انسان کے بعد اُس کا ذکرِ خیر

پہلا خطبہ:

تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جو غالب و طاقتور ہے ،جو بلند ہے اور زیر کرنے والا ہے۔اس سے اُسی کے سوا نہ کوئی جائے پناہ ہے نہ کوئی جائے چھٹکارہ اور نہ کوئی جائے فرار۔ میں اس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور اُس کا شکر بجا لاتاہوں،اُس نے شکر ادا کرنے والے کو زیادہ عطا کرنے کا اعلان کیا ہے۔میں اُس پاک ذات کی بارگاہ میں توبہ کرتاہوں اور اُس سے مغفرت طلب کرتاہوں۔ اُس نے اس شخص کو قبول فرمالیا جو اس کی طرف عنابت کرے اور مغفرت طلب کرے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ،اس کاکوئی شریک نہیں ،ایسی گواہی جو اپنے کہنے والے کو بڑی پیشی کے دن نجات دے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کے ہمارے سردار و نبی محمد ﷺ اللہ کےبندے اور رسول ہیں۔جو انسانوں کے سردار ،محشر میں شافع مشفع،پر نور چہرہ ،تابناک پیشانی والے ہیں۔

اللہ تعالیٰ برکت نازل فرمائے آپ ﷺ پر آپ ﷺ کی بہترین پاکباز  آل  پراور آپ کے روشن صحابہ کرام پر،تابعین پر اور اُن لوگوں پر جو اُن کی اچھی طرح پیروی کریں۔

اما بعد!

اے لوگو! میں اپنے آپ کو آپ تمام لوگوں کو تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں،اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے ،اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور جان لیں کہ کل جو گزر گیا ہے وہ لوٹ کرآنے والانہیں ،آج کا دن برقراررہنے والا نہیں اور آنے والا کل معلوم نہیں ۔ آپ ماضی سے سیکھیں ،حال میں عمل کریں اور آئندہ کے لئے تیاری کریں ۔سب رخصت ہونے والے ہیں۔ تو جس نے بُرا کیا اُسے معاف کریں ،جس نے زیادتی کی اُس سے درگزرکریں ،زمانے کی شکایت نہ کریں اُس کا کوئی بدل نہیں اور دنیا پر آنسو نہ بہائیں کیونکہ اس کا انجام فنا ہونا ہے۔

احترام وہ تحفہ ہے کہ جس کا مسلمان بھائی آپس میں تبادلہ کرتے ہیں ۔جسے تعریف مطلوب ہے وہ سیرت کو اچھائی سے مزین کرلے ،بھائیوں کے درمیان اُلفت نعمت ہے اور اُن کے درمیان باہم رابطہ رحمت ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

الحجرات – 10

(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

مسلمانو! حجاج نے اپنے مناسک پورے کرلئے ،اللہ ہم سے اور اُن سے قبول فرمائے۔اُن کے حج کو قبول فرمائے ، اُن کی کوششوں کا صلہ دے اور اُن کے گناہوں کو بخش دے ۔آپ ایک سال کو رخصت اور دوسرے سال کا استقبال کرنے والے ہیں  اسی لئے احتساب کے لئے رکنا بہتر ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ‎﴿٢٠٠﴾‏ وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‎﴿٢٠١﴾‏ أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

الحج – 200/201/202

پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیاده بعض لوگ وه بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔اور بعض لوگ وه بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔یہ وه لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔

احتساب کے دفتر میں بہت سے واقعات و حادثا ت کی عبرتیں ظاہر ہوتی ہیں،یہ گھر فنا ہونے کےلئے ہے اور اُس کے باشندے موت  وآزمائش کےلئے ہیں۔یہ دھوکے باز و بے وفا ہے،نفس بُرائی کاحکم دیتے ہیں ،شیطان برائی او ر فحش کام کا حکم دیتاہے،غریبی اور گھاٹے کا وعدہ کرتاہے جس کا آج اُس کے کل سے بہتر نہ ہو تو  وہ گھاٹے میں ہے۔اور جس کی بڑھوتری نہ ہو وہ نقصان میں ہے۔ تاہم عظیم اعمال خوبصورت آثار اور اچھے افعال وہ ہیں جو اپنے کرنے والے کے ذکر کو لازوال کردیں ۔موت کے بعد اُسے زندگی دیں اور اُس کے لئے ذکر ثنا ،تعریف اور دُعا کو باقی رکھیں ۔

کتنے لوگ ہیں کہ جن کی موت ہوچکی ہے اور جن کو زمانے نے لپیٹ لیا ہے مگر اُن کے آثار باقی اور کارنامے محفوظ ہیں۔ اُن کے قابلِ فخر اعمال ابھی بھی محفلوں میں خوشبو بکھیر رہے ہیں آفاق میں عطر و مہک پھیلا رہے ہیں۔وہ لوگوں کے درمیان زندہ  ہیں جبکہ قبروں میں اُن کے جسم بوسیدہ ہوچکے ہیں۔

مسلمانو! نیک نامی اور ذکر ِ جمیل آدمی کا سرمایہ اور اُس کی دوسری عمر ہے ۔اُسے وہ اپنی چھوٹی زندگی میں بناتا ہے تاکہ اُس کی عمر لمبی ہوجائے۔ آنے والے لوگوں میں ذکر خیراللہ کی عظیم نعمت اور عظیم احسان ہے۔وہ اُسے اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے مختص کرتاہے جو ایمان لائے ہیں، سچائی اور اخلاص کو اپنایا ہے،اپنے مال میں سے خرچ کیا ہے اور مخلق کو فائدہ پہنچایا ہے اور عالم میں احسان کو پھیلایاہے۔نیک نامی وہ نعمت ہے جسے اللہ تعالیٰ بندے کے لئے لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتاہے اور مخلوقات کی زبانوں پر جاری کرتاہے ۔ ذکرِ جمیل اخلاق و اطوار کے معیاروں میں سے ایک معیار ہے ،اس کی طرف لوگ رجوع کرتے ہیں  اور اُس پر آدمی کے مراتب تولتے ہیں ۔

بھائیو! تعریف اُس شخص کی باقی رہتی ہے جس کا فائدہ عام ہو،ثنا اُس شخص کی پائیدار ہوتی ہے جس کی عطا پھیلی ہوئی ہو، نیک نامی اُس شخص کی محفوظ ہوتی ہے جس کی نیکی پیہم ہو اور ذکر اُس شخص کا بلند ہوتا ہے جس کا احسان پے درپے ہو۔سو تم ایسے چنیدہ لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ ایسے اعمال، نیکیاں ،باتیں پیش کرتے ہیں کہ جن کی بدولت عمل منقطع نہیں ہوتا اور اُن کے ساتھ اجر نہیں رکتا۔اللہ کے نزدیک سب سے محفوظ وہ ہے جو لوگوں کے لئے اُن میں سب سے زیادہ نفع بخش ہے۔ذکر جمیل اللہ کے فضل کے بعد آدمی کے کام ، اُس کے اچھے تصرف اور بہترین سلوک کا پھل ہے۔ لوگ سرزمن پر اللہ کے گواہ ہیں ۔

 عمر الخذاعی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ اپنے بندے کے لئے بھلائی چاہتا ہے تو اُسے میٹھا بنادیتا ہے ۔ پوچھا گیا  اے اللہ کے رسول ﷺ اُسے میٹھا بنانے کا مطلب کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اُس کی موت سے پہلے اس کے لئے نیکی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کے آس  پاس کے لوگ اُس سے راضی ہوجاتے ہیں۔امام احمد بن حبان/طبرانی : معجم الکیبر۔

حدیثِ مبارکہ میں وارد لفظ “معسلۃ” عسل سے مراد شہد ہے ۔گویاکہ آپ ﷺ نے شہد سے اُس نیک عمل کو تشبیہ دی ہےجس کا دروازہ بندے کےلئے کھول دیا گیا ہے یہاں تک کہ لوگ اُس سے راضی ہوجاتے ہیں۔اُن میں اس کا اچھا ذکر ہوتاہے، اس کی زیادہ تعریف ہوتی ہے ۔ تو شہد سے اس کی تشبیہ مٹھاس اور اچھے ذائقے کی وجہ سے دی ہے ۔

اللہ کے بندو! سب سے افضل انسان اور سب سے معزز مخلوق اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور رسول ہیں جو نیک نامی  ،اچھی سیرت اور ذکرِ جمیل کے حریص رہے ہیں۔ اُن تمام پر اللہ تعالیٰ کا دُرود و سلام نازل ہو۔ انہوں نے اپنے رب سے فریاد کی کہ آنے والے لوگوں میں اُن کا اچھا ذکر یعنی ذکر خیر ہو۔ خلیل علیہ السلام  نے دُعا کی :

رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ‎﴿٨٣﴾‏وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ

الشعراء – 83/84

اے میرے رب! مجھے قوت فیصلہ عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں میں ملا دے۔اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ۔

یہی وہ امام ہیں جنہوں نے اپنے بعد اپنی ذریت کے لئے امامت مانگی ۔

فرمان ِ باری تعالیٰ ہے:

قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ

البقرۃ – 124

تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا، عرض کرنے لگے: اور میری اولاد کو۔

آپ کی دُعا آپ کے بعد آپ کی ذریت کو حاصل ہوئی چنانچہ وہ سب سے سچی زبان والے ہدایت کے پیشوا بنے ۔ وہ اسماعیل و اسحاق علیہم السلام سے ہمارے نبیﷺ  تک یکے بعد دیگرے آتی گئی ۔ انبیاء ،صدیقین ،صالحین  کے گروہ در گروہ  جن کا سلسلہ اس مبارک امت یعنی امتِ محمدی ﷺ کے آخری سچی زبان والے انسان تک جاری ہے۔

فرمانِ باری تعالیٰ  ہے:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

البقرۃ – 129

اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے، یقیناً تو غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔

یہ امت سب سے بہتر امت ہے جو اُن کی ذریت  سے لوگوں کے لئے نکالی گئی ہے ۔ ان میں پیشمار سچی زبان والے صحابہ و تابعین اور قیامت تک اُن کی اچھی طرح پیروی کرنے والے ہیں۔ رسولوں کے پیرو کاروں کواپنے ایمان،اطاعت  اور اللہ کے دین کی خدمت کے بقدر سچی زبان کی میراث حاصل ہے ۔ اس میں ان کا حصہ اُسی قدر کم ہوگا جس قدر اُن میں کوتاہی ہوگی اور خلیل علیہ السلام اور اُن کی ذریت کے منہج یعنی  ملتِ حنفیہ کے منہج سے دوری ہوگی۔

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے خلیل علیہ السلام کی دُعا قبول کی چنانچے اُن میں اور اُن کی ذریت میں امامت کو باقی رکھا ۔فرمان ِ باری تعالیٰ ہے:

وَوَهَبْنَا لَهُم مِّن رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا

مریم – 50

اور ان سب کو ہم نے اپنی بہت سی رحمتیں عطا فرمائیں اور ہم نے ان کے ذکر جمیل کو بلند درجے کا کر دیا۔

اور فرمایا:

وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ ‎﴿٤٥﴾‏ إِنَّا أَخْلَصْنَاهُم بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ ‎﴿٤٦﴾‏ وَإِنَّهُمْ عِندَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ ‎﴿٤٧﴾‏ وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ وَكُلٌّ مِّنَ الْأَخْيَارِ

ص – 45/46/47/48

ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کا بھی لوگوں سے ذکر کرو جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے۔ہم نے انہیں ایک خاص بات یعنی آخرت کی یاد کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا۔یہ سب ہمارے نزدیک برگزیده اور بہترین لوگ تھے۔اسماعیل، یسع اور ذوالکفل (علیہم السلام) کا بھی ذکر کر دیجئے۔ یہ سب بہترین لوگ تھے۔

مسلمانو! بلند ترین مقام پر ہمارے سردار و نبی محمد ﷺ فائز ہیں جو لوگوں میں سب سے اعلیٰ مرتبہ سب سے بلند ذکر اور سب سے عظیم شرف والے اور خلق کے لئے سب سے زیادہ نفع بخش ہیں جن کے بارے میں ان کے رب نے اعلان کیا :

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ

الشرح – 4

اور ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا۔

یہ محمد ﷺ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کبھی بھی رسوا نہیں کرےگا۔آپ ﷺصلہ رحمی کرتے ،سچی بات کہتے ،بوج اٹھا تے ،مہمان نوازی کرتے اور لوگوں کے مصائب پر اُن کی مدد کرتے ۔اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔آپ ﷺ نبوت سے پہلے بھی اور بعدمیں بھی سچے اور امانتدار تھے۔یہ سوچنے کا مقام ہے ہمارے نبی ﷺاپنے صحابہ کرام کو نیک نامی کی حفاظت اور اسلام اور اہلِ اسلام کےزِک پہنچانے والی ہر چیز سے دور رہنے کی تربیت دینے کے کتنے حریص تھے۔

بعض مواقع پر جب چند صحابہ کرام نے آ پﷺ کو کسی منافق  کو قتل کرنے کا مشورہ  دیا  تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہاں تک کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد اپنے ساتھیوں کا قتل کررہا ہے۔ متفق علیہ

کیونکہ آپ ﷺ دعوت اور اُس دین کی ساکھ کو بچانے کے حریص تھے جس کے نور سے دنیا کے مشرق و مغرب روشن ہوگئے۔آپ ﷺ کی زوجہ ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعے میں آپ ﷺ نے دو آدمیوں سے فرمایا: ٹھہرو  ! یہ صفیہ بنت حئی ہیں ۔ اُن دونوں نے تعجب سے کہا : سبحان اللہ ! اے اللہ کے رسول ﷺ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شیطان آدمی کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے ۔مجھے اندیشہ ہوا کہ شیطان تمہارے دلوں  میں کہیں کوئی غلط بات ڈال دے یا کچھ کہ دے ۔ متفق علیہ

اہل ِ علم نے کہا کہ اس میں بدگمانی کا شکار ہونے سے بچنے ، شیطان کے مکر سے محتاط رہنے اور عذر پیش کرنے کی تعلیم ہے۔ اہل ِ علم نے کہا  یہ بات اصحابِ علم و فضل اور اُس آدمی کے حق میں مؤکد ہے جس کی اقتداءکی جاتی ہو۔یہ مناسب نہیں کہ وہ ایسا کوئی کام کریں جوان کے تئیں بدگمانی کو دعوت دے اگرچہ اس میں ان کےلئے عذر ہو،کیونکہ اس کے سبب ان سے استفادہ بند ہوجائےگا۔

مسلمانو! انبیاء کے بعد لوگوں کے سرکردہ اور سربراہ افراد کا مقام آتا ہے جن کا فیض عام ہواور جن کی تاثیر عظیم ہواور وہ اصحابِ شہرت و عزت ہوں اور نیک نامی اور ذکر ِ جمیل کے مالک ہوں۔جیسا کہ وہ حکمران جو عد ل کو پھیلائے انصاف کو قائم کرے بدعنوانی کا مقابلہ کرے ایمانداری کا تحفظ کرے ،ظلم و جور کو روکے رعایہ کے حقوق کی حفاظت کرے اور اُسے اپنی نگہبانی اور حفاظت میں گھیرے رہے۔ ملک کو بچائے اور اللہ کے دین کے لئے انتقام لے۔آپ دیکھیں گے کہ دلوں میں اس کی تعظیم ہے محفلوں میں وہ صاحبِ وقار وہیبت ہے۔لوگوں کی نگاہ میں بڑا ہے ،اہلِ اسلام کے ہاں جلیل القدر ہے اور تاریخ میں اس کا دفتر بھرا ہوا اور محفوظ ہے۔اس کے بعد اس متقی اور تواضع شعار عالم کا مقام آتاہے جو اپنے علم و اخلاق اور احسان سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے ،اس کا ذکر لوگوں میں بلند ہوتاہے۔دلوں میں اس کی قدر بڑھتی ہے اور مخلوق میں اس کا اثر باقی رہتا ہے ۔

پھر وہ فیاض و سخی آتا  ہے جو خوب دینے والا مالدار ہے  ،جو غریبوں پر احسان کرے ،یتیموں  کی ذمہ داری اٹھائے،مسکینوں پر شفقت کرے ،بھلائی اور نیکی کے راستوں پر خرچ کرے ،خیرخواہی کے منصوبوں کو امداد دے ،لوگوں کی پریشانیاں دور کرے  اور اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے اللہ کے راستے میں اپنا مال کرچ کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے قبولیت ِ تامہ،جاہِ وسیع اور ذکر جمیل لکھ دیتا ہے ۔

اس کے بعد وہ صاحب ِ عزت و جاہ  ہے جو سفارش کرے ،اصلاح کرے ،کلمے کو متحد کرے ،خیر،نیکی اور بھلائی پھیلائے،ان کے علاوہ دوسرے لوگ بھی ہیں جن کا نہ تو شمار ہوسکتاہے اور نہ ہی اُن کا احاطہ کیا جاسکتاہے ۔جو عطیے سے نوازتے ہیں ،تکلیف کو روکتے ہیں اور مشقتیں برداشت کرتے ہیں۔ساتھ ہی ان میں دین صحیح سالم ہوتا ہے ،عقل پختہ ہوتی ہے اور نفس پاکباز ہوتا ہے ،دل بے عیب ہوتاہے۔جو قرآن پڑھتے ہیں اور سنت کو پھیلاتے ہیں۔مسجدوں، مدرسوں ،اسکولوں  اور اسپتالوں کی تعمیر کرتے ہیں۔ کنویں کھدواتےہیں کثرت سے صدقہ کرتے ہیں ،قرضوں کو چکاتے ہیں ،ضرورتیں پوری کرتے ہیں بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں ۔حکمت  اور موعظت ِ حسنہ سے اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ مسلمانوں کے سربراہوں او ر عام مسلمانوں  کے لئے خیر خواہی کرتے ہیں ۔لوگوں کے مابین صلح کراتے ہیں بھلائی ہدایت تقویٰ اور دوستی پر کلمے کو متحد کرتے ہیں۔ان تمام افراد کی لوگ قدر کرتے ہیں اور نسلوں میں ان کا ذکر باقی رہتا ہے ۔موت ان کے جسموں کو روپوش کردیتی ہے مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے اعمال و آثار کو ان کے لئے محفوظ کردیتا ہے ۔ان کا ذکر باقی رہتاہے اور ان کے لئے دستِ دُعا دراز ہوتاہے۔

اللہ کے بندو! مومن نہ تعریف کے لئے نہ ثناخوانی  کی شاہت میں اور نہ شہرت کے لالچ میں مال خرچ کرتاہے بلکہ وہ خالص نیت اوراچھے مقصد سے  خرچ کرتاہے چنانچہ اللہ تعالی ٰ اس کی کوشش کو قبول کرتاہے اور بندوں کے دلوں میں  اس کی مقبولیت ڈال دیتاہے ۔پھر اس کے لئے ذکر جمیل ،تعریف  و دُعا  کو پھیلادیتا ہے۔

اشحب رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے : انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان:

وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ

الشعراء – 84

اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ۔

اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: آدمی جب اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا قصد کرے تو کوئی حرج نہیں کہ وہ یہ پسند کرے کہ اس کی اچھی تعریف ہو اور نیک لوگون کے عمل میں اُسے دیکھا جائے۔

 اللہ تعالیٰ نےفرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا

مریم – 96

بیشک جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے شائستہ اعمال کیے ہیں ان کے لیے اللہ رحمٰن محبت پیدا کردے گا۔

یعنی اللہ تعالیٰ ان کے لئے اپنے بندوں کے دلوں میں محبت اور اچھی تعریف ڈال دے گا۔اللہ اکبر!

شریف اور لائق لوگ جب غائب ہوں تو نفس اُن کےلئے بے چین ہوتے ہیں اور جب وہ فوت ہوجائیں تو آنکھیں اور دل اُن کےلئے روتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو قرآن عظیم اور رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے فائدہ پہنچائے ۔میں اپنی یہ بات کہ رہاہوں  او ر اللہ تعالیٰ سے اپنے لئےآپ کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے مغفرت طلب کرتاہوں تو آپ بھی اُسی سے مغفرت طلب کریں بے شک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

دوسراخطبہ:

ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے اُس کی عظیم نوازشوں پر اور اُس کی متواتر نعمتوں پر،میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں، اُس کا کوئی شریک نہیں ،وہ اپنی کبریائی میں یکتا ہےاور میں گواہی دیتا ہوں ہمارے سردار و نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔وہ رسولوں میں افضل اور خاتم الانبیاء ہیں ۔

اللہ تعالیٰ درود وسلام اور برکت  نازل فرمائے آپ ﷺ پر ،آپ کی آل اور آپ کے صحابہ کرام پر آپ ﷺ کے دوستوں پر ،تابعین پر اور اُن لوگوں پر جو اُن کی اچھی طرح پیروی کریں۔ بہت زیادہ سلامتی نازل ہو اُس رب سے ملاقات کے دن تک۔

اما بعد!

مسلمانو!  پاک ہے وہ ذات جس نے لوگوں میں فرق رکھا ہے اور اُن کے درمیان دوری رکھی ہےجیسے آسمان و زمین کے درمیان دوری رکھی ہے ۔کچھ لوگ ایسے ہیں کہ  جن کے دل پاک ہیں ،اُن کے عظائم اونچے ہیں اور اُن کی شہرت بلندہے۔وہ شہد کی مکھی کی طر ح ہیں جو پاک چیز ہی کھاتی ہے اور پاک چیز ہی نکالتی ہے۔اور کچھ دوسرے لوگ ایسے ہیں کہ جن کے دل سیاہ ہیں ،اُن کی ہمت پست ہے ،اُن کے اردے شکستہ ہیں چنانچہ اُن کے اعمال کمزور ہیں ،اور اُن کا ذکر بجھ گیا ہے بلکہ اُن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بدنام ہیں سو اُن پر نہ تو آسمان رویا اور نہ زمین۔جی ہاں ! کچھ لوگ ایسے ہیں کہ مرجاتے ہیں تو اُن کی جدائی پر غم نہیں ہوتا اور نہ اُن کے فوت ہونے کا احساس ہوتا ہے کیونکہ نہ اُن کےنیک آثار ہیں نہ نفع بخش اعمال اور نہ مخلوقا ت پر کوئی احسان ۔ تو نہ اُن کاکوئی شکر گزار دیکھا جاتا ہے اورنہ ہی کوئی اُن کا ذکرِ خیر کرنے والا ۔گویا نہ وہ کبھی تھے اور نہ پائے گئے ۔اور اُن لوگوں کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے جن کی موت سے لوگ خوش ہوتے ہیں  اور اُن کے فوت ہونے پر ٹھنڈی سانس لیتے ہیں ۔وہ کینہ پرور اور حاسد ہیں ،مال کو خوب جمع کرنے والے کنجوس ،فحش گو اور زبان دراز ،متکبر اور خواہش پرست ہیں۔اُن کا برتاؤ دُرشت ،اُن کی صحبت سخت اور اُن کی بات بوجھل ہوتی ہے۔

مسلمانو! اُن انوکھی باتوں میں سے جنہیں ہمارے دین نے مقرر کیا ہے یہ ہے کہ غیر مسلم جو مخلص اور سچا ہو اگر وہ نیک عمل کرے جس سے لوگوں اور شہروں کو فائدہ ہوجیسے مصیبت زدہ کی امداد ،مظلوم کی دادرسی اور کسی بھی صور ت میں مخلوقات کے نفع بخش،تو ہمارا رب سبحانہ وتعالیٰ جو کہ عدل کرنے والا حاکم ہے دنیامیں اُس شخص کی شہر ت  صدیوں تک باقی رکھتا ہے    ۔ہمار ے نبی کریم  ﷺ نے حاتم طائی اور عبداللہ بن جدعان کا ذکر کیا اور اسی طرح سارے زبانو ں اور ملکوں کے مؤجدین ،سراغ رساں افرد،اطباء ،مظلوموں کے حقوق کا دفاع کرنے والے اور انسانیت کے لئے خدمات پیش کرنے والے افراد ہیں جن کا ذکر باقی رکھا جاتاہے اور اُن کی خوبصور ت سیرتوں اور اچھے کاموں کو محفوظ رکھا جاتاہے  ان چیزوں کے بدلے جو انہوں نے پیش کی ہیں اور اُن  سے مخلوق کو فائدہ پہنچایا ہے۔لیکن جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے تو اُ س میں اُن کانہ کوئی نصیب ہے نہ کوئی حصہ۔

سنو ! اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ۔اللہ سے ڈرو۔ انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفس کے لئے احتیاط برتے ، اپنی ساکھ کا خیال رکھے،اپنی عزت و کرامت کی حفاظت کرے ،اپنے نام کو ،اپنے گھر والوں اوراپنے کنبے،اپنے دین ،اپنے شہر اور اپنے ملک کے نام کو عزت دے ۔فرمان ِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا

مریم – 28

اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔

جو شبہات سے بچ گیا تو اُس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا۔ آپ سب درود و سلام پڑھیں نبی کریم ﷺ پر ۔

 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اور آپ ﷺ نے فرمایا:  جس نے مجھ پرایک مرتبہ درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود بھیجے گا اور اس کی دس برائیاں مٹادے گا۔

اے اللہ تو اپنی رحمتیں اپنی برکتیں سید المرسلین،امام المتقین خاتم النبین ،اپنے بندے اور رسول ﷺ پر نازل فرما جو خیر کے امام اور خیر کے قائد ہیں رسول ِ رحمت ہیں ۔ اے اللہ ! انہیں مقام ِ محمود سے نواز جسے سے اگلے اور پچھلے اُن پر رشک کریں اور اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان  ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی   سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیامت تک اُن کی پیروی کریں ۔یاکریم  یا وہاب۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں  سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔

خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشيخ صالح بن حميد حفظه الله
تاریخ 20 ذوالحجہ 1442هـ بمطابق 30 جولائی 2021

Islamfort1: