اس وقت عموماً مخالف حلقوں میں اہلِ حدیث اورغیر مقلد دو ہم معنی لفظ سمجھے جاتے ہیں اور اہلِ حدیث حضرات بھی اسے گوارا کرتے ہیں لیکن واقعتاً یہ درست نہیں۔
اعتقادی بدعات کے دور میں ایسے لوگ ملتے ہیں کہ وہ حنفی بھی ہیں، معتزلی بھی، شافعی، مالکی حتی کہ حنابلہ بھی کلام اور فلسفہ سے متاثر ہونے کے باوجود فروع میں اپنے ائمہ سے وابستہ رہے۔ اشعریت، ماتریدیت کا بھی ان فرعی مسائل سے بنیادی فرق تھا لیکن اس وقت بھی اہلِ حدیث مروج تقلید سے انحراف کے باوجود کلام کی جدید راہوں سے چنداں متاثر نہیں ہوئے بلکہ یہ لوگ ان جدید اعتقادات اور نئی نئی ایجادی تعبیرات سے برسرِِ پیکار رہے۔
عقائد اور فروع میں ان کی راہ قدیم اور جدید تشریحات اور تصریحات سے مختلف رہی۔ وہ مثبت طور پر اصول اور فروع میں ائمہِ سلف کی روش، ان کے ارشادات اور ان کی تصریحات کے پابند رہے اور منفی طور پر وہ کسی خاص فرد، امام یا مجتہد کی آرا کی جامد اور کلی پابندی نہیں فرماتے تھے اس لیے ہر غیر مقلد کو اہلِ حدیث نہیں کہا جا سکتا البتہ ہر اہلِ حدیث کے لیے ضروری ہے کہ جمود اور تقلید سے الگ رہے۔
ہمارے قریبی دور کے کچھ ایسے افراد اور طبقات ہیں جن کو ترکِ تقلید کے باوجود اہلِ حدیث نہیں کہا جا سکتا بلکہ اہلِ حدیث نے ان کے خلاف تنقید میں قیادت فرمائی اس لیے کہ ان کا تعلق ائمہِ سلف سے قائم نہ رہ سکا اور فہم میں خیر القرون کے طریقے کو ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی آرا کو بعض دفعہ ترجیح دیتے تھے۔
مثلاً:
۔ سر سید احمد خان (بانیِ جامعہ علی گڑھ) بڑے آزاد خیال تھے۔ رفع الیدین اور آمین بالجہر بھی سنا ہے التزام سے کرتے تھے لیکن مستشرقین اورغیر مسلم مشنریوں اور سماجیوں سے مرعوب تھے۔ وہ اسلامی حقائق کی وضاحت میں تقلیدی افکار و نظریات کے پابند تو نہ تھے لیکن معجزات اور بعض دوسرے مسائل میں ان کی آزادی آوارگی کی حد تک تھی اس لیے وہ غیر مقلد تو ہوں گے لیکن وہ اور ان کے ہم خیال ساتھی اہلِ حدیث نہیں تھے۔
غالباً وہ بھی اس لقب کو پسند نہیں کرتے تھے اور اہلِ حدیث نے بھی ان کو کبھی نہیں اپنایا بلکہ ”إشاعۃ السنۃ”، ”ضیاء السنۃ” اور اخبار ”اہلِ حدیث” میں ان کے خیالات پر مسلسل تنقید ہوتی رہی۔ اس سے قبل حضرت مولانا سید محمد صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے اپنی متعدد تالیفات (مثلاً: حدیث الغاشیہ، و حجج الکرامہ) میں بھی موصوف کی گمراہیوں اور کج رویوں پر آگاہ کر دیا تھا۔
۔ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے آپ کو بریلوی حنفی ظاہر کرتے تھے لیکن حقیقت میں وہ حنفی بھی نہ تھے اہلحدیث تو کیا ہوئے البتہ غیر مقلد ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ نہ فقہِ حنفی کے پابند تھے نہ وہ صحابہ اور تابعین، ائمہ سلف کی روش پر چلنا پسند کرتے تھے۔ تنقیدِ حدیث کے متعلق وہ ائمہِ حدیث کی بجائے اپنی ذات کو معیار سمجھتے ہیں اس لیے ترکِ تقلید کے باوجود اہلِ حدیث نہیں ہیں۔
۔ مولوی عبدﷲ چکڑالوی سنا ہے پہلے رسمی حنفی تھے پھر ترکِ تقلید کے ساتھ حدیث کی طرف جھکے. سنا ہے طبیعت میں غلو اور تقشف تھا اور ذہین بھی نہیں تھے۔ ایسے آدمی کے لیے اہلِ حدیث ہونا ممکن ہی نہ تھا چنانچہ وہ اور مولوی حشمت علی، مولوی رمضان گوجرانوالہ، رشید احمد وغیرہم، گجرات، ملتان اور ڈیرہ غازی خاں کے منکرینِ حدیث اور ہمارے ہم عصر غلام احمد پرویز یہ حضرات آوارہ مزاجی کے لحاظ سے صرف غیر مقلد ہو سکتے ہیں بلکہ نفسِ اسلام کی پابندی سے بھی کافی حد تک آزاد ہیں۔ اس لیے وہ احادیث اور ائمہِ سلف کی پابندی خود ہی پسند نہیں کرتے بلکہ قرآن کی مرمت اور ترمیم بھی اپنی خواہش سے فرماتے ہیں۔ ہم بھی انھیں غیر مقلد سمجھنے کے باوجود اہلِ حدیث نہیں سمجھتے۔ انکارِ حدیث کے بعد اہلِ حدیث ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا لیکن انھیں جلد ہی معلوم ہوا کہ ان کا مزاج حدیث پر مطمئن نہیں ہو گا۔
۔ ہمارے پرانے ساتھی حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب لائل پوری جماعتِ اسلامی سے علیحدگی کے بعد ”اہلِ حدیث” سے بھی الگ ہو رہے ہیں اور مروجہ تقلیدی مسالک سے بھی ان کا کچھ نمایاں تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ وہ آج کل تقریباً ملائے اعلیٰ کے قریب تشریف رکھتے ہیں۔ وہ کسی ہائی قسم کے اسلام کی دعوت دیتے ہیں یا دینا چاہتے ہیں جو موجودہ اسلام پسند اور دین پرور جماعتوں میں نظر نہیں آرہا اس لیے وہ اصل اسلام کے لیے آج کل کافی پریشان ہیں۔ ﷲ تعالیٰ ان کی راہنمائی فرمائے۔
ان کے انداز سے معلوم ہوتا ہے وہ اہل حدیث سے کافی چڑے ہوئے ہیں اور اس غریب جماعت سے خاص طور پر آج کل ناراض ہیں لیکن ہمیں ان سے کوئی بحث نہیں البتہ خطرہ ضرور ہے۔ ان کی اس تلقین سے نہ مقلد پیدا ہوں گے نہ اہلِ حدیث البتہ غیر مقلد شاید پیدا ہو جائیں۔ ہماری دانست میں وہ اب بھی اہلِ حدیث ہیں لیکن وہ فرماتے ہیں: ”میں نہیں۔” ہم انھیں مجبور نہیں کرتے البتہ اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ تفریق عنوان سے نہیں ہوتی معنون سے ہوتی ہے اور یہ تفریق غالباً آپ کی موجودہ دعوت میں بھی موجود ہے۔
۔ ہمارے ایک مخلص اور پرانے رفیق گجرات میں تشریف رکھتے ہیں۔ وہ اپنے اسم گرامی کے ساتھ ہمیشہ ”اثری” لکھا کرتے تھے۔ توحید و سنت کی حمایت میں بڑی موثر تقریریں فرماتے تھے۔ اہلِ حدیث مجالس میں بڑے شوق سے شامل ہوتے تھے۔ کچھ عرصے سے انھیں جدت پسندی کا عارضہ ہوا۔
بعض غیر معروف مسائل میں انھوں نے تفرد ظاہر فرمایا۔ عوام نے ان پر خاموشی کا اظہار کیا۔ اب انھوں نے بعض متواتر اور منصوص مسائل میں جمہور ائمہِ اہلِ حدیث اور اکابر اہلِ سنت کے خلاف راہِ ”اجتہاد” اختیار فرمائی اور محنت کر کے حضرتِ مسیح کا باپ تلاش کر لیا۔
احباب نے کئی دفعہ مطالبہ کیا کہ جماعت اس کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرے۔ میں سمجھتا ہوں یہ شخصی تفردات کتنے ہی گمراہ کن کیوں نہ ہوں اس سے کوئی جماعتی مسئلہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ ایسے حضرات غیر مقلد تو کہلا سکتے ہیں لیکن اہلِ حدیث قطعاً نہیں ہو سکتے۔
متعارف اور مسلمہ مسائل سے اگر انحراف کی کبھی ضرورت محسوس ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ کتاب و سنت سے تمسک کیا جائے اور اس کے لیے بھی طریقہِ سلف یعنی صحابہ و تابعین و تبعِ تابعین کا اختیار کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت امام احمد نے اپنے ایک شاگرد کو لکھا تھا:
”أصول السنۃ عندنا التمسک بما کان علیہ أصحاب رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم، والاقتداء بھم وترک البدع… وترک الجلوس مع أھل الأھواء … والسنۃ تفسر القرآن، وھي دلائل القرآن… ومن لم یعرف تفسیر الحدیث ویبلغہ عقلہ، فقد کفی ذلک، وأحکم لہ فعلیہ بالإیمان بہ والتسلیم لہ”1
شاہ ولی ﷲ نے اس جماعت کا تعارف ان لفظوں سے دیا ہے:
”ھم الآخذون في العقیدۃ والعمل جمیعا بما ظھر من الکتاب والسنۃ، وجری علیہ جمھور الصحابۃ والتابعین.” الخ
ہر آدمی جو چاہے اس کا نام ”تحقیق” رکھ لے تو ساری دنیا کے اہلِ بدعت اور ملاحدہ اربابِ تحقیق قرار پائیں گے۔
اپنے رفقاء اور مخالفین دونوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ترکِ تقلید دوسری چیز ہے اور اہلِ حدیث دوسری چیز۔ انھیں مرادف اور ہم معنی نہیں سمجھنا چاہیے۔
( شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ/ تحریک آزادی فکر۔ ص: 223۔224)