جودوسخاوت کی فضیلت

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس کا فرمان ِ مبارک ہے:

فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى (5) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (6) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى

اللیل – 5/7

جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے)۔ اور اچھی بات کو سچ سمجھا۔  تو ہم بھی اسکو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔

میں اللہ سبحانہ وتعالی کی تعریف کرتا ہوں اور اسکی بے شمار و لاتعداد نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں  وہ اکیلا ہے  اس کا کوئی شریک نہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا

الاسراء – 20

اور تمہارے پروردگار کی بخشش  (کسی سے)  رکی ہوئی نہیں۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جن سے رب نے فرمایا:

وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى

الضحیٰ – 5

اور آپ کو پروردگار عنقریب وہ کچھ عطا فرمائے گا کہ آپ  خوش ہو جائیں گے۔

اللہ ان پر اور ان کے آل پر اور تمام صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے۔

حمد و ثنا کے بعد:

میں آپ سب کو مجھ سمیت اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

آل عمران – 102

مومنو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔

اللہ کے بندوں!

(اللہ کے لئے) مال خرچ کرنا  ایک عبادت ہے اور اللہ کی نعمتوں کے شکر کا ایک طریقہ ہے۔

اور ہمارے پیارے رسول ﷺ نے تو ( اللہ کے لئے)  خرچ کرنے کی بہترین مثالیں قائم کی ہیں؛ سب کچھ  دل و جان سے دے دیا،اور اپنے پاس کچھ بھی نہ  رکھا۔

جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“ما سُئِل رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم – شيئًا قطُّ فقال: لا، سألَه رجلٌ غنَمًا بين جبلَيْن فأعطاه إيَّاها”

اللہ کے رسول ﷺ سے کبھی بھی کوئی بھی چیز مانگی جاتی تو وہ کبھی بھی انکار نہ کرتے ، یہاں تک کہ ایک شخص نے ان سے دو پہاڑوں کے درمیان ایک بکری مانگی تو انہوں نے وہ بھی اسے دے دی۔

وبلغَ من عطائه: أنه أعطى ثوبَه الذي على ظهره،

اور انﷺکی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے  اپنی پیٹھ کا کپڑا تک دے دیا۔

ومن عطائه لأمَّته: أنه سخَّر حياتَه لها نذيرًا وبشيرًا قائلاً:

اور اپنی امت کے لیے آپ ﷺ کی سخاوت یہ تھی کہ آپ ﷺ نے اپنی پوری حیات طیبّہ اُمت کےلئےوقف فرمادی ، اور  یوں فرماتے رہتے:

إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ

سبأ – 46

وہ تو تمہیں ایک بڑے (سخت) عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے ۔

اور امت کے لئے  ان کی سخاوت کی سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ انہوں نےاپنی امت کو (مومنوں کو اللہ کی رضا اورجنت کی) بشارت دینے اور (نافرمان لوگوں کو اللہ کےغصہ اور  عذاب سے) ڈرانے میں اپنی پوری حیاتِ طیبہ وقف کردی اور  فرماتے رہے:

إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ

سبأ – 46

وہ تو تمہیں ایک بڑے (سخت) عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے ۔

اور یہ بھی ان کی دریا دلی کی ایک مثال ہے کہ انہوں نے اپنی امت سے ایسی محبت اور شفقت فرمائی کہ جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ۔

اُمت پر اتنی زیادہ  شفقت کی کہآپ ﷺاکثر فرمایا کرتے تھے:اگر مجھے اُمت کی مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں انہیں یہ حکم دیدیتا۔(یعنی ہر وقت یہ خیال رہتا کہ اُمت مشقت میں نہ پڑجائے،لہٰذا کئیں احکامات اُمت پر شفقت فرماتے ہوئے واجب نہیں فرمائے)۔

اور جب ایک شخص نے ان سے حج کے بارے میں پوچھا:

أكلَّ عامٍ يا رسول الله؟ قال: «لو قلتُ: نعم، لوجبَت ولما استطعتُم»

اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ہر سال؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کردیتا تو(ہر سال) حج واجب ہوجاتا اور آپ لوگ  ادا نہ کرپاتے۔

اور نبی ﷺ بارہا یہ دعا فرماتے تھے:

«اللهم أمَّتي، أمَّتي»

یا اللہ میری امت، میری امت۔

یہاں تک کہ اُن ﷺ کے رب نے اُن سے فرمایا :

«إنا سنُرضِيكَ في أمَّتِك ولا نسوؤُك»

ہم آپ کی امت کے سلسلے میں آپ کو خوش کردیں گے  اور آپ کو غم نہیں دیں گے۔

اور یہ نبی ﷺ کی بھلائی کی ہی  خیر و برکت  ہے کہ ان کا پہنچایا ہوا دین قیامت تک قائم و دائم رہے گا۔اور انکے صحابہ اور احباب انکے طریقہ پر چلے،ان کی سخاوت کے چشمہ سے فیض یاب ہوکر سخاوت کی چوٹی تک پہنچ گئے۔

نبی علیہ السلام نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:

«ما نفعَني مالٌ قطُّ ما نفعَني مالُ أبي بكر»، فبكى أبو بكرٍ – رضي الله عنه – وقال: هل أنا ومالي إلا لك يا رسول الله؟!

 جتنا ابوبکر کے مال نے مجھے (مسلمانوں کو) نفع دیا ہے اتنا کسی اور مال نے نہیں دیا۔ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رونا شروع کردیااور عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ ! میں اور میرا مال تو آپ ہی کے لئے ہیں۔

 وكان المِعطاءُ عمر بن الخطاب – رضي الله عنه – يتعاهَدُ كلَّ ليلةٍ عجوزًا عمياءَ مُقعَدةً بما يُصلِحُها ويُخرِجُ الأذَى عن بيتِها.

اور سخاوت کے پیکر  عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہر رات ایک نابینا معذور بوڑھی خاتون کی دیکھ بھال کرتے ، ان کی خدمت کرتے اور ان کے گھر سے پریشانی کو دور کرتے۔

ومُصعبُ بن عُميرٍ – رضي الله عنه – يُقدِّمُ صورةً من صُور العطاء؛ فيقدُمُ المدينة وفي غُضونِ عامٍ يدخلُ الإسلامُ أكثرَ بيوت المدينة.

اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ  نے بھی سخاوت کی کئی مثالیں پیش کیں؛  وہ مدینہ تشریف لاتے اور  سال کے دوران ہی مدینہ کے اکثر گھر اسلام میں داخل ہوجاتے۔

ووقفَ سعدُ بن معاذ مُعبِّرًا عن عطاء الأنصار بالنَّفسِ والنَّفيس فقال: “يا رسول الله! والذي بعثَكَ بالحقِّ؛ لو استعرضتَ بنا هذا البحرَ فخُضتَه لخُضناه معك، صِل من شئت، واقطَع من شئت، وخُذ من أموالِنا ما شِئت، وما نكرهُ أن نلقَى عدوَّنا غدًا، وإنا لصُبرٌ عند الحرب، صُدْقٌ عند اللقاء، لعلَّ اللهَ يُريكَ منَّا ما تقرُّ به عينُك”.

اور سعد رضی اللہ عنہ تو بنفس نفیس انصار کی سخاوت کا مظاہرہ اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے؛ اگر آپ ہمیں اس سمندر میں داخل ہونے کا حکم دیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ داخل ہوجائیں گے، جس سے آپ  چاہیں ملیں  اور جس سے  چاہیں قطع تعلق کریں، اور ہمارے مالوں میں سے جتنا آپ چاہیں لے لیں۔ اور ہم کل دشمن کے مقابلہ سے نہیں گھبرارہے، ہم تو جنگ کے موقعہ پر صبر کا مظاہرہ کرنے والے ہیں، دشمن کے ساتھ مقابلے میں پکےّ ہیں،امید ہے کہ اللہ ہمارے ذریعہ آپ کو وہ کچھ دکھائے گا جس کی وجہ سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی۔

أما ابنُ عباس – رضي الله عنهما – فكان عطاؤه: أنه يجلِسُ في الحرم بعد الفجر فيقول: “هيَّا، عليَّ بأهل القرآن”، فيأتي أهلُ القرآن فيقرؤون إلى طلوع الشمس فيقول: “ارتفِعوا، ائتُوا بأهل الحديث”، فيسألونَه

ابن عباس رضی اللہ عنھما کی سخاوت کی مثال یہ ہے کہ وہ فجر کے بعد حرم میں بیٹھ جاتے اور فرماتے: آئیے، میں اہل قرآن (قاری و حافظ ) کے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہوں، اہل قرآن آتے اور سورج طلوع ہونے تک قرآن پڑھتے، وہ فرماتے آپ جائیں اور اہل حدیث (محدثین) کو لے  آئیں، اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے  (حدیث کے بارے میں)سوالات کرتے۔

ثم إذا انتهَى منهم قال: “ارتفِعوا، ائتُوا بأهل الفقهِ”، ثم أهل التفسير، ثم أهل العربية، وهكذا، ثم يُربِّي أصحابَه؛ فجمعَ في عطائِه الحُسنَيَيْن: بذلَ العلمِ، وكرمَ اليد.

پھر جب وہ محدثین کی مجلس سے فارغ ہوجاتے تو فرماتے کہ آپ جائیں اورفقہ والوں(فقہاء)  کو لے آئیں، پھر ان کے بعد تفسیر والے آتے اور پھر عربی والے،اور اس طرح تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہتا، پھر وہ اپنے دوست احباب کی تربیت کرتے؛ اس طرح انہوں نےدونوں سخاوتوں کو جمع کرلیا: تعلیم دینا، اور مال خرچ کرنا۔

سخاوت تو ہر میدان میں رواں دواں ہے، اس کے ذریعے سلف صالحین نے (مفاد پرستی کو چھوڑ کر اپنے شب و روز امت کے لئے وقف کرکے)  تاریخی واقعات کو سخاوت کے نمونہ میں بدل ڈالااور تاریخ کو نئے انداز سے پیش کیا، اور کتنی ہی پیاری بات ہے کہ مسلمان سخاوت اور دوسروں کے لئے خیر خواہی  کے جذبات رکھے۔ اور سچی سخاوت کی  نہ کوئی حد ہے اور نہ ہی کوئی شرط۔ یہ تو وہ سخاوت ہے جو سب کے لئے ہے چاہے آپ انہیں جانتے ہوں یا نہیں۔

اور سخاوت کو اپنانے والے لوگ کنجوسی، لالچ اورکراہیت(ناپسندیدگی) کو نہیں جانتے۔ جب آپ دوسروں پر خرچ کرتے  ہیں تو اس کے بدلے میں آپ کو بہت فائدہ ہوتا ہے، اور آپ کے اس خرچ سے کسی  ایسے یتیم کے دردبھرے اور افسردہ دل میں خوشی اور امید کی لہر ڈورتی ہے جو اپنے ماں باپ کی شفقت سے محروم ہواور وہ بیوہ جو بے سہارا ہو ( اسے سہارا مل جاتا ہے)۔

دنیا بھر  کے مسلمانوں اور  اپنے رشتہ داروں پر خرچ  کرنے سے ہی یہ فضیلت حاصل ہوگی۔اور میاں بیوی کے درمیان محبت، الفت اور رحم دلی کا تحفہ سخاوت ہے۔

سخاوت کا دروازہ بہت وسیع ہے؛  (جیساکہ ) جس نے آپ پر ظلم کیا اسے معاف کردینا، جس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا اس سے درگزر کنا، قطع رحمی کرنے والے سے صلہ رحمی کرنا، مسلم  و غیر مسلم کو دعوت دینا، معذرت کرنے والوں کا عذر قبول کرنا، غلطی کرنے والوں کو معاف کردینا، اور اپنے  بعض حقوق کو  چھوڑ دینا بھی سخاوت ہے۔

سخاوت  ایک ایسی نفع بخش  تجویز ہے جس کا تحفہ آپ اپنے عمل سے  لوگوں کو دے سکتے ہیں،علم و عمل،معرفت و معلومات  اور تجربہ کے ذریعہ، اکرام کے ذریعہ، وقت، عزت اور سفارش کے ذریعہ، اپنے جسمانی اعضاء کے ذریعہ لوگوں کی خدمت، (راستہ سے ) تکلیف دہ چیز کو ہٹانا، لوگوں کی بھلائی کے لئے بھاگ ڈور کرنا، اور اللہ کے راستہ میں جان کی قربانی دینا۔

سخاوت کا دروازہ ہر طبقہ اور گروہ کے لئے کھلا ہے ، اور (اس کا طریقہ بھی ) بہت ہی آسان ہے؛  مسکراہٹ، زیارت، اچھی بات، دعا، مالی تعاون، علاج  وغیرہ۔ تو ہم سخاوت کو کیوں نہ اپنائیں؟! ہم  سخاوت کے طریقوں کو کیوں نہ سیکھیں تاکہ لوگوں کو، اپنے وطن کو اور اپنی امت کو فائدہ دے سکیں۔

اور جب ہی توزندگی بامقصد ہوگی؛ معاملات خوشگوار،احساسات کی برتری، اوریہ سخاوت کی  سعادت سے مالا مال دل ہی ہیں جو دوسروں کی بھلائی کے لئے مشقت اٹھاتے ہیں،اور اپنی سخاوت کے  بدلہ میں قیامت کے لئے  مدد اور  سہارا تیار کرلیتے ہیں۔

امت کا کوئی بھی فرد ایسا نہیں جو سخاوت کی طاقت نہ رکھتا ہو،بلکہ وہ  اپنے آپ کو  لگام دے کر نیکی  کرنے سے روک دیتا ہے، اور اپنے آپ کو ہلاک کرلیتا ہے،اپنی قوت کو برباد کرلیتا ہے، اور اس کے جذبات بے جان مردار  ہوکر رہ جاتے ہیں۔ہم میں سے ہر ایک سخاوت پر قادر ہے،اپنے قول و عمل سے امت کی خدمت کرسکتے ہیں۔

اور یہ ہماری ذمہ داری  ہے کہ ہم اپنے آپ سے سخاوت (کے راستے ) کی رکاوٹوں کو دور کریں۔اور سب سے بڑی رکاوٹ عاجزی ہے جس سے اللہ کے رسول ﷺ نے پناہ مانگی ہے:

«اللهم إني أعوذُ بك من العَجز»

اے اللہ میں عاجزی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

اور عموماً یہی (عاجزی) محتاجگی اور ناکامی کا سبب بنتی ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ کا حکم ہے:

«واستعِن بالله ولا تعجِز»

اور اللہ سے مدد مانگیں اور عاجز نہ ہوجائیں۔

عاجزی ہّمت کو پست کردیتی ہے، توقعات کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے، سخاوت کی رغبت کو ختم کردیتی ہے؛ پھر آپ اپنے آپ سے اور اپنی سخاوت سے بڑا فائدہ کھودیتے ہیں،اور آپ ساری زندگی اپنی قوت و طاقت کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرسکتے۔اور عاجز  انسان بے بنیاد اور فضول باتوں کی وجہ سےعاجزی کو اپنے اوپر سوار کر لیتا ہے۔

اور اسی حوصلہ شکن عاجزی کی وجہ سے بعض مسلمان ہاتھ پھیلا کر مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں،ہر وقت مانگتے رہتے ہیں مگر پیٹ نہیں بھرتا۔اور  زندگی بھر کے لئے گھونگھا، مفاد پرست اور لالچی  بن جاتا ہے، اور اس کی ہمت کمزور ہوجاتی ہے، ہمیشہ دوسروں کے مال کی طرف جھانکتا رہتا ہے،  حالات بہتر ہونے کے باوجود بھی فقیری  کی زندگی گزارتا ہے اور سخاوت سے نفرت کرتا ہے۔

«استعِن باللهِ ولا تعجز»

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کھڑے ہوجائیں اور نیند سے اُٹھ جائیں اور  جلدی کریں اور  نکل کھڑے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اس  ( کام) کی ابتداء سے انتہاء تک اللہ سے مدد مانگیں۔آپ دیکھیں گے کہ بھلائی پھیل رہی ہے، مدد بڑھ رہی ہے، اور آپ کے رب کی توفیق آپ  کی  معاون و مددگار ہوگی۔

میرے مسلمان بھائی!

سخاوت  کا سخی پر، لوگوں پر اور امت پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے؛ سخاوت ہی فرد و امت کی قوت کوبڑھاتی ہے، اور اسی کے ذریعہ ترقی کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں، امت کو عزت ملتی ہے اور افراد کے درمیان اعتماد بحال ہوتا ہے،اور لوگ سخی انسان  کو پسند کرتے ہیں،پوری قوم اس کا احترام کرتی  ہےاور اس سے خوشی ملتی ہے اور اسکا رب بھی اس سے خوش ہوتا ہے۔اور سخی کے دروازے پر اس کی ہمیشگی کی حاضری اور بھلائی کی وجہ سےلوگوں کی رونق ہوتی ہے، اس کی سخاوت جاری رہتی ہے، اس کا نفع  بڑا ہی عظیم اور دوسروں  کو پہنچتا ہے۔

اور جیسے ہی  آپ کے دل میں اللہ کی رضا کی خاطر سخاوت کا جذبہ جگہ لے اس کی خوشی سے آپ کا دل باغ باغ ہوجائے گا،کیونکہ سخاوت کی ایک خاص لذّت ہے جو عطاء کیے جانے والے سے زیادہ عطاء کرنے والے کو حاصل ہوتی ہے۔اور بھلائی ، خرچ اور لوگوں کی مدد کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے  انسان بہت سے ایسے غموں سے بچ جاتا ہے جو اس کی زندگی کو دشوار کردیتے ہیں۔

تو اپنے آپ کو سخی لوگوں کی فہرست میں شمار کیجئے، اورسخاوت کے راہنما بن جائیں، اوپر ہاتھ والے(دینے والے) بنیں،  جو دے گا اللہ اسے اور دے گا اور اللہ کی دین بے انتہاءبا برکت ہےاور اسکی مدد کبھی ختم نہیں ہوتی۔

اور آج ہماری امت کوبڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور فتنوں  اور جنگوں کے شعلوں سے جل رہی ہے ۔اس امت کے لئے سخاوت کے مقاصدکو زندہ کرنا بہت ضروری ہے؛ تاکہ ہم برستی ہوئی جہالت کوعلم کے ذریعہ دور کرسکیں،اور بڑھتی  ہوئی غربت کو مال  کے خرچہ اوراضافہ کے ذریعہ ختم کرسکیں، اور یتیمی کو کفالت اور سرپرستی کے ذریعہ، اور پھیلتی ہوئے خوف کو امن کے ذریعہ، جنگ کو سلامتی کے ذریعہ، اور فساد کو نگرانی اور پاک دامنی کے ذریعہ دور کرسکیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ 

الزلزال – 7

تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

اللہ مجھے اور آپ کو قرآن کریم میں برکت عطا فرمائے، اور مجھے اور آپ کو قرآنی آیات اور ذکر حکیم سے نفع پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہہ رہا ہوں اور اپنے لئے اور آپ سب کے لئے  اللہ سے  مغفرت مانگتا ہوں۔ آپ  سب بھی  اسی سے مغفرت مانگیں۔بیشک وہ بہت زیادہ معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے،ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اسلام کی عظیم نعمت سے مالامال کیا، میں  مسلسل نعمتوں پر اللہ سبحانہ کی تعریف اور شکر کرتا ہوں۔ اور  میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، یہ ایسی گواہی ہے جس کے ذریعہ سلامتی  والے گھر(جنت) میں مجھے امن کی امید ہے،اور میں گواہی دیتا ہوں  کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جو لوگوں کو سلامتی والے گھر(جنت) کی دعوت دیتے رہے، اللہ ان پر اور انکی  آل پر اور انکے صحابہ پر مکمل طور پر قائم و دائم رہنے والی رحمتیں بھیج دے۔

حمد و ثناء اور درود و سلام کے بعد:

میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔

سخاوت کومقبول بنانے، نفع بخش  اور تسلسل سے قائم رکھنے کے لئے  ضروری ہے کہ نفسانی خواہشات، ریاکاری،شہرت اور سستتی سے پرہیز کی جائے، سخاوت کو جاری رکھیں اگرچہ کم ہی ہو؛ اور جاری رہنے والا تھوڑا عمل اس عمل سے بہتر ہے جو زیادہ تو ہو مگر دیرپا نہ ہو۔مسلسل قطروں سے ہی دریا بنتا ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے:

«أحبُّ الأعمال إلى الله أدومُها وإن قلَّ»

اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو مسلسل ہو اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔

سخاوت اگرچہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو اللہ تبارک وتعالی اس میں برکت عطا فرماتا ہے اور اسے بڑھا دیتا ہے، اور اللہ نیکی کرنے والے کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔

ایک حدیث میں ہے:

«مرَّ رجلٌ بغُصن شجرةٍ على ظهر طريقٍ فقال: والله لأُنحِّيَنَّ هذا عن المُسلمين لا يُؤذِيهم، فأُدخِلَ الجنة»

ایک شخص کسی راستہ میں درخت کی ٹہنی کے قریب سے گزرا تو اس نے یہ قسم کھائی کہ اللہ کی قسم میں اسے ضرور کاٹ  دیتا ہوں تاکہ مسلمانوں کو تکلیف نہ ہو،(اس عمل کی بدولت) اسے اللہ تعالی نے  جنت میں داخل کردیا۔

صحیح حدیث میں ہے:

«أن امرأةً بغيًّا سقَت كلبًا يلهَث، فغفَرَ الله لها»، وقال رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم -: «أحبُّ الناسِ إلى الله أنفعُهم للناس»

ایک سرکش خاتون نے ایک کتے کو پانی پلایا جوشدتِ پیاس سے ہانپ رہا تھا تو اللہ نے اسے معاف فرمادیا۔

اور اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:

«أحبُّ الناسِ إلى الله أنفعُهم للناس»

اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ترین شخص وہ ہے جو لوگوں کے لئے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔(یعنی جو شخص جتنا زیادہ امت کو فائدہ دے گا اتنا ہی وہ اللہ کے نزدیک بہتر ہوگا)۔

اللہ کے بندوں!

سنیئے!  رسولِ ہدایتﷺپر درود بھیجیں؛ اللہ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں اس کا حکم دیا ہے اور فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

بیشک اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں پیغمبر پر پس تم بھی اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ان پر درود بھی بھیجتے رہا کرو اور خوب خوب سلام بھی۔

یا اللہ ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر درود اور رحمتیں نازل فرما۔

یا اللہ!اے  سب سے زیادہ رحم کرنے والے! ہدایت یافتہ چاروں خلفاءسیدنا ابوبکر ، عمر، عثمان و علی  سے راضی ہوجا،اور نبی کےعزت دار  آل و صحابہ سے بھی راضی ہوجا، اور اپنی مہربانی، کرم اور احسان کے  ذریعہ ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا۔

یا اللہ! اسلام اور مسلانوں کو عزت عطا فرما۔ یا اللہ! اسلام اور مسلانوں کو عزت عطا فرما۔ یا اللہ! اسلام اور مسلانوں کو عزت عطا فرما۔اور کفر اور کافروں کو رسوا کردے۔

یا اللہ! اپنے اور اپنے دین  کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔ یا اللہ! اس  ملک سمیت تمام مسلم ممالک کو امن کا گہوارا بنادے۔

یا اللہ! تو جانتا ہے کہ شام میں ہمارے مسلمان بھائیوں پر کتنی مصیبتیں  ڈالی گئی ہیں یا اللہ تو ان مصیبتوں کو دور کرنے پر قادر ہے، یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! انہیں  ان مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات عطا فرما۔

یا اللہ! وہ  جوتیوں سے محروم ہیں انہیں جوتیاں عطا فرما، وہ لباس سے محروم ہیں انہیں لباس عطا فرما۔وہ بھوک میں مبتلا ہیں انہیں کھانا مہیا فرما۔وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے۔ وہ مظلوم ہیں ان کی حفاظت فرما۔ وہ مظلوم ہیں ان کی مدد فرما۔

اے اللہ!  کتاب کو نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے! لشکروں کو شکست دینے والے ! اہل شام کےدشمنوں کو شکست دیدے۔

اے تمام جہانوں کے پروردگار! تو ہی دشمنوں کے مقابلے میں اہل شام کی مدد فرما۔

یا اللہ! ہمارے شامی بھائیوں کی فوری مدد فرما۔

یا اللہ!  یا رب العالمین!  اے نہایت رحم کرنے والے! اے  طاقتور!  اے قوت والے اے غالب  رہنے والے! ان کی صفوں میں اتحاد پیدا فرما۔ اور ان کے دلوں کو مضبوط کردے۔ان کو ایک بات پر متفق کردے۔ انکی مدد فرما اور ان کے نشانوں کوسیدھا کردے۔بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے ہدایت،عفت(نا جائز کاموں  سے بچنے کی توفیق) اور غِنَی (لوگوں کی محتاجگی  سے محفوظ رہنے کی توفیق) مانگتے ہیں ۔

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت کا  اور اس قول و عمل  کاسوال کرتے ہیں جوجنت میں جانے کا وسیلہ  بنے۔اور آگ سے اور ہر اس قول و عمل سے تیری پناہ مانگتے ہیں جو آگ میں جانے کا سبب بنے۔

یا اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جو ہمارے معاملات میں  عصمت (گناہوں سے بچنے) کا باعث ہے۔اور ہماری دنیا کو بھی سنوار دے جو ہمارے لئے ذریعہء معاش ہے۔اور ہماری آخرت بھی بہتر فرما جس میں ہمارا انجام ہے۔

اے اللہ!  اے تمام جہانوں کے رب! ہماری زندگی کوہر بھلائی میں اضافے کا ذریعہ بنادے،اور موت کو ہر برائی سے راحت کاسبب بنادے ۔

یا اللہ! ہماری معاونت فرما،  ہمارے مخالفین کی  معاونت نہ کرنا۔ یا اللہ ہماری مدد فرما، ہمارے مد مقابل کی مدد نہ فرمانا۔ اپنا مکر ہمارے حق میں فرمانا، ہمارے خلاف نہ کرنا۔ہمیں ہدایت عطا فرمااور ہدایت کو ہمارے لئے آسان فرما۔حد سے گزر جانے والوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

یا اللہ! ہمیں اپنا(تیرا) ذکر اور شکر کرنے والا بنادے۔ اپنے سامنے عاجزی و انکساری کرنے والا بنادے۔ اپنے سامنے  گڑا گڑا کر دعائیں کرنے والا اور اپنی ہی طرف لوٹ کر آنے والا بنادے۔

یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرمالے۔ہمارے گناہوں کو دھودے۔ہماری معذرت کومقبول فرمادے۔ہماری زبانیں سیدھی فرما دے۔

اے اللہ! ہم تجھ سے تیری رضا اور جنت مانگتے ہیں،  اورتیرے غصہ اور آگ سے تیری ہی پناہ مانگتے ہیں۔

یا اللہ ! اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اپنی رحمت کے ذریعہ تمام پریشان حال مسلمانوں کی پریشانی دور فرما۔اور انکی مصیبتوں کو ٹال دے۔ اور قرض داروں کو قرضہ سے نجات دے۔ اور ہمارے  اور تمام مسلمانوں کے مریضوں کو شفاء  عطا فرما۔ اے اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! ہمارے امام کو ہر اس کام کی توفیق عطا فرما جس سے تو  خوش اور راضی ہوتا ہے۔اور اسے صحت و سلامتی کا لباس پہنادے۔بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! تمام مسلمانوں کے اُمراء (امیر المومنین) کواپنی کتاب پر عمل کرنے اور شریعت کو نافذ کرنے  کی توفیق عطا فرما۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

الاعراف – 23

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

البقرة – 201

اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے  اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

الحشر – 10

اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کہیں (اور دشمنی) نہ ڈال  اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل – 90

اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے،  وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

اللہ کا ذکر کرو وہ تمہارا ذکر کرے گا اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو  وہ تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے گا۔اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

***

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ : مسجد نبوی کے معروف خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ داکٹر عبدالباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ کا ہے ، جن کے علمی خطبات ایک شہرہ رکھتے ہیں۔