جادو جنات سے بچیں

(1)جادو کرنا اور کروانا حرام ہے:

فرمان باری تعالی ہے :

وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ ۚ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ

البقرة – 102

 ’’ا ور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین (حضرت) سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا، بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے‘‘۔

یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ جادو حرام ہے نیز جادو شریعت محمدیہ ہی میں نہیں بلکہ تمام ادیان میں حرام ہے .[2]

فرمان نبویﷺ ہے:

 اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ۔۔۔۔الشِّرْكُ بِاللہِ، وَالسِّحْرُ

’’تباہ کرنے والی سات چیزوں سے بچو ! اللہ کے ساتھ شرک کرنے سے اور جادو کرنے سے‘‘۔[3]

(2) جادو کرنے والے کا حکم:

الف: اگر جادو جنات وشیاطین کے ذریعے سے کیا جائے اور جادو سیکھتے ، سکھاتے ہوئے جنات وشیاطین کے تقرب کے حصول کےلیے ان کی عبادت کی جائے تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے۔

ب: اگر جادو دوائیوں اور جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے کیا جائے تو یہ ظلم و زیادتی اور کبیرہ گناہ کے زمرے میں آئے گا۔[4]

(3) جادو گر کی سزا:

الف: ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا پر ان کی باندی نے جادوکیا تھا لہٰذا اُم المؤمنین نے (بطور سزا) اسے قتل کرنے کا حکم دیاتو اسے قتل کردیاگیا۔[5]

ب:سیدنا بجالہ بن عبدۃ سے مروی ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے ایک برس پہلے انیس کو یہ خط لکھا کہ ’’ہر جادو گر کو قتل کردیا جائے، تو ہم نے (ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے) تین جاوگروں کو قتل کردیا۔[6]

ج: جندب الخیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

حد الساحر ضربة بالسیف

 ’’جادوگر کی سزا قتل ہے‘‘[7]

جادو کروانے کے مقاصد:

جادو کرنے یاکروانے کے بنیادی مقاصد میں سے تین مندرجہ ذیل ہیں:

الف:میاں بیوی میں لڑائی جھگڑا کرواکر ان کو ایک دوسرے کے لیے اتنا ناپسندیدہ کر دینا کہ نفرت کی انتہاء ہوجائے تاکہ خاوند اور بیوی میں علیحدگی ہوجائے ۔

فرمانِ باری تعالی :

 فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهٖ

البقرة – 102

’’پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں ‘‘۔

ب:مالی اعتبار سے کسی کو نامستحکم کرنا:

اکثر اوقات احباب اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ نامعلوم طریقے سے ان کے زیورات یا نقدی گم ہو جاتی ہے ، یا پھر ان کے کاروبار میں بندش ہے جہاں ان پر پریشانیوں کے دیگر امکانات ہیں وہاں یہ امکان بھی قابل غور ہے کہ شاید کسی شیطان جادو گر یا اس کے کسی چیلے کی کارستانی ہوگی ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں صدقہ فطر(کےگلے) کی نگرانی کےلیےمقررفرمایاتوشیطان ایک آدمی کی شکل میں مسلسل تین دن تک گلہ چوری کرنے کےلیےآتارہا۔[8]

ج: پریشان اور خوفزدہ کرنا:

فرمان باری تعالی ہے:

قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ ﴿٦٦﴾ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ ﴿٦٧﴾ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَىٰ

طهٰ – 66/67/68

 ’’ اب تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں ۔ پس موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا۔ ہم نے فرمایا کچھ خوف نہ کر یقیناً تو ہی غالب اور برتر رہے گا ۔‘‘

یہ خوفزدگی اور پریشانی صرف موسی ٰ علیہ السلام کے لیے نہیں تھی بلکہ تمام حاضرین اس جادوئی تاثیر کی وجہ سے گھبراہٹ اور بے چینی سے دوچار ہوگئےتھے، جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ 

الاعراف – 116

 ’’ پس جب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان پر ہیبت غالب کردی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھایا ۔‘‘

مندرجہ بالا آیات سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہےجادو کی وجہ سے انسانی طبیعت پہ جو ناگوار اثرات مرتب ہوتےہیں ان میں سے ایک خوف زدہ ہونا اور دوسرا اشیاء کا خوفناک چیزوں کا روپ دھارکر خلاف حقیقت نظر آنا بھی ہے لہٰذا اگر کوئی عالمِ بیمار ی میں اس بات کا اظہار کرے کہ اسے خوف محسوس ہوتا ہے یا پھر خوفناک چہرے اور ڈراؤنی چیزیں نظر آتی ہیں تو اس کی تردید کرنے کی بجائے اس کی پریشانی کو سمجھنے کی کوشش کریں بلکہ اگر ہوسکے تو اس کے غم میں شریک ہوکر اس کی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کریں ۔

5 جادو کی اقسام:

جادو کی بنیادی دو قسمیں ہیں ان کا تذکرہ کرنے کے بعد ہم بقیہ ذیلی اقسام کا بھی تذکرہ کریں گے ۔

أ: نظر کا دھوکہ:

جادو کی اس قسم میں انسان کی نظروں کو دھوکا دیا جاتاہے جس میں حقیقی طور پر توانسان متاثر نہیں ہوتامگر انسان کے تخیلات پر گہرا اثر ہوتاہے اور اشیاء اپنی اصل ماہیت بدل کر خوفناک شکل دھار لیتی ہیں اور اچھا بھلا ذی شعور ، بہادر آدمی خوفزدہ ہوجاتاہے ، جیساکہ فرعون کے جادو گروں نے موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کرتے وقت لوگوں اور موسیٰ علیہ السلام کے تخیل پر اثر انداز ہوکر اسی جادو کے زور سے لاٹھیوں اور رسیوں کو سانپوں کی شکل میں تبدیل کردیا جس سےعام لوگ تو ڈرے ہی ڈرے وقتی طورپر موسیٰ علیہ السلام بھی گھبرا گئے۔

شعبدہ بازی اور ہاتھ کی صفائی بھی اسی قبیل سے ہے، لوگوں کی دھوکہ دہی کےلئے اس طرح کے کرتب اور کرشمے کوئی شخص بھی سیکھ سکتا ہے ، حتیٰ کہ اب تو مختلف قسم کے کرتب اور شعبدے سیکھنے کی بہت سی کتب بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں ، جادو کی اس قسم کو ’’مجازی‘‘ بھی کہا جاتاہے[9]۔

ب:کسی انسان کو حقیقتاً متاثر کرنا:

اس قسم میں انسان کو تکلیف دی جاتی ہے جس کے اثرات بد اپنی ذات میں واضح طور پر محسوس  کرتاہے ، اسے بیمار کہا جاتاہے، ڈرایا بھی جاسکتا ہے ، جسم کے کسی حصے میں مستقل درد شروع ہوجاتاہے جو ڈاکٹر حضرات کی سمجھ سے بالاتر ہوتاہے حتیٰ کہ انسان کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے اور اس سارے عمل کےلیے ارواح خبیثہ اور جنات وشیاطین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔[10]

اس جادو میں انسان کو دو طرح سےتکلیف دی جاسکتی ہے

1چمٹ کر:

فرمان باری تعالی ہے :

اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ

البقرة – 275

 ’’ جو لوگ سود کھاتے ہیں ۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔‘‘

امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی شرح میں لکھتے ہیں :

لایقومون من قبورھم یوم القیامة إلاکما یقوم المصروع حال صرعه وتخبط الشیطان له

’’سود خور روز قیامت اپنی قبروں سے یوں کھڑے ہوںگے جیسے مرگی زدہ اس وقت کھڑا ہوتاہے جب شیطان اسے چُھو کر پاگل بنادیتاہے‘‘۔[11]

اس صور ت میں شیطان اور جن وغیرہ انسانی جسم پر قبضہ حاصل کرکے اسے اس حد تک خبطی بنا دیتاہے کہ انسان کا خود پر بھی کوئی اختیار نہیں رہتا اور وہ دیوانگی میں ایسی حرکات کا ارتکاب کرتاہے جن کا تندرستی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتاپھر جب ا سے اس تکلیف سے نجات ملتی ہے اور اسے ان حرکات کا بتایا جاتاہے جو اس سے عالم دیوانگی میں سرزد ہوئی ہیں تو سرے سے اس کا انکار کردیتاہے کہ اس نے ایساکچھ کیا ہے۔

سیدناعثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے طائف کا گورنر مقرر کیا تو مجھے یوں لگتا کہ نماز میں کوئی چیز چہرے کے سامنے آتی ہے جس کی وجہ سے مجھے یہ علم نہیں رہتا کہ میں نے نماز میں کیا پڑھا ہے؟ تو جب میں نے ایسا محسوس کیا تو میں نے رسول اللہ  ﷺ  کی طرف رخت سفر باندھا میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول  ﷺ!  نمازوں میں کوئی چیز میرے سامنے آجاتی ہے اور مجھے علم نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھ رہاہوں، آپ ﷺ  نے فرمایا: ’’یہ شیطان ہے، ذرا قریب آؤ ‘‘ میں آپ کے قریب ہوکر اپنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ آپ  ﷺ نے اپنے ہاتھ کے ساتھ میرے سینے پر ضرب لگائی او ر دم کرکے میرے منہ پر پھونکا اور فرمایا: ’’ اُخرج عدواللہ‘‘ اے اللہ کےدشمن نکل جا۔ آپ  ﷺ نے تین مرتبہ ایسا کہا ، پھر فرمایا : ’’جاؤاپنی ذمہ داری انجام دو ‘‘ سیدنا عثمان فرماتے ہیں کہ پھر مجھےیہ شکایت نہ رہی[12]۔

اس پریشانی سے بچنے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم ہر اس کا م سے گریز کریں جس کی وجہ سے شیطان ملعون ہمارے رگ وپے میں سرایت کر کے ہمیں تکلیف اور پریشانی سے دوچار کرتاہے اور ان حالات میں جن میں شیطان انسانی جسم کا کنٹرول حاصل کرلیتاہے ان سے بچیں ، ذیل میں ان حالات کا اجمالی تذکرہ پیش خدمت ہے جن میں انسان آسیب زدگی میں مبتلاء ہوسکتاہے۔

(1)سخت غصے کی حالت

(2)سخت خوف کی حالت

(3)سخت غفلت کی حالت

(4)انتہائی خوشی کی حالت

(5)حرام طریقے سے شہوت رانی کی حالت

(6)عمداً یالاشعوری طور پر جنات کو تکلیف پہنچانا[13]

آسیب زدگی کے بعض اسباب:

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اکثر یہ چیزیں بغض اور بدلہ لینے کے سبب بھی ہوتی ہیں ، مثال کے طور پر اگر جنوں کو کوئی انسان تکلیف پہنچادے یا انہیں بد گمانی ہوجائے کہ فلاں انسان نےعمداً ان کو تکلیف پہنچائی ہے یا پہنچا رہا ہے ، خواہ ایسا ان میں سے کسی پر پیشاب کرنے کی صورت ہویا ان پر یا ان کی اولاد میں سے کسی پر گرم پانی پھینکے یا ان میں سے کسی کو قتل کرنے کی شکل میں ہو ، حالانکہ وہ انسان اس بات سے سرے سے لاعلم ہی ہو، چونکہ ان میںجہالت کے ساتھ ظلم کرنے کا مزاج بھی ہوتا ہے اسی لیے اکثر وہ اس انسان کو جس سزاکا مستحق سمجھتےہیں سزا دینے لگ جاتےہیں، کبھی جنوں کی طرف سے یہ شر بلاوجہ بھی ہوتاہے۔[14]

2چمٹے بغیر:

اس صورت میں جنات وغیرہ انسان کو مختلف اذیتیں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ، مثلاً کبھی انسان کی اشیاء چوری ہوجاتی ہیں تو کبھی اسے وسوسوں کے ذریعے مختلف اوہام میں مبتلاء کرکے وہمی بنادیا جاتاہے اور کبھی انسان کو یہ محسوس ہوتاہے جیسے کوئی اس کا گلا دبا نے کی کوشش کررہاہے یا پھر ڈراؤنے خواب آنا شروع ہو جاتےہیں۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتےہیں :

وقد جعل اللہ للشیطان دخولاً فی جوف العبد ونفوذاً إلی قلبه وصدرہ ، فھو یجری منه مجری الدم ، وقد وکل بالعبد فلایفارقه إلی الممات

’’اللہ تعالیٰ نے شیطان کو بندے کے جسم اور دل میں داخلے کی قوت وطاقت دے رکھی ہے ، جوکہ اس کے جسم میں خون کی مانند چلتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسے ہر انسان کے ساتھ نتھی کردیا ہے ، موت تک اس سے الگ نہیں ہوتا‘‘۔[15]

۱-صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جب وسوسوں کی شکایت کی تونبیﷺنےانہیں تسلی دیتےہوئےفرمایا:

 ذاک صریح الایمان

’’یہی اصل ایمان ہے‘‘۔

وسوسوں کے متعلق فرمان باری تعالی ہے:

الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ،مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ

الناس – 5/6

’’جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، (خواہ وہ) جنات سے (ہو) یا انسانوں میں سے‘‘۔

شیاطین الجن کو اللہ تعالی نے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قدرت دی ہے علاوہ ازیں ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان اس کا ساتھی ہوتا ہے جو اس کو گمراہ کرتا رہتاہے۔[16]

وسوسے کے ذریعے سے شیطان مردود ہنستے بستے گھر اجاڑ دیتاہےبھائی بھائی کے متعلق بد گمانی کا شکار ہوتاہے توماں کا بیٹی ،باپ کا بیٹوں پر اعتماد قائم نہیں رہتااور تو اور بسااوقات یہ شکوک و شبہات میاں بیوی کے درمیان اس قدر زور پکڑ جاتے ہیں کہ یہ مثالی محبت کا رشتہ تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ کچا دھاگہ ثابت ہوتاہے اور آن واحد میں اس پائیدار محبت کے تار وپوبکھر جاتےہیں۔

لوگ وسوسوں کی لپیٹ میں آکر اپنے ہاتھوں سے اپنا گلشن آگ کے حوالے کربیٹھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہےکہ اپنی طبیعت کو شگفتہ رکھا کریں ، فوری اقدام کی بجائے مثبت انداز میں سوچتےہوئے بات کو آگے بڑھایا جائےاور اگر فریق ثانی زیادہ غیض وغضب کا مظاہر ہ کرے تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجائے خاموشی اختیار کر کے بات کو مناسب انداز میں ختم کردیا جائے ، یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وسوسوں سے گھبراہٹ میں مبتلا ہونے کی بجائے نبوی تعلیمات کے ذریعے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وسوسوں کا آنا انسان کے ایمان کی دلیل ہے، شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب الایمان میں اسی موضوع کے حوالے سے رقمطراز ہیں :’’طالب علم اور عبادت گزار لوگوں کو ایسے وسوسے اور شبہات آتے ہیں جو دوسرے لوگوں کو پیش نہیں آتے کیونکہ دوسرے لوگ تو اللہ تعالی کی شریعت اور اس کے راستے پر چلتےہی نہیں ہیں بلکہ وہ تو اپنے رب سے غافل ہوکر خواہشات ِ نفس کے پجاری بن گئے ہوتے ہیں اور یہی شیطان کامطلوب و مقصود ہے ، لیکن اس کے بر عکس جو لوگ علم و عبادت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، شیطان ان کا دشمن ہے اوروہ انہیں اللہ تعالی سےدور لے جانا چاہتا ہے[17]۔

لہٰذا جب بھی کسی کو پریشان کُن خیالات ستائیں تو لاپرواہی یا بے احتیاطی کی بجائے ان شیطانی وساوس کو دور کرنے کی فکر کرنا چاہیے ، ذیل میں ان چند باتوں کی تذکرہ کیا جاتا ہے کہ جن کے ذریعے انسان وسوسوں سے باآسانی چھٹکارا حاصل کرسکتاہے۔

1وسوسوں کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے۔

2اگر وساوس زیادہ ستائیں تو اہل علم کی طرف رجوع کیا جائے۔

3سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی بکثرت تلاوت کی جائے۔

4ایسے تمام خواتین وحضرات کی مجلس نشینی سےگریز کیا جائے جو اپنے ناز وانداز سے انسان کے دل میں وسوسے ڈالتےہیں کیونکہ جس طرح شیطان وسوسے ڈالتا ہے انسان بھی اس بری حرکت کا مرتکب ہوسکتا ہے ۔

جادو کی دیگر اقسام:

1 : علم نجوم : فرمان نبویﷺہے:

مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ، اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ

’’جس نےعلم نجوم سیکھا اس نے جادو کا ایک حصہ سیکھ لیا ، پھر جتنا زیادہ علم نجوم سیکھتا جائے گا اسی قدر جادو میں اضافہ ہوتا جائے گا‘‘۔[18]

عا م طور پر ہمارے معاشرےمیں جاہل لوگ ستارہ شناس حضرات کو بڑی حیرت واستعجاب سے دیکھ کر متاثر ہوتےہیں اور ان کی شیطانی خبروں کو سن کر بڑی عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہےکہ نجومی حضرات کی اپنی زندگی انتہائی غیر مطمئن اور گھٹن زدہ ہوتی ہے ، محترم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب اسی حوالے سے لکھتےہیں :

’’علم نجوم یا علم جفر کا ماہر ہونا بعض اوقات انسان کےلیے عذاب اور وبال کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ طویل عرصہ قبل میں اپنے بےتکلف دوست چوہدری سردار محمد آئی جی پولیس پنجاب کے دفتر میں بیٹھاتھا تو ان سےملنے ان کا ایک دیرینہ شناسا آیا جس کا تعلق سرگودھا کےکسی دیہات سے تھا ، اس کے نام کی چٹ دیکھ کر جب چوہدری صاحب نے اسے اندر بلایا تو مجھے بتایا کہ یہ ملاقاتی علم نجوم اور علم جفر کا ماہر ہے اور جو کچھ بتاتاہے صحیح نکلتاہے، وہ شخص آیا اور کرسی پر بیٹھ کر دو چار باتیں کرنےکے بعد رونےلگا ، چوہدری صاحب نےوجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ ’’چوہدری صاحب میں آپ سے آخری دفعہ ملنے آیا ہوں ، میرے حساب کے مطابق میں اپنے آپ کو چند دنوں کے بعد دنیا میں نہیں دیکھتا، میرا دانہ پانی ختم ہوچکا ہے ، کوئی پانچ چھ روز بعد چوہدری صاحب نے مجھے بتایا کہ اس شخص کا انتقال ہوگیا ہے ۔ اس طرح کے بہت سے واقعات کا میں عینی شاہد ہوں کہ کسی پامسٹ ، علم نجوم کے ماہر نے جو کچھ بتایا وہ صحیح نکلا لیکن یادرکھیں یہ نہ ہی روحانیت ہے اورنہ ہی اولیاء کرام کا وطیرہ‘‘[19]

علم نجوم بھی جادو کی اقسام میں سے ایک قسم ہے جس میں نجومی حضرات چاند ستاروں کی گردش وغیرہ سے زمینی حوادث اور دیگر امور کی پیشین گوئیاں کرتے ہیں مثلاً کبھی وہ کہیں گے کہ اگر فلاں ستارہ طلوع ہوا تو کسی کی موت ہوگی یا خشک سالی یا بارش و بر سات کا سلسلہ ہوگا، اور اگر فلاں ستارہ فلاں وقت میںنمودار ہوا تو اشیاء مہنگی یا سستی ہوجائیں گی۔[20]

بنیادی طور پر نجومیوں کا علم او ران کے دعوے چار نکات میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔

(1)اٹکل پچو

(2)علم غیب کا دعویٰ

(3)کہا نت اور جادو سے مدد

(4)چالاکیا ں اور تضاد بیانیاں[21]

علم نجوم کا حکم:

اگر اس علم سے غیب دانی کا دعویٰ مقصود ہو اور حوادث زمانہ اور تغیرات ارضی کے وقوع پذیر ہونے کا دعویٰ کیا جائے تو یہ حرام اور کفر ہے ، کیونکہ اس میں دعویٰ غیب ہے اور اللہ تعالی کے سوا کسی کو بھی غیب کا علم نہیں ہے، اور اگر اس کے سیکھنے سکھانے کا مقصد سورج کا طلوع و غروب ہونا اور زوال وغیرہ یا قبلہ وکعبہ کا تعین ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے[22]۔

2 گرہوں میں پھونکنا:

فرمان باری تعالی ہے :

وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ

الفلق – 4

’’اور گنڈوں پر (پڑھ پڑھ کر) پھونکنے والیوں کی برائی سے‘‘۔

گرہ میں پھونک مارنےکا کام عموماً جادو گر کیا کرتے ہیںاور جو لوگ موم کے پُتلے بنا کراس میں سوئیاں چبھو تے ہیں او ر کسی کے بال حاصل کرکے ان میں گرہیں لگا تے ہیں، اور پھونکیں مارتے ہیںسب جادو گروں کے حکم میں داخل ہیں اور ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو جادو گر نہیں بلکہ عامل کہا جاتا ہے[23]

اس سے مراد جادو کا کا لاعمل کرنے والے مرد و عورت دونوں ہیں[24]

ان کے شر سے خاص طور پر پناہ مانگنے کی تلقین اس لیے کی گئی ہےکہ وہ چھپ کر وار کرتے ہیں، انسان کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ اسے تکلیف کیوں ہے وہ بیماری سمجھ کر علاج معالجہ میں لگا رہتا ہے اور تکلیف بڑھتی جاتی ہے۔[25]

حکم:

یہ صریح کفر ہے۔[26]

3۔جادو بیانی:

فرمان نبویﷺہے:

إِنَّ مِنَ البَيَانِ لَسِحْرًا

’’بعض بیان جادوئی تاثیر رکھتے ہیں‘‘۔[27]

اسے جادو اس لیے کہا گیا ہے کہ کیونکہ گفتگو کا انداز بھی جادو گر کی طرح دل پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے [28]

جادو کی اس قسم کو ’’عطف‘‘ اور  ’’صرف‘‘ بھی کہاجاتا ہے[29]

حکم:

اگر کوئی اس خوبی کو دین ِ حق کی ترویج وا شاعت اور دعوت و تبلیغ کے لیے استعمال کرے تو یہ قابل تعریف بلکہ اس کا استعمال لازمی اور ضروری ہے لیکن اگر اس کا استعمال حق کی تردید اور جھوٹ کو سچا بناکر پیش کرنےمیں ہوتو بلاشبہ یہ حرام اور ممنوع ہے۔

4-چغل خوری:

احادیث میں چغل خور کے لیے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں۔

الف۔قتّات

ب۔ نمّام

قتات اس چغل خور کو کہتےہیں جو کن سوئیاں لیتا ہے۔[30]

اور نمام اس چغل خور کوکہتےہیں جو لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا کروانےکے لیے غیبت کرتاہے۔[31]

شریعت اسلامیہ نےدونوں طرح کی غیبت کی ممانعت کی ہے مگر قرآن کریم میں ’’نمام‘‘ کے متعلق بہت سخت لفظ استعمال کیے گئے ہیںجس سے اس کی برائی اور شناعت واضح ہوتی ہے ، فرمان باری ہے:

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍ،هَمَّازٍ مَّشَّاۗءٍۢ بِنَمِيْمٍ،مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍ

’’اور کسی ایسے شخص کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانےو الا ذلیل اوقات ہے،طعن آمیز اشارتیں کرنےو الا چغلیاں لیےپھرنے والا‘‘۔[32]

فرمان نبویﷺہے:

أَلَا أُنَبِّئُكُمْ مَا الْعَضْهُ؟ هِيَ النَّمِيمَةُ الْقَالَةُ بَيْنَ النَّاسِ

’’کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ سخت قبیح چیز کیا ہے وہ چغلی ہے جو لوگوں کے درمیان نفرت اور دشمنی پھیلاتی ہے‘‘۔[33]

اس کوجادو اس لیے کہا گیا ہے کہ چغل خور کا مقصد بھی جادو گر کی طرح غلط فہمیاں پھیلاکر دوستوں اور پیاروں کے درمیان تفریق کروانا ہے بلکہ لڑائی جھگڑا کروانے میں چغل خور جادو گر سے بھی دوہاتھ آگے ہے کیونکہ جادو گرکو لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑااور فساد کروانے میں بہت سارے شرکیہ اور گندے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں پھر کہیں جاکر وہ ایساعمل کرنے میں کامیاب ہوتاہے جس کا نتیجہ بغض وعداوت اور احباب میں علیحدگی ہے مگر لگائی بجھائی کا ماہر یہ چغل خور چند لمحوں میں ایسی فسوں کاری کرتا ہےکہ ہنستا بستا گھر اس کی اس خباثت اور شیطانی کی وجہ سے چند لمحوں میں اجڑ جاتاہے، اسی لیے امام یحیٰ بن ابی کثیررحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

یفسد النمام والکذاب فی ساعة مالایفسد الساحر فی سنة

’’چغل خور اور جھوٹا شخص ایک لمحےمیں وہ فساد بپا کرادیتا ہے جو فساد جادو گر پوراسال لگا کرنہیں کرسکتا‘‘۔[34]

حکم:’’یہ حرام اور کبیرہ گناہ ہے‘‘[35]

جادو کروانے کا سبب؟

اس کا ایک ہی سبب حسد ہے ، حاسد کسی کی خوبی، مال ودولت، حسن وجمال یا ترقی برداشت نہیں کرسکتا لہٰذا جب محسوس کرتا ہےکہ خوبیاں اس کی قوت برداشت سےباہر ہوجاتی ہیں تو وہ انتہائی قدم اٹھا تے ہوئے اس شخص پر جادو کروا دیتا ہے جس سے اسے حسد ہوتا ہے۔

قرآن کریم میں ہے کہ :

وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ

الفلق – 5

’’اور حسد کرنے والے کی برائی سے جب حسد کرنے لگے‘‘۔

یہودی لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ محمدﷺرسول بر حق ہیں ، ایمان نہ لائے تو اس کا باعث بھی یہی حسد تھا۔ اور یہی حسد تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے رسول اللہﷺپر جادو کردیا۔ گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر کے پیچھے بھی عموماً حسد ہی کا جذبہ چھپا ہو تا ہے، اس لیے ان کےشر کے بعد حاسد کے شر سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی۔[36]

حاسد کے شر سے کیسے بچیں:

حاسد کے شراور شرارت سے بچنے کا ایک طریقہ تواللہ رب العالمین نے سورۃ فلق میں بتادیا ہے کہ انسان حاسد کےشر سے اللہ کی پناہ مانگے اس کے علاوہ بھی کچھ طریقے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں جو کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ سےمنقول ہیں۔

1اللہ پر کامل بھروسہ رکھا جائے کہ جب تک اللہ نہ چاہے گا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

2حاسد کی کڑوی کسیلی اور تلخ باتوں پر صبر کیا جائے اور اس کی ذہنی حالت پر افسوس کرتےہوئے اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی سے مکمل گریزکریں۔

3تقویٰ کے زیور سے آراستہ رہیں۔

4حاسد کی فکر سے اپنے دل کو خالی رکھیں اوراس کے متعلق بالکل نہ سوچیں، اسے ایسے نظر انداز کریں کہ گویا وہ ہےہی نہیں۔

5حاسد کو اگر کسی معاملے میں آپ کی مددکی ضرورت پیش آئے تو دل کھول کر اس کا تعاون کریں(یہ سب سے عمدہ علاج ہے)

6صدقہ وخیرات اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیںکیونکہ صدقہ وخیرات اور خدمت خلق کرنے سے اللہ تعالی انسان کی مشکلات دور کردیتا ہے۔

7عقیدہ توحید پر کاربند رہیں اور شرک و بدعت سے خود کو اور اپنے اہل خانہ کو بچائے رکھیں[37]

حسد کا علاج:

حسدایک ایسی بیماری ہے کہ جس سے شاید ہی کوئی محفوظ ہو ، ہر انسان کے دل میں کسی سےمتعلق حاسدانہ خیالات جنم لیتے رہتے ہیں، بعض سلف کاقول ہے:

لایخلوجسد من حسد ولکن اللئیم یبدیه والکریم یخفیة

’’کوئی جسم بھی حسد سےخالی نہیں صرف فرق یہ ہےکہ گھٹیا انسان (اپنی حرکتوں سے) اسے ظاہر کر دیتا ہے اور شریف آدمی اسے چھپا لیتا ہے‘‘۔[38]

اگر کسی کے دل میں کسی کے بارے میں حسد جیسے برے خیالات ہیں اور وہ واقعی میں اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ مندرجہ ذیل دو باتوں کو حرز جاں بنالے اللہ کی رحمت سے بڑی امید ہےکہ یہ دو ضابطے اس کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کا باعث ہوں گے اور وہ بھی خوش وخرم زندگی گزارے گا۔

1قناعت کرنا سیکھیں اور اس بات پہ مکمل یقین رکھیں کہ اللہ تعالی نے جو ہمیں عطا کیا ہے وہ ہماری اوقات سے بڑھ کر ہے اور جو ہمیں نہیں دیا اس کا نہ ملنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔

2ایسا انسان جو حسد کی بیماری میں مبتلا ہے اسے چاہیے کہ وہ حسد کے گناہ اور نقصانات کے بارے میں مسلسل سوچے اور دیکھے کہ اس میں کہیں وہ یہودیوں کی مشابہت تو نہیںکر رہا؟ اور یہ بھی کہ حسد کرنا تو اللہ تعالی پر اعتراض ہےگویا حاسد زبان حال سے اللہ تعالی پر اعتراض کرتے ہوئے کہتاہے کہ اللہ کی تقسیم معاذ اللہ غلط ہےاور اس نعمت کا حقدار وہ انسان نہیں بلکہ میں ہوں[39]۔

حاسد کی علامات:

1-محسود کو دیکھتے ہی حاسد کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور اس کا ہنستا خوشگوار چہرہ یک لخت تاریک ہوجاتاہے ۔

2-حاسدشخص ہمیشہ اللہ کی تقدیر سے نالاں اور برہم رہتا ہے۔

3-حاسد اگر پوری دنیاکےخزانوں کا مالک بن جائے تب بھی شکوہ ہی کرتا رہے گااور اللہ بچائےکہ وہ اللہ کا شکر کم ہی اداکرتاہے۔

4-حاسد جس سے حسد کرتاہے اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلاش میں رہتاہے او رانہیں مجالس میں بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔

5-محسود کی خوبیوں اور اچھائیوں کو چھپاتا ہے ان کے بارے میں جان بوجھ کر انجان بنا رہتا ہے اور لوگوں میں انہیں معمولی بنا کر پیش کرتا ہے ۔

6-حاسد زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہ سکتا وہ محسود کے کلام کا جواب تو ہنستے ہوئے مزاحیہ انداز میں دیتاہے لیکن اس کے دل کا بھر پور کینہ اور بغض اس کی نظروں سے واضح ہوتاہے۔

7-حاسد محسود پر ہر وقت بادلیل وبے دلیل واضح طور پر رسواکن تنقید کرتا رہتاہے۔

8-حاسد ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتا ہے وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ جس میں محسود کو جانی یا مالی نقصان سے دوچار کیا جاسکتاہو۔

9-آخری بات یہ ہے کہ حاسد کا خون ہروقت کھولتا رہتا ہے ، وہ ایک پریشان طبیعت شخص ہوتا ہے ، ذلت اور بدحالی ہر وقت اس کے چہرے پر چھائی رہتی ہے[40]۔

جادو گر کی علامات:

1-مریض سے اس کا اور اس کی والدہ کا نام پوچھنا۔

2-مریض سے اس کی استعمال شدہ اشیاء مثلاً کنگھی ، کپڑے اور بال طلب کرنا۔

3-مخصوص صفات کا جانور طلب کرنا مثلاً یہ کہ سیاہ رنگ کا جانور غیر اللہ کے نام پر ذبح کریں پھر اس ذبح شدہ جانور کے خون کو مریض کے جسم پر ملے یا پھر اس ذبح شدہ جانور کو غیرآباد جگہ پھینکنے کا کہے ۔

4-طلسمات کا لکھنا جس میں کبھی تیر، حروف مقطعات، برجوں کی شکلیںیا ستاروں کے نام لکھے ہوئے ہوں۔

5-علاج کے وقت ابتدا میں قر آن کی تلاوت کرنامگر پھر دوران علاج نامعلوم اور سمجھ میں نہ آنے والے جملوں کا اس طرح وردکرنا کہ مسحور کو ان کی سمجھ نہ آئے۔

6-مسحور کو کہنا کہ خاص مدت تک لوگوں سے الگ تھلگ ایسے مقام یا کمرے میں رہے جہاں سورج کی روشنی تک نہ آنے پائے۔

7-مسحور کو کہنا کہ مخصوص مدت تک پانی نہ چھوئے اور گندہ رہے، نیز مسحور کو کہنا کہ گلے میں صلیب لٹکا کر رکھے، صلیب لٹکانے کا کہنا اس بات کی علامت ہےکہ اس جادو گر کا موکل جن عیسائی ہے۔

8-مریض کو کچھ چیزیں دے کر کہنا کہ انہیں زمین میں جاکر دفن کردے۔

9-مریض کو کچھ اور اق دے کر کہناکہ انہیںجلاکر راکھ کردے ۔

10-مسحور کو نقش شدہ برتن دینا اور کہنا کہ ان میں پانی گھول کر پیو[41]

کاہن کی علامات:

1-کسی نابالغ بچے کوسامنے بٹھا کر اس کے ناخن پر سیاہی لگا دیتے ہیں پھر اس میں مختلف شکلیں دکھانے کا دعوی کر کے لوگوں کو فریب دیا جاتا ہے۔

2-مریض کے کسی کپڑے کی پیمائش کی جاتی ہے پھر اس کے کم وبیش ہونے کی صورت میں بیماری ، آسیب یا سایہ وغیرہ سے مطلع کیا جاتا ہے۔

3-پانی دم کر کے پلایا جاتا ہے پھر اس کے ذائقہ کی تبدیلی کے بہانے مختلف بیماریوں یا جن بھوت کے اثر انداز ہونے کا دعوی کیا جاتاہے ۔ 4-کسی پرندے یا طوطے وغیرہ سے پرچی نکالی جاتی ہےپھر ا س پر تحریر شدہ عبارت کی روشنی میں متاثرہ لوگوں کی قسمت بتائی جاتی ہے[42]۔

مسحور کی علامات:

کسی بھی بیماری کے علاج سے پہلےاصل اور بنیادی چیز مرض کی تشخیص ہے چونکہ جادو بھی ایک بیماری ہے لہٰذا ازحد ضروری ہے کہ علاج معالجے سے پہلے مرض کی اچھی طرح تشخیص کرلی جائے اور ان علامات کا بغور جائزہ لیا جائے جن کی روشنی میں اس بات کا تعین ہوسکے کہ واقعی یہ معاملہ جادو کا ہی ہے ، مسحور کی علامات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

أ: حالت بیداری کی علامات

ب: حالت نیند کی علامات

أ: حالت بیداری کی علامات:

1-کسی سبب کے بغیر گرجانا

2-اللہ کے ذکر سے رُکنا اور بدکنا

3-کسی سبب کے بغیر سر درد ہونا

4-آواز کا کمزور ہونا

5-سستی اور رنجیدگی[43]

6-ایسی بےہوشی جس کا کوئی طبی سبب نہ ہو۔

7-جسم کے کسی عضو کا ایسا شل ہوجانا جس کا کوئی طبی سبب نہ ہو۔

8-بہت جلد غصہ ہونااور بغیر کسی واضح سبب کےرونا ۔

9-عورتوں کی ماہواری میںبے قاعدگی۔

10لڑکی یا لڑکے کی منگنی کا بار بار ٹوٹ جانا یاہمبستری کے وقت عورت کا انتہائی گٹھن محسوس کرنا[44]۔

11-کسی دوسرے کا کوئی عذر قبول نہ کرنا۔

12-چھوٹے سے اختلاف کو پہاڑجیسا تصور کرنا۔

13-کسی خاص جگہ پر بے چینی ، خوف یا گھبراہٹ محسوس ہونے لگنااور وہاں سے کہیں اور جانے پر اطمینان محسوس ہونا۔

14-شوہر یا بیوی میںہمبستری کی خواہش کا ختم ہوجانا[45]۔

15-اس میں عام آدمی کی طاقت کی بجائے کئی گنازیادہ طاقت کا پایا جانا۔

16-مریض کو دورے کو وقت مارا پیٹا جائےتو اسے اس وقت اور بعد میں بھی کوئی تکلیف محسوس نہ ہونا۔

17-ہوش وحواس برقرار ہونے کے بعد مریض اپنے بارے میں مذکورہ بالاعلامات کا انکار کرتاہو۔

18-بعض دفعہ مریض کی آنکھیں پتھراجاتی ہوں اور انہیں بند کرنا مشکل ہوجاتاہو۔

19-بسااوقات مریض ذہنی انتشار کی کیفیت محسوس کرتاہو۔

20-مریض ہوش وحواس کی حالت میںبھی صفائی اور پاکیزگی کو نظر انداز کرنے لگے[46]

21-آنکھوں کا انگاروں کی طرح سرخ ہوجانا۔

22-جنوں کا اپنا نام بتانا ۔

23-اجنبی زبان میں باتیں کرنا۔

24-ڈرکر چھپنا[47]۔

25بھول جانے کی بیماری لاحق ہوجانا۔

 26-جسمانی رنگت کا تبدیل ہوجانا، خصوصاچہرے کا رنگ سیاہ پڑجائے.[48]

ب:حالت نیند کی علامات:

1-خوفناک خواب (آنا) [49]

2-خواب میں بلند ی سے نیچے گرنا، عجیب وغریب قسم کے انسانوں اور سانپوں کا دیکھنا۔

3-بے خوابی ، بے چینی اور نیند کی حالت میں گھبراکر اٹھنا[50]۔

4-نیند کی حالت میں بلند آواز سے باتیں کرنا یاسسکنا اور آہیںبھرنا[51]۔

5-گلے کا گھٹنا۔

6-دانت کا ٹنا۔

7-نیندمیں ہنسنا۔

8-دوران نیند چلنا، یا بولنا[52]۔

9-خواب میں گندی چیزیں دکھائی دیتی ہوں۔

10- سوتے وقت بار بار ڈر جانے کی کیفیت پیدا ہوتی ہو۔

11-مریض کو تھکاو ٹ اور نیند کی ضرور ت کے باوجود گھنٹوں نیند نہ آتی ہو۔

12-خواب میں ہیولے ، سائےوغیرہ نظر آتے ہوں[53]

تنبیہ:اگر کسی کو ان عوارض و حالات میں سے کوئی چیز پیش آجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے جن لگ گیا ہے ، اس لیے قرآن کے ذریعے دم کیے بغیر کوئی شخص یہ فیصلہ نہیں کرسکتا ہےکہ فلاں شخص  پر جن کا اثر ہے کیونکہ مذکورہ عوارض و حالات جن لگنے کے لیے قطعی دلیل کی حیثیت نہیں رکھتے[54]۔

لہٰذا مریض کو چاہیے کہ اگر جسمانی حصوں میں تکلیف محسوس کرے تو بطور احتیاط اس مرض کے خصوصی معالج سے ضرور رابطہ کرے، کیونکہ ہوسکتاہے اسے روحانی علاج کی بجائے طبعی علاج کی ضرورت ہو[55]۔

جادو کا علاج کرانا:

جادو بھی چونکہ دیگر بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے لہٰذا دیگر امراض کی طرح اس مر ض کا علاج بھی سنت نبویﷺہے،نبی کریمﷺ کافرمان ہے :

تَدَاوَوْا، فإنَّ الله عزَّ وجلَّ لم يَضَعْ دَاءً إلا وضع له دَوَاءً غيرَ داءٍ واحدٍ الهرَمُ

 ’’علاج معالجہ کروایا کرو کیونکہ اللہ تعالی نے کوئی بیماری ایسی نہیں اتاری جس کی دوانہ اتاری ہو سوائے ایک بیماری بڑھاپے کے‘‘۔[56]

اس روایت کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علاج معالجہ کرنا مسنون بلکہ بسااوقات لازمی اور ضروری ہوجاتاہے اور اگر مریض علاج معالجے میں سستی کرے تو زبردستی بھی اس کا علاج معالجہ کروایا جاسکتاہے ، لہٰذا جس طرح دیگر بیماریوں کا علاج کروانا چاہیے اسی طرح جادو کوبھی بیماری سمجھتے ہوئے اس کا علاج کروانا لازمی و ضروری ہے، فرق صرف اتناہےکہ یہ روحانی بیماری ہے جس کا علاج بھی روحانیت سے ہی ممکن ہے، ذیل میں جادو کے علاج معالجے سے متعلق کچھ گذارشات پیشِ خدمت ہیں۔

روحانی معالج کی صفات:

جادو کا علاج معالجہ کرنے کے لیے معالج میں کچھ صفات کا ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر معالج ان صفات کا حامل نہ ہوا تو خدشہ ہے کہ معاملہ درست سمت میں جانے کی بجائےالٹا نقصان اٹھانا پڑجائے، کیونکہ اگرمعالج علم وعمل میں پختہ نہ ہوگاتو شیطان اگلی مرتبہ مزید قوت سے وار کرے گا۔

ذیل میں ان صفات کا مختصراً تذکرہ کیا جاتا ہے ۔

1-علم 2-تجربہ 3-زہد وتقویٰ، 4-راز کی حفاظت، 5-نفسیاتی امراض کا علم[57]۔

6-مریض کی جسمانی قوت ، بدن کے طبیعی مزاج وعادات ، مختلف طرقِ علاج اور ان کے ردودِعمل وغیرہ سے بخوبی واقف ہو۔

7-روحانی علاج کے سلسلے میں معالج کسی ایسے طریقہ علاج کو اختیار نہ کرے کہ جسے وہ مشکوک یا واضح طور پر حرام سمجھتاہو۔

8-روحانی معالج علاج معالجہ کے دوران یا اس کے علاوہ عام حالات میںبذات خود جادو و جنات وغیرہ سے خوفزدہ نہ رہتاہو[58]۔

9-سلف صالحین کے عقیدے پر ہو۔

10-بدعتی نہ ہو۔

11-اپنے قول وعمل میں توحید خالص کو ثابت کرنے والا ہو[59]۔

12- علاج سے پہلے باوضو ہوجائے۔ اور اگر نماز کا وقت ہو تو پہلے نماز ادا کرے۔ 13- اپنا جسم اور لباس بھی ہر صورت پاک رکھے[60]

جادوکا بذریعہ جادو علاج؟

ضرورت مند انسان مجبور ہوتا ہے اور اپنی ضروت کی تکمیل کےلیے ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا۔ لیکن ایک مسلمان کے لیے لازمی اور ضروری ہےکہ اپنے مصائب کے حل کےلیے حلال اور جائز طریقے اختیار کرے، عام طور پر دیکھنے اور سننے میں آتاہے کہ لوگ جادو ٹونا کے علاج کے لئے نام نہاد پیروں، فقیروں، جعلی عاملوں اور غیر مسلموں سےرابطہ کرتے ہیں۔ تجربے اور مشاہدے  سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس میں لوگوں کو صحت بھی ملی اور جادو وغیرہ سے نجات حاصل کر چکے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمل ناجائز اور حرام ہے لہٰذا جادو کا علاج بذیعہ جادو نہیں کرایا جاسکتاہے، سیدنا جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺسے’’ النشرہ‘‘ (جادوکا علاج بذریعہ جادو) کے متعلق سوال کیا گیا تو آپﷺنے فرمایا:

من عمل الشیطان

 یہ شیطانی کاموں میں سے ہے۔[61]

امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے متعلق فرماتے ہیں:

کانوا یکرھون التمائم والرقی والنشر

 یہ تمام حضرات تعویذ، شرکیہ دم درود اور جادو کا، جادو کے ذریعے سے علاج کرنے کو انتہائی ناپسند کرتے تھے۔[62]

اور نشرہ کی ہر دو قسموں کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے امام حافظ ابن قیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں’’سحر شدہ کو جادو سے نجات دلانے کے لیے عمل کرنے کو نشرہ کہاجاتاہے، اس کی دو اقسام ہیں۔

1-جادو کا بذریعہ جادو علاج کرنا، یہ شیطانی عمل ہے کیونکہ جادو کرناشیطان کا کام ہے، لہٰذا مسحور کو جادو سے نجات دلانے کے لیےجادو کا علاج بذریعہ جادو کرنے والاجادو گر کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ہر وہ غلط کام کرتا ہے جو شیطان چاہتا ہے۔

2-نشرہ کی دوسری قسم وہ ہے جوکہ دم درود، دعاؤں اور جائز دواؤں سےکیا جاتاہے، یہ جائز ہے۔[63]

جادو کا شرعی علاج:

جادو ٹونے کا شرعی علاج مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاسکتا ہے، ان طریقوں کے استعمال سے اللہ کےفضل وکرم سے مریض نہ صرف صحت یاب ہوگا بلکہ وہ نہایت خوش و خرم زندگی بسر کرے گا۔

بذریعہ دم:

دم کے ذریعے جادو کا علاج کرنے کی تین صورتیں ہیں اور تینوں ہی درست اور جائز ہیں۔

الف: بذات خود دم کرنا:

سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسولﷺکو اپنے جسم میں تکلیف کی شکایت کی تو رسول اللہ  ﷺنے فرمایا: ’’اپنا ہاتھ جسم کے اس حصے پر رکھ کر جس میں تم تکلیف محسوس کرتے ہو اور تین مرتبہ ’’بسم اللہ‘‘ کہو اور سات مر تبہ یہ کلمات کہو:

أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللّٰهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ و أحاذر

 ’’میں اللہ تعالی کی عزت اور اس کی قدرت کی پناہ میں آتاہوں اس چیز کے شر سے جسے میں محسوس کرتاہوں اور جس کا مجھےاندیشہ ہے ‘‘۔[64]

اور مسلم ہی کی دوسری روایت میں آپﷺنےانہیں ایک نصیحت فرمائی سیدناعثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

فَفَعَلْتُ فَأَذْهَبَ اللهُ مَا كَانَ بِیْ

میں نے اسی طرح (دم) کیا تو اللہ نے یہ تکلیف مجھ سے دور کردی ۔[65]

ب:کسی دوسرے کا مریض کو بغیر کہے دم کرنا:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺبیمار ہوتے تو جبریل علیہ السلام آپﷺ کو ان الفاظ کے ذریعےدم کیاکرتےتھے:

 بِاسْمِ اللهِ يُبْرِيكَ، وَمِنْ كُلِّ دَاءٍ يَشْفِيكَ، وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ، وَشَرِّ كُلِّ ذِي عَيْنٍ

اللہ کے نام کی برکت سے شروع کرتا ہوں کہ آپ کو صحتیابی سے نوازے ، ہر بیماری سے شفادے ہر حسد کرنے والے کے حسد کے شر سے اللہ آپ کو محفوظ رکھے اور ہر ایک کی نظر سے آپ کی حفاظت فرمائے۔[66]

اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، ’’نبی کریمﷺ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے لیے اللہ تعالی کی پناہ طلب کیا کرتے تھے اور ساتھ فرماتے ، تمہارے باپ (یعنی جد امجد ) ابراہیم علیہ السلام ان (کلمات) کے ساتھ اسماعیل اور اسحاق علیہماالسلام کے لیے(اللہ تعالی کی)پناہ طلب کیا کرتے تھے۔

 أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ

میں اللہ تعالی کے کامل تاثیر والے کلمات کے ساتھ ہر ایک شیطان ہر زہریلے جانور اور ہر نقصان دینے والی نظر بد سے پناہ طلب کرتا ہوں۔‘‘ [67]

ج:کسی سے دم کروانا:

خارجہ بن صلت اپنے چچا سے بیان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ﷺسے ملاقات کے بعد عرب کے ایک محلے میں پہنچے، اس محلے کے لوگوں نے کہا ہمیں بتایا گیا ہےکہ تم اس شخص (یعنی محمدﷺ) سے خیر و برکت لے کر آئے ہو کیا تمہارے پاس کوئی دوا  یا دم ہےکیونکہ ہمارے پاس ایک آسیب زدہ شخص زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے !، ہم نے کہا کہاں ہے ؟ چنانچہ وہ اس شخص کو لے آئے جو زنجیروں میں جکڑاہوا تھا خارجہ کے چچا کہتےہیں کہ : ’’میں نے تین دن اس پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ، میں اپنے تھوک کو اکٹھا کر کے اس پر تھوکتا رہا گویا وہ پہلے بندھا ہوا تھا جس سے اس کو آزادی حاصل ہوگئی ان لوگوں نےمجھےمزدوری دی میں نے (لینے سے ) انکار کردیا جب تک  میں نبی کریم ﷺسے دریافت نہ کرلوں، آپ ﷺنے فرمایا:

كُلْ فَلَعَمْرِي لَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ

 تو اسے کھا سکتاہے، مجھے اپنی زندگی کی قسم ! کچھ وہ لوگ ہیں جو غلط دم کرکے کھاتے ہیں لیکن تونے صحیح دم کرکے کھایا ۔[68]

ٹیلی فون کے ذریعے دم کرنے کا حکم؟

ضروری ہےکہ مریض پر دم بلا واسطہ اور براہ راست ہو، چنانچہ لاؤڈا سپیکر یا ٹیلی فون کے ذریعے دم کرنا صحیح اور درست نہیں ہے، کیونکہ ایساکرنا رسول اللہﷺکے طریقۂ دم ، آپﷺکے اصحاب کے طریقے اور احسان کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں (تابعین اور اتباع تابعین وغیرہ) کے طریقۂ دم کے خلاف ہے[69]۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیاطین و حاسدین کے شر سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی آله و صحبه و سلم


[2] تیسیر العزیز الحمید:2/280 [3] صحيح البخاري 4/ 10 [4] القول المفید للعثیمین 1/489 [5] مؤطا امام مالک2/444 [6] مصنف عبدالرزاق10/180 [7] جامع ترمذی ،ص:346 موقوف صحیح، الکبائر للذھبی ،ص:18، ط : دارالکتب العربی [8] صحیح بخاری۔ حدیث :3275 [9] جادوجنات سے بچاؤکی کتاب، ص:18 [10] دیکھیئے: الموسوعۃ الفقهیۃ الکویتیۃ24/262 [11] تفسیر ابن کثیر1/712 [12] صحیح سنن ابن ماجہ:3548 [13] جادوجنات سے بچاؤکی کتاب،ص:113 [14] جادو کی حقیقت،ص:207، مجموع الفتاوی19/39،40 [15] بدائع التفسیر: 3/448 [16] تفسیر احسن البیان۔1757 دیکھئے تفسیر ابن کثیر: 8/539 [17] فتاوی ارکان الاسلام للعثیمین، ص:46، اردو [18] سنن ابن ماجه :2/ 1228 [19] روزنامہ جنگ ، اشاعت: بروز اتوار بتاریخ2015-2-22 [20] لسحر و الشعوذۃ للفوزان،ص:445، تحت مجموعۃ رسائل دعویۃ ومنہجیۃ [21] دیکھئے جنات کا پوسٹ مارٹم، ص:176تا 183 [22]  دیکھئے : معالم السنن للخطابی4/217 [23] تیسر القرآن4/714 [24] تفسیراحسن البیان،ص:1755 [25] تفسیر القرآن الکریم، مولف عبدالسلام بھٹوی،4/1025 [26] السحر والشعوذۃ،ص:448 [27] صحيح البخاري:7/ 19 [28] تیسیرالعزیز الحمید2/716 [29] { FN 1792 }القول المفیدللعثیمین 1/528 [30] النہایہ 2/413 [31]  النھایہ2/798 [32]  القلم:10-12 [33]  صحيح مسلم 4/ 2012 [34] تیسیر العزیز الحمید،2/713 [35] المنہاج للنووی۔16/374 [36] تفسیرالقرآن العظیم4/1027 [37] فصیل کے لیے دیکھیں، بدائع التفسیر3/427-435 [38] الإیمان بالقضاء والقدر،ص:229 [39]  کتاب العلم للعثیمین، ص:298 [40] جادو اور آسیب کا کا میاب علاج،ص:284-285 [41] تفصیل کے لیے دیکھیں: الحذر من السحر للدکتور الجریسی،ص187تا191) نیز :500 سوال وجواب برائے جادو وجنات،ص:273 [42] فتاویٰ اصحاب الحدیث۔4/447،448 [43]  500سوال برائے جادو و جنات : ص381 [44] جادو اور آسیب کا کامیاب علاج:ص93 [45] جنات سے بچاؤکی کتاب: ص59-60 [46] جنات کا پوسٹمارٹم۔ص:412 [47] جادو کی حقیقت، ص:206 [48] الحذر من السحر،ص:192 [49]  جادو کی حقیقت اور اس کا علاج،ص:60 [50] جادو اور آسیب کا کامیاب علاج،ص:93 [51] جادو اور آسیب کا کامیاب علاج،ص:93 [52]  500 سوال وجواب برائے جادو و جنات: ص381 [53]  جنات کا پوسٹمارٹم: ص413 [54] جادو اور آسیب کا کامیاب علاج: ص93 [55] الحذر من السحر،ص:193 [56] سنن أبي داود تحقیق الأرنؤوط 6/ 5 [57] جادو اور آسیب کا کامیاب علاج،ص:94-95 [58] جنات کا پوسٹمارٹم،ص:366

 [59] 500 دسوال وجواب برائے جادو و جنات،ص:124

[60] جادو جنات سے بچاؤ کی کتاب :ص124 [61] مسند احمد 3/293، حسن، فتح الباری 10/323، السلسلۃ الصحیحۃ، 6/612،2:2760) [62]  مصنف ابن ابی شیبہ:23818 [63] اعلام الموقعین 6/558مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: اعلام الحائر بحکم حل السحر علی ید الساحر، لمحمد بن عبداللہ الامام [64]  السنن الكبرى للنسائي 7/ 76 [65] السنن الكبرى للنسائي 7/ 76 [66] صحيح مسلم 4/ 1718 [67] صحيح البخاري 4/ 147 [68] مسند أبي داود الطيالسي 2/ 701 [69]  500 سوال جواب برائے صحت وعلاج، ص:296
IslamFort: