ابراہیم علیہ السلام اور اللہ پر توکل
جب ایک انسان دہکتے شعلوں میں جھونکا جا رہا ہو، اور وہ صرف یہ کہے: “حسبی اللہ و نعم الوکیل” — تو یہ جملہ محض زبان کا نہیں، دل کے یقین کا ترجمان ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا توکل دعووں سے آگے بڑھ کر عمل، قربانی اور یقینِ کامل کا نمونہ تھا۔ اُن کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ جب زمین کے سارے دروازے بند ہو جائیں تو آسمان کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔
سچا توکل وہی ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے کیا — جس نے آگ کو گلزار بنایا، تنہائی کو سکون میں بدلا اور آزمائش کو کامیابی کا زینہ بنا دیا۔
"جب جاوید احمد غامدی 'قرآن و سنت' کہتے ہیں تو 'سنت' سے ان کی مراد…
پراویڈنٹ فنڈ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر حکومت کی طرف سے یہ شرط لازمی…
"قرآن پر نقطے اور اعراب کب اور کیوں لگائے گئے؟ کیا یہ نقطے رسول اللہ…
اللہ رب العزت کے دو نام ”العزیز“ اور ”الحکیم“ کے کیا معنی ہیں؟ کیا یہ…
"قرآنِ مجید کی تفسیر کا صحیح مطالعہ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا قرآنِ کریم…