پہلا خطبہ :

تمام تعریفیں اس اکیلے اللہ کے لئے ہیں جس نے مخلوق میں سے جسے چاہا اسے منتخب کرلیا اوران سے کینا، بغض اور خبیث چیزوں سے محفوظ رکھا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اُس نے ہم پر اپنی رحمتوں ، برکتوں اور بڑی  بڑی عظیم نعمتوں کی برکھا برسائی ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جن کے ذریعے بتوں کی عبادت کو ختم کردیا گیا اورکفر کے نشانات کو مٹا دیا گیا ،دائمی اور ہمیشہ بہت زیادہ درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل پر اور تمام صحابہ کرام پر۔

اما بعد !

مسلمانوں اللہ تعالی سے ڈرو اس کا تو وہی سب سے بہتر ہےرہنمائی اور اُس کی اطاعت ہی سب سے اعلیٰ و ارفع چیز ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ

الحشر – 18

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیره) بھیجا ہے۔

مسلمانوں برے خصائل سے پاک صاف رہنا اور بلند اخلاق سے متفق ہونا بہت باکمال افراد کا خاصہ ہے۔ حسد کی بیماری بُری اور مہلک عادتوں میں سے ایک ہے، حسد غم کی سواری اور اس اضطراب و پریشانی کا سبب ہے، شرو برائی اور کمینگی کی علامت ہے۔ حسد یہ ہے کہ انسان اپنے کسی بھائی کی کوئی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرے کہ وہ نعمت اس سے چھن کر مجھے مل جائے۔

حسد کرنے والا اپنے کردار اور گفتار سے پہچانا جاتا ہے اور بسا اوقات انسان کا کردار اُس کی گفتار سے بھی زیادہ واضح ہوتا ہے۔ حسد کرنے والے کی تین نشانیاں ہیں :

  • جب وہ سامنے ہوتا ہے تو چاپلوسی کرتا ہے۔
  • اوجھل ہوتا ہے تو غیبت کرتا ہے۔
  • دوسروں کی مصیبت پر خوش ہوتا ہے ۔

حسد کرنے والا نعمتوں کے زائل اور ختم ہونے پر خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہے وہ قضا و قدر پر راضی نہیں ہوتا اور عطا اور بخشش پر قناعت بھی نہیں کرتا۔ جب وہ علم اور اخلاق میں، شکل و صورت میں یا مال و دولت میں یا کسی بھی خصلت میں کسی دوسرے کو اپنے سے اعلی اور ارفع دیکھتا ہے تو وہ اللہ تعالی کی مشیت پر اعتراض کرتا ہے ،اللہ تعالی کی تقسیم پر اور اس کے فضل و کرم پر کا اعتراض کرتے ہوئے اپنے غیض و غضب کا اظہار کرتا ہے۔

نہ ہی اللہ تعالی کے فیصلے کو مبنی برعدل سمجھتا ہے اور نہ ہی لوگوں کو اللہ تعالی کی نعمتوں کا مستحق سمجھتا ہے۔ اس طرح سے وہ اللہ تعالی کی نعمتوں کو ناپسند کرتا ہے اور اس رب کی حکمتوں سے غافل رہتا ہے۔ اللہ تعالی نے جسے نعمتوں سے نوازا ہے اس پر ظلم و زیادتی کی کوشش کرتا ہے اور جس پر اللہ تعالی نے احسانات کیے ہیں اس کے ساتھ مکرو فریب اور دھوکہ دہی کی کوشش کرتا ہے۔

خبردار! میرے حاسد سے کہ دو کہ تمیں پتہ بھی ہے کہ تم نے کس کی بے ادبی کی ہے؟ تم نے اللہ تعالی کے افعال پر اعتراض کرتے ہوئے اس کے ساتھ بے ادبی کی ہے۔ اللہ تعالی نے مجھے جو عطا کیا اس سے تم خوش نہیں اس کے نتیجے میں میری طرف سے اللہ تعالی نے تمہیں یہ بتا دیا کہ اس نے مجھ پر اور زیادہ نوازش کی اور تمہارے اوپر طلب نعمت کے راستے بند کر دیے۔

امام اصمعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دیہاتی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ:  میں  نےحاسد  سے بڑھ کر مظلوم نما ظالم  کوئی اور نہیں دیکھا ،وہ ہمیشہ  حزن و ملال اور دائمی شکایت اور بد بختی کا شکار رہتا ہے۔اس کی عقل حیران رہ جاتی ہے اور نہ ختم ہونے والی حسد اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔

ابولیث سمرقندی رحمہ اللہ نے کہا  کہ حسد کیے جانے والے شخص تک کوئی تکلیف  یا گزند پہنچنے سے پہلےہی حسد کرنے والے کو پانچ سزائیں مل جاتی ہیں:

پہلی سزا: لامتناہی رنج و غم۔

دوسری سزا: اجروثواب سے خالی مصیبت۔

تیسری سزا: رسواکن نصیب، رسواکن مذمت۔

چوتھی سزا: رب کی ناراضگی۔

پانچویں سزا: یہ ہے کہ اس کے لئے رب تعالی کی رضا مندی کے تمامدروازے بند ہوجاتے ہیں۔ لہذا کسی نعمت پر کبھی حسد نہ کرو۔

تمہاری حسد پر عار کےلئے یہ ہی کافی ہے کہ تمہیں حاسد کہا جائے۔ حسد کے نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ اس  سے عمر کم ہو جاتی ہے اور فکر وخیالات پراگندہ ہو جاتے ہیں۔

ابن معتز کا ایک قول ہےکہ : حسد ایک جسمانی بیماری ہے۔ اورا مام اصمعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: میں نے دیہات میں ایک شخص کو دیکھا کہ جس کی بھنویں اُس کی آنکھوں پر لٹک رہی تھیں، اُس کی عمر ایک سو بیس سال تھی پھر بھی وہ اچھا خاصہ تھا ۔ میں نے اُس سے اِس کا سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ: میں نے حسد کو چھوڑ دیا اس لیے میرا جسم سلامت ہے۔

مسلمانو! جس کی روح پاکیزہ اور صحت مند ہے وہ کسی صاحبِ نعمت کے تئیں اپنے دل میں کوئی حسد و غیض و غضب نہیں رکھتا۔ ایثار و مواثات کے پیکر،مدینہ کے انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھو جو قبائلِ عرب میں سے پڑوسیوں کی سب سے زیادہ عزت کرنے والے تھے۔ اور جن کے گھروں کو رسول اللہ ﷺ نے مسکن و جائے پناہ بنایا تھا، اُن کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا

الحشر – 9

اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اُس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی  نہیں رکھتے۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کو جو شرف و منزلت اور مقام ومرتبہ عطا کیا ہے اُس کے تئیں انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے دلوں میں تنگی نہیں رکھتے۔

مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے حسد کرنے والوں کو ڈانٹ پلائی ہے، اُن کے اِس کرتوت کی مذمت کی ہے۔ اور اُس کی قباحت کو واضح کیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ

النساء – 54

یہ لوگوں میں حسد کرتے ہیں اُس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اُنہیں دیا ہے۔

اس آیت میں لفظ ِ عام منقطعہ ہے ۔ جس کا معنیٰ ہے کہ :”یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اُس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانوں میں سے سخاوت و فیاضی  کی ہے”۔ حسد بڑے بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے، کیونکہ حسد نیکیوں کو کھالیتا ہے،حسرتوں کا سلسلہ دراز کردیتا ہے اور راحتیں چھین لیتا ہے۔ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حسد سے بچوں کیونکہ حسد نیکیوں کو اُسی طرح کھاجاتی ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔

صد افسوس ہے اُس پر جس نے اپنے دل میں حسد کی آگ بھڑکائی اوراپنے نیک اعمال کو اُس کا ایندھن بنایا۔ حسرت ہے اُس شخص پر جسے شیطان نے اِس طرح گرفتار کر لیا اور غفلت نے ایسا مدہوش کردیا کہ اُس نے اپنے دین اور اپنی نیکیوں کو برباد کر ڈالا اور اللہ تعالی کے ہاں فقیر، حقیر، مفلس اورغضب الٰہی کا مستحق بن کر حاضر ہوا، اور شیطان تو اپنے دوستوں اور یاروں سے یہی چاہتا ہے۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ،ایک دوسرے سے حسد نہ کرواور ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، اللہ کے بندوں آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ متفق علیہ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم پر فارس اور روم کے خزانے کھول دئے جائیں گے تو تم کسی طرح کی قوم ہوجاؤ گے؟ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ نے کہا: ہم وہی کہیں گے کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اُس کے برعکس ہوگے یا اُسی طرح ہوگے۔ تم لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کروگے، پھرایک دوسرے سے حسد کرو گے، پھرایک دوسرے سے منہ پھیروگے پھرایک دوسرے سے بغض رکھوگے، (یا ایسا ہی کچھ فرمایا) مسکین مہاجرین کے پاس جاؤ گے پھر اُن میں سے کچھ لوگوں کو دوسروں کی گردنوں پر مسلط کردوگے۔

اب آپ دیکھیں کہ کس طر ح یہ کشادگی ،نازو نعمت ،عیش و آرام والی زندگی،آپس میں مقابلہ آرائی ،بغض و حسد ،دشمنی اور ایک دوسرے پرغلبہ پانے کے لئے تگ و دوکرنے کا سبب بن چکی ہے۔ اگرچہ اس کے لئے معصوم لوگوں کو قتل کرنا پڑے اور بے گناہوں کی خون زیزی کرنی پڑے۔

زمرہ بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تب تک لوگ خیر و بھلائی میں رہیں گے، جب تک وہ آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرنے لگیں۔ طبرانی ،المعجم الکیبر

اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کوئی شخص اس وقت تک اہلِ علم میں شمار نہیں ہوتا جب تک کہ وہ علم میں اپنے سے فوقیت رکھنے والوں سے حسد کرنا اور اپنے سے کم درجہ افراد کو حقیر جاننا اور اپنے علم سے مال و دولت طلب کرنا چھوڑ نہیں دیتا۔ امام حاتم الاعصم کہتے ہیں: میں نے دیکھا ہے کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں تو میں نے اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور کیا:

نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ

الزخرف – 32

ہم نے ہی ان کی زندگانیٴ دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے۔

 تو فرماتے ہیں کہ میں نے حسد کرنا چھوڑ دیا۔

مسلمانو! جو اپنی نگاہ کو بے لگام چھوڑ دیتا ہے تو گویا اپنی موت کا مشاہدہ کرتا ہے اور جو ہر چمکدار چیز کے لالچ میں لگا رہتا ہے تو وہ حسرت و ندامت میں جیتا ہے اور جو ایسی خواہشات کی تمنا کرتا ہے جو حسد اور ناحق ظلم و زیادتی کا سبب بنتی ہیں وہ خسارے میں ہوتا ہے۔اور جو حاسدین کی زبان بولتے ہوئے کہتا ہے کہ کاش فلاں کامال میرا ہوتا اور کاش کہ میرے پاس اس کا عہدہ ہوتا اور کاش کہ فلاں کی بیوی میری ہوتی تو ایسے شخص نے درحقیقت اپنا دماغ اور فہم و فراست کھو دیا ہے۔ اس کا یہ قول و فعل بہت ہی قبیح اور بُرا ہے۔ وہ اپنی حماقت اور خفتِ عقل کا اسیر بن چکا ہے۔ اللہ رب العالمین نے فرمایا:

وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ

النساء – 32

 اور اس چیز کی تمنا نہ کرو کہ جس میں اللہ تعالی نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تم فلاں اور فلاں کے مال کی تمنا کرتے ہو؟ تمہیں کیا معلوم کہ وہ مال ہی اس کی بربادی کا سبب ہو۔

مسلمانو! فضل اور کمال والوں سے جلنے اور حسد کرنے اور ان کو اذیت پہنچانے کی تاریخ بڑی پرانی ہے اور جس قدر یہ آدمی ان کاموں میں کھڑا ہوتا ہے اور بڑھتا ہی جاتا ہے اس کے حاسدین اسی قدر زیادہ ہوتے ہیں اور انسان کی فضیلت جتنی زیادہ کمال کو پہنچتی ہے حاسدین کا حسد بھی بڑھتا جاتا ہے۔ حاسدین کی نظرِ بد اسی پر پڑتی ہے ،کم عقل اور دیوالیہ لوگوں کی نگاہیں بھی اسی پر پڑتی ہیں اور موقع کی تلاش میں رہنے والوں کے تیراسی پر برستے ہیں۔ آدمی سے اس کی خوبیوں کی بنا پر ہی حسد کی جاتی ہے چاہے علم و ذہانت کی خوبیاں ہوں یا جود و سخاوت کی خوبیاں ہوں۔

یقیناً شریف اور عزت دار لوگوں کو ہی حسد کا ہدف پائیں گے اور کمینے اور کم ظرف لوگوں کا دشمن کبھی نہیں دیکھیں گے۔جس کا ستارہ چمکتا ہے اور نصیب بلند ہوتا ہے اور وہ مشہور ہوتا ہے اسی کے گرد حاسدین کا  جتھہ جمع ہوتا ہے اور دشمن اسی کے خلاف متحد ہوتے ہیں۔ کسی کے اعلیٰ مقام اور شہرت کی بلندی، کینہ و عناد اور بغض و حسد کو بھڑکانے کا باعث ہوتی ہے۔کم ظرف لوگوں کے حسد نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ صاحبِ  فضل سے کوتاہ اور کم ظرف لوگ ہی حسد کرتے ہیں اور اگر مقام ومرتبہ اور صدارت کی محبت ، حکم رانی کی چاہت ،مال و دولت کی لالچ و طمع اور منصب و عہدے کی لالچ اور حرص نہ ہوتی تو کوئی شخص اپنے بھائی سے اس کے سمیٹے ہوئے عظیم فوائد و مقاصد کے بارے میں حسد نہ کرتا اور نہ ہی ظالم گروہ کسی شخص سے اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کے چھن جانے کی تمنا کرتا اور نہ ہی وہ باہم مل کر اس کی کمزوری ، اس کی قدر و منزلت کو ختم کرنے کے درپے ہوتے اور نہ اسے مغلوب کرنے کے لئے ایک دوسرے کی مسلسل معاونت کرتے۔

جو شخص لوگوں کے درمیان رہتا ہے وہ چغل خور اور حسد کرنے والوں کی تکلیف سے خود کو بچا نہیں پاتا۔ جب آپ لوگوں کو دیکھیں کہ ان کے اندر سوتن والی بیماری سرایت کر گئی ہے ،ان کی صفوں میں لوگوں کا خون چوسنے والے جونک شامل ہوگئے ہیں اور ان کے اندر خود غرضی کا مرض پھیل چکا ہے ، ان کے اندر ایک دوسرے کی تذلیل و تحقیر اور آنکھوں کے اشاروں سے استہزاہ اور نفرتیں جنم لے چکی ہیں ،وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے بلکہ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں، باہم اُنس و الفت سے پیش نہیں آتے بلکہ سختی اور شدت کا معاملہ اختیار کرتے ہیں، ایک دوسرے کی صحبت اختیار نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے سے منہ پھیر لیتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون نہیں کرتے تو جان لیں کے وہ مکر و فریب والی زندگی گزار رہے ہیں۔

ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگوں کا یہ کھلی آنکھوں سے مشاہدہ ہے جو مکر و فریب  والی زندگی گزارتا ہے وہ فقروفاقے والی موت مرتا ہے۔ اہل عرب کہتے ہیں کہ جو جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں اوندھے منہ گر جاتا ہے۔

مسلمانو! کوئی بھی جسم حسد سے خالی نہیں ہوتا لیکن عزت دار شخص اس پر قابو پا کر اسے چھپا لیتا ہے اور کم ظرف وکمینہ شخص اِسے ظاہر کر دیتا ہے اور جو شخص بھی اپنے اندر حسد کی بُو محسوس کرے اور اُسے چھپا لے اور اِس کی بنا پر متعلقہ شخص کو  کسی پریشانی سے دوچار نہ کرے، نہ اپنے دل سے اور نہ ہی اپنی زبان سے اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے۔ اور یہ حسد اسے سرکشی کی طرف نہ لے جائے اور ظلم و زیادتی کی طرف بھی نہ لے جائے اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ اسی طرح پیش آئے جس طرح کہ اللہ تعالی کو پسند ہے تو ایسا شخص قابل ملامت نہیں ہے اور نہ ہی قابل مذمت ہے۔

حسن بصری رحمہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: اے ابوسعید! کیا مؤمن بھی حسد کر سکتا ہے؟ فرمانے لگے: آپ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کو بھول گئے کیا؟ جنہوں نے یوسف علیہ السلام سے حسد کیا تھا ۔پس اپنے سینوں میں حسد کو چھپالیجئے، یہ تب تک آپ کو نقصان نہیں دےگاجب تک کہ آپ کی زبان یا ہاتھ سے اس کا اظہار نہ ہوجائے۔

مسلمانو! حسد کرنے والا شخص لایعنی اور بے فائدہ  کاموں میں مبتلا ہوکر محض قیمتی اشیاء اور ضروری کاموں کو ضائع کر بیٹھتا ہے وہ کافی پر قناعت نہیں کرتا اور نہ ہی دنیا میں کوئی چیز اسے کافی ہو سکتی ہے۔ جو شخص اپنے سینے کو حسد ،بغض ،کینہ ،دشمنی اور عداوت سے بھر لیتا ہے تو پھر اس کا ہدف متعلقہ شخص کی عزت کو پامال کرنا ہی بن جاتا ہے۔ تو جب اس کے سامنے اِس شخص کی کوئی شان و شوکت، فضیلت یا اس کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں اور اُس کے اچھے کردار اور کارناموں کا ذکر کیا جاتا ہے تو طعن و تشنیع کرتے ہوئے بولنے لگتا ہے کہ کیا وہ ایسا نہیں کرتا؟ کیا ایسا نہیں کرتا؟

 وہ اس کی خامیوں کو شمار کرنے لگتا ہے اس کو ظاہر کرنے لگتا ہے اور اس کے فضل اور فضیلت کے کاموں کو چھپانے لگتا ہے اور اس کے عیوب اور کمیوں کوتاہیوں کو بے پردہ کرنے لگتا ہے اگرچہ وہ سمندر کی گہرائیوں میں ہی کیوں نہ چھپے ہو۔یہ ہی حسد کرنے والے کی عادت اور وطیرہ ہے۔وہ اپنے ہم عصر ساتھیوں میں سے معروف ساتھی کو سب و شتم اور طعن و تشنیع کا نشانہ بناتا ہے اس کی زبان کی حدت سے کوئی بھی بچ نہیں پاتا اور وہ شخص کبھی اپنی حرکتوں سے باز بھی نہیں آتا۔

عمداً آپ کی طرف اٹھنے والی شیطانی نظر سے، حاسدین کے شر سے رب العالمین ہیں آپ کے لیے کافی ہے ۔ فرمان باری تعالی ہے:

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‎﴿١﴾‏ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ‎﴿٢﴾‏ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ‎﴿٣﴾‏ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ‎﴿٤﴾‏ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ‎﴿٥﴾

الفلق

آپ کہہ دیجیے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے، اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے، اور گرہوں میں پھونکنے والیوں (یا والوں) کے شر سے،  اور حسد کرنے والے کی برائی سے جب وہ حسد کرے۔

جو آپ نے سنا میں اسی پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں اور میں اللہ تعالی سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے بخشش طلب کرتا ہوں اور آپ بھی اللہ تعالی سے بخشش طلب کریں یقیناً وہ  انابت اور رجوع کرنے والوں کو بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں اس اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو نعمتیں عطا کرنے والا ہے اللہ رب العزت کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اسی کی تعریف کرنی چاہیے۔ درود و سلام ہو آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔

اللہ رب العزت کی رحمت ہے کہ جس رب نے ہم پر بارش نازل فرمائی۔مسلمانوں جب حاسدین کے زہریلے بچھو رینگنا  شروع کردیں اور ان کے اژدھے اپنی کمین گاہوں میں گھات لگا کر بیٹھ جائیں تو ان کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ مانگو اور ان کے مکر و فریب سے اللہ تعالی کی حمایت طلب کرو اور ان کے دھوکے اور خیانت سے بچنے کے لیے ذکرواذکار کو لازم کرو۔ ان سے محتاط رہو، ان کے ساتھ گھلنے ملنے سے بچو، ان کی ہم نشینی سے پرہیز کرو۔ اللہ تعالی کی نعمتوں کو بیان کرنا نعمتوں کی شکر گزاری میں شامل ہے ۔ لیکن اگر ایک مسلمان کو حاسدین کی بری نیت اوراُن  کی برائی اور شر کا اندیشہ ہوتو وہ نعمتوں کو چھپائے اور اُن کو بیان نہ کرے۔

امام اصمعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر حاسدین سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو تمام معاملات کو ان سے چھپا کررکھیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: جس سے حسد کیا جا رہا ہے ان کے لیے سب سے محفوظ طریقہ یہ ہے کہ وہ حاسدین سے اپنی نعمت کو چھپائیں جس طرح یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام سے کہا کہ آپ نے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہیں کرنا۔ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی مکروفریب کریں۔ جب یعقوب علیہ السلام کو علم ہوا کہ اللہ تعالی یوسف علیہ السلام کو ایک عظیم مقام ومنزلت پر فائز کرنے والا ہے اور نبوت اور رسالت کے لئے ان کا انتخاب کرنے والا ہے اور دونوں جہانوں کے لیے ان کو فضیلت بخشنے والا ہے تو انہوں نے یوسف علیہ السلام کو اپنے خواب کو  اپنے بھائیوں سے چھپانے کا حکم دیا اس وجہ سے کہ کہیں وہ ان سے حسد نہ کرنے لگ جائیں۔

امام قرطبی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کسی سے حسد کا خدشہ ہو تو اس کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا جائے۔

مسلمانو! اگر تم میں سے کسی کو کسی دوسرے مسلمان کی کوئی چیز یا کوئی حالت پسند آجائے تو وہ اللہ تعالی کو یاد کرے اور اپنے اس بھائی کے لئے دعا کرے۔ جیسا کہ سہل بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: کہ تم اپنے بھائی کو قتل کرنے سے گریز کیوں نہیں کرتے کہ جب تم نے انہیں دیکھا تھا اور وہ تمہیں پسند آئے تھے تو تم نے برکت کی دعا کیوں نہیں کی تھی۔ مسند احمد۔

اورحدیث میں وارد تبریک کا معنی کسی انسان یا  غیر انسان کے لئے برکت کی دعا کرنا کہا جاتا ہے۔ برّکت علیہ تبریکا۔ یعنی میں نے اس کو دعا دی کہ اللہ تعالی تم پر تمہارے لئے برکت  دے، تم میں برکت ڈال دے ،اسے ثابت رکھے اور اسے دوام دے اور اس میں اضافہ کرے اور اسے کئی گنا بڑھا دے۔ اللہ تعالی حاسدین کے حسد ،کینہ پروروں کے کینے اور مکاروں کے مکروفریب اور ظالموں کے ظلم و ستم سے ہم سب کی حفاظت فرمائے اور وہ ہمیں ہمارے لئے پے در پے اور بیش بہا دائمی رحمت نازل فرمائے۔

راہ راست دکھانے والے اور مخلوق کی رہنمائی کرنے والے سیدمصطفی احمد مجتبیٰ عربی ﷺ پر کثرت سے درود و سلام پڑھو کیونکہ جو ان پر ایک مرتبہ درود و سلام پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس مرتبہ رحمت نازل کرے گا۔

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ نبی رحمت ﷺ پر رحمتیں نازل فرما، اور ان کی بیویوں اور اہل وعیال پر ، جس طرح تو نے ابراہیم کے آل پر نازل کیا تھا، اور محمد پر برکت نازل فرما، اور ان کی بیویوں اور اہل وعیال پر، جس طرح تو نے ابراہیم کے آل پر نازل کیا تھا۔

 اے اللہ! خلفاء راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، علی سے راضی ہو جا، اور تمام صحابہ و تابعین سے، اور قیامت تک ان کی اچھے سے پیروی کرنے والوں سے ، اور اپنے عقو، جو وو کرم سے ہم سے بھی، اے ارحم الراحمین۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت دے، اور دین کی حفاظت کر ، اس ملک اور تمام مسلم ملکوں کو مامون، محفوظ ، ترقی والا، خو شحال بنادے۔

اے اللہ اے حی و قیوم! ہمارے تمام احوال کو درست کر دے، اور ہمیں ہمارے بھروسے پلک جھپکنے کے برابر بھی نہ چھوڑ۔

 اے اللہ! ہر جگہ کے مسلمانوں کے حالات درست کر دے، اپنی رحمت سے ، اے ارحم الراحمین۔

اے اللہ! جو ہمارے اور ہمارے ملک اور امن کا برا چاہے اسے اس کی ذات میں مشغول کر دے، اس کی چال کو اس کی موت بنادے، اور اس ، اوراسی پر بری گردش ڈال دے، اے رب العالمین۔

 اے اللہ! ہمارے ولی امر خادم حرمین شریفین کو اس کی توفیق دے جسے تو پسند کرتا اور جس سے راضی ہو ، ان کی پیشانی کو تقوی اور بھلائی کی طرف موڑ دے۔

 اے اللہ !ان کو اور ان کے جانشین کو عباد وبلاد کی بھلائی کی توفیق دے۔

اے اللہ! انہیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت پر بہترین بدلہ دے۔

اے اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی پسندیدہ چیز کی توفیق دے۔

اےاللہ! سرحد پر متعین ہماری فوج کی مدد کر ، اپنے اور ان کے دشمن کو برباد کر دے۔

اے اللہ !مسلم نوجوانوں اور دوشیزاؤں کی حفاظت فرما، ان کی امت اور وطن کو ان کے ذریعہ فائدہ پہنچا، ایمان کو ان کے نزدیک محبوب بنادے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کردے، انہیں ہدایت یافتہ بنا۔

اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں بھی نیکی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔

اے اللہ! ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمارے عیوب کو چھپا دے، ہمارے معاملے کو آسان کر، اور ہماری نیک تمناؤں تک ہمیں پہنچا دے۔

اے ہمارے رب! ہماری دعا قبول کر لے تو سننے جائے والا ہے، ہماری توبہ قبول کرلے، تو توبہ قبول کرنے والا رحم والا ہے۔

خطبة الجمعة مسجد النبوی ﷺ: فضیلة الشیخ  صلاح البُدیر حفظه اللہ
17 ربیع الثانی 1444هـ  بمطابق 11نومبر 2022

فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ

مسجد نبوی کے ائمہ و خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ صلاح بن محمد البدیر کا ہے جو متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور امام مسجد نبوی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ جج بھی ہیں۔

Recent Posts

منافقانہ عادات سے بچیں!

کیا کوئی مسلمان عقیدے یا عمل کے اعتبار سے نفاق میں مبتلا ہو سکتا ہے؟…

1 day ago

کیا ہر کسی کو سننا چاہیے؟

اسلامی ممالک میں "فتنہ الحاد"(Atheism) ایک فیشن یا حقیقت؟ ملحدین سے متاثر ہونے والوں کی…

1 day ago

نزول قرآن کے حوالے سے اہم معلومات

لیلۃ القدر میں قرآن مجید مکمل نازل ہونے کے ساتھ دوسرا اہم کام کیا ہوا؟…

5 days ago

فراغت کے لمحات کیسے گزاریں؟

عبادت کے حوالے سے قرآن مجید کی کیا نصیحت ہے؟ کیا چھٹیوں کے دن آرام…

5 days ago

عید الفطر کے مسنون اعمال

عید کی خوشی کیسے منائیں؟ عید کا چاند دیکھ کر نبی کریم ﷺ کیا کرتے…

1 week ago

فیشن اختیار کیجیے مگر۔۔۔۔!

کیا فیشن اختیار کرنے میں ہم آزاد ہیں؟ زینت، خوبصورتی یا فیشن اختیار کرنا شرعا…

2 weeks ago