گزشتہ دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں “ادارہ یونیسیف (UNICEF)” کے تعاون سے کورنگی کے ایک سرکاری ہسپتال میں پہلے انسانی دودھ کے ڈونر بینک کا افتتاح کر دیا گیا ہے کہ جس کا نام “ہیومن ملک بینک” رکھا گیا ہے کہ جس کا مقصد ان نوزائیدہ بچوں کو “ماں کا دودھ” فراہم کرنا ہے کہ جو کسی بھی وجہ سے ماں کا دودھ پینے سے محروم رہ گئے ہوں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ بینک شرعی تعلیمات کو مَدِّ نظر رکھتے ہوئے اپنی خدمات سر انجام دے گا کہ جہاں دودھ عطیہ کرنے والی خواتین اور جن بچوں کو دودھ پلایا جا رہا ہے ان سب کا ریکارڈ محفوظ ہوگا۔ قطع نظر اس بات سے کہ ان باتوں میں کس حد تک صداقت ہے، ہم پہلے یونیسیف کا تعارف اور اس کی حقیقت جانتے ہیں۔
(یونیسیف UNICEF) تعارف و حقیقت
یہ ایک عالمی ادارہ ہے کہ جس کا مرکزی دفتر امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع ہے۔ یہ ادارہ اقوامِ متحدہ کی ذیلی شاخوں میں سے ہے کہ جس کی بنیاد 11 دسمبر 1946 میں رکھی گئی۔ اس ادارے کے بنیادی مقاصد میں بچوں کو تحفظ فراہم کرنا، ان کی صحت کو یقینی بنانا، ان کے حقوق کی حفاظت کرنا اور ان کی زندگیاں بچانا وغیرہ شامل ہے۔ یہ ادارہ دنیا کے ان تمام ممالک میں پایا جاتا ہے کہ جہاں مسلمان بچوں کے حقوق محفوظ ہیں لیکن جوں ہی ان ممالک میں ان کے حقوق پامال ہونا شروع ہوتے ہیں تو اس ادارے کی مجرمانہ خاموشی اور منافقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ زمینی حقائق ہیں کہ جس کی واضح مثال “غزہ” کی حالیہ صورتحال ہے کہ جو ننھے بچوں کا قبرستان بن چکا ہے لیکن مظلوموں کے حق میں اس ادارے کی مجرمانہ خاموشی ظالموں کے حوصلوں کو بلند کرنے میں خوب کردار ادا کر رہی ہے۔ ثابت ہوا کہ اس تنظیم کا مسلمان بچوں کی فلاح و بہبود سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے!
کیا پاکستان میں ایسے اداروں کی ضرورت ہے؟
یقینا اس سوال کا جواب نفی میں ہے لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان جیسے ملک میں اس قسم کے ادارے قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے کہ جہاں طبعی رضاعت کوئی مشکل امر نہیں ہے؟ یہاں تو اکثر مائیں اپنے بچوں کو خود دودھ پلاتی ہیں نیز اگر اس حوالے سے کسی پریشانی کا سامنا بھی ہو تو چونکہ پاکستان کا خاندانی نظام ایک منظم اور مربوط نظام ہے لہذا مرضعہ کی صورت میں بھی بچوں کو طبعی دودھ میسر ہوتا ہے۔ الغرض یورپ کے بر خلاف پاکستان میں رضاعت کی بہترین صورت جب موجود ہے کہ جو اسلام ہی کا پیش کردہ ہے تو پھر اس منصوبے پر خطیر رقم خرچ کرنا چہ معنی دارد؟۔ کیا آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات ہیں؟ کیا یونیسیف والے اس بات کو نہیں جانتے کہ ماؤں کی چھاتیوں میں بچوں کی ضرورت کے بقدر بلکہ اس سے بھی زیادہ دودھ کا انتظام ہوتا ہے؟ یقینا وہ جانتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالٰی کی ایسی عظیم نعمت ہے کہ جسے تا قیامت کوئی زوال ہی نہیں ہے کیونکہ قیامت قائم ہونے تک بچے اپنی ماؤں کی چھاتیوں سے ہی دودھ پی رہے ہوں گے۔ جیسا کہ سورۃ الحج کی ابتدائی آیات سے واضح ہوتا ہے۔ پھر کیوں اس قسم کے ادارے قائم کیے جا رہے ہیں؟
یہاں مندرجہ ذیل چند اور سوالات بھی غور طلب ہیں:
- بچوں کے ساتھ ہمدردی کے نام پر آج” ہیومن ملک بینک” بنانے والے کیا اس بات کے ذمہ دار نہیں ہیں کہ انہوں نے ہی والدین کو باقاعدہ پروپیگنڈوں کے ذریعے بچوں کو مصنوعی غذا دینے کا عادی بنایا؟
- ماؤں کے دودھ پلانے سے نسوانی حسن متاثر ہونے کا پروپیگنڈہ کیا مغرب کا پیش کردہ نہیں ہے؟
لہذا “ہیومن ملک بینک” کی ضرورت مغربی ممالک میں بسنے والے غیر مسلموں کو تو ہو سکتی ہے لیکن اسلامی ریاست اور بالخصوص پاکستان میں اس قسم کے اداروں کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ مغرب کا معاشرتی ڈھانچہ اس قدر خود غرض ہے کہ انہیں “رضاعی مائیں” دستیاب ہی نہیں ہیں وہاں اس قسم کے اداروں کا قیام ان کی مجبوری بن چکی ہے۔ آج اگر بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں بھی بعض خواتین مغربی پروپیگنڈوں یا سہولت پسندی کی وجہ سے بچوں کو مصنوعی دودھ بطورِ خوراک دے رہی ہیں (کہ جو سراسر بچوں کی حق تلفی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کے لیے باعثِ نقصان بھی ہے) تو اس کا حل “ہیومن ملک بینک” نہیں بلکہ یہ ہے کہ:
- بچوں کی صحت کے لیے ماں کے دودھ کی اہمیت و ضرورت کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جائے اور خواتین کو شعور دینے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے مغرب نے جتنے بھی پروپیگنڈے کیے ہیں ان سب کی تردید کی جائے۔
- اس قسم کی مصنوعی غذائیں بنانے والوں کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے اور انہیں پابند کیا جائے کہ وہ ڈاکٹر کی ہدایات کے بغیر کسی کو بھی مصنوعی دودھ نہ بیچیں تاکہ ماؤوں کے دودھ پلانے کا رجحان معاشرے میں برقرار رہے!
- دودھ پلانے والی غریب ماؤں کو بہترین خوراک مہیا کی جائے۔ ماں کے نہ ہونے کی صورت میں رضاعی ماں کا بندوست کیا جائے اور اس کی خوراک کا خصوصی خیال رکھا جائے۔
- مرضعہ (دودھ پلانے والیوں) کی خدمات حاصل کی جائیں کہ جو براہِ راست دودھ پلانے کی پابند ہوں!
اگر مقاصد نیک ہوں تو یہ تمام صورتیں موجود ہیں۔ ان کو چھوڑ کر “ملک بینک” قائم کرنے کی طرف جانا یہ معاملے کو سدھارنے سے زیادہ اسے بگاڑنے کا سبب ہوگا لہذا یہ بات علی وجہ البصیرة کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی ممالک میں اس طرح کے اداروں کے قیام کے پیچھے قطعا نیک مقاصد نہیں ہیں۔ اس لیے کہ اسلامی ریاستوں میں تو اس قسم کے اداروں کی سرے سے نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی شرعی اعتبار سے اس کی اجازت ہے پھر کیوں ایسے اداروں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے؟ کیا اس لیے کہ مسلمان بچوں کو ماؤں کا دودھ میسر نہیں ہے؟ قطعا یہ بات نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم زمینی حقائق کو بھی اپنے سامنے رکھیں کہ آخر “ادارہ یونیسیف” کو مسلمان بچوں کی کب سے اتنی فکر ہوگئی؟ وہ بھی عین اس موقع پر کہ جہاں ایک طرف ہزاروں فلسطینی بچوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا جا رہا ہے، انہیں نہ صرف بنیادی خوراک سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ بجائے اس کے کہ ادھر یہ مظلوم بچوں کو تحفظ فراہم کریں ان بد بختوں کو پاکستانی مسلمان بچوں کی فکر لاحق ہوگئی ہے! ضرور اس منصوبے کے پیچھے ان بد بختوں کے مذموم مقاصد ہیں کہ جنہیں یہ خوشنما لیبل کے ساتھ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ پھر ایک ایسے ملک میں اس قسم کے منصوبوں کو پیش کرنا کہ جہاں مذہبی تعلیمات کے تعلق سے نہ صرف انتہائی جہالت پائی جاتی ہے بلکہ بدقسمتی سے لوگ ویسے ہی رضاعت کے معاملے میں غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہیں یقینا یہ اسلام کے احکامِ رضاعت کے خلاف ایک منظم سازش اور مغربی ایجنڈے کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ قبل اس کے کہ میں اس کے مفاسد کو بیان کروں میں چاہوں گا کہ دینِ اسلام میں جو رضاعت کی وجہ سے احکام مرتب ہوتے ہیں انہیں مختصر بیان کروں۔
- سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اسلام نے دودھ کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے کو بہت ہی اہمیت دی ہے چنانچہ قرآن مجید نے دودھ پینے کو حرمت کا سبب قرار دیا ہے۔1
- دینِ اسلام میں نسب کے ذریعے محرمات کی تمام ہی صورتیں رضاعت کے ذریعہ بھی ثابت ہیں چنانچہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
”دودھ پلانے سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی بنا پر حرام ہیں“.2
- ایک اور روایت میں فرمایا:
”رضاعت کی بنا پر وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو ولادت کے تعلق سے حرام ہیں“۔3
ثابت ہوا کہ بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے عورت اس بچے کی رضاعی ماں جبکہ اس کا شوہر رضاعی باپ اور شوہر کا بھائی رضاعی چچا بن جاتا ہے۔ یعنی جس طرح دودھ پلانے والی عورت سے بچے کا تعلق جڑ جاتا ہے ویسے ہی اس کے شوہر اور دیگر افراد کے ساتھ بھی بچے کا تعلق جڑ جاتا ہے۔
- رضاعت کے تعلق سے اگر شبہ بھی پیدا ہو جائے تو اس شبہ سے بھی بچا جائے گا۔ ایسی صورت میں ایک عورت کی گواہی بھی حتمی تصور ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک سیاہ فام خاتون نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کو دودھ پلایا ہے تو حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے اس امر کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا اور مسکرا کر فرمایا: اب جب کہ ایک بات کہہ دی گئی تو تم دونوں ایک ساتھ کس طرح رہ سکتے ہو؟4
پیش کردہ دلائل سے اس مسئلہ کی حساسیت بخوبی واضح ہو جانے کے بعد اب ہم اختصار کے ساتھ اس بینک کے مفاسد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہیومن ملک بینک کے مفاسد:
- جس طرح رشتے نسب کی بنیاد پر حرام ہوتے ہیں اسی طرح رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہوتے ہیں۔ لہذا “ہیومن ملک بینک” کا قیام اسلام کے پیش کردہ رضاعی رشتوں کے اصولوں کو منہدم کرتا ہے کیونکہ کئی خواتین سے دودھ کا جمع کرنا اور پھر انہیں آپس میں خلط کر دینا اور پھر اسے بچے کو اس حال میں دینا کہ جن کا دودھ اسے پلایا جا رہا ہے ان خواتین کی کوئی معرفت ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں محرم رشتوں کا تقدس پامال ہوگا۔
- طبعی رضاعت سے حاصل ہونے والے فوائد قطعا غیر طبعی رضاعت سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ ہیومن ملک بینک بھی غیر طبعی رضاعت کی واضح صورت ہے کیونکہ جو دودھ بچہ ماں سے براہِ راست حاصل کرتا ہے وہ قدرتی طور پر خالص اور ہر قسم کے جراثیم سے پاک ہوتا ہے بر خلاف ان اداروں کے پیش کردہ دودھ کے!
- ماں جب اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو اس سے دونوں کے درمیان ایک غیر معمولی محبت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا طبعی امر ہے کہ جو بچے کی نفسیات پر بھی عمدہ اثر چھوڑتا ہے۔ بینک سے حاصل کردہ دودھ سے قطعاً یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا!
- اس طرح کے ادارے قائم ہونے سے یقینا غریب بچوں (کہ جو معاشرے کا سب سے بڑا حصہ ہیں) کی حق تلفی ہوگی کیونکہ غربت کی مارے خواتین اپنے دودھ بچوں کو پلانے کے بجائے چند ٹکوں کے عوض فروخت کرنے کو ترجیح دیں گی جو کہ سراسر تکریمِ انسانیت کے منافی ہے۔
- اس دودھ تک صرف مال داروں کی باآسانی رسائی ممکن ہوگی کہ جس کا نقصان غریب بچوں کو صحت کی بربادی کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ تو ظلم ہے!
- کیا دودھ کو نکالنے سے لے کر جمع کرنے کے مرحلے تک اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی؟ اگر ہوگی اور یقینا ہوگی تو پھر رضاعت کو چھوڑ کر اسی صورت کو ہی کیوں اختیار کیا جا رہا ہے کہ جس میں نقصان کا بھی اندیشہ پایا جاتا ہے؟
ملک بینک کو بلڈ بینک پر قیاس کرنا:
سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب بلڈ بینک پر کسی کو اعتراض نہیں ہے تو پھر ملک بینک پر اعتراض کیوں؟
پہلی بات یہ سمجھ لیجیے کہ بلڈ بینک کو ملک بینک پر قیاس نہیں کیا جاسکتا جس کی وجہ یہ ہے کہ رضاعت خون سے نہیں بلکہ دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے۔ نیز خون بذاتِ خود غذا نہیں ہے بلکہ یہ غذا کو جسم میں منتقل کرتا ہے جبکہ دودھ بذاتِ خود غذا ہے۔ خون طبی ضرورت کے پیش نظر چڑھایا جاتا ہے جبکہ دودھ کا تعلق بھوک کو مٹانے کے ساتھ ہے۔ اسی طرح خون بوجہ عذر چڑھایا جاتا ہے جبکہ دودھ بغیر کسی عذر کے بھی پلایا جاسکتا ہے لہذا دونوں کے درمیان فرق واضح ہے!
ہیومن ملک بینک کا حکم:
اگرچہ بعض علماء نے ہیومن ملک بینک کے اجتماعی مفادات کو مَدِّ نظر رکھتے ہوئے “حلت” کا فتویٰ دے رکھا ہے لیکن علماء کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے کہ جو بے شمار مفاسد کی بناء پر ایسے بینک کے قیام کو حرام قرار دیتے ہیں اور یہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ “انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی، جدہ” ( کہ جسے پوری دنیا کے اسلامی ممالک کے کبار علماءِ کرام و مفتیانِ عظام کی نمائندگی حاصل ہے) نے بھی “ہیومن ملک بینک” کے قیام کو حرام قرار دیا ہے۔5
سعودیہ کی فتوی کمیٹی نے بھی “ہیومن ملک بینک” کو حرام قرار دیا ہے۔6
شیخ ابنِ باز رحمہ اللہ نے بھی اس ادارے کے قیام کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اس کے مفاسد بیان فرمائے ہیں۔7
اہل الحدیث مسلک کے بھی جید علماء کرام کہ جن میں مفتی جماعت اہلِ حدیث مولانا عبدالستار حماد صاحب (شارح صحیح بخاری) سرفہرست ہیں اس طرح کے بینک کو اس میں پائے جانے والے مفاسد کے باعث غیر شرعی قرار دیتے ہیں۔ (شیخ صاحب نے اس حوالے سے اپنی آڈیو بھی جاری کی ہے۔)
احناف کے معروف عالم دین مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب اور دار العلوم کراچی کا فتوی بھی یہی ہے کہ اس قسم کے ادارے بنانا ناجائز اور حرام ہے۔
تفصیلی فتوی ملاحظہ فرمائیں:
خلاصہ:
“ہیومن ملک بینک” جیسے ادارے مغربی تہذیب یافتہ ممالک کی تباہی کا نتیجہ ہیں۔ اس طرح کے اداروں کا قیام مغربی ممالک کی مجبوری ہے جبکہ اسلامی ریاستیں ان مجبوریوں سے پاک ہیں! -الحمدللہ- کیونکہ اسلام نے اس کا بدل “رضاعت” کی صورت میں پیش کیا ہے کہ جس سے مغربی ممالک اپنی خود غرضی اور دوسروں کے لیے پابند نہ ہونے کی معاشرتی سوچ کے باعث محروم ہیں۔ نیز اس طرح کے اداروں میں بے شمار اخلاقی اور شرعی مفاسد پائے جاتے ہیں کہ جس کی وجہ سے علماءِ کرام اسے ناجائز اور حرام قرار دیتے ہیں لہذا اس قسم کے بینک کا بائیکاٹ ہونا چاہیے۔
- سورۃ النساء: 23
- صحيح البخاري: 2645
- سنن ابي داود: 2055
- صحیح بخاری: 7563
- مجلة مجمع الفقه الإسلامي- العدد الثاني (2/424)
- فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الأولى (21/44)
- تفصیلی فتوی ملاحظہ فرمائیں