کیا مسح جرابوں کے ساتھ اتر جائےگا؟

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سید الأنبیاء وأشرف المرسلين وعلى آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدین

اگر مسح کے بعد جرابیں اتار دیں تو کیا وہ مسح جرابوں کے ساتھ اتر جائے گا ؟ اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک موزے یا جرابیں اتارنے سے وضو یا مسح نہیں ٹوٹے گا، چنانچہ اگر کسی نے وضو کرتے وقت موزہ یا جراب پر مسح کیا  اور کسی وجہ سے موزہ یا جراب اتارنے کی نوبت آگئی جبکہ اس کا وضو باقی ہے تو اہل علم کے صحیح قول کے مطابق اسے دوبارہ وضو کرنے یا پاؤں دھونے کی ضروت نہیں ہے ۔ سلف  صالحین میں سے امام ابراہیم نخعی ، امام حسن بصری ، امام عطاء،  ابو العالیہ ، قتادہ اور سلیمان بن حرب رحمہم اللہ اسی کے قائل ہیں ۔([1] )

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے ۔([2]   ) اور جدید علماء کرام میں سے علامہ ناصر الدین الألبانی رحمہ اللہ اور علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ بھی اسی قول کی طرف گئے ہیں ۔( [3]  )کیونکہ شرعى دليل سے ثابت شدہ طہارت کسی شرعى دليل كے بغير ختم نہيں ہو سكتى اور جراب يا موزے اتارنے والے كا وضو ٹوٹنے كى كوئى دليل نہيں ملتى ۔ 

البتہ اس کو آئندہ کے لیے مسح کرنا جائز نہیں ہوگا، بشرطیکہ وضو کر کے پہنے۔ مثلا وضو کر کے مسح کیا اور پھر انہیں اتار دیا، اور پھر پہن لیا اور وضو ٹوٹ گیا تو ضروری ہو گا کہ اب وہ اپنے موزے اتارے، مکمل وضو کرے اور پاؤں دھوئے۔ مقصد یہ ہے کہ موزے یا جراب پہننے کے لیے ضروری ہے کہ وضو کر کے پہنے جس میں اس نے اپنے پاؤں دھوئے ہوں۔ اس قول کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :

1۔  شریعت نے جن اشیاء کو نواقض وضو قرار دیا ہے  ان میں سے موزہ یا جراب اتارنے کو نواقض وضو میں شامل نہیں کیا ہے ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

 عن عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللہِﷺالرَّجُلُ الَّذِي يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَجِدُ الشَّيْءَ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏لَا يَنْفَتِلْ أَوْ لَا يَنْصَرِفْ حَتّٰى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا.([4])

حضرت عبادہ بن تمیم  رضی اللہ عنہ اپنے چچا (عبداللہ بن زید) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ایک شخص ہے جسے یہ خیال ہوتا ہے کہ نماز میں کوئی چیز (یعنی ہوا) نکلتی معلوم ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (نماز سے) نہ پھرے یا نہ مڑے، جب تک آواز نہ سنے یا بو نہ پائے۔

یعنی ہوا خارج ہونے كے بارےمیں اگر كسی كو شك ہوکہ پیٹ سے ہوا نكلی ہے یا نہیں تو نبی كریم ﷺ نے فرمایا : کہ اس وقت تك وضو کے لیے نہ جائے جب تک  وہ ہوا کی آواز سن نہ لے یا اس کی بُو نہ پائے ۔مذکورہ حدیث میں موزہ یا جرابیں اتارنے کو ناقض وضو یا بطلان مسح نہیں بتایاگیا ۔

2۔ خلیفہ راشد امیر المؤمنین علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ کا عمل  

وقد ثبت ذلك عن علي رضي الله عنه ولا يعلم له مخالف، فقد روى البيهقي والطحاوي في شرح معاني الآثار بإسناد صحيح واللفظ له عن أبي ظبيان  أنه رأى علياً رضي الله عنه  بال قائماً ثم دعا بماء فتوضأ ومسح على نعليه ثم دخل المسجد فخلع نعليه ثم صلى  ([5])

یعنی  یہ مسئلہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کے عمل سے ثابت  ہے ،  اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عمل کے مخالف کسی کی کوئی بات سامنے نہیں آئی ، امام بیہقی اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار کے اندر یہ روایت صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے، جس میں ابو ظبیان  بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا ، پھر پانی منگوایا ، وضو کیا اور اپنے دونوں جوتوں پر مسح کیا، پھر مسجد میں داخل ہوئے تو اپنے دونوں جوتوں کو اتار دیا اور نماز پڑھائی ۔

مصنف عبد الرزاق کے اندر یہی روایت ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے کہ:

دعا بماء فتوضأ فمسح علی نعلیه ، ثم قام  فنزعهما ، وصلی الظهر ([6])

یعنی علی رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا ، وضو کیا ، اور جوتے پر مسح کیا اور پھر جب اقامت ہوئی تو  انہوں نے اپنے جوتے کو اتار دیا اور ظہر کی نماز پڑھائی  ۔  اس اثر کی سند صحیح ہے ۔

مذکورہ اثر اس بات پر دلالت کر تا ہے کہ موزے یا جراب یا جوتے مسح کرنے کے بعد اسے اتار دینے سے وضو یا مسح نہیں ٹوٹتا۔

3۔  ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ جو موزہ یا جراب اتارنے کو ناقض وضو قرار دیتی ہو ۔ چونکہ وضو عبادت ہے اور عبادات توقیفی ہوتی ہیں اس لیے اس کا باقی رہنا یا ٹوٹنا دلیل پر موقوف ہے اور جب ٹوٹنے کی کوئی دلیل موجود نہیں  تو بات واضح ہے کہ موزہ یا جراب کا اتارنا ناقض وضو یا مسح نہیں ہے ۔

4۔ مسافر اور مقیم کے لیے مسح علی الخفین کی مدت

نبی کریم ﷺ نے مسافر اور مقیم کے لیے مسح علی الخفین کی مدت تفصیل سے بیان کی ہے ۔چنانچہ شریح بن ہانی بیان کرتے ہیں کہ:

: أتيتُ عائشة أسألها عن المسح على الخُفَّين، فقالت: عَلَيْكَ بِابْنِ أبِي طالب، فَسَلْهُ فإِنَّه كان يُسَافِرُ مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فسألناه فقال: جَعَلَ رسول الله ﷺ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ للمسافر، ويوما وليلة للمُقيم ([7])

میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھنے آیا (کہ اس کی مدت کتنی ہے؟) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ابن ابی طالب کے پاس جا کر پوچھو کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ہم نے علی رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ’’رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لیے (موزوں پر مسح کرنے کی مدت)تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر فرمائی ہے۔‘‘ 

یعنی مسافر کے لیے تین دن اور تین رات مسح کرنے کی رخصت ہے اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی اجازت ہے ۔

کیا مقررہ مدت سے زیادہ مدت تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے؟

عام حالات میں مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں مسح کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن  اگر سفری مشقت زیادہ ہو، قافلے سے پیچھے رہ جانے کا اندیشہ ہو یا اگر انہیں روکا جائے تو اس وجہ سے وہ اذیت محسوس کریں، یا کوئی ایسی صورت لاحق ہو جائے کہ واقعتاً جرابوں یا موزوں کو اتارنے اور پھر وضو کرنے میں وقت یقینی ہو تو عمومی معینہ مدت سے زیادہ مدت تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے، یہ حالتِ مجبوری میں ایک رخصت ہے۔ اس رخصت کی دلیل سنن ابن ماجہ کی صحیح حدیث ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس مصر سے آئے، انہوں نے پوچھا: تو نے کب سے یہ موزے نہیں اتارے، انہوں نے جواب دیا: جمعے سے جمعے تک، حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو نے سنت طریقے کو پا لیا ہے۔([8] )

بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فتح دمشق کی خوشخبری لے کر آئے تھے۔ رہا یہ اعتراض کہ مسافر کے لیے تو تین دن رات مسح کرنے کی رخصت ہے جبکہ اس حدیث سے تو ایک ہفتے تک مسح کا جواز بلکہ ضروریات کے تحت مزید ایام کی رخصت ہے، البتہ مذکورہ عذر کی صورت میں زیادہ دیر تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:([9])

5۔ مسح کو باطل کرنے والی چیزیں

نبی کریم ﷺ نے مسح کو باطل کرنے والی چیزوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

 وعن صفوان بن عسال -رضي الله عنه- قال:كان النبي ﷺ يأمرنا إذا كنا سَفْرا ألا ننزع خفافنا ثلاثة أيام ولياليهن إلا من جنابة، ولكن من غائط وبول ونوم (أخرجه النسائي والترمذي واللفظ له، وابن خزيمة وصححاه ۔  ([10])

سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ”ہم تین دن اور تین راتیں موزے نہ اتاریں، الایہ کہ حالت جنابت لاحق ہو جائے۔ البتہ بیت الخلاء جانے کی صورت میں، پیشاب اور نیند کی وجہ سے اتارنے کی ضرورت نہیں۔“

اسے نسائی اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ ترمذی میں منقول روایت کے ہیں۔ ترمذی اور ابن خزیمہ دونوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

یعنی جنابت كی صورت میں موزه اتارنا ہے البتہ پیشاب ، پاخانہ اور سونے كے بعد وضو ٹوٹ جاتا ہے اس كے لیے موزه یا جراب اتارنا نہیں ہے  بلکہ وضو كے بعد ان پر مسح كر لینا  ہی كافی ہے۔

اس حدیث میں نبی كریم ﷺ نے موزه یا جراب كا مسح ٹوٹ  جانے والی چیزوں كو بیان فرمایا ، لیكن موزه یا جراب كےاتارنے کے متعلق وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ ناقض وضو یا ناقض مسح ہے یا نہیں ، اس كا مطلب یہ ہوا کہ نزع الخفین یعنی موزوں یا جرابوں كے اتارنے سے وضو یا مسح نہیں ٹوٹتا ۔ كیونكہ اگر وه ناقض وضو یا ناقض مسح ہوتا تو نبی كریم ﷺ نے موزوں پر مسح كے احكام جتنی تفصیل سے بیان كیا ہے اس میں موزه یا جراب  اتارنے كا حكم بھی ضرور بیان فرماتے جیساکہ قاعدہ ہے کہ :

لا یجوز تأخیر البیان عن وقت الحاجة

 یعنی جس وقت جس مسئلہ کی وضاحت کی لوگوں کو ضرورت ہو اس وقت سے مسئلہ کو تأخیر کرکے بیان کرنا صحیح نہیں ہے ۔

مسح کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے ؟

مسح کی ابتدا  اول حدث سے ہوتی ہے‘مثلا کسی نے ظہر کے وقت وضوء کیا ،پھر موزے یا جراب پہنے ،نماز ِ ظہر پڑھی،پھر اسی وضوء سے عصر کی نماز ادا کی ،پانچ بجے (عصر کے بعد)اس کا وضو ٹوٹ گیا،پھر اس نے وضو کیااور مسح کیا تو اس کے لئے جائز ہے کہ دوسرے دن پانچ بجے شام تک مسح کرے۔ ([11] )

مسح کرنے کا طریقہ:

موزوں پر مسح کا طریقہ یہ ہے کہ مسح کرنے والا اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پانی سےتر کرے اورانگلیوں کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے شروع کرے ،پھر پنڈلی تک مسح کرے،دائیں پاؤں کو دائیں ہاتھ سے اور بائیں ہاتھ سے بائیں پاؤں کا مسح کرے۔( [12]   )

خلاصہ کلام

1۔ موزوں اور جرابوں  پر مسح بلا اختلاف جائز ہے۔ اور موزے یا جرابیں اتارنے سے وضو یا مسح نہیں ٹوٹے گا۔

2۔ شریعت کی تعلیمات کے مطابق  موزے یا جرابیں اتارنا نواقض وضو میں شامل نہیں ہے۔

3۔بیت الخلاء جانے ، پیشاب اور نیند کی وجہ سے موزے یا جرابیں  اتارنے کی ضرورت نہیں البتہ جنابت كی صورت میں موزے یا جرابیں  اتارنے ہیں۔

4۔عام حالات میں مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں مسح کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن بحالت مجبوری معینہ مدت سے زیادہ مدت تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے۔

5۔موزوں پر مسح کی روایات بیان کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعداد اسّی (80) کے لگ بھگ ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔

6۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے۔

7۔ امام کرخی کی رائے ہے کہ مسح خفین کی احادیث تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں۔ انکار کرنے والے کے بارے میں ان کا قول ہے کہ مجھے اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔

8۔ مسح میں مدت کا آغاز وضو ٹوٹنے کے بعد دوسراوضو کرتے وقت کےمسح سے شروع ہو گا، موزے پہننے کے وقت سے نہیں، مثلاً: ایک شخص نماز ظہر کے وقت وضو کر کے موزے پہنتا ہے اور اس کا وضو شام کو جا کر ٹوٹتا ہے تو اس کے لیے آغاز مدت شام کو دوسراوضو کرتے وقت پہلے مسح سے ہو گا ۔

9۔مسح کا طریقہ اس طرح ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پانی سے تر کر کے ان کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے آغاز تک کھینچ لیا جائے۔

10۔ بےوضو ہونے کی صورت میں اگر موزہ یا جراب اتار لیا  تو مسح ٹوٹ جاتا ہے، نیز مسح کیلئے مقررہ  مدت کے خاتمہ کے بعد بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے۔

11۔  ہر قسم کی جراب، خواہ موٹی ہو یا باریک، اس پر مسح جائز ہے۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وأھل بیتہ أجمعین


[1]  الأوسط لابن المنذر : 119/ 1۔

[2]    الاختیارات الفقھیة: ص15۔

[3]    اتمام النصح فی أحکام المسح: 28 ، الشرح الممتع : 264/1۔

[4]   رواه البخاري في كتاب الوضوء (137)ومسلم في كتاب الحيض(361)

[5]   أخرجه عبد الرزاق في مصنفه برقم (784) ، وابن أبي شيبة (1/173) بإسناد صحيح، والبيهقي (1/288) مطولا ، والطحاوي (1/58) ، وقال الألباني ” إسنادهما صحيح على شرط الشيخين ، ینظر : تمام المنة في التعليق على فقه السنة (1/115) ۔

[6]   مصنف عبد الرزاق برقم( 784)

[7]   صحیح مسلم/ الطہارة  (276)

[8]   سنن ابن ماجه، الطھارة، حدیث: 558

[9]  تيسير الفقه الجامع للاختيارات الفقهية: 159/1، والسلسلة الصحيحة للألباني: 239/6)

[10]    الترمذي : الطهارة (96) ، والنسائي : الطهارة (158) ، وابن ماجة : الطهارة وسننها (478).

[11]  المجموع از نووی:4871 ، الأوسط لابن للمنذر :932، مجموع فتاوی ابن باز 29/73، مجموع فتاوی ابن عثیمین 11/160)

[12]  الملخص الفقہی للشیخ صالح الفوزان: 1/43، فتاوی المرأة المسلمة 1/250، والشرح الممتع :1/213)

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ: