تاریخ گواہ ہے جب بھی معاشرے میں نظمِ معیشت بگڑتا ہے اور دولت چند افراد کے ہاتھوں میں سمٹ آتی ہے ، اس معاشرے کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ ہو جاتا ہے کہ زندگی کی ضروریات کیسے میسر آئیں،روٹی کہاں سے کھائیں اور تن ڈھانپنے کو کپڑاکہاں سے لائیں؟ یہ بات ہمیں تسلیم کر لینی چاہیے کہ افلاس انسان کی روحانی اور اخلاقی اقدار کو برباد کر دیتاہے،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا
مشکاۃ المصابیح :تحقیق علامہ ناصر الدین البانی ،باب ما ینہی، الفصل الثالث،شیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ شعب الإیمان للبیہقی :باب فی الحث علی ترك الغل والحسد ۔
قریب ہے کہ مفلسی انسان کوکفر تک پہنچا دے‘‘۔
وہ شخص جس کے پاس پیٹ بھرنے کیلئے روٹی نہ ہواور تن ڈھانپنےکے لئے کپڑا نہ ہووہ اس بات پر کان نہیں دھر سکتا کہ زندگی کا مقصد اللہ کی محبت اور اور اس کی عبادت ہے۔شیخ شیراز نے بجا کہا تھا:
؎ چنا ں قحط سالے شُد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کر دند عشق
(ایک سال دمشق کے اندر ایسا قحط پڑا کہ یار لوگ عشق کرنا ہی بُھول گئے۔)
پاکستان میں بھی دولت چند ہاتھو ں میں سمٹ آئی اور معاشرہ بھوک اور ننگ کے ہاتھوں کراہنے لگا۔ عوام کی زبانوں پر ایک ہی سوال ہے:
’’ہمارے معاشی مسائل کا حل تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘ اس سوال نے اس شدت کے ساتھ سر اٹھایا ہے کہ آپ اسےٹال نہیں سکتے۔اس کا جواب دیجئے اور واضح اور متعین جواب دیجئے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے ،وہ عبادت بھی ہے ،روحانیت بھی،وہ تدبیر منزل بھی ہے اور اصول تمدن بھی ،وہ ہماری سیا ست بھی ہے اور ہماری معیشت بھی ہے۔آئیے ہم کتاب وسنّت کی روشنی میں اپنے معاشی مسائل کا حل تلاش کریں۔
سرمایہ کا چند ہاتھوں میں سمٹ آنا بد ترین اور سنگین جرم ہے:
یہ بات تو بالکل صاف اور واضح ہے کہ معاشرے میں دولت کاچند ہاتھوں میں سمٹ آنا ، اسلامی نقطہء نظر سے ایک بدترین اور سنگین جرم ہے،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّٰهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ﴾
التوبۃ: 34 – 35
ترجمہ:’’جو لوگ معاشرے کا خون چوستے ہیں اور سرمایا سمیٹتے ہیں اور اللہ کی خاطر اسے معاشرے پر خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک سزا کی خبر دو جس روز دوزخ کی آگ میں اسے گرم کیا جائے گا اور اس دولت سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور ان کی پیٹھ داغی جائے گی ،یہی ہے وہ دولت جو تم اپنے لئے سمیٹ سمیٹ کر رکھتے تھے ،پس دولت سمیٹنے کا مزا چکھو‘‘۔
اسلام یہ چاہتاہے کہ سرمایہ معاشرے میں یوں گردش کرے جیسے خون رگوں میں گردش کرتا ہے،وہ نظام جس میں چند افرادبے زمام اور بے مہار ہو کر کھیل کھیلتے ہوں اور معاشرے کا خون چوستے ہوں اسلام اسے باطل نظام قرار دیتا ہے،وہ ہمیں خبردارکرتا ہے کہ:
﴿كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَآءِ مِنْكُمْ﴾
الحشر: 07
ترجمہ:’’ایسا نہ ہو کہ دولت صرف سرمایا داروں ہی میں گردش کرتی رہے‘‘۔
اکتناز کی بد ترین صورت سودکا کاروبار ہےجس نے ساری اجتماعی معیشت کی باگ ڈورچند خود غرض سرمایا داروں کے ہاتھ میں دے دی ہے۔علامہ اقبال رحمہ اللہ نے بجا کہا تھا :
؎ ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جُوا ہے
سُود ایک کا لاکھوں کے لئے مرگِ مفاجات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبُّر ، یہ سیاست
پیتے ہیں لہُو ، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
ذخیرہ اندوزی حرام ہے
رسول اللہﷺنے فر مایا:
وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ
احتکار کرنے والے پر اللہ کی پھٹکار ہے۔
شریعت کی بولی میں احتکار سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص بعض اجناس کوبہت بڑی مقدار میں اس لئے خریدے کہ بازار میں وہ اجناس کمیاب یا نایاب ہو جائیں اور لوگ مجبوراً اسی کی طرف رجوع کریں ۔وہ من مانی قیمت ٹھہرائے،لوگوں کو وہی نرخ قبول کرنا پڑے۔
ایسے شخص پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہو‘‘۔
اصُول معاشیات قرآن ِ کریم کی روشنی میں
قرآن مجید نے نظم ِمعیشت کو متوازن کرنے کیلئے چند اصول انسان کو بخشے ،قرآن مجید اس بات پر زوردیتا ہے کہ:
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾
البقرۃ: 29
’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے یہ سب کچھ پیدا کیا جو روئےزمین پرہے‘‘۔
اور سورہ حم سجدہ میں فرمایا:
﴿وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ﴾
فصلت: 10
’’چار معین مدتوں میں روئےزمین پر مختلف غذاؤں کواندازے سے پیدا کیا ،تمام ضرورت مندوں کا ان غذاؤں پر برابر حق ہے‘‘۔
اور سورۃ النحل میں فرمایا:
﴿وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَجْحَدُونَ﴾
النحل: 71
’’اور اللہ نے تم کو رزق میں ایک دوسرے پر برتری عطاکی ہے،پھر جن کو برتری عطاکی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے زیردستوں کو نہیں لوٹاتےہیں کہ وہ اس میں برابر کے شریک ہو جائیں۔ پھر کیا یہ اللہ کی نعمتوں کے صریحاً منکر نہیں ہو رہے ہیں؟‘‘
ان آیتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن مجیداس بات پر زور دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے رزق کی تمام انواع واقسام پیدا کی ہیں ،وہی ہر فرد کی کفالت کرنے والا ہےاور اللہ کی مخلوق کو اس کی پیدا کی ہوئی غذاؤں پر برابر کا حق ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
﴿أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ﴾
ترجمہ: ’’یہ جو تم کھیتی باڑی کرتے ہو کیا تم نےاس پر نظر ڈالی ہے؟کیا تم انہیں اگاتے ہو یا ان کے اگانے والے ہم ہیں؟‘‘
یہ ہوائیں کون چلاتا ہے ؟کون ہے جو مینہ برساتا ہے ؟یہ کس نے دھوپ پید ا کی ہے ؟ جس کی کرنوں سے تمہاری فصل پکتی ہے ،اگر یہ سب کچھ ہم ہی نے پیداکیا ہے تواسے ہماری خاطر معاشرے پر خرچ کرنے سے دریغ کیوں کرتے ہو ؟
گردش دولت کا نظام
دولت کو گردش میں لانے کےلئے اور معاشرے کے تمام افراد میں پھیلانےکےلئےاسلام نے یہ ترغیب دی کہ :
﴿أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ﴾
البقرۃ: 267
ترجمہ: ’’اور جوکچھ تم نے کمایا ہے اور جو کچھ زمین سے ہم نے تمہارے لئے نکالا اس کا بہترین حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور ردّی چیزیں چھانٹ چھانٹ کر اللہ کی راہ میں نہ دیا کرو‘‘۔
زکوٰۃوعشر
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور زکوٰۃ کو واجب ٹھہرایا اورمالداروں سے اڑھائی فیصد جبراًوصول کرنے کا حکم دیا اور یہ اسلام میں کروڑوں کی رقم صرف مساکین کےلئے روزگار فراہم کرنے کےلئے وقف کر دی جاتی ہے ۔
قانون وراثت
دولت کو گردش میں لانے کےلئے حکم دیا کہ ہر شخص کی وفات پر اس کے مال اور اس کی زمین کو اس کے قریب اور دور کے رشتہ داروں میں بانٹ دیا جائے ۔جائیداد کے حصّے بخرے کردئیے جائیں تاکہ دولت مرکوز نہ ہو،اولاد اکبر کی جانشینی کا قانون Law of Primogeniture اور مشترکہ خاندان کا طریقہ Joint Family Systemاسلام نے اسی لئے ناجائز قرار دیا کہ اس سے دولت مرکوز ہو جاتی ہے۔
اس مقصد کے پیش نظر کہ نظامِ معیشت غیر متوازن نہ ہو،حکم ہوا :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ﴾
النساء: 29
ترجمہ:’’اے ایمان والو ایک دوسرے کے اموال ناجائز طریقوں سے نہ کھایا کرو‘‘۔
ہر وہ بات جس سے نظم ِمعیشت بگڑ جانے کا خدشہ تھا اور اس کے غیر متوازن ہونے کا امکان تھا،نا جائز قرار دی گئی،سود خوری ،رشوت ستانی،ذخیرہ اندوزی ،سَٹّہ (speculation) اور تجارتی قمار بازی کو حرام ٹھہرا دیا گیا ۔
یوں اسلام زکوٰۃ عشر اور قانون وراثت کو نافذ کر کے اور سود خوری،ذخیرہ اندوزی اور تجارتی قماربازی کو حرام ٹھہرا کرایک متوازن نظام معیشت قائم کرتا ہے ۔
یہ سمجھنا صریحاً غلط ہے کہ زکوٰۃ اور عشر ادا کر دینے کے بعد معاشرہ کا کوئی حق باقی نہیں رہتا، ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ:
أَنَّ فِي الْمَالِ حَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ
’’یقیناً مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی معاشرہ کاحق ہے ‘‘۔
قرآن مجید ہر قانون کی ارتقائی کڑیوں کو محفوظ کرتا ہےتاکہ جب بھی کسی معاشرے میں اسلامی قوانین کو نافذ کیا جائے ،وہ انہی ارتقائی منزلوں سے گذرا کریں۔جیسے شراب کی حرمت کا قانون جن مرحلوں سے گزرا،قرآن مجید نے ان تمام مرحلوں کو محفوظ کیا،حرمت شراب کا پہلا مرحلا یہ تھا:
﴿لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ﴾
النساء: 43
ترجمہ: ’’نماز کے قریب مت جاؤ جب تم نشے کی حالت میں ہو‘‘۔
اور حرمت شراب کی آخری ارتقائی منزل کا ذکراس آیت میں کیا :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ﴾
المائدۃ: 90
ترجمہ: ’’اےایمان والو! شراب ،جوا ،بت اور پانسےشیطانی عمل کی نجاست ہےتم اس سےدور ہٹ جاؤ‘‘۔
اسی طرح اسلام کے نظام معیشت کی آخری ارتقائی منزل قرآن نے یوں بیان کی :
﴿وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ﴾
البقرۃ: 219
’’یہ لوگ جن کے پاس سرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر پوچھتے ہیں کہ ہمیں کس حد تک خرچ کرنا ہوگا ۔آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تمہاری ضرورت سے جو کچھ زیادہ ہے،وہ تمہیں معاشرے پر خرچ کر دینا چاہیے‘‘۔
حکیم الامّت اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسی آیت کی طرف اشارہ کیا تھا :
؎ جو حرفِ قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اِس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں مصر کے بہت سے عالموں نےبھی یہ بات کہی ہے۔میں دانستہ طور پر ایک ثقہ عالم کا حوالہ اور کسی تجدد پسندکا حوالہ نہیں دیتا کہ آپ کے نزدیک ان کی ثقاہت محل نظر ہو۔میری مراد مولانا محمود حسن رحمہ اللہ سے ہے۔
إيضاح الأدلةمیں
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾
البقرۃ: 29
کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جملہ اشیاء بہ دلیل فرمان واجب الاذعان
﴿خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾
تمام بنی آدم کی مملوک معلوم ہوتی ہیں ،یعنی غرض الہیٰ تمام اشیاء کی پیدائش سے رفع حوائج جملہ ناس(انسان) ہے اور کوئی شے فی حدِّ ذاته کسی کی مملوک خاص نہیں ،بلکہ ہر شے اصل خلقت میں جملہ ناس میں مشترک ہے اور من وجهسب کی مملوک ہے ۔ ہاں بوجہ رفع نزاع وحصولِ انتفاع قبضہ کو علّت ملک مقرر کیا گیا اور جب تک کسی شے پر ایک شخص کا قبضہ تامہ مستقلہ باقی رہے ، اس وقت تک کوئی اور اس میں دست درازی نہیں کر سکتا۔
ہاں خود مالک و قابض کو چاہیے کہ اپنی حاجت سے زائد پر قبضہ نہ رکھے بلکہ اس کو اوروں کے حوالے کردے کیونکہ باعتباراصل اوروں کے حقوق اس کے ساتھ متعلق ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مال کثیر حاجت سے بالکل زائد جمع رکھنا بہتر نہ ہو ،اگر زکوٰۃ بھی ادا کردی جائے اور انبیاء علیہم السلام اور صلحاء رحمہم اللہ اس سے نہایت مجتنب رہے۔چناچہ احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہےبلکہ بعض صحابہ وتابعین نے حاجت سے زائد رکھنے کو حرام ہی فرمادیا۔[1]
قُلِ الْعَفْوَ
کا مفہوم سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث وضاحت سے متعین کرتی ہے۔
أَنَّ رَسُولَ اللّٰہﷺ قَالَ: “مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لاَ ظَهْرَ لَهُ, وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لاَ زَادَ لَهُ, قَالَ: فَذَكَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَكَرَ, حَتَّى رَأَيْنَا أَنَّهُ لاَ حَقَّ لاَِحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ
صحیح مسلم،كتاب اللقطۃ، باب استحباب المؤساۃ بفضول المال المحلی (4/ 282)
’’سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کےپاس فالتو سواری ہو وہ اسے لوٹا دے ،جس کے پاس سواری نہیں ہے ا ور جس کے پاس ضرورت سے زائد غذا ہے وہ ان لوگوں کے حوالے کر دے ،جن کے پاس غذا نہیں ہے ‘‘۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک جنس اور مال کی ایک ایک قسم کا جدا جدا ذکر کیا حتیٰ کہ ہماری یہ رائے ہو گئی کہ فالتو مال پر ہمارا کوئی حق نہیں رہا۔‘‘
یہ ’’رأينا ‘‘جو یہاں ہےاس کے یہ معنی نہ خیال لیجئے کہ’’ہم نے یہ خیال کیا‘‘ ۔یہ میں عربی کے طالب علموں سے کہہ رہا ہوں۔ فقہ کی بولی میں ہم ’’رأينا ‘‘اس وقت کہتے ہیں جب ہم کوئی فتویٰ دے رہے ہوں اور اپنی علمی رائے کا اظہار کر رہے ہوں پس یہ جو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
حتى رأينا أنه لا حق لأحد منا في فضل
تو اس کا معنی یہ ہوا کہ ’’حتیٰ کہ ہماری فقہی رائے یہ ہوگئی کہ فالتو مال پر ہمارا کوئی حق نہیں‘‘۔
کیا اسلامی حکومت جبراًچھین سکتی ہے ؟
اس بارے میں ایک سوال بہت اہم ہے جو ہمارے سامنے آتا ہے ،اگر دولت چند افراد کے ہاتھوں میں یوںسمٹ آئی ہوکہ خدشہ ہو کہ یہ اصول معاشیات جو ہم نے بیان کئے ہیں ،ان کو تدریجی اور ارتقائی طور پر نافذ کرنے سے پہلے ہی یہ معاشرہ دم توڑدے گا ،اور کیفیت یہ ہو کہ :
’’ تا تریاق از عراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود ‘‘ کہ جب تک عراق سے تریاق لایا جائے گا اتنی دیر میں مریض مر جائے گا ، تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے ؟
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے جو ایک عظیم انقلابی مفکر ہیں ،’’ المحلّیٰ ‘‘ کی چھٹی جلد میں بہت فاضلانہ بحث اس پر کی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ کتاب وسنت کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر نظم معیشت یکسر غیر متوازن ہو گیا ہو اور خدشہ ہوکہ تدریجی اور ارتقائی طور پراصول معاشیات کےنفاذ سے پہلے ہی معاشرہ دم توڑدے گا،تو اسلامی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سرمایہ داروں سے پیسہ اور غلہ جبراً وصول کرے:
اس موضوع پر بحث کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ دیکھو قرآن مجید باربارکہتا ہے کہ سرمایہ داروں کی دولت میں مساکین کا’’حق‘‘ ہےقرآن مجید لفظ ’’حق‘‘ بار بار استعمال کرتا ہے:
﴿وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾
الذاریات: 19
اور سورہ اسراء میں ہے:
﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ﴾
الإسراء: 26
وہ فرماتے ہیں کہ اس میں احسان کا کوئی سوال نہیں اور جن کی طرف مال لوٹایاجا رہا ہے ، وہ سرمایہ داروں کے رہین منت نہیں ۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ’’ المحلّی‘‘ کی چھٹی جلد میں یوں رقم طراز ہیں :
’’اگر ارباب ثروت ایسے عادلانہ معاشی نظام کو قبول نہ کریں ، تو اسلامی اسٹیٹ کا فرض ہے کہ اسلام کے اجتماعی معاشی نظام کے مطابق ارباب ثروت کو قانوناً مجبور کرے اور اگر ملی خزانے کا میزانیہ کافی نہ ہو تو محروم المعیشت انسانوں کو سنبھالہ دینے کیلئے صنعت کاروں اور جاگیر داروں سے پیسہ اور غلہ جبراً حاصل کر کے حق معیشت کی مسا وات بروئے کار لائے ،خواہ اہل دولت مالیانہ اور سرکاری واجبات ادا کر چکے ہوں۔[2]
سیدنا ابو عبید ۃ بن جراح رضی اللہ عنہ اور تین سو جلیل قدر صحابہ رضوان اللہ علیھم نے باوثوق ذرائع سے بیان کیا ہے کہ ایک سال غلّہ کا قحط ہوا سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہم سب کو حکم دیا کہ ہم سب اپنا غلہ اسٹاک کرنے کے مرکزوں میں اکٹھا کریں ، پھر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان مراکز میں سے خود ہر ایک فرد کو
مساوی طور پر خوراک دیتے رہے ۔
اس کے بعد امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَهَذَا إِجْمَاعِ مَقْطُوعُ بِهِ مِنْ الصَّحَابَةِ لَا مُخَالِفُ لَّهُمَّ مِنْهُمْ
’’اس پر صحابہ کرام کا قطعی اجماع ہے ، ان میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا ہے‘‘۔
یحی ٰ بن آدم رحمہ اللہ جو ایک جلیل القدر محدث تھے ،نے زراعت کے موضوع پر اپنی کتاب ’’الخراج ‘‘ میں لکھا ہے :
عن عبد اللّٰه ابن أبي بكر قال جاء بلال بن الحارث المزني رضي اللّٰه عنه إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاستقطعه أرضاً فاقطعها له طويلة عريضة فلما ولي عمر رضي اللّٰه عنه قال له يابلال إنك استقطعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أرضاً طويلة و عريضة قطعها لك وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لم يكن يمنع شيئاً ليسأله وأنت لا تطيق ما في يديك فقال أجل ! فانظر ما قويت منها فأمسكه مالم تطق ومالم تقوعليه فارفعه إلينا نقسمه بين المسلمين فقال لا أفعل واللّٰه أقطعنيه رسول اللّٰه فقال عمر واللّٰه لتفعلن فأخذ منه ما عجز عن عمارته فقسمه بين المسلمين
’’ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فرزند سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب صحابی اور کفار مکہ کی سازشوں کی اطلاع دینے والے فداکار مسلمان ، جنگ مکہ سے لے کر طائف کے لوگوں تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش لڑنے والے تھے ۔روایت کرتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ بن حارث المزنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زمین کا ٹکڑا مانگا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمبا چوڑا رقبہ عطا فرما دیا ، جب سیدنا عمر رضی اللہ خلیفہ ہوئے تو بلال رضی اللہ عنہ سے کہا :بلال رضی اللہ عنہ ! تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زمین کا ایک لمبا چوڑا قطعہ مانگا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمادیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ عالم تھا کہ مانگنے والے کی کسی بات کو رد نہ کرتے تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ !زمین کی جو مقدار تم نے حاصل کی ہے وہ تمہاری بساط اور قوت کاشت سے زیادہ نہیں ہے ؟‘‘بلال رضی اللہ عنہ:ہاں یہ ٹھیک ہے ۔عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا :دیکھو تم جتنی زمین آباد کر سکتے ہو اسے اپنے پاس رہنے دو اور جو تمہاری قوت کاشت سے زیادہ ہے ،وہ ہمارے حوالے کردو تاکہ ہم اسے مسلمانوں میں بانٹ دیں ۔بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں ہر گز واپس نہیں کرونگا ۔اللہ کی قسم یہ قطعہ زمین تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بخشا تھا ۔میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا ۔عمر بن الخطاب نے فرمایا:اللہ کی قسم تم کو ایسا کرنا پڑے گا ۔ پس زمین کا وہ حصہ جسے آباد کرنے سے بلال رضی اللہ عنہ قاصر رہے تھے سیدنا عمر رضی اللہ نے اسے چھین لیا اور مسلمانوں میں اسے بانٹ دیا ۔‘‘.[3]
’’میں یہ کہتا ہوں کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشی ہوئی زمین ملی مفاد کی خاطر چھینی جاسکتی ہے تو وہ جاگیریں جو مسلمانوں پر گولیاں برسانے کے صلے میں دی گئی تھیں ،وہ جاگیریں جو مسلمانوں کا لہُو بہانے میں عطا کی گئی تھیں ،وہ جاگیریں جو ملک وملت کے ساتھ غداری کے صلے میں بخشی گئی تھیں ، کیوں نہیں چھینی جاسکتیں ؟
میں یہ واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں غریب اور مزدور کی حمایت کا حق ادا نہیں کیا گیا۔میں مجمع الزوائد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پڑھ رہا تھا اور سر دُھن رہا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
خير الكاسب العامل إذا نصح
کسب معاش کرنے والوں میں سب سے بہتر اور معزز مزدور ہے ، جب وہ اخلاص کے ساتھ کام کرتا ہے ‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدور کو معاشرے کا معزز ترین فرد قرار دیا ہے ۔
ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ہم نے اس معاشرے میں مزدور کی توہین و تذلیل کی ہے اس کا دامن،اس کا گریبان ہماری دست درازیوں سے گلہ مند ہے ۔اس ملک میں عین اس وقت جب کہ مزدور پٹ رہا تھا اور زخموں سے کراہ رہا تھا ،ہم نے اس کے زخموں پر نمک چھڑکا ،ہم نے اس سے کہا اور ٹھوکے
دے دے کر کہا کہ دیکھو یہ ٹھیک ہے تم کہتے ہو سرمایہ دار پر تمہارے حقوق ہیں ،مگر یہ ہر گز نہ بھولنا کہ تم پر بھی سرمایہ دار کے حقوق ہیں ۔
ہم نے اس سے یہ بات عین اس وقت کہی جب کہ وہ سسکیاں لے لے کر دم توڑ رہا تھا ۔
؎ ہر سخن جائے و ہر نکتہ مکانے دارد
ہر بات کا ایک محل ہوتا ہے ،میں ایک موٹی سی مثال دیتا ہوں ، دو بھائیوں کی آپس میں لڑائی ہوجائے، آپ دیکھیں کہ ایک موٹا مسٹنڈا ہے اور دوسرا جو کمزور اور نحیف و نزار ہے ،مجروح ہے ،پٹ رہا ہے اور نزع کی حالت میں پنڈلی پر پنڈلی پٹک رہا ہے، اگر اس وقت کوئی آکر اس دم توڑنے والے کو یہ کہے کہ یہ ٹھیک ہے گو تم مر رہے ہو اور دم توڑ رہے ہو ،مگر تم یہ نہ بھولنا کہ اس ہٹے کٹے بھائی کے بھی تم پر حقوق ہیں ،یہ بات اس ملک میں کہی گئی ۔
عین اس وقت جب کہ غریب اور مزدور کے پیٹ میں بُھوک سے قراقر اٹھ رہا تھا ، ہم نے اس سے یہ کہا کہ دیکھو تمہاری زندگی کا مقصد پیٹ نہیں ،دل ہے۔وہ بھوکا تھا ،وہ دل کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا تھا ،عین اس وقت جب کہ وہ بُھوک سے پیچ و تاب کھا رہا تھا ہم اللہ سبحانہ و تعالی کی محبت کے گیت اس کو سنانے لگے، وہ بُھوک سے نڈھال تھا ، وہ محبت کے گیتوں سے لُطف اندوز نہیں ہوسکتا تھا ، وہ ہم سے روٹی مانگتا رہا ،ہم اسے محبت کے گیت سناتے رہے ،نتیجہ کیا ہوا ؟ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سرخ جھنڈیاں لے کر چوراہوں میں ناچنےلگا، وہ مذہب سے برگشتہ ہوا ، وہ علماء سے برگشتہ ہوا حتی کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالی سے برگشتہ ہوا ، وہ سرخ جھنڈیاں لے کر چوراہوں میں ناچ رہا تھا ،ہاں وہ غیروں سے اپنی وابستگی کا اعلان کر رہا تھا ، میں نے جو اسے دیکھا ، تو میرے ذہن کو کوئی جھٹکا نہ لگا ، اس لئے کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا تھا کہ:
كاد الفقر أن يكون كفرا
مفلسی انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔[4]
دیکھئے معاشی مسائل کا حل واضح اور متعین پیش کیجئے ۔ مزدور اس ملک میں صدیوں سے مامتا سے محروم ہے ، اس کے زخموں پر نمک مت چھڑکیں ،اس کو مامتا بخشیں ،اس سے جھگڑا نہ کریں ،اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں سوشلزم نہ آئے ، تو اس کا یہ علاج تو نہ تھا ۔منبر و محراب سے غلط آوازیں اٹھتی ر ہیں ، آپ یقین کیجئے کہ اگر مزدور اور غریب کے معاشی مسائل کا واضح اور متعین حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیش نہ کیا گیا اور اگر مزدور کا غم کھانے میں ہم سوشلسٹوں سے آگے نہ نکل گئے (جیسا کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت کا تقاضہ ہے )تو یہ عارضی بند جو سوشلزم کے امنڈ تے ہوئے سیلاب پر باندھا گیا ہے ،ٹوٹ جائے گا اور اس کی موجیں جو ابھی تک پایاب ہیں ، ہمارے سروں سے گذر جائیں گی ۔
کیپٹلزم، سوشلزم اور اسلام
اسلام ہمارے تمام دکھوں کا مداوا ہے ،وہ ہر درد کا درماں ہے ، وہی اعتدال کی راہ ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ اس میں چند افراد جو بد دیانتی ،رشوت ستانی اور ذخیرہ اندوزی سے دولت سمیٹ لیتے ہیں ، وہ تمام معاشرے کے اوپرمسلط ہوجاتے ہیں اور ذہنی قابلیت رکھنے والے محنت کرنے والے ،کاروبار کو کاوش سے چلانے والے سب ان چندسرمایہ داروں کے سامنے ہیچ ہوجاتے ہیں۔ اس نظام میں فرد (individual) بے زمام ، بے مہار ہوتا ہے ،وہ پورے معاشرے کا خون چوستا ہے ۔
سوشلزم کیا ہے ؟ یہ اسی سرمایہ دارانہ نظام کا رد عمل ہے ۔ سوشلسٹوں نے یہ سمجھا کہ یہ فرد (individual) ہی تمام فساد کی جڑ ہے ، اس کی تقریر پر پابندی لگا دو ، اس کی تحریر پر قدغن لگادو ، اس کی رائے پر قد غن لگادو ، اس کی اقتصادی آزادی اس سے چھین لو ، اور تمام ذرائع پیداور ( means of production ) کو قومی ملکیت میں دے دیا جائے ۔ ’’ نیشنلائزیشن آف پروڈکشن ‘‘ یہ ترکیب بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہے ،لیکن ایک طالب علم کے ذہن میں فوراً یہ سوال ابھرتا ہے کہ قومی ملکیت میں دے دینے سے کیا مراد ہے ؟ کیا قوم کا ہر فرد اس پر قبضہ و اختیار رکھتا ہے ؟یہ تو نا قابل عمل ہے ۔
تحقیق کی جائے ، تو معلوم ہوتاہے کہ سوشلسٹ حکمران پارٹی کے چند مخصوص افراد کے تصرف و اختیار میں تمام ملک کے ذرائع پیداوار دے دئے جاتے ہیں ، پس ملک کے وہی چند افراد جن کے ہاتھوں میں فوجی ، سیاسی اور قانونی طاقت سمٹی ہوئی ہے ،ملک کے تمام ذرائع پیداوار بھی انہی کے قبضہ و اختیار میں چلے جاتے ہیں ، یوں ملک کی تمام طاقتیں چند ہاتھ سمیٹ لیتے ہیں ، تمام معاشی ،سیاسی اور فوجی قوتوں کا یہ ارتکاز سرمایہ دارانہ نظام کی انتہائی بھیانک صورت ہے ،جو ایک خطرناک آمریت کو جنم دیتی ہے ۔
بھائیوں اور بزرگوں ! مقصد تو یہ تھا کہ ڈی سنٹر الائزیشن ہو ، دولت اور قوت بکھرے ۔ کیپٹلزم کا جو رد عمل ہوا ، اس میں تو پھر تمام قوتیں سمٹ کر چند ہاتھوں میں آگئیں اور ایسا شدید ارتکاز ہوا کہ اس نے انتہائی بھیانک آمریت کو جنم دیا ۔یہ دونوں افراط و تفریط کی راہیں ہیں ۔ یہ دونوں نظام انسان کے ذہن کی پیداور ہیں ، وہ انسان جو جذبات کا بندہ اور خواہشات کا پجاری ہے ،اسلام شخصی ملکیت اور قومی ملکیت میں ایک حسین امتزاج پیدا کرتا ہے ، وہ فرد کے حقوق و اختیارات اور حکومت کے حقوق و اختیارات میں ایک توازن قائم کرتا ہے ۔
شخصی ملکیت
بعض ہمارے بھائی جو اشتراکی نظام سے متاثر ہیں ،یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام بھی انفرادی ملکیت کو ناجائز قرار دیتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو یہ صنعتی ، معاشی ، انتظامی وسائل میسر ہوتے ، جواس دور کی حکومتوں کو حاصل ہیں ، تو انفرادی ملکیت کوختم کرنے کے لئے انہیں کوئی تامل نہ ہو تا ۔اس بات کے لئے ان کے پاس کوئی سند یا دلیل نہیں ہے ۔ اس بحث میں بھی کچھ دَھڑا بندی کی بات پیدا ہو چلی ہے ۔کوئی پیغمبر اس روئے زمین پر ایسا نہیں گذرا ، جس نے انسان کو کسی اقتصادی آزادی سے محروم کیا ہو ، کوئی صحیفہ آسمانی ایسا نہیں ، جس میں انسان کو اس کی شخصی آزادی سے محروم کیاہو ، پھر وہ سید الاولین و سید الآخرین ، وہ سرورِ دُنیا و دین صلی اللہ علیہ وسلم جن کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ بیان کیا گیا ہے
﴿وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾
الأعراف: 157
یعنی وہ جو انسانوں کو بے جا بندھنوں اور غلامیوں سے آزاد کرانے کے لئے آیا تھا ، یہ کیوں کر ممکن تھا کہ انسان کو اس کی اقتصادی آزادی سے محروم کردیتا اور تمام معاشرے کے افراد کو ریاست کا بے دست و پا غلام بنادیتا ۔اسلام انفرادی آزادی کو شخصی ارتقاء کے لئے ناگزیر سمجھتاہے،وہ فرد کی آزادی پر اس وقت قد دغن لگاتا ہے ، جب مفادِ عامہ کو اس سے دھچکا لگے اور معاشرے کےاجتماعی حقوق کو صدمہ پہنچے ۔
ذرائع پیداور کو قومی ملکیت میں لینا
قرآن و حدیث میں کسی صنعت ، تجارت یا ذریعہ پیداور کو قومی ملکیت میں لینے کے خلاف ایک حرف بھی میری نظر سے نہیں گذرا۔ اگر مفاد عامہ اور ملی مصلحتوں کے پیش نظر اسلامی حکومت کسی صنعت یا تجارت یا ذریعہ پیداور کو قومی ملکیت میں لینا چاہے ، تو وہ ایسا کرنے کی مجاز ہے ۔ اگر کوئی صنعت یا تجارت چند افراد کے ہاتھوں میں ہو اور اس کی شخصی ملکیت اجتماعی مفاد کے لئے نقصان دہ ہو تو حکومت ان افراد کو معاوضہ دے کر وہ کاروبار اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے لیکن اسلام اس بات کو ایک اُصول کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتا کہ دولت کی پیداوار کے تمام ذرائع حکومت میں یوں چلے جائیں کہ ملک بھر کی تمام صنعتوں اور تجارت کی منڈیوں پر وہ تنہا قابض ہو اور حکومت تمام اراضی کی واحد مالک ہو ۔
پس اسلام شخصی اور اجتماعی ملکیت میں ایک توازن قائم کرتا ہے۔
دونوں نظام باطل ہیں
سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت یہ دونوں باطل ہیں علامہ اقبال رحمہ اللہ نے بجا کہا تھا ۔
؎ ہر دو را جاں ناصبُور و ناشکیب
ہر دو یزداں ناشناس آدم فریب
دونوں کی روحیں روحانی سکُون سے ناآشنا ،دونوں اللہ سے غافل ، دونوں اللہ سے جاہل ، دونوں اپنے ذاتی اغراض کے لئے ہر فریب ، دھاندلی بد دیانتی ، لوٹ کھسوٹ ، مار دھاڑ اور قتل و غارت کو روا رکھنے والے اور اپنی ادنیٰ سی خواہش کے لئے ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے والے :
؎ غرق دیدم ہر دو را در آب و گل ہر دو را تن روشن و تاریک دل
فرماتے ہیں :’’ میں نے سرمایہ دارانہ نظام کو بھی دیکھا اور اشتراکی نظام کو بھی جانچا ، دونوں مادیت میں ڈوبے ہوئے ، دونوں کا منتہائے نظریہ جہانِ آب و گل ، دونوں بدن سنوارنے میں لگے ہیں ، دونوں کے دلوں پر ظلمت کا سناٹاچھایا ہوا ہے ‘‘ ۔
اسلام اور اشتراکیت یکجا ہوسکتے ہیں ؟
ایک اور سوال ہمارے بعض بھائیوں نے اٹھایا ہے ، ہمارے جو بھائی اشتراکیت سے متاثر ہیں ، کہتے ہیں : اسلام اور اشتراکیت کو یکجا کردو ، بات لمبی اور بحث طلب ہے ۔لیکن وقت کی قلت کے پیش نظر بات سمیٹتا ہوں ۔ کارل مارکس کا ’’ داس کیپٹل ‘‘ جو کمیونزم کی بنیادی کتاب ہے ، اگر اس کی پہلی جلد کے ابتدائی صفحات ہی آپ پڑھ ڈالیں ، تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اشتراکیت کا فلسفہ ءزندگی ’’جدلّیاتی مادیّت ‘‘ کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے ، میں اس فلسفہ کی تشریح اس وقت نہیں کرسکتا ، صرف اتنا کہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو فلسفہ کی ابجد ہوز سے بھی واقف ہے ، وہ یہ سمجھتا ہے کہ جدلّیاتی مادیّت کے نظریے میں اللہ ، رسول ، وحی و تنزیل ، حیات بعد الممات ، روح ، ملائکہ اور دوسرے مابعد الطبیعاتی ( Metaphysical Realities) حقائق کے تصور کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ۔
کارل مارکس کا فلسفہ زندگی جدلیاتی مادیت پر مبنی ہے ، اس کے فلسفہ تاریخ کی اساس بھی جدلّیاتی مادیت ہی پر ہے ، اس کا اقتصادی نظام بھی قطعی طور پر (Dialectical materialism ) کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس کے اقتصادی نظام میں حلال و حرام میں کوئی حد فاصل نہیں کھینچی گئی ۔
پس آپ یقین کیجئے کہ اگر اس ملک میں سوشلزم آتا ہے تو ہماری اخلاقی اور روحانی قدروں کا برباد ہونا یقینی امر ہے ، اگر سوشلزم اس ملک میں آتا ہے تو ہماری اخلاقی و روحانی قدروں کا یقیناً وہی حال ہوگا جو سمر قند و بخارا میں ہوا ، جو مشرق ِوسطی میں ہوا ، ہم اس سے مختلف نتائج کی توقع اس ملک میں نہیں رکھتے ہیں ۔ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام اور اشتراکیت کو یکجا کردو تو یا تو دونوں کے مفہوم سے نا واقف ہے یا وہ لوگوں کی آنکھوں میں قصداً اور ارادتاًدھول جھونک رہا ہے ، وہ فلسفہ زندگی جس کی بنیادوں پر ایک نظام قائم ہوتا ہے ، آپ اس فلسفہ زندگی کو اس نظام سے کاٹ کر الگ نہیں پھینک سکتے ۔
روٹی ہماری زندگی کا مقصد نہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے ہمیں نہایت متوازن اقتصادی اور سیاسی نظام بخشا ہے ، لیکن مسلمان کی زندگی کا مقصد محض روٹی نہیں ، میں نے یہ کہا تھا کہ جس وقت مزدور بھوکا ہو ، وہ اللہ کی محبت اور عبادت کے گیتوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا ،اس کا پیٹ بھرنے کے بعد ہم اسے کہیں گے کہ دیکھو روٹی تمہاری زندگی کا مقصد تو نہیں ہے ، مسلمان کی زندگی کامقصد اللہ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرنا اور اس کی صفات سے خود کو متصف کرنا ہے اور اپنی تمام صلاحیتوں کو اللہ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کھپا دینا ہے ، مسلمان کی رُوح ہر آن اور ہر لمحہ نغمہ سرا ہے ۔
إِلَهِىْ أَنْتَ مَقْصُوْدِى وَرِضَاكَ مَطْلُوْبِى
نسان کی زندگی کا مقصد اس روئے زمین پر اللہ کی خلافت کا قائم کرنا ہے اور یہ معاشرتی ، اقتصادی اور سیاسی نظام جو اسلام نے ہمیں بخشا ہے، ان مقاصد کے حصول کے لئے محض وسائل اور ذرائع ہیں ۔میں علامہ صاحب رحمہ اللہ کے خط کا اقتباس آپ کو سناتا ہوں جو اخبار زمیندار میں 24 جون 1923ء کے شمارے میں چھپا تھا ،میں اس وقت جو کچھ کہہ رہا ہوں اس کی تائید و تصدیق اور تشریح و توضیح کے لئے حکیم الامت کی شہادت بس کرتی ہے ۔
علامہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں مسلمان ہوں ، میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل اور براہین پر مبنی ہے ۔انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے ،سرمایہ داری کی قوت جب اعتدال سے تجاوز کرجائے ، تو دنیا کے لئے ایک قسم کی لعنت ہے ،لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریقہ یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کردیا جائے ، جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔قرآن حکیم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لئےقانون میراث اور زکوۃ و غیرہ تجویز کیا ہے ،مغربی سرمایہ داری اور رُوسی دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے شریعت ِ حقہ اسلامیہ کا مقصُود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کرسکے اور اس کے حصول کے لئے میرے عقیدے کی رو سے وہی راہ
آسان اور قابلِ عمل ہے ، جس کا انکشاف شارع علیہ السلام نے کیا ہے ۔
اسلام سرمایہ داری قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا ، بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے برقرار رکھتاہے اور ہمارے لئے ایک ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے ، جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کرسکتی۔
مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا ، ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے
فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا
میں اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے ، کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کےاخوان نہیں ہوسکتے ،جب تک وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اوراس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں ، جس کا مقصود سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق اور تولید ہو اور مجھے یقین ہے کہ خودرُوسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے ناقص تجربے سے معلوم کرکے ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوجائے گی ، جس کے اصول اساسی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے ۔
موجودہ صورت میں رُوسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہو ، ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہوسکتی ۔ہندو ستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی سیاسی اقتصادیات پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں ، ان کے لئے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کی اقتصادی تعلیم پر نظرِ غائر ڈالیں ، مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کاحل اس کتاب میں پائیں گے ۔[5]ساتھیو!یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم ملی انفرادیت ( National Individuality ) کھو بیٹھے ہیں، ہم کبھی امریکہ اور کبھی روس کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں ، کبھی چین کو دیکھ کر ہماری رال ٹپکتی ہے ۔ ہر دور کے لات و عزی ہوتے ہیں ۔اور امریکہ اور روس اس دور کے لات وعزّی ہیں:
﴿أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ﴾
النجم: 19 – 20
وقت کا سب سے عظیم انسان اور سب سے عظیم مسلمان وہ ہوگا جو ان تازہ خداؤں کی ذہنی غلامی سے انسانیت کو رہا کرے اور اسلام کے اقتصادی اور سیاسی نظام کو ایک مکمل اور باضابطہ صورت میں پورے یقین اور اذعان کے ساتھ کائنات کےسامنے پیش کرے اور اس کائنات میں اس نظام کو نافذ کرنے کے لئے ایسی مؤثر اور گرجدار آواز بلند کرے کہ یہ کائنات اس آواز سے گونج اٹھے ۔
[5] زمیندار ۔24 جون 1923ء
[4] مشکاۃ المصابیح :باب ما ینہی، الفصل الثالث،تحقیق علامہ ناصر الدین البانی ،شیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ شعب الإیمان للبیہقی :باب فی الحث علی ترك الغل والحسد ۔
[1] إیضاح الأدلۃ : ص 268
[2] المحلیٰ : 6/156 ایضاً : 6/ 158
[3] کتاب الخراج:ص 93،کنز العمال 2/191،سنن البیہقی :6/138۔149علامہ البانی رحمہ اللہ ارواء الغلیل میں فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث بحیثیت مجموعی طرق سے ثابت ہے‘‘ ۔