اسلامی مہینے اور ہجری کلینڈر

کسی بھی معاشرے کی تہذیب کا اور ثقافت کا علم اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے دن اور مہینے کس طرح شمار کرتا ہے۔ ان کی رسم اور رواج ،ان کی عبادات ان کا رہن سہن سب چیزیں منسلک ہوتی ہیں ان کے کلینڈر  کے ساتھ ۔اسی لیئے اللہ رب العالمین نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ پہچان اور شناخت دی اور ایک الگ ان کو ایک  کلینڈر دیا اور اس کا تذکرہ اللہ رب العالمین نے خود سورۃ التوبہ آیت نمبر 36 میں کیا ۔

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ

التوبة – 36

مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔

یہ مہینے عرب کے اندر نبی ﷺ سے بعثت سے قبل بھی موجود تھےنبی ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا عمر فاروق نے ضرورت محسوس کی اس کلینڈر کو مرتب کیا جائے اور اس کو کسی خاص واقعے سے منسلک کرکے اور پھر تاریخ کا آغاز کیا جائے جب صحابہ کرام سے مشاورت ہوئی تو مختلف مشورے آئیں جن میں سے سب سے بہترین مشورہ پسند آیا وہ سیدنا علی بن ابی طالب کا مشورہ تھا  کہ اس کلینڈر کو نبی ﷺ کی ہجرت کے ساتھ منسلک کیا جائے کیونکہ ہجرت ایک ایسا واقعہ ہے جس نے تاریخ انسانی کو تبدیل کرکے رکھ دیا اور ہجرت کے بعد اللہ تعالی نے جو اسلام کو غلبہ عطا کیا اور ایک اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی گئی وہ سب مرہون منت ہےاسی ہجرت کی ،یہ بہت بڑی قربانی تھی جو نبی ﷺ نے اورصحابہ کرام نے دی اور اس کے بعد دنیا کا نقشہ تبدیل ہوا تو لہذا ہجرت کے ساتھ اس اسلامی کلینڈر کومنسلک کیا گیا اور نبی ﷺ نے جس سال ہجرت کی اسی سال سے مسلمانوں کا یہ کلینڈرشروع ہوتاہے۔ مہینے وہ ہی ہے  جو عرب میں چلے آرہے تھے ان کی تعداد بارہ ہیں ۔

  نبی ﷺ نے بھی انہی کا نام استعمال کیا ،ہجری کلینڈر بنیادی طور پر مسلمانوں کی شناخت ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں:

پہلی وجہ: اس کا تعلق ہجرت سے ہے۔

دوسری وجہ : مسلمانوں کا آپ ﷺ کےساتھ چونکہ ایک محبت اور تعلق ہے اور آپ ﷺ کی سیرت پر عمل کرنے کا جذبہ اور شوق ہے لہذا اس کلینڈرکے ساتھ جب تک منسلک رہیں گے دین کے اوپر قائم رہیں گے،اسی طرح اس کلینڈر کے اندر مسلمانوں کی بہت سی عبادات کا علم موجود ہے ۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

البقرۃ – 189

تم سے نئے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔تم فرمادو،یہ لوگوں اور حج کے لئے وقت کی علامتیں ہیں اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم گھروں میں پچھلی دیوار توڑ کر آؤ ، ہاں اصل نیک توپرہیزگار ہوتاہے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔

اللہ تعالی نے واضح فرمادیا ہمارا جو کلینڈر ہے وہ اسلامی عبادات کے ساتھ منسلک ہے آپ دیکھ لیجیئے ہماری جتنی بھی عبادات ہے وہ اسی کلینڈر کےساتھ منسلک ہے رمضان کا مہینہ وہ اسی کلینڈرکے حساب سے آتا ہے ،ہماری عید الفطر ہے اسی کلینڈرکے حساب سے آتی ہے، ہماری عید الاضحی ہے اسی کلینڈرکے حساب سے آتی ہے ، ہمارا حج ہے اسی کلینڈرکے حساب سے آتا ہے ۔

پھر ہر مہنے میں نبی ﷺتین دن کے روزے رکھا کرتے تھے  ایام بیض  کے 13،14،15چاند کی تاریخوں کے  وہ بھی اسی کلینڈر کےساتھ منسلک ہے۔

 پھر اللہ رب العالمین نے سورۃ التوبہ آیت نمبر 36 میں فرمایا:

مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ

التوبة – 36

اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔ 

پھر چار مہینے حرمت والےز وہ مہینے بھی اسی کلینڈر کےساتھ منسلک ہے

  • محرّم
  • رجب
  • ذوالقعدۃ
  • ذوالحجۃ

تو ہماری ساری عبادات ہمار ی  تہذیب،ہماری ثقافت،ہماری عبادات ہماری رسوم ورواج  یہ سب کی سب  اسی کلینڈر کےساتھ منسلک ہے۔ اگر ہم اس کلینڈر کو ختم کردیں اور اس کو  ایک طرف رکھ دیں توہم اپنی تہذیب و ثقافت کے ایک بہت بڑے حصے سے محروم ہو جائیں گے۔اور یہ ہی اہل مغرب کا ہم سے تقاضا ہے اور یہ ہی ان کی چاہت ہے  کہ مسلمانوں کو ان کی تاریخ سے دور کردیں ،مسلمان اپنی تاریخ کو یاد نہ رکھ پائیں،اور جب مسلمان اپنی تاریخ کو یاد نہیں رکھ پائینگے تو یقیناً وہ اغیار کی تاریخ کے مطابق چلیں گے۔اور احساس کمتری کا شکار ہونگے۔

پھر آپ یہ دیکھئیے کہ ہجری کلینڈر جو ہے بالکل فطرت کے مطابق ہے،چاند کو دیکھ کر مہینہ شروع ہوتا ہے اور چاند کوہی دیکھ کر مہینہ ختم ہوتا ہے آپ کے پاس اگرکوئی شماریات کوئی طریقہ  نہ ہوں تو اللہ رب العالمین نے ایک ایسا طریقہ دیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی مقام پر کوئی بھی شخص ہوں وہ چاند کو دیکھ کر تاریخ کا تعین کرسکتا ہے۔

پھر اللہ رب العالمین نے اس میں عدل کا معاملہ رکھا ہے کہ آپ  دیکھئے کہ رمضان کا مہینہ صرف گرمیوں کے موسم میں نہیں آتا بلکہ سردیوں کے موسم میں بھی آتا ہے ،اگر ماہ رمضان کا مہینہ صرف ایک ہی موسم کے لیئے خاص ہوجائیں۔توآدھی دنیا میں سردی ہوتی اور آدھی دنیامیں گرمی ہوتی ہے ،اگر ایک  ہی مہینہ میں ماہ رمضان کو خاص کردیا جائے تو جن کے پاس سردی ہے ان کے لیئے آسانی ہے اور جن کے پاس گرمی ہے ان کے لیئے  مشکل ہے ۔

اللہ رب العالمین نے نظام ایسا بنایا  کہ یہ نظام پورے سال میں ہر موسم کے اندر چلتا رہے ۔تو یہ ایک فطرت کے ساتھ ہم آہنگ   ایک نظام ہے ہجری کلینڈر کا ،اس کے برخلاف جو ہم عیسوی کلینڈ ر استعمال کرتے ہیں ایک تو یہ کہ ہمیں یہ تاریخ سے محروم کردیتا ہے دوسرا پھر تاریخ سے ہی محروم نہیں کرتا بلکہ ہمیں ہمارے عقیدے سے محروم کردیتا ہے۔ عیسوی کلینڈر کا آغاز کہاں سے ہے؟ عیسائیوں کے عقیدے کےمطابق 1516 عیسوی میں برطانیہ میں جورج (grygory) نامی ایک شخص تھا جس نے اس عیسوی کلینڈر کو عیسیٰ کی وفات کے ساتھ کو منسلک کیا  ۔

جب کہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے عیسیٰ علیہ السلام کی وفات نہیں ہوئی ،بلکہ اللہ رب العالمین نے ان کو ان کی زندگی میں ہی اُن کے جسم کے ساتھ ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ قیامت کے وقت ،دجال کے ظہور کے وقت ان کی دوبارہ آمد ہوگی اور نزول ہوگا۔

پھر اگر عیسوی کلینڈر کے مہینوں کے نام دیکھیں تو جنوری،فروری،مارچ،اپریل،مئی ،جون۔ اگر آپ تاریخ سے واقف ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ سب یونان کے دیویوں اور دیوتاؤں کے نام ہیں۔ اور یہ وہ دیوی اور دیوتا ہیں جن کی یونانی لوگ پوجا اور پرستش وعبادت کرتے تھے۔ تو گویا کہ ہم جنوری،فروری،مارچ،اپریل،مئی،جون،جولائی کہہ کر ان دیویوں اور دیوتاؤں کو یاد کرتے ہیں۔

تو یہ ہمیں ہمارے عقیدے سے ،ہماری تہذیب سے ،ہماری ثقافت سے براہ راست متصادم ہے ،پھر صرف یہ ہی نہیں بلکہ جو دنوں کے نام ہم استعمال کرتے ہے جیسا کہ Sunday یہ Sunکے نام پر رکھا گیا ، یعنی  سورج کے نام پر ، اور یہ ان لوگوں نے نام رکھا ہے جو سورج کی پوجا کرتے ہے ،جیسا کہ Monday یہ یعنی Moon چاند کے اوپر ہے اور یہ ان لوگوں نے نام رکھا ہے جو چاندکی پوجا کرتے ہے،اس طریقے سے یہ دیوی اور دیوتاؤں کے نام پریہ عیسوی کلینڈر مرتب کیا گیا ہے ،اور ہمیں ہمارے ہجری کلینڈر سے محروم کردیا گیا۔

یہ محرم کا مہینہ جو آرہا ہے ہر سال آتا ہے  اور یہ حرمت والا مہینہ ہے اور اللہ رب العالمین نے اس مہینے کے آغاز سے ہمیں یہ نصیحت فرماتا ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ کو یاد رکھنا چاہیئے ،اور اپنی تاریخ پر ہی چلنا چاہیئے وہ ہی ہماری شریعت کے مطابق ہے وہ ہی ہماری تہذیب کے مطابق ہے وہ ہی ہماری ثقافت ہے اور اسی کے ذریعے سے ہم اپنی عبادات  مکمل انجام دیتے ہے ۔

اللہ رب  العالمین سے دعا ہے اس عیسوی کلینڈر کے بجاے اس اسلامی ریاست کے اندر ہجری کلینڈر کے نفاذ کی توفیق عطا فرمائے  اور اس کے ساتھ ساتھ  ہم جہاں پر بھی اپنے ادارے میں اپنے گھر میں،اپنے بچوں کو جہاں یہ اپنی تاریخ  یاد دلا سکتے ہوں  اور اسی کے مطابق چلا سکتے ہوں ہمیں چلانا چاہیں۔

الشیخ عثمان صفدر حفظہ اللہ: آپ کراچی کے معروف دینی ادارہ المعہد السلفی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالشھادۃ العالیہ کی سند حاصل کی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، نیز اسلامک بینکنگ اور فنانس میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی جاری ہے۔ اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کے مدیر ، الھجرہ آن لائن انسٹیٹیوٹ کے مدیر ہیں ، البروج انسٹیٹیوٹ کراچی میں مدرس کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔