پہلا خطبہ:
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ کے بندوں!تقوی الٰہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے ، تقوی الٰہی نورِ بصیرت ہے اور اسی سے احیائے قلب و ضمیر ہوگا۔
مسلمانوں!
صرف اللہ تعالی کی عبادت ہی لوگوں کو پیدا کرنے اور انہیں احکامات صادر کرنے کا مقصد ہے، اسی کے لئے رسولوں کو بھیجا گیا، کتابیں نازل کی گئیں، مخلوقات کے لئے شرف، سعادت مندی، کامیابی و کامرانی اسی میں ہے، بلکہ اللہ تعالی کے ہاں لوگوں کی درجہ بندی عبادت گزاری کے مطابق ہی ہوگی، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
الحجرات – 13
یقیناً اللہ تعالی کے ہاں وہی مکرم ہے جو زیادہ متقی ہے۔
الله تعالی كا ایک فضل و کرم یہ ہے کہ اس نے مخلوق کے لئے عبادت میں لذت پیدا کرنے اور عبادت کے ذریعے لوگوں کے درجات بلند کرنے کے لئے عبادات میں تنوع رکھا ہے،دین میں ایک عبادت ایسی ہے جو دیگر تمام عبادات سے مقدم ہے، دیگر عبادات کی تصحیح اسی پر محصور ہے، یہ عبادت بجا لانے والا کامران ہوگا، جبکہ اس میں کوتاہی برتنے والا پشیمان ہوگا، اللہ تعالی نے یہ عبادت سر انجام دینے والوں کی تعریف بیان کی، اس عبادت کی وجہ سے بہت سی مخلوق کو فضیلت بخشی، یہ عبادت انسان کو اپنے رب سے ملاتی ہے، اور زندگی کے گوشوں کو منوّر کرتی ہے۔
معاملہ معیشت کا ہو یا آخرت کا اسی طرح انسان کمال و بحال اسی وقت ہوگا جب یہ عبادت ادا ہو، اللہ تعالی کی بندگی کے لئے اس جیسی کوئی عبادت نہیں، اسی کے ذریعے معرفت و عبادتِ الٰہی ہوگی، حمد و ثنا اور ذکر الٰہی ممکن ہوگا، خالق و مخلوق کے حقوق معلوم ہونگے، حلال و حرام ، حق و باطل، صحیح و غلط، مفید و غیر مفید ، اچھے اور برے میں امتیاز کیا جا سکے گا، یہ عبادت تنہائی کی ساتھی اور خلوت کی رفیق ہے، غفلت کے وقت متنبہ کرتی ہے، اسے حاصل کرنا خود ایک عبادت ہے، اسے پھیلانا قربتِ الٰہی، اپنے چاہنے والوں کے لئے زینت اور باعث امان ہے، قلب و بصیرت کو منور کرتی ہے، ذہن و ضمیر کو مضبوط بناتی ہے، اسے اپنانے والے اہل زمین کے لئے آسمان کے تاروں کی مانند ہیں۔
چنانچہ انہی سے رہنمائی لی جاتی ہے، یہی عبادت مخلوقات کے لئے باعث حسن و جمال ہے، امت کے لئے قلعہ اور ذرہ کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر وہ نہ ہوں تو دین کا نام و نشان ہی مٹ جائے، اسی عبادت میں امت کی بہتری اور ترقی ، لوگوں کے لئے استقامت و تزکیہ ، انسانیت کی ہدایت و سعادت مندی، نسلوں کا تحفظ اور سلامتی پنہاں ہے، اس کی ضرورت تمام ضرورتوں سے زیادہ ہے، اس کے بغیر صرف تباہی اور بربادی ہے ، امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: “لوگوں کو علم کی کھانے پینے سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے؛ کیونکہ کھانے پینے کی ضرورت دن میں ایک یا دو مرتبہ ہوتی ہے، لیکن علم کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے”۔
ہماری امت ہی علم کی بنیاد پر قائم ہوئی چنانچہ سب سے پہلی آیت ہی حصولِ علم کی ترغیب کے لئے نازل کی گئی
اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
العلق – 1
اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیں جس نے پیدا کیا ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی مبارک آیات نازل ہوئیں، اور یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر پہلی رحمت اور نعمت تھیں”۔
اللہ تعالی نے اپنا ایک نام “العلیم” بھی رکھا، اپنے آپ کو علم سے موصوف کیا، بلکہ اپنی مخلوق کو اپنا تعارف بھی اسی صفت سے کرواتے ہوئے فرمایا:
[رب وہی ہے]جس نے قلم کے ذریعے علم دیا[4] اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو اسے معلوم نہیں تھا۔اَلَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
العلق – 4/5
پیغامِ رسالت علم و عمل کا نام ہے، اس لیے پیغامِ رسالت کا نصف حصہ علم پر مشتمل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ
التوبة -33
وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت -یعنی علم -اور دین حق -یعنی عمل صالح -کیساتھ بھیجا۔
انسان اور انسانی دل کے لئے حُبِّ الٰہی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، اور یہ صرف علم سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
علم ہی وہ حکمت ہے جسے اللہ تعالی جتنی چاہے عطا فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
البقرة – 269
وہ جسے چاہتا ہے حکمت سے نوازتا ہے، اور جسے حکمت دے دی جائے تو اسے بہت سی خیر نواز دی گئی، اور نصیحت صرف عقل والے ہی پکڑتے ہیں۔
اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو علم دے کر احسان جتایا اور پھر علم کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری عیاں فرمائی:
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
البقرة – 31
اور آدم [علیہ السلام] کو تمام چیزوں کے نام بتلائے، پھر انہی چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تم [اپنی بات میں]سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتلاؤ ۔
اللہ تعالی نے انبیائے کرام، رسولوں اور دیگر جسے چاہا انہیں علم کے لئے مختص فرمایا، چنانچہ فرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ کو علم رکھنے والے بچے یعنی اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری دی ۔
یوسف علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا
یوسف – 22
وہ جس وقت بھر پور جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا۔
پھر یہی فضلیت یوسف علیہ السلام نے اپنے بارے میں بھی ذکر کی:
إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ
یوسف – 55
میں یقیناً حفاظت کرنے والا اور جاننے والا ہوں۔
موسیٰ علیہ السلام پر بھی علم دے کر کرم کیا گیا :
وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا
القصص – 14
وہ جس وقت کڑیل جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا۔
داؤد اور سلیمان علیہما السلام کے بارے میں فرمایا:
وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا
الانبیاء – 79
اور ہم نے ہر ایک کو علم و حکمت سے نوازا۔
عیسیٰ علیہ السلام کو اسی نعمت کی یاد دہانی بھی کروائی:
اُذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيل
المائدة – 110
سیدنا خضر علیہ السلام کے پاس اللہ تعالی کا دیا ہوا ایسا علم تھا جو کسی اور کے پاس نہیں تھا اسی فضیلت کے باعث اولو العزم پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر بھی سفر کر کے ان کے پاس جا پہنچتے ہیں:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا
الكهف – 65
وہاں [موسیٰ اور ان کے ساتھی]نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے [خضر]کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا، اور اپنے ہاں سے علم سکھایا تھا۔
سلیمان علیہ السلام کے فوجیوں میں سے جس کے پاس سب سے زیادہ علم تھا وہی طاقتور تھا:
قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ
النمل – 40
جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ [سلیمان علیہ السلام سے]کہنے لگا کہ آپ کے پلک جھپکانے سے بھی پہلے میں اس [تختِ سبا] کو آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں ۔
اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ پر کی ہوئی نعمتیں شمار کرواتے ہوئے علم کو سب سے اعلی و ارفع مقام عطا فرمایا:
وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ
النساء – 113
اللہ تعالی نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان چیزوں کا علم دیا جو آپ نہیں جانتے تھے۔
نیز اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو علم کے سوا کسی بھی چیز میں اضافے کی دعا کا حکم نہیں دیا، فرمایا:
وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا
طٰه – 114
اور آپ کہہ دیں: میرے پروردگار! مجھے مزید علم عطا فرما۔
علم انبیائے کرام کی وراثت ہے، چنانچہ انبیائے کرام کے وارثانِ علم ان کے بعد سب سے بہترین درجے کے مالک ہوں گے، اور وہی ان کے قریب ترین بھی قرار پائیں گے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (علما انبیائے کرام کے وارث ہیں، انبیائے کرام وراثت میں درہم و دینار چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ علم چھوڑ کر جاتے ہیں، چنانچہ جو علم حاصل کرے تو اس نے بہت بڑا حصہ لے لیا) ترمذی
اللہ تعالی نے اہل علم کو اپنی الوہیت کے لئے گواہ بھی بنایا اور فرمایا:
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ
آل عمران – 18
اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے۔
علم کی وجہ سے اللہ تعالی کا ڈر پیدا ہوتا ہے اور اس کی اطاعت کی جاتی ہے:
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ
فاطر – 28
یقیناً بندوں میں سے اللہ تعالی سے ڈرنے والے علما ہی ہوتے ہیں۔
زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” اللہ تعالی کی حصولِ علم جیسی کوئی عبادت ہے ہی نہیں”۔
حصولِ علم خیر و بھلائی ہے: (اللہ تعالی جس کے بارے میں خیر کا ارادہ فرما لے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے) متفق علیہ
سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہی بہترین لوگ ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (دورِ جاہلیت کے بہترین لوگ اسلام میں بھی بہترین ہیں بشرطیکہ دین کی سمجھ رکھتے ہوں) متفق علیہ
علم اعمال اور درجات میں درجہ بندی کا ترازو ہے، علم کی وجہ سے ہی اعمال میں بہتری اور عمدگی پیدا ہوتی ہے، چنانچہ انسان کا عقیدہ، اخلاص، اور سنتِ نبوی کی پیروی صرف علم کے ذریعے ہی ممکن ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
محمد – 19
جان لو کہ: اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے یہاں قول و عمل سے پہلے علم کو ذکر کیا ہے۔
جب تک روئے زمین پر علم باقی رہے گا تو لوگ ہدایت پر قائم رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ علم کے بغیر اللہ تعالی کی عبادت کرنے والا فائدے کی بجائے نقصان زیادہ کرتا ہے، شرک و بدعات علم کی کمی اور اہل علم سے دوری کے باعث ہی پیدا ہوئیں ، کیونکہ گمراہی و جہالت ؛ لا علمی کا ہی ثمر ہوتا ہے؛ اسی لیے اللہ تعالی نے ہمیں گمراہ لوگوں کے راستے سے پناہ مانگنے کا ہر نماز کی ہر رکعت میں حکم دیا ہے:
[ہمارا راستہ] ان لوگوں کا نہ ہو جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ہی گمراہوں کا ۔غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
الفاتحة – 7
اللہ تعالی نے اہل علم اور جاہلوں میں برابری کو مسترد فرمایا، اس لیے ان دونوں میں برابری نہیں ہے جیسے کہ زندہ اور مردہ، بینا اور نابینا میں برابری نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
الزمر – 9
آپ کہہ دیں: کیا صاحب علم اور لا علم برابر ہو سکتے ہیں؟
علم ہی لوگوں کے لئے زندگی و روشنی ہے:
أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا
الانعام – 122
بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کو روشنی عطا کی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں زندگی بسر کر رہا ہے اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو اور اس کے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو؟۔
حسن سیرت اور دین کی سمجھ مؤمنین کی خصوصی صفات ہیں، اسی لیے ان کے سینے علم سے منور ہوتے ہیں:
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ
العنكبوت – 49
بلکہ [قرآن ]تو واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے۔
صرف اہل علم کو اللہ تعالی نے قرآن کریم کی امثال سمجھنے اور ان کے معنی و مفہوم کا ادراک رکھنے والا قرار دیا:
وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ
العنكبوت – 43
یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور انہیں علما کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا۔
علمی مجلسوں اور وہاں کے حاضرین کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے، ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں: (بیشک فرشتے طالب علم کو راضی کرنے کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں) ترمذی
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” اگر حصول علم سے صرف قرب الٰہی ملے، عالم ملائکہ سے تعلق بنے اور ملأ الاعلی کی صحبت ملے تو یہی علم کی قدر و منزلت اور شان کے لئے کافی تھا، لیکن یہاں تو دنیا و آخرت کی عزت بھی حصول علم کیساتھ منسلک اور مشروط ہے”۔
اہل علم کی مجلسوں میں حکمت و دانائی پائی جاتی ہے، وہی پوری امت کے لئے بہترین نمونہ ہیں، اہل علم کو ذاتی فائدہ تو ہوتا ہی ہے دوسرے بھی ان سے مستفید ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتا ہے اور دعائیں دیتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی ، اللہ کے فرشتے، آسمان و زمین کے تمام مکین حتی کہ چیونٹیاں بھی اپنے بلوں میں اور مچھلیاں بھی لوگوں کو بھلائی سکھانے والے کے لئے دعائیں کرتی ہیں) ترمذی
حصول علم کے لئے جد و جہد بھی “فی سبیل اللہ” میں شمار ہوتی ہے، چنانچہ ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : “جو شخص حصولِ علم کے لئے صبح شام آنا جانا جہاد میں شمار نہیں کرتا اس کی عقل اور رائے دونوں ناقص ہیں”۔
حصول علم کے لئے مقابلہ بازی بھی قابل ستائش عمل ہے، چنانچہ دو لوگوں کے بارے میں رشک کیا جا سکتا ہے علم پھیلانے والا اور مال خرچ کرنے والا، اس کے علاوہ کسی بھی چیز کے بارے میں رشک نہیں کرنا چاہیے آپ ﷺ کا فرمان ہے: (رشک صرف دو لوگوں کے بارے میں کیا جا سکتا ہے: ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی نے خوب مال نوازا اور پھر اسے حق کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق دی، [دوسرا ] وہ آدمی جسے اللہ تعالی نے حکمت [علم] سے نوازا تو وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور آگے لوگوں کو سکھاتا ہے) متفق علیہ
شرعی اور تقدیری فیصلوں کا متفقہ اصول ہے کہ “جیسا کرو گے ویسا بھرو گے” چنانچہ علم اللہ تعالی کے بارے میں قریب ترین راستے کے ذریعے معلومات فراہم کرتا ہے، چنانچہ حصولِ علم کے راستے پر چلنے والا حقیقت میں اللہ تعالی اور جنت کے قریب ترین راستے پر چل نکلتا ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے:(جو شخص کسی راستے پر علم کی جستجو میں نکلے تو اس عمل کی وجہ سے اس کے لئے اللہ تعالی جنت کا راستہ آسان بنا دیتا ہے) مسلم
شرعی علم پوری امت کے لئے فتنوں اور مصیبتوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” کچھ لوگوں نے عبادت میں مشغول ہو کر علم حاصل نہیں کیا، پھر وہی لوگ امت محمدیہ کے خلاف تلوار اٹھا کر بغاوت پر اتر آئے اگر وہ علم حاصل کرتے تو اس اقدام سے باز رہتے”۔
فوائدِ علم کی وجہ سے پوری دھرتی پر علم پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے چاہے وہ معمولی سا ہی کیوں نہ ہو، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (میری طرف سے [دین]آگے پہنچاؤ چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو) بخاری
اللہ تعالی نے اہل علم سے استفسار اور ان سے رجوع کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
الانبیاء – 7
تم اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے۔
نبی کریم ﷺ نے اہل علم کے لئے تر و تازگی ، خوش باش زندگی ، روشن چہرے اور شرح صدر کی دعا فرمائی: (اللہ تعالی ایسے شخص کے چہرے کو ہمیشہ تر و تازہ رکھے جو ہم سے دین سنے اور بعینہٖ آگے پہنچائے، بہت سے شاگرد اپنے اساتذہ سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں) ترمذی
نیز نبی ﷺ نے اپنے محبوب صحابی کے لئے دعا فرمائی کہ وہ بھی اہل علم میں شامل ہوں، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا: (یا اللہ! اسے دین کا فقیہ بنا دے) بخاری
علم کی وجہ سے زندگی اور موت کے بعد بھی بلند درجات ملتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
المجادلة – 11
اللہ تعالی تم میں سے ایمان والوں اور اہل علم کے درجات بلند فرماتا ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” علم حاصل کر کے عمل کرنے والے اور پھر آگے پھیلانے والے کو ہی آسمانوں میں “عظیم” کہہ کر پکارا جائے گا”۔
صاحب علم کو مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا رہے گا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جس وقت انسان فوت ہو جائے تو تین ذرائع کے علاوہ اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں: صدقہ جاریہ، علم جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، نیک اولاد جو اس کے لئے دعائیں کرے) مسلم
افضل ترین علم کی کتاب و سنت میں مدح سرائی بھی کی گئی ہے اور یہ وہی علم ہے جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہو، تمام علوم میں ذاتِ باری تعالی اور اس کے اسما و صفات کا علم بلند ترین ہے، یہی حقیقت میں تخلیق و تدبیر کا مقصد بھی ہے:
اَللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا
الطلاق – 12
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی طرح زمینیں بھی، ان کے درمیان سے حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ اللہ یقینا ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ کہ اللہ نے علم سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔
ہر مسلمان پر علم کی فرض مقدار حاصل کرنا واجب ہے، وہ اسی کی روشنی میں اپنا عقیدہ ، نمازیں اور روزے صحیح کر سکے گا، اپنے وقت میں سے کچھ علم کے لئے بھی مختص کرے، علمی مجالس اور حلقوں میں بیٹھنا بوجھ مت سمجھے۔
طالب علم کو چاہیے کہ علم کی قدر و منزلت کا خیال کرے، اللہ تعالی سے علم نافع مانگے، اور اللہ تعالی سے حسن ظن قائم رکھے، حصولِ علم کے لئے تقوی اپنے دامن کیساتھ باندھ لے، اپنی نیت خالص اللہ تعالی کے لئے بنائے، اپنے علم کے ذریعے بیوقوف لوگوں سے مت جھگڑے، اور نہ ہی علمائے کرام سے بحث کرے، حاصل شدہ علم کے مطابق عمل کرنے پر غیر حاصل شدہ علم بھی اللہ تعالی عطا کر دیتا ہے۔
مسلمانوں!
اللہ تعالی نے متلاشیان علم کے لئے اسے آسان بنانے، اور وہ کچھ دینے کا وعدہ کر لیا ہے جو ابھی طالب علم کے ذہن میں بھی نہیں ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ
العلق – 3
علم کا راستہ بہت آسان اور سب کی پہنچ میں ہے، چنانچہ قرآن مجید یاد کریں، نبی ﷺ کی کچھ احادیث مبارکہ حفظ کریں، اہل علم کے چنیدہ علمی متن یاد کریں، انہیں سمجھیں اور پھر ان پر عمل پیرا بھی ہوں، جتنا علم زیادہ ہوگا اتنی ہی بلندی ملے گی، اس طرح انسان رضائے الٰہی اور بلند جنتوں کو پا سکتا ہے۔
اس تفصیل کے بعد:
أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
التوبة – 122
مومنوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ سب کے سب ہی نکل کھڑے ہوں ، پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ہر گروہ میں سے کچھ لوگ دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لئے نکلتے تاکہ جب وہ ان کی طرف واپس جاتے تو اپنے لوگوں کو [برے انجام سے] ڈراتے، اسی طرح شاید وہ برے کاموں سے بچے رہتے۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانوں!
معرفتِ الٰہی اور اوامر و نواہی کا علم رکھنے والے گزشتہ و پیوستہ تمام علمائے امت کو اچھے لفظوں میں ہی یاد کیا جائے، امت پر ان کا بہت عظیم حق ہے، اس کے لئے ان سے محبت اور ان کا احترام کرنا چاہیے، ان سے علم حاصل کریں اور مسائل کے حل کے لئے ان سے رجوع کریں، اہل علم کی تعظیم حقیقت میں دین کی تعظیم ہے، یہی اہل علم ہی دین کے علم بردار اور امین ہیں، چنانچہ ان کے راستے سے کنارہ کشی اختیار کرنے والا ہی گمراہ ہے، ان سے بغض و عداوت رکھنا کم عقلی اور فطرت سے انحراف ہے، بلکہ یہ اللہ تعالی کے عذاب اور اس سے اعلان جنگ کی گھنٹی بھی ہے، کیونکہ حدیث قدسی میں ہے کہ: (جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے تو میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں) بخاری
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “امام ابو حنیفہ اور شافعی رحمہما اللہ کہتے ہیں: اگر علما ہی اللہ کے ولی نہیں ہیں تو پھر اس دنیا میں اللہ تعالی کا کوئی ولی نہیں “۔
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔
اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد
یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما، اور تمام مسلمانوں کی تیری طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کے خطوں کو امن و امان عطا فرما، یا قوی! یا عزیز!
یا اللہ! ہمارے سپاہیوں کو کامیاب فرما، یا اللہ! ان کے قدموں کو ثابت بنا ، یا اللہ! ان کی نشانے درست فرما، یا اللہ! انہیں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!
یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال اپنے رضا کے لئے مختص فرما، اور تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب کے نفاذ اور شریعت کو بالا دستی دینے کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!
یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہم تجھ سے علم نافع اور عمل صالح کا سوال کرتے ہیں۔
یا اللہ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو ہی غنی ہے ہم تیرے در کے فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما، اور ہمیں مایوس مت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر خوب ظلم ڈھائے، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو [امداد] دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے [قبول کرو]اور یاد رکھو۔
تم عظمت و جلالت والے اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔