جان سے پیارے محبوب
سلام محبت!
آپ کے جانے کے بعد نہ جانے مجھے کیا ہو جاتا ہے ؟پتا نہیں آپ نے مجھے کیا کر دیا ہے کہ ہر وقت آپ ہی کے خیالوں میں کھوئی رہتی ہوں۔ ہر وقت آپ کے متعلق سوچتی رہتی ہوں۔ ہواؤں میں اڑتی رہتی ہوں۔ جب آپ ہمارے گھر سے چلے جاتے ہیں تو آپ کے جلد واپس آنے کا انتظار کرتی ہوں۔ آپ شام سے پہلے یعنی سورج ڈھلنے سے پہلے ہی آ جا یا کریں۔ آپ سے بات ہو سکے یا نہ ہو سکے لیکن آپ کے موجود رہنے اور آس پاس ہونے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ اتنی ملاقاتوں کے بعد بھی آپ کے دو بارہ جلد ملنے کا اشتیاق پہلے سے بڑھ جاتا ہے‘ اور آپ کے ساتھ مستقبل کے متعلق بنائے گئے سہانےمنصو بےپورے ہو نے کی شدت سے منتظر رہتی ہوں‘ کہ جب ہم ایک جان ہو کر ایک علیحدہ گھر میں اپنی جنت بنائیں گے۔ میرے متعلق آپ نے اپنے جن بے قابو ہو نے والے جذبات کے متعلق لکھا ہے‘ میرے جذبات اس سے قدرے زیادہ شدت وا لے ہیں لیکن میں کھلے عام اظہار نہیں کر سکتی‘ اس لئے کہ صنف نازک ہوں اور مرد کی نسبت اپنے جذبات کی شدت پر زیادہ کنٹرول اور ضبط رکھتی ہوں۔فی الحال کھل کر اظہار نہیں کر سکتی۔ اگلی آدھی ملاقات تک کے لئے اللہ حافظ۔
آپ کی جان
M-T
۔۔۔۔الامان و الحفیظ ۔۔۔۔۔اللہ کی پناہ!یہ خط ایک مذہبی بیک گراؤنڈ رکھنے والی لڑ کی کا اپنے محبوب کے نام ہے۔ مجھے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ لڑکی بالکل سادہ طبیعت اور کورے اور شفاف دماغ کی مالکہ تھی لیکن جب سے سکول کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے اکیڈمی گئی ہے اور چند ہندوستانی فلمیں دیکھی ہیں‘ اس کے اندر نہ جا نے کیوں غیر محسوس سی عجیب و غریب تبدیلیاں رونما ہوتی چلی گئیں۔ اس کے لکھے گئے خطوط ومکالمات میں سے یہ ایک نارمل اور مہذب خط ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کورے کاغذ کی طرح صاف شفاف دل و دماغ رکھنے والی لڑکی اس طرح بے باک و بے حیاء ہو جاتی ہے کہ اسے اخلاقیات‘ شرم و حیا ء اور اسلامی اقدار کی پامالی ذرہ بھر نظر نہیں آتی۔ جہاں خوف خدا‘ صحیح اسلامی تربیت اور اچھےہم نشینوں کی عدم دستیابی کے فقدان کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے‘ وہاں بڑے محرکات میں سے مخلوط تعلیمی اداروں کا ماحول‘ پرنٹ میڈیا‘ رسائل و جرائد اور اخبارات کی غلط رہنمائی بھی ہے۔۔۔۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا پوری قوم میں تباہی کا زہر پھیلا رہا ہے۔ خاندان اور والدین نے جس بچی کی تربیت 16سال کی لگا تار کوشش اور محنت سے کی ہو تی ہے، ٹی وی کا ڈرامہ اورفلم اس کے اثرات صرف ایک گھنٹہ میں ختم کر دیتے ہیں۔
اس کا عملی مشاہدہ مجھے فیصل آباد میں ہوا‘ جہاں ایک عالم دین کی بیوہ اپنے بیٹے سے ایک عرصہ تک صرف اس لئےناراض رہی کہ وہ گھر میں ٹیلی ویژن کیوں لایا؟ اس نے گھر میں سب سے گفتگو بند کر دی اور کھا نا کھا نا بھی چھوڑ دیا۔ ایک دن ایک اصلاحی موضوع پر بنا یا گیا ڈرامہ نشر ہونے والا تھا کہ اس کے بیٹے نے زبردستی اسے ٹی وی کے سامنے لا کر بٹھا دیا اور کہا کہ اماں جان ! ایک دفعہ جو ہم دکھانے لگے ہیں یہ دیکھ لو‘ پھر جو آپ فیصلہ کریں گی ہم ویسا ہی کریں گے۔ بوڑھی اماں نے وہ خاندانی کہانی پر مشتمل ڈرامہ دیکھا تو انہیں اچھا لگا، اور پھر کیا ہوا۔۔۔۔ ؟تجسس پیدا ہوا۔۔۔۔ اب کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد حال یہ ہے کہ بچے ٹی وی کے سامنے بیٹھیں یا نہ بیٹھیں اماں جی سب سے پہلے وہاں موجود ہوتی ہیں ۔۔۔۔استغفراللہ۔
بالکل اسی طرح آج کل لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کو ہندوصلیبی تہذیب و ثقافت کے تیز اب میں گھلایا جا رہا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ ایسی غیر شرعی اور غیر اخلاقی عشقیہ داستانوں اور کہانیوں وغیرہ کی حوصلہ شکنی کر نے اور ان کی عبرت ناکی اور انجام بد ظاہر کر نے کی بجائے‘ ایسے لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں‘ لوگ جن سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کی راہ عمل متعین کر تے ہیں۔ جب سے ٹی وی کی نشریات شروع ہوئی ہیں آج تک کوئی بتاسکتا ہے کہ کوئی ایسا ڈرامہ پیش کیا گیا ہو کہ جس میں لو سٹوری نہیں تھی‘ یہاں تک کہ تاریخ پر بنائے گئے ڈراموں میں مجاہدین کے ساتھ بھی یہ چیز منسوب کی گئی۔۔۔۔ یقیناً انہی فلموں ڈراموں سے تربیت پانے والی دوشیزائیں خط لکھتے وقت یہ بات ذہن میں نہیں لاتیں کہ یہ خطوط کل ان کے گلے کا پھندا بھی بن سکتے ہیں۔ وہ ان تصاویر و خطوط کے ذریعہ بلیک میل اور بد نام کی جا سکتی ہیں۔ یہ عشقیہ تحریریں ان کے پاؤں کی زنجیریں بن سکتی ہیں۔ ان کو ایسی سولی پر لٹکا سکتی ہیں کہ جو نہ ان کو مر نے دے اور نہ زندہ رہنے دے۔
ایسی تحریریں اوباش لڑ کے اکثر اپنے دوستوں میں مزے سے پڑھ کر سناتے ہیں کہ دیکھو میں نے پانچواں شکار کر لیا ہے۔ اگر ایسی تحریریں منظر عام پر آ جائیں تو لوگ عبرت پکڑ نے کی بجائے ان کو چٹخارے لے لے کر پڑھتے اور ایسے بیہودہ تبصرے کر تے ہیں کہ متاثرہ خاندان کا دل چاہتاہے زمین پھٹ جائے یا آسمان سروں پر آگرے اور ہم اس میں دب کر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں۔ کچھ لڑکیاں ایسی تحریروں کا عبرتناک انجام جانتی بھی ہو تی ہیں لیکن لکھتے وقت وہ اس شیطانی دھوکے میں رہتی ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا نہ ہو گا۔
اب میں اندرون شہر میں ہونے والے ایک دوسرے واقعہ کا تذکرہ کردوں‘ شاید! آپ سمجھ جائیں ۔۔۔۔چند ماہ قبل کی بات ہے کہ محلے میں جھنڈیاں،قمقمے، شامیانے اور دیگر ڈیکوریشن کا سامان سج چکا ہے۔ گھر کے ایک کمرے میں سمٹی سمٹائی‘ شرماتی ہوئی دلہن شرم سے نظریں جھکائے بیٹھی ہے۔ سہیلیاں ڈھولک بجا رہی ہیں۔ دوسرے دن بارات آنی ہے۔ ہر کوئی مناسب اوربہترین سا تھی ملنے پر مبارکباد دے رہا ہے۔ سب لوگ تیاریوں میں مصروف ہیں کہ اچانک اگلے دن آنے والے دلہا کا والد پریشانی کے عالم میں گھر میں داخل ہو تا ہے۔ سب لوگ یکدم حیران و پریشان اور ششدر و متعجب ہیں کہ بزرگ بے وقت کیوں آ گئے ہیں‘ با رات سے ایک دن پہلے ہی!!۔۔۔۔ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔ سب اس کو تکریم دیتے ہیں‘ عزت دیتے ہیں‘بیٹھک میں بٹھا کر مٹھائی اور چائے پیش کرتے ہیں لیکن وہ نہیں لیتا اورپریشانی و فکر مندی سے کوئی بات کر نے کے لئے قوت جمع کر رہا ہے۔۔۔۔ لیکن مُٹھّیاں بھینچتے ہوئے۔۔۔۔۔ ہونٹ کاٹتے ہوئے۔۔۔۔ پہلو بدلتے ہوئے ۔۔۔۔وہ یکدم بولتا ہے کہ۔۔۔۔ باقی لوگ کمرہ سے باہر چلے جائیں‘ میں لڑکی کی والدہ اور ماموں سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ سب کے جانے کے بعد وہ غصے سے چیختا ہے کہ ہمیں یہ رشتہ منظور نہیں ۔۔۔ہم کل بارات لے کر نہیں آئیں گے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ہماری طرف سے صاف جواب ہے‘ ہم شادی نہیں کر یں گے۔۔۔ اپنی بیٹی کے لیے وہی لڑکا ڈھونڈ یں جس کے ساتھ اس کا معاشقہ تھا ۔۔۔۔بچی کی ماں یہ الفاظ سن کر چکرائی ،گرتے گرتے سنبھلی اور ہاتھ جوڑ کر التجا کرنے لگی کہ ہمارا قصور کیا ہے جو آپ ہمیں رسوا کرنے پہ تلے ہوئے ہیں ؟ ۔۔۔۔لڑ کے کاوالد کہنے لگا: رسوا ہم نہیں بلکہ ہم دونوں خاندانوں کو تمہاری لڑکی کر رہی ہے‘ یہ لو دیکھ لو اپنی آنکھوں سے۔۔۔۔ یہ کہتے ہی اس نے چند خطوط ان کے سامنے پھینک دیے۔۔۔ اٹھا کر پڑھا گیا تو یہ ان کی لاڈلی کے اپنے محبوب کے نام محبت بھرے‘ ملاقاتوں کے تذکروں سے بھرے اور اکٹھے جینے مر نے کےپر وگر اموں پرمشتمل خطوط تھے۔۔۔۔
والدہ نے اپنا دوپٹا اتار کر پاؤں میں رکھتے ہوئے آنسوؤں بھری التجا آمیز نگاہوں سے تکتے ہوئے کہا:بھائی جان ! ہم آپ سے معافی مانگتے ہیں‘ اسے معاف کر دیں‘ اس سے بھول ہو گئی‘ اپنے گھر جائے گی تو آپ کو کسی بھی قسم کی شکایت کا موقعہ نہ ملے گا۔۔۔۔ لڑ کے کا والد غصے اور نفرت سے اٹھا اور یہ کہتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گیاکہ اسے اپنے پاس رکھیں یا اس کے عاشق کے حوالے کر دیں‘ ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ ہم چچوڑی ہوئی ہڈی کو اپنے دستر خوان تک پہنچنے نہیں دیتے‘ اگر انجانے میں پہنچ جائے تو اسے باہر پھینک دیتے ہیں۔
لڑکی کا ماموں سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے ۔۔۔۔ماں چکرا کر گر تی ہے۔۔۔۔ اس کا سر پھٹ جا تا سے اور خون بہنے لگتا ہے ۔۔۔۔والد کو باہر سے اصل معاملہ کی اطلاع ملتی ہے ۔۔۔۔۔وہ بھاگم بھاگ لڑکے کے والد کو روکتا ہے اور اپنی پگڑی اس کے پاؤں میں رکھ کر التجا کرتا ہے کہ ہماری عزت و آبرو کا پاس رکھیں۔۔۔۔ لیکن کامیاب نہیں ہو تا ۔۔۔۔ڈھولک پیٹنےوالی سہیلیاں بھی اٹھ کر ایک ایک کر کے نکل جاتی ہیں ۔۔۔اور یوں سارے محلے میں خبر پھیل جاتی ہے۔۔۔۔اب سارا گھر قبرستان کی تصویر بنا ہے ۔۔۔۔ہر کوئی رو رہا ہے۔۔۔۔ کوئی گھر سے باہر ‘ نہیں نکل رہا کہ کسی کو کیا جواب دیں گے؟ ۔۔۔۔تھوڑی دیربعدوالد کو دل کا دورہ پڑنے کی خبر آ تی ہے ۔۔۔ آج بھی وہ لڑکی ٹی بی کے مریض کی طرح ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی کسی جیون ساتھی کا انتظار کر رہی ہے لیکن کوئی اس کا ہاتھ تھامنے والا نہیں۔ اب سنا ہے کہ اس کے گھر والوں نے مکان بیچ کر نقل مکانی کر کے کسی نا معلوم جگہ جاڈیرا لگا یا ہے اور ایسے ہی زندگی کی سانسیں پوری ہو رہی ہیں۔
یوں ایک تو لڑکی والوں کا خاندان برباد ہو جاتا ہے بلکہ اس کے اس عمل سے اس کی باقی بہنوں اور بھائیوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کوئی ان کا رشتہ لینے نہیں آتا کہ شاید یہ بھی ایسی ہی ہوں۔ کئی سمجھدار والدین اپنی بیٹی کو یہ باور کروانے کے بعد کہ یہ بیج تم نے بو یا ہے اب اس کی فصل بھی تم ہی کاٹو‘ بدنامی سے بچنے کے لیے اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال کر اس کی پسند کی جگہ اس کا رشتہ کر دیتے ہیں۔
یاد رکھیں!۔۔۔ شریعت سے بغاوت کر کے، قرآن کے حکم کی مخالفت کر کے۔۔۔ ایسی لڑکیاں کبھی سکھ کا سانس نہیں لے سکتیں۔اگر خو ش قسمتی سے ان کا گھر بس بھی جائے‘ آنگن میں خوشیاں بسیر ا کر بھی لیں تو ان کا پرانا محبوب ہمیشہ یہ سوچ کر اس کے پیچھے لگا رہتا ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتی تھی لیکن ظالم سماج نے اس کو مجبور کر کے اور جگہ شادی کر کے مجھ سے جدا کر دیا۔ وہ لڑکی کے والدین اور سسرالیوں کے خلاف ایسے جذبات کا شیطانی اظہار کر تے انتقاماً گنگناتے پھر تے ہیں:
زندہ رہیں گے پیار کے دشمن چاہے جہاں بھی جاؤ
اپنی بولی یہ نہ سمجھیں کیسے انہیں سمجھاؤ
جو کرنا ہے جلدی کر و اے ظلم کے پہرے دارو!
اپنے زہریلے تیروں کو میرے سینے میں مارو
وہ کسی نہ کسی طرح اس سے ملنے اور اس کو اپنا نے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔۔۔۔ جو آخر تباہی کا باعث بن جاتا ہے اور اس کاہنستابستاگھرانہ جہنم زار بن جاتا ہے۔۔۔ اس صورت حال کے بعد وہ مر نے کی خواہش اور تمنا کرتی ہے تو اس کو موت نہیں آتی ۔۔۔۔جینے کی کوشش کر تی ہے تو دنیا اسے جینے نہیں دیتی۔۔۔۔ اپنے غموں، دکھوں اور تکلیفوں کو بانٹنے کے لیے کسی کے پاس جا تی ہے تو وہ اس سے دور بھاگتا ہے۔۔۔۔ نفرت کرتا ہے۔۔۔ تھوکتا ہے۔۔۔۔ ملتا ہے تو بھی حقارت سے پیش آتا ہے۔۔۔۔ لوگ اپنی خواتین، بچوں اور خاص طور پر اپنی بچیوں کو اس کے سائے سے بھی دور رکھتے ہیں۔۔۔ اگر اس کی اولاد ہو تو وہ بڑی ہو کر نہ صرف اس کی باغی ہو تی ہے بلکہ اس سے نفرت کرتی ہے اور بعض اوقات تو اس کو طعنوںکے تیرمارتی ہے جس سے تنگ آ کر یہ بوڑھی عورت زبان حال سے پکار اٹھتی ہے:
ایسے جینے سے بہتر تھا مر جاتی میں
ایسا جینا تو مجھ کو گوارا نہیں
اور پھر اسی کشمکش میں زندگی گزر جا تی ہے۔۔۔۔ سکون کی متلاشی۔۔۔۔ دکھوں کی ماری۔۔۔ زمانے بھر کی ستائی۔۔۔ یہ جان۔۔۔۔ لحد میں سو جا تی ہے۔ دنیا کہتی ہے کہ اب مر نے کے بعد اس کو سکون نصیب ہوا ہے ۔۔۔۔ورنہ دنیا والوں نے تو بڑھاپے تک اس کا جینا محال کیے رکھا۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ کسے معلوم کہ اب بھی وہ سکون میں ہے یا کہ اپنے کیے کی۔۔۔۔ اللہ کے فرا مین سے بغاوت کی ۔۔۔۔سزا بھگت رہی ہے۔۔۔ سکون کب ملے گا اسے !!؟۔۔۔۔کب ملے گا؟۔۔۔۔۔ شا ید۔۔۔ روز قیامت۔۔۔۔ یا شاید کبھی نہیں !!۔۔۔۔