دیدار الہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی یہ سعادت مؤمنوں کو آخرت میں نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پرہیزگار بندوں اور اہل ایمان کے لئے جن نعمتوں کا وعدہ کیا ہے، اور جن نعمتوں کی لذت سے وہ آخرت میں ہمکنارہوں گے، ان میں سے سب سے عظیم تر نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت میں مؤمنوں کو اپنا دیدار کرائیں گے، یہ جنت کی نعمتوں میں سے سب سے عظیم نعمت ہوگی اور اس کی لذت تمام نعمتوں کی لذت پرغالب ہوگی، بلکہ اس کی لذت پانے کے بعد جنتی جنت کی لذت کی تمام چیزوں اور ان کی لذتوں کو بھول جائیں گے۔ آئیے! جانتے ہیں وہ کونسے اعمال ہیں جن کی بدولت آپ جنت میں اللہ کا دیدار کر سکیں گے۔
جنت میں دیدار الٰہی كا ذریعہ بننے کا پہلا عمل یہ ہے كہ بندہ دینِ اسلام کی پیروی کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجائے، کیونکہ کافر کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب نہیں ہوگا ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ
المطففین – 15
ہرگز نہیں یقیناً ایسے لوگ! اس دن اپنے پروردگار کے دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔
یعنی ان کے کفر ومعاصی کی ایک سزا یہ ملے گی کہ وہ قیامت کے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم کر دیئےجائیں گے۔ معلوم ہوا کہ مومنین اپنے رب کو دیکھیں گے اور کفار اس نعمت سے محروم کردیئے جائیں گے۔
دوسرے مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ
القیامة – 22/23
اس روز بہت سے چہرے ترو تازہ اور بارونق ہوں گے۔ اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے۔
معلوم ہوا کہ قیامت کے دن نیک بندوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہو گا اور اس خوشی میں ان کے چہرے تروتازہ اور چمک رہے ہوں گے۔
سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ عِيانًا.
صحیح البخاری – 7435
تم اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے صاف دیکھو گے۔
دیدارِالہی کا ایک ذریعہ دعا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے اس کے دیدار نصیب ہونے کی خوب دعا کریں ، حضرت قیس بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتےتھے :
صلَّى عمَّارُ بنُ ياسرٍ بالقومِ صلاةً أخفَّها ، فَكأنَّهم أنْكروها ! فقالَ : ألم أُتمَّ الرُّكوعَ والسُّجودَ ؟ قالوا : بلى ، قالَ أمَّا أنِّي دعوتُ فيها بدعاءٍ كانَ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ يدعو بِهِ ’’ اللَّهمَّ بعِلمِكَ الغيبَ وقدرتِكَ على الخلقِ أحيني ما علمتَ الحياةَ خيرًا لي وتوفَّني إذا علمتَ الوفاةَ خيرًا لي وأسألُكَ خشيتَكَ في الغيبِ والشَّهادةِ وَكلمةَ الإخلاصِ في الرِّضا والغضبِ وأسألُكَ نعيمًا لاَ ينفدُ وقرَّةَ عينٍ لاَ تنقطعُ وأسألُكَ الرِّضاءَ بالقضاءِ وبردَ العيشِ بعدَ الموتِ ولذَّةَ النَّظرِ إلى وجْهِكَ والشَّوقَ إلى لقائِكَ وأعوذُ بِكَ من ضرَّاءٍ مُضرَّةٍ وفتنةٍ مضلَّةٍ اللَّهمَّ زيِّنَّا بزينةِ الإيمانِ واجعَلنا هداةً مُهتدين‘‘ .
سنن النسائی – 1305
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور اسے ہلکی پڑھائی، تو لوگوں نے اسے ناپسند کیا، تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں نے رکوع اور سجدے پورے پورے نہیں کیے ہیں؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور کئے ہیں، پھر حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہنے لگے: سنو! میں نے اس میں ایسی دعا پڑھی ہے جس کو نبی کریم ﷺ پڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے:
اللَّهمَّ بعِلمِكَ الغيبَ وقدرتِكَ على الخلقِ أحيني ما علمتَ الحياةَ خيرًا لي وتوفَّني إذا علمتَ الوفاةَ خيرًا لي وأسألُكَ خشيتَكَ في الغيبِ والشَّهادةِ وَكلمةَ الإخلاصِ في الرِّضا والغضبِ وأسألُكَ نعيمًا لاَ ينفدُ وقرَّةَ عينٍ لاَ تنقطعُ وأسألُكَ الرِّضاءَ بالقضاءِ وبردَ العيشِ بعدَ الموتِ ولذَّةَ النَّظرِ إلى وجْهِكَ والشَّوقَ إلى لقائِكَ وأعوذُ بِكَ من ضرَّاءٍ مُضرَّةٍ وفتنةٍ مضلَّةٍ اللَّهمَّ زيِّنَّا بزينةِ الإيمانِ واجعَلنا هداةً مُهتدين
”اے اللہ! میں تیرے علم غیب اور تمام مخلوق پر تیری قدرت کے واسطہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک تو جانے کہ زندگی میرے لیے باعث خیر ہے، اور مجھے موت دیدے جب تو جانے کہ موت میرے لیے بہتر ہے، اے اللہ! میں غیب و حضور دونوں حالتوں میں تیری خشیت کا طلب گار ہوں، اور میں تجھ سے خوشی و ناراضگی دونوں حالتوں میں کلمہ اخلاص کی توفیق مانگتا ہوں، اور میں تجھ سے ایسی نعمت مانگتا ہوں جو ختم نہ ہو، اور میں تجھ سے ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک کا طلبگار ہوں جو منقطع نہ ہو، اور میں تجھ سے تیری قضاء پر رضا کا سوال کرتا ہوں، اور میں تجھ سے موت کے بعد کی راحت اور آسائش کا طلبگار ہوں، اور میں تجھ سے تیرے دیدار کی لذت، اور تیری ملاقات کے شوق کا طلبگار ہوں، اور پناہ چاہتا ہوں تیری اس مصیبت سے جس پر صبر نہ ہو سکے، اور ایسے فتنے سے جو گمراہ کر دے، اے اللہ! ہم کو ایمان کے زیور سے آراستہ رکھ، اور ہم کو راہنما و ہدایت یافتہ بنا دے“۔
جنت میں دیدارِالہی حاصل کرنے کا ایک عمل تمام نمازوں کی پابندی کے ساتھ نمازِ فجر اور عصر کی پابندی ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے آپ ﷺ نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا:
إنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كما تَرَوْنَ هذا القَمَرَ، لا تُضَامُّونَ في رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أنْ لا تُغْلَبُوا علَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا
صحیح البخاری – 554 / صحیح مسلم – 182
کہ تم لوگ اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی دقت نہ ہو گ ، پس اگر تم سے سورج کے طلوع اورغروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو۔
جنت میں دیدارِالہی کا ایک ذریعہ گناہوں سے اجتناب ہے ، سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ثَلاثَةٌ لا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَومَ القِيامَةِ، ولا يَنْظُرُ إليهِم ولا يُزَكِّيهِمْ ولَهُمْ عَذابٌ ألِيمٌ قالَ: فَقَرَأَها رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ ثَلاثَ مِرار، قالَ أبو ذَرٍّ: خابُوا وخَسِرُوا، مَن هُمْ يا رَسولَ اللهِ؟ قالَ: المُسْبِلُ، والْمَنَّانُ، والْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بالحَلِفِ الكاذِبِ
صحیح مسلم – 106
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے اللہ بات نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف رحمت کی نگاہ سے دیکھے گا۔ نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔ اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ “ آپ ﷺ نے تین بار یہ فرمایا تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: برباد ہو گئے،اور نقصان سے دوچار ہوگئے، وہ کون ہیں یا رسول اللہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایک تو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا، دوسرا وہ جو احسان کر کے اس کو جتانے والا، تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچنےوالا۔
ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ثلاثةٌ لا يُكلمهم الله يوم القيامة، ولا يُزَكِّيهم، ولا يَنظُر إليهم، ولهم عذابٌ أليم: شَيخٌ زَانٍ، ومَلِكٌ كذَّاب، وعَائِل مُسْتكبر
صحیح مسلم – 107
”تین قسم کے آدمیوں سے نہ تو اللہ تعالی روزِ قیامت کلام کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اورنہ ان کی طرف دیکھے گا اور انہیں درناک عذاب ہوگا: بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور تکبر کرنے والا مفلس“۔
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ثلاثةٌ لا ينظرُ اللهُ إليهم يومَ القيامةِ : العاقُّ لوالدَيْه ، ومُدمنُ الخمرِ، والمنَّانُ عطاءَه
السلسلة الصحیحة – 3099
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا۔ اپنے والدین کی نا فرمانی کرنے والا، مستقل شراب پنےی والا اور اپنی دی ہوئی چیز پر احسان جتلانے والا۔
دیدارِ الہی کا ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق اور اس کے دیدار کی چاہت ہے، رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
مَن أحَبَّ لِقاءَ اللَّهِ أحَبَّ اللَّهُ لِقاءَهُ، ومَن كَرِهَ لِقاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقاءَهُ. قالَتْ عائِشَةُ أوْ بَعْضُ أزْواجِهِ: إنَّا لَنَكْرَهُ المَوْتَ، قالَ: ليسَ ذاكِ، ولَكِنَّ المُؤْمِنَ إذا حَضَرَهُ المَوْتُ بُشِّرَ برِضْوانِ اللَّهِ وكَرامَتِهِ، فليسَ شَيءٌ أحَبَّ إلَيْهِ ممَّا أمامَهُ؛ فأحَبَّ لِقاءَ اللَّهِ، وأَحَبَّ اللَّهُ لِقاءَهُ، وإنَّ الكافِرَ إذا حُضِرَ بُشِّرَ بعَذابِ اللَّهِ وعُقُوبَتِهِ، فليسَ شَيءٌ أكْرَهَ إلَيْهِ ممَّا أمامَهُ؛ كَرِهَ لِقاءَ اللَّهِ، وكَرِهَ اللَّهُ لِقاءَهُ.
صحیح البخاری – 6507
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ سے ملنے کو پسند کرتا ہے ، اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔ اورعا ئشہ رضی اللہ عنہا یا نبی اکرم ﷺ کی بعض ازواج نے عرض کیا کہ مرنا تو ہم بھی نہیں پسند کرتے؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ملنے سے موت مراد نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ایماندار آدمی کو جب موت آتی ہے جو اسے اللہ کی خوشنودی اور اس کے یہاں اس کی عزت کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ اس وقت مومن کو کوئی چیز اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتی جو اس کے آگے (اللہ سے ملاقات اور اس کی رضا اور جنت کے حصول کے لئے) ہوتی ہے ، اس لئے وہ اللہ سے ملاقات کا خواہش مند ہوجا تا ہے اور اللہ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جب کا فر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی بشارت دی جاتی ہے ، اس وقت کوئی چیز اس کے دل میں اس سے زیادہ ناگوار نہیں ہوتی جو اس کے آگے ہوتی ہے۔ وہ اللہ سے جاملنے کو ناپسند کرنے لگتا ہے ، پس اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتاہے۔
دیدارِ االہی کا ایک ذریعہ احسان ہے۔
احسان کا معنی یہ ہے کہ کسی بھی مخلوق کے لیے،کسی بھی قسم کی تمام اچھائی کے کام کو انجام دینا۔
امام جرجانی کہتے ہیں کہ احسان سے مراد وہ عمل ہے جو دنیا میں قابل تعریف ہو اور آخرت میں باعث اجرو ثواب ہو۔ ( التعريفات للجرجاني ، ص:91)
احسان کی جامع تعریف
نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے، جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہو جا ئے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
احسان کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے مؤمن بندوں سے فرماتا ہے:
وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
البقرۃ – 195
تم احسان کرو، بے شک اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
احسان کرنے والوں کے لئے جنت اور دیدارِالہی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ
یونس – 26
جنہوں نے احسان کیا، ان کے لئے ’’حسنیٰ‘‘ یعنی حسین ترین بدلہ ہے اور اس پر اضافہ بھی ہوگا۔
نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تفسیرمیں ارشاد فرمایا کہ ’’حسُنیٰ‘‘ تو جنت ہے اور اضافہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رؤیت اور زیارت ایمان والےمحسنین کے لئے اضافی طور پر نصیب ہوگی۔ جیسا کہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا دَخَلَ أهْلُ الجَنَّةِ الجَنَّةَ، قالَ: يقولُ اللَّهُ تَبارَكَ وتَعالَى: تُرِيدُونَ شيئًا أزِيدُكُمْ؟ فيَقولونَ: ألَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنا؟ ألَمْ تُدْخِلْنا الجَنَّةَ، وتُنَجِّنا مِنَ النَّارِ؟ قالَ: فَيَكْشِفُ الحِجابَ، فَما أُعْطُوا شيئًا أحَبَّ إليهِم مِنَ النَّظَرِ إلى رَبِّهِمْ عزَّ وجلَّ. ثُمَّ تَلا هذِه الآيَةَ: {لِلَّذِينَ أحْسَنُوا الحُسْنَى وزِيادَةٌ ، )
صحیح مسلم – 181
جب اہلِ جنت جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: ’’تمھیں کوئی چیز چاہیے جو میں تمھیں مزید عطا کروں؟‘‘ وہ کہیں گے: ’’کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور آگ سے نجات نہیں دی؟‘‘ آپ ﷺ فرمایا: ’’پھر اللہ تعالیٰ پردہ ہٹا دے گا تو انہیں کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہو گی جو انہیں اپنے رب عزوجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: ﴿لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِيَادَةٌ (سورۃ یونس : 26) ’’جن لوگوں نے احسان کیا، ان کے لئے حسین ترین بدلہ ہے اور اس پر اضافہ بھی ہوگا‘‘۔ ( مزیدیا اضافہ سے رب تعالیٰ کا دیدار مراد ہے)۔
احسان کا وسیع دائرہ:
احسان کے متعلق آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ میں غورو فکر کرنے سے یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے کہ احسان کا یہ دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں انسان کا اپنا نفس اس کا گھرانہ اس کے رشتہ دار اقربا ءپھر انسانی معاشرہ سب داخل ہیں۔
اس میں سر فہرست والدین کے ساتھ احسان، خاوند کا بیویوں کے ساتھ احسان، بیویوں کا خاوند کے ساتھ احسان، بیٹیوں کے ساتھ احسان، بیواؤں ، مساکین، اور یتیموں کے ساتھ احسان، ہمسایہ کے ساتھ احسان، نوکروں اور خادموں سے احسان اورپھر عام انسانوں سے احسان شامل ہیں۔
اپنے نفس کےساتھ احسان :
یہ احسان کے دائروں میں سے سب سے پہلا دائرہ ہے۔ جو اللہ کے لئے عبادت میں اخلاص اور اس کی پوری اطاعت پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا
الاسراء – 7
اگر تم اچھائی کرو گے تو یہ تمہارے اپنے فائدے کے لئے ہے اور اگر برائی کرو گے تو بھی تمہارا اپنا نقصان ہے۔
والدین کے ساتھ احسان
دوسرا دائرہ والدین کے احسان پر مشتمل ہے: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا تو وہیں پر والدین کے ساتھ احسان کا بھی حکم دیا:
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
الاسراء – 23
تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ صرف اسی (اللہ) کی بندگی کرو اور اپنے ماں باپ کےساتھ احسان کرو۔
والدین کے ساتھ احسان سابقہ شریعتوں
والدین کے ساتھ احسان ایسا محکم حکم ہے جو پہلی شرائع میں بھی موجود رہا ہے۔ باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
البقرۃ – 83
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور ماں باپ سے احسان کرو گے۔
والدین کے ساتھ احسان یہ ہے کہ ان کے لئے تواضع اختیار کرنا۔ ان کے لئے رحمت کے بازو ہردم جھکا ئے رکھنا۔ ان کے سامنے آواز کو پست رکھنا۔ ان کی سرزنش نہ کرنا۔ ان سے رحمت وشفقت سے معاملہ کرنا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جَاءَ رَجُلٌ إلى رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَقالَ: يا رَسولَ اللَّهِ، مَن أحَقُّ النَّاسِ بحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قالَ: أُمُّكَ، قالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قالَ: ثُمَّ أُمُّكَ، قالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قالَ: ثُمَّ أُمُّكَ، قالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قالَ: ثُمَّ أبُوكَ.
صحیح البخاری: 5971
ایک شخص نے نبی کریم سے سوال کیا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا تیری ماں، پھر اس نے دوسری بار بوچھا کہ اس کے بعد؟ فرمایا: تیری ماں، پھر اس نے پوچھا کہ پھر کون؟ تو آپ نے فرمایا: تیری ماں، پھراس نے پوچھا کہ پھر کون؟ تو آپ نے فرمایا: تیرا باپ۔
رشتہ دار و اقرباء کے ساتھ احسان
اس میں نسبی قرابت دار اور ہمسائے سب داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ترغیب دی ہے فرمایا:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
البقرۃ – 83
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور ماں باپ اور قرابت والے اور یتیموں اور مسکینوں سے احسان کرو گے اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو، پھر تم پھر گئے مگر تم میں سے تھوڑے اور تم منہ پھیرنے والے تھے۔
اسی طرح حدیث شریف میں بھی ہمسایہ اور پڑوسی کے ساتھ احسان کرنے کی ترغیب دی گئی ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
وأحسِنْ جوارَ من جاورَك تكن مسلمًا
صحیح ابن ماجه – 3417
اپنے ہمسایہ کے ساتھ اچھے طریقے سے ہمسائیگی رکھو تو تم کامل مسلمان بنو گے۔
پورا معاشرہ اور سوسائٹی کے ساتھ احسان
احسان کا چوتھا دائرہ پچھلے دائروں سے زیادہ وسیع ہے۔اس لئے کہ اس میں وہ پورا معاشرہ اور سوسائٹی داخل ہے جس میں انسان زندگی گزارتا ہے ،اور اس میں احسان بنیادی طور پر کمزور طبقے کےساتھ تعلق رکھتا ہے جیسے یتیم ،مسکین ،مسافر اور ان جیسے دیگر محتاج۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا
النساء – 36
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ والدین سے اچھا سلوک کرو نیز قریبی رشتہ داروں، یتیموں ،مسکینوں، رشتہ دار ہمسائے، اجنبی ہمسائے، اپنے ہم نشین اور مسافر، ان سب سے اچھا سلوک کرو، نیز ان لونڈی، غلاموں سے بھی جو تمہارے قبضہ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ یقیناً مغرور اور خود پسند بننے والے کو پسند نہیں کرتا۔
عام انسانوں کے ساتھ احسان
احسان کا پانچواں دائرہ پچھلے دائروں سے بہت زیادہ پھیلا ہوا اور وسیع تر ہے۔ جو انسانی تعلقات پر مشتمل ہے حتی کے عقیدے میں مخالف لوگوں کے ساتھ بھی اس دائرے کا تعلق ہے۔ وہ یہ کہ ان سے در گزر کیا جائے ۔جیسا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
المائدۃ – 13
پھر جب انہوں نے بد عہدی کی تو ہم نے ان پر لعنت بھیج دی، اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا، چنانچہ وہ (اللہ کے) کلام میں لفظی (اور معنوی) تحریف پیدا کرنے لگے، اور جن باتوں کی انہیں نصیحت کی گئی تھی ان کا ایک بڑا حصہ فراموش کر بیٹھے، اوران میں سے چند کے علاوہ آپ کو ہمیشہ ہی ان کی کسی نہ کسی خیانت کی اطلاع ہوتی رہے گی، پس آپ انہیں معاف کردیجئے، اور درگذر کردیجئے، بے شک اللہ احسان اور بھلائی کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔
زندگی میں ہر چیز کے ساتھ احسان
ان پانچ دائروں کے ساتھ ہم ایک اور دائرہ بھی ملا سکتے ہیں جوان پانچوں سے زیادہ وسیع ہے اور وہ زندگی میں ہر چیز کے ساتھ احسان کرنے کا دائرہ ہے۔ چاہے وہ نباتات ہوں یا حیوان یاجمادات، قرآن کریم میں اس طرح اشارہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ
الاعراف – 56
اور زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پیدا کرو، اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارا کرو، بے شک اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے۔
خاوند کا بیوی کے ساتھ احسان
خاوند کا بیوی کے ساتھ احسان بمطابق حکم ربانی یوں ہے، تم ان کے ساتھ معاشرت کرو، ایسے اسلوب کے ساتھ جو معروف ہو، ایسا معاملہ کرو جو انہیں محبوب اور مرغوب ہو جسے اللہ بھی پسند کریں اللہ کے رسول بھی پسند کریں اور لوگوں کے ہاں بھی وہ پسندیدہ ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ تو جو نان ونفقہ صرف کرے جس سے اللہ کی رضا مطلوب ہو، اس پر تو مأجور ہے، اللہ کے ہاں سے اجر پائے گا۔ حتی کہ وہ لقمہ جو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے۔ لہٰذا خاوند کا بیوی سے حسن معاشرت، اس کی ایذاء سے اجتناب، اور اس کے ساتھ حسن معاملہ احسان ہے۔
بیوی کا خاوند کے ساتھ احسان
بیوی کا خاوند کے ساتھ احسان یہ ہے کہ وہ امانت دار ہو، صالح ہو، صابرہ ہو، وفا شعار ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پس صالح عورتیں صبر کرنے والی ، ان امور کی حفاظت کرنے والی ہیں جس کی حفاظت کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے‘‘۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: عورت اپنے خاوند کے مال اور اولاد کی نگران ہے۔ نیز فرمایا کہ: جو عورت ایسی ہو کہ اس کا خاوند اس پر راضی اور خوش ہے، وہ جنتی ہے۔
بچیوں کے ساتھ احسان
بچیوں کے ساتھ احسان یہ ہے کہ ان کی تربیت میں حسن اسلوب کو اختیار کیا جائے، انہیں اللہ تعالیٰ اور رسول کے فرامین پر عمل کرنے کی عادت ڈالی جائے، انہیں اسلامی آداب کا پابند بنانے کی تربیت دی جائے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: جس نے دو بچیوں کی حسن تربیت کی حتی کہ وہ بالغ ہوگئیں تو وہ شخص جنتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ایک عورت میرے گھر آئی اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، اس نے سوال کیا تو میرے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ بھی نہ تھا، وہ میں نے اسے دیدی، تو اس نے وہ کھجور دو بچیوں میں تقسیم کردی۔ اس نے خود اس میں سے کچھ نہ کھایا، پھر وہ اٹھی اور چلی گئی ۔ پھر نبی اکرم ﷺ گھر تشریف لائے تو میں نے یہ قصہ آپ کو سنایا تو آپ نے فرمایا: جس شخص کی اللہ نے بچیوں سے آزمائش کی او ر اس نے ان کے ساتھ احسان کیا وہ اس کے لئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔
بیوہ اور مسکین ویتیم کے ساتھ احسان
بیوہ اور مسکین ویتیم کے ساتھ احسان کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :بے خاوند عورتوں اورمسکین کی کفالت کے لئے کوشاں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے یا آپ ﷺ نے فرمایا: اس نمازی کی طرح ہے جو اسے ترک نہ کرے اور اس روزہ دار جیسا ہے جو افطار نہ کرے۔ یعنی ہمیشہ نماز اور روزہ میں رہے۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: اپنے یتیم یا غیر کے یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے، آپ نے انگوٹھے کے ساتھ والی اور درمیانی انگلی کو جمع کر کے یہ مذکورہ ارشاد فرمایا۔
ہمسایہ کے ساتھ احسان
ہمسایہ کے ساتھ احسان یہ ہے کہ بندئہ مؤمن اپنے ہمسایہ کی معاشی دینی اور اصلاحی خدمت کرے۔ چاہے وہ مال کے ہدیہ سے ہو یاقول صالح کہ اسے عمل صالح کی دعوت دے یا اس کے ساتھ قول وفعل میںشفقت ورحمت سے معاملہ کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے: تم اللہ کی عبادت کرو، اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ، ماں باپ سے احسان کرو، قرابت دار سے یتیموں اور مسکینوں اور قریبی ہمسایہ سے اور دور کے ہمسایہ سے احسان کرو۔ آنحضرت نے فرمایا :جبریل مجھے ہمسایہ کے بارے وصیت کرتے رہے حتیٰ کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث ٹھہرادیں گے۔ نیز فرمایا کہ جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے اسے اپنے ہمسایہ سے’’احسان‘‘ کرنا ہوگا۔
غیر مسلموں اور اہل کتاب کے ساتھ احسان
گفتگو اور مباحثہ میں غیر مسلموں اور اہل کتاب کے ساتھ بھی احسان لازم ہے تاکہ ان سے کیا جانے والا مباحثہ مطلوبہ اغراض و مقاصد اور نتائج و ثمرات سے ہمکنار ہو سکے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ
العنکبوت – 46
اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگرعمدہ طریقہ سے۔
تجارت میں احسان
تاجروں کے لیے شدید لازم ہے کہ وہ احسان اور رحم کی راہ اپنائیں اور مسلمانوں کے معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔ وہ اس استحصال سے باز رہیں جس کا موجودہ زمانہ میں چلن عام ہو چکا ہے۔ وہ ذخیرہ اندوزی نہ کریں اور زائد قیمت لینے سے احتراز کریں۔ یہ بات انھیں ہمیشہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ ان کا عظیم رب ان کی نیتوں، ان کے اقوال اور ان کے افعال کی خوب نگرانی کررہا ہے۔ یہ بھی ان کے ذہن نشین رہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک مومن اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ سو لازم ہے کہ تاجر حضرات لوگوں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آئیں اور صرف معقول منافع لیں۔ اسی میں ان کے لیے برکت ہوگی اور دنیا و آخرت میں اچھا انجام ہو گا۔ اللہ کا ارشاد ہے:
وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ
القصص – 77
’’ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے‘‘۔
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: إنَّ اللهَ كَتَبَ الإحْسَانَ علَى كُلِّ شيءٍ
صحیح مسلم – 1955
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (اچھے سلوک اور برتاؤ) كو فرض کیا ہے۔
اپنے عمل میں احسان کرنا
یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادات میں حسن پیدا کرنا، اور انہیں سلیقے اور قرینے سے ادا کرنا۔ صحیح بخاری کی روایت ہے ایک مرتبہ صحابہ کرام اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوا اور آپ کے بالکل قریب بیٹھ کر اُس نے چار سوال کیے اسلام کیا ہے؟ ایمان کیا ہے؟ احسان کیا ہے؟ اور قیامت کب واقع ہوگی؟ آپ نے اسلام اور ایمان کا جواب دینے کے بعد احسان کی تعریف یوں فرمائی:
أنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأنَّكَ تَرَاهُ، فإنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فإنَّه يَرَاكَ
صحیح البخاری – 50
کہ تو اللہ کی عبادت یوں کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اللہ کو اپنے سامنے دیکھنے کا تصور نہیں کرسکتا تو کم ازکم یہ تصور رہے کہ وہ تجھے ضرور دیکھ رہا ہے۔
نبی کریم ﷺ کےاس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے، جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہو جا ئے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
کیا احسان کا تعلق صرف نماز سے ہے؟
یہاں کسی کو یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ احسان کا تعلق شاید نماز سے ہے، یعنی نماز میں یہ کیفیت ہونی چاہیے حالاں کہ بات ایسی نہیں ہے، عبادت صرف نماز روزے اور حج و زکاۃ کا نام نہیں بلکہ ایک مسلمان کی پوری زندگی عبادت ہے، مومن کی ایک ایک حرکت عبادت ہے، اس کا اٹھنا، بیٹھنا،سونا، جاگنا، چلنا،کام کرنا سب عبادت میں شامل ہوتا ہے،گویا کہ ان ساری جگہوں میں احسان کا عمل دخل ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہم سب کو اپنا دیدار نصیب فرمائے۔ آمین۔
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…