہے۔ ویسے بھی لازمی فرائض کی ادائیگی اور جوابدہی سے بے خوف رہتے ہوئے اضافی انعام کیلئے محنت ایک قسم کی حماقت بلکہ سرکشی ہے۔ صرف رمضان المبارک میں زیادہ ثواب کے غرض سے پابندِ عبادت انسان کی مثال ایسی ہے جو کسی ایک خاص مہینے میں بونس(Bonus) کی خاطر اضافی محنت کرتا ہے اور دیگر تمام مہینوں میں وہ اپنے لازمی فر ائض بھی ادا نہیں کرتا۔ یقینا ایسے شخص کو سال کے گیارہ مہینے میں فرائض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بونس تو کیا تنخواہ بھی نہیں ملے گی ۔
آخر اس بے خوفی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہم غلاموں (انسانوں ) کو آقائے حقیقی (اللہ ربّ العالمین) کا خوف ، اس کے مرتبے و مقام کی پہچان، اس کی رضا کی اہمیت کا احساس اور اس کے سامنے حاضری کا دلی یقین نہیں ہے۔ یہ احساسِ خوف کس طرح ممکن ہے؟ یہ احساسِ خوف صرف صحیح عقیدۂ توحید کی پہچان ہی سے ممکن ہے ۔ صرف صحیح عقیدۂ توحید ہی انسان کو دیگر خوفِ باطلہ اور اپنے جیسے دیگر غلاموں (انسانوں) کی غلامی اور اس غلامی کے ذیلی اثرات اور مطالبات سے بے خوف اور بے نیاز کرتا ہے اور اکیلے اللہ کی خوشنودی کے حصول اور اس کی ناراضگی سے بچنے کے کاموں کے لئے وقت کی قید سے بالا تر ہوکر چاہے رمضان ہو یا غیر رمضان مستعد رکھتا ہے۔ چنانچہ ہر مسلمان کو چاہئیے کہ وہ دو بنیادی نکات ہمیشہ ذہن میں رکھے :
- اس بات کا زبان سے اقرار اور دل کی گہرائیوں سے یقین کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہے ہر قسم کی عبادت، شکر گذاری اور تعریف کے لائق اور ہمارا خالق و مالک اور پالنے والا ہے ، ہر قسم کا سوال التجا براہِ راست اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہئے ۔1
- ہر قسم کا خوف ، احترام اور عزت صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہے ۔2 ہر قسم کی نذر و نیاز اور دیگر مالی عبادات صرف اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہیں۔3
- چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات میں کوئی بھی حیات یا فوت شدہ انسان بشمول انبیاء علیہم السلام، ائمہ دین رحمہم اللہ ، بزرگانِ دین رحمہم اللہ اور اولیاء اللہ رحمہم اللہ، وغیرہ شامل نہیں یعنی صفاتِ خالق میں شراکت کے اعتبار سے ساری مخلوق بے حیثیت ہے۔4 اللہ تعالیٰ کے ان حقوق اور صفات کی وضاحت قرآن کریم پر غور و فکر سے ہی ممکن ہے چنانچہ عقیدۂ توحید کی سمجھ کے لئے قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا انتہائی اہم ضرورت ہے اور دنیا کے کسی انسان کے افکار و ملفوظات کو کلام اللہ پر فوقیت حاصل نہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام سمیت سارے انسان کلامِ الہٰی کی پیروی کرنے کے پابند ہیں۔5
- اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے عملی نمونہ صرف محمد مصطفی ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے اور کسی بھی انسان بشمول ائمہ دین رحمہم اللہ، اولیاء اللہ رحمہم اللہ، صوفی، بزرگ کے افکار اور طریقوں کو محمد مصطفی ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر مقدم نہیں کیا جا سکتا۔6
الغرض عقیدہ توحید کے بنیادی نکات اور اس کے متعلقات کی عدم پہچان اور معاملات میں اسوہ حسنہ کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے عبادات میں وہ اثر پیدا نہیں ہوتا جو مزاج میں مطلوبہ تبدیلی لانے کے لئے ضروری ہے ۔ اور جس کے اثرات بعد از رمضان بھی باقی رہیں۔
عبادت کی قبولیت کی علامات
روزوں کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ روزے دار اپنی سابقہ کیفیت سے بہتر حالت میں آ جائے یعنی گناہوں سے اجتناب جاری رکھے اور نیکیوں میں آگے آگے جا رہا ہو۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو پرہیزگاروں کے اوصاف سے متصف کرلیا تو آپ نے حقیقی روزے رکھے ، حقیقی قیام اللیل کیا اور اپنے نفس سے حقیقی مجاہدہ کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجئے اور اُسی سے ہمیشہ ثابت قدمی کی دعا مانگتے رہیئے ۔
لائحہ عمل
انسان کو چاہیے کہ وہ مسلسل اپنے رب کا فرمانبردار رہے ، شریعت پر ثابت قدم رہے ، ایسا نہ ہو کہ ایک مہینے میں اللہ کی عبادت کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیا اور دوسرے مہینوں میں عبادت کا راستہ ہی بھول گیا۔ کبھی بڑا نیک اور عبادت گذار بنا پھر رہا ہے اور کبھی عبادت کی جگہ کسی اور غیر شرعی مصروفیت نے لے لی۔ زیادہ ثواب کی جستجو میں رمضان المبارک میں عبادات کی کثرت اور بعد از رمضان لازمی عبادات سے پہلو تہی بہت بڑا جرم ہے ۔ ایسا نہ کریں! بلکہ یہ ذہن میں رکھیں کہ جو رمضان المبارک میں ہمارا رب تھا دوسرے مہینوں میں بھی وہی رب ہے۔ اگر یہ تصور اپنے ذہن میں پختہ کرلیں گے تو ہمیشہ ہی شریعت الہٰی پر کاربند رہیں گے یہاں تک کہ آپ اپنے رب سے جا ملیں گے اور وہ آپ سے بہت خوش ہوگا ۔ محترمی ! یہ حدیث رسول ﷺ ذہن میں رکھیئے ’’ اللہ تعالیٰ کو محبوب ترین وہ عمل ہے جس پر ہمیشگی ہو چاہے وہ عمل تھوڑا ہی ہو۔7
اب اگر رمضان کے فرض روزے ختم ہوگئے تو روزوں سے چھٹی نہیں ہوگئی بلکہ نفلی روزوں کو اپنا شعار بنائیے۔ جیسا کہ شوال کے چھ روزے، یومِ عرفہ اور عاشورہ وغیرہ کے روزے ۔ اسی طرح اگررمضان میں راتوں کا قیام ختم ہوگیا تو قیام اللیل تو اب بھی ہے اس پر پابندی کریں اور تہجد گذار بن جائیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مومنوں کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :
كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ
الذاریات – 17
اور وہ راتوں کو بہت کم سوتے ہیں۔
اسی طرح رمضان المبارک میں آپ نے زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر ادا کر لیا تو مال خرچ کرنے کے لئے اور بھی بہت سے مصارف ہیں۔ یتیموں ، مسکینوں پر خرچ کیجئے۔ اسی طرح تعمیرِ مساجد اور مدارس میں اپنا حصہ ڈالتے رہیئے۔ اسی طرح کیا رمضان میں ہی تلاوتِ قرآنِ مجید فرض ہے باقی دنوں میں قرآن سے اس قدر دوری۔ !! بلکہ ہمیں تو اس کو اپنا مشعلِ راہ بنانا چاہیئے ۔ الغرض رمضان کے بعد کسی بھی نیکی کا دروازہ بند نہیں ہوتا بس آپ کی رغبت اور شوق ہونا چاہئے۔ اگر آپ نوافل پر زور نہیں دے سکتے تو رمضان کے بعد فرض نمازوں سے چھٹی تو مت کریں کم از کم فرض نماز تو جماعت کے ساتھ ادا کرتے رہیں اور گناہوں میں لت پت ہونے سے اپنے آپ کو بچا کے رکھیں۔ اور جس طرح رمضان المبارک میں ہم نے TV،ڈش، کیبل وغیرہ سے اجتناب کیا اسی طرح بقیہ مہینے بھی گناہوں سے اجتناب کریں ایسا نہ ہو کہ ہمیں موت آئے اور ہم گناہوں میں مصروف ہوں ؟؟؟؟
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے روزے قبول فرمائے۔ ہماری نمازوں، قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر تمام اعمال کو شرفِ قبولیت بخشے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر رمضان سے بھرپور نیکیاں سمیٹنے کی توفیق بخشے اور رمضان کے بعد ہماری حالت پہلے سے بہتر ہو۔ آمین ۔
- (ملاحظہ ہو: سورۃ الفاتحہ ۔ آیت 4، سورۃ الاعراف ۔ آیت 29)
- (ملاحظہ ہو : سورۃ البقرۃ ۔ آیت 41، سورۃ النحل ۔ آیت 51، سورۃ الفاطر ۔ آیت 10)
- (ملاحظہ ہو : سورۃ الانعام ۔ آیت 162-163)
- (ملاحظہ ہو : سورۃ شوریٰ ۔ آیت 11)
- (ملاحظہ ہو : سورۃ الانعام ۔ آیت 106)
- (ملاحظہ ہو : سورۃ الاحزاب ۔ آیت 21)
- ( بخاری)