تحریر: حافظ محمد یونس اثری حفظہ اللہ
پاکستانی نژاد ایک عورت شرمین عبید نے پاکستانی عورت پر کئے جانے والےمظالم پر ایک ڈاکیومینٹری بنائی ، جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستان میں کس حد تک خواتین پر ظلم کیا جارہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس ڈاکیو مینٹری پر بھی سولات اٹھ رہے ہیں کہ یہ چوری کی گئی ہے۔ یہ ڈاکیو مینٹری بنام A Girl in the River: The Price of Forgiveness بنائی گئی۔
فلم میکر کی آفیشل ویب سائٹ پر اس فلم کے تعارف پر مبنی جو تحریر موجود ہے، اس سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
More than 1000 women are killed in the name of “honor” in Pakistan every year. “A Girl in the River: The Price of Forgiveness” follows the story of a rare survivor who falls in love and lives to tell the tale.
یعنی : پاکستان میں ہر سال غیرت کے نام پر ہزاروں خواتین قتل کردی جاتی ہیں۔
“A Girl in the River: The Price of Forgiveness”
کی کہانی ایسے کردار کے گرد گھومتی ہے جو ایسے حادثہ کے بعد اتفاقی طور پر بچ گئی ،جو محبت میں ڈوب گئی اور اپنی آپ بیتی سنانے کے لئے زندہ رہ گئی۔
آسکر کی آفیشل ویب سائٹ اس فلم کاخلاصہ کچھ یوں بتاتی ہے:
Every year, more than 1,000 girls and women are the victims of religiously motivated honor killings in Pakistan, especially in rural areas. Eighteen-year-old Saba, who fell in love and eloped, was targeted by her father and uncle but survived to tell her story.
یعنی :پاکستان میں ہر سال ہزار سے زائد لڑکیاں اور عورتیں مذہبی طور پر ابھاری گئی غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔بالخصوص دیہاتی علاقوں میں اٹھارہ سالہ صبا جو پیار میں گرفتار ہوکر بھاگ گئی، یہ لڑکی اپنے باپ اور دیگر چچا وغیرہ کے ہاتھوں نشانہ بنائی گئی مگریہ کہانی بتانے کے لئے بچ گئی۔
بہرحال فلم میکر جس فلم پر دوسری مرتبہ آسکر ایوارڈ کی مستحق یا مرتکب ٹھہریں، اس فلم کے آسکر ایوارڈ کے لئےنامزد(Nominate) ہونے کے بعد اس کی رونمائی (First Screening) کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب نے انہیں خصوصی طور پر مبارکباد دیتے ہوئے وذیر اعظم ہاؤس میں دعوت دی۔ اور فلم میکر شرمین عبید صاحبہ وہاں گئیں بھی اور اس فلم کی تقریب رونمائی بھی ہوئی اور اسی فلم کے جو اثرات مرتب ہوئےوہ یہ کہ پنجاب اسمبلی نے ایک نیاقانون بھی پاس کردیا گویا کہ اس فلم کے منظر عام پر آنے سے پہلے میاں صاحبان اس ظلم سے کلی طور پر بے خبر تھے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر ظلم یا جرم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے پہلے ایسی کوئی فلم بنائی جائے اور پھر آسکر ایوارڈ کے لئے نامزد(Nominate)کروائی جائے، اورپھر کہیں جاکر قومی یا کسی صوبے کی اسمبلی کو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ یہ واقعتاً ایسا مسئلہ ہے جس پر توجہ دینی چاہئے۔
بہرحال جہاں تک اس فلم کا معاملہ ہے تو اس کے تعارف سے واضح ہوچکا ہے ، اس میں جس تہذیب کا پرزور دفاع کیا جارہاہےوہ یہ ہے کہ نئی نسل بے راہ روی کی طرف بڑھے۔ پھر مزید یہ کہ چونکہ اسے دین اسلام قبول نہیں کرتا ، اس لئے کھلے لفظوں میں مذہبیت کی بھی دھجیاں اڑانے کی کوشش کی جائے۔ جس ذہنیت کی بنیاد پر یہاں مذہبیت پر حملہ ہورہا ہے، یہ وہی ذہنیت ہے جس سوچ کی بنیاد اسلامی سزاؤں بالخصوص شادی شدہ زانی کی سزا رجم کو موضوع طعن بنایاگیا اور یہ وہی سوچ ہے جس کی بنیاد پر مشرف دور میں حقوق نسواں بل کے نام پر مرد و عورت کے باہم بالرضا تعلقات کو جرم نہ سمجھنے کی سفارش کی گئی ، اسی قانون کے نتائج میں سے ہے کہ آج کھلے عام مرد و عورت بغیر کسی خوف و ڈر کے گھومتے ہیں کہ انہیں کسی قانونی ادارےکا اب کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ گھر والوں یا دین کی فطری غیرت کا ایک ڈر اور خوف موجود رہتا ہے،اور یہ فلم بھی اسی خوف کی کمی کی طرف قدم بڑھانے کی پہلی سیڑھی نظر آتی ہے۔ خیر!! ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اس فلم کا ٹائیٹل اور مقصود یہ ہوتا کہ ہماری نئی نسل قطعاً ایسے تعلقات کا شکار ہوکر اپنی دینی تعلیمات اور والدین کی بے عزتی اور خفت کا سامان نہ بنیں،الٹا اس فلم کے ذریعے سے ایسی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کو یہ شہ دی گئی کہ یہ عمل قطعاً ان کے والدین کی بے عزتی اور خفت کا سامان نہیں ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے والدین کو بھی اولاد کا قتل یا ایسی سزا جو انہیں زخمی کرڈالے اس کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن اسلام اولاد کو بھی تو ایسے قبیح اعمال سے روکتا ہے۔ اور پھر اس قسم کی کسی بڑی غلطی جو زنا کی صورت میں منظر عام پر آتی ہے، اس پر حد بھی متعین کردی گئی ہے۔ اس اسلامی قانون کی اور اسلامی تربیت کی روشنی میں کون سے والدین چاہیں گے کہ ان کی اولاد ایسے گناہوں کے مرتکب ہوجائیں۔
اگر فلم میکر کا مقصد ایسے جرائم کی سرکوبی ہے تو پھر عورت کیلئے سب سے بڑا جرم اس پر جنسی تشدد ہے ، اس حوالے سے کو ئی ڈاکیو مینٹری بنائی جاتی مثلاً
یورپ میں جذباتی جرم(crime of passion ) کے سبب تیس فیصد عورتیں جو سابقہ شوہر یا بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں، یہ فلم ان پر بنائی جاتی؟؟!
ہر دو منٹ میں ایک عورت امریکہ میں جنسی تشدد(Sexual violence) کا شکار ہوتی ہے، کاش کہ اس پر کوئی ڈاکیو مینٹری بنائی جاتی؟؟!
انڈیا میں ہر 20 منٹ میں ایک عورت جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ اس پر ڈاکیومینٹری بنائی جاتی؟؟![2]
بلکہ 2011 میں انڈیا میں جنسی تشدد کے 24,206 واقعات رپورٹ ہوئے، اور یو ایس میں 83,425جنسی تشدد کے واقعات رپورٹ کئے گئے۔[3]گر اس پر کوئی ڈاکیو مینٹری نہیں بنائی گئی؟؟
انڈیا میں جنسی تشدد (Sexual violence)جس عروج پر ہے کاش کہ اس حوالے سے کوئی ڈاکیو مینٹری بنائی جاتی۔ مثال کے طور پر ئی دہلی انڈیا میں 23 سالہ ایک میڈیکل کی اسٹوڈنٹ لڑکی جو اجتماعی زیادتی (gang rape ) کا شکار ہوئی اور مرگئی ، کاش کہ اس پر کوئی ڈاکیو مینٹری بنائی جاتی۔2012ء میں نئی دہلی کو انڈیا کا “rape capital” قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اس پر کوئی ڈاکیو مینٹری !!
واشنگٹن پوسٹ ویب سائٹ پر میں نے ایک آرٹیکل دیکھا جوکہOlga Khazan and Rama Lakshmi کی طرف سے لکھا گیا تھا، جس میں انڈیا میں جنسی تشدد کے کثرت سے بڑھتے ہوئے واقعات کی 10 وجوہات بتائی گئی تھی ۔ان میں سے ایک وجہ تو وہی ہے جو آج ماڈرن کلچر کے نام پرملکِ پاکستان کے کلچر کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ آئیے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
Blaming provocative clothing: ‘There’s a tendency to assume the victims of sexual violence somehow brought it on themselves. In a 1996 survey of judges in India, 68 percent of the respondents said that provocative clothing is an invitation to rape. In response to the recent gang-rape incident, a legislator in Rajasthan suggested banning skirts as a uniform for girls in private schools, citing it as the reason for increased cases of sexual harassment
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ عورتوں کا غیر مناسب لباس پہننا جنسی تشدد کے اسباب میں سے بڑا سبب ہے، حتی کہ 1996 میں کے ججز کے ایک سروے کے مطابق 68 فیصدرائے دہندگان یہ کہتے ہیں کہ اشتعال انگیز کپڑے جنسی تشدد کے لئے ابھارتے ہیں۔حتی کہ راجستھان کے حکمران نے یہ مشورہ دیا کہ لڑکیوں کے لئے ممنوع قسم کے اسکرٹ کو بطور یونیفارم کے استعمال کرنا جنسی تشدد کے واقعات کے بڑھنے کا سبب ہے۔
کاش عورت کے صحیح تحفظ کی آوازبلند کی جاتی ، اور اس کی سب سے پہلی کڑی یہی ہوتی کہ عورت کے ملبوسات کے حوالے سے اسلامی اور مشرقی تہذیب کو برقرار رکھا جاتا ،جس میں عورت کی حیثیت اور مقام بھی برقرار ہے اور اسکی عزت و عصمت کی ضمانت بھی موجود ہے۔
اسی آرٹیکل میں ایک اور وجہ یہ بھی بیان کی گئی کہ :
Acceptance of domestic violence:…. A 2012 report by UNICEF found that 57 percent of Indian boys and 53 percent of girls between the ages of 15 and 19 think wife-beating is justified. A recent national family-health survey also reported that a sizable percentage of women blame themselves for beatings by their husbands.[4]
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسے جرائم کے بڑھنے کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خواتین کی طرف سے گھریلو تشدد کو قبول کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 15 سال سے 19 سال کی عمر کے 57 فیصد لڑکے اور 53 فیصد لڑکیاں بیوی کو مارنا صحیح سمجھتے ہیں۔ اور ایک سروے کے مطابق عورتوں کی بڑی تعداد شوہروں کی طرف سے مارے جانے پر خود کو قصوروار سمجھتی ہیں۔
ذرا دیکھیں بالکل یہی موضوع سخن ملک پاکستان کے تازہ تحفظ نسواں بل کا ہے جس کی وجہ یہ ڈاکیو مینٹری ہے ، لیکن کیا یہ ڈاکیومینٹری انڈیا کی ان عورتوں کے بارے میں بنائی گئی؟؟
بہرحال مختصر یہ کہ ایک پاکستانی نژاد نے ایک بے سروپا ڈاکیو مینٹری بناڈالی اور جس پر آسکر ایوارڈ اور یقیناً ڈالر بھی کھرے کرلئے ہوں گے۔افسوس کہ مذکورہ بالا ساری تفصیل کو سامنے رکھنے کے بعد اس ڈاکیو مینٹری کی مذمت کی جاتی ، مگر ہمارے وزیراعظم صاحب نے انہیں خصوصی طور پر وزیراعظم ہاؤس مدعو کیا، اور پھر اسی ڈاکیو مینٹری ہی کے اثرات میں سے پنجاب اسمبلی میں ایک بل جوکہ اگر چہ 25 مئی 2015ء میں پیش کیا گیا تھا،جسے تحفظ نسواں بل (Women Protection Bill) کا نام دیا گیا ،اس فلم کے آسکر ایوارڈ ملنے کے دنوں میں مرد ارکان اسمبلی کی کثیر تعداد کی عدم موجودگی میں منظور کروالیا گیا ، اور پنجاب گورنمنٹ اور وزیراعظم صاحب نے اس پر مغرب سے خوب داد بھی وصول کی۔
تحفظ نسواں بل میں موجود خرابیاں :
جس ڈاکیومینٹری پر یہ بل پیش کیا گیا اس کی حیثیت کو تو ہم جان ہی چکے ہیں، اب ذرابات اس بل کی بھی ہوجائے، کیا واقعتاً اس میں عورت کا تحفظ ہے یا اس سے اس کی خاندانی زندگی ہی خطرے میں پڑجائے گی ،نیز یہ بھی ملاحظہ کریں کہ شرعی طور پر اس کی حیثیت کیا ہے۔
پہلی خرابی : خاندانی نظام خطرے میں
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ مغرب کا خاندانی نظام اس وقت مکمل طور پر خرابی کا شکار ہے۔ مغرب میں کیا شوہر تو کیا بیوی اور کیا دیگر رشتے دارحتی کہ والدین !!مغرب میں بالغ لڑکے یا لڑکی کو کلی طور پر روکنے اور کنٹرول کرنے کی اجازت والدین تک کو بھی نہیں اور جب چاہے کوئی لڑکا یا لڑکی اپنے ہی والد یا والدہ کے خلاف رپٹ درج کروا سکتا ہے۔ جب کہ اسلام نے ہر طور خاندانی نظام کی حفاظت کی مکمل ضمانت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زنا، عریانیت ، عورت کا بیک وقت ایک سے زائد شادیاں کرنا، جیسے دیگر کئی پہلو کی حرمت کی وجوہات میں سے ایک یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے خاندانی نظام کو تحفظ دیا گیا ہے۔ اور نکاح کے معاملات، وراثت کے معاملات، رضاعت کے معاملات، ولد الزنا، والد کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنا کہ فلاں میرا والد ہے، لے پالک، محرمات وغیرہ کے حوالے سے بھی تفصیلی احکامات یہی سمجھاتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کس حد تک خاندانی نظام کا تحفظ چاہتی ہے۔
نیز مشرقی تہذیب بھی خاندانی اعتبار سے قدرے مہذب ہے۔ بحمداللہ مشرقی اورخصوصاً مسلم ممالک کا خاندانی نظام ان تمام خرابیوں سے محفوظ ہے ، جو خرابیاں یورپی ممالک کے خاندانی نظاموں میں پائی جاتی ہیں۔
مزید یہ کہ شریعت خاندانی پرائیویسی کو اس حد تک حساس اور پردہ میں رکھنا چاہتی ہے کہ کسی کو چلتے ہوئے کسی کے گھر میں جھانکنے کی اجازت نہیں۔ بلکہ اگر کوئی جھانک لے اور گھر والا اس کی آنکھ پھوڑ دے تو شریعت اس پر کوئی سزا نہیں دیتی ۔جیسا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صاحب نے نبی کریمﷺکے گھر کی دیوارکےایک سوراخ سے گھر کےاندردیکھا،نبیﷺاس وقت اپناسر کنگھےسے کھجلا رہے تھے۔ پھر آپ ﷺنےفرمایا کہ: اگرمجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہوتو میں تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا، اجازت لینا تو اسی وجہ سے ہے کہ آدمی کی نظر ( کسی کے)سترپرنہ پڑے ۔ [5]
لہذا اس بل سے خاندانی نظام کی پرائیویسی خطرے میں ہے۔ اور ایسی خطرے میں ہے کہ بات بات پر کورٹ تک معاملہ پہنچنے کی نوبت بنائی جارہی ہے۔
دوسری خرابی :عورت کی برتری
اس بل میں ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ اس میں واضح طور پر عورت کی برتری نظر آتی ہے، تھانے میں موجود وومن پروٹیکشن آفیسر(جسے بل کی رو سے خصوصی طور پر اسی قسم کے معاملات کے لئے مقرر کیا جائے گا) کو کسی بھی وقت عورت کال کرسکتی ہے۔ اور شوہر کے خلاف شکایت کرسکتی ہے۔ جبکہ شریعت اس حوالے سے تمام تر ذمہ داری مرد کو دیتی ہے حتی کہ اسے سمجھاتی ہے کہ عورت ٹیڑھی پسلی کی ہے اگر اسے سیدھا کروگے تو توڑ بیٹھو گے۔ جیساکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا ، عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا ، کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتاہے۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے وہ یونہی چھوڑدے گا تو پھر ٹیڑھی رہ جائے گی۔ (لیکن ٹوٹے گی نہیں ) پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو ۔[6]
اس حدیث میں بالکل واضح طور پر عورت کے مزاج اور اس کی عادت کو بیان کیا گیا ہے اور مرد کو حکم دیا گیا ہے بات بات پر اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اس کی بعض عادات اور معاملات کو برداشت بھی کیا جائے۔ اور صبر کیا جائے۔
تیسری خرابی : مسئلے کے تدارک کے لئے غلط سمت کا تعین
اس بل کے آرٹیکل 7 جو پروٹیکشن آرڈر پر مبنی ہے۔ اس کی پہلی شق ملاحظہ فرمائیں:
(a) not to have any communication with the agrrived person with or without exceptions;
یعنی : مرد کو عورت سے کسی قسم کی گفتگو کی اجازت نہیں۔
یہ بہت بڑی خرابی ہے کہ باہم گفتگو کی اجازت نہ دینابات کوبگاڑنے کے مترادف ہے۔ شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق مرد و عورت کو بذات خود آپس میں مسئلہ حل کرنا چاہئے۔ [7]
چوتھی خرابی: گھر سے دور رہے
اسی آرٹیکل کی دوسری شق میں ہے :
(b) stay away from the aggrieved person,with or without exceptions;
(c) stay at such distace from the aggrived person as may, keeping in view the peculiar and circumstances of the case , be determined by the court;
(e) move out of the house;
یعنی : مرد عورت سے دور رہے گا۔
اور دوری کی صورت کیا ہوسکتی ہے گھر سے باہر یا شہر سے۔ یہ فیصلہ کورٹ کرے گی۔ اور تمام متعلقہ افراد سےبھی وہ دور رہے گا ۔
گھر سے باہر رہے گا۔
یہ شقیں سرارسر خلاف شریعت ہیں ۔ بلکہ کئی اعتبار سے یہ شریعت کے خلاف ہیں۔جن کی وضاحت درج ذیل ہے۔
(1) مرد کو گھر سے باہر نکالنا حق ملکیت کے منافی:
یہ مرد کا حق ملکیت ہے جواسے اسلام بھی دیتا ہے اور قانون بھی۔ اس کے خلاف ہے۔
(2)مرد کو گھر سے باہر نکالنا حقِ زوجیت کے منافی:
شریعت اسلامیہ میں میاں بیوی کے درمیان افتراق و دوری کو قطعاً مستحسن نہیں سمجھا جاتا ، حتی کہ دو رجعی طلاقوں کے دوران بھی عورت مرد ہی کے گھر میں رہے گی ان کے درمیان دوری کا کوئی جواز نہیں ، اور اس کے تمام اخراجات مرد ہی کے ذمے ہوتے ہیں۔ تاکہ رجعی طلاق کے باوجود گھر آباد ہوجائے۔ لیکن یہاں تو شریعت اسلامیہ میں رجعی طلاق کے بعد جو کام جائز نہیں وہ طلاق سے کہیں پہلے ہورہاہے اور وہ بھی اس طور پر کہ مرد کو نکال باہر کیا جائے۔ فیا للعجب
(3) کفالت کے مسائل :
گھر کا کفیل تو مرد ہی ہے جب مرد ہی گھر سے دور کردیا جائے اور جب گھر کا سربراہ دو دن گھر سے باہر ہو تو گھر اور بچوں کا پرسانِ حال کون ہوگا؟ ؟ یقیناً پرسانِ حال تو کوئی ہو یا نہ ہو البتہ نہ جانے کتنے شرپسند ایسے کسی موقع کی تاک میں بیٹھے ہوں گے تاکہ گھر میں موجود قیمتی سامان کی لوٹ کھسوٹ آسان ہوجائے۔ نیز گھر کے بیمار یا بوڑھوں کا کون خیال رکھنے والا ہوگا؟؟
(4) نفرت میں اضافہ :
جو شخص اپنی ہی بیوی کی وجہ سے اپنے ہی گھر سے باہر ہو تو کیا اس کے دل میں پہلے جیسی محبت اور بیوی کے بارے میں دل میں جو جگہ تھی کیا وہ برقرار رہے گی اور ایسی صورت میں یہ گھر کیا مزید آگے چل پائے گا۔
اس بل میں میاں بیوی کے باہمی جھگڑے کے حل کے لئے جو قانون بنایا گیا یہ غلط سمت کاپر گامزن ہے اس لئے کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اگر میاں بیوی کے درمیان اَن بَن ہوتو شریعت یہ ضابطہ سکھلاتی ہے کہ سب سے پہلے وہ یہ خود باہم مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں ، اور اگر معاملہ خود حل نہ کرپائیں ،تو پھر دونوں کے رشتہ دار صلح کروائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
النساء – 35
یعنی: اور اگر تمہیں زوجین کے باہمی تعلقات بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کر لو ۔ اگر وہ دونوںصلح چاہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے گا۔ اللہ تعالیٰ یقینا سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
کورٹ ،تھانہ، کچہری تک نوبت نہ جائےبلکہ ان کے گھر کے بڑے فرد آپس میں بیٹھ کر صلح کروائیں۔ تاکہ گھر کی بات گھر میں رہ جائے اور ان دونوں کی عادات ،خوبیوں و خامیوں سے واقف ان کے بڑے ان کی احسن انداز میں اصلاح کریں۔
تعجب!!
یہ شق اس طور پر بھی بالکل ہی شریعت اسلامیہ کے بالکل برعکس ہےکہ کیونکہ شریعت اسلامیہ کی رو سے مرد عورت سے ناراض کی صورت میں سزا کی خاطر بغیر طلاق کے علیحدگی اختیار کرسکتا ہے جسے شریعت میں ایلاء کہا جاتاہے،خو دنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج سے ایک ماہ کا فرمایا کیا۔[8]
جبکہ عورت کو شوہر سےایک رات بھی ناراض رہنے کی اجازت نہیں۔ ایسی عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی [9]اور جو عورت مرد کو ناراضگی کی حالت میں سونے نہ دے بلکہ راضی کرکے چھوڑے اسے جنتی خاتون قرار دیا گیا ۔[10]جو عورت شوہرکے مطالبے پر اس کے قریب نہ جائے ساری رات فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔[11] بلکہ ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی اہلیہ کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو اسے اس کے پاس جانا چاہئے خواہ وہ تنور پر روٹیاں پکا رہی ہو۔ [12]ایک حدیث میں عورتوں کے جہنم میں سب سے زیادہ جانے کی وجہ بیان کی گئی کہ ’’ يَكْفُرْنَ العَشِيرَ‘‘ یعنی شوہر کی نافرمانی کرتی ہیں۔[13]ایک حدیث میں ہے کہ اگر میں کسی کو سجدے کی اجازت دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔[14] اس لئے یہاں مرد کے حقوق کو غصب کرکے میاں بیوی کی زندگی اجاڑنے کوشش کی جارہی ہے اور بجائے اس کے کہ مناسب طریقے سے ان کی صلح کروائی جائے اس قانون کے ذریعے ان کے تعلقات کو مزید خراب کیا جارہا ہے۔
پانچویں خرابی: مرد کی مکمل نگرانی
(d) wear ankle or wrist bracelet GPS tracker to track the movement of the defendent twenty four hours, seven days a week;
یعنی : مرد کو کلائی میں یا پنڈلی پر ایک ٹریکر چپ لگائی جائے گی، جس کے ذریعے مرد کے آنے جانے کی تمام موومنٹ کی 24 گھنٹے اور ہفتے کے 7 دن نگرانی کی جائے گی۔
یہ بھی ایک بہت بڑی خرابی ہے ، اس قسم کی نگرانی تو انتہائی خطرناک مجرم جو ملک و قوم کے لئے خطرناک ہو ، اس کی نگرانی کے لئے اس طرح کے امور کئے جاتے ہیں۔ گویاکہ ایک گھریلو لڑائی جو کہ حل طلب ہے اور اس انداز میں حل طلب ہےکہ ان کا گھر آباد ہو،ایسے شخص پرکیا گزرے گی جس کی گھریلو زندگی اب مستور اور مخفی نہ رہی ہو بلکہ اس کی مکمل نگرانی کی جارہی ہو ، ایک ایسے معاملے کی وجہ سے جو چھپا ہوا تھا اور اسے چھپا ہی رہنا چاہئے تھا اور اسی مخفی حالت میں ان کی اصلاح ہونی چاہئے تھی۔ لیکن اب نہ وہ معاملہ چھپا رہنے دیا جائے گا اور نہ ہی اس شخص کی زندگی کسی طرح سے نجی رہے گی۔ اس طرح خاندانی نظام کی دھجیاں اڑ جائیں گی۔
چھٹی خرابی: مرد کی قوامیت متاثر ہوگی
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّـهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
النساء – 34
یعنی: مرد عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔ لہٰذا نیک عورتیں وہ ہیں جو (شوہروں کی) فرمانبردار ہوں اور ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق (مال و آبرو) کی حفاظت کرنے والی ہوں ۔ اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو (پھر بھی نہ سمجھیں تو) انہیں مارو ۔ پھر اگر وہ تمہاری بات قبول کرلیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو ۔ یقینا اللہ بلند مرتبہ والا اور بڑی شان والا ہے۔
اس آیت کی رو سے مرد ہی عورت پر قوّام ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔[15]
لیکن اس بل کی رو سے مرد کی قوامیت خطرے میں ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ گھر کا سردار مرد ہے اور وہ کلی طور پر عورت پر حکم چلا سکتا ہے اور اس کے تمام معاملات کا ذمہ دار ہے۔ لیکن اس بل کی رو سے اب ہر مرد ایک خوف کا شکار رہ سزا چھ ماہ سے ایک سال قید اور جرمانہ کر اپنی ہی بیوی کو کما حقہ کنٹرول نہیں کر پائے گاا ور ساتھ ہی بری خصلت کی بیوی کو مزید خرابی کی شہ مل جائے گی۔ اس طرح خاندانی نظام بہتر ہونے کے بجائے مزید تباہی کی طرف بڑھے گا ،کیونکہ نتیجتاً میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کےلئے شرعاً مطلوب مقام و حیثیت نہ بناسکیں گے اور عین ممکن ہے کہ گھر کی روشنی سے مایوس یہ شخص باہر تسکین ڈھونڈنا شروع کردے۔
ساتویں خرابی: شرپسند عناصر کے لئے آسانی
شر پسند عناصر جو جنسی تشدد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور جن کے واقعات گھریلو تشدد سے خاصے زیادہ ہیں جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں۔ ایسے عناصر یا افراداس طرح کے کسی بھی واقعہ کے منتظر رہیں گے اور نتیجتاً عورت اور پورے گھر کی عزت خطرے میں ہوگی۔
آٹھویں خرابی: شرحِ طلاق اضافے اور گھروں کی بربادی میں اضافہ :
اس بل کی رو سے طلاقوں اور گھروں کے اجڑنے میں مزید اضافہ ہو گا ، بلکہ ہونا شروع ہوگیا ہے ، جن میں سے دو واقعات تو واقع بھی ہوگئے ہیں۔
(1)تین بچوں کی ماں نے جب شوہر کی شکایت کی اور مقدمہ درج کرایا تو نتیجہ یہ نکلا کہ شوہر نے طلاق دے دی۔ [16]
(2) وہاڑی کے علاقے میں بیوی نے شوہرکے خلاف تھانہ میں شکایت کی ، شوہر پر مقدمہ درج ہوا ، شوہر نے ضمانت کے بعد بیوی کو طلاق دے دی۔ [17]
یہ تو دو واقعات ہیں جو ہماری نظر سے گزرے لیکن اگر اس قانون کو جلد از جلد کالعدم قرار نہ دیا گیا تو اس قانون کی وجہ سے جو کہ حقوقِ نسواں کے لئے بنایا گیا ہے ، بکثرت طلاق نسواں کا سبب بن جائے گا۔
بہرحال ا س تجزیانہ نظر سے اس بل کو دیکھنے کے بعد لمحہ بھر کے لئے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ اس بل کے ذریعے سے کیا حکومت واقعی عورت کا پرو ٹیکشن چاہتی ہے ؟؟ اور اگر واقعتاً مقصدِ واحد عورت کا تحفظ ہے تو پھر اس بل سے کہیں زیادہ اہم کرنے کے کام یہ ہیں :
تحفظ نسواں کے لئے ضروری تجاویز:
ہم تمام مقتدر حلقوں اور حکومت وقت کے سامنے یہ تجاویز رکھتے ہیں کہ اگر وہ واقعتاً صنف نازک کے مسائل کے بارے میں فکر مند اور ان کے تحفظ کے لئے مخلص ہیں تو کچھ امور جو اس بل کی بہ نسبت کہیں زیادہ ضروری ہیں کہ ان پر عملدرآمد کیا جائے ، فوری طور پر اس حوالے سے قانون سازی کی جائے ، جس میں اسلامی تعلیمات کو کلی طور پر شامل حال رکھا جائے۔
سب سے پہلے مفرور لڑکیوں کے کورٹ میرج والےنکاح پر پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ اسلامی طور پر نہ یہ نکاح ہوا اور نہ ہی اس سے عورت کی عصمت محفوظ ہے۔
یونیورسٹیوں اور دیگر تمام پبلک و ادارتی نظاموں میں مخلوط نظام ختم کیا جائے تاکہ اس اختلاط کی وجہ سے منظر عام پر آنے والے بے شمار جرائم اور عورت کے ساتھ زیادتی بند ہوسکے۔
حکومت عورت کو پروٹیکشن دینے میں اگر مخلص ہے تو فحاشی کے اڈے بند کرے جو سراسر نہ کہ صرف غیر اسلامی بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہیں۔ اور یہ اڈے دور جاہلیت کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
عارضی اور چھپے نکاحوں کی مختلف شکلوں پر قانونی طور پر پابندی لگائی جائے۔
حلالہ پر پابندی لگائی جائے تاکہ مرد کی دی ہوئی طلاق کا خمیازہ عورت کو اپنی عصمت دری کی صورت میں نہ بھگتنا پڑے اور ایک ملعون عمل کی مرتکب نہ ہو۔
ایک مجلس میں ایک سے زائد طلاقیں دینے پر پابندی عائد کی جائے۔ تاکہ سالانہ لاکھوں ہونے والی طلاقوں کا سد باب ہو۔ طلاق کی کمی سے جہاں خاندانی نظام بہتر ہوگا وہاں عورت بھی اپنی گھر کی ہو کررہے گی۔ اور کئی ایک خرابیوں سے محفوظ رہے گی۔ نیز تمام اسباب اور وجوہات جو طلاقوں کا سبب بنتی ہیں ان کا سد باب کیا جائے۔
وہ تمام افراد جن کے عورتوں سے غیر شرعی مراسم قائم ہیں ان کے لئے قانون بنایا جائے کہ وہ کسی قسم کی سرکاری نوکری کے اہل نہ ہوں گے تاکہ غیر شرعی مراسم کے ذریعے سے ہزاروں عورتوں کی عصمت دری نہ کی جائے اور ایسے عیاش قسم کے افراد جب مقتدر عہدوں سے دور رہیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا عورت کے تحفظ کے بارے میں کامیاب قانون سازی ہوسکے گی۔
فلم انڈسٹری اور ہر پروڈیکشن میں عورت کو ایڈورٹائز منٹ کے لئے استعمال کرنے جیسے گھناؤنے جرم جو نہ جانے کتنی نسلوں کی تباہی اور خرابی کا سبب بنتے ہیں اور عورت اپنی عصمت سے جاتی ہے۔ ایسی چیزوں پر پابندی لگائی جائے۔
وہ عورتیں جو صرف اپنا یا اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کے لئے اپنی عصمت کے نذرانے پیش کردیتی ہیں ان کے بارے میں کچھ سوچا جائے کہ انہیں فاقہ کشی سے بچنے کے لئے اس نوبت تک نہ جانا پڑے۔
تفریحی مقامات میں تحفظ نسواں کو شامل حال رکھ کر اسلامی تعلیمات کے مطابق مؤثر قانون سازی کی جائے۔
اسپتالوں میں لیڈیز ڈاکٹر ، نرسیں ، فیکٹریوں ، کمپنیوں میں ملازمت کرنے والی عورتیں ، ان کے بارے میں جامع پلاننگ اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔ جس سے واقعتاً یہ محسوس ہو کہ حکومت تحفظ نسواں میں سنجیدہ ہے۔
ایک سروے کے مطابق ”وومن و بچہ“ جیل کراچی میں قید 226 خواتین میں سے 42 مائیں بن گئی ہیں جبکہ درجن سے زائد خواتین حاملہ ہیں۔ اس طرح قیدی بچوں کی تعداد بھی 462 تک پہنچ گئی ہے۔ سال 2014ء میں پاکستان میں خواتین پر تشدد اور قتل کے 5557 واقعات منظر عام پر آئے جن میں 1163 قتل، 368 غیرت کے نام پر اور 80 اقدام قتل کے مقدمات درج ہوئے۔ علاوہ ازیں 1203 خواتین کو اغوا، 667 زخمی، 256 پر گھریلو تشدد، 408 مردوں کی وجہ سے خودکشی، 82 اقدام خودکشی، 572 ریپ، 199 گینگ ریپ، 122 جنسی طور پر ہراساں، 74 کو حبس بے جا اور 43 خواتین کو جلایا گیا۔ 210 ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں خواتین پر تیزاب پھینکا گیا۔
اگر یہ اعداد و شمارصحیح ہیں ، تو اس کی رو سے 20کروڑ کی آبادی میں سے ایک طرف 256 واقعات جوکہ گھریلو تشدد کیوجہ سے ہوئے۔ باقی 5000 سے زائد واقعات کا تعلق گھریلو ازدواجی زندگی سے نہیں ۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا ان کے اسباب کا سد باب کرکے ان پر کنٹرول کیا جاتاجبکہ یہاں معاملہ الٹ ہے کہ حکومت اور دیگر لوگ اسی لبرل ازم کی طرف بڑھ رہےہیں کہ 5000 سے زائد واقعات کی وجوہات میں اسی جنسیت اور مادیت کا اصل کردار ہے۔ بہرحال اگر مخلص ہیں تو اس طرح کے جرائم میں کمی لانے کے لئے کردار ادا کریں۔ اور یہاں اگر کوئی تقابل کرنا چاہے تو تقابل بھی کرے کہ گزشتہ اوراق میں بیان کئے گئے سروے کے مطابق جو صورتحال انڈیا یا یورپ و امریکہ کی ہے وہاں زیادہ معاملات خراب ہیں یا پاکستان میں؟ ایسی صورتحال کا سامنا جن ممالک میں ہے وہاں کے دانشور اس صورتحال کے اسباب میں جن چیزوں کا تعین کرتے ہیں،بدقسمتی سے وہ ساری چیزیں عورت کی آزادی کے نام پر ملک ِپاکستان کے جدید کلچر کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔
جناب عالی!اصل پروٹیکشن تو یہی ہے اگر یہ سب آپ نہیں کرنا چاہتے تو اس کامطلب ہے کہ تحفظ نسواں نا ممکن ہے۔
اب یہ سارے اقدامات جنہیں فورا اٹھاکر عورت کی عصمت و آبرو سمیت ان کی جان خلاصی کا سامان کرنے کے بجائے تحفظ کے اقدام کی سوجھی بھی تو کہاں؟ جو عورت پہلے ہی اپنے گھر میں باحیاء شوہر کے زیر سایہ ہونے کی وجہ سے ہر قسم کے شر و فتنہ سے محفوظ ہے۔ گو یا کہ یونیورسٹیوں ، کالجوں ، اسکولوں ، دفاتر، بازاروں ، فلم انڈسٹری ، تفریحی مقامات ، نائٹ کلب اور بڑے لوگوں کے در، اور جعلی پیروں کے آستانے سمیت عورت ہر جگہ محفوظ ہے اور صرف مشکل میں ہے تووہاں جہاں وہ اپنے شوہر کے گھر میں ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ان تمام چیزوں کے بارے میں مثبت قانون سازی کرنے کے بجائے کیا کیا جارہا ہے! اور حیرانگی ہوتی ہے اس ذہنیت پر بھی جس نے ان تمام مظالم کو چھوڑ کر گھریلو زندگی پر ڈاکیومنٹری بناڈالی۔ اور اپنے ڈالر بھی کھرے کرلئے ہوں گے۔ اورصرف اسی پر بس نہیں مزید تعجب یہ ہے کہ ان تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر تمام لبرل قلم اور زبانیں بھی لگےاپنی اپنی بولی بولنے۔ ایسے لوگوں کی جتنی مذمت کی جائے اتنا کم ہے۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العالمین اس ملک کو اسلام، امن وسلامتی کا گہوارہ بنادے۔آمین
________________________________________
[2] (http://www.more.com/news/india-rape-capital-world) [3] ایضاَ [4] https://www.washingtonpost.com/news/worldviews/wp/2012/12/29/india-rape-victim-dies-sexual-violence-proble/
[5] صحیح بخاری: 5924، کتاب اللباس ، باب الامتشاط [6] صحیح بخاری: 3331 ، کتاب احادیث الانبیاء ، باب خلق آدم صلوات الله عليه وذريته صحیح مسلم : 1468، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء [7] دیکھئے سورہ نساء آیت 35-34 [8] صحیح بخاری: 1910، 1911، کتاب الصوم ، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم «إذا رأيتم الهلال فصوموا، وإذا رأيتموه فأفطروا» [9] جامع ترمذی: 360، کتاب الصلوۃ، باب ما جاء فيمن أم قوما وهم له كارهون،علامہ البانی اور حافظ زبیر علی زئی رحمھما اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ [10] السلسلۃ الصحیحۃ : 287، 3380، علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شواہد سے مل کر یہ روایت قوی ہوجاتی ہے۔ [11] صحیح بخاری:5193، کتاب النکاح، باب إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها [12] جامع ترمذی: 1160، ابواب الرضاع، باب ما جاء في حق الزوج على المرأة، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ [13] صحیح بخاری: 29، کتاب الایمان ، باب كفران العشير، وكفر دون كفر [14] سنن ابی داؤد: 2140، کتاب النکاح، باب في حق الزوج على المرأة، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [15] صحیح بخاری: 893، کتاب الجمعۃ، باب الجمعة في القرى والمدن [16] http://www.nawaiwaqt.com.pk/multan/17-Mar-2016/461616 [17] http://www.merashehar.today