وطنِ عزیز پاکستان میں 14 جون 2022 سے شروع ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں سیلاب سے تباہی آئی ہے ، ایک ہزار سے زائد لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر بچے ہیں۔ تقریبا 8 لاکھ مویشی بھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس سیلاب سے 3 کروڑ سے زائد افراد اپنے گھر، مال، مویشی اور روزگار سے محروم ہو چکے ہیں اور درد و غم کی تصویر بنے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ لاکھوں خاندان خوراک، خیمے، لباس، پینے کےصاف پانی اور دیگر بنیادی سہولتوں اور ادویات اور مدد کے منتظر ہیں۔ یہ خدمتِ خلق کا بہترین موقع ہے ۔ اگرآپ رب کو اپنی طرف مائل بہ کرم دیکھنا چاہتے ہیں تو آج اُس کی مخلوق سے محبت اورشقفت سے پیش آئیں۔ یہى انسانیت ہے۔ اللہ کی مخلوق ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کو آج ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ سیلاب زدگان بہت مشکل میں ہیں.. انہیں ہم سب کی انفرادی واجتماعی مدد کی ضرورت ہے۔ اللہ نے ان بھائیوں پر مصیبت ، پریشانی اور مشکل نازل کی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ہم سے بُرے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہمیں آزمانا چاہتا ہے کہ اس پریشانی کے وقت کون آگے بڑھتا ہے اور دکھی انسانیت کی خدمت کرتا ہے۔ یہ صرف حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ معاشرے میں بسنے والے ہر صاحبِ استطاعت و متمول افراد کے علاوہ نجی اداروں اور این جی اوز کو بھی چاہئیے کہ ناگہانی آفت کے موقع پر خلقِ خدا کی حتی الامکان مدد کرے۔ دکھی انسانیت کی خدمت معاشرے کے حقوق میں سے ہے۔ آئیے دکھی انسانیت کی خدمت کریں ۔ سندھ ، بلوچستان کے سیلاب زدگان آپ کی توجہ کے منتظر ہیں ۔
دکھی انسانیت کی خدمت معاشرے کے بنیادی حقوق
نبی کریم ﷺ نے معاشرے میں رہنے والوں کے دو قسم کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔ ایک شخصی حقوق اور دوسرا اجتماعی حقوق۔ شخصی حقوق کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کے دوسرے شخص پر کیا حقوق ہیں، یعنی ماں کا اپنی اولاد پر اور اولاد کا ماں پر کیا حق ہے؟ ۔ اسی طرح شوہر کے بیوی پر اور بیوی کے شوہر پر ، بھائی کے بہن پر اور بہن کے بھائی پر، اُستاد کے شاگرد پر اور شاگرد کے استاد پر کیا کیا حقوق ہیں؟۔
اجتماعی حقوق کا مطب یہ ہے کہ ایک معاشرے کے انسانوں پر کیا حقوق ہیں؟۔ معاشرہ اجتماعی طور پر جو انسان سے تقاضا کرتا ہے اس تقاضے کو پورا کرنا خدمتِ خلق ، سماجی خدمت یا سوشل ورک کہتے ہیں۔
اسلام ایک ایسا دینِ فطرت ہے جس میں بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت کے بعد اگر کسی چیز کی سب سے زیادہ اور بہت تاکید کے ساتھ تعلیم دی گئی ہے تووہ حقوق العباد ہے۔ اس نے خدمتِ خلق اور فلاح و بہبود کے کاموں کی نہ صرف تلقین کی ہے بلکہ اس کو عبادت کا درجہ دے دیا اور معاشرے میں موجود محتاج، نادار، تنگدست، یتیم و اسیر، مسافراور مفلوک الحال افراد کی دلجوئی اور داد رسی کو ایک مسلمان کی روحانی بلندی کا ذریعہ قرار دیا اور یہ تو ایک واضح اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے اپنے حلقہ بگوشوں کی باطنی کوتاہیوں کے ازالہ کے لئے معاشرے میں موجود ناداروں ، محتاجوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کو کفارہ کی حیثیت سے پیش کیا۔
متاثرینِ سیلاب کے لیے ضرورت کی بنیادی چیزیں
پینے کا صاف پانی
اسلام نے بہت سے اعمال کو انسان کے لئے سعادت و نجات ، بخشش و معافی کا ذریعہ بنایا ہے۔ چنانچہ ان ہی میں سے ایک ’’پانی پلانا‘‘ بھی ہے ۔اس وقت سیلاب زدگان کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ سیلاب زدگان کو پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہوتی اس لیے وہ گندا اور سیلابی پانی پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور مختلف نوعیت کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور گندے پانی کے استعمال سے اکثر ہیضے کی وبا پھوٹ پڑتی ہے۔ کسی پیاسے انسان کو پانی پلانا کتنا عظیم اجر کا باعث ہے ذرا نبی کریم ﷺ كے فرامین ملاحظہ کیجیئے:
پانی پلانا بہترین صدقہ جاریہ
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا:
فأيُّ الصدقةِ أفضلُ ؟ قال : سقْيُ الماءِ
(صحيح النسائي: 3666 )
کہ کونسا صدقہ افضل ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانی پلانا سب سے افضل صدقہ ہے ۔
ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لیس صدقة أعظم أجراً من ماء۔
صحیح الترغیب : (960)
یعنی پانی پلانے سے بڑھ کر ثواب والا کوئی صدقہ نہیں ہے ۔
پانی پلانے سے بیماری کا علاج
پانی پلانا ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان کی روحانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ جسمانی بیماریوں کا بھی علاج ہو جاتا ہے۔ چنانچہ علی بن حسن بن شفیق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے اپنے گھٹنے کے متعلق سوال کیا جو سات سال سے زخمی تھا اور جس سے خون رس رہا تھا۔ اس شخص نے کہا: میں نے کافی اطباء و معالجین سے رجوع کیا لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ امام مبارک رحمہ اللہ نے کہا:
اذْهَبْ فَانْظُرْ مَوْضِعًا يَحْتَاجُ النَّاسُ إِلَى الْمَاءِ فاحْفُرْ هُنَاكَ بِئْرًا، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ تَنْبُعَ هُنَاكَ عَيْنٌ، وَيُمْسِكُ عَنْكَ الدَّمُ۔ فَفَعَلَ الرَّجُلُ فَبَرِئَ۔
کسی ایسی جگہ پر کنواں کھدوا کر دیدے جہاں لوگوں کو پانی کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ اُدھر پانی کا چثمہ پھوٹ نکلے گا ادھر تیرا خون رک جائے گا۔ پس اس شخص نے امام صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایسا ہی کیا تو وہ شفایاب ہوگیا ۔
پانی پلانا باعث مغفرت ہے
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
غُفِرَ لِامْرَأَةٍ مُومِسَةٍ مَرَّتْ بِكَلْبٍ عَلَى رَأْسِ رَكِيٍّ يَلْهَثُ، قَالَ: كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ فَنَزَعَتْ خُفَّهَا فَأَوْثَقَتْهُ بِخِمَارِهَا فَنَزَعَتْ لَهُ مِنَ الْمَاءِ فَغُفِرَ لَهَا بِذَلِكَ
صحیح البخاری – 3321
ایک فاحشہ عورت صرف اس وجہ سے بخشی گئی کہ وہ ایک کتے کے قریب سے گزر رہی تھی جو ایک کنویں کے قریب کھڑا پیاسا ہانپ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ابھی مر جائے گا۔ اس عورت نے اپنا موزہ نکالا اور اس میں اپنا دوپٹہ باندھ کر پانی نکالا اور اس کتے کو پلا دیا تو اس نیکی کی وجہ سے اس کی بخشش ہو گئی۔
امام قرطبی رحمہ اللہ بعض تابعین کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :
وقد قال بعض التابعين : من كثرت ذنوبه فعليه بسقي الماء ، وقد غفر الله ذنوب الذي سقى الكلب ، فكيف بمن سقى رجلاً مؤمناً موحداً وأحياه1
جس کے گناہ زیادہ ہوں وہ لوگوں کو پانی پلائے ۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو معاف کر دیا جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تھا ! تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو کیوں نہیں معاف فرمائے گا جو ایک موحد مؤمن کو پانی پلا کر اسے زندگی عطا کرے گا ۔
پانی نہ پلانے كے گناه
قرآن و حدیث میں جہاں پانی پلانے کے بہت سارے اجر و ثواب بیان ہوئے ہیں وہیں پانی نہ پلانے والوں کیلئے وعید بھی بیان ہوئی ہے۔ درج ذیل احادیث ملاحظہ کیجئے ۔
نظرِ رحمت سے محرومی
استطاعت كے باوجود پانی نہ پلانے والے قیامت كے دن الله تعالیٰ كی نظر رحمت سے محروم رہیں گے۔ فرمانِ نبوی ہے :
ثَلَاثَةٌ لا يَنْظُرُ اللهُ إِلَيْهِمْ يَومَ القِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ كانَ له فَضْلُ مَاءٍ بالطَّرِيقِ، فَمَنَعَهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ
(صحیح البخاری : 2358)
تین قسم كے لوگ ایسے ہیں جن سے الله تعالیٰ قیامت كے دن بات نہیں كرے گا اور نہ ان كی طرف نظرِ رحمت سے دیكهے گا اور نہ انہیں پاك كرے گا بلكہ انہیں درد ناك عذاب ہوگا ان میں پہلا شخص وه ہوگا جو سفر میں ضرورت سے زیاده پانی لے جا رہا ہے اور كسی ضرورت مند مسافر كو نہ دے۔
الله كے فضل و كرم سے محرومی
ایک حدیثِ قدسی میں آتا ہے كہ الله تعالی اس شخص سے فرمائے گا :
اليومَ أَمْنَعُكَ فَضْلِي كما مَنَعْتَ فَضْلَ ما لَمْ تَعْمَلْ يَدَاكَ.
صحیح البخاری – 2369
جس طرح تو نے اس زائد چیز سے دوسرے كو روكا حالانكہ تیرے ہاتھوں نے اسے بنایا بھی نہیں تھا آج میں بھی تجھے اپنا فضل نہیں دوں گا ۔
طبی امداد دیجئے
سیلاب زدگان میں اس وقت سینكڑوں بچے ، حاملہ خواتین ، جوان اور بوڑهے مختلف بیماریوں كا شكار ہیں۔ انكی تیمار داری ہم سب كا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے ۔
کیونکہ متاثرین وبائی بیماریوں کا شکار ہوگئے۔ پانی کی کثرت کی وجہ سے مچھر کی بھرمار ہے اس کے علاوہ سانس کی بیماریوں، خارش اور جلدی امراض، بخار اور ڈائریا پھیل رہا ہے ۔ ایک انسان کی جان بچانا گویا تمام انسانوں کی جان بچانے کے برابر ہے۔
ڈاکٹرز حضرات کے لیے خوشخبری
جتنے بھی ڈاکٹر حضرات اور امدادی ٹیمیں اس وقت سیلاب زدگان کی طبی امداد میں مصروف ہیں اور لوگوں کی بیماریوں کا علاج کر رہے ہیں ان کیلئے نبی کریم ﷺ نے ایک عظیم بشارت دی ہے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن نَفَّسَ عن مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِن كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللهُ عنْه كُرْبَةً مِن كُرَبِ يَومِ القِيَامَةِ، وَمَن يَسَّرَ علَى مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اللهُ عليه في الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَاللهُ في عَوْنِ العَبْدِ ما كانَ العَبْدُ في عَوْنِ أَخِيهِ
صحیح مسلم – 2699
جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔
اگر ڈاكٹرز اس عظیم سانحہ كے موقع پر اس نیت كے ساتھ طبی خدمات پیش كرنا كہ اس كے ذریعے لوگوں كی بے چینی اور تكلیف دور ہو، لوگوں كو آرام وراحت پہنچے تو ان كی یہ خدمت عین عبادت بن جائے گی ۔ان شاء اللہ۔
دینِ اسلام وقت کی نزاکتوں اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے اور موجودہ حالات میں سیلاب زدگان میں مریضوں كیلئے میڈیكل كیمپس لگانا ، دوائیوں كا انتطام كرنا ، علاج و معالجے كا اہتمام كرنا وقت کی بڑی اور اہم نیکی ہے جس پر ہر شخص اپنے اعتبار سے عمل کرے اس لئے کہ اس کا کوئی بدل نہیں اور اس کے بے شمار فضائل و فوائد ہیں۔
بھوکوں کو کھانا کھلایئے
اسلام نے اللہ اور رسول کی اتباع کے ساتھ بندوں کی خدمت، ان کے ساتھ ہمدردی و غم خواری اور ان کی نصرت و اعانت کی بڑی تاکید فرمائی ہے چنانچہ حضرت ابو موسیؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَطْعِمُوا الجَائِعَ، وعُودُوا المَرِيضَ، وفُكُّوا العَانِيَ.
صحیح البخاری – 5649
”بھوکے کو کھانا کھلاؤ ،بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کی رہائی کا بندوبست کرو۔”
اس حدیث میں بیمار کی عیادت اور بھوکے کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ صاحبِ ثروت لوگوں کے مال میں محتاجوں ، مجبوروں، ناداروں اور بے کسوں کا حصہ رکھ دیا گیا ہے اور یہ حصہ ان تک پہنچانے کا اہتمام ضروری ہے۔
کھانا کھلانا دخولِ جنت کا سبب
نبی کریم ﷺ نے محتاجوں ، بھوکوں کو کھانا کھلانے کی بڑی فضیلت بیان کی ہے چنانچہ آپ کا ارشاد ہے:
اعبُدوا الرَّحمنَ ، وأطعِموا الطَّعامَ ، وأفشوا السَّلامَ تدخُلوا الجنَّةَ بسَلامٍ
صحیح الترمذی – 1855
رحمن کی عبادت کرو، کھانا کھلاؤ ۔ اور سلام کو عام کرو ،جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے۔
ایک حدیث میں بڑے عجیب انداز میں بھوکے ، پیاسے اور بیمارکا ذکر آیا ہے۔
اُم مسلم حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا،اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تھا تو تُونے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا: میرے اللہ! تُو تو رب العالمین ہے میں کیسے تیری عیادت کرتا؟ اللہ فرمائے گا: میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تُو اس کی مزاج پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا۔
اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھے کھانے کو دیا تھا لیکن میں بھو کا تھا تُو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا ۔بندہ کہے گا: پرور دگار! تُو تو رب العالمین ہے میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا ؟ اللہ فرمائے گا: میرا فلاں بندہ بھوکا تھا تُو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تُو اسے کھا نا کھلاتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا۔
اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھے پانی دیا لیکن میں پیاسا تھا تُو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ کہے گا: تُو رب العالمین ہے میں کیسے تجھے پانی پلاتا ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرا فلاں بندہ پیاسا تھا۔ اگر تُواسے پانی پلا تا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔2(صحيح مسلم: 2569)
کتنے ہی حسین پیرائے میں خدمتِ خلق کے کام کی عظمت کا احساس دلایا گیا ہے تاکہ ہم بھی نیکی کے ان کا موں کی طرف راغب ہوں ۔
خدمتِ خلق اللہ تعالیٰ کا سب سے پسندیدہ عمل
اللہ تعالیٰ کو کس قدر ضرورت مندوں، محتاجوں، بیماروں، فقراء اور مساکین سے محبت ہے۔ دیکھئے جتنی عبادات اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہیں بالخصوص روزہ ، حج و عمرہ اور شرعی قسم توڑنے کا کفارہ وغیرہ ۔ ان عبادات میں کسی کمی یا کوتاہی کا ازالہ اس جیسی کسی عبادت کے بجائے فقراء اور مساکین کی خدمت سے کیا جاتا ہے۔
بوڑھا شخص یا کوئی بیمار روزہ نہیں رکھ سکتا تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ایک روزے کے بدلے میں کچھ نفل پڑھتا یا قرآن کی تلاوت کرتا جو خالص اللہ ہی کی عبادت ہے۔ اس کے کرنے کا حکم دیا جاتا لیکن ایسا نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ نہیں رکھ سکتے ہو تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلاؤ۔
اسی طرح جماع کے ذریعے روزے جیسی عظیم عبادت کو نقصان پہنچایا تو اس کا ازالہ کسی غلام کی گردن چھڑا کر کرو یا 60 مساکین کو کھانا کھلاؤ۔ بغیر احرام کے میقات سے گزرنے والے کو ایک اضافی طواف کا حکم بھی دیا جا سکتا تھا لیکن نہیں ! فرمایا: حدود اللہ کی خلاف ورزی کی ہے اب اس کے عوض مکے کے فقراء اور مساکین کو بکرے یا دنبے کا گوشت کھلائو ۔ قسم کا کفارہ 10 مساکین کو کپڑے پہنانا یا کھانا کھلانا یا ایک غلام آزاد کرانا۔
مخلوق کی خدمت کرنے والا سب سے افضل انسان
مذہبِ اسلام میں سب سے زیادہ افضل انسان اسے کہا گیا ہے جو اپنی دین داری کے ساتھ لوگوں کے لیے زیادہ مفید اور کار آمد بھی ہو۔ غور کیجئے نماز کی کتنی اہمیت ہے۔ اس کو دین کا ستون بتایا گیا، حضور ﷺ نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ حج کے بارے میں کہا کہا گیا ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جیسے اسلام پچھلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے اسی طرح حج مبرور بھی پچھلے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے لیکن بہتر انسان کا مصداق کون شخص ہے؟ اس کے بارے میں آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو سب سے زیادہ نماز پڑھنے والا ہو، جو زیادہ روزہ رکھنے والا ہو، جو زیادہ حج اور قربانی کرنے والا ہو ۔ بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَحَبُّ الناسِ إلى اللهِ أنفعُهم للناسِ ، وأَحَبُّ الأعمالِ إلى اللهِ عزَّ وجلَّ سرورٌ تُدخِلُه على مسلمٍ ، تَكشِفُ عنه كُربةً ، أو تقضِي عنه دَيْنًا ، أو تَطرُدُ عنه جوعًا ، ولأَنْ أمشيَ مع أخٍ في حاجةٍ ؛ أَحَبُّ إليَّ من أن اعتكِفَ في هذا المسجدِ يعني مسجدَ المدينةِ شهرًا ، ومن كظم غيظَه ولو شاء أن يُمضِيَه أمضاه ؛ ملأ اللهُ قلبَه يومَ القيامةِ رِضًا ، ومن مشى مع أخيه في حاجةٍ حتى يَقضِيَها له ؛ ثبَّتَ اللهُ قدمَيه يومَ تزولُ الأقدامُ
(صحيح الترغيب : 2623)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اللہ کے ہاں وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع دینے والا ہے ۔ اور اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دے یا اس سے مصیبت دور کرے یا اس کا قرض ادا کرے یا اس کی بھوک ختم کرے اور اگر میں کسی بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے چلوں تو یہ مجھے اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں ایک ماہ اعتکاف میں بیٹھنے سے زیادہ محبوب ہے۔ جس شخص نے اپنا غصہ روکا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ ڈال دے گا، جو شخص اپنے غصے کے مطابق عمل کرنے کی طاقت کے باوجود اپنے غصے کو پی گیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو امید سے بھر دے گا۔ اور جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری ہونے تک اس کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن ثابت قدم رکھیں گے جس دن قدم ڈگمگا رہے ہوں گے ۔
گویا انسانی اور سماجی خدمت کرنے کو اسلام نے بہت فوقیت اور ترجیح دی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس کا نفع متعدی ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے اسی لیے اس امت کو خیرِ امت قرار دیا ہے اور اس کا سبب یہی بتایا ہے کہ یہ امت صرف اپنے نفع کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے نفع کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ انہیں اچھے کاموں کی طرف بلائے اور برے کاموں سے بچائے۔3
نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی خدمتِ خلق کا بہترین نمونہ تھی۔ آپ ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ گھبرائے ہوئے گھر واپس تشریف لائے تو غمگسار و غمخوار شریکِ حیات ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے یہ کیفیت سن کرعرض کیا کہ اللہ تعالٰی ہرگز آپ کو ضائع نہیں کریں گے اور اس موقع پر انہوں نے آپ ﷺ کی پانچ خصوصی صفات کا تذکرہ کیا۔
كَلَّا وَاللهِ مَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ
صحیح البخاری – 3
اللہ کی قسم آپ کو اللہ ہرگزرسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو اخلاقِ فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امرِ حق کا ساتھ دیتے ہیں۔
غور کیجئے کہ یہ پانچوں اوصاف اور خوبیاں جن کا اوپر تذکرہ ہوا خدمتِ خلق اور سماجی خدمت کے مختلف گوشوں اور پہلوؤں کو شامل ہیں۔ اس میں حسنِ سلوک بھی ہے، بدنی اور مالی خدمت اور تعاون و مدد اور اعانت بھی ہے۔ اگر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے اس ارشاد کی روشنی میں اسلام اور سیرتِ رسول ﷺ کا مطالعہ کیا جائے تو پوری حیاتِ نبوی ﷺ اس کا نمونہ نظر آتی ہے اور خدمتِ خلق اور سماجی خدمت مسلمانوں کا قومی و ملی اور اخلاقی فریضہ معلوم ہوتا ہے۔
صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمہ اللہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے بیان کردہ ان صفات کے بابت لکھتے ہیں :
وفي هذا دلالة على أنَّ مكارم الأخلاق وخصال الخير سببُ السلامة من مصارع السوء4
یعنی ان بیان کردہ صفات میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اچھے اخلاق اور اچھے اوصاف برائی سے محفوظ رہنے کا سبب ہیں۔
حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کا واقعہ
اسی طرح بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب ایک موقع پر جناب نبی کریم ﷺ سے اجازت لے کر مکہ مکرمہ سے ہجرت کا فیصلہ کرلیا اور اپنا سامان اٹھا کر مکہ مکرمہ سے نکلے تو راستہ میں بنو قارہ قبیلہ کا کافر سردار ابن الدغنہ ملا۔ وہ یہ معلوم کر کے پریشان ہو گیا کہ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ چھوڑ کر ہجرت کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ ابن الدغنہ نے اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وہی الفاظ کہے جو ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے غارِ حرا سے واپسی پر جناب نبی اکرم ﷺ سے کہے تھے۔ اس کافر سردار نے کہا کہ آپ لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں اور بے سہارا لوگوں کا سہارا ہیں۔ آپ جیسے لوگوں سے معازشرے کا محروم ہو جانا بہت بڑی محرومی ہے اس لیے میں آپ کو مکہ نہیں چھوڑنے دوں گا۔ چنانچہ وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ مکہ مکرمہ واپس لایا اور اعلان کیا کہ آج سے ابو بکر میری امان میں ہیں اس لیے کوئی شخص ان سے تعرض نہ کرے۔
دکھی انسانیت پر رحم کیجئے
قرآنِ کریم میں اللہ تعالی نے محتاجوں ، معذوروں ، یتیموں اور دنیاوی وسائل سے محروم انسانوں کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ یہ حسنِ سلوک اور خدمت پوری نوعِ انسانی کی ہو، اپنوں کے ساتھ غیروں کی بھی ہو، ہم عقیده و ہم مذہب لوگوں کی بھی اور ہم سے اختلاف رکھنے والوں کی بھی خدمت ہو۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لا يَرْحَمُ اللهُ مَن لا يَرْحَمُ النَّاسَ
صحیح البخاری – 7376
اللہ تعالی اس شخص پر رحم نہیں فرماتے جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا ۔
مذکورہ حدیث اور اس جیسی تمام احادیث مبارکہ میں کوئی فرق و امتیاز کیے بغیر پوری مخلوق اور نسلِ انسانی کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی مدد، ہمدردی اور خدمت بلا امتیاز کی جائے ۔
اس حدیث کو نقل کرکے علامہ ابنِ حزم نے المُحَلّیٰ میں لکھا ہے کہ:
ومن کان علی فضلة ورأی المسلم أخاہ جائعا عریان ضائعا فلم یغثه فما رحمه بلا شك5
جس شخص کے پاس زائد از ضرورت چیز ہو اور وہ اپنے مسلمان بھائی کو بھوکا ننگا دیکھے مگر اُسے کچھ نہ دے تو اس نے بلا شبہ اس پرکوئی رحم نہیں کیا۔
ایمان کا معیار
ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :
والذي نفْسِي بِيدِهِ ، لا يُؤمِنُ عبدٌ حتى يُحِبَّ لِجارِهِ ما يُحِبُّ لِنفسِهِ
صحیح البخاری – 14 / صحیح مسلم – 45
”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کوئی شخص ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔”
گویا ایمان کا معیار یہ قرار پایا کہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند کرنا جو آدمی اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ جو مکان، لباس اور غذا ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں اُسی طرح کا مکان، لباس اور غذا ہمیں دوسروں کے لئے بھی پسند کرنا چاہئے اور اگر وہ مفلوک الحال ہیں تو یہ چیزیں ان کو مہیا کی جانی چاہیے۔
متاثرینِ سیلاب کی حالتِ زار
سیلاب میں اب تک سترہ لاکھ سے زائد گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں تباہ حال گھروں کی دوبارہ تعمیر اور آباد کاری بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسی طرح سوا تین کروڑ سے زائد متاثرین کو معمول کی زندگی کی طرف واپس لانا بھی بہت بڑا امتحان ہے۔ ساڑھے سات لاکھ جانوروں کے ہلاک ہونے سے نا صرف روزگار کا ذریعہ محدود ہوا ہے بلکہ اس سے کئی اور مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے کئی بیماریوں کے پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سب کچھ معطل ہے۔ ان مشکل حالات میں ہر شہری کو اپنا فرض نبھانا ہے۔ ہم متحد ہو کر کام کریں گے تو یہ مشکل وقت بھی گزر ہی جائے گا۔
وقت کا تقاضا
آج موجودہ حالات میں اس بات کی بہت سخت ضرورت ہے کہ وہ تمام افراد، مکاتب فکر، جماعتیں اور تنظیمیں جو کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی حوالے سے دعوتی، رفاہی ، تبلیغی اور تعلیمی خدمات انجام دے رہی ہیں وہ لوگ خدمتِ خلق اور رفاہی میدانِ عمل میں رسولِ کریم ﷺ کی سنتِ مبارکہ اور صحابہ کرام کے طریقوں پر عمل پیرا ہو کر مشکل حالات کا شکار اور پریشانی و مصیبت میں گھری انسانیت کے دکھ، درد کا مداویٰ کرنے ، ان کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان کے مصائب و مسائل کو حل کرنے کی بھی کوششیں کریں ۔ یہ وقت آزمائش کا ہے۔ ہماری قومی غیرت کا تقاضا ہے کہ ہم خود اپنے مجبور بھائیوں، بہنوں اور بچوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ قوم دل کھول کر عطیات دے، مخیر افراد سیلاب زدگان کی مدد کریں۔
متاثرینِ سیلاب کے لیے فوری ضروت کی اہم اشیاء
امدادی ٹیموں کی رپورٹ کے مطابق سیلاب زدگان کو جن اشیا کی فوری ضرورت ہے وہ درج ذیل ہیں۔
خشک ایندھن (لکڑی، مٹی کا تیل وغیرہ، کیونکہ چولہے تک جلنے کی پوزیشن میں نہیں)۔
پینے کا صاف پانی۔
خشک خوراک (چونکہ پکا ہوا کھانا صرف ایک وقت کام آئے گا جب کہ خشک خوراک دو تین وقت کام دے سکتی ہے)۔
چادریں (کمبل یا رضائیوں کی جگہ صرف صاف چادریں)۔
سلے ہوئے کپڑے جو فوری پہنے جا سکیں (کپڑے سینے کی سہولت کہیں میسر نہیں ہے)۔
پلاسٹک کے جوتے (عام جوتے وہاں قابل استعمال نہیں ہیں، جگہ جگہ کھڑے پانی میں عام جوتے کی سلائی کھل جاتی ہے)۔
خشک دودھ (چھوٹے بچوں کے لیے)، دودھ کے ڈبے اور خیمے۔
درد مندانہ اپیل
اسلام نے بہت سے اعمال کو انسان کے لئے سعادت و نجات ، بخشش و معافی کا ذریعہ بنایا ہے جن میں سے چند ایک کے چند فضائل اوپر ذکر کیے گئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی خدمت کر کے ہی انسان قربِ خدا وندی کو حاصل کر سکتا ہے۔ اسی لئے ایک مومن کو بالخصوص ایسے موقعوں کو نہیں چھوڑنا چاہیے جن کے ذریعے وہ اللہ کا قرب حاصل کرسکے۔ اگر وہ براہِ راست سیلاب زدگان کی مدد کر سکتا ہے تو بہت ہی اچھا ہے لیکن اگر اس سے یہ ممکن نہ ہو تو وہ ان لوگوں کا ساتھ دے، ان لوگوں کی مدد کرے جو اس کارِ خیر کو انجام دے رہے ہیں۔ اپنے مال کو اس خدمت کے لئے پیش کرے تو اللہ تعالی اس کے حصے میں وہ تمام اجر و ثواب عطا فرمائیں گے۔ چونکہ بہت سے کام انسان اپنی دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے خواہش کے باوجود بھی نہیں کرسکتا اس لئے نیکیوں کے انجام دینے میں کم از کم اپنے مال کے ذریعے اسے اس میں شریک ہونا چاہیے۔
بارش و سیلاب جیسی قدرتی آفات میں مبتلا لوگوں کی پریشانیاں دور کریں۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں آپ کی پریشانیاں دور فرمائے گا۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں سیلاب متاثرین کی امداد میں المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کا ساتھ دیں!۔
?Contact for Information and Donation:
+92 322 2056928
? For online donation:
http://mirc.org.pk/donation
? Donate Now:
Al-Madinah Islamic Research Center
United Bank Limited
Account No: 0109-233415594
IBN NO: PK 69 UNIL 0109 0002 3341 5594
Branch Code: 0051
BAIT-UL-SALAM DHA, Phase IV, Karachi
- ( تفسیر قرطبی: 215 / 7 ) ، سورة الأعراف: الآیة : 50
- (آل عمران 110)
- ( شرح مسلم للنووي، ج 2، ص: 202)
- (المُحلیٰ لابن حزم ، ج : 4، ص: 175)