ایک دن نبی ﷺ کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے۔ اچانک ایک اونٹ آیا اور آپ ﷺ کے قدموں میں لوٹنے لگا۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ نبی ﷺ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ پرسکون ہوگیا پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ تو وہ دوڑتا ہوا آیا۔ آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت میں کر دیا ہے، اللہ سے ڈرتے نہیں؟ یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے محنت و مشقت کا کام زیادہ لیتے ہو۔‘‘1
ظلم چاہے انسان کے ساتھ ہو کہ جانور کے ساتھ دونوں صورتوں میں ناقابلِ قبول اور اللہ تعالی کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ انسان تو پھر بھی عقل و شعور رکھتا ہے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف عملی رد عمل نہیں تو کم از کم زبان سے تو اس کے خلاف بولنے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ تو بے زبان جانور ہیں کہ جو ان دونوں نعمتوں سے محروم ہیں لہذا اس اعتبار سے ان پر ظلم کرنا یقینا ظلم کی بھی بدترین صورت ہے! یہی وجہ ہے جانوروں کے ساتھ مبنی بر ظلم رویہ رکھنے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ جس طرح انسان کے چہرے پر مارنے سے منع کیا گیا ہے اسی طرح جانوروں کے چہروں پر بھی مارنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے لیے تو نبی ﷺ نے بد دعا فرمائی ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے چہرہ کو داغ دیا گیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تمہیں یہ بات نہیں پہنچی ہے کہ میں نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو جانوروں کے چہرے کو داغ دے یا ان کے چہرہ پہ مارے“ پھر آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا۔2
بلاشبہ حیوانات اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم نعمت ہیں کہ جنہیں نہ صرف انسانوں کے تابع کیا گیا ہے بلکہ انسانوں کے بے شمار مفادات بھی انہی سے وابستہ ہیں۔ دین اسلام نے ان جانوروں کو جوغیرمعمولی حیثیت دی ہے اسے بیان کرنے کے لیے یہی بات کہہ دینا کافی ہے کہ قرآن مجید میں متعدد حیوانات کا تذکرہ کیا گیا ہے بلکہ کئی ایک سورتیں البقرۃ (گائے )، الا ٔنعام (چوپائے)، النحل (شہد کی مکھی)، النمل (چیونٹی)، العنکبوت (مکڑی)، الفیل (ہاتھی) ہیں کہ جنہیں حیوانات کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔
جس طرح کسی انسان پر ظلم و زیادتی کرنا حرام ہے اسی طرح ان بے زبان جانوروں پر بھی ظلم و زیادتی کرنا حرام ہے حتی کہ ان حیوانات کو بلاوجہ جسمانی اذیت دینا تو دور کی بات ان کو برا بھلا کہنے اور ان پر لعنت کرنے سے بھی نبی ﷺ منع فرمایا ہے تاکہ اس خود غرضی پر قائم رویے کی (کہ جانوروں سے فائدہ بھی حاصل کیا جائے اور انہیں تکلیف بھی پہنچائی جائے چاہے وہ زبان ہی سے کیوں نہ ہو) حوصلہ شکنی ہو۔ چنانچہ ایک خاتون نے جب اپنی سواری (اونٹنی) پر لعنت کی تو آپ ﷺ نے بطورِ زجر و توبیخ (ڈانٹ کے) اس سواری کو استعمال کرنے سے منع فرما دیا اور فرمایا ” اس سے (کجاوہ اور سامان ) اتار دو بلاشبہ یہ اب ملعونہ ہے۔“ چنانچہ صحابہ نے اس سے ( سامان وغیرہ ) اتار دیا.3
ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے مرغی کو گالی دینے سے منع فرمایا: چنانچہ فرمایا:
مرغ کو گالی نہ دو چونکہ وہ نماز کے لیے جگاتا ہے۔4‘‘
سوچیے کہ جب زبان سے ان جانوروں کو تکلیف پہنچانے سے منع کیا گیا ہے حالانکہ یہ ان باتوں کو سمجھتے بھی نہیں ہیں تو ہاتھوں سے ان پر ظلم کرنا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانا یا ان کے کسی عضوء کو کاٹ ڈالنا اس کی کیونکر اجازت ہوسکتی ہے!؟
جانوروں پر ظلم کرنے کا انجام:
ایک بندۂ مؤمن کے لیے سب سے بڑی وعید جہنم ہے اور جس عمل پر یہ وعید وارد ہوئی ہو یقینا وہ کام بھی انتہائی ملعون اور قابلِ نفرت ہے۔ جانوروں پر ظلم کرنے کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔ ایک عورت کو اس لیےعذاب دیا گیا کہ وہ بلی کو باندھ کر رکھتی تھی۔ نہ کھلاتی نہ پلاتی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ وہ خود کچھ کھا لے۔‘‘5
جانور کے ساتھ حسنِ سلوک کا انجام:
جس طرح ایک بندۂ مؤمن کے لیے جہنم کی وعید سب سے خطرناک وعید ہے اسی طرح کسی عمل پر مغفرت کا وعدہ اس کے لیے ایک عظیم خوشخبری ہے کہ جو اسے اس عمل کو سر انجام دینے پر ابھارتا ہے۔ چنانچہ ایک بدکارعورت کو محض جانور کے ساتھ حسنِ سلوک کی بنا پر بخش دیا جانا یہ اس عمل کی عظمت اور اللہ تعالی کی خوشنودی کی دلیل ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ایک دفعہ کوئی کتا کسی کنویں کے چاروں طرف گھوم رہا تھا۔ قریب تھا کہ پیاس کی شدت سے اس کی جان نکل جائے۔ اچانک بنی اسرائیل کی ایک بدکارہ عورت نے اسے دیکھ لیا تو اس نے اپنا موزہ اتارا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی عمل کی وجہ سے اسے معاف کر دیا گیا۔6
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے ساتھ بد سلوکی کرنے والوں کو بد دعا دی ہے۔
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’ان کا گزر قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے ہوا جو کسی پرندے یا مرغی کو نشانہ بنا رہے تھے۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھا تو وہ وہاں سے منتشر ہوگئے اور فرمایا کہ نبی ﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو کسی جاندار چیز کو باندھ کر اس پر نشانہ لگائے۔7
غور کیجیے کہ جس عمل پر نبی ﷺ نے لعنت فرمائی ہو اور وہ انسان کو جھنم کی طرف لے جاتا ہو تو وہ اللہ تعالی کے نزدیک کتنا سنگین جرم ہوگا؟
نبی ﷺ نے تو ہر ان امور سے منع فرمایا ہے کہ جس سے جانوروں کو تکلیف پہنچتی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے بھی منع فرمایا ہے۔8
یہاں تک کہ جانور کو ذبح کرنے کے بھی آداب بیان فرمائے ہیں تاکہ انسان کی کسی لاپرواہی کی وجہ سے جانوروں کو تکلیف نہ ہو۔ چنانچہ ایک شخص بکری کو لٹانے کے بعد جب چھری کو تیز کرنے لگا تو نبی ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس کو دو موت مارنا چاہتے ہو؟ کیوں تم نے اپنی چھری کو اس کے لٹانے سے پہلے تیز نہیں کر لیا؟۔9
نیز فرمایا:” جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، اپنی چھری کو تیز کرلو اور جانور کو آرام دو‘‘۔10
محترم قارئین!
نبی ﷺ نے جانوروں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کا حکم دیا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم جانوروں کے ساتھ اپنے برتاؤ کا جائزہ لیں کہ کیا ہمارا جانوروں کے ساتھ وہی برتاؤ ہے کہ جس کی تاکید ہمیں کی گئی ہے؟ کہیں ہم بھی جانوروں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرکے اللہ تعالی کے عذاب کے مستحق تو نہیں ٹھہر رہے؟ ضرور سوچیے!
کیا انڈیا ایک سیکولر ملک ہے؟ "آپریشن سندور" کیا پیغام دیتا ہے؟ کیا پہلگام حملہ…
Manufacturing Contract سے کیا مراد ہے؟ کیا آڈر پر چیزیں بنوائی جاسکتی ہیں؟ آڈر پر…
پاک بھارت جنگ کیا زمینی تنازعہ ہے؟ پہلی اسلامی ریاست مدینہ اور پاکستان کا آپس…
حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے، جس…
کیا صرف انڈیا پاکستان کا دشمن ہے؟ پاک بھارت جنگ کو "دو طرفہ مسئلہ" کہنے…
کن حالات یا اسباب کی بنا پر جنگ میں ناکامی کا سامنا ہو سکتا ہے؟…