اسلام نے عورت کے ساتھ حسن سلوک کی بھی بڑی تاکید کی ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں معاشرت بالمعروف کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے:
وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ
النساء.519.5
’’تم ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو۔‘‘
جس کا مطلب، عورت کے حقوق کی صحیح ادائیگی، اس کی ضروریات زندگی (نان و نفقہ ، لباس) کی فراہمی اور اپنے وسائل کے مطابق اسے ہر طرح کی آسانی اور سہولتیں بہم پہنچانا ہے۔ اس سلسلے کی متعدد احادیث اس سے قبل ’’مرد اور عورت دونوں کی خدمات کا دائرۂ کار‘‘
عنوان کے تحت بیان ہوچکی ہیں۔ یہاں چند احادیث اور ملاحظہ فرمائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ خَیْرًا، فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ وَإِنَّ أَعْوَجَ شَیْئٍ فِی الضِّلَعِ أَعْلَاہُ، إِنْ ذَھَبْتَ تُقِیمُہُ کَسَرْتَہُ وَإِنْ تَرَکْتَہُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ اِسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ خَیْرًا‘
صحیح بخاری کتاب النکاح،باب الوصاۃ بالنساء،حدیث نمبر:5186
’’عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورت کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے (لیکن سیدھا نہیں کر سکو گے حتی کہ معاملہ طلاق تک پہنچ جائے گا) اور اگر تم اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھا ہی رہے گا (یعنی عورت کی فطری کجی کبھی ختم نہیں ہوگی، اس لیے اس کو برداشت کرتے ہوئے) اس کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ (اس کے ساتھ نباہ کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے) ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں کے حقوق کی اتنی فکر تھی کہ حجۃ الوداع کے خطبے میں بھی آپ نے اس کی تاکید فرمائی۔ آپ نے فرمایا:
’اَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَیْرًا، فَإِنَّمَاھُنَّ عَوَانٍ عِنْدَکُمْ لَیْسَ تَمْلِکُونَ مِنْھُنَّ شَیْئًا غَیْرَ ذٰلِکَ إِلَّا أَنْ یَّأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاھْجُرُوھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوھُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْھِنَّ سَبِیلًا، أَلَا إِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ حَقًّا وَلِنَسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا، فَأَمَّا حَقُّکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ فَلَا یُوْطِئَنَّ فُرُشَکُمْ مَنْ تَکْرَھُونَ وَلَا یَأْذَنَّ فِی بُیُوتِکُمْ لِمَنْ تَکْرَھُونَ، أَلَا وَحَقُّھُنَّ عَلَیْکُمْ أَنْ تُحْسِنُوا اِلَیْھِنَّ فِی کِسْوَتِھِنَّ وَطَعَامِھِنَّ‘
جامع الترمذي، حدیث: 1163
’’سنو! تم عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو، بلا شبہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں (تم ہی ان کے سب کچھ ہو اور وہ تمہارے رحم و کرم پر ہیں) اس کے علاوہ تم ان کی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے۔ ہاں اگر وہ کھلی بے حیائی (بد زبانی و بد سلوکی) کا ارتکاب کریں تو تم ان سے بستروں میں علیحدگی اختیار کرلو اور ان کو اس طرح ہلکی مار مارو جس سے ان کو شدید ضرب نہ آئے۔ اگر (اس حکمت عملی سے وہ ٹھیک ہوجائیں) تمہاری باتیں مان لیں تو تم ان کے لیے کوئی اور راستہ نہ ڈھونڈو (طلاق نہ دو)۔ یاد رکھو! تمہارے لیے تمہاری عورتوں پر حق ہیں اور اسی طرح تمھاری عورتوں کے لیے تم پر حق ہیں۔ تمہارا حق عورتوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ایسے لوگوں کو نہ آنے دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور تمہارے گھروں میں ان کو اِذنِ باریابی نہ دیں جن کو تم اچھا نہیں سمجھتے۔ سنو! اور ان عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کے لباس اور خوراک میں ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو (اس میں کوتاہی نہ کرو)۔‘‘
یہ ارشادِ مبارک بھی بڑا جامع ہے اور اس میں ازدواجی زندگی میں پیش آنے والے نشیب و فراز کے بارے میں بڑی مفید ہدایات دی گئی ہیں جن پر اگر میاں بیوی
صدق دل سے عمل کریں تو پیدا ہونے والی پیچیدگیاں آسانی سے سلجھ سکتی ہیں اور اخلاق و کردار کی کوتاہیوں کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنانے کا یہی اصول ہے کہ دونوں میاں بیوی اولاً ایک دوسرے کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کریں تاکہ کوئی ناخوشگوار مرحلہ ہی نہ آئے لیکن کسی کی کوتاہی سے اگر ایسا مرحلہ آ ہی جائے تو مذکورہ فرمان رسول میں بتلائی ہوئی حکمت عملی کو بروئے کار لا کر اس کا ازالہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
معاملات میں زیادہ بگاڑ، جس سے گھر اجڑ جاتے ہیں، اسی وقت آتا ہے کہ جب چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنے یا ان کو مناسب حکمت عملی سے سلجھانے کے بجائے، سخت اور نامناسب رویہ اختیار کیا جائے اور ان کو بڑھایا جائے۔ اس سے ایک چنگاری شعلہ بن جاتی ہے اور گھر بھسم ہو کر رہ جاتا ہے۔
بگاڑ کا ایک اور سبب مرد کا قوت برداشت اور صبر و دانائی سے کام لینے کے بجائے جلد بازی اور اپنی حاکمیت و قوامیت کا بے اعتدالی سے استعمال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر قوّام بنایا ہے، اس قوّامیت کا تقاضا ہے کہ وہ صنف نازک کی فطری کمزوری اور کجی کوحکمت و دانائی سے برداشت کرے نہ کہ کمزور کے مقابلے میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرے۔ اس قوت مردانگی کا بے جا استعمال بھی اکثر گھروں کے آرام و سکون کو برباد کر دیتا ہے۔
مذکورہ احادیث میں مرد کو یہی نکتہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عورت کے مقابلے میں اللہ نے مرد کو عقل و شعور اور جسمانی قوت زیادہ عطا کی ہے، اس اعتبار سے گھر کو آباد رکھنے میں اس کی ذمے داری بھی زیادہ ہے، اس کو ہر وقت حکمت و دانائی اور صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے۔ جو مرد انِ حق آگاہ اس نکتے کو سمجھ لیتے ہیں، وہ عورت میں موجود اس کی خوبیوں کی قدر کرتے اور کمزوریوں اور کوتاہیوں کو برداشت کرتے ہیں، نتیجتاً ان کی ازدواجی زندگی پر سکون گزرتی اور گھر جنت کا نمونہ بنا رہتا ہے اور جو مرد اس کے برعکس رویہ اختیار کرتے اور عورت کی خوبیوں کو نظر انداز کرکے اس کی فطری کجی (ٹیڑھی پسلی) کو سیدھا کرنے کی ناکام سعی کرتے ہیں، وہ اپنا گھر اجاڑ بیٹھتے ہیں۔
عورت کے ساتھ حسن معاشرت کی جو تاکید ہے، وہ پچھلے صفحات میں آپ نے پڑھ لی، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر وہ رہنما اصول بھی بیان کردیے جائیں جن پر عمل کرنے سے حسن معاشرت کا اہتمام آسانی سے ہوسکتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ رہنما اصول حسب ذیل ہیں، یہ دراصل مرد کے ذمے وہ حقوق ہیں جو اس پر عورت کی طرف سے عائد ہوتے ہیں، ان حقوق کی پوری رعایت اورادائیگی سے حسن معاشرت کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں۔
لیجیے! ملاحظہ فرمائیے۔
سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ پوری خوش دلی سے حق مہر ادا کیا جائے، اس میں قطعاً نہ کوتاہی کی جائے اور نہ اس میں بلا وجہ تاخیر۔ تاہم عورت رضا مندی سے اپنا یہ حق مہر معاف کردے تو بات اور ہے، عورت ایسا کر سکتی ہے لیکن بلا جبر و اکراہ، اپنی رضا مندی سے۔ اگر عورت یہ ایثار کرے تو مرد سے یہ ذمے داری ساقط ہوجائے گی۔
وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقَاتِـهِنَّ نِحْلَـةً ۚ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَىْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيٓئًا مَّرِيٓئًا
سورۃ النساء آیت نمبر 4
’’اور تم عورتوں کے حق مہر خوشی سے ادا کرو، اگر وہ خوشی سے اس میں سے کچھ معاف کردیں تو تم اسے رچتا پچتا کھا لو۔‘‘
ضروری نہیں کہ ہر مرد کو اس کی پسند اور خواہش کے مطابق بیوی مل جائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو سبحان اللہ۔ اللہ کا شکر ادا کرے۔ بصورت دیگر اس پر نہ گھٹن محسوس کرے اور نہ اس سے نفرت و کراہت کا اظہار۔ بلکہ نوشتۂ تقدیر سمجھ کر اسے برداشت کرے اور اس کے حقوق ادا کرے، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسی میں اس کے لیے بہتری کا سامان پیدا کردے، اس سے اللہ تعالیٰ اولاد صالح عطا فرما دے جو اس کے لیے دین و دنیا کی سعادت کا باعث بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـيْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّكُم
البقرۃ216
’’ہوسکتا ہے جس چیز کو تم ناپسند کرو، وہ تمھارے لیے بہتر ہو۔‘‘،
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے:
’’کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت (بیوی)سے بغض دلی نفرت نہ رکھے، اگر اس کے اندر کوئی ناپسندیدہ چیز ہے تو کوئی دوسری چیز پسندیدہ بھی ہوگی۔‘‘(؟)
مطلب یہ ہے کہ ہر انسان میں اچھائی اور برائی دونوں ہی ہوتی ہیں۔ اس لیے نباہ کا طریقہ یہی ہے کہ برائیوں کو نظر انداز کرکے اچھائیوں (خوبیوں) پر نظر رکھی جائے۔ انسان کو اپنے والدین، اولاد، بہن بھائیوں کے معاملے میں بھی یہی اصول اپنانا پڑتا ہے، اس کے بغیر چارہ نہیں، ورنہ انسان کا مذکورہ رشتوں کا نبھانا بھی ناممکن ہوجائے۔
بیوی کے لیے بھی اسی اصول کو سامنے رکھا جائے تو بیوی کے ساتھ، اس کی بعض ناپسندیدہ باتوں کے باوجود نباہ آسان ہوجاتا ہے اوراس صبر و ضبط کے صلے میں اس کو اللہ تعالیٰ دین و دنیا کی بہت سی سعادتوں سے بھی نواز دیتا ہے۔
گھریلو معاملات میں، رشتے داروں کے معاملات میں ، حتی کہ اپنے ہی بچوں کے معاملات میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہوتا رہتا ہے اور خانگی زندگی اکثر وبیشتر اسی طرح گزرتی ہے، الا ماشاء اللہ۔ اگر کسی وقت یہ اختلاف شدت اختیار کر جائے تو مرد کو چاہیے کہ وہ صبر و تحمل اور در گزر سے کام لے اور کسی بھی اختلاف یا مسئلے کو اپنی انا اور وقار کا مسئلہ نہ بنائے۔ انا اور وقار کا مسئلہ بنا لینے سے وہ اختلاف ختم یا کم نہیں ہوتا بلکہ اس کی شدت ووسعت میںاضافہ ہوجاتا ہے اور بہت سی خرابیوں اور مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔ اور اگر اپنی انا کو دبا کر افہام و تفہیم اور تواضع سے کام لیا جائے تو بڑے سے بڑا اختلاف بھی ختم یا کم ہوجاتا ہے اور کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنے سے اتفاق رائے پیدا ہوجاتا ہے۔
بعض مرد نہایت خود پسند ہوتے ہیں، وہ کسی کو بھی اختلاف رائے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور کسی سے مشورہ لینے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگ اپنے آپ ہی کو عقلِ کل سمجھتے اور بیوی کی رائے کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ہر معاملے میں اپنی من مانی کرتے اور گھر میں ڈکٹیڑ شپ (آمریت ) نافذ کرتے ہیں۔
یہ رویہ بھی خوش گوار ماحول کے منافی ہے جب کہ گھریلو زندگی کی خوش گواری کے لیے ماحول کی خوش گواری نہایت ضروری ہے اور ایسا تب ہی ہوسکتا ہے کہ مرد بیوی کو زندگی کا دوسرا پہیہ سمجھے، جیسا کہ وہ واقعتاً ہے، اور ہر اہم معاملے میں اس کو اعتماد میں لے کر فیصلہ
کرے اور اس سے مشاورت کا اہتمام کرے، اس کے دلائل سنے اور اپنے دلائل اس کو سنائے ، اس طرح زیر بحث مسئلے کے سارے پہلو سامنے آجائیں گے جس کی روشنی میں بہتر فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا۔
اس سلسلے میں ذیل کی حدیث سے ہمیں کافی رہنمائی ملتی ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ا۔‘
’’اللہ کی قسم! ہم زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت وہ احکام نازل فرمائے جو (اسلام نے عورتوں کی بابت دیے۔) اور ان کو بہت سی رعایتیں دیں (جس سے ان کے اندر اعتماد اور گھریلو معاملات میں اختلاف رائے کا شعور پیدا ہوا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ) ایک مرتبہ میں اپنی بیوی کو کسی بات کا حکم دے رہا تھا کہ (اس نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا) اگر آپ یہ کام اس اس طرح کر لیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ میں نے اس سے کہا: تجھے میرے معاملے میں دخل دینے کا کیا حق ہے؟ اور میرے حکم سے سرتابی کیوں کرتی ہے؟ اس نے مجھ سے کہا: ابن خطاب! آپ پر مجھے تعجب ہے، آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بات پر بحث و تکرار نہ کی جاے، حالانکہ آپ کی بیٹی (ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث و تکرار کرتی ہے جس کی وجہ سے (بعض دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارا دن اس سے ناراض رہتے ہیں۔‘‘
[3] صحیح البخاري، حدیث: 4913
اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور لطف و کرم کا معاملہ کرنے کا جو حکم دیا ہے، اس کے نتیجے میں مسلمان عورت کے اندر جو شعور اور اعتماد پیدا ہوا، جس پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ازواج مطہرات کے معاملے میں عمل کیا، اس کی ایک جھلک حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ عورت کو اہمیت نہ دینا اور استبداد رائے کا مظاہرہ کرنا یکسر غلط اور حسن معاشرت اور اسوۂ رسول کے خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت ، دونوں کو الگ الگ مقاصد کے لیے تخلیق کیا ہے اور اسی مقصد تخلیق کے تحت دونوں کو جسمانی، ذہنی اور دماغی صلاحیتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف عطا کی ہیں۔ پھر اس کے مطابق دونوں کا دائرۂ کار بھی متعین فرما دیا ہے۔ عورت کا دائرۂ کار گھر کی چار دیواری ہے جہاں وہ خانگی امور (کھانے پکانے ، صفائی دھلائی وغیرہ) بچوں کی دیکھ بھال، ان کی تربیت و نگرانی، گھر کی حفاظت اور خاوند کے مال کی حفاظت اور خاوند کی خدمت وغیرہ کی ذمے دار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو صلاحیتیں بھی ایسی ہی دی ہیں کہ وہ یہ سارے امور نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دے لیتی ہے۔
اسی لیے اس کو حکم ہے :
وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ
الأحزاب33
’’تم اپنے گھروں میں ٹک کر رہو۔‘‘
مرد کا دائرۂ کار بیرون در، یعنی گھر سے باہر کے امور ہیں، گھریلو نظام چلانے اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے لیے معاشی جدو جہد اس کی ذمے داری ہے، وہ تجارت کرے، کھیتی باڑی کرے، ملازمت کرے، گھر کا سودا سلف لائے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے امور اسی کے ذمے ہیں۔
اللہ نے مرد کی قوامیت کی ایک وجہ اس کا کسب معاش کا ذمے دار ہونا بتلائی ہے اور دوسری وجہ جو وہبی، یعنی اللہ کی عطا کردہ ہے، وہ عورت کے مقابلے میں اس کا عقلی و دماغی صلاحیتوں میں عورت سے ممتاز ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ
النساء:34
’’ مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں ۔‘‘
میں اسی نکتے کو بیان فرمایا ہے ۔
ایک شخص نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ہم میں سے کسی شخص کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَنْ تُطْعِمَہَا إِذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوھَا إِذَا اکْتَسَیْتَ وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ، وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَھْجُرْ إِلَّا فِی الْبَیْتِ
’’جب تو کھائے، اسے بھی کھلا، جب تو پہنے، اسے بھی پہنا، اس کے چہرے پر نہ مار، نہ اسے برا بھلا کہہ اور اس سے علیحدگی اختیار کرنی پڑے تو گھر کے اندر ہی کر (نہ اس کو گھر سے نکال اور نہ خود گھر سے نکل۔‘‘
ایک اور حدیث میں بیوی بچوں پر خرچ کرنے کو زیادہ اجرو ثواب کا باعث قرار دیا۔ فرمایا:
’دِیْنَارٌ أَنْفَقْتَہُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَدِینَارٌ أَنْفَقْتَہُ فِی رَقَبَۃٍ، وَدِینَارٌ تَصَدَّقْتَ بِہِ عَلٰی مِسْکِینٍ، وَدِینَارٌ أَنْفَقْتَہُ عَلٰی أَہْلِکَ أَعْظَمُہَا أَجْرًا الَّذِی أَنْفَقْتَہُ عَلٰی أَہْلِکَ‘[5]صحیح مسلم حدیث:995
’’ایک دینار وہ ہے جسے تو نے جہاد پر خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جسے تو نے کسی غلام کی آزادی پر خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جسے تو نے کسی مسکین پر صدقہ کیا، ایک دینار وہ ہے جو تو نے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کیا، ان سب میں سے زیادہ اجر کا باعث وہ دینار ہے جو تو نے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کیا۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں اہل و عیال پر خرچ کردہ دینار کو ’’افضل دینار‘‘ قرار دیا۔ فرمایا:
’أَفْضَلُ دِینَارٍ یُنْفِقُہُ الرَّجُلُ، دِینَارٌ یُنْفِقُہُ عَلٰی عِیَالِہِ‘[6]صحیح مسلم حدیث:994
’’سب سے افضل دینار ، جو آدمی خرچ کرے، وہ دینار ہے جو وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے۔‘‘،
انسان اگر اس نیت سے کمائے کہ میں نے وہ فریضہ ادا کرنا ہے جو اللہ نے مجھ پر بیوی بچوں کے نان نفقہ کے بارے میں عائد کیا ہے اور اس میں صرف حلال ذرائع ہی اختیار کرے، تو اس کا یہ کمانا اور اہل و عیال کو کھلانا سب صدقہ (نیکی ہی نیکی) بن جاتا ہے۔
’إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا أَنْفَقَ عَلٰی أَہْلِہِ نَفَقَۃً، وَہُوَ یَحْتَسِبُہَا کَانَتْ لَہُ صَدَقَۃٌ‘[7]صحیح مسلم حدیث:1002
’’مسلمان جب ثواب کی نیت سے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے تو وہ سب صدقہ (نیکی) بن جاتا ہے۔‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بیوی بچوں کی کفالت کی ساری ذمے داری مرد کی ہے عورت اس سے یکسر فارغ ہے۔ اس لیے کسی مرد کو بھی اپنی بیوی کو ملازمت اور محنت مزدوری کے لیے مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ نے اس کو گھر کی ملکہ بنایا ہے، اس کے اس اعزاز کو برقرار رکھا جائے، لوگوں کی ناز برداری کروا کر یا افسروں کا حاشیہ بردار بنا کر اس
کی بے توقیری نہ کی جائے اور نہ اس کو گھر سے نکال کر اس کی عصمت و تقدس کو خطرے میں ڈالا جائے۔
عورت کی عزت جس طرح گھر کے اندر رہنے میںہے، اسی طرح مرد کی عزت گھر سے باہر نکل کر کسب معاش کے لیے محنت و جدو جہد کرنے میںہے۔
جو مرد نکھٹو بن کر گھر میں بیٹھے رہتے ہیں یا دوستوں کے ساتھ گپ شپ ہی کو مقصد زندگی بنائے رکھتے ہیں اور اہل و عیال کے نان نفقہ کی ذمے داری سے غافل رہتے ہیں جس کی وجہ سے مجبوراً عورت کو اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں یا پھر اپنے میکے کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے، ظاہر بات ہے ایسے مردوں کا رویہ حسن معاشرت کے یکسر منافی ہے۔ حسن معاشرت کا تقاضا یہ ہے کہ مرد بہ رضا ورغبت اپنی بیوی بچوں کی کفالت کی ذمے داری بہ طریق احسن ادا کرے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اخراجات کے معاملے میں اسلام کی اعتدال پر مبنی تعلیمات کی طرف بھی کچھ اشارہ کردیا جائے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ہر معاملے میں افراط و تفریط کا سلسلہ عام ہے۔ معاشیات اور مالیات میں بھی یہ افراط و تفریط اکثر وبیشتر دیکھنے میں آتی ہے۔ کہیں اسراف و تبذیر ہے تو کہیں کنجوسی اور بخل کی انتہا۔ اسلام میں یہ دونوں رویے ناپسندیدہ ہیں۔
بیوی بچوں کے نان و نفقے پر کس طرح خرچ کیا جائے، اس کے لیے اسلام نے کسی حد کا تعین نہیں کیا ہے بلکہ انصاف پر مبنی ایک نہایت اہم اصول یہ بیان فرمایا ہے۔:
[لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ ۭ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ]الطلاق7
’’خوش حال آدمی اپنی خوش حالی کے مطابق (بیوی بچوں پر) خرچ کرے اور جسے رزق کم دیا گیا ہو، وہ اس مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔‘‘
دوسرا اصول یہ بیان فرمایا ہے:
وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ
الأعراف:31
’’کھائو پیو اور اسراف فضول خرچی نہ کرو، بلاشبہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ﴿٢٦﴾ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ﴿٢٧﴾
سورہ بنی االاسرائیل آیت نمبر 26 تا 27
’’فضول خرچی مت کر، یقینا فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بہت ہی ناشکرا ہے۔‘‘
قرآن نے فضول خرچی کے لیے اسراف اور تبذیر دو لفظ استعمال کیے ہیں۔ دونوں لفظ ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے پر بولے جاتے ہیں اس لیے دونوں کے معنی فضول خرچی کے کیے جاتے ہیں۔ بعض اس میں فرق کرتے ہی ہیں، وہ کہتے ہیں:
اسراف کے معنی ہیں، حد سے نکل جانا۔ اس لیے ہر چیز میں حد سے نکل جانا اسراف ہے۔ کھانے پینے، یعنی ضروریات زندگی پوری کرنے میں حد سے تجازو کرنا بھی اسراف ناپسندیدہ ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’کُلُوا وَاشْرَبُوا وَالْبَسُوا وَتَصَدَّقُوا فِی غَیْرِ اِسْرَافٍ وَلَا مَخِیلَۃٍ‘
صحیح البخاری :کتاب اللباس،باب قول اللہ تعالیٰ:قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ۔
’’کھائو، پیو، پہنو اور صدقہ کرو۔ البتہ دو باتوں سے گریز کرو، اسراف اور تکبر سے۔‘‘
صدقے میں تو اسراف پسندیدہ ہونا چاہیے کیونکہ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا مطلوب ہے ، لیکن اس حدیث میں صدقے میں بھی اسراف سے روکا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کی آمدنی تھوڑی ہے، وہ صاحب حیثیت نہیں ہیں۔ ان کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کریں، اس کے بعد دیگر مدات خیر پر خرچ کریں اور وہ بھی اتنی مقدار میں جس سے نفقات واجبہ متأثر نہ ہوں۔ ایسے لوگوں کے لیے حکم ہے کہ وہ صدقہ بھی اپنی مالی پوزیشن کے مطابق ایک حد تک ہی کریں، اس سے تجاوز نہ کریں۔ ورنہ اصحاب حیثیت کے لیے تو اجازت ہے کہ وہ جتنا چاہیں اللہ کی راہ میں خرچ کر سکتے ہیں بلکہ ان کو تو خوب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔
اور تبذیر کے معنی، ناجائز امور میں خرچ کرنا ہیں، چاہے تھوڑا ہی ہو۔ بہر حال جائز امور میں بھی فضول خرچی کی اجازت نہیں ہے۔ جب کہ ناجائز امور میں تو خرچ کرنے کی قطعاً اجازت ہی نہیں ہے۔
فضول خرچی سے ممانعت ، افراط کی ممانعت ہے جو ہمارے معاشرے میں زندگی کے ہر شعبے میں عام ہے بلکہ یہ افراط (فضول خرچی) ہمارا قومی شعار بن چکی ہے۔
اس کے مقابلے میں تفریط (کوتاہی) ہے یعنی ضرورت کے مطابق بھی خرچ نہ کرنا بلکہ تنگ دلی، کنجوسی اور بخل کا مظاہرہ کرنا۔ بعض لوگ اس مرض میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور اس کا مظاہرہ وہ اپنے اہل و عیال کے معاملے میں بھی کرتے ہیں۔ بیوی کو پورا خرچ نہ دینا، ایک ایک پائی کا اس سے حساب لینا۔ یا گھریلو سامان خود لا کر دینا تو وہ پورا لا کر نہ دینا۔ یا بیوی کو حسب ضرورت کچھ خریدنے کے لیے جیب خرچ بھی مہیا نہ کرنا، اخراجات کے معاملے میں بیوی پر اعتماد نہ کرنا اور معمولی معمولی اخراجات کے لیے بھی اس کا خاوند کے رحم وکرم کا محتاج ہونا، وغیرہ۔ یہ ساری صورتیں بخل اور کنجوسی کی ہیں جو ناپسندیدہ ہیں۔
ایسے خاوندوں کی بیویاں جب میکے (کچھ دنوں کے لیے اپنے والدین کے ہاں) جاتی ہیں تو بالکل خالی ہاتھ جاتی ہیں، خاوند ان کو جیب خرچ دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ وہ والدین کے ہاں معمولی معمولی ضروریات کے لیے بھی والدین ہی سے رقم لینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ والدین کے ہاں ان کی حیثیت مہمان کی ہوتی ہے اور والدین حتی الامکان حسب استطاعت اپنی مہمان بیٹیوں اور نواسے نواسیوں کی مہمان نوازی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے حتی کہ بچوں کی ضروریات کے لیے بھی کچھ خرچ کرنا پڑے تو وہ دریغ نہیں کرتے۔ لیکن ایسے خاوندوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کا یہ رویہ اخلاقاً اور شرعاً صحیح ہے؟آخر شادی کے بعد بیوی بچوں کے نان و نفقہ کا مکمل ذمے دار خاوند ہے۔ اس کی بیوی چند دنوں کے لیے ماں باپ کے پاس جائے تو بلا شبہ اس کو کھلانا پلانا تو مہمان نوازی کا ایک حصہ ہے اور ماں باپ یہ فریضہ نہایت خوش دلی سے ادا کرتے ہیں۔ لیکن کیا بیوی کو یا بچوں کو دوائی کی ضرورت ہو، یا بچوں کے بعض اضافی اخراجات ہوں ۔ کیا ان کے لیے بھی رقم مہیا کرنا والدین کی ذمے داری ہے؟ نہیں، یقینا نہیں۔ اس کا ذمے دار خاوندہے۔ اگر وہ بیوی کو خالی ہاتھ میکے چھوڑ کر جاتا ہے تو یقینا وہ کنجوسی اور بخیلی کے علاوہ بد اخلاقی کا بھی مظاہرہ کرتا ہے اور اپنے سسرال پر وہ ناروا بوجھ ڈالتا ہے جس کے ذمے دار وہ نہیں ہیں، بلکہ خاوند ہے، گو وہ خاموشی سے اضافی خرچ بھی پورا کردیں لیکن خاوند کی یہ کنجوسی اور بد اخلاقی ان کے لیے بار خاطر ضرور بنتی ہے اور بیوی کے لیے بھی شرمندگی کا باعث، اگر بیوی حساس اور سمجھ دار ہو۔
بہر حال بعض لوگوں کا یہ رویہ کنجوسی اور بخیلی کی انتہا ہے جو حسن معاشرت، حسن اخلاق کے منافی اور شریعت سے متجاوز ہے۔
اسلام میں ان دونوں انتہائوں کے درمیان کفایت شعاری کی تلقین ہے۔
شریعت اسلامیہ میں نہ اسراف پسندیدہ ہے اور نہ کنجوسی اور بخیلی۔ بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ وہ فضول خرچی کے مقابلے میں جزر سی اور کفایت شعاری کو پسند کرتا ہے لیکن کفایت شعاری کا مطلب بخل نہیں، بلکہ حد سے تجاوز نہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ﴿٢٩﴾
سورہ بنی اسرائیل\الاسراء آیت نمبر 29
’’اور نہ رکھ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن کے ساتھ بندھا ہوا اور نہ اسے کھول دے بالکل کھول دینا، کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا، تھکا ماندہ۔‘‘[ بنی اسرائیل17:29]
اس آیت کی تفسیر ’’احسن البیان ‘‘ میں درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:
’’اس میں انفاق (خرچ کرنے) کا ادب بیان کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان نہ بخل کرے کہ اپنی اور اپنے اہل عیال کی ضروریات پر بھی خرچ نہ کرے اور دیگر مالی حقوق واجبہ بھی ادا نہ کرے۔ اور نہ فضول خرچی ہی کرے کہ اپنی وسعت اور گنجائش دیکھے بغیر ہی بے دریغ خرچ کرتا رہے۔ بخل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان ملوم یعنی قابل ملامت و مذمت قرار پائے گا اور فضول خرچی کے نتیجے میں محسور (تھکاماندہ اور پچھتانے والا)۔
محسور ، اسے کہتے ہیں جو چلنے سے عاجز آچکا ہو، فضول خرچی کرنے والا بھی بالآخرخالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔
اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ۔ یہ کنایہ ہے بخل سے۔ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے۔ یہ کنایہ ہے فضول خرچی سے۔‘‘[9]
بیوی کے ساتھ خوش طبعی اور اس کی تفریحِ طبع کے مواقع پیدا کرنا، یہ بھی حسن معاشرت کا ایک حصہ ہے۔ لیکن اس کا سرو سامان بھی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی کرنا ہے نہ کہ اس سے تجاوز کرکے، نیز اپنی وسعت کے مطابق نہ کہ اس سے بڑھ کر، جس سے وہ خود زیر بار ہوجائے۔
جیسے آج کل ٹی وی ڈراموں ، فلموں اور تھیٹر کے فحش مزاحیہ ڈراموں کو تفریح کا سامان سمجھا جاتا ہے، اس کے لیے گھروں میں ٹی وی ،وی سی آر اور کیبل اور نیٹ وغیرہ کا انتظام کیا جاتاہے یا سینمائوں یا تھیڑ ہالوں (الحمراء وغیرہ) کا رخ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب شیطانی تفریح ہے کیونکہ ان میں قدم قدم پر شریعت سے تجاوز ہے، ان میں ہیجان انگیز جنسی مناظر اور حرکات سے شہوانی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے، فحاشی و عریانی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور مردو زن کا بے باکانہ اختلاط ہوتا ہے اور اس طرح کی متعدد قباحتوں اور غیر شرعی حرکتوں کا وہاں ارتکاب ہوتا ہے۔
شریعت کی نظر میں مذکورہ چیزیں ’’تفریح طبع‘‘ کا نہیں، خباثت و کثافت اور شیطنت کی مظہر ہیں، ان سے بے حیائی، فحاشی اور مغرب کی حیا باختہ تہذیب کا فروغ ہورہا ہے۔ اس لیے ان کا گھروں میں رکھنا جرم عظیم ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا و آخرت میں شدید وعید بیان فرمائی ہے:
لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ ﴿٢٩﴾
سورہ النور آیت نمبر 29
’’جو لوگ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلنے کو پسند کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔‘‘
جب بے حیائی کے پھیلنے کو پسند کرنے والوں کے لئے اتنی سخت وعید ہے تو جو خود اپنے گھر والوں میں اس کو پھیلانے کے ذمہ دار ہیں وہ کتنی سخت وعید کے مستحق ہونگے؟اسی طرح دور دراز کی تفریحی مقامات پر بیوی بچوں کو لے جانا بھی ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔ یہ تفریح صرف وہ لوگ برداشت کر سکتے ہیں جن کے پاس وسائل کی فراوانی ہے، ایسے لوگ بیوی بچوں سمیت ایسے مقامات پر جا سکتے ہیں اور وہاں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے وہاں کے حسین قدرتی مناظر اور روح افروز شادابی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
اور جووسائل فراواں سے محروم ہیں، وہ مقامی باغات اور تفریح گاہوں میں حسب ضرورت جاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اور بھی جو مناسب تفریح کے مواقع اور طریقے ہیں، انھیں اختیار کیا جا سکتا ہے جس کے بعض نمونے ہمیں اسوۂ رسول میں بھی ملتے ہیں۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش مزاجی اور خوش طبعی کی ایک مثال یہ ملتی ہے کہ ایک مرتبہ سفر میں(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ تنہائی میسر آئی تو) آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا، حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف لائے تو میرے طاقچے کے آگے پردہ پڑا ہوا تھا، ہوا چلی تو اس نے پردے کا ایک حصہ ظاہر کردیا جس سے (طاقچے میں پڑے ہوئے) میرے کھلونے اور گڑیاں نظر آنے لگیں، آپ نے پوچھا: عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ میری گڑیاں ہیں۔ آپ نے ان میں کپڑے کا ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے دوپر تھے، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے جو میں ان کے درمیان دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا: یہ گھوڑا ہے۔ آپ نے پوچھا: ’’اور اس کے اوپر کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: اس کے دوپر ہیں۔ آپ نے کہا: ’’کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ نے سنا نہیں کہ
حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے پر تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے کہ میں نے آپ کی ڈاڑھیں دیکھیں۔‘‘[10]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چونکہ صغیر السن (کم سن) تھیں، اس لیے چھوٹی عمر کی بچیوں میں کھلونوں کے ساتھ (بالخصوص گڑے، گڑیائوں کے ساتھ )جو رغبت ہوتی ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اندر بھی یہ رغبت اور شوق تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مزاج و طبیعت کے مطابق ان کھلونوں پر کبھی کوئی اعتراض نہیں فرمایا اور ان کو ان کے ساتھ کھیلنے اور گھر میں رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ نیز محلے کی بچیاں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آ کر کھیلا کرتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا، خصوصاً عید اور خوشی کے موقع پر ، اور وہ آ کر قومی گیت بھی گایا کرتی تھیں۔ [11]
اس سے معلوم ہوا کہ بیوی کے مزاج و مذاق کے مطابق تفریح کی اشیاء بیوی کی دلجوئی اور دل داری کے لیے گھر میں رکھی جا سکتی ہیں بشرطیکہ شریعت میں ان کی اجازت ہو۔
دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ بچیاں اپنے ہاتھوں سے کھیل کود کے طور پر کپڑے کی جو گڑیاں بناتی ہیں، وہ جائز ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہیں فرمایا۔ البتہ آج کل جو مشینی گڑیاں (پلاسٹک وغیرہ کی) نکل آئی ہیں۔ جن میں سے بعض میں میوزک بھی لگا ہوتا ہے۔ نیز ان سے چھوٹے بچے کھیلتے ہی نہیں، بلکہ ان کو شو پیس کے طور پر شو کیسوں میں بطور سجاوٹ کے بھی رکھا جاتا ہے، ان کا جواز محل نظر ہے کیونکہ ہاتھ کی بنی ہوئی بے ہنگم سی گڑیا اور مشینی گڑیا، ان د ونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، اول الذکر کے جوازسے ثانی الذکر کا جواز ثابت نہیں ہوسکتا، نہ ایک کو دوسرے پر قیاس ہی کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح خوشی کے موقع پر چھوٹی بچیاں ایسے گیت بھی گا سکتی ہیں جن میں آباء و اجداد کی خدمات اور کارناموں کا تذکرہ ہو۔ کم سن (صغیر السن) بیویوں میں کھیل کود کی جو رغبت ہوتی ہے، اس کا ایک اور واقعہ احادیث میں ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ذوق اور شوق کی کس طرح رعایت فرمائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’عید کا دن تھا، حبشی مسجد نبوی میں (ایک جنگی گتکہ بازی(کھیل، کرتب) اور نیزہ بازی کر رہے تھے، آپ نے مجھ سے پوچھا: تو اس کھیل کو دیکھنا پسند کرتی ہے؟‘‘ میں نے کہا: ہاں۔ پس آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا، میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا (کیونکہ آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پیچھے سے کاندھوں پر اٹھایا ہوا تھا) اور آپ کرتب بازوں کو فرماتے تھے۔
’دُونَکُمْ یَا بَنِی أَرْفِدَۃَ‘
’’شاباش، اے بنو ارفدہ (یہ حبشیوں کا لقب ہے)۔‘‘
(دُونَکُمْ، کلمۂ ترغیب ہے، یعنی آپ ان کو ہلا شیری دیتے تھے کہ کھیلو، خوب کھیلو)۔
یہاں تک کہ جب میں تھک گئی، تو پوچھا: ’’بس‘‘ میں نے کہا: ہاں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کہ جب تک میں خود نہیں تھک گئی آپ نے مجھے اپنی چادر سے پردہ کیے ہوئے اپنے کاندھے پر اٹھائے رکھا اور اپنے کھیل کود دیکھنے کے شوق پر اس طرح تبصرہ فرمایا:
’فَاقْدُرُوا قَدْرَ الْجَارِیَۃِ الْحَدِیثَۃِ السِّنِّ الْحَرِیصَۃِ عَلَی اللَّھْوِ‘[12]صحیح البخاري، حدیث :5236,950,454
’’تم اس نو عمر لڑکی کا اندازہ کرو جو کھیل کو دیکھنے کی اتنی شوقین ہے۔‘‘
اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بیوی کم سن ہو تو خاوند کو خاص طور پر اس کی دل داری اور دل جوئی کا اور اس کی دلچسپی کے سامان کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کے ایسے کھیل، جن کا جواز شریعت نے تسلیم کیا ہے، ان کا دیکھنا عورتوں کے کے لیے جائز ہے، بشرطیکہ پردے کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔
آج کل کرکٹ، ہاکی وغیرہ، جن کے بڑے بڑے میچ اور مقابلے ہوتے ہیں اور پوری قوم کو ان کو دیکھنے کا بخار چڑھا ہوتا اور ان کے نتیجے کا نہایت بے چینی سے انتظار ہوتا ہے، یہ کھیل سراسر ناجائزہیں جن میں بے پناہ قومی وسائل ضائع کیے جاتے ہیں اور وقت کا ضیاع الگ۔ ان کا نہ کھیلنا جائز ہے اور نہ دیکھنا، سننا۔ نہ مردوں کے لیے اور نہ عورتوں بچوں کے لیے۔
اسلام میں صرف وہ کھیل جائز ہیں جن میں جنگی تربیت کا سامان ہو، جیسے گھوڑوں کا مقابلہ، نیزہ بازی، وغیرہ۔ انھی کھیلوں میں ایک کھیل بیوی کے ساتھ ملاعبت ہے یعنی اس کے ساتھ دل لگی اور پر لطف ہنسی مذاق، جس سے معاشرتی زندگی میں حسن اور خوش گواری پیدا ہو۔
صحیح بخاری میں گیارہ عورتوں کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے کہ وہ ایک جگہ جمع تھیں، انھوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا: ہر عورت اپنے اپنے خاوند کی صحیح صحیح تفصیل بیان کرے کہ وہ اخلاق و کردار کا کیسا ہے اور بیوی کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے؟ تو ہر عورت نے اپنے اپنے خاوند کی بابت نہایت اختصار سے تفصیل بیان کی، ان میں ایک عورت ام زرع تھی، اس نے اپنے خاوند ابو زرع کی بابت جو وضاحت کی اس میں اس کے خاوند اور اس کے بچوں وغیرہ کا کردار سب سے بہتر تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی تفصیلات سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
’کُنْتُ لَکِ کَأَبِی زَرْعٍ لِأُمِّ زَرْعٍ‘[13]صحیح البخاري، حدیث: 5189
’’میں تیرے لیے ایسا خاوند ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لیے تھا۔‘‘
عورت خلقی اور جسمانی اعتبار سے مرد سے کمزور ہے، اسی لیے اسے صنف نازک سے تعبیر کیا جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک مرتبہ قواریر (آبگینے) قرار دیا ہے۔ آبگینہ(شیشہ) بھی نہایت نازک ہوتا ہے۔ [14]
مرد اس کے مقابلے میں قوی الجثہ بھی ہے اور زیادہ ذہنی و دماغی صلاحیتوں کا حامل بھی۔ اسی لیے گھر کی قوامیت (حاکمیت) اسی کو عطا کی گئی ہے کیونکہ حاکمیت کے لیے قوت و طاقت بھی ضروری ہے اور ذہنی و دماغی صلاحیتوں کی فراوانی بھی۔ لیکن اس طاقت کا مطلب، کمزوروں پر دست درازی کرنا نہیں ہے بلکہ صبرو ضبط کا مظاہرہ اور رحم و کرم کا معاملہ کرنا ہے۔
مردوں کی ایک معتدبہ تعداد اپنی اس خداد داد طاقت کا غلط استعمال کرتی اور عورتوں پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرتی ہے حالانکہ ظلم و زیادتی کا ارتکاب حسن معاشرت کے منافی ہے جب کہ حکم بیوی کے ساتھ حسن معاشرت (اچھا سلوک کرنے) کا ہے۔
ظلم کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً:
اس کے نان ونفقہ، یعنی ضروریات زندگی مہیا کرنے میں کوتاہی کرنا۔
اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے عورت پر ناروا پابندیاں لگانا، جیسے تو اپنے میکے نہیں جا سکتی، فلاں سے میل ملاپ نہیں رکھ سکتی، اس طرح کی دیگر پابندیاں جن کا شرعاً جواز نہ ہو۔
لڑکیوں کی مسلسل پیدائش پر، جس میں مرد کی طرح وہ بھی بے اختیارہے، طلاق کی دھمکی دینا، یا اس کو اچھا نہ سمجھنا، اس کی بے عزتی کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ لڑکے یا لڑکیاں دینا، یہ مکمل طور پر اللہ کے اختیار میں ہے، کسی انسان کی خواہش یا کوشش کا اس میں دخل نہیں۔ اس کے باوجود صرف عورت ہی کو اس کا ذمے دار ٹھہرا کر اس کو طعن و تشنیع کا اور ظلم و زیادتی کا ہدف (نشانہ) بنانا حماقت بھی ہے اور ظلم کا ارتکاب بھی۔
ایک ظلم یہ بھی ہے کہ مرد بعض دفعہ ناراض ہو کر بیوی سے بول چال بند کردیتا ہے، یا اس سے جنسی تعلق قائم نہیں کرتا، یا اس کے اور بعض حقوق ادا نہیں کرتا، یا اس کی بابت قسم کھا لیتا ہے۔ ظاہر بات ہے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے خاوند کی یہ بے رخی یا بائیکاٹ عورت کے لیے ناقابل برداشت ہے، شریعت اس ظلم کی کس طرح اجازت دے سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت قرآن مجید میں فرمایا ہے:
لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٢٢٦﴾ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
سورہ البقرہ آیت نمبر 226 تا 227
’’جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لیتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے، اگر وہ رجوع کرلیں تو اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے اور اگر وہ طلاق کا عزم کر لیں تو اللہ بہت سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔‘‘[15]
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں قطع تعلقی کی زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین فرما دیا ہے، اور وہ چار مہینے ہے، اس کے اندر اندر وہ اپنا تعلق بحال کرلے ورنہ اس کے بعد اس کو طلاق دینی ہوگی۔ اس آیت کی تفسیر حسب ذیل ہے:
’’ایلاء‘‘ کے معنی قسم کھانے کے ہیں، یعنی کوئی شوہر اگر قسم کھالے کہ میں اپنی بیوی
سے ایک مہینہ یا دو مہینے (مثال کے طور پر) تعلق نہیں رکھو ںگا۔ پھر قسم کی مدت پوری کرکے تعلق قائم کر لیتا ہے تو کوئی کفارہ نہیں۔ ہاں اگر مدت پوری ہونے سے قبل تعلق قائم کرے گا تو کفارۂ قسم ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر چار مہینے سے زیادہ مدت کے لیے یا مدت کے تعین کے بغیر قسم کھاتا ہے تو اس آیت میں ایسے لوگوں کے لیے مدت کا تعین کردیا گیا ہے کہ وہ چار مہینے گزرنے کے بعد یا تو بیوی سے تعلق قائم کر لیں یا پھر اسے طلاق دے دیں۔ (اسے چار مہینے سے زیادہ معلق رکھنے کی اجازت نہیں ہے) پہلی صورت میں (تعلق قائم کرنے) میں اسے کفارۂ قسم ادا کرنا ہوگا۔ اگر دونوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کرے گا تو عدالت اس کو دونوں میں سے کسی ایک بات کو اختیار کرنے پر مجبور کرے گی کہ اس سے تعلق قائم کرے یا طلاق دے۔ تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو۔‘‘[16]
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام میں عورت کے ساتھ کسی بھی قسم کا بائیکاٹ کرکے اس کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ یہ عورت پر ظلم ہے۔ اگر غصے یا ناراضی میں خاوند ایسی کوئی بات کر بیٹھے تو اس کو زیادہ طول نہ دے بلکہ اس کو جلد از جلد ختم کرکے اپنا تعلق بحال کرلے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو ایک متعینہ مدت کے بعد بذریعۂ عدالت عورت کو اس ظلم سے نجات دلوائی جائے گی۔
ایک ظلم زمانۂ جاہلیت میں عورتوں پر یہ کیا جاتا تھا کہ نہ ان کو صحیح طریقے سے آباد کیا جاتا تھا اور نہ طلاق دے کر ان کو آزاد کیا جاتا تھا، مرد عورت کو طلاق دیتا اور عدت گزرنے سے قبل رجوع کر لیتا، اور جس عورت کو تنگ کرنا اور اس کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھنا مقصود ہوتا تو وہ عمر بھر اسی طرح طلاق دے دے کر رجوع کرتا رہتا۔
اسلام نے اس ظلم کا سد باب کرنے کے لیے ایسی طلاق کی ، جس کے بعد عدت کے اندر رجوع جائز ہے، تعداد مقرر فرمادی کہ وہ صرف دو مرتبہ ہے۔
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۠
البقرۃ:229
یعنی زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ طلاق دے کر (عدت کے اندر) رجوع کیا جا سکتا ہے، دو مرتبہ حق طلاق استعمال کرنے کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دی جائے گی تو رجوع اور صلح کا حق ختم، اور ہمیشہ کے لیے جدائی، حتی تنکح زوجا غیرہ۔
دوسری نصیحت مسلمانوں کو یہ فرمائی گئی کہ طلاق دینے کے بعد اگر رجوع اور صلح کی ضرورت ہو (جس کا اللہ نے دو مرتبہ موقع عطا فرمایا ہے) تو اس رجوع کا مقصد عورت کو تنگ کرنا، اس کو نقصان پہنچانا اور اس کے ساتھ زیادتی کرنا نہ ہو بلکہ خوش اسلوبی کے ساتھ اس کو آباد کرنا ہو۔
وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ ۭ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اللّٰهِ ھُزُوًا
البقرۃ231
’’(طلاق دینے کے بعد عدت گزرنے سے قبل اگر تم ان کو روکو یعنی صلح کر لو) تو تم ان کو نقصان پہنچانے کے لیے نہ روکو تاکہ تم ان سے زیادتی کرو اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ یقیناًاپنے آپ ہی پر ظلم کرے گا اور تم اللہ کی آیتوں کو ہنسی مذاق نہ بنائو‘‘
کتنی سخت وعید ہے کہ ایسے مردوں کے لیے جو طلاق دے کر رجوع تو کر لیں لیکن بیوی کے حقوق ادا نہ کریں اور ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا رویہ جاری رکھیں۔ یہ ان کا اپنے نفس پر بھی ظلم ہے (کہ اس کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنا رہے ہیں)۔ اور اللہ کے احکام کے ساتھ استہزاء و مذاق بھی ہے اور اس پر بھی وہ اللہ کی سزا کے مستوجب قرار پا سکتے ہیں۔
حسن معاشرت کے تقاضے عدل و انصاف کے اہتمام کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے۔ اور اس کی دو موقعوں پر خاص طور پر بڑی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک جب کہ مشترکہ خاندان (جوائنٹ فیملی سسٹم) میں رہائش ہو۔ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ دوسرے بہن بھائی، ان کی اولاد اور والدین سب ایک ہی مکان میں رہتے ہوں۔ وہاںبہن بھائیوں اور والدین کے حقوق کے ساتھ اپنی بیوی کا حق اس طرح ادا کرنا کہ نہ اس کے ساتھ کوئی زیادتی ہو اور نہ بہن بھائیوں اور والدین کو یہ شکایت ہو کہ ان کے حقوق میں کوتاہی ہورہی ہے۔
ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ہم میں سے کسی شخص کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَنْ تُطْعِمَھَا إِذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوھا إِذَا اکْتَسَبْتَ أَوِاکْتَسَبْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَھْجُرْ إِلَّا فِی الْبَیْتِ‘ [17]سنن أبي داود، حدیث: 2124
’’جب تو کھائے، اسے کھلا، جب تو پہنے اسے پہنا، اس کے چہرے پر نہ مار، اسے برا بھلا نہ کہہ اور اس سے علیحدگی اختیار کرنی پڑے تو گھر کے اندر ہی کر۔‘‘
اس حدیث پر صحیح معنوں میں عمل کرنا ہے، چاہے میاں بیوی علیحدہ ایک مکان میں رہتے ہوں یا مشترکہ خاندان کی صورت میں ایک مکان میں۔ دونوں صورتوں میں سب کے حقوق کے ساتھ بیوی کے ساتھ بھی حسن سلوک کے تقاضے مکمل طور پر ادا کرے۔
ہمارے معاشرے میں فیملی جوائنٹ سسٹم میں بھاوج نندوں اور ساس بہو کا مسئلہ بڑا
گھمبیر ہے لیکن اگر بیوی سُگَّھڑیعنی سلیقہ مند ہو اور وہ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کے اصول کو اپنائے رکھے، اسی طرح گھر کے بڑے بھی بہو کو بیٹی والا پیار اور شفقت دیں، نندیں اس کو اپنی بہن والی حیثیت دیں۔ نیز خاوند بھی نہایت سوجھ بوجھ اور حکمت عملی کے ساتھ سب کو اپنے اپنے مقام پر رکھتے ہوئے سب کے حقوق کا خیال رکھے، نہ بڑوں کے کہنے پر بیوی کے حقوق میں کوتاہی کرے اور نہ بیوی کی محبت میں والدین کے ادب و احترام یا ان کے حقوق میں کوتاہی کرے، تو وہ گھر روایتی جھگڑوں سے محفوظ اور جنت نظیر بن جاتا ہے اور ایسا تب ہی ہوتا ہے جب خاوند سمیت چھوٹے بڑے سب حسن معاشرت (اچھے رویے) کا اہتمام کریں۔
دوسرا اہم موقع عدل و انصاف کرنے کا وہ ہے جب ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں، دو ہوں یا تین یا چار۔ ایسی صورت میں خاوند کے لیے عدل و انصاف کرنا پل صراط سے گزرنے کی طرح نہایت مشکل ہوتا ہے۔
لیکن شریعت نے جہاں کسی معقول ضرورت کی وجہ سے ایک سے زیادہ چار بیویوں تک کی اجازت دی ہے (نہ کہ حکم) وہاں دوسری طرف ان کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات کا بھی بڑی سختی کے ساتھ حکم دیا ہے، بصورت دیگر ایک ہی بیوی پر قناعت کرنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾
النساء3
’’اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کے ساتھ گزارو کرو۔‘‘
گویا ایک سے زیادہ بیوی کی اجازت مشروط ہے عدل و انصاف کے ساتھ۔اگر یہ شرط پوری نہیں کر سکتے تو دوسری عورت سے نکاح کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ظاہر بات ہے کہ فطری طور پر خاوند کا دلی میلان کسی ایک کی طرف زیادہ ہوگا، یہ دل کا معاملہ ہے جس پر کسی کا اختیار نہیں ہے، لیکن کسی ایک بیوی کی محبت کا دل میں زیادہ ہونا یہ قابل گرفت ہے نہ عدل کے خلاف، بشرطیکہ یہ زیادہ محبت اس کو عدل و انصاف کے تقاضوں سے نہ روکے۔
عدل و انصاف اور مساوات کے حکم کی رو سے خاوند تمام بیویوں کے ساتھ لباس، خوراک اور دیگر ضروریات زندگی میں ان کے درمیان امتیاز نہیں کرتا، سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا اور سب کو ایک سی سہولتیں مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح میاں بیوی کے خصوصی تعلقات کی ادائیگی میں بھی مساوات کا اہتمام کرتا ہے۔سب کے پاس باری باری جاتا ہے، کسی کی باری پر اس کو محروم کرکے دوسری کے پاس نہیں جاتا۔ اس کے اس ظاہری انصاف سے عدل و مساوات کے وہ تقاضے یقینا پورے ہوجاتے ہیں۔ جو شرعاً مطلوب ہیں، چاہے اس کے دل میں کسی ایک بیوی کی محبت زیادہ ہی ہو۔ لیکن محبت کی اس زیادتی نے اس کو دوسری بیوی یا بیویوں کی حق تلفی پر مجبور نہیں کیا تو پھر یہ زیادتیٔ محبت عند اللہ مذموم نہیں ہوگی کیونکہ یہ دل کا معاملہ ہے اور دل میں سب بیویوں کی محبت یکساں نہیں ہوسکتی، تو جو چیز انسان کے اختیار سے باہر ہو، اس پر عندا للہ مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی تمام ازواج مطہرات میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ پیار تھا، اس لئے آپ نے اگرچہ باریاں بھی مقرر فرما رکھی تھیں (جس کی آپ پوری پابندی فرماتے تھے۔) اور عدل کا بھی پورا اہتمام فرما تے تھے: لیکن چونکہ دل میں محبت ایک بیوی کی زیادہ تھی، اس لیے
آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
’أَللّٰھمَّ ھٰذَا قَسْمِی فِیمَا أَمْلِکُ ، فَلَا تَلُمْنِي فِیمَا تَمْلِکُ وَلَا أَمْلِکُ‘[18]
’’یا اللہ! جن چیزوں میں میرا اختیار ہے، ان میں میں نے یہ باریاں مقرر کر رکھی ہیں۔ پس تو مجھے اس چیز پر ملامت نہ کرنا جس پر تیرا ہی اختیار ہے، میں اس میں بے اختیار ہوں۔‘‘
زیادہ بیویوں والے خاوند کے لیے خطرناک امر جو ہے، وہ یہ ہے کہ کسی ایک بیوی کی محبت، دوسری بیویوں کی حق تلفی کا باعث بن جائے اور وہ دوسری بیوی یا بیویوں کو معلقہ بنا کر رکھ دے، نہ ان کو طلاق دے کر آزاد کرے اور نہ ان کے حقوق ادا کرے۔
اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی زیادہ بیویاں رکھنے والوں کو تنبیہ فرمائی ہے:
[وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَةِ ] [ النساء129]
’’ اور تم سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ تم اپنی بیویوں میں ہر طرح سے عدل کرو، خواہ تم اس کی کتنی ہی خواہش رکھو ، لہٰذا تم کسی ایک ہی کی طرف پوری طرح مائل نہ ہو جائو کہ دوسری کو بیچ میں لٹکتی چھوڑدو۔‘‘
بہر حال عورت کے ساتھ ظلم اور نا انصافی کی کسی صورت میں اجازت نہیں ہے۔ ایک بیوی ہو تب بھی، ایک سے زیادہ ہو تب بھی۔ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا ایک بہت بڑی آزمائش ہے، بہتر ہے آدمی اس آزمائش میں نہ پڑے۔ اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے دوسری بیوی ناگزیر ہو تو اس رخصت سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ لیکن اس شرعی رخصت سے صرف دنیوی فائدہ ہی نہ اٹھائے، آخرت کی باز پرس کا بھی خیال رکھے جہاں وہی
شخص سرخ رو ہوگا جو عدل و انصاف کا اہتمام کرنے والا ہوگا۔
حسن معاشرت کا ایک پہلو یہ بھی کہ مرد حسب ضرورت گھریلو امور میں بھی عورت کا ہاتھ بٹائے اور اس باہمی تعاون کو اپنے مردانہ وقار اور شان کے خلاف نہ سمجھے۔ اس سے بھی ازدواجی زندگی میں خوش گواری آئے گی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضرت اسود رحمہ اللہ نے پوچھا:
’مَا کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَصْنَعُ فِیْ بَیْتِہٖ؟‘
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’کَانَ یَکُونُ فِی مِھْنَۃِ أَھْلِہِ تَعْنِی خِدْمَۃَ أَہْلِہٖ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ‘[19]
’’آپ گھر والوں کی خدمت میں (گھریلو امور میں تعاون) کیا کرتے تھے۔ (اس دوران میں) اگر نماز کا وقت ہوجاتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں شمائل ترمذی کے حوالے سے یہ حدیث نقل کی ہے، یہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’مَا کَانَ إِلَّا بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ، یَفْلِیْ ثُوْبَہُ، وَیَحْلِبُ شَاتَہُ، وَیَخْدِمُ نَفْسَہُ‘ وَلِأَحْمَدُ وَابْنِ حِبَّانَ مِنْ رِوَایَۃِ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ’یَخِیْطُ ثُوْبَہُ، وَیَخْصِفُ نَعْلَہُ‘[20]
’’آپ انسانوں میں سے ایک انسان ہی تھے، اپنے کپڑوں سے جوئیں خود ہی دیکھ لیتے، اپنی بکری کا دودھ دوہ لیتے، اپنا کام خود کر لیتے، اپنا کپڑا سی لیتے اور
اپنی جوتی بھی گانٹھ لیتے تھے۔‘‘
یعنی ہر کام اہلیہ ہی کے سپرد نہ کرتے، بلکہ چھوٹے موٹے کام خود بھی کر لیتے اور اس کو اپنی شان کے خلاف نہ سمجھتے، جیسے آج کل کے مردوں کا شیوہ ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے پیغمبر اتنی عظمت و شان کے باوجود بہت سے گھریلو امور خود ہی انجام دے لیا کرتے تھے اور اس میں کسر شان نہیں سمجھتے تھے، تو آپ کے مقابلے میں ہماری کیا حیثیت ہے؟ اس اسوۂ رسول کو اپنانے میں، جس میں معاشرتی زندگی کا حسن پیدا ہوتا ہے، ہم کیوں اپنی توہین محسوس کرتے ہیں؟
حسن معاشرت کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ جس طرح عورت کو یہ تاکیدی حکم ہے کہ مرد اس کو جب بھی اپنے پاس (خلوت میں) بلائے، وہ جس حالت میں بھی ہو، اس کی تعمیل کرے تاکہ مرد ادھر ادھر منہ نہ مارتا پھرے۔ اسی طرح مرد کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ عورت کے ساتھ بھرپور محبت کا اظہار کرے۔ عورت کے اندر فطری طور پر شرم و حیا کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے، سوائے چند شہوت زدہ عورتوں کے۔اس لیے وہ جنسی جذبات کی تسکین کے لیے بہت کم مرد کے سامنے پہل کرتی ہے۔ عموماً مرد ہی پہل کرتا اور اس کو اس کام کے لیے بلاتا اور آمادہ کرتا ہے۔
اس لیے مرد کی ذمے داری ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ ازخود بھرپور محبت کا اظہار کرے تاکہ اس کے اندر کوئی تشنگی نہ رہے اور وہ کسی اور کی طرف دیکھنے پر مجبور نہ ہو۔ اس کے لیے اس کو دو طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
(1)اس کے ساتھ ہنسی مذاق اور دل لگی کے ذریعے سے اس کی دلجوئی و دل داری کا اہتمام کرتا رہے (جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موقع ملتا تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرتے، ان کو حبشیوں کے جنگی کرتب دکھا کر ان کی تفریح طبع کا سامان کرتے، ان کو گڑیوں اور چھوٹی بچیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع فراہم کرتے، وغیرہ وغیرہ)۔
اسی لیے ایک حدیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے ساتھ ہنسی مذاق کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ آپ نے فرمایا:
’لَیْسَ مِنَ اللَّھْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ، تَادِیبُ الرَّجُلِ فَرَسَہُ، وَمُلَاعَبَتُہُ أَھْلَہُ وَرَمْیَہُ بِقَوْسِہٖ‘[21]
’’کھیل تین ہی ہیں۔ انسان کا اپنے گھوڑے کو سدھانا (جنگ کے لیے تیار کرنا) دوسرا، اس کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، (ہنسی مذاق اور دل لگی کرنا) تیسرا، اس کا اپنے تیر کمان سے تیر پھینکنے کی مشق کرنا۔‘‘
ان میں سے دو کھیلوں کا تعلق تو جنگی تیاریوں سے ہے جس سے مقصود مسلمانوں کو ہمہ وقت جہاد کے لیے تیار رکھنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کے بامقصد کھیلوں کے علاوہ دوسرے تمام کھیل ناجائز ہیں کیونکہ ان میں وقت کا بھی ضیاع ہے اور وسائل کا بھی ضیاع۔ البتہ ان کے علاوہ بیوی کے ساتھ ہنسی مذاق کو بھی ایک جائز کھیل تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ اس کا بھی ایک نہایت اہم فائدہ ہے اور وہ ہے گھریلو زندگی کا خوش گوار ہونا، اس لیے شریعت نے اس کی بھی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثِیبّہ (شوہر دیدہ عورت، مطلقہ یا بیوہ) کے مقابلے میں کنواری عورت سے شادی کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کی وجہ بھی یہ بیان فرمائی
ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھیلیں یعنی آپس میں دل لگی کریں اور ایک دوسرے سے وابستگی کا بھرپوراظہارکریں۔ ایک بیوہ کے ساتھ مرد اس طرح وابستگی کا اظہار نہیں کر سکتا جس طرح کنواری کے ساتھ کرتا ہے اور خود بیوہ بھی مرد کو اس طرح ٹوٹ کر نہیں چاہتی جیسے کنواری عورت سے متوقع ہوتا ہے۔
(1)دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عملی طور پر ازخود بیوی سے اظہار محبت مختلف پیرایوں سے کرتا رہے، اس کا انتظار نہ کرے کہ بیوی کی طرف سے اظہار ہو۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ وضو کی حالت میں بھی اپنی اہلیہ محترمہ کا بوسہ لے لیا کرتے تھے اور پھر نماز کے لیے تشریف لے جاتے، حتی کہ روزے کی حالت میں بھی بوسہ لے لیتے، اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کو اپنے جذبات پر پورا کنٹرول حاصل تھا، یعنی آپ نے دوسروں کو متنبہ فرمایا کہ بلا شبہ روزے کی حالت میں بیوی سے بوس و کنار کی اجازت ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے ، لیکن یہ عمل نوجوانوں کے لیے اور ایسے لوگوں کے لیے جن کو اپنے جذبات پر پورا کنٹرول نہ ہو، خطرناک بھی ہوسکتا ہے اور وہ جذبات کی رو میں بوسے کی حد سے تجاوز کرکے وہ کام کر بیٹھیں جس کاکفارہ دو مہینے کے روزے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاناہے۔
تاہم عام حالات میں عام لوگوں کے لیے روزے کی حالت کے علاوہ دیگر حالات اور اوقات میں اظہار محبت اور تعلق خصوصی کے لیے مواقع موجود ہیں، خود رمضان میں بھی رات کو ان تمام باتوں کی اجازت ہے جن کا تعلق میاں بیوی کی خلوت سے ہے۔ غالباً اسی لیے شریعت میں یہ بھی اجازت ہے کہ حالتِ جنابت میں سحری کھا کر روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ البتہ پھر نمازِ فجر کے لیے غسل کرنا ضروری ہے اور اس پر آسانی سے عمل کیا جا سکتا
ہے۔ یہ رخصت اسی لیے ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں تعلقات زن و شو ہر قائم کرنے میں کسی قسم کی دقت نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ عبادت میں بھی ایسا غلو (زیادتی) نا پسندیدہ ہے جس سے عورت کی حق تلفی ہواور وہ مقصد پورا نہ ہو جس کے لیے عورت سے نکاح کیا جاتا ہے، عورت ساری رات خاوند کی منتظر رہے اور میاں صاحب ساری رات نوافل اور عبادت میں گزار دیا کریں۔ حتی کہ عورت دن کے اوقات میں اس بات کی خواہش مند ہو لیکن عابد وزاہد خاوند کا دن بھی نفلی روزے میں گزرے اور وہ اس کو مستقل معمول بنالے اور عورت کو گل دستۂ طاقِ نسیاں بنا دے۔ اسلام میں ایسے زہد اور عبادت کی اجازت نہیں ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کا یہ واقعہ پہلے گزر چکا ہے کہ وہ زیادہ عبادت و زہد کے اسی شوق میں بیوی کا حق ادا نہیں کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے ان کو بلا کر پوچھا: کیا تم رات کو قیام کرتے ہو اور دن کو روزہ رکھتے ہو، کیا بات ایسے ہی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس طرح مت کرو، روزہ بھی رکھو اور روزہ چھوڑ بھی دیا کرو۔ رات کو قیام بھی کرو اور سویا بھی کرو۔ اس لیے کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔‘‘[22]
بہر حال حسن معاشرت کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ عورت کو دیگر آسائشیں اور راحتیں بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کی جنسی آسودگی کا بھی مکمل اہتمام ہو۔ حتی کہ اگر آدمی اس میں کمزوری محسو س کرے تو اس کے لیے ڈاکٹر یا حکیم کے مشورے سے مقویات
بھی استعمال کرتا رہے تاکہ عورت کو اس معاملے میں بھی تشنگی اور نا آسودگی کا احساس نہ ہو۔
عورت کے ساتھ حسن معاشرت (اچھا برتائو کرنے) میں ان تصورات کو سامنے رکھا جائے اور ان کے مقتضیات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جو اسلام نے عورت کی عزت و وقار کی بحالی کے لیے بیان کیے ہیں، تو ایک انسان عورت کے ساتھ بے رحمانہ، ظالمانہ اور سنگ دلانہ سلوک کا نہ تصور کر سکتا ہے اور نہ اس کو محض لذت اندوزی کا سامان سمجھ کر اسے اس کا اصل مقام دینے سے گریز کر سکتا ہے۔
اسلام میں عورت کی صرف چار حیثیتیں ہیں، وہ ماں ہے، بہن ہے، بیٹی ہے اور بیوی ہے۔ ان میں سے ہر حیثیت سے وہ نہایت قابل احترام ہے۔
ماں ہے تو باپ سے بھی زیادہ قابل احترام ہے اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے اس سوال پر کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ ، آپ نے فرمایا: ’’تمہاری ماں۔‘‘ اس نے سوال کیا، اس کے بعد کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں، اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ اس نے پھر پوچھا : اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ چوتھی مرتبہ سوال کرنے کے بعد فرمایا:’’تمہارا باپ۔‘‘ [23]
ماں، باپ سے بھی زیادہ حسن سلوک کی مستحق کیوں ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کے مقابلے میں ماں کو تین مرتبہ سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق
قرار دیا۔ اس کی توجیہہ میں شارحین حدیث نے فرمایا ہے کہ ماں کے زیادہ استحقاق کی تین وجوہ ہیں۔
(1)نو مہینے تک حمل کی تکلیف برداشت کرنا۔
(2)وضع حمل (زچگی، ڈلیوری) کے مرحلے سے گزرنا جو عورت کے لیے موت و حیات کا ایک نہایت سنگین مرحلہ ہوتا ہے۔
(3)پھر دو سال تک رضاعت (بچے کو دودھ پلانا) راتوں کو اس کے لیے اٹھناا اور اس کی ضروریات اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا جب کہ وہ بول کر اپنی حاجت اور تکلیف بیان نہیں کر سکتا۔
ان تینوں مراحل کی جاں گداز تکلیفوں میں مرد کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، صرف ماں کا جذبۂ شفقت ، جسے مامتا کہا جاتا ہے، اسے ان تکلیفوں کو برداشت کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور وہ ہنسی خوشی ان ذمے داریوں کو ادا کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر فطری طور پر ایسے اوصاف رکھے ہیں، جو مردوں سےمختلف ہیں، ان اوصاف کی وجہ سے وہ مذکورہ تینوں مشقتیں برداشت کر لیتی ہے، مرد عورت سے زیادہ قوت وطاقت کا مالک ہے لیکن اس کے باوجود مذکورہ مشقتیںاس کے لیے ناقابل برداشت ہیں، اس لیے مرد کی سمجھ داری کا تقاضا ہے کہ وہ عورت کی ان مشقتوں پر ہمدردی سے غور کرے، اگر وہ ایسا کرے گا تو کبھی عورت کسے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ نہیں کرے گا۔
وہ سمجھ لے گا کہ میری یہ بیوی میرے بچوں کی ماں ہے اور ماں ہونے کے ناطے سے وہ ان کی خاطر وہ وہ تکلیفیں برداشت کر لیتی ہے جو میں نہیں کر سکتا۔ مزید برآں وہ میری خدمت گزار ، میرے گھر کی محافظ ، میری خواہشات کے خاکوں میں رنگ بھرنے والی اور مجھے سکون و راحت بہم پہنچانے والی ہے، میرے گھر کی ملکہ اور میرے گھر کی زینت ہے۔ اگر یہ میرے گھر سے نکل جائے تو گھر امن وسکون کا گہوراہ ، مہر و محبت کا مرکز اور عزت ووقار کا سنگم نہیں رہے گا بلکہ ایک بے آب و گیاہ صحرا میں تبدیل ہوجائے گا جہاں کوئی روئیدگی ، شادابی اوربہجت و نشاط کی فرحت انگیزیاں نہیں ہوں گی۔ ایک جہنم کدے میں تبدیل ہوجائے گا جہاں زندگی کی رونق اور چہل پہل کے بجائے ویرانی اور جھلسا دینے والی باد سموم کا ڈیرہ ہوگا۔
بہر حال یہ گفتگو توعورت کے ماں اور بیوی ہونے کی حیثیت سے تھی۔ لیکن جب وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں ہوتی ہے تو وہ ان کی بیٹی اور بھائیوں کی بہن ہوتی ہے اور ان دونوں حیثیتوں میں بھی وہ محترم ہوتی ہے اور احادیث میں ان دونوں کے پالنے اور ان کی تربیت کرنے کی بڑی فضیلت وارد ہے۔ بیٹی ماں باپ کی آنکھوں کا تارا اور دلوں کا دلارا ہوتی ہے، ماں باپ اسے شہزادیوں کی طرح نازو نعمت سے پالتے اور اسے حسن تربیت سے آراستہ کرتے ہیں اور بہن کی حیثیت سے وہ بھائیوں کی مہر و محبت اور ہمدردیوں کا مرکز ہوتی ہے اور وہ اس کو ہر طرح کا آرام و سکون بہم پہنچانے میں والدین کے ہم دم وہم راز ہوتے ہیں۔ بیوہ اور مطلقہ ہونے کی صورت میں بھی والدین یا بھائیوں کا گھر ہی اس کی
مایوسیوں میں امیدوں کا مرکز اور تاریکیوں میں روشنی کا منبع ہوتا ہے۔
اس کے برعکس مغرب میں عورت گرل فرینڈ ہے یا کسی افسر کی سٹینوگرافر یا سیکرٹری، کسی دفتر کی کلرک ہے یا کسی کارخانے کی ورکر (مزدور) ریسپشن گرل (استقبال کرنے والی چھوکری ہے) یا ائیر ہوسٹس (فضائی میزبان، جہازوں کے مسافروں کی خدمت کرنے والی اور ان کے دلوں کو لبھانے والی) یا ہسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والی اور اپنے افسر ڈاکٹروں کی ناز برداری کرنے والی نرس۔ ہوٹلوں میں گاہکوں کو چائے اور شراب مہیا کرنے پر مامور اور ان کی نگاہ ہوس کا شکار بننے والی خادمہ۔ بلکہ بہت سے شراب خانوں میں ٹاپ لیس سروس پر مجبور، جس میں عورت کو اپنے جسم کا بالائی حصہ عریاں رکھنا پڑتا ہے تاکہ ان کی عریانی سے مردوں کی ہوس کی تسکین ہوسکے۔
مغرب کی یہ عورت اول تو نکاح سے پہلے ہی مردوں سے جنسی تعلقات کے نتیجے میں بن بیاہی ماں بن جاتی ہے اورشادی کے بعد بھی یہ ڈانس کلبوں میں غیروں کی باہوں میں جھومتی اور جھولتی ہے۔ اس کو کبھی نہ گھر کی ملکہ کا اعزاز حاصل ہوتا ہے اور نہ معاشرے میں وہ عزت و مقام جو اسلام نے عورت کو عطا کیا ہے۔ اس کے لیے ذلت ہی ذلت ہے اور قدم قدم پر مردوں کی غلامی و محکومی، ایک شوہر کی غلامی، جس میں اس کا مکمل احترام ہے، اس کو قید لگتی ہے اور بے شمارہوس زدہ مردوں کی غلامی، جس میں ذلت و خواری کے سوا کچھ نہیں، آزادی ۔ یہ ہے وہ آزادیٔ نسواں جس کا مغرب علم بردار ہے۔
اسلام نے عورت کو ان تمام ذلتوں سے بچا کر مرد کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ اگر وہ
ماں ہے تو اس کی باپ سے بھی زیادہ خدمت کرو، بیٹی ہے تو نازو نعمت سے اس کی پرورش کرو اور اس کی آرزؤں اور خواہشوں کے مطابق اس کا جیون ساتھی تلاش کرکے اس کے ساتھ اس کا نکاح کردو۔ بہن ہے تو اس کے ساتھ بھی بیٹیوں کی طرح حسن سلوک کرو اور بیوی ہے تو اس کو گھر کی ملکہ بنا کر رکھو اور اس کی تمام ضروریات گھر بیٹھے پوری کرو اور اس کے آرام و راحت کا ہرسامان مہیا کرو۔ اس کو اپنی کسی بھی ضرورت کے پورا کرنے کے لیے گھر سے باہر نکل کر کسی دفتر، کارخانے یا فیکٹری میں کام کرنے کی ضرورت ہے نہ اس کو اس کی شرعاً اجازت ہے۔ سوائے سخت مجبوری کے۔
عورت کے بارے میں اسلام سے قبل عرب کے لوگ ہی جاہلی تصورات نہیں رکھتے تھے جس کی بنا پر عرب معاشرے میں عورت عزت ووقار سے محروم تھی بلکہ عجم میں بھی عورت کی کوئی قدر و منزلت نہیں تھی، اس کو پیروں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دی جاتی تھی،یا کہاجاتا تھا کہ اس کو مردوں کی غلامی اور چاکری کے لیے پیدا کیا گیا ہے یا وہ شیطان کی ایک آلۂ کار ہے جس سے شیطان انسانوں کو گمراہ کرنے کا کام لیتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اسلام نے ان تصورات کا خاتمہ کرکے اس کو عزت ووقار کا ایک نہایت اعلیٰ مقام عطا فرمایا اور اس کو بہ حیثیت انسان ہونے کے اس کی بعض امتیازی چیزں سے قطع نظر مردوں کے مساوی قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۠ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ][البقرۃ228]
’’اور ان عورتوں کا (حق خاوندوں پر) اسی طرح ہے (جس طرح خاوندوں کا حق) ان عورتوں پر ہے اور ان مردوں کو ان پر کچھ فضیلت ہے۔‘‘،
یعنی بہ حیثیت انسان ہونے کے مرد اور عورت دونوں کے حقوق ایک جیسے ہیں جن کو پورے کرنے کے دونوں شرعاً پابند ہیں۔ نہ عورت، مرد کو انسانیت سے ماورا مقام کا حامل سمجھے کہ اس سے ایسے مطالبات کرے جن کا پورا کرنا انسانی طاقت سے بالا ہو اور نہ مرد عورت کو انسانی شرف و تکریم سے عاری مخلوق سمجھے کہ اس کے ساتھ جس طرح کا چاہے غیر انسانی سلوک کرکے اس کی عزت ووقار کو مجروح یا اس کے حقوق کو پامال کرے۔ دونوں کو شریعت کے دائرے میںر ہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہیں جو شریعت نے بتلائے ہیں۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے کہ گھر کا نظام چلانے کے لیے مرد و عورت میں سے مرد کو قوّام و حاکم اور عورت کو محکوم بنایا گیا ہے کیونکہ دونوں کو یکساں طور پر اگر حاکمیت کا حق دیا جاتا تو گھر کا نظام چل ہی نہیں سکتا تھا، جیسے ایک ملک میں ایک کے بجائے دو حکمران مساوی طور پر با اختیار ہوں تو نظم مملکت قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ نظم ایک ہی با اختیار حکمران کے ذریعے ہی قائم رہ سکتا ہے۔ اسی قوّامیت میں یہ بھی شامل ہے کہ مرد فطری قوتوں میں، جہاد کی اجازت میں، میراث کے دوگنا ہونے میں اور حقِ طلاق و رجوع (وغیرہ) میں عورت سے ممتاز ہے۔ یہی ایک گونہ وہ فضیلت ہے جو اللہ نے مرد کو عطا کی ہے جس کو قرآن کریم میں وللرجال علیھن درجۃ میں بیان کیا گیا ہے۔
یہ ایک گونہ فضیلت یا امتیاز چونکہ ناگزیر تھا اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
[وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبُوْا ۭ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبْنَ ۭ وَسْـــَٔـلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ ][النساء32]
’’اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کا اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انھوں نے کمایا اور اللہ سے اس کا فضل مانگو۔‘‘
اس آیت کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مرد جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں، ہم عورتیں ان فضیلت والے کاموں سے محروم ہیں، ہماری میراث بھی مردوں سے نصف ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [24]
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی قوت و طاقت اپنی حکمت و ارادہ کے مطابق عطا کی ہے اور جس کی نبیاد پر وہ جہاد بھی کرتے ہیں اور دیگر بیرونی کاموں میں حصہ لیتے ہیں، یہ ان کے لیے اللہ کا خاص عطیہ ہے، اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صلاحیتوں کے کام کرنے کی آرزو نہیں کرنی چاہیے۔ البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں خوب حصہ لینا چاہیے اور اس میدان میں وہ جو کچھ کمائیں گی، مردوں کی طرح ان کا پورا پورا صلہ انھیں ملے گا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرنا چاہیے کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان، استعداد صلاحیت اور قوت کار کا جو فرق ہے، وہ تو قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے جو محض آرزو سے تبدیل نہیں ہوسکتا، البتہ اس کے فضل سے کسب و محنت میں رہ جانے والی کمی کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ [25]
مرد اور عورت کے درمیان جو چند امتیازی چیزیں ہیں، اس کی ایک وجہ تو فطری صلاحیتوں کا وہ فرق ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان رکھا ہے جسے دنیا کی کوئی
طاقت ختم نہیں کر سکتی، کیونکہ اس کی وجہ وہ تخلیقی مقاصد ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں جن کی بنیاد پر عورت کا دائرۂ کار گھر کی چار دیواری ہے اور مرد کا دائرۂ کار گھر سے باہر (بیرونِ دَر) کے امور ہیں۔ جن میں امور جہاں بانی، جہاد اور کسب معاش وغیرہ ہیں، عورت ان تمام ذمے داریوں سے سبکدوش ہے۔ اسی میں عورت کی عزت بھی ہے اور اس کی عصمت و تقدس کا تحفظ بھی۔
عورت کو وراثت میں حصے دار بنانا، اس میں بھی عورت کی عزت و احترام کی بحالی ہے جس سے عورت اسلام سے قبل محروم تھی، ورنہ عورت کی جو ذمے داریاں ہیں، ان میں اس کو بالعموم مال کی ضرورت نہیں ہوتی، مال کی زیادہ ضرورت مرد ہی کو رہتی ہے، اسی نے کاروبار کرنا ہے، عورت کی معاشی کفالت اسی نے کرنی ہے، حق مہر بھی اسی نے ادا کرنا ہے، ولیمہ بھی کرنا اور دیگر شادی کے اخراجات ہیں جو مرد ہی نے برداشت کرنے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ذمے داری عورت پر نہیں ہے۔ اس لیے اس کو وراثت میں مرد کے دوگنا کے مقابلے میں ایک گنا حصے دار قرار دینا، اس کی عزت و احترام ہی کے پیش نظر ہے ورنہ اس کو مال کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
مرد کو طلاق و رجوع کا حق دینے میں بھی بڑی حکمت ہے اور وہ ہے گھر کو بربادی سے بچانا، عورت مرد کے مقابلے میں کم حوصلہ بھی ہے اور جذباتی بھی۔ اگر اس کو بھی طلاق کا حق مل جاتا تو اختلاف و نزاع کی صورت میں وہ فوراً طلاق دے کر اپنے پیروں پر کلھاڑی مار لیا کرتی اور خانماں برباد ہوجایا کرتی۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ حوصلہ و ہمت سے نوازا ہے اس لیے وہ زیادہ صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتا اور گھر بربادی سے محفوظ رہتا ہے۔ اگرچہ بعض مرد جہالت اور بے شعوری کی وجہ سے صبرو تحمل کے بجائے عجلت اور عاقبت نا اندیشی
کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر طلاق دے دیتے ہیں اور پھر بعد میں پچھتاتے ہیں لیکن اگر عورت کو بھی حق طلاق مل جاتا تو پھر طلاق کی شرح کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
جس طرح بعض مرد جہالت کی وجہ سے عورت کے حقوق صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے، تو اس میں اسلام کا تو کوئی قصور نہیں، ان مردوں کا قصور ہے جو اسلام کے عطا کردہ بعض مردانہ امتیازی حقوق کا ، جو نہایت حکمت پر مبنی ہیں،غلط استعمال کرتے اور اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، انھی میں سے یہ طلاق کا بھی حق ہے جسے بعض مرد نہایت غلط طریقے سے استعمال کرتے اور اپنا گھر اجاڑ لیتے ہیں جس کا خمیازہ عورت کے علاوہ ان کو بھی بھگتنا پڑتا ہے، بچے ہوں تو ان کو بھی ۔
یا جس طرح اللہ تعالیٰ نے نشوز (عورت کی نافرمانی، سرکشی) کی صورت میں مرد کو اس کو سمجھانے کے لیے وعظ و نصیحت کرنے، اس سے بستر سے علیحدگی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو مارنے کی بھی اجازت ہے۔
[وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ ][النسآء 34]
’’ اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو (پھر بھی نہ سمجھیں تو) انہیں مارو۔‘‘
تو یہ حق بھی گھر کے نظم کو برقرار رکھنے کے لیے ہے کیونکہ گھر کا قوّام (حاکم) مرد ہی ہے جس طرح کسی ملک یا علاقے کے قوّام (سربراہ یا حاکم مجاز) کو ملک یا علاقے کا نظم و نسق برقرا ر رکھنے کے لیے سختی کرنی پڑتی ہے، دار و گیر سے کام لینا پڑتا ہے اور سرکشوں کے سرِپُر غرور کو کچلنے کے لیے ان کو زدو کوب بھی کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح مرد کو بھی عورت کو راہ
راست پر رکھنے کے لیے آخری چارۂ کار کے طور پر زدو کوب کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے تاکہ گھر میں مرد کی قوامیت (حاکمیت) بھی برقرار رہے اور گھر کا نظم و نسق بھی انتشار سے محفوظ رہے۔
لیکن مارنے کا یہ حق غیر محدود نہیں ہے لیکن چونکہ ناگریز حالات میں بطور علاج اس کی اجازت ہے اس لیے یہ مار و حشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو، بلکہ علاج کی حد تک ہلکی مار ہو جس سے اس کو شدید چوٹ نہ آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا:
’وَلَکُمْ عَلَیْہِنَّ أَنْ لَا یُؤْطِئَنَّ فُرُشَکُمْ أَحَدًا تَکْرَھُونَہُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوھُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ‘[26]
’’تمہارا عورتوں پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستروں پر ایسے کسی شخص کو آنے کی اجازت نہ دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم ان کو ایسی مار مارو جس سے ان کو زیادہ چوٹ نہ آئے۔‘‘
ایسی مار جو بطور علاج ہو اور جس میں وحشیانہ پن نہ ہو، توچونکہ اس کی اجازت ہے اس لیے اس پر قیامت کے دن باز پرس بھی نہیں ہوگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’لَا یُسْأَلُ الرَّجُلُ فِیمَا ضَرَبَ اِمْرَأَتَہُ‘[27]
’’آدمی سے اپنی عورت (بیوی) کے مارنے پر باز پرس نہیں کی جائے گی۔‘‘،
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’لَا تَضْرِبُوا إِمَاءَ اللّٰہِ‘
’’اللہ کی باندیوں کو مت مارا کرو۔‘‘
چنانچہ صحابۂ کرام بڑے محتاط ہوگئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خاوندوں کے مقابلے میں ان کی جسارتیں بڑھ گئیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نتیجے سے آگاہ فرمایا تو آپ نے ان کو مارنے کی رخصت عنایت فرما دی۔ بعض صحابہ نے اس رخصت کا غلط استعمال کیا تو بہت سی عورتوں نے آکر ازواج مطہرات کے پاس ان کی شکایتیں کیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’لَقَدْ طَافَ بِآلِ مُحَمَّدٍ نِسَاءٌ کَثِیرٌ یَشْکُونَ أَزْوَاجَہُنَّ لَیْسَ أُولٰئِکَ بِخِیارِکُمْ‘[28]
’’آل محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے پاس بہت سی عورتوں نے آ کر اپنے خاوندوں کی شکایت کی ہے، یہ لوگ تم میں بہتر نہیں ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ یہ رخصت بے رحمانہ طریقے سے مارنے کی نہیں ہے اور جو ایسا کرے گا وہ بہتر لوگوں میں شمار نہیں ہوگا اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رخصت کی بڑے حکیمانہ انداز میں وضاحت فرمائی:
’لَا یَجْلِدُ أَحَدُکُمْ إِمْرَأَتَہُ جَلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ یُجَامِعُہَا فِی آخِرِ الْیَوْمِ‘
’’تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح نہ مارے جس طرح غلام کو مارا جاتا ہے، (کیونکہ یہ عجیب بات ہوگی کہ اس طرح مارنے کے بعد) پھر دن کے آخر میں اس سے ہم بستری کرے گا۔‘‘
اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے:
’بَابُ مَا یُکْرَہُ مِنْ ضَرْبِ النِّسَاء‘
’’اس بات کا بیان کہ عورتوں کو مارنا ناپسندیدہ (مکروہ) ہے۔‘‘
اور قرآن کریم میں مارنے کی رخصت (واضربوھن) کی تفسیر ان الفاظ میں
فرمائی ہے: {غَیْرَ مُبَرِّحٍ} ایسی مار جس سے شدید چوٹ نہ آئے۔‘‘[29]
اور یہی وہ تفسیر ہے جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے جیسا کہ صحیح مسلم کے حوالے سے یہ حدیث گزری ہے۔
بہر حال مقصود اس تفصیل سے یہ ہے کہ ہلکی مار مارنے کی اجازت ایک خاص حکمت کے تحت دی گئی ہے کہ بعض عورتوں کے لیے بعض دفعہ یہ علاج مؤثر ہوتا ہے لیکن جو لوگ حقِّ طلاق کی طرح اس کو بھی غلط استعمال کرتے ہیں تو یہ سخت ناپسندیدہ ہے اور ایسے لوگ اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ بہتر بھی نہیں ہیں اور عقل و دانش سے بھی بے بہرہ ہیں کہ مارتے بھی ہیں اور پھر اسی سے اپنی خواہش بھی پوری کرتے ہیں۔
حسن معاشرت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ عورت کو منحوس نہ سمجھا جائے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب عورت نئی نویلی دلہن کی صورت میں آتی ہے تو چونکہ وہ یکسر ایک نئے ماحول میں آتی ہے، دولہا سمیت اس گھر کے سارے افراد اس کے لیے اجنبی ہوتے ہیں، اس کو اس نئے ماحول سے مانوس ہونے میں اور دولہا اور اس کے گھر والوں کے مزاجوں کو سمجھنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح دلھن بھی تمام افراد خانہ کے لیے اجنبی ہوتی ہے، اس کی خوبیاں (یا برائیاں) ظاہر ہونے میں بھی وقت لگتا ہے۔ چند ایام یا چند ہفتوں میں ایک دوسرے کی بابت اچھا یا برا ہونے کا نہ صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے اور نہ فیصلہ ہی۔
لیکن ہمارے معاشرے میں عجلت سے فیصلہ کرنے کا مرض عام ہے دلہن کے آنے کے بعد اگر اتفاقی طور پر کوئی حادثہ ہوجاتا ہے، یعنی کارو بار میں کچھ نقصان ہوجاتا ہے یا کوئی اور ارضی و سماوی آفت آجاتی ہے تو فورا کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ نئی عورت جو ہمارے گھر میں آئی ہے، اس کی نحوست ہے اور پھر گھر کے سارے افراد اس کو منحوس باور کر لیتے ہیں۔
ظاہر بات ہے ایسا سمجھنا اور کہنا جہاں تقدیر الٰہی کے خلاف ہے جو کہ کمال ایمان کے منافی ہے، وہاں حسن معاشرت کے بھی خلاف ہے۔ قدرتی حوادث و آفات کا باعث عورت کو قرار دینا، جب کہ اس میں اس کے ارادے یا عمل کا کوئی دخل نہیں، یکسر خلاف واقعہ اور ایک پاک دامن کو نحوست سے مُتّہم کرنا ہے اور جب اس کو منحوس سمجھ لیاجائے گا تو کون اسے اچھا سمجھے گا یا اس سے اچھا سلوک کرے گا؟
اس لیے حسن معاشرت کا تقاضا ہے کہ اتفاقی حوادث وواقعات کی بنیاد پر عورت کو یا کسی بھی چیز کو منحوس سمجھنا بے بنیاد بات ہے۔
در اصل یہ تصور ایک حدیث سے غلط فہمی کے طور پر مشہور ہوگیا ہے، وہ حدیث ہے:
’الشُّؤْمُ فِی ثَلَاثَۃٍ، فِی الْفَرَسِ، وَالْمَرْأَۃِ، وَالدَّارِ‘
’’نحوست تین چیزوں میں ہے، گھوڑے میں، عورت میں اور گھر میں۔‘‘
حالانکہ ایک دوسری حدیث سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے، وہ حسب ذیل ہے:
’إِنْ کَانَ الشُّؤْمُ فِی شَئْیٍ، فَفِی الدَّارِ، وَالْمَرْأَۃِ، وَالْفَرَسِ‘[30]
’’اگر کسی چیز میں نحوست ہوسکتی ہے تو وہ گھر ہے، اور عورت ہے، اور گھوڑا ہے۔
یہ دونوں روایات امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب النکاح کے باب ما یتقی من شؤم المرأۃ وقولہ تعالیٰ [اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ ] [التغابن 14] میں بیان کی ہیں۔
یعنی امام بخاری نے شؤم المرأۃ (عورت کی نحوست سے بچنے ) کا باب باندھا اور اس میں قرآنی آیت بھی ساتھ بیان کرکے یہ واضح کردیا ہے کہ عورت کا منحوس ہونا کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ بعض عورتیں منحوس ہوسکتی ہیں جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاہے:
’’تمہاری بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہاری دشمن ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مِنْ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جو تبعیض کے لیے بھی آتا ہے۔ یعنی ساری بیویاں یا ساری اولاد دشمن نہیں ہے بلکہ بعض ہیں۔ اور یہ واضح ہے کہ جو اولاد ماں باپ کی فرماں بردار اور خیر خواہ ہو، وہ ماں باپ کی دشمن نہیں ہے، صرف وہ اولاد دشمن ہے جو نافرمان اور گستاخ ہو۔ اور اللہ کا یہ فرمان واقعات کے عین مطابق ہے۔ اسی طرح وہ بیوی بھی جو فالصالحات قانتات حافظات للغیب کی مصداق ہو، وہ خاوند کی دشمن نہیں بلکہ وفادار ، اطاعت شعار اور خیر خواہ ہوگی۔ اور جو اولاد اور بیوی نیک اور صالح ہوگی، ان کی بابت نحوست کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی باب میں یہ حدیث بھی ذکر کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’مَا تَرَکْتُ بَعْدِی فِتْنَۃً اَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَآءِ‘[31]
’’میں نے اپنے بعد عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ ایسا نہیں چھوڑا جو مردوں کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہو۔‘‘
اس حدیث سے بھی یہی نکتہ واضح ہوتا ہے کہ جو عورت فتنے کا باعث ہو، اس میں تو شر اور نحوست کا پہلو ہوسکتا ہے لیکن جو عورت ایسی نہ ہو بلکہ اس کے برعکس نیکی اور صالحیت کا پیکر ہو، تو اسے منحوس کیسے قرار دیا جا سکتا ہے اس کی طرف کسی تقدیری امر کے ظہور کی وجہ سے شر اور نحوست کو منسوب کرنا ایسا ہی ہے جیسے حدیث میں کہا گیا ہے کہ یہ کہنا کفر ہے کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے ۔ یعنی بارش برسانے کے فعل کو اللہ کے بجائے ستارے کی طرف منسوب کرنا، یکسر غلط بلکہ کفریہ کلمہ ہے تو پھر مطلقاً عورت کو شر اورنحوست کا باعث قرار دینا کیوں کر صحیح ہے؟ جب کہ اس شر کے ظہور میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ ایک تقدیری معاملہ ہے جس کا ظہور اس عورت کے نئے گھر میں آنے کے بعد ہوا ہے۔ اور قضا و قدر کے فیصلے کا اس کے ساتھ توافق ہوگیا ہے۔
یہ تو ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے کہ بعض دفعہ انسان گھر خریدتا یا کرائے پر لیتا ہے، سواری کے لیے کوئی جانور، یا آج کل کے حساب سے کوئی گاڑی وغیرہ لیتا ہے، اسی طرح کسی عورت سے شادی کرتا ہے۔ لیکن یہ چیزیں انسان کو راس نہیں آتیں، اس کو مسلسل نقصان اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کو یہ تو اجازت ہے کہ عدم موافقت کی وجہ سے گھر چھوڑ کر، جانور یا گاڑی بیچ کر، بیوی کو طلاق دے کر وہ متبادل انتظام کر لے لیکن ان کا تعلق نحوست سے جوڑ کر بد اعتقادی کا اظہار نہ کرے بلکہ اس کو قضا و قدر کا فیصلہ سمجھے۔ اس بارے میں بھی ایک حدیث سے ہمیں کافی رہنمائی ملتی ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم ایک گھر میںر ہتے ہیں، وہاں گھر کے افراد بھی کافی ہوتے ہیں اور مال و دولت کی بھی فروانی ہوتی ہے، لیکن ہم گھر بدل لیتے ہیں تو وہاں ہمارے افراد اوراموال میں کمی ہوجاتی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اس گھر کو اپنے حق میں برا سمجھتے ہوئے چھوڑ دو۔‘‘[32]
اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ شریعت اسلامیہ میں اس تصور کی نفی کی گئی ہے کہ کوئی بیماری متعدی بھی ہوتی ہے بلکہ اس عقیدے کی تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کے حکم اور مشیت کے بغیر کسی کو کوئی بیماری نہیں لگ سکتی۔ اس کے باوجود ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ مجذوم (کوڑھی کے مریض) سے اس طرح بھاگو جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ نہیں کہ جذام کا مرض متعدی ہے بلکہ اس کی وجہ اعتقاد کی خرابی سے بچانا ہے۔ کیونکہ اگر کسی شخص کو مجذوم کے پاس بیٹھنے سے اگر جذام کی بیماری لاحق ہوگئی تو اس کی اصل وجہ تو اللہ کا حکم او راس کی مشیت ہوگی لیکن اس شخص کے اندر عقیدے کی یہ خرابی پیدا ہوسکتی ہے کہ مجھے یہ بیماری اس مریض کے پاس بیٹھنے کی وجہ سے لاحق ہوئی ہے۔ یہ عقیدہ چونکہ اسلامی مسلّمات کے خلاف ہے اس لیے مسلمانوں کے عقیدوں کو محفوظ رکھنے کے لیے احتیاط کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس بد عقیدگی سے مسلمان محفوظ رہیں۔
اسی طرح عدم موافقت کی صورت میں زیر بحث مذکورہ اشیاء کو چھوڑا جا سکتا ہے لیکن اس رد و بدل میں ان کی نحوست کاعقیدہ نہ رکھا جائے بلکہ اس کو قضا و قدر کا فیصلہ ہی سمجھاجائے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ زیر بحث حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث (لوگوں کی رائے کے برعکس) اس مفہوم کی تائید کرتی ہے کہ کسی چیز
میں نحوست نہیں ہے۔ اس لیے کہ حدیث کے معنی ہیں:’’اگر نحوست کسی بھی چیز میں ثابت ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی لیکن بات یہ ہے کہ نحوست کسی بھی چیز میں یکسر ثابت ہی نہیں ہے۔ اور بعض روایات میں جوالفاظ نقل ہوئے ہیں کہ’’نحوست تین چیزوں میں ہے‘‘ یہ بعض راویوں کا اختصار اور تصرف ہے (ورنہ اصل الفظ یہی ہیں کہ اگر نحوست ہوتی تو ان میں ہوتی)۔‘‘[33]
امام طحاوی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات لکھی ہے، فرماتے ہیں:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو عورت، گھوڑے اور گھر میں ہوتی۔‘‘ آپ نے یہ خبر نہیں دی کہ ان میں ہوتی ہے بلکہ یہ فرمایا ہے: اگر نحوست کی چیز میں ہوتی تو ان میں ہوتی، یعنی اگر کسی چیز میں ہوتی تو ان میں ہوتی اور جب ان تینوں میں نہیں ہے تو کسی بھی چیز میں نہیں ہے۔‘‘[34]
ہمارے وضاحت کردہ نکتے کی تائید ذیل کی حدیث سے بھی ہوتی ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَرْبَعٌ مِنَ السَّعَادَۃِ، الَمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ، وَالْمَسْکَنُ الْوَاسِعُ، وَالْجَارُ الصَّالِحُ، وَالْمَرْکَبُ الْہَنِیئُ، وَأَرْبَعٌ مِنَ الشِّقَاءِ: اَلْجَارُ السُّوءُ وَالْمَرْأَۃُ السُّوءُ، وَالْمَرْکَبُ السُّوءُ وَالْمَسْکَنُ الضَّیِّقُ‘[35]
’’چار چیزیں سعادت سے ہیں: نیک عورت، فراخ کشادہ گھر، نیک پڑوسی اور اچھی سواری، اور چار چیزیں شقاوت (بد بختی ) سے ہیں: برا پڑوسی، بری عورت، بری سواری، اور تنگ مکان۔‘‘
یعنی مذکورہ چیزیں کسی کے لیے سعادت کا اور کسی کے لیے شقاوت کا ذریعہ ہیں اور یہ سب کچھ اللہ کی مشیت اور اس کے قضا و قدر کے تحت ہے۔
اسی لیے بعض شارحین نے حدیث شئوم کی شرح میں لکھاہے، جیسے امام خطابی ہیں:
’اِنْ کَانَتْ لِأَحَدِکُمْ دَارٌ یَکْرَہُ سُکْنَاھَا أَوْ امْرَأَۃٌ یَکْرَہُ صُحْبَتَہَا، أَوْ فَرَسٌ یَکرَہُ سَیْرَہُ فَلْیُفَارِقْہُ‘ [36]
’’اگر کسی کا گھر ایسا ہے کہ اس میں رہائش اس کو ناپسند ہو، یا بیوی ایسی ہو کہ اس کے ساتھ گزارا مشکل ہو، یا گھوڑا ایسا ہو کہ اس پر سفر اس کو ناگوار ہو ،تو وہ ان کو چھوڑ دے۔‘‘
اور بعض نے اس کی تفسیر اس طرح کی ہے:
’إِنَّ شُؤْمَ الدَّارِ ضَیِّقُہَا وَسُوْءَ جَوَارِھَا، وَشُؤْمَ الْمَرأَۃِ أَنْ لَا تَلِدَ وُشُؤْمَ الْفَرَسِ اَنْ لَا یُغْزُ عَلَیْہِ‘[37]
’’گھر کی نحوست اس کا تنگ ہونا اورپڑوسی کا برا ہوناہے، عورت کی نحوست اس کا بانجھ پن اور گھوڑے کی نحوست اس پر جہاد کرنے کا موقع نہ ملنا ہے۔‘‘،
بعض آثار سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، جیسے حضرت معمر (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کی یہ تفسیر سنی ہے (بظاہر یہی ہے کہ کسی صحابی سے سنی ہوگی)۔
’شُؤْمُ الْمَرْأَۃِ إِذَا کَانَتْ غَیْرَ وَلُودٍ، وَشُؤُمُ الْفَرَسِ إِذَا لَمْ یُغُزَ عَلَیْہِ وَ شُؤُمُ الدَّارِ جَارُ السُّوءِ‘©[38]
’’عورت کی نحوست اس کا بانجھ ہونا ہے، گھوڑے کی نحوست اس پر بیٹھ کر جہاد نہ کرنا ہے اور گھر کی نحوست برے پڑوسی کا ہونا ہے۔‘‘
بہر حال مطلقاً عورت یا کسی بھی چیز کی نحوست کا عقیدہ بے بنیاد اور تقدیر پر ایمان کے منافی ہے، اس لیے اس قسم کے تصورات سے بچنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت بد چلن یا مرد بد کردار ہوتا ہے لیکن ایسے جوڑے سے اللہ تعالیٰ اولاد صالح پیدا فرما دیتاہے، اولاد میں ماں باپ کی وہ خرابیاں نہیں ہوتیں جو شریعت میں بھی نا پسندیدہ ہیں اور لوگوں کی نظروں میں بھی ناقابل قبول ہوتی ہیں۔ ایسے ماں باپ کی کوئی نیک چلن لڑکی اگر کسی شخص کے حبالۂ عقد میں آجائے تو کسی بھی موقعے پر اس کی کسی کوتاہی کی وجہ سے اس کو یہ نہ کہے کہ ہاں تو بیٹی تو اسی ماں یا باپ کی ہے جوایسی ایسی یا ایسا ایسا ہے یا تھی یا تھا۔ اسے عار دلانا کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا اور اسے زمانۂ جاہلیت کی خُو (بدعادت) قرار دیا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص (اپنے غلام) کو برا بھلا کہا اور اور اسے عار دلائی کہ تیری ماںایسی تھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
’یَا أَبَا ذَرٍّ! أَعَیَّرْتَہُ بِأُمِّہِ؟ إِنَّکَ امْرُؤٌ فِیکَ جَاھلِیَّۃٌ‘
’’اے ابو ذر! کیا تونے اس کو اس کی ماں کی وجہ سے عار دلائی ہے ، تیرے اندر توابھی تک جاہلیت کی خُو ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
’إِخْوَانُکُمْ خَوَلُکُمْ جَعَلَہُمُ اللّٰہُ تَحْتَ أَیْدِیکُمْ، فَمَنْ کَانَ أَخُوہُ تَحْتَ یَدِہِ
فَلْیُطْعِمْہُ مِمَّا یَأْکُلُ، وَلْیُلْبِسْہُ مِمَّا یَلْبَسُ، وَلَا تَکِلِّفُوْھُمْ مَا یَغْلِبُہُمْ، فَإِنْ کَلَّفْتُمُوھُمْ فَأَعِینُوْھمْ‘[39]
’’تمھارے بھائی (غلام) تمہارے ما تحت ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو تمھارے ماتحت کیا ہے (تم کوان پر بالا دستی عطا کی ہے اور ان کو تمھارے زیردست کیاہے) پس جو بھائی (غلام نوکر چاکر) اس کے ما تحت ہو اس کو چاہیے کہ اس کو وہی کچھ کھلائے جووہ کھاتا ہے، اوراس کو وہی کچھ پہننے کو دے جو وہ خود پہنتا ہے اور ایسا کوئی کام اس کے سپرد نہ کرے جو اس کی طاقت سے بالا ہو، اگر تم ایسا کوئی کام اس کے سپرد کرو تو تم ان کی مدد کرو (ان کے ساتھ مل کر وہ کام کرو۔)‘‘
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اپنے ما تحتوں ، زیر دستوں اورغلاموں، نوکروں کو عار دلانا، ان کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہوئے ان کو کھانے پینے میں اپنے ساتھ بٹھانے سے گریز کرنا اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ کاموں کا بوجھ ڈالنا یہ سب ممنوع ہیں تو بیوی توغلام اور ماتحتوں سے زیادہ شرف و فضل اور عزت و احترام کی مستحق ہے، اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرنے کی اجازت کب ہو سکتی ہے؟
اس لیے حسن معاشرت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ بیوی کو عار نہ دلائی جائے۔ اس کے ماں باپ کیسے بھی ہوں یا کیسے بھی کبھی رہے ہوں، یا وہ خود بھی کبھی ایسی ویسی رہی ہو لیکن توبہ کرکے اس نے اپنی اصلاح کر لی ہو اور اب وہ صحیح معنوں میں ایک صالح اور نیک چلن ہو اور اسی وجہ سے اس نے اسے اپنا رفیق زندگی بنانے کے لیے پسند کیا ہو تو اس کے بعد اس کوعار دلانے کا کوئی جواز نہیںہے اور یہ حسن معاشرت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں
اس کی دل آزاری کا پہلو ہے جب کہ حسن معاشرت کا تقاضا اس کی دلجوئی و دلداری کرنا ہے نہ کہ دل آزاری۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب ایک غلام اور ما تحت شخص پر بھی اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا جائز نہیں ہے جب کہ ان کو اپنے گھروں میں رکھنے کا مقصد ہی ان سے اپنی خدمت لینا اور ان سے اپنے اندرونی و بیرونی کام کرانا ہوتا ہے تو بیوی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا کب جائز ہوسکتا ہے۔؟
بلا شبہ خاوند کی خدمت اور گھریلو امور کی انجام دہی عورت کی ذمے داری ہے، لیکن مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس معاملے میں بھی حسن معاشرت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھے اور اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً، خاوند اس کو گھریلو اخراجات کے لیے جو رقم مہیا کرے، وہ ضروریات سے بہت کم ہو، لیکن خاوند اس کو مجبور کرے کہ وہ اسی رقم سے تمام ضروریات پوری کرے، ظاہر بات ہے بعض خاوندوں کا یہ رویہ سر اسر تحکم اور تکلیف مَالاَ یُطَاق ہی ہے۔
اسی طرح بعض گھروں میں آنے والی نئی بہو پر ضرورت سے زیادہ کاموں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جب کہ گھر میں اس کی جوان نندیں وغیرہ بھی ہوتی ہیں۔ عدل و انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ سب مل جل کر گھریلو امور سر انجام دیں، ساس سسر بھی اس پہلو کو ملحوظ رکھیں، خاوند اگر اس سلسلے میں ماں باپ سے کوئی بات کرتا ہے تو اس کو زن مرید ہونے کا طعنہ دے کر خاموش رہنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ اس بے انصافی کے تین نتیجوں میں سے کوئی
ایک نتیجہ بالعموم ظاہر ہوتا ہے۔
(1)یا تو خاوند اور بیوی دونوں، ماں باپ اور ساس سسر کے احترام میں خاموشی سے اس بے انصافی کو برداشت کرتے رہتے ہیں اور عورت طاقت سے زیادہ بوجھ برداشت کرتی رہتی ہے اور گھر کا نظم میاں بیوی کی خاموشی اور بزرگوں کے احترام کی وجہ سے قائم رہتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سکون دبائو کا نتیجہ ہے، حسن معاشرت کا نتیجہ نہیں۔
(2)اگر میاں بیوی اس بے انصافی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو جلد یا بہ دیر یہ صورت حال ماں باپ سے علیحدگی پر منتج ہوتی ہے۔
(3)گھر کی دوسری خواتین (نندیں، ساس وغیرہ)۔ اگر اس بے انصافی پر مصر رہتی اورسارا بوجھ فرماں بردار بیٹے کی بیوی پر ہی ڈالنے کی پالیسی پر گامزن رہتی ہیں تو جلد ہی پیمانۂ صبر لبریز ہو جائے گا اور پھر آئے دن اس پر باہم تھکا فضیحتی ہوگی جس سے میاں بیوی کا سکون بھی برباد ہوگا، گھر کا امن بھی قائم نہیں رہے گا اور ساس کا بے انصافی پر مبنی یہ رویہ لڑکی کے خاندان کو بھی ان سے بد ظن کردے گا اور مخاصمت و عناد کی ایسی فضا قائم ہوجائے گی۔ جو دونوں خاندانوں کو مضطرب رکھے گا۔
بنا بریں یہ تینوں ہی صورتیں ظلم و نا انصافی کی ہیں جو حسن معاشرت کے خلاف ہیں۔ یہ ساس بہو کا وہ روایتی کردار ہے جس کی کہانیاں ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ لیکن اہل دین اورخشیت الٰہی رکھنے والوں کو اس قسم کے رویوں سے بچنا چاہیے، ایسا رویہ آخرت ہی برباد کرنے والانہیں ہے بلکہ دنیا بھی بگاڑ دینے والا ہے۔
حسن معاشرت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ہر اہم معاملے میں مرد بیوی سے مشاورت کا
اہتمام کرے، بیوی کو نظر انداز کرکے کوئی فیصلہ نہ کرے۔ یہ حسن معاشرت کے بھی خلاف ہے اور عقل و دانش کے بھی منافی۔ عدم مشاورت سے بھی بعض دفعہ میاں بیوی کے درمیان ایسی تلخیاں اور کشیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو پورے گھر کے سکون کو برباد کردیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر تک کو یہ حکم دیا کہ وہ مسلمانوں سے مشاورت کا اہتمام کریں۔
[وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ۚ ] [آل عمرٰن 159]
’’اور (دین کے) کام میں ان سے مشورہ کیا کیجئے۔‘‘
اور مسلمانوں کی صفت یہ بھی بیان فرمائی کہ وہ اپنے معاملات باہم مشاورت سے چلاتے ہیں۔
[وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ][ الشوریٰ38]
’’اور ان کے کام باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں‘‘
صلح حدیبیہ کے موقعے پر جو معاہدہ لکھا گیا تھا، مسلمان اس کی ظاہری دفعات سے دل گیر تھے اور نبوت کی نگاہِ دور رس میں اس کے جو فوائد تھے، عام مسلمان اس کا اندازہ کرنے سے قاصر تھے۔ بنا بریں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے تحریر کیے جانے کے بعد صحابہ کو حکم دیا کہ اٹھو! اور اپنے اپنے جانور قربان کردو (کیونکہ اس سال ہم مکہ جا کر عمرہ نہیں کر سکیں گے) لیکن صحابہ غم سے نڈھال اور دل گرفتہ تھے، اس لیے کوئی بھی نہ اٹھا، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات تین مرتبہ دہرائی مگر پھر بھی کوئی نہ اٹھا تو آپ اپنی زوجۂ مطہرہ حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور صحابہ کے اس طرز عمل کا ذکر کیا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مشورہ دیا کہ آپ کسی کو کچھ نہ کہیں اور جا کر اپنا جانور ذبح کردیں اور اپنا سر منڈالیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورے کے مطابق
اپنی ہَدیْ کا جانور ذبح کردیا اور حجام کو بلاکر سر منڈوا لیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ نے آپ کے عمل کو دیکھ کر بلاتوقف اپنے اپنے جانور بھی ذبح کر دیے اورباہم ایک دوسرے کے سر بھی مونڈ دیے۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام تر عظمت کے باوجود جب اپنی اہلیہ محترمہ سے جاکر مشورہ کیا تو انھوں نے جو مشورہ دیا، اس پر عمل کرنے سے ایک نہایت اہم مسئلے کا فوری حل نکل آیا جس پر آپ خود بھی سخت پریشان تھے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو صرف اپنی عقل و دانش ہی کو حرف آخر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اپنے رفیق زندگی یعنی بیوی سے بھی ہر اہم معاملے پر مشورہ کرنا اور باہم مل کر سوچ بچار کرنا نہایت بابرکت عمل ہے ۔ نہ عورت اپنے طور پر فیصلہ کرے اور نہ مرد ہی ایسا کرے بلکہ دونوں قدم سے قدم ملا کر اور ایک دوسرے کو اپنا ہم نوا بنا کر اور اعتماد میں لے کر فیصلہ کریں۔
جب بچے بچیاں جوان ہوجاتے ہیں تو ان کے رشتوں ناطوں کے سلسلے میں اگر باہم مشاورت اور افہام و تفہیم سے کام نہ لیا جائے تو بڑی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور بعض دفعہ بچوں کے مستقبل بھی تاریک ہوجاتے ہیں، و علی ہذا القیاس، دوسرے معاملات ہیں، سب میں باہم مشاورت باعث برکت بھی ہے اور حسن معاشرت کا تقاضا بھی، اور گھر کی خوش گوار فضا اور اس کے امن و سکون کو برقرار رکھنے کا ایک بڑا سبب بھی۔
جس طرح مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ بیوی حسن و جمال کا پیکر ہو یا کم از کم آرائش
و زیبائش کا اہتمام کرنے والی ہو۔ اسی طرح عورت کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا خاوند مردانہ جاہ و جلال اور حسن و جمال کا حامل ہو۔ اس لیے مرد کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ عورت کی اس جائزخواہش کا احترام کرے اور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ظاہری زیب و زینت اختیار کرنے میں بے اعتنائی نہ برتے۔ جیسے صاف ستھرا رہنا، نظافت و طہارت کا خیال رکھنا، خوشبو وغیرہ کا استعمال اور کنگھی تیل کا اہتمام، وغیرہ، اسی لیے حدیث میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلا کام کیا کرتے تھے؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ مسواک کرتے تھے۔ (تاکہ منہ سے خوش گوار خوشبو آئے۔) تاہم اس زیب و زینت کے اختیار کرنے میں نہ شریعت سے تجاوز ہو اور نہ کبر و غرور کا اظہار ہو، یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ ہیں۔ ‘‘
مثلاً، آج کل زیب و زینت کا معیار یہ ہے کہ مرد کا چہرہ سنتِ رسول (داڑھی) سے پاک ہو، انگریزوں کے لباس (ٹائی، پتلون) میں ملبوس ہو اور بیوٹی پارلر میں جا کر آراستہ و پیراستہ ہو۔ ظاہر بات ہے یہ زیب و زینت اللہ کو ناپسند ہے۔
اسی طرح زیب و زینت کے ڈانڈے کبر و غرور سے نہ جا ملیں۔ بلکہ یہ زیب و زینت ظاہری و باطنی حسن و جمال کا ایسا حسین امتزاج ہو جس میں حُسن صورت بھی ہو اورحُسن سیرت بھی۔ حُسنِ سیرت اور باطنی جمال کے بغیر ظاہری حسن کی حیثیت اس شخص کی طرح ہے جو غبار آلود چہرے پر غازہ پاشی کر لیتا ہے جس سے اس کا چہرہ نکھرنے کے بجائے اور دھندلا جاتا اور کالک زدہ سا ہوجاتا ہے۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جہاں ظاہری لباس کو وجہ زینت بتلایا ہے تو وہیں لباس تقوی کی
اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے جس کا تعلق انسان کے باطن سے ہے۔
[ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا ۭوَلِبَاسُ التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ ۭذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ ][الأعراف26]
’’اے بنی آدم(انسانو)! ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم والی چیزوں کو بھی چھپائے اور زینت کا باعث بھی ہو، اور لباس تقوی (دل میں خشیت الٰہی) یہ بہت بہتر ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔‘‘
گویا دل میں عجب، کبر و غرور اور ظاہر ی حسن کا پندار اور گھمنڈ نہ ہو، بلکہ اللہ کا خوف ہو جو انسان کو بہکنے اور بھٹکنے سے محفوظ رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
’لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ‘
’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر ایک شخص نے پوچھا:
’إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُونَ ثَوْبُہُ حَسَنًا وَ نَعْلُہُ حَسَنَۃً‘
’’ایک آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اور اس کی جوتی اچھی ہو (کیا یہ بھی کبر ہے؟۔‘‘)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِنَّ اللّٰہَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ، اَلْکِبْرُ بَطْرُالْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ‘
’’اللہ تعالیٰ خوب صورت ہے، خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ کبر (غرور) تو حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیرسمجھنا ہے۔‘‘[40]
یعنی اچھا لباس پہن کر خوب صورتی اختیار کرنا تو اللہ کو پسند ہے کیونکہ وہ خود
خوب صورت ہے۔ البتہ اچھا لباس (خلعتِ فاخرہ) پہن کر اس پر اترانا، اکڑنا اور کبر و غرور کا اظہار بایں طور کرنا کہ اس کو حق کی بات بتلائی جائے تو اپنی انانیت میں اس کا انکار کر دے اور اپنے سے کم تر رتبوں کے لوگوں کو حقیر سمجھے، یہ کبر ہے جو اللہ کو ناپسند ہے۔
ایک اور حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’کُونُوا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا، اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمُ، لَایَظْلِمُہُ، وَلَا یَخْذُلُہُ، وَلَا یَحْقِرُہُ، التَّقْوٰی ھٰھُنَا، وَیُشِیرُ إِلٰی صَدْرِہٖ ثَلَاثَ مِرَارٍ، بِحَسْبِ امْرِءٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ …الحدیث‘[41]
’’اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہو جائو۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر نہ ظلم کرے، نہ اس کو (مدد کے وقت) بے یارو مدد گار چھوڑے اور نہ اس کو حقیر سمجھے۔ اور اپنے سینے کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرکے فرمایا: تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، یعنی دل (سینے) میں۔ آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘
ایک اور حدیث میں فرمایا:
’إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی أَجْسَادِکُمْ وَلَا إِلٰی صُوُرِکُمْ، وَلٰکِنْ یَنْظُرُ إِلٰی قُلُوبِکُمْ وَأَشَارَ بِاَصَابِعِہٖ إِلٰی صَدْرِہٖ وَفِی رِوَایَۃٍ وَأَعْمَالِکُمْ‘[42]
’’اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دلوں کو (اور اپنے ہاتھوں سے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا) اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔‘‘،
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی بابت پہلے گزرا کہ وہ ساری رات قیام کرتے اور دن کو روزہ رکھتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے ان سے فرمایا:
’وَلِأَھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘[43]
’’تیرے گھر والوں (بیوی) کا بھی تجھ پر حق ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ قیام اللیل رات کو (اللہ کی عبادت کرنا) بلا شبہ بہت فضیلت والا عمل ہے لیکن رات کو بیوی کے حقوق کو نظر انداز کرکے اگر قیام کیا جائے گا تو یہ پسندیدہ امر نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی مرد راتوں کو اپنا وقت دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں یا اسی طرح کی دیگر سر گرمیوں میں گزارتا ہے اور رات کو دیر سے گھر میں آتا ہے تو یہ بھی بیوی کی حق تلفی ہے اور حسن معاشرت کے بھی منافی ہے۔
حُسنِ معاشرت کا تقاضا ہے کہ مرد سارادن گھر سے باہر گزارنے کے بعد رات کا وقت بیوی کے پاس گزارے اور اس کی دلداری و دلجوئی کا اہتمام کرے۔ سارے دن کی جدائی کے بعد رات کو بھی عورت کو انتظار کے کرب انگیز لمحات گزارنے پر مجبور کرنا کسی لحاظ سے بھی مستحسن اور پسندیدہ نہیں ہے۔
بہت سے نوجوان اپنے دوستوں کی محفل میں تنہائی اور راز کی باتیں مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں جو ان کے اور ان کی بیویوں کے درمیان ہوتی ہیں، بالخصوص شب زفاف (شادی کی پہلی رات کی) باتیں۔ یہ شرعاً ناپسندیدہ امر ہے اور اس پر سخت وعید وارد ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللّٰہِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، الرَّجُلُ یُفْضِیْ إِلٰی امْرَأَتِۃِ وَتُفْضِیْ إِلَیْہِ ثُمَّ یُنْشُرُ سِرَّھَا، وَفِی رِوَایَۃٍ: إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْأَمَانَۃِ أَیْ أَعْظَمِ خِیَانَۃِ الْأَمَانَۃِ، عِنْدَ اللّٰہِ…‘
’’قیامت کے دن اللہ کے ہاں لوگوں میں سب سے زیادہ بدتر درجے والا (دوسری روایت کے الفاظ ہیں) امانت میں سب سے زیادہ بڑی خیانت کرنے والا ، وہ شخص ہوگا جو اپنی بیوی کے پاس جاتا اور وہ اس کے پاس جاتی ہے (دونوں ہم بستری کرتے ہیں) پھر وہ شخص اپنی بیوی کی راز کی باتیں پھیلاتا( دوستوں میں بیان کرتا) ہے۔‘‘[44]
بیوی کے راز افشا کرنے کا مطلب ہے، ہم بستری کے وقت میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ جو پیار محبت کی باتیں کرتے، ایک دوسرے کو جنسی تلذذ پر آمادہ کرنے کے لیے جو حرکتیں کرتے اور اس خصوصی عمل سے جو لذت حاصل کرتے ہیں، ان کیفیات کو بیان کرنا۔ اس کی ممانعت میں کئی حکمتیں ہیں:
(1)یہ بے حیائی کی باتیں ہیں، ان سے بے حیائی کو فروغ ملتا ہے۔
(2) بیوی کے حسن و جمال اور اس کی ناز نینانہ ادائوں اور محبوبانہ غمزوں اور عشووں کے بیان کرنے میں خطرہ ہے کہ اس کے دوست، یہ باتیں سن کر اس کے رقیب بن جائیں اور اس کی دلربا بیوی سب کے لیے فتنہ اور آزمائش بن جائے۔
(3)اوراگر بیوی اس کے برعکس ہو، یعنی خوب رو نہ ہو تو اس کی برائیاں یا اس کے بارے میں ناخوشگوار تأثرات یہ حسن معاشرت کے منافی ہے۔ دوستوں میں ان باتوں کے بیان کرنے کی وجہ سے یہ باتیں دونوں خاندانوں میں بلکہ دوستوں کے گھرانوں میں
پھیلیں گی جس کے اثرات اچھے نہیں ہوں گے۔
یہی حکم عورت کے لیے بھی ہے کہ وہ خلوت کی ان باتوں کو اپنی سہیلیوں میں بیان نہ کرے۔
حسن معاشرت کا ایک حصہ یہ ہے کہ جس طرح بیوی کے لیے اپنی طاقت کے مطابق دنیوی آسائشیں اور سہولتیں مہیا کرے، اسی طرح خاوند اس بات کا بھی اہتمام کرے کہ بیوی کی آخرت کی زندگی بھی بہتر ہو۔ اور آخرت کی زندگی کا سنورنا منحصر ہے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں۔ اور عمل تب ہی ہوگا جب اس کو دینی تعلیمات سے آگاہی اور ان پر عمل کرنے کا جذبہ ہوگا۔
بنا بریں مرد کی ذمے داری ہے کہ وہ عورت کی دینی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کرے اور دین پر عمل کرنے کا جذبہ بھی اس کے اندر پیدا کرے۔ اگر بیوی اس میں کوتاہی کرے تو اس پر سختی کرے اور دین پر عمل کروائے تاکہ اس کی آخرت برباد نہ ہو۔
علاوہ ازیں اس کی دین داری کی وجہ سے اس کی گود میں پلنے والی اولاد بھی دین دار ہوگی، بصورت دیگر اولاد کی بھی بے راہ روی کا شدید خطرہ ہے۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ حکم دیا ہے:
[ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ][التحریم66]
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو بھی اور اپنے گھر والوں (اہل) کو بھی اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔‘‘
اسی حکم میں نماز کی پابندی بھی شامل ہے، یعنی بیوی بچے اگر نماز میں سستی کرتے ہوں تو
انھیں سختی سے نماز پڑھنے کی تلقین کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا:
[وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ][طٰہٰ132]
’’اپنے اہل خانہ کو نماز کا حکم دیں اور اس پر مضبوطی سے قائم رہیں۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
’مُرُوا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِینَ وَاضْرِبُوھُمْ عَلَیْہَا وَھُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِینَ وَفَرِّقُوا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ‘[45]
’’تم اپنی اولاد کو ، جب کہ وہ سات سال کی ہوجائے، نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کی ہوجائے (اور وہ نمازمیں سستی کرے) تو اس پر اس کی سرزنش کرو، اور(اس عمر میں) ان کے بستر ایک دوسرے سے الگ کردو۔‘‘،
حسن معاشرت میں یہ بھی شامل ہے کہ خاوند بیوی کو گھر سے حسب ضرورت باہر نکلنے کی اجازت دے، اس میں بلاو جہ قدغنیں نہ لگائے۔ جیسے بعض لوگ بیوی کو اس کے رشتے داروں کے پاس جانے سے روکتے ہیں، بعض گھر سے ہی نہیں نکلنے دیتے، بعض مسجدوں میں جانے سے روکتے ہیں۔ یہ سب باتیں حسن معاشرت کے منافی ہیں۔ جب شریعت نے یہ پابندیاں عائد نہیں کی ہیں تو کسی اور کو اس کا حق کس طرح حاصل ہوسکتا ہے؟
البتہ یہ ضروری ہے کہ عورت بلا وجہ گھر سے باہر نہ گھومتی پھرے اور اگر کسی ضرورت کی وجہ سے باہر جانا پڑے تو شریعت کے حکم کے مطابق سادگی اور پردے سے باہر جائے۔ بعض عورتیں پردے اور سادگی کی اہمیت کو نہیں سمجھتیں اور بے پردہ بلکہ نیم عریاں ہو کر گھر
سے نکلتی ہیں۔ مرد کی ذمے داری ہے کہ ایسی بے پردہ اور فیشن ایبل عورت کو سختی سے پردے کا پابند بنائے اور اس کو اس حدیث کا مصداق بننے سے روکے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی عورتوں کو ’’لباس پہننے کے باوجود عریاںو قرار دیا اوران کی بابت جہنم کی وعید بیان فرمائی۔ یہ حدیث مکمل الفاظ میں پہلے گزر چکی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دے جن سے عورت کی عزت کو خطرہ ہو اور نہ وہ خود ایسے دوستوں کو گھر میں لا کر گھنٹوں بٹھائے رکھے جس سے اس قسم کے خطرات پیدا ہوں۔ اسی طرح قریبی رشتے داروں کے نوجوان بچوں کو بلا محابہ گھر میں آنے جانے کی اجازت نہ دی جائے، حتی کہ شریعت نے دیور اور جیٹھ تک سے پردہ کرنے کی تاکید کی ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِیَّاکمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَفَرَأَیْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ‘[46]
’’عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کرو۔ ایک انصاری نے پوچھا: خاوند کے قریبی رشتے دار (دیور، جیٹھ وغیرہ) کے بارے میں وضاحت فرما یئے۔ آپ نے فرمایا: خاوند کا قریبی رشتے دار(دیور ، جیٹھ وغیرہ)تو موت ہیں۔‘‘
’’حمو‘‘ عربی میں خاوند کے نہایت قریبی رشتے دار کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لیے اکثر لوگ اس کا ترجمہ دیور، جیٹھ کر دیتے ہیں۔ بلاشبہ قریبی رشتے داروں میں سب سے پہلے خاوند کے حقیقی بھائی ہی آتے ہیں لیکن اس لفظ میں وسعت ہے۔ اس میں حقیقی
بھائیوں کے علاوہ اس کے چچا زاد ، ماموں زاد، پھوپی زاد، اور خواہر زاد (بھانجے) سب آجاتے ہیں جن سب کے لیے آج کل کزن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔شریعت اسلامیہ میں ایک عورت کے لیے یہ سب غیر محرم ہیں جن سے پردہ کرنے کا حکم ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ان سے پردے کا رواج نہیں ہے، سوائے چند گھرانوں کے بیشتر گھروں میں اس پر عمل نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے بعض دفعہ عورت فتنے کا شکار ہوجاتی ہے اور ایسا کام کر بیٹھتی ہے جس کی سزا رجم (سنگساری) ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیور ، جیٹھ اور کزنوں کو موت سے تعبیر فرمایا ہے۔
اس لیے مرد کی ذمے داری ہے کہ گھر کے اندر گھر میں ساتھ رہنے والے بھائیوں اور گھر میں آنے جانے والے کزنوں پر نظر رکھے اور جہاں تک ہوسکے پردے کا اہتمام کرے تاکہ کسی قسم کی ناخوشگوار صورت حال سے دو چار نہ ہونا پڑے۔
اسی طرح گھروں میں ایسے لوگوں کو بھی داخلے کی اجازت نہ دی جائے جو بے حیائی کی ترغیب دینے والے ہوں۔ جیسے مخنّث (ہیجڑے) وغیرہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اپنی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر تھے۔ گھر میں ایک مخنّث بھی تھا، وہ حضرت ام سلمہ کے بھائی عبداللہ بن ابی امیہ سے کہنے لگا: اگر کل کو اللہ نے تمہارے لیے طائف کو فتح کروادیا تو میں تمہیں وہاں رہائش پذیر غیلان کی بیٹی بتلائوں گا جو موٹی تازی ہے، چلتے وقت اس کے جسم میں آگے پیچھے اتنے اتنے بَل پڑتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے یہ الفاظ سنے تو فرمایا:
’لَا یَدْخُلَنَّ ھٰذَا عَلَیْکُمْ ‘
صحیح البخاري، حدیث: 5235
’’یہ تمہارے گھروں میں داخل نہ ہوں۔‘‘
حسن معاشرت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مرد عورت کی ان خدمات کا اعتراف کرے جو ایک عورت گھر کے اندر رہ کر شب و روز سر انجام دیتی ہے۔ جیسے:
گھر کی صفائی
کھانا پکانا اور انواع و اقسام کی ہانڈیاں تیار کرنا۔
افراد خانہ کے کپڑے دھونا۔
بچوں کی خبر گیری کرنا، ان کی خوراک وغیرہ کا خیال رکھنا۔
آئے گئے مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا۔
خاوند کی خدمت اور اس کی خواہش پوری کرنا۔
سلیقہ مندی اور سگھڑ پن سے گھر کاا انتظام چلانا۔
رشتے داریوں اور ان کے تقاضوں کو نبھانا۔
شادی شدہ بیٹیوں اور بیٹوں کے بچوں کا خیال رکھنا۔
مستقبل کی منصوبہ بندی اور اس کو اپنے لیے اور پورے کنبے کے لیے زیادہ سے زیادہ روشن بنانے کی سعیٔ پیہم اور جہدِمسلسل کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
ایک کتاب کے فاضل مؤلف نے عورت کی خدمات کا بڑے مؤثر انداز میں تذکرہ کیا ہے، اس کی افادیت کے پیش نظر ہم اپنے قارئین کی خدمت میں اسے پیش کرتے ہیں۔
’’بعض نادان لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت کا خانگی اور گھریلو کام آسان ہوتا ہے۔ لہٰذا دن بھر صرف انہی کاموں کے لیے فارغ رہنا ایسا ضروری نہیں ہے۔ یہ گمان جہالت پر مبنی ہے اس لیے کہ بچوں کی تربیت جیسی اہم ذمے داری جب تک عورت کے کاندھے پر ہوتی ہے اس کے لیے فرصت ضروری ہے تاکہ اپنی ذمے داری کو حدیث میں بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق نباہنے کے لیے اسے کچھ پڑھنے اور بکثرت مشاہدے کا موقع ملے۔ مزید برآں اسے اپنا ذہن یکسو اور دل کو مطمئن رکھنے کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے تاکہ ایسےزوردار ثر احساس اور تیز جذبے سے محفوظ ہو جس کا راست اثر پیٹ کے اندر یا دودھ پینے والے بچے پر پڑتا ہے اور بد ترین اندیشہ سامنے آتا ہے۔ علم نفسیات کے تجرے اور مشاہدے سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین لکھتے ہیں:
’’یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ عورت کا پہلا کام یعنی بچہ پیدا کرنا اور نسل انسانی کی حفاظت کرنا ایسا عمل ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور انجام نہیں دے سکتا۔ مرد کے جسمانی اعضاء کی بناوٹ پیٹ میں بچہ پالنے یا دودھ پلانے کے لائق ہرگز نہیں ہوتی۔ اب اگر عورت کو شدت سے کام میں جوڑ دیا جائے تو ظاہر ہے اس کے دل و دماغ اور اعصاب پر اس کا اچھا اثر مرتب نہیں ہوگا۔
نیز یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ اس قسم کے گہرے اثرات عورت کے دل سے ہو کر حمل کی حالت میں رہنے والے پیٹ کے بچے پر براہ راست پڑتے ہیں اسی طرح شیر خوار بچہ بھی ان اثرات سے کسی طرح خود کو نہیں بچا سکتا۔ موروثی اثرات کے بعض ماہرین یہاں تک کہتے ہیں کہ ماں اور باپ پر جو حالت یا کیفیت جنسی ملاپ یا (ماں پر) حمل کے دوران طاری ہوتی ہے اس کا تمام تر اثر بچے کی عادت
اور طبیعت پرپڑتا ہے جن عورتوں کو حمل کی مشقت اٹھانی پڑتی ہے ، پیٹ کے اندر بچے کی حفاظت اور پیدائش کے بعد ان کی تربیت اور نگہداشت جن کے ذمہ عائد ہوتی ہے، ایسی تمام خواتین کے لیے ضروری ہے کہ اعصابی ہیجان سے دور رہیں اور کوئی مشقت کا ایسا کام نہ کریں جس سے عضلات اور دماغ سخت تکان کا شکار ہوجائے۔ ورنہ اس کے اثرات زیر پرورش پیٹ کے بچے یا شیر خوار پر گہرے اور بد ترین پڑیں گے اور تادیر باقی رہیں گے۔ ظاہر ہے اس ذمہ داری کو سنبھالنا بھی اہم فریضہ اور جانگسل مشغلہ ہے جس میں نسل انسانی کی بقا افزائش اور ترقی مضمر ہے۔ اس مرحلہ سے عہدہ بر آ ہونے کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ اہلیہ اپنے بچوں پر کامل توجہ صرف کرنے کے لیے پوری طرح فرصت سے رہے، اپنے جسم، عقل اور اپنی عادات و اطوار کو اس طرح قابو میں رکھے کہ تندہی سے ان بچوں میں اعلیٰ تعلیم اور اخلاق اورنیک کردار کا بیج بو سکے اور بری عادت سے انھیں بچا سکے۔ اور یہ کام ایک دو بار حکم دینے یا منع کرنے سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے مسلسل نگرانی کڑی توجہ اور پوری دیکھ بھال ضروری ہے تاکہ بچوں کے اندر یہ صلاحیتیں راسخ ہوجائیں۔
بچوں کو کسی غلط کام پر پے در پے ٹوکنا اور مسلسل اس کے لیے بیدار ہونا بھی طبیعتوں میں غلط چیز راسخ ہونے سے حفاظت کاسبب بنتا ہے۔ یہ نگرانی جس سے اگر غفلت نہ برتی گئی، صبر اور ثابت قدمی سے اس پر عمل کیا گیا اور کسی قسم کی اکتاہٹ روا نہ رکھی گئی تو اس میں شک نہیں کہ بچوں اور بچیوں میں غلط افکار جڑ پکڑنے سے پہلے کامل طریقہ سے ان کی بیخ کنی ہوگی اور ان کا علاج مشکل نہ ہوگا۔
اور اگر کوئی یہ کہے کہ بچہ صرف حمل یا شیر خوارگی کے دوران ہی اپنی ماں کے اثرات کو قبول کرتا ہے اور اس سے ربط قائم رکھتا ہے، تو ظاہر ہے یہ نظریہ انسان کو حیوان کی صفت میں کھڑا کر دینے کے مترداف ہے۔ اس لیے کہ یہ انسان کی خصوصیت ہے کہ وہ غذائی پرورش کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ اخلاقی اور ذہنی نگہداشت اور پرورش کے ذریعہ بھی اپنے اوصاف کو بچے کے اندر منتقل کرتا ہے۔ جب کہ حیوان اس جوہر سے یکسر خالی ہوتا ہے۔ انسانی ترقی اورحیوانوں سے اس کے افضل ہونے کا یہ بھی ایک سبب ہے۔ اس طریقہ سے نئی نسلیں اپنی پیش رو نسلوں سے تجربے حاصل کرتی ہیں علم و آگہی کا سبق سیکھتی ہیں جس سے وہ اپنا فرض کما حقہ انجام دیتے ہیں۔ اور تجربے کرنے میں جو وقت اور محنت صرف ہوتی ہے انھیں اس سے نجات مل جاتی ہے۔
اور اگر کسی عورت نے خود ان کاموں کو انجام دینے کی بجائے اپنے بچوں کی نگہداشت اور پرورش کے لیے اپنے نوکروں اور خادموں پر اعتماد کیا، تو ان کی ترقی رک جائے گی۔ کیونکہ ماں جس قدر توجہ اور سر گرمی سے اپنے بچوں کے لیے وقت صرف کر سکتی ہے، جتنے اخلاص اور درد مندی سے وہ کام کر سکتی ہے، اس کا سواں حصہ بھی اس کے علاوہ کسی اور میں نہیں پایا جا سکتا کیونکہ ماں کے اخلاص اور پرورش کی شدید خواہش کے پیچھے اس کے ممتا بھرے جذبات ہوتے ہیں اور اس معاملہ میں نوکروں اور ماتحتوں پر اعتماد کرنے سے تربیت اور پرورش کا وہ پہلا معیار قطعاً برقرار نہیں رہ سکتا۔ خواہ نوکروں سے کتنی ہی اعلیٰ درجے کی خدمت لی جائے۔ خواہ ترقی اور کمال کے لیے بڑے سے بڑا وسیلہ اختیار کیا جائے اور ان خیانتوں اور سستی اورغفلت سے صرف نظر کیا جائے، جس کا نوکروں کی طرف سے روز مرہ کی زندگی میں بارہا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
اور آج جو دفاتر میں کام کرنے والی مائوں نے اپنا دودھ پلانے کی بجائے مصنوعی طریقہ استعمال میں لانا شروع کر رکھا ہے ہماری نظر میں یہ امانت میں خیانت ،حدود سے تجاوز اور سنت الٰہیہ کو بگاڑ دینے کے مترداف ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے
عورت کو چھاتی اس لیے نہیں دی کہ نائٹ کلبوں میںاس کا مظاہرہ کیا جائے اور سڑکوں اور شاہراہوں پر اپنے حسن و جمال کی نمائش کی جائے۔ بلکہ اس کی تخلیق کا اصل مقصد یہی شیر خوارگی ہے پھر شیر خوارگی کا یہ عمل صرف ایک عضو کا استعمال نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے شفقت مادری اور مضبوط عہد و پیمان کا رشتہ ہوتا ہے اور آج شیر خوارگی کے ان مصنوعی طریقوں کو دیکھ کر یہ اندیشہ ہوتا محسوس ہے کہ خدا نخواستہ مستقبل میں ایسے طریقے نہ ایجاد کر لیے جائیں جن میں مرد کے نطفہ کو ماں کے رحم سے ہٹا کر کہیں اور اس کی پرورش کی جائے تاکہ عورت کو حمل کی مشقت اور خوبصورتی کے زائل ہونے کا اندیشہ نہ رہے۔
اس صدی کے آغاز میں اٹھنے والی تعلیم نسواں کی تحریک ابتدا میں بکثرت اس بات کا پروپیگنڈہ کرتی تھی کہ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے یہ ضروری ہے کہ عورت خود بھی تعلیم و تربیت یافتہ ہو۔ لیکن جب عورت زیور تعلیم سے آراستہ ہوئی تو یہ تحریک اپنا پچھلا پروپیگنڈہ خود بھول گئی یا بھلا دی گئی۔ اور اب وہ یہ کہنے لگے کہ عورت مرد کے شانہ بشانہ مردوں کی طرح خود بھی کام کرے۔ ظاہر ہے ان کا یہ عمل ان کے پچھلے پروپیگنڈے کے اندر موجود کھوٹ کی غمازی کرتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اس پروپیگنڈے اور مشن کے پیچھے کون سے اغراض و مقاصد کار فرما تھے جو ان کے قول و فعل کے تضاد کا باعث بنے۔
علاوہ ازیں ہم چاہیں توعورتوں اور خود اپنے آپ کے دشمن ان لوگوں کو جنھیں اخبارات اور رسالے عورتوں کے نام نہاد حامی اور معاون لکھتے آرہے ہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو! عورت محنت کی عادی نہیں نہ ایسے تمام کاموں کو وہ انجام دے سکتی ہے جنھیں مرد کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ کیونکہ تکوینی طور پر عورت مہینہ میں کم و بیش ایک ہفتہ حیض سے ہوتی ہے۔ یہ حالت قریب قریب مرض کی حالت ہے۔ جس کے تحت عورت روز مرہ کے بہت سارے کام حسب معمول انجام نہیں دے
سکتی۔ اس کے بعد جب اسے حمل ٹھہرتا ہے تو قرار حمل کے ابتدائی دنوں میں اسے کافی تکالیف اور متعدد بیماریاں آگھیرتی ہیں۔ حمل کے آخری دنوں میں اس کی حالت کبھی ایسی ہوجاتی ہے جیسے اس کا بدن ٹوٹ کر شل ہوگیا ہو۔ پھر ایک مزدور عورت اگر غیر شادی شدہ ہے تو اس کا المیہ یہ ہے کہ اسے مناسب شوہر کی تلاش ہوتی ہے، وہ یہ کوشش کرتی ہے کہ ایسی ہر جگہ سے صاف بچ کرنکل جائے، جہاں اس کی نگاہیں خیرہ اور نظریں چکا چوند ہوتی ہوں۔ اور بچ کر یہ نکل جانا کبھی اس کے لیے نئے شوہر کی تلاش سے زیادہ خطرناک اور مشکل ہوجاتا ہے۔
عورت کے ان دوست نما دشمنوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ عورت کا گھر بیٹھے رہنا اس کے حقوق کو تلف کرنے اس کی شخصیت کو ختم کرنے اور اس کے وجود کو تہس نہس کر دینے کے برابر ہے۔ حالانکہ جیسے زنگی کو الٹے کافور کہاجاتا تھااسی کے مصداق یہ بھی ہوگا کہ جو محفوظ ہو جس کی خدمت کی جائے اور جس کی ایک ایک ضرورت پوری کی جائے ایسی ذات کو آزادیٔ نسواں جیسی کتابوں کے مصنف کی طرح ہم قیدی اور نظر بند کا نام دینے لگیں۔ حالانکہ یہ واقعہ ہے کہ ایک عورت پردے کے پیچھے رہ کر بھی باعزت ، شان و شوکت والی اور اپنے شوہر پر حکومت کرنے والی ہوتی ہے۔ اسے کسی دن یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کے حقوق پامال کیے گئے ہیں یا وہ مظلوم و مجبور ہے، یا قیدی اور نظر بند ہے یا اس کی عزت نفس داغدار اور شخصیت مجروح ہوچکی ہے۔ بلکہ اس قسم کی نفرت کا مظاہرہ آئے دن انھی اہل قلم لوگوں کی تحریروں سے ہوتا ہے جو نام نہاد ’’حقوق نسواں‘‘ کابینر لگا کر نکل پڑے ہیں۔ اس ذہنیت کا شکار صرف مرد ہیں عورتیں ان کے ساتھ قطعی شریک نہیں ہیں۔ اور ان کا مقصد مرد وزن دونوں کی زندگی بگاڑنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر زندگی تو در حقیقت سکون و اطمینان کا نام ہے جس میں لوگ اپنے لیے برکت اور ثابت قدمی کی راہیں تلاش کر سکیں۔ جب کہ اس نام نہاد تحریک کی پیدا کردہ
عورتوں مردوں کے اندر اس یورش اور بغاوت کی غر ض صرف یہ ہے کہ ان کے اندر سکون اور چین کے بجائے کشمکش ، اضطراب اور بے چینی پیدا کی جائے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر دو کے اندر محبت اور رأفت و رحمت پیدا ہو، تاکہ کائنات کی آباد کاری اور نسل انسانی کی حفاظت اور بقاکا مرحلہ آسان ہو۔
صحت مند سماج کی بنیاد ہی ہمیشہ باہم میل محبت، رحم دلی اور سچائی پر مبنی ہوتی ہے۔ تاکہ سماج کا ہر فرد خوشی خوشی اپنا فرض منصبی انجام دے سکے۔ اسے کسی اکتاہٹ اور بے چینی کا احساس نہ ہو۔ سماج کی حالت ایک جسم کی ہوتی ہے جس کا ہر عضو اپنا کام کرنے اور اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ اگر ایک عضو بھی اپنے فرض منصبی کی ادائیگی سے رک جاتا ہے تو پورا نظام بگڑ کر رہ جاتا ہے۔ یہ اللہ کی بے عیب اور بلند ذات بابرکات ہے جس نے ہر چیز کو مناسب طریقے سے پیدا فرمایا، پھر اسے راستہ پر لگا دیا۔ اسی نے ایک ایک فرد کو اور کائنات کے ذرے ذرے کو خواہ وہ حیوانات و نباتات یا جمادات ہوں، یا کوئی اور ہوں، غرض سب کو خاص کاموں کے لیے پیدا کر رکھا ہے۔ ان کے اندر مناسب طبیعتیں بنائی ہیں اور انھی کاموں کا انھیں خوگر بنا ڈالاہے۔ ہماری موجودہ اور نئی سے نئی زندگی اپنے ہر میدان میں بس اسی شاہراہ پر گھومتی ہے علم و حکمت کا صیغہ ہو، یا صنعت و حرفت کا کل پرزہ ہو۔ آج ہر پہیہ بڑی باریکی، نزاکت اور صفائی کے ساتھ اسی ڈگر پر گھوم رہا ہے جہاں اسے جوڑ دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ترقی و تربیت کے جدیداصول اس کے لیے کوشاں ہیں کہ تحقیق و جستجو کے بعدبچوں اور بچیوں کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے، تاکہ ہر کوئی اپنے تکوینی فرائض اور مخصوص ذمہ داریوں کو انجام دے سکے۔ جب دیگر عناصر کے لیے اس قسم کی تخصیص اور مناسب کارکردگی کی کوشش کی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ مردوں عورتوں کے لیے اس کے مخالف کوشش کی جائے اور ان کے تکوینی کاموں سے انہیں علیحدہ رکھا جائے۔
سچ پوچھیے تو ایک مرد جو گھر کے باہر کام کرتا ہے اور محنت و مشقت کے بعد تھک کر چور ہوجاتا ہے، اسے ایسی بیوی کی ضرورت ہوتی ہے جو آراستہ و پیراستہ ہو، خوشبو میں بسی ہوئی ہو، آسودہ حال اور فارغ البال ہو، جس سے مرد سکون حاصل کرے اس کی قربت سے اس کی تھکن کافور ہو، پژمردگی اور اس کی ایک ایک پریشانی کا ازالہ ہو۔ لوگوں کے ساتھ مصروف رہ کر تنگی اور شکر رنجی جو طبیعت میں بس جائے اور جس اکتاہٹ کا وہ شکار ہو اس سب کا خاتمہ ہو۔ اس کے بجائے اگر عورت نے محنت مشقت کے میدان میں قدم رکھا تو شوہر اور بال بچوں کی رعایت وہ بھلا کیسے کرے گی اس لیے کہ کام کے بعد وہ بھی تھک کر چور لوٹے گی جیسے ابھی ابھی مرد لوٹا ہے۔ اب تھکا ہوا تھکے ہوئے سے کس طرح تسلی پا سکتا ہے؟ ان میں سے کس کا دل گردہ ہے جو بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور دل لگی کرے، ان کی تربیت اور انہیں خوش رکھنے کے پِتّہ مارنے والے کام کو باآسانی انجام دے سکے۔ اور اگر خدا نخواستہ مرد وزن نے یہ وطیرہ اختیار کر لیا تو ان کی زندگی کا بس اللہ ہی نگہبان ہے۔ اس صورت میں ان کی زندگی اذیت و تکلیف اور بد بختی کا دوسرا نام ہوگی، اور پھر سماج کے یہ افراد خواہ مرد، عورت ہوں یا جوان اور بچے ہوں، ان کی حیثیت زندگی کی مشینری میں ان بے جان کل پرزوں کی سی ہوگی جن کی قسمت میں سکون اور ٹھہرائو نہیں۔ ان کا کام بس چلتے رہنا اور گھستے رہنا ہے۔
ہر بصیرت اور ادنیٰ شعور رکھنے والا اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ اس پہلو سے آج امریکن اور یورپین سماج پر ذلت اور ناکامی کے آثار چھائے ہوئے ہیں اور ابھی تو یہ آثار اور بھی گہرے ہوں گے اس لیے کہ تمام خرابیاں ابھی جڑ تک نہیں پہنچیں۔ بہر کیف یورپ کی موجودہ ذلت کی ماری نئی پود کا تعلق ایسے ماں باپ سے ہے، جو حیران و پریشان اور گم کردہ راہ ہیں جن کے اعصاب ٹوٹ چکے ہیں، جن کے
افکار پراگندہ اور جن کے دل سخت بے چینی کا شکار ہیں اور گراوٹ کا یہ اونچا تناسب… جس کے کل اعداد و شمار کو مغربی ماہرین نے فراہم کیا ہے اس کے اندر بے راہ روی اور کجی اپنے پورے رنگ اور پوری نوعیت کے ساتھ جھلکتی نظر آتی ہے یہ مظاہر اور آثار اس تجربہ کے آئینہ دار ہیں جو یورپ نے عورت کے اوپر اب تک کئے ہیں۔ اس لیے کہ یہ نئی نسل تمام تر انھی مزدور اور ملازم پیشہ خواتین کی اولاد ہیں، جنھوں نے ماں کے پیٹ سے مشقت اور کام کے دبائو کو محسوس کیا ہے۔ اور جب انھوں نے جنم لیا تو یہ ان کی سستی، غفلت اور بے توجہی کا شکار ہوئے۔ اس تجربے کے ناکام ہونے کے بعد کیا پھر کوئی کسی قسم کے تجربے کی جرأت کر سکتا ہے؟ کیا لوگ اب بھی غور و فکر نہیں کریں گے؟
عورتوں کے ان نام نہاد حمایتیوں کے پاس ان کے گمان کے مطابق جو دلیل اور ثبوت ہیں جن کی بنیادیں تمام تر مغالطے پر مبنی ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے جو وہ سمجھتے ہیں کہ عورت کے گھر میں رہنے سے تقریبا آدھا سماج معطل اور بیکار ہو کر رہ جائے گا۔ گویا ان کے کہنے کا منشا یہ ہے کہ عورت کے لیے گھر میں کوئی کام نہیں ہے۔
حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ عورتوں کی گھریلو ذمہ داری، شوہر کی نگہداشت اور خدمت، بال بچوں کی تربیت اور پرورش اور ان کی طرح طرح کی ضروریات کی تکمیل بذات خود اتنی اہم ہوتی ہے جو عورتوں کا پورا وقت لے لیتی ہے بشرطیکہ عورت کما حقہ اس فریضہ کو انجام دے۔ ورنہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ فرائض کی تکمیل کے لیے پھیلا ہوا وقت بھی تنگ پڑ جاتا ہے۔ ہمارے اس دعوے پر مسکت دلیل جو مخالف کو تقریباً خاموش کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ کام کرنے والی مزدور خواتین ہمیشہ یہ عذر پیش کرتی ہیں کہ جو کام وہ نہیں کر سکتیں ان کی تلافی کے لیے کچھ مرد یا عورت ملازم رکھ لیے جائیں۔ ظاہر ہے اس صورت میں حکومت کی آمدنی میں کون سی ایسی کمائی
یا اضافہ ہو سکتا ہے کہ عورت گھر کے باہر کام کے لیے نکلے۔ اور اس کے پیچھے پیچھے ایک یا دو آدمی ایسے ہوں جنھیں وہ کام سے الگ کیے رہے۔ کیا اس کو اقتصادیات کی اصطلاح میں نفع بخش آدمی کہا جا سکتا ہے اور کیا یہ خود خرابی اور خلل کا پیش خیمہ نہیں ہے کہ عورت گھر کے باہر مردوں کا کام کرے اور کام کرنے والے لوگوں میں سے ایک یا دو آدمی کم ہو کر گھر میں اس عورت کے چھوڑے ہوئے کاموں کو انجام دیں۔ اور اس طرح با ضابطہ اور بے ضابطہ ایسے بیکار لوگ لسٹ میں باقی رہیں جن کے نقصان کا کوئی اثر منافع یا خسارے کے بجٹ میں کہیں نظر نہ آئے۔ اور اگر اس کو درست تسلیم کیا گیا کہ سماج کے نصف بے کار مزدوروں کو کام ملے اس لیے عورت کو کام میں لگانا چاہیے۔ تو اس سے تو یہ لازم آئے گا کہ سماج کے جملہ مزدوروں کو کام سے ہٹا دیا جائے تاکہ ایک عورت کو عوامی کام دیا جاسکے۔‘‘ [48]
[1] صحیح بخاری کتاب النکاح،باب الوصاۃ بالنساء،حدیث نمبر:5186
[2] جامع الترمذي، حدیث: 1163
[3] صحیح البخاري، حدیث: 4913
سنن أبي داود:کتاب النکاح،باب فی حق الزوج علی المراٰۃ،حدیث :2142،وشرح السنہ:(9/160) [4 ]
[5] صحیح مسلم، حدیث: 995
[6] صحیح مسلم، حدیث: 994
[7] صحیح مسلم، حدیث: 1002
[8] صحیح البخاری :کتاب اللباس،باب قول اللہ تعالیٰ:قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ۔
[9] تفسیر احسن البیان ، مذکورہ آیت۔
[10] سنن أبي داود:كتاب الأدب،باب في اللعب بالبنات حدیث: 4932
[11] صحیح البخاري:أبواب العيدين،باب الحراب والدرق يوم العيد، حدیث: 949
[12] صحیح البخاري، حدیث :5236,950,454
[13] صحیح البخاري، حدیث: 5189
[14] صحیح البخاري، حدیث: 6149
[15] البقرۃ2:226،227
[16] تفسیر احسن البیان، طبع دارالسلام، لاہور، بحوالہ تفسیر ابن کثیر
[17] سنن أبي داود، حدیث: 2124
[18] سنن أبي داود، حدیث: 2134
[19] صحیح البخاري، حدیث: 676
[20] فتح الباري: 212,211/2، طبع دارالسلام
[21] سنن أبي داود، حدیث: 2513
[22] صحیح البخاري، حدیث: 5199
[23] صحیح بخاری کتاب(الأدب ،باب أحق الناس بحسن الصحبۃ،حدیث نمبر5971۔
[24] مسند أحمد : 322/6
[25] تفسیر احسن البیان
[26] صحیح مسلم، حدیث: 1218
[27] سنن أبي داود، ، حدیث: 2147
[28] سنن أبي داود، حدیث: 2146
[29] صحیح البخاري، حدیث: 5204
[30] صحیح البخاری، حدیث: 5094,5093
[31]
[32] سنن أبي داود، حدیث: 3924
[33] سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: 72?/1، رقم الحدیث: 442
[34] شرح معانی الآثار، بحوالہ الصحیحہ للالبانی: 728/2، رقم الحدیث: 993۔
[35] موارد الظمآن، النکاح، حدیث: 1232، الصحیحۃ: 509/1، رقم الحدیث: 282
[36] فتح الباري، الجہاد، 77/6
[37] حوالۂ مذکور
[38] فتح الباری: 77/6، مصنف عبدالرزاق: 411/10، رقم الحدیث: 19527
[39] صحیح البخاري، حدیث: 30، و صحیح مسلم، حدیث: 1661
[40] صحیح مسلم، حدیث: 91
[41] صحیح مسلم، حدیث: 2564
[42] صحیح مسلم، حدیث: 2564
[43] السنن الکبریٰ للبیھقی: 16:3
[44] صحیح مسلم، حدیث: 1437
[45] سنن أبي داود، حدیث: 495
[46] صحیح البخاري، حدیث: 5232
[47] صحیح البخاري، حدیث: 5235
[48] ہمارے قلعوں کو درپیش اندرونی خطرات ، ص: 153/147۔ بحوالہ تحفۃ العروس، ص:310-303
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…