پہلا خطبہ :
تمام تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، جو کریم و فیاض ہے، جس نے انسان کو نطفہ سے پیدا کر کے اس میں کان، آنکھ اور دل بنائے، اس نے مبارک پانی نازل کر کے زمین کو زندہ کیا اور ہر چیز کی فصل بندوں کے رزق کے طور پر نکالی، ہم فرمانبردار بندوں کی طرح اللہ تبارک و تعالی کی حمد کرتے ہیں اور زہد و تواضع اختیا کرنے والوں کی طرح اس پر توکل کرتے ہیں۔
تمام تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، جو کریم و فیاض ہے، جس نے انسان کو نطفہ سے پیدا کر کے اس میں کان، آنکھ اور دل بنائے، اس نے مبارک پانی نازل کر کے زمین کو زندہ کیا اور ہر چیز کی فصل بندوں کے رزق کے طور پر نکالی، ہم فرمانبردار بندوں کی طرح اللہ تبارک و تعالی کی حمد کرتے ہیں اور زہد و تواضع اختیا کرنے والوں کی طرح اس پر توکل کرتے ہیں۔
اے اللہ! درود و سلام اور برکت نازل فرما آپ ﷺ پر ، جب کہ آپ ﷺ پر درود بھیجنا ہمارے لیے بہترین توشہ ہے، جب تک پکارنے والا نماز کے لیے پکارے اور جب تک ذکر کرنے والے اللہ کا ذکر کریں اور اس کے ذکر سے غفلت برتنے والے غفلت برتیں قیامت کے دن تک۔
اما بعد!
میں آپ کو اور خود کو اللہ تعالی کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور یہ کہ ہم اس کے لیے اعمال کو خالص کریں، تمام حالات میں اس سے ڈریں، ان طاعتوں سے اس کا تقرب حاصل کریں جن سے وہ راضی ہو اور اس کی ناراضگیوں اور ممنوعات سے بچیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
الكيس مَنْ دَانَ نفسَه وعَمِلَ لِمَا بعد الموتِ، والعاجز مَنْ أَتْبَعَ نفسه هواها، ثم تمنى على الله الأماني
” سمجھدار وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے کام کرے اور لاچار وہ ہے جو خود کو خواہشات کے تابع کرے اور اللہ سے امیدیں رکھے”۔
اللہ کے بندو! ہم ان دنوں اللہ تعالی کی فراواں نعمتوں اور وافر بھلائیوں میں کروٹیں بدل رہے ہیں، ہمارا آسمان بارش برسا رہا ہے، ہمارے درخت پھل دے رہے ہیں اور ہماری زمین سرسبز وشاداب ہو رہی ہے۔ اللہ نے ہمارے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے اور اپنی بارش سے ہماری ساری زمین کو ڈھانپ لیا، چنانچہ بند ، وادیاں ، نخلستان اور کنویں بھر گئے اور زمین سیراب ہو گئی۔
اے اللہ ! تو نہیں اپنے فضل اور رحمت میں سے مزید عطا فرما، اس کا مالک تیرے سوا کوئی نہیں۔ اے اللہ !رحمت کی بارش برسا، نہ عذاب کی بارش اور نہ ڈھانے اور ڈبونے والی بارش۔
مسلمانو! دنیا آزمائشوں اور مشکلات کا گھر ہے اور ہوشمند وہ ہے جو اپنے نفس اور دین کے لیے احتیاط برتے تا کہ فتنوں کا شکار نہ ہو اور ان سے نجات پائے۔ مخلوق میں سب سے بڑا فریب خوردہ وہ ہے جو دنیا اور اس کی جلدی ملنے کی چیز سے دھو کہ کھائے، اسے آخرت پر ترجیح دے اور آخرت کو چھوڑ کر اس پر راضی ہو جائے۔ لہذا جس نے اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑا، اللہ کی روشنی سے روشنی حاصل کی اور اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لیا، وہ راہ راست پر آگیا اور نجات پا گیا۔ اور جس نے اسباب گنوا دیے، نور سے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور صراط مستقیم سے دور رہا، اللہ کی پناہ! وہ گمر اہ اور ہلاک ہو گیا۔
اللہ کے بندو! اس دنیا کے اندر انسان زندگی کے سمندر میں خیالات، افکار، وسوسوں، گمانوں،خواہشوں اور شہوتوں کی موجوں اور عوارض کے طوفانوں کے بیچ غوطے لگاتا ہے اور وہ ذات جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس میں اس کے افکار ، وسوسوں اور خواہشوں کو اور ان عوارض کو پیدا کیا جو اسے گھیرے رہتے ہیں، وہ ذات اس سے غافل رہی نہ اسے نظر انداز کیا، بلکہ اسے عقل و بصیرت سے نوازا اور اس کے پاس رسول بھیجا، اس پر ایسا نظام اتارا جو اس زندگی کے سفر میں اس کی رہنمائی کرے اور اس کے لیے انیسی رسی بڑھا دی ہے جو نجات کے کنارے سے ملی ہوئی ہے اور جس میں نہ ٹوٹنے والا مضبوط کڑا ہے۔ انسان ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں ایک چھوٹی ناؤں کی طرح ہے جسے موجیں اٹھاتی اور گراتی ہیں اور ہوائیں دائیں بائیں ہلاتی رہتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ کوئی ہو جو اسے کنارے تک پہنچائے اور اس کی رہنمائی کرے، ضروری ہے کہ اس کا کوئی ماہر ناخد اہو جو گزر گاہوں کو جانتا ہو اور اسے ساحل تک لے جائے، اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ بھول بھلیوں میں بھٹک جائے گا اور ڈوب جائے گا۔
اس مثال سے ہم اس دور کے دوہرے پن اور اختلاف کو سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں علم زیادہ ہو او ہیں جہالت پھیلی، جہاں دولت کی بہتات ہوئی وہیں غربت بھی بڑھی، جہاں طب نے ترقی کی وہیں بیماریاں بھی پھیلیں۔ نظریات، صنعت کاریوں اور فلسفوں کا علم بڑھا، لیکن اس زندگی میں انسان کی ذمہ داری اور اس کا پیغام کہا ہے؟ تو اس مقصد سے لاعلمی بھی بڑھی۔
اس لیے علم بغیر تقوی کے ہو گیا اور ہدایت پر نہیں رہا، چنانچہ علوم کو ان مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جن کے لیے انہیں پیدا نہیں کیا گیا، انہیں پیدا کیا گیا تا کہ وہ اپنے خالق کی قدرت و وحدانیت کی دلیل اور انسان اور اس کے خالق کے بیچ رابطہ بنیں، بھی۔انہیں پیدا کیا گیا تا کہ انسان کو اپنے رب کی طاعت میں مدد دیں۔ لیکن اس وقت علم اس سے دور ہے، الا ماشاء اللہ ۔ آج بعض علوم کو تخریب کاری، تباہ کاری، اللہ کے دین سے روکنے اور کمزور کو غلام بنانے کے لیے استعمال کیا گیا، اس کا سبب ہے ایمان سے علم کو جدا کرنا، تو یہ جہالت کب تک؟۔
اقتصاد کی ترقی ہوئی اور دولتوں کی بہتات ہوئی، مگر نفسوں میں کنجوسی و بخیلی بڑھ گئی اور ان میں حرام و حلال طریقہ سے اور حق و ناحق مال اکٹھا کرنے کی حرص بڑھ گئی۔ سمندر کا پانی پینے والا اس سے جتنا پیئے گا اس کی پیاس اتنی بڑھے گی۔ کچھ لوگ سیاحتی سفر میں لاکھوں خرچ کر دیتے ہیں، لیکن وہ کسی فقیر کی غمخواری نہیں کرتے اور نہ کسی یتیم پر شفقت کرتے ہیں۔ اس کا سبب اسلامی نظام اور بھلائی سے لاعلمی ہے۔
سنو! ہماری زندگی کا سب سے بڑا دو ہراپن ہمارے دینی معاملہ میں ہمارا دوہر اپن ہے۔ ہمیں خیر کا علم ہے لیکن ہم وہی خیر انجام دیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں، ہمیں شر کا علم ہے مگر ہم اپنے شر سے بچتے ہیں جس سے بچنا چاہتے ہیں، ہم ہدایت کو جانتے ہیں، لیکن ہم پوری ہدایت میں داخل نہیں ہوتے ہیں، ہم گمراہی کو جانتے ہیں، مگر ہم پوری گمراہی سے نہیں نکلتے ہیں۔ اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت پر ہمارا اعتماد ایسے ہے جیسے ہم قرآن کو نہیں پڑھتے ہیں۔
جب اللہ تعالی نے یہ بتایا کہ اس کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے، تو اس نے یہ بھی بتایا کہ رحمت والے کون لوگ ہیں اور کون اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے، چنانچہ اس نے فرمایا:
فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَالَّذِينَ هُم بِنَايَتِنَا يُؤْمِنُونَ
الاعراف – 156
تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
امت مسلمہ ! اللہ سے ڈرو۔
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
آل عمران – 110
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو۔
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا
البقرۃ – 143
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول اللہ ﷺ تم پر گواہ ہو جائیں۔
اے اللہ! ہمیں قرآن عظیم میں برکت دے اور اس کی آیات اور ذکر حکیم سے فائدہ پہنچا۔ میں اپنی یہ بات کہ رہا ہوں اور اپنے لیے، آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ کی مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ اس سے مغفرت طلب کریں۔ بیشک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ :
ہر طرح کی تعریف اللہ کے لیے ہے اور وہ کافی ہے اور درود و سلام ہو نبی مجتبی ہمارے نبی محمد ﷺ پر، آپ ﷺ کے آل واصحاب پر اور ان لوگوں پر جو ان کے نقش قدم پر چلیں۔
میں آپ کو اور خود کو اللہ عزوجل کے تقوی اور معروف طریقہ سے ولی امر کی سمع وطاعت کی وصیت کرتا ہوں۔ آپ یہ جان لیں کہ ایمان و تقوی زمین و آسمان سے برکتوں کے دروازے کھلواتے ہیں اور نافرمانی و سرکشی فتنہ اور ڈھیل کے طور پر ہر چیز کے دروازے کھولتی ہے، چنانچہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس بات سے بہت زیادہ بچا جائے کہ امت میں نافرمانیاں پائی جائیں، لوگوں کے ہاتھوں میں جو حمتیں ہیں ان سے غفلت نہ برتی جائے اور ان کا شکر ادا کیا جائے اور کفار کے لیے جو ہر چیز کے دروازے کھولے گئے ہیں اس سے دھو کہ نہ کھایا جائے۔ آپ یہ بھی جان لیں کہ عزت واحترام اللہ کی اطاعت میں ہے اور ذلت ورسوائی اللہ کی نافرمانی میں ہے۔ اس لیے آپ اللہ کی حلال کردہ چیزوں پر قناعت کریں اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے بے رخی برتیں اور یہ یقین رکھیں کہ موت اور معاملات کو چلانا اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، آدمی کو معلوم نہیں کہ صبح اور شام میں اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ اس لیے آپ اپنے بچاؤ کا سامان لے لیں اور اپنے نفس کا محاسبہ کریں قبل اس کے کہ آپ کا محاسبہ کیا جائے اور اسے تول لیں قبل اس کے کہ آپ کو تولا جائے۔
ہمارے نبی کریم ﷺ پر بکثرت درود و سلام پڑھیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی معزز کتاب میں اس کا حکم دیا ہے، چنانچہ اس نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ وَمَلَتِي كَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيُّ يَتَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اور آپﷺنے فرمایا: “جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا۔
اے اللہ! تو درود و سلام، برکت و انعام نازل کراپنے بندہ اور رسول پر، جو تیری مخلوق میں چنیدہ ہیں، روشن چہرہ اور تابناک پیشانی والے ہیں اور جو محشر میں شافع مشفع ہیں۔
اے اللہ! تو راضی ہوجا چار خلفاء، ائمہ حنفاء ابو بکر، عمر، عثمان اورعلی سے، اپنے نبی ﷺ کے باقی صحابہ سے اورآپ ﷺ کے پاکباز طاہر اہل بیت سے، تابعین سے اور تا قیامت ان لوگوں سے جو اچھی طرح ان کی پیروی کریں اور ان کے ساتھ ہم سے بھی اپنے کرم و احسان سے راضی ہو جا، یا ارحم
الراحمین۔
اے اللہ! ہمیں اپنے وطنوں میں امن عطا کر، ہمارے امام اور ولی امر خادم حرمین شریفین شاہ سلمانبن عبد العزیز اور ان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مدد اور حفاظت کر، اپنی توجہ سے ان کی دیکھ ریکھ کر اور ان کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما اور ان دونوں کو نیک و خیر خواہ مشیر عنایت کر۔
اے اللہ! مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ تیری کتاب پر عمل کریں اور تیری شریعت کو حکم بنائے۔
اے اللہ! تو ہم سے مہنگائی، وبا، سود، زنا، زلزلوں، آزمائشوں اور ظاہر وباطن برے فتنوں کو دور کر۔
اے اللہ! تو مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخش دے، چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ، ان کے شیرازہ کو اکٹھا کر، ان کی صفوں کو متحد کر اور حق پر ان کے کلمہ کو جمع کر۔ یا رب العالمین۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90
اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ﻇلم وزیادتی سے روکتا ہے، وه خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔
اللہ کا بہت زیادہ ذکر کریں اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کریں۔ ہماری آخری پکار ہے کہ تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ ڈاکٹرعبد اللہ الجهنی حفظه اللہ
20جمادی الثانی 1444ھ بمطابق 13 جنوری 2023