یہ ان دنوں کی بات ہے جب کورونا جیسی عالمی وبا نے ہر سو زندگی کی نقل وحرکت پر پہرے بٹھا دیے تھے، فرصت کے ان ایام میں، میں نے شیخنا الکریم عزیر شمس رحمہ اللہ کا سوانحی تذکرہ لکھنا شروع کر دیا جس کا نام “جُستجو کا سفر” تجویز کیا گیا۔
ارادہ یہ تھا کہ شیخ کی زندگی ہی میں اس کی تکمیل کر کے ان سے نظر ثانی کروا لی جائے، تاکہ تحریر شدہ مواد کے متعلق کسی قسم کا کوئی اشتباہ باقی نہ رہے۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ اعتماد ان کی اپنی تحریروں، مکاتیب اورانٹرویوز پر کیا گیا تاکہ اس میں کوئی ایسی بات معرضِ تحریر میں نہ آجائے جو ان کی تحقیق پسند طبیعت پرگراں گزرے۔ تاہم جب بعض سوانحی کڑیوں کی تکمیل کے لیے ان سے بار بار سوال کرنے لگا تو ان کو ادراک ہو گیا کہ یہ ساری تگ ودو کس لیے ہو رہی ہے۔ ایک دن فرمانے لگے کہ بھئی! میں کوئی حافظ عبد اللہ غازی پوری نہیں کہ مجھ پر ہی کتاب لکھ ڈالو۔
لیکن جب عرض کی کہ اب ارادہ بن گیا ہے اور کام بھی شروع کر دیا ہے تو پھر کچھ مناسب ہدایات دیں، اور جو سوالات ان کی خدمت میں ارسال کیے تھے، بڑی تفصیل سے ان کا جواب مرحمت فرمایا۔
علاوہ ازیں اپنے ددھیال اور ننھیال کے متعلق تفصیلی معلومات لکھ کرارسال کردیں جو ہمارے کام کے لیے خشتِ اول کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اسی طرح مختلف لوگوں نے ان کے جو انٹرویوز کیے تھے اور اشاعت کے وقت ان میں جو تسامحات ہو گئے، ان پر اپنے بعض استدراکات بھی ارسال کیے بالخصوص محترم جناب اسحاق بھٹی مرحوم نے ان کے حالات پر جو طویل مضمون “قافلہ حدیث” میں تحریر کیا تھا، اس میں در آنے والی اخطا پر ایک مفصل خط بھیج دیا تاکہ ان کا اعادہ نہ ہو جائے۔
بحمد اللہ یوں یہ کام آگے بڑھنے لگا اور جہاں کوئی دقت پیش آتی، براہ راست سوال کر کے تشنگی دور کر لی جاتی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک یہ کام مکمل ہو جاتا مگر بیچ میں شیخ کے اردو مقالات اور دیگر تحریروں کی ترتیب وتدوین کے باعث یہ کام پس منظر میں چلا گیا۔ اور اس دوران میں پہلے تو شیخ کے 45 اردو مجموعہ مقالات کی تدوین واشاعت کی طرف رخ ہو گیا جو ہند وپاک میں اشاعت پذیر ہوا، پھر اسی مجموعے کی دوسری جلد کی طرف توجہ رہی، اس کے ساتھ ہی شیخ مرحوم سے فیس بک پر ان کے نشر ہونے والے مکالمات ومحاضرات کی ترتیب واشاعت کے متعلق مشاورت اور کام ہوتا رہا جس کی وجہ سے سوانحی کام موخر ہوتا رہا اور ان کی زندگی میں پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ قدر اللہ وماشاء فعل
لیکن اس تاخیر کا فائدہ یہ ضرور ہوا کہ اسی دوران میں شیخ نے اپنے کئی مکاتیب اور دیگر تحریریں ارسال کر دیں جو ان کے سوانحی تذکرے میں بے حد مفید ثابت ہوں گی ان شاء اللہ۔
یہ امر یقینا شیخ کے محبین کے لیے مسرت انگیز ہو گا کہ وفات سے دو تین ہفتے قبل ہی انھوں نے اپنے مکاتیب اور دیگراردو تحریروں کی ایک ضخیم فائل ارسال کر دی تاکہ مقالات کی دوسری جلد میں ان سے استفادہ کر سکوں۔۔۔۔اس بیش قیمت فائل میں انھوں نے اپنا وہ طویل ترین سفرنامہ بھی ارسال کر دیا جو انھوں نے مختلف عرب اور یورپی ممالک کی لائبریریوں اور علمی اداروں کے لیے 1985ء میں کیا تھا اور دوران سفر ہی اس کی مفصل روداد قلم بند کی دی تھی۔ جزاہ اللہ خیرا وغفر لہ
ان گزارشات سے مقصود شیخ کے محبین کو یہ اطلاع دینا ہے کہ ان شاء اللہ ہم اب تسلسل کے ساتھ شیخ کے علمی افادات اور تحقیقی کمالات کی ترتیب وتدوین کے لیے مندرجہ ذیل ترتیب سے مرحلہ وار کام کریں گے:
۔ 1″جستجو کا سفر”: یہ شیخ کا سوانحی خاکہ ہے جس کی تفصیل اوپر دی گئی۔ اس سلسلے میں ہم پوری کوشش کریں گے کہ تکرار سے ہٹ کر شیخ کی علمی زندگی اور تحقیقی خدمات کو نمایاں کیا جا سکے، کیونکہ یہ شیخ رحمہ اللہ ہی کی نصیحت ہوا کرتی تھی جیسا کہ انھوں نے 30 اگست 2022ء کو راقم الحروف کو لکھا:
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ لوگوں کی وفات پر مجلات کے ضخیم نمبر شائع کرنے کے بجائے ان کے علمی ورثہ کی تدوین و اشاعت زیادہ اہم ہے۔ حالاتِ زندگی اور خدمات پر کوئی صاحبِ ذوق جامع کتاب لکھے یا مختلف رسائل میں مضامین شائع ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن مضامین جمع کر کے ضخیم نمبر بنانا مناسب نہیں۔ اکثر مضامین تاثراتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ معلومات بھی متضارب اور مشکوک ہوتی ہیں۔”
اسی بنا پر ہمارا ارادہ ہے کہ شیخ کے متعلق مستند معلومات ہی کو کتاب میں جگہ دی جائے، اور اس میں صرف تاثرات جمع کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ مگر افسوس کہ آج کئی لوگ ہر طرح کی تحریروں کو جمع کر کے مرتب کر ڈالتے ہیں جبکہ شیخ رحمہ اللہ اسے سخت ناپسند کرتے تھے۔
۔ 2″مضامین ومکاتیب”: یہ شیخ رحمہ اللہ کے مقالات کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں ان کے فقہی مضامین اور مختلف لوگوں کے نام علمی مکاتیب کو مرتب کیا گیا ہے، ان شاء اللہ بہت جلد اسے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا۔
۔3 ۔مکالمات: شیخ رحمہ اللہ سے مشاورت ہوئی تھی کہ فیس بک پر نشر ہونے والے ان کے لیکچرز کو دو عناوین: “مکالمات” اور “محاضرات” کے نام سے مرحلہ وار مرتب کیا جائے۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی “مکالمات” کے نام سے مرتب کی گئی ہے جو 15 مکالمات اور 500 صفحات پر مشتمل ہے۔ بحمد اللہ یہ مراجعت وتصحیح کے مرحلے میں ہے۔
۔4 “محاضرات”: اس نام سے ان شاء اللہ ان کے مختلف لیکچرز اور محاضرات کو شائع کیا جائے گا۔ امید ہے یہ مواد دو جلدوں میں مکمل ہو گا۔ ان شاء اللہ
یہ سطور عجلت میں شیخ عزیر رحمہ اللہ کے بعض محبین کے اصرار پر قلم بند کر دی گئی ہیں وگرنہ ارادہ یہی تھا کہ جیسے یہ کام مکمل ہوں قارئین کی خدمت میں پیش کر دیے جائیں۔ تاہم امید کہ قارئین ہمیں اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں گے کہ اللہ تعالی توفیق دے ہم مرحوم کی علمی تراث کی کما حقہ خدمت واشاعت کر سکیں جو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنے اور عامة المسلمين کے لیے نفع مند ثابت ہو آمین یا رب العالمین
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…