اسلام میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق

دینِ اسلام امن وامان،صلح  وصفائی اور سلامتی وآتشی کا دین ہے اور  اُن تمام افراد کو جان  و مال اورعزت وناموس کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے خواہ ان کا تعلق دنیا کے کسی بھی دین ،مذہب یا رنگ ونسل سے ہو ،  دین اسلام میں  ایک اسلامی ریاست میں رہنے والے  غیر مسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں. ۔ ذیل میں غیر مسلموں اور اقلیتوں کے چند اہم اور بنیادی حقوق  اسلامی نقطہ نظر سے بیان کیے جاتےہیں ۔

  شرفِ انسانیت :

اسلام نےانسان کوجواحترام اورعزت سے نوازا ہے اس کی مثال دنیا کے کسی اور دین یا مذہب میں نہیں ملتی، انسان مسلمان ہو یا کافر ، ذمی ہو یا حربی ، زندہ ہو یا مردہ۔ ہر حال میں مذہبِ اسلام نے اس کے لیے مخصوص عزت وحرمت کا ذکر فرمایا اور اس کی جان ،مال اورعزت وآبرو کی حفاظت کا اپنے پیروکاروں کو پابند بنایا ہے ،اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو آدم علیہ السلام کی اولاد بنایا ،اس لحاظ سے مسلمان ہوں یا کافر سب شرف انسانی میں برابر ہیں ،چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاہمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلا

الاسراء – 70

  اور ہم نے اولادِ آدم کو عزت سے نوازا اور انہیں خشکی وتری میں سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا فرمایا اور ہم نے انہیں اپنی کثیر مخلوق پر بڑی فضیلت عطا فرمائی۔

قتلِ انسانیت:

اسلام میں انسانی جان کی حرمت ،عزت اوراحترام کا اندازہ قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ سے لگا سکتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ کسی جان کا ناحق قتل کرنا پوری انسانیت کا قتل ہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاہا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا

المائدۃ – 32

جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وه کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والاہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زنده کردیا ۔

یہاں پر نَفْسًا کا لفظ عام ہے اور اس کا اطلاق عموم پر ہوگا. یعنی کسی ایک انسانی جان کا ناحق قتل، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، کوئی بھی زبان بولتا ہو اور دنیا کے کسی بھی ملک یا علاقے کا رہنے والا ہو- قطعاً حرام ہے اوراس کا گناہ اتنا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنے کا ہے. لہٰذا مسلم ریاست میں آباد غیر مسلم شہریوں کا قتل بھی اسی زمرے میں آئے گا. چنانچہ حدیث میں آتا ہے:

عن عبد اللہ بن مَسعود -رضي اللہ عنہ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہ -صلى اللہ عليہ وسلم-: «أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ روزِ قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونِ ناحق کے بارے میں فیصلہ ہو گا۔1

اس حدیث میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ قیامت والے دن سب سے پہلے قتل کے فیصلے ہوں گے جبکہ باقی تمام فیصلوں کو بعد میں کیا جائے گا۔

جنت سے محرومی:

رسول کریم ﷺ نے غیر مسلم اقلیتوں کے ناحق قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی غیر مسلم ، ذمی یا معاہد کا ناحق قتل جنت سے محرومی کا باعث ہے ، نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے:

من قتل معاہدًا لم یرح رائحة الجنة، وان ریحہا لیوجد من مسیرة أربعین عامًا

جو کسی ذمی یا معاہد کو قتل کرے وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، جبکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔2

احترامِ میت:

اسلام نے انسانی جان کی یہ حرمت ،عزت اور تکریم انسان کی زندگی کے خاتمے تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اس کی موت کے بعد بھی اس کی حرمت اورعزت کو ملحوظ رکھا ہے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے مردہ انسان کی حرمت زندہ کی حرمت کے مترادف قرار دیتے ہوئے میت کو مثلہ ، یعنی مردہ کے ہاتھ پاؤں اور کان ناک کاٹ دینے ،اس کی ہڈی توڑنے،اس کی لاش کو جلانے، اس کی قبر کو روندنے کو حرام قرار دے دیا۔  چنانچہ عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

نَهَى النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عَنِ النُّهْبَى والمُثْلَةِ

یعنی  نبی کریم ﷺنے لوٹنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔3

بريدة بن الحصيب الأسلمي اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ :

كانَ رَسولُ اللہ صَلَّى اللَّہ عليه وَسَلَّمَ إذَا أَمَّرَ أَمِيرًا علَى جَيْشٍ، أَوْ سَرِيَّةٍ، أَوْصَاہ في خَاصَّتِه بتَقْوَى اللہ، وَمَن معه مِنَ المُسْلِمِينَ خَيْرًا، ثُمَّ قالَ: اغْزُوا باسْمِ اللہ في سَبيلِ اللہ، قَاتِلُوا مَن كَفَرَ باللہِ اغْزُوا وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تَمْثُلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا

رسول اللہ ﷺ جب کسی بڑے لشکر یا چھوٹے دستے پر کسی کو امیر مقرر کرتے تو اسے خاص اس کی اپنی ذات کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی اور ان تمام مسلمانوں کے بارے میں ، جو اس کے ساتھ ہیں ، بھلائی کی تلقین کرتے ، پھر فرماتے: اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو ، جو اللہ تعالیٰ سے کفر کرتے ہیں ان سے لڑو ، نہ خیانت کرو ، نہ بد عہدی کرو ، نہ مثلہ کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو۔4

اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يحث في خطبته على الصدقة وينهى عن المثلة

کہ رسول اللہ ﷺاپنے خطبے میں صدقہ پر ابھارتے اور مثلہ سے منع فرماتے تھے۔5

احترام ِجنازہ:

اسلام نے انسانی شرف وعزت کی حفاظت کی تعلیم دیتے ہوئے اپنے ماننے والوں کو غیرمسلموں کے جنازوں کے احترام میں کھڑا ہونے کا حکم صادرفرمایا۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ:

كَانَ سَهلُ بْنُ حُنَيْفٍ، وَقَيْسُ بْنُ سَعْدٍ قَاعِدَيْنِ بِالقَادِسِيَّةِ، فَمَرُّوا عَلَيْهمَا بِجَنَازَةٍ، فَقَامَا، فَقِيلَ لَهمَا إِنَّها مِنْ أَهلِ الأَرْضِ أَيْ مِنْ أَهلِ الذِّمَّةِ، فَقَالاَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللہ عَلَيْه وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِه جِنَازَةٌ فَقَامَ، فَقِيلَ لَه: إِنَّها جِنَازَةُ يَهودِيٍّ، فَقَالَ: «أَلَيْسَتْ نَفْسًا

سہل بن حنیف اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں بزرگ کھڑے ہوگئے۔ عرض کیا گیا کہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے ( جو کافر ہیں ) اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا۔ آپ ﷺاس کے لیے کھڑے ہوگئے۔ پھر آپ ﷺ سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہودی کی جان نہیں ہے؟6

اسی طرح ایک اور روایت میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:

مَرَّ بِنَا جَنَازَةٌ فَقَامَ لَها النَّبِيُّ صَلَّى اللَّہ عَلَيْه وَسَلَّمَ وَقُمْنَا بِه فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّہ إِنَّها جِنَازَةُ يَهودِيٍّ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجِنَازَةَ فَقُومُوا

کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی کریم ﷺکھڑے ہوگئے اور ہم بھی کھڑے ہوگئے۔ پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو۔7

حضرت جابر کی روایت میں مزید تفصیل موجود ہے کہ:

مرت جنازة فقام لها رسول اللہ ﷺوقمنا معه فقلنا یا رسول اللہ إنها یهودية فقال إن الموت فزع فإذا رأیتم الجنازة فقوموا

 ایک جنازہ گزرا تو نبی کریم ﷺ اور آپ کی اقتدا میں ہم سب کھڑے ہوگئے۔ بعد میں ہم نے کہا کہ حضور یہ ایک یہودیہ کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک موت کسی کی بھی ہو گھبراہٹ میں ڈالنے والی چیز ہے۔ پس تم جب بھی کوئی جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو۔8

 آنحضرت ﷺ کا یہودی کے جنازے کے لیے بذات خود کھڑے ہوجانا اور اپنے اصحاب کرام کو کھڑے ہونے کا حکم فرمانا اس بات کی واضح نشانی ہے کہ آپ ﷺ کے قلبِ مبارک میں انسانیت سے کس قدر پیار اور محبت تھی ۔ آپ ﷺ کا یہ فرمانا:

أَلَيْسَتْ نَفْسًا

اسی بات كی طرف واضح اشارہ كرتا ہے ۔

آگ میں جلانے کی ممانعت:

اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں لڑائی کے دوران  شدتِ انتقام میں دشمن کو زندہ جلا دیا جاتا تھا،  لیكن اسلام نے جنگی حالات میں بھی انسان تو كیا كسی بھی جاندار كو آگ میں جلانے جیسی وحشیانہ حرکت سے منع فرما دیا.چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:

كنا مع رسولِ اللہ صلَّى اللہ علي وسلَّمَ في سفرٍ فانطلق لحاجته فرأينا حمَّرةً معها فرخان فأخذْنا فرخَيها فجاءت الحُمَّرةُ فجعلت تفرشُ، فجاء النبيُّ صلَّى اللہ عليه وسلَّمَ فقال من فجع هذہ بولدِها ؟ رُدُّوا ولدَها إليها . ورأى قريةَ نملٍ قد حرقناها، فقال : من حرقَ هذہ ؟ قلنا : نحن، قال : إنه لا ينبغي أن يعذِّبَ بالنارِ إلا ربُّ النارِ

کہ ہم ایک سفر میں رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ تھے. آپ ﷺ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے بھی تھے،ہم نے اس کے دونوں بچے پکڑ لیے تو چڑیا آئی اور پریشانی میں بچوں پر منڈلانے لگی، جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: اسے اس کو بچوں کی وجہ سے کس نے تڑپایا ہے؟ اس کے بچے اسے لوٹا دو.‘‘پھر آپ ﷺ نے چیونٹیوں کا ایک بل دیکھا جسے جلایا گیا تھا. تو آپ ﷺ نے اِس کی ممانعت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: آگ کے ساتھ عذاب دینا آگ کے رب کے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ نے جہادی مہمات پر روانہ کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو تاکید فرمائی کہ دشمن کو آگ میں جلا کر ہلاک نہ کرنا۔9

عورتوں اور بچوں کے قتل کی ممانعت:

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے عام حالات میں غیر مسلموں کا قتلِ عام تو کُجا،  حالات ِ جنگ بھی بے قصور غیر مسلموں کے قتل کو سختی سے منع کیاہے. چنانچہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہےکہ :

وُجِدَتِ امْرَاَةٌ مَقْتُوْلَةً فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ عليه وآله وسلم ، فَنَهی رَسُوْلُ اﷲِ صلي اللہ عليه وآله وسلم عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ کے کسی غزوہ میں ایک مقتول عورت پائی گئی تو آپ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی (سختی سے) ممانعت فرما دی۔10

مال کی حفاظت :

دین اسلام نے جس طرح  غیر مسلموں کی جان اور خون کا تحفظ کیا ہے، اسی طرح ان کے مال ودولت کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا ہے۔ چنانچہ صعصعہ بن معاویہ نے حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ  نے سوال کیا کہ ہم ذمیوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ ہمارے لئے مرغی یا بکری وغیرہ ذبح کرکے ہماری مہمانی  نوازی کرتے ہیں چنانچہ  ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا :اس بارے میں تمہارا کیاخیال ہے ؟ میں نے کہا :ہم تو اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

ھذا کما قال أھل کتاب {لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ} إنھم إذا أدّوا الجزیة لم تحل لکم أموالھم إلا بطیب أنفسھم

تم نے بھی وہی بات کی ہے جو اہل کتاب دوسروں لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”ذمیوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے حالانکہ ”جب وہ جزیہ ادا کردیں تو پھر ان کی رضا مندی کے بغیر ان کا مال تمہارے لئے حلال نہیں ہے۔11

مذہبی آزادی :

دین اسلام غیر مسلم اقلیتوں کو اپنےعقائد وعبادات اور مذہبی رسوم کی ادائیگی میں مکمل آزادی دیتا ہے، جس طرح اسلام اپنی تعلیمات کے بارے میں جبر اور زبردستی کو روا نہیں سمجھتا،اسی طرح وہ دوسروں کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے پر مجبور کرنے کو بھی جائز نہیں سمجھتا ،کیونکہ جبر دین کی روح کے منافی ہے ۔ اسلام میں ارادے اور اختیار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اس کی تمام تعلیمات کی عمارت اسی بنیاد پر استوار ہے، مثلاًجب اہل ذمہ جزیہ اور خراج کی ادائیگی کو قبول کر لیں تو اسلام انہیں زندگی کا تحفظ فراہم کرتاہے ۔ چنانچہ اللہ پاک نے واضح اعلان کر دیا کہ :

لَا اِكْرَاہ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ

البقرۃ – 256

دین کے معاملہ میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے جدا ہوگئی۔

سفراء کے قتل کی ممانعت :

دین اسلام نے غیر مسلم سفیروں کو قتل کرنے سے بھی روکا ہے،خواہ وہ کتنا ہی گستاخانہ پیغام لے كر آجائیں ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے :

عن نُعَیْمِ بْنِ مَسْعُودٍ الْأَشْجَعِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ یَقُولُ حِینَ قَرَأَ کِتَابَ مُسَیْلِمَة الْکَذَّابِ، قَالَ لِلرَّسُولَیْنِ: (فَمَا تَقُولَانِ أَنْتُمَا؟۔ قَالَا: نَقُولُ کَمَا قَالَ، فَقَالَ رَسُولُ اللہ ﷺ : وَاللہِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا

سیدنا نعیم بن مسعود اشجعی رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌ﷺ نے مسیلمہ کذاب کا خط پڑھا تو اس کے دو قاصدوں سے فرمایا: تم خود کیا کہتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم وہی کہتے ہیں، جو مسیلمہ کہتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم!اگر یہ دستور نہ ہوتا کہ سفیر قتل  نہیں كیے جاتے تو میں تم دونوں كی گردن اڑا دیتا۔12

اچانک شب خون مارنے کی ممانعت :

اسلام سے قبل دشمنوں پررات یا رات کے آخری پہر میں غفلت کی حالت میں حملہ کیا جاتا تھا۔ نبی کریم ﷺنے اس سے منع کیا اور فرمایا کہ صبح سے پہلے حملہ نہ کیا جائے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے :

أنَّ رَسولَ اللَّہ صَلَّى اللہ عليه وسلَّمَ أتَى خَيْبَرَ لَيْلًا، وكانَ إذا أتَى قَوْمًا بلَيْلٍ لَمْ يُغِرْ بهمْ حتَّى يُصْبِحَ

رسول اللہ ﷺ خیبر رات کے وقت پہنچے۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ جب کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے رات کے وقت موقع پر پہنچتے تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتے بلکہ جب صبح ہو جاتی تب کرتے۔13

تکلیف دے کر قتل کرنے کی ممانعت :

دین اسلام نے دشمن کو باندھ کر یا تکلیف دے کر مارنے اور قتل کرنے سے منع فرمایا ہے ۔حضرت ایوب انصاریؓ سے مروی ہے:

فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہ صَلَّى اللَّہ عَلَيْه وَسَلَّمَ  يَنْهى عَنْ قَتْلِ الصَّبْرِ

یعنی رسول اللہ ﷺ نے باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔14

  مذہبی رہنماؤں کے قتل کی ممانعت :

دین اسلام میں دورانِ جنگ اور فتوحات کے بعد غیر مسلم مذاہب کے رہنماؤں کے قتل کی بھی ممانعت ہے. حضرت ابن عباس رضي ﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب اسلامی لشکروں کو جہاد پر روانہ کرتے تو انہیں واضح طور پر یہ ہدایات فرمایا کرتے تھے:

أخرُجُوْا بِسْمِ اللّٰہ، تُقَاتِلُوْنَ فِي سَبِيْلِ اللّٰہ، مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہ لَا تَغْدُرُوْا وَلَا تَغُلُّوْا وَلَا تُمَثِّلُوْا وَلَا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلَا اَصْحَابَ الصَّوَامِعِ

ﷲ کا نام لے کر روانہ ہو جاؤ، تم ﷲ کی راہ میں اس کے ساتھ کفر کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنے جارہے ہو، اس دوران بدعہدی نہ کرنا، چوری و خیانت نہ کرنا، مُثلہ نہ کرنا، بچوں کو قتل نہ کرنا اور راہبوں کو قتل نہ کرنا۔15

حسن سلوک کا حکم :

دین اسلام  میں ان غیرمسلموں کے ساتھ، جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی شازشی سرگرمی میں مبتلا ہوں، خیرخواہی، مروت، حسن سلوک اور رواداری کی ہدایت دی گئی ہے:

لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ

الممتحنة – 8

جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

غیر محارب غیر مسلموں کے قتل کی ممانعت :

دین اسلام  دورانِ جنگ بھی خونِ ناحق کی اجازت نہیں دیتا  بلکہ دورانِ جنگ صرف انہی دشمنوں کو قتل کرنے کی اجازت  دیتا ہے جو عملًاجنگ میں شریک ہوں جبکہ آبادی کا غیر محارب حصہ جس میں بیمار، معذور، گوشہ نشین افراد، بچے، بوڑھے اورعورتیں شامل ہیں- قتال کی اجازت سے مستثنیٰ ہے. چنانچہ  فتحِ مکہ کے موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے جو ہدایات جاری فرمائیں ان میں مذکور ہے کہ جو مقابلہ نہ کرے، جان بچا کر بھاگ جائے، اپنا دروازہ بند کرلے یا زخمی ہو اس پر حملہ نہ کیا جائے.

امام مسلم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ فتحِ مکہ کے دن حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

مَنْ دَخَلَ دَارَ اَبِي سُفْيَانَ فَهوَ آمِنٌ، وَمَنْ اَلْقَی السِّلَاحَ فَهوَ آمِنٌ، وَمَنْ اَغْلَقَ بَابَه فَهوَ آمِنٌ

جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اُسے امان ہے، جو شخص ہتھیار پھینک دے اُسے امان ہے اور جو شخص اپنے گھر کے دروازے بند کر لے اُسے بھی امان ہے۔16

مفتی اعظم سعودی عرب کا فتویٰ :

سابق مفتی مملکت ِسعودی عرب سماحة الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمة اللہ علیہ نے نہایت پرزور انداز میں یہ بات کہی ہے کہ ’’ وہ غیر مسلم جو ہمارے خلاف برسر جنگ نہ ہوں ، ہم پابند ہیں کہ ان کو کسی قسم کی ایذا اور ضرر نہ پہنچائیں اور نہ ناحق ان پر زیادتی کریں ،بلکہ ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہئے جو ایک مسلمان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ان کی امانت واپس کریں ، ان کے ساتھ دھوکہ، جھوٹ اور خیانت کا ارتکاب نہ کریں اوران کے ساتھ کوئی نزاع یا جھگڑا ہوجائے تو احسن طریقہ سے جھگڑیں اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ، کیونکہ قرآن کی تعلیمات یہی ہیں:

وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ

العنکبوت – 46

اور اہل کتاب کے ساتھ بحث ومباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمده ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں۔

جو اسلام دوران جہاد بھی ان امور کی اجازت نہیں دیتا اس کے نزدیک ایسے مسلمانوں یا غیر مسلموں کو جو براہ راست جارحیت میں ملوث نہ ہوں، پُر امن طریقے سے اپنے گھروں اور شہروں میں مقیم ہوں، کاروبار میں مصروف ہوں، سفر کر رہے ہوں یا مساجد میں مصروفِ عبادت ہوں – دہشت گردی کے ذریعے قتل کرنے کی کیسے اجازت دے سکتاہے؟ لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایسی کارروائیاں اِسلامی تعلیمات کے سراسر منافی اور قرآن و حدیث سے صریح اِنحراف ہیں۔

  مذہبی شعائر کا احترام :

دین اسلام نے انسانی تکریم کے پیش نظر مسلمانوں پر حرام کردیا ہے کہ وہ مشرکوں کے معبودوں کو گالی دیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اس کے ردعمل میں اللہ کو گالی دیں۔ تو اس کا مقصد درحقیقت انسانی عزت کا تحفظ تھا، کیونکہ انسان جن چیزوں کو مقدس سمجھتا ہے ،ان کے متعلق اس کے جذبات کا احترام  کرنا درحقیقت اس کی تکریم ہی ہے، اگر مشرک اپنے معبودوں کی برائی سنیں گے تو ردعمل میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مسلمانوں کے معبود کو برا بھلا کہیں گے ۔ اگرچہ وہ توحید کے قائل نہیں ہیں لیکن وہ بھی اللہ عزوجل کے وجود کو بر حق مانتے ہیں ،اور جب مسلمان مشرکین کے معبودوں کو گالی دیں تو مشرک بھی ردعمل میں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کریں گے ،جس طرح مسلمانوں نے ان کے جذبات کو مجروح کیا ہے اور یہ چیز ہر دو فریق کی عز ت  و تکریم کے منافی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ باہم دونوں میں حسد و بغض اور کینہ پیدا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

الانعام – 108

اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کرعبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وه براه جہل حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے۔ پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وه ان کو بتلا دے گا جو کچھ بھی وه کیا کرتے تھے۔

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے:

لایحل لمسلم أن یسب صلبانھم ولا دینھم ولا کنائسھم ولا یتعرض إلی ما یؤدي إلیٰ ذلك لأنه بمنزلة البعث علی المعصیة

کسی مسلمان کے لئے یہ روا نہیں ہے کہ وہ عیسائیوں کی صلیبوں ،ان کے مذہب اور ان کے دیر و کلیسا کو بُرا بھلا کہے اور کوئی ایسا فعل انجام دے جو ان کی توہین کا باعث ہو ۔ ایسا کرنا بذاتِ خود ان کو معصیت کے ارتکاب پر برانگیختہ کرنے کے مترادف ہوگا ۔17

 ظلم کی ممانعت :

اسلام ان تمام حقوق میں،جو کسی مذہبی فریضہ اور عبادت سے متعلق نہ ہوں؛ بلکہ ان کا تعلق ریاست کے نظم و ضبط اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہو غیرمسلم اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اور ان پر کسی قسم کی زیادتی یا ان کے حقوق میں کمی کی بالکل اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کی اجازت دیتا ہے ۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

ألا مَن ظلمَ مُعاهدًا، أوِ انتقصَه، أو كلَّفَه فوقَ طاقتِه، أو أخذَ منه شيئًا بغَيرِ طيبِ نفسٍ، فأَنا حَجيجُه يومَ القيامةِ

خبردار! جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا، یا اس سے کوئی چیزاس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا،اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود فریادی بنوں گا۔18

عبادت گاہوں کا تحفظ :

نبی کریم ﷺ کے بعد دین اسلام کے سب سے بہترین  طبقہ خلفائے کرام جب کوئی لشکر جہاد ِفی سبیل اللہ کے لئے روانہ کرتے تو اس کے کمانڈر کو جنگ کے آداب کے متعلق باقاعدہ وصیت  کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب اسامہ بن زیدؓ کو ایک لشکر کا سپہ سالار بناکر بھیجا تو اُنہیں یہ وصیت کی:

إني موصیك بعشر: لا تقتلن امرأة ولا صبیا ولا کبیرًا ھرمًا ولا تقطعن شجرا مُثمرًا ولا تخربن عامرًا ولا تعقرن شاة ولا بعیرًا إلا لمأکلة ولا تغرقن نخلًا ولا تحرقنه، ولا تغلُّوا ولا تجبُنُوا وسوف تمرُّون بأقوام قد فرّغوا أنفسھم في الصوامع فدعوھم وما فرّغوا أنفسھم له

”میں تمہیں دس باتوں کی وصیت کرتا ہوں؛ کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت نہ کاٹنا اور نہ ہی تخریب کاری کرنا، سوائے کھانے کے کوئی اونٹ یا بکری ذبح نہ کرنا، کھجور کے باغات کو ڈبونا نہ اُنہیں جلانا، خیانت کا ارتکاب نہ کرنا، بزدلی نہ دکھانا۔ تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جو معبدوں میں گوشہ نشین ہوگئے ہیں، ان سے اور ان کے کام سے تعرض نہ کرنا” ۔19

 محتاجوں کی امداد :

دین اسلام  جہاں مسلمان فقراء ومساکین کے لیے وظائف معاش مقرر کرنے کی تلقین کرتا ہے وہیں غیر مسلم  اقلیتوں کے فقراء ومساکین اور دوسرے ضرورت مندوں کے لیے بھی  بغیر کسی تفریق کے وظائف معاش مقرر کرنے کا حکم کرات ہے ۔حاکم وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شہری محروم وظیفہ معاش سے محروم نہ رہے۔

چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے گشت کے دوران ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نابینا کو دیکھا، آپ نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو،اس نے جواب دیا کہ میں یہودی ہوں۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ گداگری کی یہ نوبت کیسے آئی۔ یہودی نے کہا۔ ادائے جزیہ، شکم پروری اور پیری سہ گونہ مصائب کی وجہ سے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر گھرلائے اور جو کچھ گھر میں موجود تھا،اس کو دے دیا اور بیت المال کے خازن کو لکھا: ’’یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ خدا کی قسم ہرگز یہ ہمارا انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ وصول کریں اور بڑھاپے میں انھیں بھیک کی ذلت کے لیے چھوڑ دیں قرآن کریم کی اس آیت :

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ

التوبة – 60

میں میرے نزدیک فقراء سے مسلمان مراد ہیں اور مساکین سے اہل کتاب کے فقراء اور غرباء۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے تمام لوگوں سے جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کردیا۔20

پاکستان کا المیہ

وطن عزیز پاکستان  کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے ایسے فرقے وجود میں آچکے ہیں جوبات بات پر گستاخیٔ رسول کے فتوے لگانے کو عین حب ِ رسول سمجھتے ہیں ،  ایک مسلک کے نزدیک جو اللہ سے مدد مانگے اور نبی ولی سے مدد نہ مانگے وہ گستاخ ہے ، جبكہ دوسرے مسلک کے نزدیک جو اللہ کے لئے علم غیب کا عقیدہ رکھے اور نبی ولی کے لئے نہ رکھے وہ گستاخ ہے ،ایک مسلک کے نزدیک جو یہ کہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور  ہرچیزپر اللہ کا حکم اور اختیار ہے اور نبی ولی  اور پیروں کے بارے میں ایسا عقیدہ نہ رکھے تو وہ گستاخ ہے ۔ اسی طرح ایک مسلک کا عقیدہ یہ ہے کہ رسول اللہ “نور من نور اللہ” ہیں ۔یعنی آپ کو اللہ کے نور سے بنایا گیا ہے جبکہ دوسری طرف  ایک مسلک کا عقیدہ یہ ہے کہ آپ بشر یعنی انسان ہیں ۔یعنی عقائد کے فرق کو توہین رسالت بنا دیا جاتا ہے۔اسی طرح مزید عقائد کا فرق بھی ہے جس کو توہین رسالت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

اس جاہلانہ طرزعمل سے سینکڑوں ایسے لوگ جو باعمل مسلمان تھے ان الزامات کا شکار ہوئے اور ان کی زندگی اجیرن ہو گئی-حالانکہ ان اختلافی امور کا گستاخی رسول سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس فرقے کے نزدیک محبت وبغض رسول کا تعلق انہیں اختلافی امور سے ہے اور جو ان سے اختلاف کرے وہی گستاخ ہے ۔

بد قسمتی سے پاکستان میں ایک عام عادت بن چكی ہے کہ خصوصاً غیر مسلموں پر توہین رسالت یا توہین مذہب کا الزام لگاکر بغیر کسی ثبوت کے تشدد کا نشانہ بنانا ، یا پھر قتل کر دینا، حالانكہ اسلامی شریعت اور قانون دونوں میں یہ کسی کو حق حاصل نہیں کہ کسی پر توہین رسالت کا الزام لگائے اور پھرخود ہی جج اور حاکم بن کر بغیر کسی ثبوت کے اسے قتل کردے ۔ہمارے ملک میں سسٹم موجود ہے، ریاست ہے ،ادارے موجود ہیں، سب سے پہلے تو جرم کی اطلاع (اگر ہوا ہے تو) متعلقہ اداروں کو دی جائے، اگر وہ کچھ نہیں کریں گے تو اللہ کے ہاں ان سے جواب دہی ہو گی نا کہ ریاستی کوتاہی کا کسی انفرادی شخص سے سوال ہوگا۔ مذہبی جتھوں کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ اسلام اس طرح کی حرکت کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے قتل کا سانحہ دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے  پیش آیا ہے،جو پاکستان کے چہرے پر ایک بدنما داغ بن گیا ہے جو اب اِسی صورت دھل سکتا ہے کہ ریاست پاکستان ملزمان کو قرار واقعی سزا دے تا کہ مستقبل میں اس طرح کی جتھہ بندی اور گروہ بندی کا جو نہ صرف معاشرے،بلکہ اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے اس کا سد باب کیا جا سکے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت اور تشریف آوری کے بعد ساری انسانیت خواہ کافر ہوں یا کسی بھی مذہب کے ماننے والےہوں ، سب آپ ﷺ کی امت میں شامل ہیں ، جو اسلام قبول کر لے وہ امت اجابت میں ہے اور مسلمان نہیں ہوتا وہ امت دعوت میں شامل ہے ۔  اس حوالے سے کافر غیر حربی ، ذمی اور جن سے معاہدہ یا کوئی مذاکرات ہوں ، ان کے مال وجان اور عزت وآبرو کا تحفظ کرنا مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے۔

  1. صحیح البخاری :6533،6864، وصحیح مسلم :1678
  2. صحیح  البخاری  3166
  3. صحيح البخاري الرقم: 2474
  4. صحيح مسلم الرقم: 1731
  5. سنن النسائی 4052″. وصححہ الألبانی
  6. صحیح بخاری حدیث نمبر: 1312
  7. صحيح البخاري ،رقم الحدیث:1311، صحيح مسلم، رقم الحدیث: 2224
  8. متفق علیہ
  9. بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد و السير، باب لا يعذب بعذاب اﷲ،2954/ 3012
  10. صحیح البخاري ،الرقم: 2852، و صحیح مسلم الرقم: 1744
  11. مصنف عبدالرزاق 916،أحکام القرآن از ابن العربی 2771
  12. مسند أحمد:۴۹۸۴) ، صحيح أبي داود: 2761
  13. صحیح بخاری: 4197، و ترمذی:1550
  14. مسنداحمد 6540، صحیح
  15. أخرجه أحمد (2728) واللفظ له، إسناده حسن. بتحقیقأحمد شاكر.
  16. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب فتح مکة، 3: 1407، رقم: 1780
  17. الجامع لأحکام القرآن: 617
  18. صحيح أبي داود. الرقم: 3052.
  19. السنن الکبریٰ للبیهقي:899 و تاریخ الطبری:2153
  20. کتاب الخراج لأبی یوسف :ص: 139 ۔
الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ: