حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ

نام و نسب :
آپ کا نام عبداللہ بن میاں روشن دین اور لقب “محدث روپڑی “ہے، آپ کو “بڑے حافظ صاحب “بھی کہا جاتا ہے۔
ولادت :
1304ھ مطابق 1887ء کمیر پور ضلع امرتسر(مشرقی پنجاب )میں پیدا ہوئے۔
تعلیم :
حصول علم کے لیے لکھوکے،سہارنپور، رام پور، میرٹھ اور دہلی وغیرہ کا سفر کیا ۔
اساتذہ :
آپ کے معروف اساتذہ میںسے چند ایک یہ ہیں : 
مولانا عبد القادر لکھوی رحمہ اللہ
سید عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ
سید عبد الاول غزنوی رحمہ اللہ
حافظ عبداللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ
اور مولوی محمد اسحاق منطقی رحمہ اللہ شامل ہیں ۔
تلامذہ :

آپ کے معروف تلامذہ میں سے چند ایک کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے: 
مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی رحمہ اللہ
حافظ اسماعیل روپڑی رحمہ اللہ
حافظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ
حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ
حافظ ثناءاللہ مدنی حفظہ اللہ
مولانا عبد السلام کیلانی
اور مولانا محمد صدیق سرگودھوی شامل ہیں۔

خدمات :

حصول علم کے بعد آپ نے بائیس (22)سال کا طویل عرصہ “روپڑ”ضلع انبالہ میں گزرا، اسی مناسبت سے آپ کو روپڑی کہا جاتا ہے، آپ نے ساری زندگی درس و تدریس اور دین حقہ کی نشر و اشاعت میں گزاری۔

قیام روپڑ کے دوران آپ نے ہفت روزہ “تنظیم اہل حدیث “جاری کیا۔ بہت ساری کتابیں بھی تالیف کیں۔
قیام پاکستان کے وقت آپ کے خاندان کے سترہ افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ آپ کی بہت بڑی لائبریری اور کئی ایک قیمتی مسودے بھی اسی حادثے کی نظر ہو گئے جن کا عمر بھر آپ کو افسوس رہا ۔

تالیفات :

حافظ صاحب کی بہت سی علمی تحریرات زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں جن میں:
فتاوی اہل حدیث
ارسال الیدین بعد الرکوع
تقیلد اور علماء دیو بند
حکومت اور علماء ربانی
سماع موتی
توحید الرحمن
مودودیت اور اسلام وغیرہ شامل ہیں ۔

خصائل :

برصغیر کے چوٹی کے علماء حدیث میں سے ہیں ، آپ نہایت صالح عابد و زاہد، صائم النہار قائم اللیل اور ایک جید عالم دین تھے۔

وفات :

حافظ صاحب نے 11ربیع الثانی 1384ھ مطابق 20اگست 1964 جمعرات کے دن لاہور میں وفات پائی اور اگلے روز نماز جمعہ کے بعد اسلامیہ کالج(ریلوے روڑ لاہور )کی گراونڈ میں حافظ محمد گوندلوی نے نماز جنازہ پڑھائی بعد ازاں گارڈن ٹاون کے قبرستان میں تدفین ہوئی رحمة الله عليه۔

الشیخ محمد ارشد کمال حفظہ اللہ: آپ جوان مگر متحرک اور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں ، ابھی آُ پ نے ایک علمی رسالہ بھی جاری کیا ہے جس کا نام نور الحدیث ہے ، جو بہت کم عرصے میں اہل علم سے داد تحسین وصول کرچکا ہے ۔