دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے لئے ہیں ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ درود و سلام اور برکتیں نازل ہوں ان پر اور ان کی آل و اولاد پر اور ان کے جانثار ساتھیوں پر ۔
مسلمانوں! سب سے عظیم وصیت یہ ہے کہ آپ تقوی کو لازم پکڑیں، نیکی اور خیر کے کاموں سے چمٹے رہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہیں۔ مسلمانوں! دورِ حاضر کی شدید مصروفیاتِ زندگی کے دباؤ ، اس کے نت نئے تقاضے اور مطالبات کے وقت بہت سے لوگ اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ برکت ختم ہو چکی ہے، جب کہ دنیاوی زندگی کے ساز و سامان میں اس کا ہونا نہایت ضروری اور ناگزیر ہے تاکہ ان میں اضافہ اور بڑھوتری ہو اور ان کے بہترین ثمرات ظاہر ہوں کیونکہ جب کسی چیز سے برکت ختم ہوجاتی ہے تو اس کے بہترین فوائد و ثمرات اور حاصل ہونے والے منافع بھی ختم ہوجاتے ہیں بلکہ جب کسی چیز سے برکت اٹھ جاتی ہے تو پریشانیاں اور شقاوتیں اور محرومیاں اسکی جگہ لے لیتی ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
ليسَتِ السَّنَةُ بأَنْ لا تُمْطَرُوا، ولَكِنِ السَّنَةُ أنْ تُمْطَرُوا وتُمْطَرُوا، ولا تُنْبِتُ الأرْضُ شيئًا.
(صحيح مسلم: 2904)
قحط سالی یہ نہیں ہے کہ بارش نہ برسائی جائے بلکہ قحط سالی یہ ہے کہ بارش برسے اور خوب برسے، لیکن زمین کوئی بھی چیز نہ اگائے ۔
برکت ختم ہونے کی نشانی
مسلمانوں! برکت ختم ہو جانے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ آج دنیا زبردست مالی وسائل اور بے تحاشا مال و دولت ہونے کے باوجود بڑے معاشی و اقتصادی مسائل اور مالی بدحالی سے گزر رہی ہے اور شدید افراط ذر اور سخت مہنگائی اور قرضوں کے بوجھ سے پریشان ہے۔
پریشانیوں کا سبب
اور ان ساری پریشانیوں کا سبب اکثر لوگوں کا اس ربانی منہج اور نظام سے دوری اختیار کرلینا ہے جس کو ان کے خالق و مالک نے پسند کرکے اتارا ہے اور ان کی دنیوی خوشیوں اور اخروی سعادتوں اور کامیابیوں کے لئے بہترین راستہ اور ذریعہ قرار دیا ہے۔
برکتیں چھن جانے کے اسباب
1۔ سودی لین دین
برکت چھن جانے کے اسباب میں سے سودی معاملات کا عام ہونا بھی ہے جن پر آج دنیا کی معیشت کھڑی ہے اور جن کی وجہ سے بہت سارے اقتصادی مسائل اور معاشرتی پریشانیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے :
یَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ
(سورۃ البقرۃ :286)
اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔
2۔ گناہوں پر اصرار
برکت چھن جانے کے اسباب میں سب سے اہم سبب حرام کردہ چیزوں کا بکثرت ارتکاب اور گناہوں پر اصرار کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
( سورۃ الروم: 41)
خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا ہے اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا تاکہ وہ انہیں اس کا مزہ چکھائے جو انہوں نے کیا ہے اور تاکہ وہ باز آجائیں۔
3۔ دھوکہ اور جعل سازی
مسلمانوں! آج دنیا میں لین دین اور تجارت میں دھوکہ اور جعل سازی کے ایسے نت نئے حربے اور شکلیں آزمائی جارہی ہیں جن کی کوئی حد و حساب نہیں ہے جس کی وجہ سے مختلف مالی خطرات در پیش ہیں اور مالی معاملات کے ساتھ کساد بازاری اور تباہی کا شکار ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
الْبَيِّعانِ بالخِيارِ ما لَمْ يَتَفَرَّقا، فإنْ صَدَقا وبَيَّنا بُورِكَ لهما في بَيْعِهِما، وإنْ كَذَبا وكَتَما مُحِقَ بَرَكَةُ بَيْعِهِما.
( صحيح مسلم: 1532)
بائع اور مشتری جب تک وہ دونوں مجلس سے جدا نہ ہوں ان کے پاس بیع کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے ، اگر دونوں راست گوئی اور حقیقت بیانی سے کام لیں تو ان کی تجارت میں اللہ تعالی برکت ڈال دیتا ہے اور اگر وہ جھوٹ کا سہارا لیں اور حقیقت کو چھپائیں تو ان کی تجارت سے برکت اٹھ جاتی ہے ۔
4۔ جھوٹی قسم اٹھانا
مسلمان بھائیو! جھوٹی قسم کے ذریعے اپنے سامان تجارت کو فروخت کرنا بھی برکت کے ختم ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے اور اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو اس کے ہم معنی ہے جیسے تجارتی اشتہارات جن کے ذریعے سامان کی جھوٹی خوبیاں اور اس کےجھوٹے اوصاف بیان کیے جاتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے جیسا کہ آجکل سوشل میڈیا پر یہ بہت زیادہ عام ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الحَلِفُ مُنَفِّقَةٌ لِلسِّلْعَةِ، مُمْحِقَةٌ لِلْبَرَكَةِ.
( صحیح البخاري :2087،وصحیح مسلم:1606)
جھوٹی قسم سے سامان کی ترویج تو ہوتی ہے مگر برکت ختم ہوجاتی ہے ۔
5۔ لوٹ مار اور ناجائز قبضہ
مسلمانوں! عمومی اور خصوصی برکات اٹھ جانے کے اسباب میں سے ایک اہم سبب عوامی جائیداد اور مال و دولت پر لوٹ مار، دھوکہ اور خیانت کے ذریعہ قبضہ جمالینا ہے۔ اس کے تباہ کن اثرات صرف اس شخص پر نہیں بلکہ پورے معاشرے اور سماج پر مرتب ہوتے ہیں ۔
اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
إنَّ هذا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فمَن أَخَذَهُ بسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ له فِيهِ، ومَن أَخَذَهُ بإشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ له فِيهِ،كَالَّذِي يَأْكُلُ ولَا يَشْبَعُ
(صحيح البخاري: 1472)
یہ دولت بڑی سرسبز اور شیریں ہے پس جس نے اسے دلی سخاوت کے ساتھ لیا، اس کے لیئے اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور جس نے اسے دل کے لالچ کے ساتھ اور حرص و طمع کے ساتھ لیا اس کے لئے اس میں برکت نہیں ڈالی جاتی اور وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے جو کھاتا تو ہے لیکن سیر نہیں ہوتا ۔
اور جب یہ حالت اس شخص کی ہے جو حرص و ہوس اور لالچ اور طمع کے ساتھ لوگوں کا عمومی مال حاصل کرتا ہے تو اس شخص کا انجام کیا ہوگا جو حرام طریقے اور غیر شرعی طریقے سے مال بٹورتا اور حاصل کرتا ہے۔
6۔ قرض لیکر واپس نہ کرنا
اسی طرح برکت کے ختم ہونے اور معاشرے میں اقتصادی بحران پیدا ہونے کے اسباب میں سے لوگوں کے مال کے ساتھ کھلواڑ کرنا بھی ہے۔ مثلا: خریدے ہوئے سامان کی قیمت ادا نہ کرنا ، قرض لیکر واپسی نہ لوٹانا یا کسی حق دار کی اجرت و مزدوری ادا نہ کرنا ۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَدَّى اللہُ عَنْهُ وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا أَتْلَفَهُ اللہُ
(صحيح بخارى: 2387 )
جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے اللہ تعالی بھی اس کی طرف سے ادا کردیتا ہے اور جو کوئی نہ دینے کے لیئے لیتا ہے تو اللہ تعالی بھی اسے تباہ کردیتا ہے ۔
لہذا اللہ کے بندوں! اللہ سے ڈرو اور منہجِ الہی اور سیرت نبوی ﷺ کو لین دین ، رہن سہن بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں لازم پکڑو پھر تم پر برکتوں کا نزول ہوگا اور خیر و بھلائی عام ہوگی اور نفع بخش فوائد و ثمرات کے دروازے کھل جائیں گے۔ ہم نے جو کچھ سنا ہے اللہ رب العالمین اس میں برکتیں نازل فرمائے ۔
دوسرا خطبہ :
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیئے ہیں اس کے حسانات پر۔ اللہ ہی کا شکر ہے اس کی توفیق و امتنان پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ ! برکتیں نازل ہوں ان پر اور ان کی آل و اولاد پر اور ان کے ساتھیوں پر ۔
حصول برکت کیسے ممکن ہے ؟
کامیاب انسان ان اسباب و عوامل کو تلاش کرتا ہے جن سے اس کی زندگی میں خیر و برکت نازل ہو اور ان کے حصول کے لئے وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں توجہ کرتا ہے تاکہ منفعت میں اضافہ ہو اور خیر و برکت کی بہتات ہو اور خوشگوار اور بہترین زندگی نصیب ہو ۔ انسان کو جو عطا کیا جائے اس میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل سے بے قراری اور بے چینی اور متوقع خدشات دور ہوجائیں اور اسے قلبی سکون، راحت، خوشی، رضامندی اور سعادت حاصل ہو۔
1۔ توبہ و استغفار
مسلمان بھائیوں! اگر ہم لا متناہی برکات کے نزول اور پے درپے خیرات کے حصول کے متمنی ہیں تو ہم سب پر لازم ہے کہ سچی توبہ کریں ، پوری سنجیدگی اور سچائی کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کریں جو فساد و بگاڑ پیدا ہوچکا ہے قرآن کے احکام اور نبی ﷺ کے فرامین کے ذریعے اس کی اصلاح کریں ۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے اس کے حضور توبہ و استغفار کرنے کا حکم دیا اور اس کے دنیا اور آخرت کے فائدے بتلائے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ، يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا، وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا
(سورہ نوح ، آیت: 10 تا 12 )
میں نے ان سے کہا کہ تم سب اپنے رب سے مغفرت طلب کرو، وہ بے شک بڑا مغفرت کرنے والا ہے، وہ آسمان سے تمہارے لئے موسلا دھار بارش بھیجے گا اور تمہیں مال و دولت اور بیٹوں سے نوازے گا اور تمہارے لئے باغات پیدا کرے گا اور تمہارے لئے نہریں نکالے گا۔
2۔ اللہ و رسول کی اطاعت و تابعداری
خیر و برکت اور خوشی و مسرت کے حصول کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل کی اطاعت اور اس کی شریعت کی پابندی اور اس کے حدود کی پاسداری پر استقامت اختیار کی جائے ۔ارشاد باری تعالی ہے :
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
(سورہ اعراف:96)
اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقوی کی راہ اختیار کرتے تو ہم آسمان و زمین کی برکتیں ان پر کھول دیتے لیکن انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کے کیے کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا۔
3۔ درود شریف کا ورد
اللہ کے بندوں! حصول برکت کے اسباب میں سے نبی ﷺ پر مسلسل درود شریف پڑھتے رہنا بھی ہے۔ اے اللہ! رحمت و سلامتی نازل فرما نبی محمد ﷺ پر ، انکی آ ل اور صحابہ کرام پر۔ اے اللہ ! تمام اصحاب رسول سے راضی ہوجا اور تاقیامت انکی پیروی کرنے والوں سے بھی راضی ہوجا۔
دعا کیجئے!
اے اللہ ! تو مسلمانوں کو اپنی رضا کے حصول کی توفیق عطا فرما اور انہیں تقوی اور اطاعت کے کاموں پر لگا دے۔ اے اللہ ! ہمارے اوپر پے در پے برکات کا نزول فرما اور ہم جہاں کہیں بھی رہیں، ہمیں مبارک و بابرکت بنا ۔ اے اللہ! اے عظمت والی ذات! مسلمانوں کی دین و دنیا میں برکتیں عطا فرما ۔ اے اللہ ! صہونیوں اور ظالموں کی گرفت فرما اور مسلمانوں کی ہر جگہ مدد فرما ۔اے اللہ ! ہمارے فلسطینی بھائیوں کے لئے اپنی مدد نازل فرما اور انہیں قوت و غلبہ عطا فرما۔ اے اللہ ! تو انکی خصوصی حفاظت فرما۔ اے اللہ ! تمام مسلمانوں کی خصوصی دیکھ بھال فرما۔ اے اللہ ! خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد کو حق کا بول بالا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اے کریم ذات ! تمام مومن مرد و خواتین کی مغفرت فرما ۔ اے اللہ ! بارانِ رحمت کا نزول فرما۔ اے اللہ ! تو رحمان ہے، تو رحیم ہے، تو مغفرت کرنے والا ہے، تو نعمتیں عطا کرنے والا ہے ، ہمیں نا امید اور مایوس نہ کر ۔ اے اللہ ! اپنے بندے اور رسول محمدﷺ پر رحمت اور سلامتی اور برکت نازل فرما۔ والحمد للہ رب العالمین۔
خطبة الجمعة، مسجد نبوی ﷺ
فضیلۃ الشیخ: د۔ حسین بن عبدالعزیز آل الشیخ
23 جمادی الاخری 1445 بمطابق 5 جنوری 2024