بعض مزاج ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں لاجیکل گفتگو اچھی لگتی ہے، لیکن انسان کو چاہیے کہ ایسی گفتگو سے پہلے وہ یہ ضرور دیکھ لے کہ ایسی بات شریعت سے متصادم تو نہیں؟
دوسرا یہ بھی دیکھے کہ عوام الناس میں ایسی بات پھیلانے کا اثر کیا ہوگا ، خاص کر جب بات کا تعلق اللہ تعالی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہو۔
لوگ یہ نہیں جانتے کہ اسماء و صفات میں اسماء کا باب سب سے تنگ اور صفات کا اس سے وسیع اور خبر کا اس سے وسیع ہوتا ہے ، اور خبر کے لیے بھی کن ضوابط کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ آپ ان کے سامنے ” خدائی مزاج ” بے شک خبر کے باب سے کہیں لیکن انھیں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں بے احتیاط ضرورکردیں گے، اگرچہ یہاں باعتبارخبر بھی ” خدائی مزاج ” کہنا درست نہیں۔ مزاج عربی کا لفظ ہے، اسے اللہ کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا۔ مزاج سے جو معنی مراد لیا گیا ہے، اس کے لیے متبادل لفظ موجود ہیں جن کو اللہ کے نبی نے استعمال کیا ہے۔
اگر کہا جائے کہ عوام اس لفظ کو زیادہ سمجھتی ہے تو کہا جائے گا کہ لوگ ” فکر ” اور ” عقل ” کو بھی زیادہ سمجھتے ہیں، جس طرح فکروعقل کی نسبت ذات باری تعالٰی کی طرف درست نہیں ویسے ہی مزاج کی بھی درست نہیں، صرف اس اعتبار سے کہ یہ لوگوں کے لیے سہل ہے کسی چیز کی باری تعالی کی طرف نسبت درست نہیں ٹھہرتی، باقی ضوابط کو مد نظر بھی رکھنا چاہیے۔
خیر تو بات یہ ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ میری بات سے عوام کیا اثر لے گی۔ ہر قسم کا نکتہ جو ذہن میں آئے اسے کہہ نہیں دینا چاہیے،
اگر عقل کی کوئی اولاد ہوتی تو وہ انسان کی کہی ہوئیں باتیں ہوتیں اور من شبہ اباہ فما ظلم !
ڈاکٹر زبیر صاحب سددہ اللہ نے نکتہ آفرینی کرتے ہوے اللہ تعالی اورنبوی مزاج میں فرق کیا ہے اور نبوی مزاج اور خدائی مزاج کی اصطلاح پیش کی ہے!
ڈاکٹر صاحب اصل میں یہ کہنا چاہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت رحم دل تھے، اگر کفار ظلم بھی کرتے تو آپ ان کے لیے رحم دل ہی ثابت ہوئے، حتی کہ منافقین کے لیے بھی خواہش کی کہ ان کی بخشش ہو جائے۔ یہ بات فی نفسہ درست ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے موقع پر عذاب کی بجائے بخشش کی دعا کی۔ دوس قبیلے پر بد دعا کی بجائے ہدایت کی دعا کی- بلکہ آپ کا دل غم میں اتنا مبتلا ہوتا کہ موت کا خدشہ لاحق ہو جاتا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ
[سورۃ الشعراء:3]
ان کے ایمان نہ ﻻنے پر شاید آپ تو اپنی جان کھودیں گے
اور اللہ تعالیٰ تسلی دیتا :
سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
[سورۃ البقرۃ:6]
کافروں کو آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ ﻻئیں گے
تو کوئی شک نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ کی اول خواہش یہ ہوتی کہ اگلا مسلمان ہو جائے چاہے اس کے جرائم کتنے ہی بڑے ہوں، کبھی کبھی اس اس کے بر خلاف بھی ہوا ، جیسے حج کے موقع پر کچھ کو ہر صورت مارنے کا حکم دیا اور بد دعا کی رعل وغیرہ پر۔
اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کیوں تھے ؟؟؟ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے اور آپ امت کے لیے والد سے بھی ذیادہ قربت والے ہیں۔ تو اس رحم دلی اور شفقت کے بغیر جس مقصد کے لیے آپ کو بھیجا گیا وہ پورا ہی نہیں ہونے والا تھا۔ اور یوں بھی یہ قابل تعریف اوصاف ہیں۔
لیکن ان کی تعریف تب مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ جذبات حکم ربانی کے آگے فورا سر تسلیم خم کر دیں، اور یہ انبیاء کی ابتلاء میں سے ہوتا ہے اور اس پر ان کی تعریف کی جاتی ہے کیوں کہ یہ کمال اطاعت سے ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ ابتلاء میں قاعدہ یہ ہے کہ یہ جذبات کے مطابق ہوتی ہے اسی لیے غیر اولی الاربہ سے حجاب نہیں۔
اب یہاں چند باتیں سمجھنے کی ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے رحم دل کیوں تھے ؟؟ اس کا جواب اوپر والی بات سے آپ سمجھ چکے ہوں گے۔
دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مزاج خود سے بنایا گیا تھا؟ نہیں، بلکہ باری تعالی کا عطا کردہ تھا، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو کہا تھا کہ حلم و انات تم میں اللہ کی پیدا کردہ ہے نہ کہ تمھاری اپنی بنائی ہوئی۔
تیسری بات یہ کہ مخلوق میں موجود ساری رحمت اللہ ہی کی عطا کردہ ہے اور خود اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، جیسے فرمایا : رحمتی سبقت غضبی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والے تھے۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ “نبوی مزاج” اور “خدائی مزاج” ایک ہے اور اس کی مراد یہ ہو کہ دونوں کی رحمت غضب پر سبقت لے جا چکی ہے تو اس کی بات شرعا بھی اور قدرا بھی ڈاکٹر صاحب کی بات کی بنسبت زیادہ معقول ہوگی (لیکن اس کی بات میں بھی اسی بے احتیاطی اور اجمال کی وجہ سے ہم اسے ایسا کہنے سے منع کریں گے)
اللہ تعالیٰ اس غضب پر سبقت لے جانی والی رحمت کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جذبہ رحمت کے مطابق پیش آمدہ عمل سے روک دیتا ہے، جیسے رئیس المنافقین کے جنازے سے روک دیا اور بعض قریبی رشتے داروں کے لیے طلب مغفرت سے روک دیا۔
اب اللہ تعالیٰ ایسا کیوں کرتا ہے ؟؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ عذاب و عقاب کا مالک بھی وہ ہے اور نیکی و گناہ کے حجم کے پیمانے بھی اسی کے پاس ہیں۔ اسی لیے یوم الدین کی ملکیت کی نسبت خاص طور پر اس کہ طرف کی جاتی ہے۔ جیسے فرمایا: مالک یوم الدین۔
اب انسان ظاہر کے مطابق دیکھتا ہے جب کہ اللہ گناہ کے جرم اور اس کی بشاعت اور انسان میں اس کی مضبوطی اور دیگر بہت سے ان مخفی باتوں کو جانتا ہے جو ہم نہیں جانتے تو یہاں اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے علم کی بات ہے۔
اب ڈاکٹر صاحب عوام کو بتانا تو یہ بات چاہتے تھے لیکن نکتہ آفرینی کے چکر میں ڈھنگ سے کہہ نہیں پائے اور الٹا اپنی بات کا دفاع کر رہے ہیں اور سمجھانے والوں کو کہہ رہے ہیں کہ انھیں سمجھ نہیں، اور اللہ کی ذات میں تکبر و بڑائی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات میں تواضع ہے الی آخر کلامہ – سدد اللہ خطاہ ووفقہ –
بھئی سمجھانے والوں میں سے ایک طبقہ تو یقینا اسماء و صفات کے مسائل سے جاہل نہیں ہے، در حقیقت آپ ان کی وجہ نقد کو سمجھ نہیں پا رہے یا تجاھل برت رہے ہیں!
کیوں کہ آپ کی بات سے مترشح یہ ہوتا ہے کہ یہ مزاجوں کا فرق ہے !! بھئی یہ ہے ہی اس سے الگ مسئلہ۔۔۔!پھر یہ شرع کا اختلاف نہیں! اور شرع اور قدر کا اختلاف بھی نہیں! بلکہ رحم نبوی کا اظہار ہے جس کو قدر الہی کونا اور شرع ربانی حکما کہیں ٹھہر جانے کو کہہ دیتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر جھکا دیتے ہیں
اب ہمارے لیے کیا ہے ؟؟ ہمارے لیے شرع کی اتباع ہے اور خلق نبی کی اتباع ہے ! اور ان میں تضاد ہے ہی نہیں۔
آپ اگر کہنا چاہتے تھے کہ لوگوں پر رحم کریں آخرت کا حکم نہ لگائیں یہ رب کے پاس ہے تو یہ سادہ سی بات الجھنوں کے بغیر بھی ممکن تھی!
اور اگر کہنا چاہتے تھے کہ جب تک استغفار سے ممانعت والا حکم واضح طور پر کسی پر لاگو نہ ہو رہا ہو تب تک استغفار کرنا چاہیے تو یہ بھی سادہ سی بات الجھنوں کے ںغیر ممکن تھی!۔۔۔۔ اور قول بلیغ ہوتا بھی یہی ہے!