ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، جو بھی اس کی حفاظت کی طرف آئے تو وہ اسے پناہ دیتا ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اپنے ہی انعان سے شفا یابی سے مایوس مریضوں کو شفا دیتا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جنہوں نے فرمایا:
«كلُّ أمتي يدخُلون الجنةَ إلا من أبَى». قيل: ومن يأبَى يا رسول الله؟ قال: «من أطاعَني دخلَ الجنةَ، ومن عصانِي فقد أبَى»
میری امت کے تمام لوگ جنت میں جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جو (جنت میں جانے سے) انکار کردیں۔ کسی نے پوچھا : اللہ کے رسولﷺ! کون انکار کرسکتا ہے؟ فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکارکیا۔
اللہ ان پر اور ان کی آل پر اور انکے صحابہ پر قیامت تک ہمیشہ رہنے والی رحمتیں اور سلامتی نازل فرما۔
حمد و ثناء اور درود و سلام کے بعد،
اے مسلمانوں!
اتقوا الله؛ فإن تقواه أفضلُ مُكتسَب، وطاعتَه أعلى نسَب،
اللہ سے ڈرو؛ کیونکہ اس کا ڈر (تقوی) سب سے افضل کسب ہے اور اس کی فرماں برداری سب سے اعلی نسبت ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران – 102
اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔
اے مسلمانوں!
اللہ نے جنت کو پیدا فرمایا اور اسے اپنے اولیاء کا گھر قرار دیا اور اپنے برگزیدہ(منتخب و پسندیدہ) بندوں کی رہائش بنایا، اور اسے اپنی رحمتوں ، کرامتوں اور رضا سے بھر دیا ہے۔ اور اسی کی طرف ترغیب دلائی ہے۔ اور اسی کی دعوت دی ہے۔ اور اس کا نام دار السلام (سلامتی والا گھر ) رکھا ہے۔
ایسا گھر جس کی نعمتیں نہ کبھی ختم ہوں اور نہ ہی فناء۔ایسا گھر جس میں ہر بھلائی اضافہ کے ساتھ ہے، اور یہ (جنت) ان لوگوں کی مشتاق ہے جو اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اور ان لوگوں کے لئے ہی سجائی گئی ہے جواس کے خواہش مند ہیں۔اور قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر اس کی صفات(نعمتوں ) کا تذکرہ ہوا ہے۔
اس میں رہنے والے بڑے سعادت مند ہیں اور اسکے وارث بہت ہی کامیاب ہیں۔
صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے:
فعن أبي هريرة – رضي الله عنه – عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: «قال الله تعالى: أعددتُ لعبادي لصالحِين ما لا عينٌ رأَت، ولا أُذنٌ سمِعَت، ولا خطَر على قلبِ بشر»
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی نے فرمایا: میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ (جنت میں) تیار کر رکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے اس کے بارے میں سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا تصور(خیال) آیا۔
ایسا گھر جس کے مناظر شاندار اور روشن ہوں گے، اور اس کا صحن بہت ہی خوبصورت ہے ۔اور تعمیر بڑی عمدہ ہے۔ اوراس میں ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے۔اور اس کی دیواروں کا گارا انتہائی تیز کستوری کا ہے۔ اور اس کے پتھر ہیرے اور موتی کے ہوں گے۔ اور اس کی مٹی زعفران کی ہے۔ جو بھی اس میں داخل ہوگا نعمتوں میں ہوگا اور پریشان نہیں ہوگا۔اور ہمیشہ رہے گا موت نہیں آئے گی، نہ اس کے کپڑے پرانے ہوں گے اور نہ ہی اس کی جوانی ختم ہوگی۔
اور سب سے پہلے ہمارے نبی اور سردار محمدﷺ ہی جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے،تو ان سے خازن (جنت کا پہرہ دار) کہے گا کہ آپ کون ہیں؟ وہ جواب دیں گے: محمدﷺ۔تو وہ کہے گا کہ مجھے حکم دیا گیا تھا کہ آپ سے پہلے میں کسی کے لئے بھی دروازہ نہ کھولوں۔ اللہ تعالی ہمارے نبیﷺ پر رحمتیں ، سلامتی اور برکت نازل فرمائے۔
اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں، اورجنت کے دروازے کے دو پَٹ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ مکہ اور ھجر کے درمیان یا مکہ اور بُصری کے درمیان ہے۔
اور پہلا گروپ جو جنت میں جائےگا وہ چودھویں کے چاند کی طرح (روشن) ہوگا، اور جو لوگ ان کے بعد ہوں گے وہ آسمان کےسب سے زیادہ چمکدار ستارے کی مانند(روشن) ہوں گے۔ جنتیوں کوقضائے حاجت کی ضرورت ہی نہیں ہوگی، اور نہ ہی بلغم اور تھوک آئے گا۔
ان کے کنگھے سونے کے ہوں گے، اور ان کا پسینہ کستوری (کی طرح خوشبو والا) ہوگا، اور ان کی عود دان عود (ایک خاص خوشبو) ہی کی ہوگی، ان کے درمیان نہ کوئی اختلاف ہوگا اور نہ ہی بغض، ایک انسان کی مانند (سب ایک جیسے) ہوں گے، آدم علیہ السلام کی طرح ساٹھ فٹ لمبے اور سات فٹ چوڑھے ہوں گے اور صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کریں گے۔
جنت والے جنت میں اس حالت میں داخل ہوں گے کہ ان کے جسم پر بال نہیں ہوں گے اورداڑھی بھی نہیں ہوگی، نو عمر کی طرح ہوں گے ، سفید رنگ اور سر کے بال گھنگریالے ہوں گے، سرمگیں آنکھیں،تینتیس (۳۳) سال کی عمر ہوگی۔ ان کے چہروں پر عزت، نور، خوبصورتی اور تازگی نمایاں ہوگی، آپ ان کے چہروں میں نعمتوں کی رونق دیکھیں گے۔
وہ ایک دوسرے کو پکاریں گے کہ بیشک تم ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی موت نہیں آئے گی، اور تندرست رہو گے کبھی بیماری نہیں آئے گی، اور ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بیماری نہیں آئے گی، اور ہمیشہ نعمتیں ملتی رہیں گی کبھی ختم نہ ہوں گی، اور تمہارے لئے جنت میں ہر قسم کے پھل ہیں۔ اور اگر جنتیوں میں سے ایک شخص جھانک لے اور اس کے کنگن نظر آجائیں تو انکی روشنی سے سورج کی روشنی اس طرح مِٹ جائےجس طرح سورج کی روشنی سے ستاروں کی روشنی مِٹ جاتی ہے۔
اور جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگا کرو؛ کیونکہ وہ سب سے خوبصورت ہے اور سب سے اعلی مقام پر ہے، اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے، اور اسی سے ہی جنت کی نہریں نکلتی ہیں، اور سب سے عظیم، میٹھی اور بہتر نہر کوثر ہےجسے اللہ نے ہمارے نبی اور سردار محمدﷺ کے لئے تحفہ کے طور پر تیار کر رکھا ہے، اسے کھوکھلے موتی کی گول عمارت سے ہی سجایا گیاہوگا، اور اسکی مٹی بہت تیز خوشبو والی مشک کی ہوگی، اور اس کی کنکریاں بھی موتی کی ہوں گی، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا، اس کے برتن ستاروں کی طرح بہت زیادہ ہوں گے ، ایسے پرندے وہاں اُڑ رہے ہوں گے جن کی گردنیں اونٹ کی گردنوں کی طرح ہوں گی۔
اور قیامت میں نبی علیہ السلام کی حوض کا طول و عرض ایک جیسا ہوگا اس کے دونوں کناروں کے درمیان ایک مہینے کی مسافت کا فاصلہ ہوگا، یا اتنا فاصلہ ہوگا جتنا صنعاء اور مدینہ کے درمیان ہے، اس میں جنت سے دو میزابیں بہہ رہی ہوں گی، جن سے اہل ایمان سیراب ہوں گے، اور جو ایک مرتبہ اس سے پانی پی لے گا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی، اور اس سے وہ لوگ دور کردیئے جائیں گے جنہوں نے(اس دین کو) بدل دیا، تبدیل کردیااور نئی باتیں گھڑلیں۔
اور جب جنتی جنت میں چلے جائیں گے تو جنتیوں میں سب سے کم درجہ والا شخص آئے گا،اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! کیسے جبکہ تمام جنتی اپنی اپنی جگہوں میں جاچکے ہیں،اور اپنی نعمتوں کو بھی حاصل کوچکے ہیں؟ تو اس سے کہا جائے گا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر آپ کو وہ سب کچھ مل جائے جو دنیا کے کسی بادشاہ کے پاس ہوتا ہے؟ وہ کہے گا کہ میرے رب! میں راضی ہوگیا، اللہ فرمائے گا یہ تو تمہارا ہو ہی گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس جیسا،پھر اس جیسا،پھر اس جیسا پھر اس جیسا تو پانچویں مرتبہ وہ کہے گاکہ میرے رب میں راضی ہوگیا۔اللہ فرمائے گا کہ یہ بھی تمہارا اور دس گنا زیادہ بھی تمہارا، اور وہ سب نعمتیں تمہاری جو تمہارا کا دل چاہے اور تمہاری آنکھوں کی ٹھندک ہو۔وہ کہے گا کہ میرے رب ! میں خوش ہوگیا۔
اور جو سب سے بلند مقام والے جنتی ہیں ان کے بارے میں اللہ فرماتا ہے: یہ وہ لوگ ہیں جن ہی کا (جنت میں بھیجنے کا) میں نے ارادہ کیا، ان کی میزبانی کو میں نے اپنے ہاتھ سے تیار کیا ہے، اور اس پر مہر بھی لگادی ہے، جسے کسی آنکھ نے دیکھا نہیں، کسی کان نے سنا نہیں، اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا تصور آیا۔
اور جنت میں ایسادرخت ہوگا کہ اس کے سائے میں ایک سو سال تک سواری چلتی رہے پھر بھی اسکا سایہ ختم نہ ہو، اور مومن کے لئے جنت میں ایسا خیمہ ہوگا جو ایک ہی کھوکھلے موتی کاہوگا، جس کی لمبائی (اونچائی) ساٹھ میل کی ہوگی، دوسرامومن ان کے پاس آئے گالیکن وہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکیں گے۔
اور اگر جنتی خاتون زمین میں جھانک لےتوآسمان و زمین کے درمیانی خلاء کو روشن کردے، اور اسے خوشبو سے معطر کردےاور اس کے سر کا پردہ دنیا اور اسکی نعمتوں سے بہتر ہے، اور جنت میں کوئی کنوارا نہیں ہوگا۔
اور اللہ عز و جل جنتیوں سے فرمائے گا: اے جنتیوں! وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں اور تیری عطا کردہ سعادتوں سےبہرہ وَر ہیں، اور ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔وہ فرمائے گا: کیا تم سب خوش ہو؟ وہ کہیں گے: ہمارے پیارے رب! ہم خوش کیوں نہ ہوں حالانکہ آپنے تو ہمیں اتنی نعمتیں عطا کی ہیں جو کسی کو عطا نہیں کیں۔وہ فرمائے گاکہ کیا میں اس سے بھی افضل چیز آپ لوگوں کو نہ دوں؟ وہ کہیں گےکہ اس سے بڑھ کر کیا چیز ہوسکتی ہے؟ وہ فرمائے گا کہ میں اپنی رضا آپ لوگوں کے لئے جاری کر رہا ہوں اور آج کے بعد کبھی آپ لوگوں سے ناراض نہ ہوؤں گا۔
کتنی ہی عظیم نعمتیں ہیں! اور کتنا ہی بہترین اِکرام ہے۔
اور سب سے عظیم انعام اور سب سے بڑی نعمت اللہ تعالی کے چہرے کو دیکھنا ہےجس کے سامنے تمام نعمتیں چھوٹی ہوں گی۔
بخاری و مسلم کی حدیث ہے:
عن جرير بن عبد الله – رضي الله عنه – قال: كنا عند رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فنظرَ إلى القمر ليلةَ البدر، وقال: «إنكم سترَون ربَّكم عِيانًا كما ترَون هذا القمرَ، لا تُضامُون في رُؤيتِه»
جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسوک ﷺ کے پاس تھے تو انہوں نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: آپ سب جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہیں اور اسے دیکھنے میں سب کو اکٹھا ہونے کی بھی ضرورت نہیں، اسی طرح اپنے رب کو اپنی آنکھوں سےدیکھیں گے۔
اور جنت عدن میں اللہ اورجنتیو ں کے درمیان صرف کبریائی کی چادر حائل ہے جو اس کے چہرے پر ہے۔ اور پُکارنے والا پُکارے گا: اے اہل جنت! بیشک اللہ کے پاس تمہارے لئے ایک وعدہ ہےجسے وہ پورا کرنا چاہتا ہے۔تو وہ کہیں گے کہ اللہ تبارک و تعالی نے ہمارے (نیکیوں والے) میزان کو بھی بھاری کردیا، ہمارے چہروں کو بھی منوّر کردیا، ہمیں جنت میں بھی داخل کردیا، اور آگ سے بھی بچالیا، اب کونسا وعدہ باقی ہے؟ اللہ تعالی اپنے حجاب کو ہٹائے گا اور وہ اس کی طرف دیکھیں گے اور ان کو جتنی بھی نعمتیں اللہ نے دی ہوں گی ان سب سے زیادہ پسندیدہ نعمت یہی ہوگی کہ وہ اپنے رب کو دیکھتے رہیں۔
اللہ سب سے بڑ اہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اسی نے ان کو انعامات اور بہت سے فائدے دئیے اور انکی خواہشیں بھی پوری کیں اور مزید نعمتیں عطا فرمائیں۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کوبھی انہی سعادت مند لوگوں میں سے بنادے، اور ہمیں مزید بھلائیاں عطا فرمائے۔ میں جو کہہ رہا ہوں وہ آپ سب سن رہے ہیں، اور میں اللہ سے اپنے اور آپ کےلئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر گناہ اور غلطی کی مغفرت مانگتا ہوں، اور آپ لوگ بھی اسی سے بخشش مانگیں، بیشک وہ (گناہوں سے ) رجوع کرنے والےتمام لوگوں کو بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہی خاص ہےجو اسکی نعمتوں کےبرابر ہو، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور نہ ہی اس کے سوا کوئی سچا معبود ہے۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمد ﷺ اسی کے بندے،رسول ، محبوب اور برگزیدہ ہیں، اللہ ان پر اور ان کی آل پر اور صحابہ پر قیامت تک ہمیشگی کی رحمتیں اور سلامتی نازل فرما۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
التوبة – 119
اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو ۔
اے مسلمانوں!
یہ جنت کی نعمتیں اور اس کی چندصفات ہیں: کس طرح لوگ ان نعمتوں کے حاصل کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں؟ صرف اس معمولی دنیا کی خاطر جس کو جلد ہی چھوڑ کر چلے جانا ہے۔
اور اس دنیا میں جو کچھ بچا ہے وہ شر کی گندگی ہے، کیچڑ کا پانی ہے، ہولناک عبرتیں ہیں، بقیہ سزائیں ہیں، سخت فتنے ہیں، مسلسل حادثات ہیں ، لوگوں کی کوتاہیاں ہیں،اور اکثر چیزوں میں نقص اور مِلاوٹ پائی جاتی ہے۔
اللہ کے بندوں!
ڈرتے رہو ڈرتے رہو، موت پیشانیوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہے، اور دنیا لپٹتی جارہی ہے، کتنے ہی زخم موت کو سبب بن چکے ہیں، اور کتنی ہی لغزشوں نے ہلاک کردیا ہے، اور جو (اللہ سے ) ڈر گیا اس کا سفر شروع ہوگیا اورمنزل تک وہی پہنچتا ہے جو سفر شروع کردیتا ہے۔
خبردار! اللہ کا سامان بہت مہنگا ہے، خبردار! اللہ کا سامان بہت مہنگا ہے۔ خبردار! اللہ کا سامان بہت مہنگا ہے، خبردار! اللہ کا سامان جنت ہے۔
اور درود و سلام بھیجیں احمدﷺ پر جو ہدایت کا راستہ دکھانے والے ہیں اور مخلوق کی سفارش کرنے والے ہیں: اور جو نبی علیہ السلام پر ایک درود بھیجتا ہے اس کے بدلے میں اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔
یا اللہ! اپنے نبی محمدﷺ پر رحمتیں اور درود نازل فرما، یا اللہ ! ہدایت یافتہ خلفاء ، سنت نبوی کے پیروکارـ ابوبکر، عمر، علی عثمان رضی اللہ عنھم سے بھی راضی ہوجا ، اور تمام صحابہ سے بھی راضی ہوجا، اور اے سب سے زیادہ کرم کرنے والے! اپنے جود و کرم سے ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکوں کو رسوا کردے۔اوردشمنانِ اسلام کو ہلاک کردے۔
یا اللہ! شام میں ہمارے اہل کی مدد فرما،
یا اللہ! شام میں ہمارے اہل کی مدد فرما،
یا اللہ! شام میں ہمارے اہل کی مدد فرما۔
یا اللہ! اے کریم! اے دعاؤں کو بہت بہترین سننے والے! جلد ہی ان کی مدد فرما اور پریشانی دور فرما۔ اللہ! اے دعاؤں کو بہت بہترین سننے والے! جلد ہی ان کی مدد فرما اور پریشانی دور فرما،
یا اللہ! اے دعاؤں کو بہت بہترین سننے والے! جلد ہی ان کی مدد فرما اور پریشانی دور فرما۔
یا اللہ! یا رب العالمین! حرمین شریفین کے ملک میں امن، فراخی، عزت و سکون قائم و دائم فرما۔
یا اللہ! ہمارے امام اور امیر خادم حرمین شریفین کو ان اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی اور خوش ہوتا ہے۔اور ان کی پیشانی پکڑ کر نیکی اور تقوی کی طرف لے جا۔اور تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں کو شریعت نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
یا اللہ ! یا کریم! یا رب العالمین! تمام مسلم ممالک میں امن و سکون ، خوش حالی اور اتحاد کی نعمت سے نوازدے۔
یا اللہ! انہیں شرارتی لوگوں کے شر سے اور فاجروں کے مکر و فریب سے محفوظ فرما۔ یا اللہ! ہمارے مریضوں کو شفا عطا فرما، تمام بیماریوں اور پریشانیوں کو دور فرما، فوت شُدگان پر رحم فرما، قیدیوں کو آزاد کردے، اور دشمنوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
اللهم أغثنا، اللهم أغثنا اللهم أغثنا
یا اللہ! اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اپنی رحمت سےہم پر بارش برسادے۔ یا اللہ! ہم پر بارش برسادے۔یا اللہ! ہم پر بارش برسادے۔یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں نا امید نہ کرنا۔
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90
اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔
اور اللہ کا ذکر کرو جو عظمت وجلال والا ہے وہ تمہارا ذکر کرے گا۔اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں مزید (نعمتوں سے) نوازے گا۔اور اللہ کا ذکر بہت بڑا ہے۔اور جو تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔
***
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…