اسرائیل 14 مئی سنہ 1948 ءکو وجود میں آیا ، یعنی قیام پاکستان کے ٹھیک دس ماہ بعد یہ ظالم اور جابر ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا ، اس سے پہلے سینکڑوں سالوں تک اس پورے خطے پر فلسطین کے مسلمانوں کا ہی قبضہ تھا ،چنانچہ ایک عرب مصنف احمد عوضی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
“تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ فلسطین میں سب سے پہلے رہائش اور سکونت اختیار کرنے والے ایک عرب قبیلہ کنعانی تھے ، جنہوں نے چھ 6ہزار سال قبلِ میلاد فلسطین میں سکونت اختیار کی، یہ قبیلہ جزیرہ عرب سے فلسطین آیا اوران کے آنے کے بعد ان کے نام سے اسے فلسطین کا نام دیا گیا ۔ ‘‘1
یہودیوں کی آمد
احمد عوضی اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ :”فلسطین میں یہودیوں کی آمد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے آنے کے تقریبا چھ سو سال بعد ہوئی ہے یعنی یہودی فلسطین میں پہلی بار چودہ سو سال قبل میلاد آئے ، تواس طرح کنعانی لوگ یہودیوں سے چار ہزار پانچ سوسال پہلے فلسطین میں داخل ہوئے اوراسے اپنا وطن بنایا۔2
تاریخی حقائق
اگر تاریخ کی دنیا میں جاکر دیکھیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ سنہ 1948 ءسے پہلے فلسطین پرعرب کے مسلمانوں کا ہی قبضہ تھا ، سنہ 1517 ءمیں 98 فیصد مسلمان اور صرف 1 اعشاریہ 7 فیصد یہودی رہتے تھے ،سنہ 1882 ءمیں 92 فیصد مسلمان اور 8 فیصد یہودی رہتے تھے ، سنہ 1917 ءمیں اس خطے کی کل آبادی میں 91 فیصد مسلمان تھے اور صرف 8 فیصد یہودی تھے ،سنہ 1917 ءتک 90 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی ، اس وقت موجودہ اسرائیل میں شامل تمام علاقے فلسطین کے پاس ہوا کرتے تھے۔ یعنی تاریخی اعتبار سے فلسطین ہمیشہ سے ہی مسلمانوں کا ہی علاقہ رہا ہے۔
یہودی آبادی میں تیزی سے اضافہ
سنہ 1920 اورسنہ 1940 ءکی دہائیوں کے درمیان اس علاقے میں پناہ گزین کی حیثیت سے پہنچنے والے یہودیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا کیونکہ یورپ میں یہودیوں کو عیسائیوں کی طرف سے سخت ظلم و ستم، نفرت اور بے انتہا دشمنی کا سامنا تھا ، کیونکہ عیسائیوں کا یہ ماننا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو یہودیوں نے سولی پر چڑھایا ہے ، دوسری عالمی جنگ سے پہلے جرمنی میں 90 لاکھ یہودی رہتے تھے ، لیکن جرمنی کے ہٹلر نے ان میں سے 7 لاکھ یہودیوں کو مار ڈالا ، یہودی لوگ ڈرے ہوئے تھے ، انہیں خوب مارا جا رہا تھا اور وہ اپنی جان بچانے کیلئے پناہ گزین کے روپ میں فلسطین آنے لگے کیونکہ ان کا اپنا کوئی ملک نہیں تھا جہاں وہ جا سکیں ، اس لئے انہوں نے اپنی جان بچانے کیلئے فلسطین آنے کا فیصلہ کیا جسے وہ اسرائیل کہتے تھے ، اور اس کام کیلئے انگریزوں نے یہودیوں کی مدد کی ،جب دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں نے انگریزوں کی مدد کی تو انگریزوں نے خوش ہو کر یہودیوں سے یہ وعدہ کیا کہ وہ ان کیلئے ایک الگ ملک “اسرائیل” بنانے میں مدد کریں گے ۔
فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ
پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے سنہ 1917 ءمیں فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس خطے میں اس وقت عرب مسلمان اکثریت میں تھے اور یہودی اقلیت میں تھے۔ اس حقیقت کو نظر اند از نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت تک دونوں یعنی عرب مسلمان اور یہودی محبت سے رہتے تھے، فلسطین پر جب مسلمانوں کا قبضہ تھا تو انہوں نے کبھی بھی یہودیوں کو یہاں بسنے سے روکا نہیں ، یہودی پناہ گزین کے طور پر اپنے یہودی خاندانوں کے ساتھ اس خطے میں آتے تو فلسطین کےمسلمان ان کا گرم جوشی سے ا ستقبال کرتے تھے ۔
بالفور ڈیکلریشن کیا ہے ؟
“معاہدہ بالفور “(Balfour Declaration)تقسیم فلسطین اور عرب علاقوں میں اسرائیل ریاست کے قیام کی سازش کے لیے طے پانے والا ایک معاہدہ تھا ، برطانیہ نے یہودیوں کے ساتھ وعدہ کیا ہوا تھا کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرےگا اور جب موقع ملے گا انہیں فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کرے گا۔ یہ وعدہ 2 نومبر سنہ 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور کے ساتھ ایک معاہدہ کی صورت میں ہوا تھا جسے ’’اعلان بالفور‘‘(Balfour Declaration)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس معاہدہ کی توثیق برطانوی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں 31 اکتوبر سنہ 1917ء کو ہو ئی، اسی منصوبہ کے تحت عالمی برادری نے برطانیہ کو ذمہ داری دی کہ وہ یہودیوں کے لئے فلسطین میں “قومی گھر”کی تشکیل کرے۔ قومی گھر کا ذکر ہوتے ہی خطے میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی ۔ اسی کشیدگی کے دوران فلسطین میں یہودی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور سنہ 1917 ء میں جہاں فلسطین میں یہودیوں کی آبادی صرف 8 اعشاریہ ایک فیصد تھی وہی آبادی 1922 ءمیں بڑھ کر 11 فیصد ہوگئی ،سنہ 1931 ء میں یہ آبادی بڑھ کر 17 فیصد ہوگئی ،سنہ 1936 ء میں 28 فیصد اور پھر سنہ 1947 ء میں 32 فیصد ہوگئی ۔یوں ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کی آبادی گھٹتی رہی اور یہودیوں کی آبادی بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ سنہ 1948ء میں یہودیوں کی آبادی 7 لاکھ تک پہنچ گئی اور عالم کفرنے مل کر فلسطین کا حق غصب کر کے یہودیوں کو ایک الگ وطن دے دیا۔
ریاست بننے کے عالمی قوانین اور اسرائیل کی ہٹ دھرمی
ریاست بننے کے عالمی قوانین کے مطابق کسی ملک کے وجود میں آنے یا کسی ریاست کے ریاست بننے کیلئے تین بنیادی شرط ہیں۔
پہلی شرط: ریاست بننے کیلئے پہلی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کا اپنا علاقہ ہو ۔
دوسری شرط : ریاست بننے کیلئے دوسری شرط یہ ہے کہ اس ریاست کی کوئی سرحدیں معین ہوں ۔
تیسری شرط : ریاست بننے کیلئے تیسری شرط یہ ہے اس کے معین علاقے میں اس ملک کے شہری بستے ہوں جو اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں ۔
اسرائیل ان سارے قواعد وضوابط کے بالکل برعکس ہے ۔ فلسطین کبھی بھی اس کا علاقہ نہیں رہا ہے بلکہ طاقت ، بدمعاشی اور اقوام متحدہ جو امریکہ اور برطانیہ کی لونڈی ہے اس کے منافقانہ کردار کے باعث قابض ہوکر بیٹھا ہوا ہے ۔
یہود کے ہاں کوئی معین سرحد نہیں ہے یہ اپنے عقیدے کے مطابق کہتے ہیں کہ نیل سے فرات تک علاقہ ہمارا ہے ۔صرف یہ چھوٹا سا فلسطین ہمارا نہیں ، بلکہ نیل سے فرات تک ہمارا ہے ۔ گریٹر اسرائیل ہم قائم کرکے دکھائیں گے ۔ اور اس کو قائم کرنے کیلئے جتنا عربوں کو مارنا پڑے ہم انہیں ماریں گے ۔ جتنے فلسطینیوں کو مارنا پڑے ہم ماریں گے ۔ یہ کھلے عام ان کے اعلانات ہیں ۔ تو اسرائیل کے ہاں کوئی معین سرحد نہیں ہے ۔
تیسری شرط کے متعلق ان کا ماننا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی یہودی آباد ہیں وہ اسرائیل کے شہری ہیں ،یعنی اسرائیل تینوں بین الاقوامی اصولوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا ۔
اقوام متحدہ کا منافقانہ کردار
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔ برطانیہ نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کردیا ، 29 نومبرسنہ 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کرتے ہوئے فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ اور کہا کہ ایک حصہ میں مسلمان رہیں گے اور دوسرے حصے میں یہودی رہیں گے ، اور جس حصے میں یہودی رہیں گے وہ ایک الگ ریاست کہلائے گی جس کا نام اسرائیل ہوگا ۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ساڑھے بارہ لاکھ فلسطینی عربوں کے لیے تو 45فیصد رقبہ مخصوص کیا، مگر 6لاکھ یہودیوں کے لیے 55فیصد علاقہ دے دیا۔جبکہ یروشلم کو انٹرنیشنل زون قرار دے دیا ۔
سنہ 1948 ءمیں اسرائیل بنتے ہی عرب ملکوں نے اچانک اسرائیل پر حملہ کردیا ، اسرائیل نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے فلسطین کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا ، پھرسنہ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران 14 مئی سنہ 1948 کو برطانوی فوجیوں کے نکل جانے کے بعد اسرائیل نے آزادی کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں عرب ریاستوں کے ساتھ آٹھ ماہ طویل جنگ کا آغاز ہوا۔ اس دوران 400 فلسطینی دیہات جلا دیے گئے جبکہ سات لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ اسرائیل نے فلسطین کے 75 فیصد رقبہ پر قبضہ کرلیا اور پھر دوسری عرب اسرائیل جنگ سنہ 1973ء میں پورا فلسطین اور بیت المقدس یہودیوں کے تسلُّط میں آگیا۔ چنانچہ سنہ 1917 ءمیں جو علاقہ فلسطین کے مسلمانوں کے پاس ہوا کرتا تھا ، اس پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا ، اور آج یہاں لگ بھگ 76 فیصد یہودی رہتے ہیں اور صرف 12 فیصد علاقوں پر ہی فلسطین کا قبضہ ہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ ایک زمانے میں جب فلسطین کے پاس 98 فیصد علاقہ تھا وہ کم ہوکر اب صرف 12 فیصد رہ گیا ہے اور اسرائیل اس وقت فلسطین کے اکثر علاقوں پر قابض ہوچکا ہے ۔
اسرائیل کے ناپاک عزائم
آج کا اسرائیل سنہ 1948ء کے اسرائیل سے تین گنا بڑا ہے اور وہ اپنی ریاست کی جغرافیائی سرحدوں اور حدودِ اربعہ کا قائل ہی نہیں ہے۔ اسرائیل محض فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ اور ناجائز قبضہ کرنے پر قانع نہیں ہے بلکہ اسرائیل کی اپنی پارلیمنٹ میں صہیونی عزائم پر مشتمل جو ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا نقشہ ہے، اس میں اُردن، مصر، شام، عراق، سوڈان اور آدھا سعودی عرب جس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے، یہ سارا علاقہ اسرائیل اپنی گرفت میں لینے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
اسرائیل کے قیام کا مقصد ہی عظیم اسرائیل کا قیام ہے جس کے نتیجے میں یہودی ’’ہیکلِ سلیمانی‘‘ کی دوبارہ تعمیر کریں گے، وہاں ’’تختِ داؤدی‘‘ آراستہ کریں گے اورپھر ان کا ’’آخری مسیحا‘‘ اس تخت پر بیٹھ کر ایک عالمی حکومت قائم کرے گا۔ اسی عقیدے پر ایمان کی بنیاد پرلاکھوں یہودی دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں سے اپنی پُرآسائش رہائش گاہیں اور بڑے بڑے کاروبار چھوڑ کر آج اسرائیل میں آکر آباد ہوچکے ہیں۔ اسرائیل کا ماحول خالصتاً ہنگامی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے ، جس میں ہر نوجوان کو میٹرک کے بعد دو سالوں کے لئے لازمی فوجی ملازمت کرنا ہوتی ہے،اور ان دو برسوں میں اسے مسلمانوں سے لڑنے، ان پر فتح حاصل کرنے اور مسیحا کی آمد تک اسرائیل کو مضبوط بنانے کے جذبات سے اس قدر بھر دیا جاتا ہے کہ وہ باقی ماندہ زندگی یہی خواب دیکھتا رہتا ہے کہ کب وہ وقت آئے گا جب وہ اس فوج کا حصہ ہوگا اور اُردن، مصر، عراق، شام اور سعودی عرب میں آباد مسلمانوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک عالمی یہودی حکومت کے قیام کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔
فلسطین کی تاریخی اہمیت
فلسطین انبیاء کی سرزمین ہے اور ہزاروں انبیاء اس سرزمین پر تشریف لائے ہیں ۔ مسلمانوں کا قبلہ اول یہیں پر ہے ، مسجد اقصی بھی یہیں پر ہے ، رسول اللہ ﷺنے اسی جگہ پر تمام انبیاء کی امامت فرمائی ۔ جب آپ ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی تو موسی اور عیسی علیہما السلام بھی تشریف فرما تھے ۔ موسی علیہ السلام کے دور میں بنی اسرائیل امت بنی ، عیسی علیہ السلام ان کے آخری رسول تھے، تمام انبیاء کے ساتھ یہ دونوں نبی بھی مقتدی کی حیثیت سے آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے تھے ۔ اور محمد ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی ۔ اس میں اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ بیت المقدس اور مسجد اقصی کی تولیت ، اور نگرانی امتِ محمدیہ کے حوالے ہوگی۔ لہذا قبلہ اول اب مسلمانوں کا ہے ، کیونکہ مسلمان پہلے اس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے ،پھر ہجرت مدینہ کے 16 یا 17 مہینوں کے بعد بیت اللہ قبلہ مقرر کر دیا گیا ۔
دو اصولی باتیں
اسرائیل فلسطین جنگ کے متعلق بہت سی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ،بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں ، حماس کے متعلق بھی لوگوں کی مختلف آراء ہیں ، سب قیاس آرائیاں اپنی جگہ لیکن یہ دو باتیں سو فیصد درست ہیں ان میں کوئی احتمال ، شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
پہلی بات یہ کہ اسرائیل ایک ظالم ،جابر وغاصب حکومت ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ فلسطین کے مسلمان مظلوم ہیں ۔ اسرائیل نے ظلم وستم اور طاقت کے بل بوتے پر فلسطین پر قبضہ کیا ہے ۔ مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ، ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کی جارہی ہے ، فلسطینی روزانہ لاشیں اٹھا رہے ہیں ، یہ صرف گذشتہ ایک ہفتہ کی بات نہیں ہے بلکہ سالوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے ۔
ہماری ذمہ داری
اس تاریخی مسجد کو آزاد کرانا امت مسلمہ کے ذمہ فرض ہے ۔اور فلسطین کے نوجوان اور مجاہدین فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں ، اللہ ان کی مدد فرمائے ،حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کعبہ شریف کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ فرما رہے تھے:
ما أَطْيَبَكِ ، وما أَطْيَبَ رِيحَكِ ؟ ما أعظمَكَ وما أَعْظَمَ حُرْمَتَكِ . والذي نَفْسُ محمدٍ بيدِهِ لَحُرْمَةُ المُؤْمِنِ عِنْدِ اللهِ أعظمُ حُرْمَةً مِنْكِ ؛ مالِهِ ودَمِهِ وأنْ نَظُنَّ بهِ إِلَّا خيرًا
(صححہ الألبانی فی صحيح الترغيب: 2441 )
تو کتنا پاکیزہ ہے! اور تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے! تو کس قدر عظیم ہے! تیرا احترام کتنا عظیم ہے! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺکی جان ہے! اللہ کے ہاں مومن کی حرمت تیری حرمت سے بڑھ کر ہے، یعنی اس کے مال اور جان کی حرمت، اور یہ کہ اس کے بارے میں بدگمانی کرنا بھی حرام ہے۔
تو ایسے میں وہاں کے مسلمانوں کا پورا حق ہے کہ ظلم کا جواب دیں ،ظالموں کے مقابلے میں کھڑے ہوں ، اپنی زمین کو آزاد کرانے کی کوشش کریں ، مقامات مقدسہ کو آزاد کرانے کی جد وجہد کریں، مظلوم اپنے دفاع کیلئے کھڑے ہوں ،ظالم کا ہاتھ روکنے کیلئے کھڑے ہوں ، مسجد اقصی کو آزاد کرانے کیلئے کھڑے ہوں ،یہ فلسطینی مسلمانوں کا حق اور فرض بنتا ہے ۔ بلکہ یہ فرض امت مسلمہ کا ہے ۔
عالم کفر کا منافقانہ کردار
عالم کفر اسلام کےخلاف ملت واحدہ ہے۔ اس وقت امریکا، برطانیہ ، فرانس، جرمنی اور آسٹریلیا اسرائیل کو مسلمانوں کی بدترین نسل کشی کے لیے بڑے پیمانے پر خوفناک تباہی پھیلانے والا اسلحہ بھیج رہے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ہزاروں امریکی میرینز اسرائیل پہنچ گئے ہیں، فرانس اسرائیل کی مدد کے لیے ٹونر طیارہ بردار بحری جہاز بھیجے گا، جو درجنوں ہیلی کاپٹر اور سینکڑوں میرین فوجیوں کو لے جا سکتا ہے ، جرمنی اور آسٹریلیا اسرائیل کے ساحلوں پر جنگی جہاز، فوجی طیارے اور خصوصی دستے بھی بھیج رہے ہیں۔ برطانیہ نے اپنے ملک میں فلسطینی پرچم لہرانے پر بھی پابندی لگائی ہے ، جبکہ امّت مسلمہ کے حکمران فلسطینی مسلمانوں کے لئے خیمے ، راشن ، دوائیاں اور تابوت بھیج رہے ہیں ۔
آج تمام عالم کفر اسرائیل کی پشت پناہی کیلئے کھڑے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو حقوق انسانی کے چمپئین کہلاتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو دن رات انسانی حقوق کی بات کرتے تھکتے نہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو آزادی اظہار کا علم بردار کہلاتے ہیں ، اور یہ ان کا مکروہ چہرہ ہے ، یہ ان کا منافقانہ کردار ہے ۔ ان سیکولر لوگوں سے سوال ہے کہ آج برطانیہ ، فرانس اور امریکہ اسرائیل کو کھلے لفظوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ تم فلسطینیوں کا قتل عام کرو ، ان کا جینا حرام کردو ، ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہیں ، ہم تمہارے لئے ہر قسم کا اسلحہ بھیجیں گے ، اپنے بحری بیڑے بھیجیں گے ، تم آگے بڑھو اور مسلمانوں کا قتل عام کرو ، سارا عالم کفر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے متفق اور متحد ہے۔ کہاں ہیں وہ لبرل اور سیکولر لوگ ؟ آج یہ لوگ ان کے منافقانہ کردار پر احتجاج اور مظاہرہ کیوں نہیں کرتے؟ کہاں گئی وہ فریڈم آف اسپیچ ؟ کہاں گئیں وہ انسانی حقوق کی باتیں ؟ آج ان کو فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی کیوں نظر نہیں آتی ؟ آج فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں کوئی احتجاج اور مظاہرہ کیوں نہیں کرتے ؟
سیکولر اور لبرل طبقات کا رویہ
مسلمانوں کے اندر حقوق انسانی کی باتیں کرنے والے سیکولر اور لبرل طبقات سے سوال ہے کہ تم میں سے کتنے لوگوں نے فلسطین کے حق میں آواز بلند کی ہے ؟ یہ لوگ جو کتے اور بلیوں کے لئے آواز بلند کرتے ہیں ، جو عورتوں کی حقوق کی بات کرتے ہیں ، ان سیکولر طبقات سے سوال ہے کہ کیا انہوں نے فلسطین پر ایک لفظ بولا ہے ، کیا انہیں فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی ؟ جو ساحل سمندر پر لوگوں سے واک کراوتے ہیں ، جو پانچ لوگوں کے سامنے 50 کیمرے لیکر آتے ہیں ، کیا انہوں نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کیلئے بھی کوئی واک کروائی ہے ؟ کوئی آواز بلند کی ہے ؟ تو مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو سیکولر مائنڈڈ ہے ، لبرل ہیں ، ان کوباقی مغربی دنیا میں ہونے والا معمولی واقعہ فوراً نظر آجاتا ہے لیکن فلسطین پر ہونے مظالم ، حقوق انسانی کی پامالی نظر نہیں آتی ، کوئی لبرل بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ لیکن عوام بے حس نہیں ہیں ، عوام ہر جگہ ، ہر فورم پر اپنے جذبات کا اظہار کر رہی ہے ۔ لیکن بحیثیت مجموعی امت سوئی ہوئی ہے ، اور مسلمان ممالک بالخصوص عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات، اسرائیل کو قبول کرنے کی باتیں ،تجارتی معاہدات کرنے کی باتیں ،اور امریکہ کے سامنے جھکتے چلے جانے کی باتیں کیے جارہے ہیں ،امتِ مسلمہ کا کردار اس وقت صرف اخباری بیانات کی حد تک محدود ہے ، سارے اسلامی ممالک برائے نام اجلاس منعقد کررہے ہیں ، رسمی کاروائیاں کر رہے ہیں ، یہ امت مسلمہ کی اکثریت اور مسلمان حکمرانوں کا حال ہے ، بکے ہوئے ہیں ، جھکے ہوئے ہیں ۔
امت مسلمہ کا کیا کردار ہونا چاہئے؟
امت مسلمہ ایمان و اسلام سے اپنے تعلقات استوار کرے اور رسول اللہ ﷺسے اپنا رشتہ جوڑے اور ان کے دئیے ہوئے دین اور ان کی لائی ہوئی شریعت کو اپنی اپنی ریاستوں اور اپنے اپنے ملکوں میں رائج کرے، یقینا رب العالمين کی رحمتیں ان پر سایہ فگن ہونگی اور ان کی غربت و افلاس اور ہزیمت و ذلت کے بادل چھٹ جائیں گے ۔ اور پھر اسی طرح کامیابیاں اور کامرانیاں ان کے ہمرکاب اور ان سے ہمکنار ہونگی جیسا کہ قرون اولی میں ہوا کرتی تھیں کیونکہ رب العزت کا وعدہ ہے:
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
( سورہ آل عمران :139)
(اے مسلمانو)! نہ تم سستی دکھانا اور نہ ہی غمزدہ ہونا اور اگر واقع تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے
مسلمانو! ذرا اپنی آنکھیں کھولو! یہ میرا اور آپ کا امتحان ہے ، یہ مشکل حالات گذر جائیں گے ان شاء اللہ لیکن یہ ہمارا اور آپ کا امتحان ہے کہ ہم کس کے ساتھ کھڑے ہیں ؟ دنیا کے نام نہاد آزادی کے چمپئین کہلانے والوں کے ساتھ؟ حقوق انسانی اور آزادی اظہار کے جھوٹ نعرے لگانے والوں کے ساتھ؟ 75 سال سے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم کرنے والوں کے ساتھ ؟ 75 سال سے فلسطینیوں کا خون بہانے والوں کے ساتھ ؟ یا مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ؟ اگر عالم کفر “الکفر ملۃ واحدۃ” کے تحت یکجا ہوکر مسلمانوں کی نسل کشی میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہا ہے تو مسلمان ایک کیوں نہیں ہوسکتے حالانکہ دین اسلام وہ واحد دین ہے جس کے ماننے والے لاکھ فروعی اختلافات کے باوجود متحد ہوسکتے ہیں۔
فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی مدد کریں
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ
( سورۃ الحجرات :10)
بلا شبہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔
اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ المُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا. وشَبَّكَ أصَابِعَهُ.
( صحيح البخاري: 481 )
کہ مسلمان ایک عمارت کی مانند ہیں ، ایک اینٹ دوسری اینٹ کے ساتھ ملکر دیوار بن جاتی ہے اور دیوار پوری عمارت کو مضبوط کرتی ہے ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ مل کر پوری امت کو مضبوط کرتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
المُسْلِمُ أخُو المُسْلِمِ لا يَظْلِمُهُ ولَا يُسْلِمُهُ،
( صحيح البخاري: 2442)
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تَرَى المُؤْمِنِينَ في تَراحُمِهِمْ وتَوادِّهِمْ وتَعاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ، إذا اشْتَكَى عُضْوًا تَداعَى له سائِرُ جَسَدِهِ بالسَّهَرِ والحُمَّى.
(صحيح البخاري: 6011)
یعنی ساری امت ایک دوسرے سے محبت، رحم دلی اور التفات و تعاون میں جسم واحد کی طرح ہے اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے ۔
تو امت کے ایک حصے کی تکلیف کو پوری امت کی تکلیف کی مانند محسوس کرنا چاہیئے ، مسلمان عوام میں جذبہ ایمانی اور دینی حمیت وغیرت موجود ہے ، اور مسلمان عوام میں بھی وہ لوگ جو دین سے منسلک اور جڑے ہوئے ہیں ، تقریبا تمام دینی جماعتیں ملک بھر میں احتجاجی مطاہرے کر رہی ہیں ۔
پاکستان کی ابتداء سے تا حال کیا پالیسی رہی، کیا پالیسی ہونی چاہئے؟
پاکستان کی پالیسی پہلے دن سے طے ہے ، بانی پاکستان محمد علی جناح ؒ نے کہا تھا کہ: اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے ، اور قائد اعظم نے کہا تھا کہ: اگر اسرائیل فلسطین کے ساتھ کوئی گڑبڑ کرے گا تو ہم یہاں پاکستان سے جواب دیں گے ۔ آج قائد اعظم کی پالیسی کو کیوں اختیار نہیں کرتے ،کیوں بانی پاکستان کا کہنا نہیں مانتے ، ہر سرکاری ادارے، دفتر، آڈیٹوریم میں قائد اعظم کی تصویر لگا رکھی ہے ، ہر سرکاری لائبریری کے اندر قائد اعظم کی تصویر موجود ہے ، کیا قائد اعظم کے فرامین تصاویر لگانے کیلئے ہیں ؟ یا قائد اعظم جیبوں میں نوٹ جمع کرنے کیلئے ہیں ؟ پالیسی اگر بنانی ہے تو واضح موقف اول دن سے موجود ہے ۔ لہذا اسی موقف پر کاربند رہا جائے ۔جب 1967میں اسرائیل کو عربوں پر کامیابی ملی تھی تو اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ہم نے عربوں کو ہرادیا ، لیکن ہمارا اصل نظریاتی دشمن پاکستان ہے ، اسرائیلوں کو سمجھ آرہی ہے لیکن ہم کو سمجھ نہیں آئی ، ہم سب کچھ بھولے بیٹھے ہیں۔
بحیثیت مسلمان ہماری کیا ذمہ داری ہے ؟
کثرت سے دعا ء
دعاء مسلمان اور مؤمن کا ہتھیار ہے ، رسول اللہ ﷺ کا وظیفہ ہے ، لہذا دعاؤں کا اہتمام کریں ۔ اللہ کے سامنے گڑگڑائیں ، کیا فلسطینی بچوں کو دیکھ کر آپ کو اپنے بچے یاد نہیں آتے ؟ انہیں خون میں بہتا ہوا دیکھ کر آپ کی دینی غیرت جاگ نہیں جاتی ؟ ہم میں سے کتنوں نے تنہائی میں فلسطینیوں کیلئے دعا کی ہے؟ کم از کم دعا تو کریں ۔
فرض نمازوں اور نوافل کا اہتمام
فرض نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کریں ،اور کثرت سے نوافل ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِينَ
( سورۃ البقرۃ :153)
اے ایمان والو! (جب کوئی مشکل درپیش ہو تو) صبر اور نماز سے مدد لو۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم فجر کی نماز کیلئے اٹھنے کو تیار نہیں ہیں ، مسلمانوں کی مدد کیا کریں گے؟ اگر اللہ کی مدد اگر چاہئے تو کم از کم فرض نمازوں کو وقت پر ادا کریں ، اور اس کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام کریں کیونکہ سرکشوں ، بے نمازیوں ، باغیوں اور نافرمانوں کیلئے اللہ کی مدد نہیں ہے ۔ اللہ کی مدد متقین کیلئے ہے ۔ سورہ نحل کے آخر میں اللہ ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ
( سورۃ النحل : 128)
بیشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو متقی ہوتے ہیں اور جو بھلائی اور نیک کام کرنے والے ہوتے ہیں۔
گناہوں کو چھوڑیں گے تو اللہ کی رحمت ہماری طرف متوجہ ہوگی ۔
قنوت نازلہ کا اہتمام
جب مسلمانوں پر کوئی عام مصیبت آجائے ، مثلا: کفار کی طرف سے مسلمانوں پر عمومی طور پر ظلم و ستم ہونے لگے ، تو ایسے موقع پر قنوت نازلہ کا پڑھنا صحیح روایات سے ثابت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے قنوت نازلہ میں ظالموں کے نام لے کر بد دعا فرمائی اور مظلوموں کے نام لے کر دعا فرمائی، بئر معونہ کے موقع پر جب ستر صحابہ کو دھوکہ دے کر شہید کر دیا گیا، تو اس وقت ایک مہینہ تک مسلسل آپ ﷺ نے قنوت نازلہ پڑھی۔ موجودہ حالات میں اس کا اہتمام لازمی کریں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :
قَنَتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا مُتَتَابِعًا فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَاةِ الصُّبْحِ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ، يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ عَلَى رِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَعُصَيَّةَ وَ يُؤَمِّنُ مَنْ خَلْفَهُ .
(صحيح أبي داود: 1443).
کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینہ مسلسل ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر کی نمازوں میں قنوت پڑھی ۔ ہر نماز کی آخری رکعت میں رکوع سے اٹھ کر ’’ «سمع الله لمن حمده» ‘‘ کہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی سلیم کے قبائل: رعل، ذکوان اور عصیہ کے حق میں بد دعا کرتے اور جو لوگ آپ کے پیچھے ہوتے آمین کہتے۔
ظلم کے خلاف آواز
ظلم پر خاموشی جرم ہے لہذا جہاں جہاں اپنی آواز پر امن طریقے سے بلند ہوسکتی ہے ،خطبات ، تقاریر ،مضامین اور اخبارات میں کالم کے ذریعے سے فلسطین کے حق میں آواز بلند کریں کیونکہ ظلم پر خاموش رہنا اللہ تعالیٰ کے عذاب کاباعث ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللہُ بِعِقَابٍ
(صحيح أبي داود: 4338 )
” لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں، اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ سب کو اپنے عذاب میں مبتلا کر دے “
ہم میں سے وہ لوگ جو ظلم کے سامنے خاموشی اختیار کرتے ہیں انہیں رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان پر غور کرنا چاہیے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
المُسْلِمُ أخُو المُسْلِمِ لا يَظْلِمُهُ ولَا يُسْلِمُهُ،
(صحيح البخاري: 2442)
“مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے (ظالموں کے) سپرد کرتا ہے۔
آج جذبہ جہاد اور غلبہ دین کیلئے جدوجہد کا آغاز کرنے کی سخت ضرورت ہے ،لہذا ہر سطح پر اپنی آواز کو بلند کرنا ، حکمرانوں کو غیرت دلانا ، مسلم افواج کو غیرت دلانے کی کوشش کرنا ، یہ ہمارے بس میں ہیں ، ہم یہ کام کر سکتے ہیں ۔
یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ
محارب یہودیوں اور دوسرے حربی کفار کے خلاف مالی اور جانی جہاد کے مشروع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں، اور اس میں ہر وہ وسیلہ اور طریقہ داخل ہوگا جس سے ان کفار کی اقتصادیات کمزور ہوں اور انہیں نقصان پہنچے۔ اس لیے کہ پہلے دور میں بھی اور آج بھی جنگ کیلئے اقتصادیات ریڑھ کی ہڈی شمار ہوتی ہے۔
شریعت میں بائیکاٹ کا ثبوت :
فلسطین کی حمایت میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ایک قابل تعریف اقدام ہوگا۔ ہر وہ تدبیر اپنائی جائے جس سے دشمن کی کمر ٹوٹ جائے اور ظالم اپنے ظلم و ستم سے باز آ جائے۔ یہ ایمانی غیرت کی علامت ہے۔ شریعت میں اس کی اصل موجود ہے۔ صحیح بخاری میں ایک واقعہ موجود ہے کہ :
فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ ، قَالَ لَهُ قَائِلٌ : صَبَوْتَ ، قَالَ : لَا ، وَلَكِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا وَاللہِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
(صحیح البخاری :4372)
ترجمہ : سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا، عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ گئے تو اہل مکہ نے انہیں اسلام قبول کرنے پر بے دین ہونے کے طعنے دیے۔انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد ﷺ کے ساتھ ایمان لے آیا ہوں اور اللہ کی قسم ! اب تمہارے پاس یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم ﷺ اجازت نہ دے دیں۔
سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے پاس گندم سپلائی کی ایجنسی تھی۔ اہل مکہ کو بھی گندم کی سپلائی وہی کرتے تھے۔ جب اہل مکہ نے اسلام قبول کرنے پر انہیں برا بھلا کہا تو سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے گندم کی سپلائی روک دی ۔ یہ ان کی طرف سے اہل مکہ کا اقتصادی بائیکاٹ تھا اور اس اقتصادی بائیکاٹ کے ذریعے انہیں مالی نقصان پہنچانا مقصود تھا۔ تو آج بھی اقتصادی بائیکاٹ کر کے یہودی قوم کو نقصان پہنچانا سنت نبوی ہے ۔
اس وقت دنیا میں تیل پیدا کرنے والے 11 بڑے مالک ہیں جن میں سے دس ممالک مسلمان ہیں۔ الجیریا، انڈونیشیا، ایران، کویت ، عراق، لیبیا، قطر، نائجیریا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،اور ایک غیر مسلم ملک وینزویلا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیل بلکہ تقریباً سارا تیل مسلمانوں کے پاس ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں یورپ کی اجارہ داری کی وجہ سے ایک بھی مسلمان ملک ان میں شامل نہیں جب کہ وینزویلا جو غیر مسلم ملک ہے ، دنیا کی 500 بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں شامل ہے اور20 سے زائد امریکی کمپنیاں ایسی ہیں جو مسلمان ممالک سے تیل لے کر فروخت کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے اثاثہ جات کی مالیت2 لاکھ10 ہزار 3 سو92 ملین ڈالر ہوچکی ہے۔
دنیا کی ٹاپ ملٹی نیشنل کمپنیاں
کوکاکولا : ملٹی نیشنل کمپنیوں میں 3 بڑے نام اس وقت دنیا میں چھائے ہوئے ہیں جن میں کوکاکولا پہلے نمبر پر ہے۔ تقریباً 200 ممالک میں اس کا کاروبار موجود ہے۔ یہ کمپنی اسرائیل کی بہت بڑی معاون ہے۔1997ء میں اسرائیل حکومت کے اقتصادی مشن نے کوکاکولا کو اس کی خدمت کے اعتراف میں اسرائیل ٹریڈ ایوارڈ دیا۔ کوکاکولا کے تحت روزانہ98 لاکھ ڈالر مسلم دنیا اسرائیل کو دے رہی ہے۔
میکڈونلڈ : دوسرے نمبر پر بڑی کمپنی میکڈونلڈ ہے جس کی دنیا کے120 ممالک میں 27000 سے زائد ریسٹورنٹ ہیں۔ میکڈونلڈ اسرائیل کو سپورٹ کرنے والا بہت بڑا ادارہ ہے۔ اس کا مالک عمری فیران یہودی ہے۔ اس کو اسرائیل کی شہریت حاصل ہے۔ میکڈونلڈ کا ہیڈ آفس شکاگو میں ہے اور یہیں سے ہر سال عالمی یہودی ریاست کے قیام کے لیے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں اور مسلمانوں کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ فلسطینیوں پر حملے کے لیے استعمال ہونے والے اسلحے کی قیمت ہم ان کمپنیوں کی اشیاء خرید کر ادا کررہے ہیں۔
والٹ ڈزنی : تیسر ے نمبر پر والٹ ڈزنی کمپنی ہے جو کہ ABCٹیلی ویژن نیٹ ورک اور ABC ریڈیونیٹ ورک کی مالک ہے جس کے تحت فلموں کی اشاعت اورکتب و جرائد وغیرہ کی اشاعت ہوتی ہے۔
پیارے مسلمان بھائیوں! شام ، فلسطین ، برما اور کشمیر سمیت جہاں جہاں بھی مسلمانوں کے خلاف مظالم ڈھائے جارہے ہیں اس میں یہودی پیش پیش ہیں اور ہم پاکستانی اپنی اپنی سطح پر کسی نہ کسی طریقے سے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ اگر ہم صرف ایک مرتبہ اس بات کو سوچ لیں کہ ہم نے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنی ہے تو شاید ہمارے پاس اس سے بہتر آپشن کوئی نہیں کہ ہم یہودی مصنوعات کو خریدنا اور اس کو استعمال کرنا ترک کردیں ۔
ہم یہ قطعاً نہ سوچیں کہ ہمارے بائیکاٹ سے کیا ہوگا ہمارا یہ معمولی عمل اسرائیل کی معیشت پر کیا اثر انداز ہو گا۔ اسرائیلی معیشت پر اثر پڑے نہ پڑے کم سے کم ہم اپنی غیرت کے ساتھ تو وفاداری کریں۔ اپنے ضمیر کے زندہ ہونے کا تو ثبوت پیش کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی آخرت پر نظر رکھیں۔ کیا یہ عجب معاملہ نہ ہو گا کہ جب بروز محشر رب العالمین کی بارگاہ میں ہماری زبان، ہاتھ، پیر غرض یہ کہ ہمارا پورا وجود بول کر بتائے گا کہ ہم نے فلسطین پر ہونے والے مظالم کے خلاف اپنا حصہ شامل کیا تھا۔
اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کھوکھلے دعوؤں کو خیر آباد کہیں، عملی اقدامات کریں، تمام اسرائیلی مصنوعات کا ہمیشہ کے لئے مکمل بائیکاٹ کریں، یہ یہودی دہشت گرد قوم ہمیشہ سے ہماری دشمن رہی ہے، وقتی اور جذباتی بائیکاٹ سے ان کا کچھ نہیں ہونے والا، بلکہ تاحیات بائیکاٹ کریں اور اپنی اولاد کو بھی وصیت کرجائیں۔
جہاد فی سبیل اللہ
آج سارا عالم کفر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے جمع ہے اور مسلمان مظلوم ، کمزور، مجبور اور بے بس ہیں۔ مسلمانوں کی مظلومیت ، بے بسی، کمزوری اور مجبوری کا سبب جہاد سے رو گردانی ہے ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما تركَ قومٌ الجِهادَ إلَّا عَمَّهُمُ اللهُ بِالعذابِ
(السلسلۃ الصحيحۃ: 2663)
”جو لوگ جہاد ترک کر دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر عام عذاب بھیج دیتا ہے۔“
اور ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ ، وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ ، سَلَّطَ اللہُ عَلَيْكُمْ ذُلا لا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ
(صحيح أبي داود: 3462)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے گا، بیلوں کے دم تھام لو گے، کھیتی باڑی میں مست و مگن رہنے لگو گے، اور جہاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا، جس سے تم اس وقت تک نجات و چھٹکارا نہ پا سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ گے۔
فلسطینی مظلوم مسلمانوں کیلئے دعا کیجئے
اللهم فرِّجْ همَّ المهمومين، ونَفِّسْ كربَ المكروبين، اللهُم ارْحَمْ موتى المسلمين في غَزَّةَ ، واجعلْ موتَهم شهادةً في سبيلِك يا ربَّ العالمين، اللهُمَّ اشفِ المرضى، وداوي الجرحى، وهيئْ لكلِّ محتاجٍ مأوى، اللهُمَّ اربِطْ على قلوب المصابين، واجبرْ كسرَهم يا ربَّ العالمين، اللهُمَّ ألهمهم الصبرَ والرضا، على ما نزلَ بهم . اللهُمَّ عليك باليهودِ فإنهم لا يعجِزونك ، اللهُمَّ اشدُدْ وطأتَك عليهم ، اللهُمَّ نَجِّ المستضعَفين من المؤمنين ، اللهُمَّ نَجِّهم من عدوِّهم ، وممن لا يأْبَه لقتلِهم وتشريدِهم ۔ اللهُمَّ نسألك العفوَ و العافيةَ ونعوذُ بك من زوالِ نعمتِك، وتحوُّلِ عافيتِك وفجاءةِ نِقْمَتِك، وجميعِ سخطِك، اللهُمَّ إنا نعوذُ بك من جَهْدِ البلاءِ و دَرَكِ الشقاءِ و سوءِ القضاءِ و شماتَةِ الأعداءِ، اللهُمَّ آمنَّا في دورِنا وأصلحْ أئمَّتَنا وولاةَ أمورِنا، اللهُمَّ آتنا في الدنيا حسنةً و في الآخرةِ حسنةً و قنا عذابَ النارِ، سبحانَ ربِّك ربِّ العزَّةِ عمَّا يصفون و سلامٌ على المرسلين و الحمدُ للهِ ربِّ العالمين.
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…