پہلا خطبہ:
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے. اے میرے رب! ہم تیری ہی حمد کرتے ہیں. تجھ ہی سے مد د اور مغفرت چاہتے ہیں۔ تیری بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں اور تیری ہر طرح کی بھلائی کی تعریف کرتے ہیں ، اللہ کے لئے حمد کے بعد، حمد ہے اس فضل و احسان پر جو روز فزوں اور افزوں تر ہے اور ہر وقت اس کا شکر ہے۔ قیامت کے دن ہم اس کے ثواب کی امید کرتے ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے ہمیں بھرپور نعمتوں سے نوازا اور ہمیں پورے پورے اقدار عطا کیے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ، اللہ کے بندے و رسول ہیں جو اصل و نسل کے اعتبار سے مخلوقات میں سب سے پاکیزہ اور اخلاق کے اعتبار سے سب سے تابناک ہیں۔ میرے رب کا درود و سلام پے در پے ہو آپ پر، آپ کے عظیم خلق اور فضل کی تعظیم میں، آپ کے اہلِ خانہ اور صحابہ پر اور تابعین پر اور ان پر جو آپ کی پیروی کریں ۔
اما بعد اللہ !!
اللہ کے بندوں! جن چیزوں کی وصیت کی جائے ان میں سب سے بہتر اللہ عز و جل کا تقوی ہے۔ اللہ آپ پر رحم کرے، آپ اس کا تقوی اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ کا تقوی دنیا و آخرت میں سب سے بہتر توشہ، عظیم ترین مقصد، روشن ترین مرتبہ اور بلند ترین خصلت ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى٘
البقرۃ197
اور زادِ راہ ساتھ لے لو پس سب سے بہتر زادِ راہ یقینا پرہیزگاری ہے۔
شاعر کا کہنا ہے:
میں نے تقویٰ میں عظمت کو روشن پایا اور اسی سے قیامت کے دن عزت ہے ۔ اللہ کا تقویٰ بہترین توشہ ہے اور سخت دن میں بہترین زخیرہ ہے
مسلمانوں کی جماعت! اللہ آپ کی حفاظت کرے۔ کیا آپ کو معلوم ہے ہمارے پیغام کا جوہر کیا ہے؟ ہمارے تشخص کا خلاصہ کیا ہے؟ اور ہماری تہذیب کا اکسیر کیا ہے؟ بے شک یہ ہمارے مذہبی اقدار اور مصطوفی اخلاق ہیں ۔ دین اسلام انسانیت کے لئے درستی، فلاح و بہبود، ہدایت اور کامیابی لے کر آیا۔ یہ اپنے عدل و انصاف، رحمت، نرمی، شفقت ، شرعی احکام اور مذہبی اقدار کی وجہ سے ہیں جو روحوں کے لئے غذا، دلوں کے لئے تریہ اور دوا اور عقلوں کے لئے نور و روشنی اور نفسوں کے لئے پاکی اور رونق ہے۔ خصوصا ہمارے اسلامی اقدار ہی ہیں جو پوری انسانیت کو بغض و کینا کے بندھنوں سے نکال کر ہم آہنگی اور وفا و شعاری کی طرف لے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۪وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًاۚ
آل عمران 103
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو اوراللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ پیدا کردیا پس اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچالیا۔ اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔
مذہبی اقدار ہر اس مشکل کا علاج کرنے والا مرہم ہے جس کے خطرات نے اس کا انکار کرنے والوں کی عقلوں کوعاجز بنا دیا ہے ، اللہ نے نفسوں کو ہدایت پر پیدا کیا اور اسلام کے ذریعہ ان کے رہنما راستوں کو روشن کردیا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمھجتے۔ ان اقدار میں سب سے بلند خالص ایمان اور صاف ستھری توحید ہے۔ خبردار! اللہ تعالی ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے پھر اتبا ع، جو کافی ہو۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
آل عمران 31
اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
امت مسلمہ! مولا تعالی کی حکمت نے چاہا کہ آخر اسلامی پیغام کا حامل نبیوں کے امام حنفیہ کے سردار محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ آپ کے محبین کو اگرچہ آپ کی ذات کی صحبت نہیں ملی لیکن آپ کی سانسوں کی صحبت ضرور حاصل رہی۔ ان لوگوں کو مبارکباد جو اس کے طریقہ سے غافل نہ رہے۔ انہوں نے اس کی محبت میں بہت کچھ چکھا۔ آپ ﷺ کا اخلاق ہر طرح کی خیر، چھوٹی بڑی نیکی، پوری ہدایت اور مکمل عدل سموئے ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق اور خلقت میں خوبصورت تھے تمام معاملات میں میانہ رو اور رحمت تھے۔ اللہ نے فرمایا :
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
الانبیاء 107
اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں اور ہم نشینوں کے لئے بہت زیادہ مسکرانے والے تھے۔ عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنه سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکرانے والا نہیں پایا۔
كوئی بنده جو اپنے اوپر رحمت كو شمار كرنے كا خواہشمند ہے ، تم اپنے اوپر رحم کرو کہ آپ کے فضائل شمار نہیں کیے جا سکتے۔ اگر تم کہو، ریت کے برابر یا کنکریوں کے برابر یا بارش کی بوندوں کے برابر، تو ہم کہیں گے اس سے بھی زیادہ آپ ﷺ خوشی و مسرت داخل کرتے، الفت و شادمانی بوتے، جذبات کا خیال رکھتے، دلوں کو جوڑتے کہ صبر کہ بعد جوڑنے میں بڑا اجر ہے۔ جو دلوں کو جوڑے گا اللہ اسے ہر طرح کے شر سے بچائے گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نزدیک بلند مقام تھا یہاں تک کہ وہ محبت اور وفاداری میں آپ پر اپنی جانوں اور مالوں کو قربان کر دیتے تھے اور آپ پر کبھی بھی کسی کو مقدم نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے اس محبت و وفا کا تبادلہ کرتے ۔ یہ زید بن حارثہ ہیں جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا :
وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْؕ
الاحزاب 4
اور تمہارے لے پالک لڑکوں کو تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بنایا ہے ۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے اور ان کے باپ اور قوم کے درمیان اختیار دیا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا اور کہا اللہ کی قسم میں آپ کے علاوہ کسی کو اختیار نہیں کروں گا ۔غزوہ بدر کے دن جب نبی ﷺ نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا تو انصار کے سردار سعد بن عبادہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم ان گھوڑوں کو سمندروں میں جھونک دیں تو ہم ان میں جھونک دیں گے ۔ اگر آپ حکم دیں کہ انہیں برک غماد تک دوڑایٔں تو ہم ضرور ایسا کریں گے تو رسول اللہ ﷺ ان کی بات سے خوش ہوئے اور لوگوں کو بلایا اور چل پڑے حتی کہ بدر میں پڑاؤ ڈالا اور فتح حاصل کی ۔اللہ اکبر
آپ ﷺ ان کی وفا کو نہیں بھولے جب وفا کا ذکر کیا جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد جو وفا کی، اس سے بڑی اور بلند کوئی وفا نہیں۔ امام احمد نے اپنی مسند میں
ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا وہ کہتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب خدیجہ کا ذکر کرتے تو ان کی تعریف کرتے اور اچھی تعریف کرتے اور فرماتے وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگوں نے میرا انکار کیا، اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے میری تکذیب کی اور اس وقت اپنے مال سے میری غم خواری کی جب لوگوں نے مجھے محروم کیا ۔
رواہ احمد
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی انہوں نے آپ سے کہا اللہ کی قسم اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلی رحمی کرنے والے ہیں، آپ کمزور و ناتوا کا بوجھ خود اٹھا لیتے ہیں، محروم لوگوں کو اشیاء مہیا کرتے ہیں، مہمان کی ضیافت کرتے ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ مسلمان بھائیوں! کیا وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے مذہبی اقدار اور نبوی اخلاق کو بلند و بالا کریں تاکہ ہمارا عالمی، تہذیبی پیغام، انسانی، امن اور عالمی سلامتی کے قیام کے لئے ہو جو خواہشات و محرکات اور آلودہ مقاصد اور منافس سے پاک ہو۔ عالم، فاضلانہ اقدار و اخلاق کے کنارے تبھی لگ سکتا ہے جب اخلاقی گراوٹ کو شکست دی جائے اور اقدار کی انحطاط کا مقابلہ کیا جائے خصوصاً تبدیلیوں اور بدلتے حالات اور بحرانوں اور چیلنجوں کے زمانے میں خاص طور سے ویب سائٹوں، چینلوں اور انٹرنیٹ پر۔ کیوں کہ ایسے مواد کی بھرمار ہو گئی ہے جو مذہبی اقدار، درست روایت اور صاف ستری فطرتوں کے خلاف ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اقدار کی حمایت، افکار اور روحوں کا لازمہ ہو نہ کہ ہواوں کی دوشوں پر ہو۔ مادیت کے لشکروں اور فتنوں کے سیلاب کے زمانے میں امت کی جو صورتحال ہے اس پرغایرانہ نظر ڈالنے سے سلف امت کے منھج کے مطابق کتاب و سنت کی روشنی میں ان اقدار پر ثابت قدم رہنے او ر ان پر ناز کرنے کی ضرورت جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگوں نے تو وحی کے نور کے بدلے دوسری چیز کو لے لیا اور ان اخلاق و اقدار سے محبت کو چھوڑ کر حقائق کے بدلے مظاھر پر اکتفا کیا ، انھوں نے دریا کے بدلے تھوڑے پانی پر اکتفا کیا۔ اس لیے وہ غلو اور بے رخی کے درمیان جی رہے ہیں اور دوسرے لوگ انکار، ناشکری اور احسان فراموشی میں اپنے نفسیاتی بحرانوں اور اخلاقی آلائشوں کا شکار ہیں جنہوں نے تیرتراشنے سے پہلے، پر لگا لیے یعنی پوری تیاری سے پہلے میدان میں کود پڑے اور انہیں گمان ہونے لگا کہ وہ بیگانے ہیں جبکہ وہ کم عقل، بحران زدہ، کمینے، گھٹیا، کم ظرف، بدنیت ہیں۔ ان کا مقصد وہمی فوائد اور خیالی بے وقار چیزیں ہیں۔ وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں، لومڑیوں کی طرح پینترا بازی کرتے ہیں اور حادثات اور بحرانوں کے دسترخانوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ حالات، جوہروں کو کھول دیتے ہیں ،اللہ ان کی جماعت کو نہ بڑھائے ،اس لئے امت پر واجب ہے کہ اپنی طاقتوں کو یکجا کریں ،اپنے وجود کی تعمیر دوبارہ کریں اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کریں ، اپنے اصلی عناصر پر توجہ دیں۔ تلوار اور تشدد سے نہیں بلکہ میانہ رو دین شعور سے، اس طرح وہ حق کے تیروں سے باطل پرستوں کے شبہات کے، جاہلوں کی تاویل اور غلو پسندوں کی تحریفوں کو شکست دیں، تاکہ وہ تشدد پسندوں، ملحدوں اور بے لگام لوگوں کے درمیان میانہ رو ہو کر جیے۔ میرے دوستوں! اس وقت جب کہ ہمارے عالم میں اسلام کے کچھ علاقوں کو حادثات ، مصائب ، زلزلے اور طوفان بہا لے جا رہے ہیں ، ہمیں مصیبت اور بحران زدہ لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئیے ۔ خصوصا مغرب اور لیبیا میں، اللہ آفت زدہ درنا میں ہمارے بھائیوں کی مدد کرے۔ ان کے ساتھ لطف کا معاملہ کرے۔ ان کے مردوں پر رحم کرے ۔ ان کے زخمیوں کو عافیت دے اور ان کے بیماروں کو شفا دیے۔ اللہ ان کی کمزوری پر رحم کر، ان کے شکستہ حال کو جوڑ دے اور ان کے معاملہ کا ذمہ اٹھا۔ اے اللہ! وہ ننگے پیر ہیں انہیں سوار کر، وہ نگیں بدن ہیں انہیں پہنا ، بھوکے ہیں انہیں کھلا ، اے شکستہ لوگوں کو جوڑنے والے! اے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے والے! بے کسوں کی مدد اور مصیبت زدہ لوگوں کی غم خاری کے لئے ہمارے محفوظ ملک سےعطا کے بادل اور امداد و وفا کے پل دراز ہوگۓ ہیں ۔ اللہ کے لئے حمد و احسان ہیں۔ یہ نشانیا ں اور یاد دہانی ہیں۔ قدرت کا غضب ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ
ال عمران54
اور کافروں نے مکر کیا ا ور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے
اللہ تعالی سے درست قول اور عمل کی توفیق طلب کرتے ہیں ۔ میں اللہ عظمت و جلال والے سے، اپنے لئے اور آپ کے لئے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کریں۔ بے شک وہ بڑا بردبار اور بخشنے والا ہے ۔
دوسرا خطبہ:
اللہ کے لئے ایسی حمد جو دل کو ہدایت اور روشنی سے معمور کردے اور میں گواہی دیتا ہوں کے ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اس کا کوئی شریک نہیں ایسی گواہی جو تما م جہانوں میں ہم آہنگی اور اتحاد قائم کرے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ، اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ نے مخلوق کو بیش قیمت مکارم اور اخلاق عطا کئے۔ درودوسلام ہو آپ پر، آپ کی آل اور اصحاب پر جو روشن و مبارک ہیں، تابعین پر اور تا قیامت ان لوگوں پر جو اچھی طرح ان کی پیروی کریں ۔
اما بعد اللہ !!
اللہ کے بندوں! اللہ سے ڈریں۔ مذہبی اقدار کا سب سے بہتر داعی بنیں اور دنیا کے سامنے ان کے سپیوں کے موتیوں اور ان کی تعلیمات کی کرنوں کو واضح کریں ۔ان کے سایہ میں عزت و نصرت حاصل کریں گے ۔مومنوں کی جماعت! جن قابل فخر کارناموں کی گواہی دنیا نے دی اور ان پر مخلوق متفق ہے، ان میں مذہبی اقدار اور اسلامی اخلاق کو تقویت پہچانے کا کارنامہ ہے ۔ جس سے اللہ نے اس مبارک ملک کو نوازا ہے جس کا سلسلہ اسی ملک کے متحد ہونے کے دن سے آج تک قائم ہے ۔ چناچہ اسلام کا گہوارا، امن کا منبع اور حرمین شریفین اور حج وعمرہ اور زیارت کے لئے ان کا قصد کرنے والوں کی دیکھ بھال کرنے والا تھا ،اور رہے گا ۔اللہ کا شکر ہے، اس کا عظیم احسان اور نوازش پر۔ حرمین شریفین ان دنوں انتہائی توجہ اور پوری دیکھ بھال سے محظوط ہو رہے ہیں۔ ایک مستقل ادارے کا قیام ہے جو ولی امرسے مربوط ہے تاکہ حرمین شریفین میں رواداری، بقا باہم، اعتدال ومیانہ روی کے دینی پیغام کو مضبوط اور فعال کیا جائے ۔اور اللہ تعالی کا فرمان تما م دنیا کے لئے برکت و ہدایت والا ہے، پورا ہو۔ یہ ہر مسلمان کے لئے قابل فخر اور تاریخ کی پیشانی پر چمکتی روشنی ہے ، اس کا قیام نبی ﷺ کی خدمت اور رحمان کے مہمانوں کو راحت پہچانے کے لئے اور اس کوشش کے طور پر ہوا کہ آسانی اطمینان و سہولت سے روحانی فضاؤں میں انہیں اپنی عبادات، طاعات اور مناسک کی ادائیگی پر قادر بنایا جائے تاکہ قاصدین کے دینی تجربے کو فروغ دیا جائے۔ اللہ خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد کو اس کوششوں کا اور اسلام اور مسلمانوں کے لئے جو کچھ پیش کیا اور پیش کر رہے ہیں، اس کا بہتر بدلہ دے اور اسے ان کے نیک اعمال کے ترازو میں رکھے۔ اللہ ہمارے ملک پر توحید و اتحاد، سلامتی و استقامت اور خوشحالی اور ترقی کی نعمت کو برقرار رکھ ۔ یہاں عقیدہ ہے اور توحید اس کا پیشوا ہے۔ ہدایت کی آیات ہیں اور ان کی طرف نگاہیں دیکھ رہی ہیں۔ یہ اس دین کی وجہ سے ملکوں کا موتی ہے جس نے اسے عزت کا مقام عطا کیا اور عزت بخشی۔ دینی اقدار اور بنیادوں پر قائم مشن کی روشنی میں اصول پسندانہ سفر اور پرعظمت اور اصلی تاریخی رزم میں ہم خواب دیکھتے ہیں اور اسے پورا کریں گے اور اس کی محبت ہر مسلمان کے دل میں ہے ۔ اے وطن توحید! ہمارے دل اس پر قربان ہیں جو مقدس زمین اور بڑی عزت ہے اور حق کا ایسا مینارہ ہے جس نے ام القری یعنی مکہ سے روشنی چھوڑی جو زمین کے حصوں پر چھا گئ ۔ مکہ، مدنیہ اور مسلمانوں کے قبلہ اور ان کے مناسک و شعائر کے مقام سے محبت صرف متعصب اور ران زدہ انسان کے دل میں کم ہو سکتی ہے۔ اے اللہ! تیرے محترم گھر اور تیرے رسول مصطفی ﷺ کی مسجد کو سموۓ ہوا ہے۔ وہ اہل اسلام اور مہمانوں کی خدمت کا قبلہ ہے ۔ اے اللہ! تو اس کی عزت و سلامتی کو اس کے ، استحکام و خوشحالی کو برقرار رکھ اور اس کے وجود کو متحد کرنے والے اس کے بانی اور اس کے عمارت کو بلند کرنے والے پر اپنا رحم کر اور ان کی مغفرت فرما۔ بے شک تو بڑا فیاض اور کرم والا ہے ۔اور آپ درودو سلام بھیجیں مصطفی، ہادی، امین پر جو مومنوں کا اسوہ اور رواج شریعت کے ساتھ بھیجے گۓ ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
الاحزاب56
اور نبی ﷺ نے فرمایا
مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا
مسلم
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘
اللہ اور تمام فرشتے اس ہستی پردرود بھیجیں جو مخلوقات کو ہدایت کی طرف بلانے والے ہیں اور نیک اہل خانہ پر، جن کی تعریف کو میری روشنایٔ نے دل کے نور سے لکھا۔ ایسا درود جس کی دھیمی و بلند آواز سے سننے والا نہ اکتاۓ اور جس کے دہرانے اور ظاہر کرنے سے زمانے نہ تھکیں ، اے اللہ! تو درود و سلام نازل فرما نبی مختار پر، اے اللہ! تو راضی ہوجا ان کے برگزیدہ صحابہ ابو بکر سے، جو غار میں آپ کے دوست ہیں ، عمر فاروق سے جو ملکوں کے فاتح ہیں ، عثمان سے جو بڑے فضائلوں والے ہیں اور علی سے جو صاحب فکر اور عبرت والے ہیں ، باقی تمام عشرہ مبشرہ صحابہ سے ، ہم سے بھی اپنے احسان، جود و کرم سے راضی ہوجا ۔ اے غلبہ والے اور بخشنے والے ! اے اللہ! قیامت کے دن ہمارے نبی اور قدوہ کو ہمارا شفیع بنا اور آپ کی محبت کو ہمارے دلوں میں دائمی بنا دے۔ اے اللہ! تو ہمیں ان کے حوض تک پہنچا اور ہم ان کے حوض سے پانی پییں اور اس کے بعد ہم کبھی پیاسے نہ ہوں اور اللہ کے نبی ﷺ کی محبت کو ہمارے دلوں میں اپنے والدین، اپنی اولاد سے بھی زیادہ کردے ، اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما ، کفر اور کافروں کو رسوا کر ، اے اللہ! تو اسلام کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر ، اے اللہ! تو ہمارے وطنوں میں ہمیں امن عطا فرما اور ہمارے حکمرانوں کو توفیق عطا فرما اور ہمارے امام کی حق کے ذریعہ تائید فرما اور انہیں اور ان کے ولی عہد کو ایسے کام کی توفیق عطا فرما جس میں بھلائی ہو بندوں کی اور شہروں کی۔
خطبة الجمعة مسجد الحرام
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر: عبدالرحمن السدیس حفظه اللہ
14 ربیع الاول 1445 ھ بمطابق 29 ستمبر 2023