تمہید
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں انسانی زندگی کے اہم شعبہ معیشت کے حلال و حرام کے احکامات بھی تفصیل سے موجود ہیں ،شریعت نے جن اشیاء کو حرام قرار دیا ہے ان کی تجارت ، اجرت اورہر قسم کی معاونت حرام ہے انہی پیشوں میں سے چند کا ذکر ہم بتوفیق اللہ تعالی اپنی اس بحث میں کریں گے۔ حرام شدہ پیشوں کو ہم عمومی طور پر دو بنیادی اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔
(1)ایسے پیشے جو بذاتہ حرام ہیں ۔
(2) وہ پیشے جو کسی سبب یا وصف کی آمیزش سے حرام ٹھہرتے ہیں۔
وہ پیشے جو بذاتہ حرام ہیں
(1) سود لینا اور دینا یا کسی بھی طرح اس میں معاون بننا حرام ہے
اللہ تعالی کا فرمان ہے :’’اے ایمان والو اللہ تعالٰی سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہوجاؤ، ہاں اگر توبہ کر لو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔[ البقرة:277]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
لعَنَ رَسُولُ اللّٰهِ صلَّى اللّٰهُ عليهِ وسلَّمَ: آكِلَ الرِّبَا ومُوكِلَهُ وكَاتِبَهُ وشَاهِدَيْهِ
صحيح مسلم:كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا و موكله
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی اور ارشاد فرمایا یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں‘‘۔
(2)نشہ آور اشیاء کی خرید و فروخت
شراب :شراب جسے عربی زبان میں’’ خمر ‘‘کہا جاتا ہے اس کو شریعت نے مطلقا ًحرام قرار دیا ہے ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب کی وجہ سے دس آدمیوں پر لعنت فرمائی شراب نچوڑنے والا، نچڑوانے والا اور جس کے لیے نچوڑی جائے اور اٹھا کر لے جانے والا اور جس کے لیے اٹھائی جائے اور فروخت کرنے والا اور جس کے لیے فروخت کی جائے اور پلانے والے اور جس کے لئےپلائی جائے۔ اسی قسم کے دس افراد شمار کئے‘‘۔[1]
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو چیز نشہ لائے وہ حرام ہے‘‘۔[2]
ام المومنین عائشۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے‘‘۔[3]
* شراب کو کسی حلال چیز میں تبدیل کرکے بھی استعمال میں لانا حرام ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا ہم شراب کا سرکہ بناکر استعمال کرسکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا ۔[4]
ان احادیث کی رو سے تمام نشہ آور اشیاءسے حاصل ہونے والی آمدنی حرام ہے مثلا، ہیروئن، چرس،افیم، تمباکو والے پان ،گٹکے، نسوار،بھنگ، سگریٹ وغیرہ
(3)جوئے سٹہ بازی میسر یا قمار بازی کاپیشہ :
اللہ تعالی نے سود اور شراب کے بعد میسر و قمار (جوئے کی تمام اقسام )کو حرام قرار دیا ہے ،جس کو علامہ مباکپوری رحمہ اللہ نے یوں بیان کیا ہے ’’قمار (جوئے )میں کسی کو نفع ہی نفع اور دوسر ے کو نقصان ہی نقصان ہوتا ہے ‘‘[5]
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ﴾
النساء: 29
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ ‘‘۔
اور فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ﴾
المائدۃ: 90 – 91
ترجمہ:’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو، شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالی کی یاد سے اور نماز سے تمہیں باز رکھے ۔ سو اب بھی باز آجاؤ۔
میسر و جوئے کی چند نئی اقسام درج ذیل ہیں :
(1)لاٹری (2)معمہ بازی (پزل ) (3)ریفل ٹکٹ (4)انعامی بانڈز (5)سٹہ بازی
(4)فحاشی وقحبہ گری
شریعت مطہرہ نے تمام قسم کی فحاشی اور حرام جنسی کاروایئوں مثلاً زنا ،اغلام بازیجیسے اعمال اور ان کی اجرت کو حرام ٹھہرایا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ﴾
الأنعام: 151
ترجمہ:’’اور بےحیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ‘‘۔
ایک اور جگہ فرمایا:
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾
الإسراء: 32
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا
﴿وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾
النور: 33
ترجمہ:’’تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو‘‘ ۔
اسی طرح تمام وہ ذرائع مثلا ًفحش تصاویر،لٹریچر ،میگزین انٹرنیٹ ،اشتہارات اور مارکیٹنگ جن میں ایسی اشیاء کو بیچنے کے لئے فحاشی کا حربہ استعمال ہو حرام ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :
﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ﴾
النور: 19
ترجمہ:’’جو لوگ یہ چاہتےہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت اور زناکار عورت کی خرچی (اجرت) اور کاہن کی مٹھائی (جو اجرت میں ملی) سے منع فرمایا۔[6]
(5)گانا قوالی ،گلوکاری اور موسیقی
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ۔ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾
لقمان: 6 – 7
ترجمہ:’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں ، کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سناہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں ، آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنادیجئے‘‘۔
ابن عباس رضی اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :لغو باتوں سے مرادگانا بجانا اور طبلہ وغیرہ ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :’’اس امت میں زمین کے اندر دھنسنا ،صورتیں بدلنا اور بہتان بازی پیدا ہوگی کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کب ہوگا ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گلوکار، گلوکارائیں عام ہوجائینگی اور شرابیں پی جائیں گی ‘‘۔[7]
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’مجھے دو بد ترین آوازوں سے منع کیا گیا ہے ایک خوشی کے وقت بانسری اور غم کے وقت نوحہ خوانی سے ‘‘۔[8]
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گلوکاری اور موسیقی کی کمائی اور اجرت سے منع فرمایا ہے ‘‘۔[9]
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے ’’گانا بجانے والی عورتوں کو نہ بیچو نہ خریدو نہ انہیں یہ کام سکھاؤ اور انکی اجرت حرام ہے ‘‘۔[10]
ان احادیث کی رو سے تمام قسم کی موسیقی اور موسیقی کے آلات کی تجارت اور اجرت حرام ہے ۔
(6)رقاصی کا پیشہ
اللہ تعالی نے جس طرح زنا کو حرام قرار دیا ہے اسی طرح اس کے تمام وسائل کو بھی حرام ٹھہرایا ہے ۔
اللہ تعالی کا حکم ہے :
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلً﴾
الإسراء: 32
ترجمہ :’’خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘۔
اس آیت کی رو سے زنا کی طرف لے جانے والے تمام وسائل اور ذرائع بھی حرام ہیں ۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ﴾
الأحزاب: 33
ترجمہ:’’اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ سینگھار کا اظہار نہ کرو‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت اور زناکار عورت کی خرچی (اجرت) اور کاہن کی مٹھائی (جو اجرت میں ملی) سے منع فرمایا۔[11]
رقص کے حوالے سے فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا﴾
الإسراء: 37
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اہل علم نے مذکورہ آیت سے رقص کی مذمت اور اس کے ارتکاب کی ممانعت کا استدلال لیا ہے ۔ ابو الوفاء بن عقیل فرماتے ہیں : قرآن کریم میں رقص کی صریح ممانعت وارد ہے فرمان باری تعالیٰ ہے: :
﴿وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا﴾
الإسراء: 37
ترجمہ:’’اور زمین پر اکڑ اکڑ کر نہ چل ‘‘ اور رقص سب سے بڑا اترانا ،تکبر اوراکڑنا ہے جس سے شریعت میں منع کیا گیا ہے۔
(7)مصوری و بت سازی و فروشی :
مجسمہ سازی اور فوٹو گرافی (تصویر کشی) کا پیشہ آج کل زوروشورسے رائج ہے ،قرآن حکیم میں جن اشیاء کو حرام قرار دیا گیاہے ان میں بت سازی و تصویر سازی کو تیسرا درجہ حاصل ہے جن کی دور جاہلیت میں عبادت کی جاتی تھی چنانچہ شارع حکیم نےاسے مطلقا ًحرام قرار دیا ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
المائدۃ: 90
ترجمہ:’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اورانصاب(بت) اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :’’ قیامت کے روز سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والوں دیا جائے گا ‘‘[12]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا میرا ذریعہ معاش تصویر کشی ہے میں تصویریں بناتا ہوں ۔ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرما یا میں تمہیں وہی بتاؤنگا جو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جو تصویر بنائے گا اسے اللہ تعالی عذاب دے گا کہ وہ اس میں روح پھونک دے لیکن وہ کبھی اس میں روح نہیں پھونک سکے گا ‘‘یہ سن کر اس شخص کا چہرہ متغیر ہوگیا ، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ اگر تم تصویر بنانا ہی چاہتے ہو تو غیر ذی روح اشیا ء کی درخت و مناظر کی تصویریں بناؤ‘‘۔[13]
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تصویر بنانا ، بنوانا ،خریدنا فروخت کرنا حرام کام ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہے لہٰذا اس سے اجتناب لازم ہے ،البتہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ،لائسنس وغیرہ کے لئے بنانا استثنائی صورت میں اہل علم نے جائز قرار دیا ہے ۔
(8)کہانت ،دست شناسی (پامسٹری)
کہانت ،فال گیری ، ، پامسٹری (دست شناسی )یہ وہ افعال ہیں جو کہ علم غیب سے تعلق رکھتے ہیں جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور اللہ نے ان افعال کو ’’رجس‘‘ یعنی ناپاکی اور شیطانی اعمال ‘‘سے تعبیر دیا ہے اللہ تعالی کافرمان ہے : ’’اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو‘‘[المائدہ:90]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ِمبارک ہے :’’جو کوئی بھی غیب کی خبریں بتانے والے کے پاس جائے اور اس سے پوچھے اس کی چالیس دن تک نمازقبول نہیں ہوگی ‘‘۔[14]
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘جو کوئی بھی کسی کاہن کے پاس جاکر دریافت کرے پھر اس کی تصدیق کرے تو اس نے اس (قرآن) سے کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے‘‘۔[15]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہن کی مٹھائی (جو اجرت میں ملی) لینے سے منع فرمایا۔[16]
ان دلائل کی روشنی میں کہانت ،پامسٹری ،اور اسکی تمام اقسام کی کمائی حرام ہے ۔
(9)جادو ٹونہ و شعبدہ بازی
جادو (سحر) و شعبدہ بازی ہر دور میں موجود رہی ہے اور اس کی حرمت بھی ابدی ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾
البقرۃ: 102
ترجمہ:’’اور یہ یہود (تورات کے بجائے) ان جنتروں منتروں کے پیچھے لگ گئے۔ جو سیدنا سلیمان کے دور حکومت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔ سیدنا سلیمان نے ایسا کفر کبھی نہیں کیا بلکہ کفر تو وہ شیطان لوگ کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ نیز یہ یہود اس چیز کے بھی پیچھے لگ گئے جو بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر اتاری گئی تھی۔ یہ فرشتے کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو تمہارے لیے آزمائش ہیں سو تو کافر نہ بن۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے ایسی باتیں سیکھتے جن سے وہ مرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال سکیں۔ حالانکہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو بھی نقصان نہ پہنچا سکتے تھے۔ اور باتیں بھی ایسی سیکھتے جو انہیں دکھ ہی دیں، فائدہ نہ دیں۔ اور وہ یہ بات بھی خوب جانتے تھے کہ جو ایسی باتوں کا خریدار بنا، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں کتنی بری چیز تھی جسے انہوں نے اپنی جانوں کے عوض خریدا۔ کاش وہ اس بات کو جانتے ہوتے‘‘۔
اور سحر(جادو) میں کبھی بھی کوئی نفع نہیں ہوسکتا اور جس میں ہمیشہ کا خسارہ ہو اس کا سیکھنا سیکھانا اور اس کی اجرت (کمائی ) بھی حرام ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اللہ کا فرمان ہے :
﴿وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ﴾
طه: 69
ترجمہ:’’اور جادوگر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا‘‘۔
اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بھی واقعہ اس کی حرمت پر دلیل ہے ۔ عائشہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر کا ایک غلام تھا جو انہیں کچھ محصول دیا کرتا تھا اور آپ اس کا محصول کھانے کے کام میں لاتے تھے ایک دن وہ کوئی چیز لایا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کھا لیا تو ان سے غلام نے کہا
آپ کو معلوم ہے یہ کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا کیا تھی؟ اس نے کہا میں نے زمانہ جاہلیت میں آئندہ ہونے والی بات (کہانت) ایک آدمی کو بتادی تھی حالانکہ میں خود یہ فن نہیں جانتا تھا بلکہ میں نے اسے دھوکہ دیا تھا تو (آج) وہ مجھ سے ملا اور (یہ چیز) اس نے مجھے اسی کے عوض دی ہے اور اسی کو آپ نے کھایا ہے تو ابوبکر نے اپنی انگلی منہ میں ڈال کر پیٹ کی ہر چیز کو قے کر کے نکال دیا۔[17]
(10)نجومیت
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اللہ تعالی نے ستاروں کو آسمان کی زینت ،شیاطین کو مارنے اور بحرو بر میں راہ معلوم کرنے کے لئے تخلیق کیا ہے اور جوشخص ان کے علاوہ کچھ اور سمجھتا ہے وہ خطا(غلطی ) پر ہے اور اس نے ہر قسم کی بھلائی سے خود کو محروم کرلیا اور ایسے امر کا تکلف کیا جس کا اسے کچھ علم نہیں۔[18]
حدیث میں آتا ہے :ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنْ النُّجُومِ اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنْ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ
سنن ابي داود كتاب الطب باب في النجوم،حدیث: 3905۔(یہ روایت صحيح ہے(
’’جس نے علمِ نجوم کا کچھ حصہ سیکھا اس نے اسی قدر جادو سیکھا ،جتنا زیادہ سیکھتا جائے اس کی وجہ سے اس کے گناہ میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا ‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘جو کوئی بھی کسی نجومی یا کاہن کے پاس جاکر دریافت کرے پھر اس کی تصدیق کرے تو اس نے اس (قرآن) سے کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے‘‘[19]اسی لئے وہ تمام نصوص جو سحر(جادو) کی حرمت پر دلیل ہیں وہ نجومیت کو بھی حرام ٹھہراتے ہیں اور اس کی اجرت بھی حرام ہے ۔
(11)ٹی وی ، ریڈیو ڈرامہ، اور فلم سازی کا پیشہ
ان پیشوں میں چونکہ عریانی ، فحاشی مرد و عورت کا اختلاط اور فیشن کے نت نئے فتنے اور حیا سوز لباس، عشق و معشوقی کی داستانیں اور جھوٹ دھوکہ اور اخلاق سوز مناظر کا غلبہ رہتا ہے جو کہ سراسر شریعت کےمنافی ہیں اسی لئے ان کی کمائی بھی حرام ہے ۔ سینیما ،تھیٹر ، ویڈیو آڈیو سی ڈی سینٹرز، اشتہارات ،کیبل آپریٹنگ وغیرہ اور ان سے منسلک تمام اشیاء اگر ان پر حرام معاملات کا اجراء جاری ہے تو ان کا بھی یہی(حرام کا ) حکم ہے ریڈیو جس میں آجکل ایف ایم (FM) چینلز کی بھر مار ہے جن میں سوائے گانے بجانے اوراللہ کے دین سے دوری کے اسباب کے کچھ نہیں جن میں جوان لڑکوں اور لڑکیوں کےجذبات کو ابھارا جاتا ہے ان سب کاموں کی کمائی اور اجرت جہنم کی آگ ہے اللہ کا فرمان ہے :
﴿إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ﴾
النور: 19
ترجمہ:’’جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی ِکی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی‘‘۔
نوٹ :واضح رہے کہ کوئی بھی وسیلہ یا ذریعہ یا آلہ بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ اس کا استعمال کے موجب حکم لگتا ہے اور آج کے دور میں چونکہ ان ذرائع کا استعمال 90 فیصد سے زیادہ حرام کاموں کے لئے ہے اس لئے ان وسائل پر یہ چیزیں نشر کرنا ، اس کے لئے اپنا پلیٹ فارم مہیا کرنا ۔ حرمت کے حکم میں آئے گا ۔یہاں اگر ان ہی چینلوں پر تعمیری کام ہو ، ملک و کام کی بہتری کے پروگرام ہوں تو یہ اچھا عمل ہوگا۔
(12)گداگری
گداگری ایک مکمل پیشہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جس کا ایک نیٹ ورک ہوتا ہے جس میں بچوں کو بھی تربیت دے کر مختلف چوراہوں پر پھیلا دیا جاتا ہے جبکہ شارع علیہ السلام نے اس پیشہ کی شدید مذمت کی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :’’جو آدمی لوگوں سے سوال کرتا رہتا ہے قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہوگا‘‘[20]
(13)مردار اور حرام جانوروں کی خرید و فروخت
ایسا جانور جومردار ہو یا ایسی حالت میں اسے ذبح کیا جائے کہ اس کاخون نہ نکل سکے یا کوئی حرام جانور کو حلال کرکے مارکیٹ میں لا یا جائے یا سور ،کتے اور بلی ، بندر کی بیع بھی حرام ہے اور ان سے حاصل ہونے والی اجرت بھی حرام ہے۔فرمانِ الٰہی ہے:
﴿قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ﴾
الأنعام: 145
ترجمہ:’’ آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو ‘‘۔
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت وصول کرنے سے منع فرمایا۔[21]
اس طرح مردہ اور حرام جانور کی چربی کی خرید و فروخت بھی حرام ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مردار کی چربی کے بارے میں کیاحکم ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ وہ حرام ہیں، اللہ یہود پر لعنت کرے جب ان پر جانوروں کی چربی حرام ہوئی تو انہو ں نے اس کو پگھلایا اور بیچ کر اس کی قیمت کھالی ‘‘[22]
(14)خون کا معاوضہ لینے کا حکم
صحیح بخاری میں سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے‘‘[23]لہٰذا اس حدیث کی بنا پر کسی مسلمان کے لئے خون کا کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں۔ بلکہ اگر کسی مسلمان بھائی کو خون کی ضرورت ہو تو اسے بطور عطیہ فراہم کیا جائے نہ کہ قیمتاً۔
(15)انسانی اعضاء کی خرید و فروخت کا حکم
کسی انسان کے لئے اپنا گردہ یا دوسرے اعضاء کا بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ ایسے شخص کے لئے شدید وعید آئی ہے جو کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھاجائے ،اللہ کے پیار ے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’میں قیامت کے دن تین افراد کی طرف سے مقدمہ کروں گا ایک وہ جس نے آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھالی[24]اور کسی عضو کی بیع بھی اسی میں شامل ہے کیونکہ انسان نہ اپنے جسم کا ملک ہے اور نہ اپنے کسی عضوکا بلکہ یہ اللہ تعالی کی انسان کے پاس امانت ہیںانہیں بیچنا جائز نہیں ہے ۔
(16)ریزکاری (چلڑ)فروشی
عصر حاضر میں ہر بس اسٹاپ پر بعض افراد زیادہ روپوں کے عوض کم پیسے (کھلے سکوں کی صورت میں) بیچتے ہیں جو کہ کھلا سود ہے اور ان کی اجرت اور کمائی بھی حرام ہےکیونکہ سود دینا بھی حرام ہےاور لینا بھی حرام ہے۔
(17)چوری کا مال بیچنے اور خریدنے کا حکم
جس شخص کو علم ہو یا غالب گمان ہو کہ یہ مال چوری کا ہے اس کے لئے اسے خریدنا اور بیچنا حرام ہے نیز اس میں کسی قسم کا تعاون بھی حرام ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ﴾
النساء: 29
ترجمہ: ’’اور اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خرید وفروخت‘‘
(18)نر سے جفتی کرانے کی اجرت
ہمارے معاشرے میں بعض افراد اپنے جانوروں کی نسل بڑھانے کے لئے نر اور مادہ کا ملاپ کراتےہیں جسے ’’جفتی‘‘ کہا جاتا ہے اور جن کا جانور نر (male)ہوتا ہے وہ اس عمل کی اجرت لیتے ہیں جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نر کی جفتی کرانے کی اجرت سے منع فرمایا ہے‘‘۔[25]
(19)زائد پانی اور گھاس کی بیع کی ممانعت
ضرورت سے زیادہ پانی اور وہ گھاس جس پر اس نے محنت صرف نہ کی ہو اس کی فروخت منع ہے روایت میں آتا ہے :
نهَى عَنْ بَيْعِ فَضْلِ الماءِ
سنن أبي داود:كتاب الإجارة، باب نَهَى عَنْ بَيْعِ فَضْلِ الْمَاءِ( یہ روایت صحیح ہے)
ترجمہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد پانی فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :’’تین چیزوںمیں سب لوگ شریک ہیں پانی گھاس اور آگ‘‘[26]
(20)جانوروں کی لڑائی کا پیشہ
محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے براہ راست جانور کے ساتھ بے رحمی اور انہیں قید کرنے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف دینے سے منع فرمايا ہے۔
حدیث میں آتا ہے :
نَهَى رَسُول اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ التَّحْرِيشِ بَيْنَ الْبَهَائِمِ
سنن ابی داود : کتاب الجهاد، باب ما جاء في كراهية التحريش بين البهائم ( یہ روایت حسن ہے) و الترمذي كتاب الجهاد،باب في التحريش بين البهائم
ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو لڑانے سے منع فرمایا ہے ‘‘۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ’’ ایک عورت پر ایک بلی کی وجہ سے عذاب کیا گیا اس نے بلی کو باندھ کر رکھا تھا (اور کھانا پانی نہ دیتی تھی) یہاں تک کہ وہ مر گئی پس اسی وجہ سے وہ عورت دوزخ میں گئی نہ اس نے بلی کو کھلایا اور نہ ہی اس کو پانی دیا
اور نہ اس کو چھوڑا کہ وہ حشرات الارض (یعنی چوہے چڑیاں وغیرہ) کھا لے‘‘۔[27]
(21)پتنگ سازی و پتنگ بازی
چونکہ اسمیں بہت سا وقت، مال اور جانیں ضائع ہوتی ہیں اور اس میں کئی منفی پہلو بھی ہیں اس لئے یہ پیشہ بھی حرام ہے جس طرح کبوتر بازی حرام ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ کبوتر کے پیچھے پیچھے دوڑا چلا جا رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ شیطان شیطانہ کے پیچھے چلا جا رہا ہے‘‘۔[28]
وہ پیشے جو کسی سبب کی وجہ سے حرام ہیں
(1) تعمیراتی کام یا کفار کی عبادت گاہوں کی تعمیر
ایک مسلمان کے لئے کافروں کی عبادت گاہوں کی تعمیریا ان کے ڈیزائن یا مالی یا جسمانی طور پر شراکت جائز نہیں بلکہ حرام ہے ، اسی طرح بینک کی تعمیر یا کسی ایسی جگہ کی تعمیر جہاں اللہ کی توحید کی مخالفت کی جائے جس میں مزارات یا پختہ قبریں وغیرہ یا اللہ کی معصیت کا کوئی بھی کام کیا جائے جواخا نہ وغیرہ تو اس میں کسی بھی قسم کی معاونت اور اور اس کی اجرت حرام ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان اسی حکم پر دلالت کرتا
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۖ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾
المائدۃ: 02
ترجمہ:’’ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو،اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔
(2)مجرمین کو بچانے یا ناجائز کاموں میں وکالت :
وکالت ایک ایسا پیشہ ہے جو فی نفسہ حرام نہیں مگر ناجائز اور جھوٹا مقدمہ یا جھوٹ اور فراڈ کو چھپانے اور غلط کو صحیح ثابت کرنے کی وکالت حرام ہے اور اس کی اجرت بھی حرام ہے یا وضعی (مغربی )قانون کو حق سمجھنا اور شریعت سے بہتر ماننا یا اس پر راضی رہنا بھی حرام ہے ۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے ۔
﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّٰهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا﴾
النساء: 105
ترجمہ:’’ہم نے آپ کی طرف سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ جو کچھ بصیرت اللہ نے آپ کو عطا کی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو ‘‘۔
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۖ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾
المائدۃ: 02
ترجمہ:’’ اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو،اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالٰی سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے : اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے، عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالٰی تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ [المائدہ:8]
اور ارشاد فرمایا’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، نہ ہی ایسے مقدمات اس غرض سے حکام تک لے جاؤ کہ تم دوسروں کے مال کا کچھ حصہ ناحق طور پر ہضم کر جاؤ، حالانکہ حقیقت حال تمہیں معلوم ہوتی ہے‘‘۔ [البقرۃ :188]
(3)بیوٹی پارلر/ہیر ڈریسنگ کا پیشہ
بننااور سنورنا اسلام میں معیوب نہیں مگر جب اس بناؤ سنگھار میں حد سے تجاوز ہوجائے تو یہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بھی بنتا ہے اور فتنوں کو بھی جنم دیتا ہے، آجکل ہمارے معاشرے میں ہر محلے میں بیوٹی پارلر اور ہیر ڈریسنگ کا کاروبار عام ہے جن میں وہ کام انجام دئے جاتے ہیں جو خلاف شرع ہیں جیسے بیوٹی پارلرز میں مرد (میک اپ آرٹسٹ) عورتوں کا بناؤ سنگھار کرتے ہیں یا پھر برعکس ہوتا ہے ،اس کے علاوہ خواتین و
حضرات بھویں (آئی برو) بنواتے ہیں اور چہرے کے بال بھی اکھڑواتے ہیں داڑھی کو منڈواتے ہیں اوراہل مغرب سے مرعوب ہوکر ایسی کٹنگ کرواتے ہیں جس سے داڑھی کا استہزاء ظاہر ہو یا خلاف شرع ہیئر کٹنگ کرواتے ہیں جن میں خواتین تو حد سے تجاوز کرچکی ہیں اور اپنی خلقت میں تبدیلی کااہتمام بھی کرتی ہیں جن کے بارے میں شدید وعید بھی آئی ہیں۔
سیدناعبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے’’ اللہ نے تعالی نے گودنے والی اور گدوانے والی اور اکھڑوانے والی اور دانتوں کو کشادہ کرنے والی اور اللہ تعالی کی بناوٹ میں تبدیلی کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے راوی کہتے ہیں کہ یہ بات بنی اسد کی ایک عورت تک پہنچی جس کو ام یعقوب کہا جاتا ہے اور وہ قرآن مجید پڑھا کرتی تھی تو وہ عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ وہ کیا بات ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مجھ تک پہنچی ہے کہ آپ نے گودنے والی اور گدوانے والی اور پلکوں کے بال اکھیڑنے والی اور بال اکھڑوانے والی پر لعنت فرمائی اور دانتوں کو کشادہ کرنے والی اور اللہ تعالی کی بناوٹ میں تبدیلی کرنے والی عورتوں پر لعنت کیوں فرمائی ہے ‘‘عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے کہ میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں کہ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور یہ بات اللہ کی کتاب میں موجود ہے وہ عورت کہنے لگی کہ میں نے قرآن مجید کے دونوں گتوں کے درمیان جوموجود ہے، سب پڑھ ڈالا ہے میں نے تو کہیں نہیں پایا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے کہ اگر تو قرآن مجید پڑھتی تو اسے ضرور پاتی اللہ عز وجل نے فرمایا:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾
الحشر: 07
ترجمہ: اللہ کے رسول تمہیں جو کچھ دے اسےلے لو اور تمہیں جس سے روک دے اس سے رک جاؤ وہ عورت کہنے لگی کہ ان کاموں میں سے کچھ کام تو آپ کی بیوی بھی کرتی ہے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے کہ جاؤ جا کر دیکھو وہ عورت ان کی بیوی کے پاس گئی تو کچھ بھی نہیں دیکھا پھر واپس عبداللہ کی طرف آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تو ان باتوں میں سے ان میں کچھ بھی نہیں دیکھا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ اگر وہ اس طرح کرتی تو میں اس کے قریب بھی نہ جاتا ‘‘۔[29]
ایک اور حدیث میں ہے : ’’رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی گودنے والی پر اور جس کا (سر) گودا جائے اور بال اکھیڑنے والی پر یعنی پیشانی کے یا منہ کے بال ا کھاڑنے والی پر اور جو دانتوں کو درمیان سے کھولیں خوبصورتی کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی کی پیدا کی ہوئی ہئیت کو تبدیل کرنے والیوں پر‘‘۔[30]
ان احادیث کی رو سے تمام وہ افعال جن پر شارع علیہ السلام نے لعنت فرمائی ہے یا جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کی جائے وہ پیشے حرام ہیں ۔
(4) ڈریس ڈیزائننگ
زیب تن کی زینت محبوب عمل ہے مگر جب اس میں فحاشی کا عنصر شامل ہوجائے یا اس میں کفار کی مشابہت پائی جائے تو یہ بھی معیوب عمل ٹھہرتا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ ان ہی میں سے ہوگا‘‘ جیسا کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے ڈریس ڈیزائنرز جو کہ ملکی و غیر ملکی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرکے ایسے ڈیزائنز تخلیق دیتے ہیں جس میں انسان کی شرم و حیا کا اور اس لباس کی مقصدیت کا جنازہ نکل جاتا ہے اور ایسے لباس کو نیا فیشن اور نیا سٹائل کا نام دے کر مسلمانوں کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو اس انداز سے لعنت کا حق دار ٹھہرایا جاتاہے کہ نہ پہننے والے کو ادراک نہ دیکھنے والے کو احساس۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ’’اے بنی آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا کردے جیسا کہ اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان سے ان کے لباس اتروا دیئے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں انہیں دکھلا دے۔وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا سرپرست بنادیا ہے جو ایمان نہیں لاتے‘‘۔ [الاعراف:27]
ایک اور جگہ فرمایا :’’آپ ان سے پوچھئے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو زینت اور کھانے کی پاکیزہ چیزیں پیدا کی ہیں انہیں کس نے حرام کردیا؟‘‘ آپ کہیے کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ان
لوگوں کے لیے ہیں جو ایمان لائے اور قیامت کے دن تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی۔ ہم اسی طرح اپنی آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں آپ ان سے کہیے کہ ’’میرے پروردگار نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ یہ ہیں:’’بے حیائی کے کام خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں اور گناہ کےکام ‘‘۔[الاعراف32-33]
ان میں وہ تمام اشیاء شامل ہیں جن سے بے حیائی اور فحاشی کو فروغ ملے مثلاً جینز کی پینٹ،اسکرٹس ، شاٹس اور شرٹس اور مختلف قسم کے لباس جن کو پہن کر حیا کو بھی حیا آجائے چنانچہ ایسی تمام فیکٹریاں اور بوتیک، مالز اور فیشن فیسٹیولز(فیشن شو) اور جو ان کی اشتہاری مہم چلاتے ہیں اور ایڈورٹائزنگ کمپنیاں جو اپنے سائن بورڈز سے ان کی تشہیر سےمعاونت کرتے ہیں ان سب کی کمائی حرام ہے جس میں غیر شرعی معاملات ہوں یااللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پائی جائے ۔
(5)کاروباری خدمات
موجودہ دور میں ایسے کاروبار بھی عمل میں آچکے ہیں جو مختلف قسم کی خدمات فراہم کر کے اپنی کمپنیوں کو فعال بنائے ہوئے ہیں جن میں ڈیکوریٹرز،ایکسپو سینٹرز اور پارٹی پلانرز ہوتے ہیں ان کی آمدنی کا بڑا حصہ ایسی تقریبات کی بدولت ہوتا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کر نفسانی خواہشات کہ پورا کیا جا تاہے جن میں میوزیکل کانسرٹ ،فیشن شوز جیسی محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے جن کی حرمت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے تو ان کی آمدنی میں بھی کسی قسم کا اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ اگر وہ جان بوجھ کر ایسی تقریبات کےلئے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں تو انکی آمدنی مطلقا ًحرام ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾
المائدۃ: 02
ترجمہ: ’’اور گناہ ،ظلم اور زیادتی میں مدد نہ کرو‘‘
(6)اپنے کام میں لاپرواہی کرنے والے کی اجرت کا حکم
ملازم کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی ملازمت اچھی طرح اور ایمان داری سے نبھائے اگر وہ جان بوجھ کرلاپرواہی کرتا ہے تو اس کی تنخواہ کا وہ حصہ حرام ہوجاتا ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللّٰهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
الأنفال: 27
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور نہ ہی تم آپس کی امانتوں میں خیانت کرو۔
(7)کال سینٹرز
عصر حاضر ميں جن کال سینٹرز میں جھوٹ اور سود ی کاروبار ہوتے ہیں ان کی اجرت اور کمائی بھی حرام ہے کیونکہ اس میں دھوکہ ،فریب اور جھوٹ ہوتا ہے:
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :’’ اور نہ ہی حق و باطل کی آمیزش کرو اور دیدہ دانستہ سچی بات کو نہ چھپاؤ‘‘۔[البقرۃ:42]
’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، نہ ہی ایسے مقدمات اس غرض سے حکام تک لے جاؤ کہ تم دوسروں کے مال کا کچھ حصہ ناحق طور پر ہضم کر جاؤ، حالانکہ حقیقت حال تمہیں معلوم ہوتی ہے‘‘ [البقرۃ :188]
جب کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہم پر (مسلمانوں پر) ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے دھوکہ دیا وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے۔[13]
(8)اسلام یا مسلمانوں کے خلاف میڈیائی پروپیگنڈہ
جب جنرلزم کا پیشہ اسلام کے قوانین کے خلاف پروپیگنڈہ میں تعاون کرے اور معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنے یا جھوٹ اور فریب اور فحاشی کو فروغ دے اور جب یہ کسی غیر ملکی میڈیا سے رابطے اور تعاون کریں اور ملکی راز افشاں کریں یا ملک میں افرا تفری پھیلائیں یا ہرخبر کو بغیر کسی تحقیق کے آگے پہنچادیں تو یہ افعال حرمت کے زُمرے میں آتے ہیں جس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آمدنی بھی ناجائزہوجاتی ہے۔اللہ کا فرمان ہے
﴿لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلً﴾
الأحزاب: 60
ترجمہ:’’ اگر (اب بھی) یہ منافق اور وہ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور لوگ جو مدینہ میں غلط افواہیں اڑانے والے ہیں باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کی (تباہی) پر مسلط کر دیں گے پھر تو وہ چند دن ہی آپ کے ساتھ اس (شہر) میں رہ سکیں گے‘‘۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ﴾
الحجرات: 06
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔
سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي، قَالاَ: الَّذِي رَأَيْتَهُ يُشَقُّ شِدْقُهُ فَكَذَّابٌ، يَكْذِبُ بِالكَذْبَةِ تُحْمَلُ عَنْهُ حَتَّى تَبْلُغَ الآفَاقَ، فَيُصْنَعُ بِهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ
صحيح بخاري:كتاب الأدب ،باب قول اللہ تعالى “يأيها الذين أمنوا اتقواللہ و كونوا مع الصادقين
ترجمہ:’’میں نے خواب دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ شخص جس کو تم نے معراج کی رات میں دیکھا تھا کہ اس کے جبڑے چیرے جا رہے تھے وہ بہت بڑا جھوٹا تھا اور اس طرح جھوٹ باتیں اڑاتا تھا کہ دنیا کے تمام گوشوں میں وہ پھیل جاتی تھیں قیامت تک اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔‘‘
(9)ذخیرہ اندوزی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : بازار میں سودا لانے والے کو رزق ملتا ہے اور ذخیرہ اندوز ملعون ہے‘‘۔[32]
ایک اور حدیث ہے :’’ذخیرہ اندوزی صرف گناہ گار ہی کرتا ہے‘‘ ۔[33]
(10)حلال چیز حرام کام کے لئے بیچنا:
ایک اصول ’’ سد الذرائع ‘‘ کے تحت حلال اور مباح اشیاء حرام کام کے لئے استعمال نہیں ہوسکتیں اور فقہی قاعدے ’’الوسائل لها حکم المقاصد‘‘ یعنی وسائل کا حکم بھی وہی ہے جو مقاصد کا ہے ۔
حرام کھانے کا انجام :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگوں اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا اللہ نے فرمایا اے رسولو! تم پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو میں تمہارے عملوں کو جاننے والا ہوں اور فرمایا اے ایمان والو ہم نے جو تم کو پاکیزہ رزق دیا اس میں سے کھاؤ پھر ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبے لمبے سفر کرتا ہے پریشان بال جسم گرد آلود اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف دراز کر کے کہتا ہے اے رب اے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام اور اس کا پہننا حرام اور اس کا لباس حرام اور اس کی غذا حرام تو اس کی دعا کیسے قبول ہو؟۔[34]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے’’جو بھی گوشت کاحصہ (جسم) حرام مال پر نشو نما پاتا ہے وہ جہنم کا حق دار ہے‘‘ ۔[35]
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں حرام سے بچنے کی توفیق عطا فر مائے (آمین)
وما توفيقي إلا باللّٰہ وآخر دعونٰا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
وصلی اللّٰہ و سلم علی نبینا محمد و علی آله وصحبه أجمعین
[1] سنن ابن ماجه: كتاب الأشربة،باب لعنت الخمر على عشرة أوجه (صحيح) [2] أبو داود : کتاب الأشربه ،باب ماجاء ما أسکر کثیر فقليله حرام (یہ روایت صحیح ہے( [3] سنن أبی داود :کتاب الأشربة، باب النهي عن المسکر(یہ روایت صحیح ہے( [4] صحيح مسلم: کتاب الأشربه،باب تحريم تخلیل الخمر [5] تحفة الأحوذی :3/30 [6] صحيح بخاری: کتاب البيوع، باب ثمن الکلب [7] ترمذي :کتاب الفتن ،باب ما جاء فی علامة حلول المسخ [8] جامع ترمذي :کتاب الجنائز ،باب ما جاء فی الرخصة فی البکاء [9] شرح السنة 8/23 [10] جامع ترمذي: کتاب البيوع، باب ما جاء فی کراهية المغنيات [11] صحیح بخاری: کتاب البيوع ، باب ثمن الكاهن [12] صحیح بخاری: باب عذاب المصورین يوم القيامة ۔صحیح مسلم :باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه کلب أو صورة [13] صحيح بخاری: کتاب البيوع، باب بيع التصاوير التی ليس فيها الروح [14] صحيح مسلم:کتاب السلام،باب تحريم الكهانة و إتيان الکاهن [15] ابو داود: کتاب الطب، باب فی الکاهن [16] صحیح بخاری: کتاب البيوع ،باب ثمن الكاهن [17] صحيح البخاري:باب أيام الجاهلية [18] صحيح بخاري:بدء الخلق ،باب في النجوم [19] ابو داود: کتاب الطب، باب فی الکاهن [20] بخاری:کتاب الزکاة باب من سأل الناس تکثرا [21] صحيح بخاری: کتاب البيوع، باب ثمن الکلب [22] صحيح بخاری:کتاب البيوع ، باب بيع الميتة و الأصنام [23] صحيح بخاری:کتاب البيوع باب ثمن الکلب [24] صحيح بخاری:کتاب الاجاره، باب اثم من منع أجر الأجير [25] صحيح بخاری:کتاب البيوع:باب عسب الفحل [26] أبو داؤد :كتاب الإجارة ، باب فی المنع الماء( یہ روایت صحیح ہے( [27] صحيح بخاری: کتاب احادیث الانبياء ،باب حديث الغار [28] ابو داؤد :كتاب الأدب، باب اللعب في الحمام( یہ روایت حسن ہے( [29] صحيح مسلم: باب تحريم الواصلۃ و المستوصلۃ [30] صحيح بخاری: کتاب اللباس، باب الموصلة.صحیح مسلم کتاب اللباس و الزينة باب تحريم فعل الواصلة. [31] مسلم کتاب الإيمان،باب من غشنا فليس منا [32] ابن ماجة:كتاب التجارات،باب الحكرة و الجلب(متهم بالوضع( [33] صحيح مسلم:كتاب المساقاة و المزارعة باب تحريم الإحتكار الأقوات [34] صحيح مسلم:كتاب الزكاة،باب قبول الصدقة من الكسب الطيب و تربيتها [35] جامع ترمذی:كتاب الجمعةو باب ما ذكر في فضل الصلوة( قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ)(صحيح لغيره(