پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو غلبے والا ، عطا کرنے والا ، کتاب کو نازل کرنے والا، بادلوں کو چلانے والا، گروہوں اور جتھوں کو زیر کرنے والا ہے ، ہمارے پر وردگار کے نام پاکیزہ ہیں، اس کی جن نعمتوں کو ہم جانتے ہیں یا جنہیں نہیں بھی جانتے ان سب پر ہمیشہ اسی کے لیے ایسی حمد وثنا ہے جس سے وہ راضی ہو جائے اور جس کے ذریعے اجر و ثواب میں اضافہ ہو جائے۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ہے ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں ،جنہیں حکمت و دانائی اور فیصلہ کن بیان و گفتگو سے سر فراز کیا گیا۔
اے اللہ! درود و سلام اور برکتیں نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺپر ، آپ ﷺکی آل اور آپ ﷺکے صحابہ کرام پر۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اس اللہ کا تقوی اختیار کرو کہ جو اپنی نعمتوں میں تمہاری نشو و نما کرتا ہے ، تمہارے اوپر اپنی بے بہار حمتوں کا نزول فرماتا ہے ، اور تمہیں صحت و عافیت عطا کرتا ہے اور نافرمانوں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
فاطر – 15
اے لوگو! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بے پرواہ تمام تعریفوں کے لائق ہے۔
اللہ کے بندو! اللہ تعالی کو معلوم ہے کہ تمہارے دین و دنیا کی اصلاح و درستی کی کس قدر تمہیں ضرورت ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ انسانی عقل جس قدر بھی بلندیوں کو چھولے اور جس قدر بھی تجربات حاصل کر لے تب بھی وہ دنیوی واخروی معاملات کے اسباب کا ادراک نہیں کر سکتی، اسی لیے اس نے تمہارے لیے ایسے اسباب کو کھول کر بیان کر دیا ہے اور بندوں کو دنیاو آخرت میں بد بختی و شقاوت والے اسباب اختیار کرنے سے ڈرایا اور متنبہ کیا ہے، جو صرف اس پروردگار کا فضل و کرم اور رحمت ہے نیز اس کے ساتھ ہی اس نے مخلوق پر حجت کو بھی تمام کر دیا ہے۔
اور جب مخلوق میں سے عقل و دانش، حکمت و دانائی، سیرت و صورت اور فطرت کے لحاظ سے کامل ترین شخصیت اور تمام انسانوں کے سردار محمد ﷺ بھی صرف وہ ہی کچھ جانتے ہیں جو انہیں اللہ تعالی نے سکھلایا ہے ، وہ سعادت مندی کے اسباب میں سے صرف اتناہی جانتے ہیں جتنا انہیں اللہ تعالی نے کتاب و حکمت کے ذریعے وحی نازل کر کے علم عطا کیا ہے تو جب ان کی یہ حالت ہے تو ان کے علاوہ امت کے دیگر لوگ دنیوں واخروی سعادت مندی کے اسباب کی معرفت کیسے حاصل کر سکتے ہیں، چنانچہ ان کی معرفت کے حصول کا ذریعہ صرف وہ وحی ہی ہے جو اللہ تعالی نے اپنے نبی پر نازل فرمائی، جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمايا:
وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا
النساء – 113
اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا اور اللہ کا فضل تجھ پر ہمیشہ سے بہت بڑا ہے۔
اور دوسری جگہ ارشاد فرمايا:
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٥٢﴾ صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِلَى اللَّهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ
الشوریٰ – 52/53
اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی، تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے اور لیکن ہم نے اسے ایک ایسی روشنی بنا دیا ہے جس کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھاتے ہیں اور بلاشبہ تو یقینا سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ ﴿٥﴾ أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ ﴿٦﴾ وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ
الضحیٰ – 5/6/7
اور يقينا عنقریب تیرا رب تجھے عطا کرے گا، پس تو راضی ہو جائے گا۔ کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا، پس جگہ دی۔ اور اس نے تجھے راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھا دیا۔
اور مزید فرمایا:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٨٥﴾ وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا
الاسراء – 85/86
اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔ اور یقینا اگر ہم چاہیں تو ضرور ہی وہ وحی (واپس) لے جائیں جو ہم نے تیری طرف بھیجی ہے، پھر تو اپنے لیے اس کے متعلق ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں پائے گا۔ مگر تیرے رب کی رحمت سے۔ یقینا اس کا فضل ہمیشہ سے تجھ پر بہت بڑا ہے۔
انسان عقل و دانش میں کتنا ہی آگے نکل جائے، اس کے ادراک و احساسات کتنے ہی قوی اور مضبوط ہو جائیں، اس کی عمر لمبی اور تجربات و مشاہدات کتنے ہی زیادہ ہو جائیں تب بھی وہ دنیاو آخرت کی سعادتوں کی راہوں کو اُس وحی کے بغیر نہیں پاسکتا جو اللہ تعالی نے پیغمبروں پر نازل فرمائی۔ علیہم الصلاۃ والسلام- چونکہ اللہ تعالی کے علم میں ہے کہ انسان ہدایت کی تفصیلات کی معرفت حاصل کرنے سے عاجز ہے اور شریعت الہیہ کے بہت سے رازوں تک رسائی حاصل کرنا اس کے بس میں نہیں ہے تو اللہ سبحانہ نے لوگوں کے لیے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمايا:
وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
البقرۃ – 216
اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
وراثت کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
النساء – 11
تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تم نہیں جانتے ان میں سے کون فائدہ پہنچانے میں تم سے زیادہ قریب ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ حصے ہیں، بیشک اللہ ہمیشہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
اور بھی کئی آیات میں اسی چیز کو بیان فرمایا ہے اور اسی طرح اللہ تعالی نے مخلوقات کا رزق اپنے ذمہ لیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا
ھود – 6
اور زمین میں کوئی چلنے والا ( جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے۔
اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم اور رحمت سے بندوں کے لیے مکمل ہدایت اور راہنمائی کو واضح بیان کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَى
اللیل – 12
بلاشبہ ہمارے ہی ذمے یقینا راستہ بتانا ہے۔
مزید فرمایا:
يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
النساء – 26
اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے کھول کر بیان کرے اور تمہیں ان لوگوں کے طریقوں کی ہدایت دے جو تم سے پہلے تھے اور تم پر مہربانی فرمائے اور اللہ سب کچھ جانے والا، کمال حکمت والا ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ
الاسراء – 9
بلاشبہ یہ قرآن اس ( راستے) کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھا ہے۔
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
آل عمران – 103
اس طرح الله تمہارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
ہدایت و گمراہی کی تفصیلات کو بیان کر دینے کے بعد بندوں پر اللہ تعالی کی طرف سے حجت قائم ہو چکی ہے ، اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کرے، بندوں کو ان کے اعمال کے مطابق دنیا و آخرت میں بدلہ دیا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
الزلزلة – 7/8
چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہو گی وہ اسے دیکھے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہو گی ، وہ اسے دیکھے گا۔
اور اللہ سبحانہ و تعالی نے یہ فیصلہ اور وعدہ کر رکھا ہے کہ دنیوی واخروی سعادت مندی اور نعمتوں والی ابدی و دائمی زندگی کا انحصار بس دو کلموں پر ہے یعنی کلام الہی پر ایمان اور اس کے مطابق عمل کرنے پر ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
الاعراف – 35
اے آدم کی اولاد ! اگر کبھی تمہارے پاس واقعی تم میں سے کچھ رسول آئیں، جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کریں تو جو شخص ڈر گیا اور اس نے اصلاح کرلی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غم کھائیں گے۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ
طه – 123
جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو نہ وہ گمراہ ہو گا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” وہ شخص دنیا میں نہ گمراہ ہو گا اور نہ ہی آخرت میں شقی ہو گا۔ “ تاریخ انسانیت، گزشتہ پیغمبر اور ان کی امتیں اس بات کی عینی و سچی شاہد اور اُن حقائق کے منہ بولتے ثبوت ہیں جن کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ سعادت مند، کامیاب و کامران لوگ، زمین میں اصلاح کرنے والے، دنیوی رسوائی اور اخروی عذاب سے نجات پانے والے اور سب سے بہترین لوگ، پیغمبر اور ان کے پیروکار رہے ہیں، جو اللہ کے کلام پر ایمان لا کر اس کے مطابق عمل بھی کرتے رہے۔ اے انسان! کیا ایسے لوگوں کی رفاقت تجھے پسند نہیں ہے؟ اور ہمارے باپ آدم علیہ السلام غلطی کا ارتکاب کرنے کے بعد اللہ کے کلام پر ایمان اور اس پر عمل کر کے ہی ہدایت تامہ اور منصب نبوت سے سرفراز ہو سکے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
البقرۃ – 37
پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے، تو اس نے اس کی توبہ قبول کرلی، یقینا وہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
اور فرمایا:
وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ ﴿١٢١﴾ ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ
طه -121/122
اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بھٹک گیا۔ پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، پس اس پر توجہ فرمائی اور ہدایت دی۔
پھر اللہ سبحانہ نے اپنے فضل و احسان سے آدم علیہ السلام کے بعد بھی نبیوں اور رسولوں پر اپنی وحی کے نزول اور ان کے ساتھ کلام کا سلسلہ جاری رکھا، ان کی اور ان کے پیروکاروں کی بے حد تعریف و توصیف فرمائی کہ انہوں نے آیات الہیہ کو قبول کیا، ان کے مطابق عمل کیا اور لوگوں کو ان کی طرف دعوت دیتے رہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا
مریم – 58
یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا نبیوں میں سے، آدم کی اولاد سے اور ان لوگوں میں سے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد سے اور ان لوگوں سے جنھیں ہم نے ہدایت دی اور ہم نے چن لیا۔ جب ان پر رحمان کی آیات پڑھی جاتی تھیں وہ سجدہ کرتے اور روتے ہوئے گر جاتے تھے۔
چنانچہ اللہ تعالی پر اور اس کے کلام پر ایمان و عمل ہی در حقیقت کامیابی و کامرانی، دنیوی سعادت مندی اور اخروی نعمتوں کے حصول کے ضامن ہیں، اللہ تعالی کسی بندے کی اطاعت قبول نہ کرے گا اور نہ ہی کوئی جہنم سے نجات پاسکتا ہے جب تک وہ ارکان ایمان کے ساتھ ساتھ اللہ کی نازل کتابوں پر ایمان نہ لائے گا، اللہ سبحانہ وتعالی نے سورۃ بقرہ کے آخر میں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ پیغمبر وں اور ان کے پیروکاروں نے اسی ایمان کے تقاضوں کو پورا کیا، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
آمَنَ الرَّسُولُ بمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ
البقرۃ – 258
رسول اس پر ایمان لایا جو اس کے رب کی جانب سے اس کی طرف نازل کیا گیا اور سب مومن بھی، ہر ایک اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا، ہم اس کے رسولوں میں سے کسی ایک کے درمیان فرق نہیں کرتے۔
روئے زمین کے علاوہ معاشرے کی اصلاح بھی صرف کلام الہی، شریعتِ اسلامیہ اور اس کتاب کے نفاذ سے ہی ممکن ہے جو کہ رزق اور معاشی فراوانی کا بھی سبب ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴿٦٥﴾ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ
المائدۃ – 65/66
اور اگر واقعی اہل کتاب ایمان لے آتے اور ڈرتے تو ہم ضرور ان سے ان کے گناہ دور کر دیتے اور انھیں ضرور نعمت کے باغوں میں داخل کرتے۔ اور اگر وہ واقعی تورات اور انجیل کی پابندی کرتے اور اس کی جو ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے تو یقینا وہ اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے کھاتے۔
مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آیت میں “مَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ “ سے مراد قرآنِ مجید ہے کیوں کہ وہ گزشتہ کتابوں کی محافظ، ان پر غالب اور ان کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے، بلکہ (معاشرے کے علاوہ) کسی فرد کی حالت وحیات بھی بغیر قرآن کے درست نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٩٧﴾ فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
النحل – 97/98
جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقینا ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی او یقینا ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے ، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔ پس جب تو قرآن پڑھے تو مر دود شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کر۔
پاکیزہ زندگی کا وعدہ کرنے کے بعد قرآن مجید کی قرآت کا تذکرہ کیا ہے، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کلام اللہ کی تلاوت اور اس کے مطابق عمل ہی پاکیزہ زندگی ، جنت اور جنت کی دائگی و سرمدی نعمتوں کے حصول کا سبب ہے، یہ نعمتیں اللہ تعالی نے اپنی کتاب پر ایمان رکھنے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے لکھ دی ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
يَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ ﴿٦٨﴾ الَّذِينَ آمَنُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ ﴿٦٩﴾ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ ﴿٧٠﴾ يُطَافُ عَلَيْهِم بِصِحَافٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ ۖ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ ۖ وَأَنتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٧١﴾ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٧٢﴾ لَكُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِّنْهَا تَأْكُلُونَ
الزخرف – 68-73
اے میرے بندو! آج نہ تم پر کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے۔ وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان لائے اور وہ فرماں بردار تھے۔ جنت میں داخل ہو جاؤ تم اور تمہاری بیویاں، تم خوش کیے جاؤ گے ۔ ان کے گرد سونے کے تھال اور پیالے لے کر پھر اجائے گا اور اس میں وہ چیز ہو گی جس کی دل خواہش کرینگے اور آنکھیں لذت پائیں گی اور تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو۔ اور یہی وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو، اس کی وجہ سے جو تم عمل کرتے تھے۔ تمہارے لیے اس میں بہت سے میوے ہیں، جن سے تم کھاتے ہو۔
اللہ تعالی نے اپنے اُن بندوں کی تعریف بیان کی ہے جو کلام اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں، اس ایمان پر اللہ تعالی نے خاص طور پر ہمارے نبی محمد ﷺکی تعریف کی ہے جو مخلوق میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ معزز و مکرم ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
الاعراف – 158
پس تم اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر ایمان لاؤ، جو اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
اور اللہ نے اپنے پیارے نبی کو ایسی کامل ترین اور آسان شریعت سے مشرف کیا جو پوری انسانیت کے لیے عام ہے جس میں فضیلت کا معیار اللہ کے ہاں صرف تقوی الہی ہے اور اللہ عزوجل نے قرآن کریم کو نازل کر کے پوری انسانیت پر احسان کیا ہے جس میں اُن امور کو حق و صداقت کے ساتھ بالکل واضح کر دیا ہے جن میں اہل کتاب باہم اختلاف کا شکار تھے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ﴿١٥﴾ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
المائدۃ – 15/16
اے اہل کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارا ر سول آیا ہے، جو تمہارے لیے ان میں سے بہت سی باتیں کھول کر بیان کرتا ہے ، جو تم کتاب میں سے چھپایا کرتے تھے اور بہت سی باتوں سے در گزر کرتا ہے۔ بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔ جس کے ساتھ اللہ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیچھے چلیں، سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے اور انھیں اپنے حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور انھیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
امی نبی ملت ابراہیمی لے کر آئے جن کی تعریف بیان کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:
مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٦٧﴾ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ
آل عمران – 67/68
ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی، بلکہ ایک طرف والا فرمانبردار تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ بیشک سب لوگوں سے ابراہیم کے زیادہ قریب یقینا وہی لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے، اور اللہ مومنوں کا دوست ہے۔
اور اس شریعت کے کامل ہونے اور سر پار حمت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ یہ تمام انسانوں کی ضروریات زندگی کا خیال رکھتی ہے اور پورے عدل وانصاف اور حق و صداقت کے ساتھ ان کے تقاضے پورے کرتی ہے اور زندگی کے تمام گوشوں کو ہر زاوے سے اعلی ترین معیار تک پہنچاتی ہے اور بعض مسلمانوں کی زندگی میں جو خلل اور نقص نظر آتا ہے اس کا سبب شریعت نہیں بلکہ اس کا سبب ارادی یا غیر ارادی طور پر جہالت پر مبنی عملی کو تاہی ہے اور یہ تابندہ شریعت امت کے کسی پیچیدہ اور جدید مسئلے کو حل کرنے سے نا کبھی عاجز رہی ہے اور نہ کبھی عاجز رہ سکتی ہے، کیوں کہ شریعت کے مصادر اور اس کے احکام ٹھوس اور مستحکم ہیں جن میں نہ کبھی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ ہی خواہشات نفسانی کی نذر ہو سکتے ہیں۔
شرعی احکام اللہ کی کتاب سے اخذ کئے جائیں گے ، اگر کتاب اللہ میں حکم موجود نہ ہو تو سنت رسول ﷺسے اس کو اخذ کیا جائے گا اور اگر سنت میں بھی اس کا حکم موجود نہ ہو تو اجماع کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اور اجماع یہ ہے کہ کسی واقعہ پر شرعی حکم لگانے میں مقام اجتہاد پر فائز اہل علم کا اتفاق ہو اور اس اجتماع کی پھر مخالفت کرنا جائز نہیں ہوتا ۔اور اجماع ہمیشہ کسی شرعی دلیل اور نص پر مبنی ہوتا ہے اور اگر اجتماع نہ ہو تو قیاس صحیح کی طرف رجوع کیا جائے گا اور قیاس یہ ہے کہ اصل اور فرع کے درمیان کسی مشترک علت کی بنیاد پر فرع کو اصل کے ساتھ ملایا جائے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کے لوگوں نے قیاس صحیح پر عمل کیا ہے اور قیاس صحیح سے متعلق سب سے پہلے امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی معرکہ الآراء کتاب ( اعلام الموقعین عن رب العالمین) میں تفصیلی بحث کی ہے۔ اور مقصد یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ ایک کامل شریعت ہے جو انسان کے تمام دینی و دنیوی مصالح اور مفادات کو شامل ہے اور اس کی بنیاد اللہ کا کلام اور اس کے رسولﷺ کا کلام ہے، جو ان دونوں کو لازم پکڑے گا وہ نجات سے ہمکنار ہو گا اور جو ان سے روگردانی کرے گا ہلاکت اس کا مقدر بن جائے گی، اور اس کی مثال بالکل نوح علیہ السلام کی کشتی ہی ہے۔
اور جس طرح اللہ تعالی نے دنیاوی سعادت اور اخروی نعمتوں کا فیصلہ ان لوگوں کے حق میں کیا ہے جو اللہ کے کلام پر ایمان اور اس کی شریعت پر عمل پیرا ہوتے ہیں اسی طرح اللہ تعالی نے دنیاوی شقاوت و عذاب اور آخرت میں دائمی آگ کا فیصلہ ان لوگوں کے لیے کر رکھا ہے جو اللہ کے کلام کی تکذیب کرتے ہیں اور اس پر عمل ترک کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ أَنَّىٰ يُصْرَفُونَ ﴿٦٩﴾ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿٧٠﴾ إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ ﴿٧١﴾ فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ
غافر – 69-72
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں، کہاں پھیرے جارہے ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے کتاب کو اور جو کچھ ہم نے اپنے رسولوں کو دے کر بھیجا اسے جھٹلا دیا، سو عنقریب جان لیں گے۔ جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور زنجیریں، گھیٹے جارہے ہوں گے۔ کھولتے پانی میں، پھر آگ میں جھونکے جائیں گے۔
اور اللہ عزوجل نے سابقہ امتوں کو اسی لیے تباہ و برباد کیا کہ انہوں اس کی آیات اور نشانیوں کو جھٹلایا تھا:
وَتِلْكَ عَادٌ ۖ جَحَدُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهُ وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ ﴿٥٩﴾ وَأُتْبِعُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا إِنَّ عَادًا كَفَرُوا رَبَّهُمْ ۗ أَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُودٍ
ھود – 59/60
اور یہ عاد تھے جنھوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر زبر دست جابر، سخت عناد والے کے حکم کی پیروی کی۔ اور ان کے پیچھے اس دنیا میں لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی۔ سن لو! بیشک عاد نے اپنے رب سے کفر کیا۔ سن لو عاد کے لیے ہلاکت ہے، جو ہود کی قوم تھی۔
اور ان جیسی ہلاک شدہ دیگر قو میں بھی ہیں۔
لوگو! بے شک تمہارے سامنے نجات پانے والے اور ہدایت یافتہ لوگوں کی راہیں بھی واضح ہو چکی ہیں، گمراہ اور ہلاک ہونے والوں کے راستے بھی واضح ہو چکے ہیں ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
الانعام – 153
اللہ عزوجل میرے لیے اور آپ سب کے لیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے۔
دوسرا خطبہ :
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جو جاہ و جلال اور عزت و شرف کا مالک ہے اس کی بادشاہت اور طاقت و غلبے میں کوئی اس کا سہیم و شریک نہیں ہے، ہمارے رب کے انعام و اکرم پر ہر طرح کی تعریف و توصیف اسی کے لیے ہے۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ہر طرح کی بادشاہت اس کے لیے ہے ، وہ پاک اور بے عیب ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی وسردار محمدﷺتمام مخلوقات میں افضل ترین ہستی ہیں۔
اے اللہ تو درود و سلام اور برکتیں نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمدﷺپر ان کی آل و عیال پر اور ان کے معزز و مکرم ساتھیوں پر۔
حمد و صلاۃ کے بعد!
اللہ کے بند واللہ سے ڈرو، کیوں کہ پرہیز گار اور تقوی شعار بندے ہی نیکیوں اور بھلائیوں سے سرفراز ہوتے ہیں ۔ مسلمانو! اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
یوسف – 108
کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں۔
اور حدیث شریف میں ہے کہ: ”تم میں سے ہر شخص جنت میں داخل ہو گا سوائے اس شخص کے جو انکار کرے “ تو آپﷺسے پوچھا گیا کہ کون ہے جو انکار کرے گا؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: “جو میر کی اطاعت کرے گا جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا گویا اس نے جنت سے انکار کیا۔ “ اور اپنے اعمال اور اقوال میں اپنے رب کے لیے اخلاص پیدا کرو، کیوں کہ اللہ عزوجل خالص عمل کو ہی شرف قبولیت عطا کرتا ہے اور کثرت سے دعائیں کیا کرو کیوں کہ دعائیں کرنے والا کبھی تباہ برباد نہیں ہوتا۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔
اے اللہ ! تو اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل ورسواکر، کافروں اور ملحدوں کو ناکام و نامراد کر دے۔
اے اللہ ! تو ہمارے اور تمام مسلمان کے فوت شدگان کو معاف کر دے، ہمارے اور تم مسلمانوں کے مریضوں کو شفا عطا فرما، ہمارے اور تمام مسلمانوں کے امور کو آسان فرما، مصیبتوں اور تکلیفوں کو دور فرما، ہمارے ملک اور اس کے سپاہیوں کی حفاظت فرما۔ اے رب العالمین۔
اے اللہ ! تو خادم حرمین کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق دے اور خیر کے کاموں میں ان کی مدد فرما، اے اللہ تو ولی عہد وزیر اعظم کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق دے اور ہر خیر کے کام میں ان کا تعاون کر۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْقَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
الںحل – 90
بے شک اللہ انصاف اور احسان اور رشتہ داروں کو (مالی) تعاون دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نا پسندیدہ افعال اور سرکشی سے روکتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم اسے قبول کر لو۔
خطبة الجمعة مسجدالنبوي: فضیلة الشیخ الدکتورعلي بن عبدالرحمٰن الحذیفي حفظه اللہ
13ذوالقعدۃ بتاریخ 02 جون 2023