پہلا خطبہ :
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اپنی مشیت کے مطابق اپنے بعض بندوں کو حلم و برد باری سے سرفراز فرمایا ہے۔ میں بے شمار عطاو بخشش پر اُس کی حمد بجالاتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ جنہیں عمدہ حکمت ،اعلیٰ ترین علم،صبر و تحمل اور جُود و سخاء کی دولت سے نوازا گیا۔
آپ ﷺکی آل اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سلامتی نازل ہو۔
حمد و صلوٰۃ کے بعد!
مسلمانوں! اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ڈرتے رہواُس انسان کی طرح جو اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
آل عمران – 102
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔
مسلمانو! غصے کو پی جانا اور غیظ و غضب کو روک لینا محاسن اخلاق اور اوصاف فضل و کرم میں سے ہے۔ غصے پر کنٹرول کرنے کو عربی زبان میں ”کنظم الحفیظ “ کہا جاتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ غصے کو پی لیا جائے، اسے اندر ہی لوٹا دیا جائے اور غصہ و خفگی کو ظاہر نہ ہونے دیا جائے۔ اللہ رب العالمین نے غصے پر قابو پانے والوں کی تعریف بیان کی ہے، جیسا کہ اللہ رب العالمین نے متقی لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
آل عمران – 143
”جو غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“
اور ارشاد فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ
الاعراف – 102
” بے شک جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں جب انہیں کوئی وسوسہ یا غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے تو وہ فورا حکم الہی یاد کرتے ہیں پھر اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ “
آیت میں لفظ ”طائف “ مذکور ہے ، اس کا یا لفظ ”کیف“ کا معنی غصہ ہوتا ہے، یا وسوسہ ، یا معصیت کا ارادہ۔ اور غصے کو طائف اس لیے کہا گیا ہے کیوں کہ وہ شیطانی وسوسے سے پیدا ہوتا ہے۔
سعید بن جبیر کہتے ہیں: آیت میں ایسے آدمی کا ذکر ہے جو غصہ آنے پر فورا اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے، پھر وہ غصے کو پی جاتا ہے۔ بعض علما نے کہا: اپنے حلق سے غصے کا گھونٹ بار بار پینا مجھے اپنے کسی بھی اخلاقی نقص و کمی سے زیادہ پسند ہے۔
اور کسی عرب شاعر نے کہا ہے: تم سخت دل، بد اخلاق کو معاف کر دو جب وہ ظلم و زیادتی کرے۔۔۔ کیوں کہ جب محاسن اخلاق کے پیکر شخص کو غصہ دلایا جاتا ہے تو وہ غصہ پی لیتا ہے۔
بری بات زبان سے ہر گز نہ نکالو۔۔۔۔۔۔ آگ اور اس کے شعلے سے ڈرو شاید کہ تم اس سے صحیح سالم بچ جاؤ۔ شریف النفس، غصے کو ضبط کرنے والا اور عفو و در گزر کرنے والا ، عقل کے اعتبار سے سب سے ٹھوس اور بردباری و وقار کے اعتبار سے سب سے وزنی شخص ہوتا ہے۔
کسی شاعر نے کہا ہے:
اچھے اور نیک انسان کے غیظ و غضب سے کوئی ڈر نہیں ہوتا۔۔۔ جب کہ جوشِ غضب بہت سے لوگوں کو ہلکا اور بے وزن کر دیتا ہے۔
عقل مندوں نے غصے کے گھونٹ خوب پیے ہیں؛ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ انجام و نتائج کے اعتبار سے اس سے زیادہ لذیذ اور میٹھا گھونٹ اور کوئی نہیں ہے۔ ابن عمر بھی تنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” کسی بھی گھونٹ کے پینے کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنازیادہ نہیں ہے جتنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے غصے کا گھونٹ پینے کا ہے “۔ (امام احمد نے اسے روایت کیا ہے)۔
معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص غصہ ضبط کر لے، حالانکہ وہ اسے کر گزرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے منتخب کرلے۔“(اسے احمد ، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے)۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے: ”غصے کے گھونٹ پی کر ، اور بے وقوفی و جہالت کو بردباری کے ذریعے دبا کر جو لذت مجھے ملتی ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی لذت مجھے نہیں ملتی“۔
مسلمانو! غیظ و غضب تباہی و بربادی کا سبب ہے اور عقل و خرد کا دشمن ہے۔ غصہ ہلاکت و بربادی کا پیش خیمہ ہے، غیظ وغضب شر مساری وندامت کی جڑ، ہر شر کی کنجی، برائیوں کا سرچشمہ ، گناہوں کی سواری اور دشمنی کا سبب ہے، یہ اختلافات اور جھگڑے کو ہوا دیتا ہے، کبیرہ گناہوں اور ہلاکت خیز امور پر آمادہ کرتا ہے۔
شدت غیظ اور وفور غضب نے کتنے ہی ناحق خون بہائے اور یہ کتنی ہی عورتوں کی طلاق، قرابت داروں کی آپسی دشمنی، دوستوں کے در میان نفرت و دوری، ساتھیوں کے ایک دوسرے کے خلاف مکر و سازش کا سبب بنی۔ ہمیشہ سے ہی بے رخی کے بادل نے دوستی کے سورج کو گرہن لگایا ہے ، غداری کے گرد و غبار نے وفاداری کے حسن کو داغدار کیا ہے اور حرص و طمع کی تلواریں دوستی، محبت اور بھائی چارے کی مضبوط رسی کو کاٹتی رہی ہیں۔
شدت غیظ اور وفور غضب نے کتنے ہی ناحق خون بہائے اور یہ کتنی ہی عورتوں کی طلاق، قرابت داروں کی آپسی دشمنی، دوستوں کے در میان نفرت و دوری، ساتھیوں کے ایک دوسرے کے خلاف مکر و سازش کا سبب بنی۔ ہمیشہ سے ہی بے رخی کے بادل نے دوستی کے سورج کو گرہن لگایا ہے ، غداری کے گرد و غبار نے وفاداری کے حسن کو داغدار کیا ہے اور حرص و طمع کی تلواریں دوستی، محبت اور بھائی چارے کی مضبوط رسی کو کاٹتی رہی ہیں۔
اور مسند احمد میں ہے: اس آدمی نے کہا کہ پھر میں نے نبی اکرم ﷺ کے اس قول پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ غیظ و غضب ہر شر کو سموئے ہوئے ہے۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یہ کلام چند الفاظ پر مشتمل ہے، لیکن اس کے معانی بہت زیادہ اور اس کے فوائد بہت اہم اور قیمتی ہیں۔ جو اپنے غصے کو پی لیتا ہے اور غضب پر قابو پالیتا ہے تو شیطان اس سے رسوا ہوتا ہے اور اس کی مروت اوراُس کے دین پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے“۔
اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے جو غصے کے وقت عفو و در گزر کا معاملہ کرتے ہیں اور اللہ سے اجر و ثواب کی امید میں اپنے اندر صبر و تحمل پیدا کرتے ہیں، ارشاد باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ
الشوریٰ – 37
اور جو بڑے گناہوں اور بے حیائی (کی باتوں اور کاموں) سے بچتے ہیں اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔
اے مسلمانو! جوشخص اپنے غصے پر قابو نہیں کرتا اس کا ادب و وقار مجروح ہو جاتا ہے۔ جلد غصے میں آنا بیوقوف اور کم عقل لوگوں کی صفت ہے۔ جب بیو قوف انسان غصے میں آتا ہے تو بھڑک اٹھتا ہے، مشتعل ہو جاتا ہے، اپنے سینے کو پیٹنے لگتا ہے، اپنے چہرے پر مارتا ہے، نیزے چلاتا ہے ، زخمی کرتا ہے، غضبناک گوہ کی طرح اس کی رگیں پھولنے لگتی ہیں، اور غصے سے بھر جاتا ہے، اگر اس سے بات کریں تو تیور چڑھاتا ہے ، اگر اس کو چھیڑیں تو بھڑک اٹھتا ہے ، اگر اس سے بحث کریں تو آگ بگولہ ہو جاتا ہے، اگر مخالفت کریں تو اس سے غصے کی چنگاریاں نکلنے لگتی ہیں، کبر و گھمنڈ کا مظاہرہ کرتا ہے اور یہ سب اس کی جہالت، کم عقلی، کمزور بصیرت کی دلیل ہے ، اور یہی حالت ہر اس شخص کی ہے جو بہت زیادہ غصیلا، جاہل، جلد باز ہے، ایسے آدمی سے دل متنفر ہوتے ہیں اور اس کی بعض حرکتوں سے نفوس وحشت محسوس کرتے ہیں۔ طاقتور اور بہادر وہ کم عقل اور جلد باز نہیں ہے جو اپنے ساتھیوں کو پچھاڑ دیتا ہو اور اپنے بھائیوں کو زیر کر دیتا ہو۔ طاقتور اور بہادر وہ ہے جو حلیم، اور بردبار اور درگزر کرنے والا ہو، جسے نہ ہی قیل و قال اشتعال دلا تا ہو اور نہ ہی احمقوں اور جاہلوں کی بات سے وہ نادانی کے ارتکاب پر اثرتا ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: “طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابورکھے“۔ (متفق علیہ)۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”تم اپنے اندر پہلوان کس شخص کو سمجھتے ہو؟ ہم نے کہا: وہ شخص جسے لوگ پچھاڑ نہ سکتے ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ شخص پہلوان نہیں بلکہ حقیقی پہلوان وہ شخص ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھتا ہے“۔(مسلم)۔
اور حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: اے ابن آدم جب تو غصے میں ہوتا ہے اور اچھلنے لگتا ہے تو یہ ڈر ہوتا ہے کہ تو کہیں ایسی چھلانگ نہ لگا دے کہ جہنم میں جا گرے۔
مسلمانو! حلم و بردباری غیظ و غضب سے روکتی ہے ، اور یہ ایک ہموار سواری ہے جو اپنے سوار کو مسجد و شرافت کی بلندی تک پہنچاتی ہے اور حمد وستائش کی باگ ڈور اسے عطا کر دیتی ہے ، اور جو شخص عفو و در گزر کو اپنے لیے نقصان و گھاٹے کا سامان سمجھتا ہے اور غضب کو فائدے کی چیز سمجھتا ہے تو وہ غلط اندازہ لگاتا ہے، کیوں کہ حلم و بردباری کی لذت انتقام کی لذت سے زیادہ بہتر ہے، علم اور عفو و در گزر کی لذت کا انجام محمد وستائش ہے، اور بدلہ اور انتقام کی لذت کے بعد ندامت کی ذلت ہاتھ آتی ہے۔ عمرو بن اہتم سے کہا گیا کہ لوگوں میں سب سے بہادر کون ہے تو انہوں نے فرمایا: ” جس کا حلم اس کی جہالت پر قابو پالے“۔ جس کے اندر غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھے اور وہ اس پر اپنے علم سے قابو پالے اور اسے اپنے صبر سے مغلوب کر دے اور اپنی ثابت قدمی کے ذریعے اس پر کنٹرول کر لے تو گویا وہ اپنے سب سے طاقتور دشمن اور بدترین حریف پر غالب آگیا۔
لہذا غصے کے محرکات اور اسباب سے دور رہیں اور مذاق میں حد اعتدال سے تجاوز نہ کریں، کیوں کہ مذاق غصے کا پیش خیمہ ہے، اور دلوں کی تسکین اور خوشی کے حدوں سے نکل کر اتہام، غیبت اور استہز ا کے ذریعے چھپے ہوئے کینے کو نہ بھڑکائیں، کیوں کہ یہ شیطان کا حیلہ اور نفس کا دھو کہ ہے۔ اپنے دوست سے مذاق کریں مذاق کتنی محبوب چیز ہے لیکن مذاق میں حد سے تجاوز نہ کریں۔ کہ بسا اوقات ایک دوست دوسرے دوست سے مذاق کرتا ہے اور وہ عداوت کے دروازے کو کھول دیتا ہے۔
خالد بن صفوان نے کہا: تم میں سے کوئی اپنے ساتھی کو پتھر سے زیادہ سخت چیز سے مارتا ہے، سرسوں کے گرم تیل سے زیادہ گرم تیل اس کی ناک میں ڈالتا ہے اور کھولتے ہوئے پانی سے زیادہ گرم چیز اس پر انڈیلتا ہے پھر کہتا ہے کہ میں مذاق کر رہا تھا۔
بحث و جدال غیظ و غضب کا محرک ہے، پس جب آپ بحث و جدال سنیں تو پیچھے ہٹ جائیں۔
ابو امامہ الباہلی ضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں گھر دیے جانے کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے اور اس شخص کے لیے جنت کے درمیان میں گھر کا ضامن ہوں جو مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے اور اس شخص کے لیے جنت کے بالائی حصے میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو اچھے اخلاق کا مالک بن جائے“۔(ابو داؤد)۔
جھگڑادین داری کو مٹاتا ہے ، اور لوگوں کے دلوں میں بغض و حسد کو جنم دیتا ہے۔ لہذا اس سے قریب مت جاؤ، اور ہنسی مذاق ، ٹھٹھا، عار دلانے، کٹ حجتی، بحث و مناظره، مخالفت، دشمنی، ظلم، غیبت، چغل خوری، سب وشتم، سرکشی ، ناحق لوگوں کے مال کھانے، دوسروں کے حقوق کو روکنے ، یا انہیں کم اور گھٹا کر دینے سے بچو، کیوں کہ یہی چیزیں لوگوں کے درمیان شر ، حسد اور غیظ و غضب کے شعلے کو بھڑکاتی ہیں اور جب غصہ آتا ہے تو فتنے کو در آنے کا موقع مل جاتا ہے، شیطان حاضر ہو جاتا ہے، فہم و فراست رخصت ہو جاتی ہے، اور اخوت کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے اور محبت اور قرابت کے رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔
غیظ و غضب اور عداوتوں کے شعلوں کو متحمل ، وقار، حلم و بردباری کے ذریعہ سرد کرو، اور مواخذہ اور محاسبہ سے دور رہ کر اس کی چنگاریوں کو بجھاؤ، اور غیظ و غضب کو ذکر واذکار کے ذریعہ دور کرو، صبر کے ذریعے اسے ٹھنڈا کرو، اور سکوت و خاموشی اختیار کر کے اس کا خاتمہ کرو، خاموشی، حماقت و نادانی اور طیش سے بچنے ، غصے کو ٹھنڈا کرنے اور جھگڑے کے خاتمے کا ذریعہ ہے۔ اور خاموش رہنے والا کبھی شرمندہ نہیں ہوتا، اور غصیلا جھگڑالو انسان جو غصے کی وجہ سے لمبی لمبی سانسیں لیتا ہے، شدتِ غیظ و غضب سے اپنے منہ سے تھوک اورجھاگ نکالتا ہے اور بری باتیں کرتا ہے، وہ عموما محفوظ نہیں رہتا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی غصے میں ہو تو خاموش رہے ، آپ نے تین بار یہ بات کہی۔ (احمد)۔
عجلی نے کہا: ”میں نے غصے کی حالت میں کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس پر خوشی کی حالت میں افسوس ہوا ہو“۔ اور یزید بن ابی حبیب نے کہا: ”میر اغصہ جوتے اٹھانے تک ہی رہتا ہے ، جب میں کوئی نا پسندیدہ بات سنتا ہوں تو اپنے دونوں جو توں کو اٹھا کر چل دیتا ہوں“۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ” جب کوئی تکلیف دہ بات تمہاری سماعت سے ٹکرائے، تو اپنا سر نیچے کرلو تا کہ وہ تمہارے سر کے اوپر سے گزر جائے“۔
شاعر کہتا ہے:
تو جو بھی کذب بیانی اور دروغ گوئی کرنا چاہتا ہے کر لے۔ میر احلم و بردباری بہری (مضبوط) ہے ، میرے کان بہرے نہیں ہیں۔ بہت سی نازیبا باتیں سن کر بھی میں ان سنی کر دیتا ہوں اور بہت سی گمراہ کن چیزوں کو چھوڑ کر میں اپنے دامن کو بچالیتا ہوں۔ میں گالی دینے والے کمینے شخص کے پاس سے گزر جاتا ہوں۔ میں اسے نظر انداز کر کے کہتا ہوں کہ اس نے گویا مجھے مخاطب ہی نہیں کیا۔
کہ جب میاں بیوی کے مابین لڑائی جھگڑے کے بادل منڈلانے لگیں تو انہیں چاہیے کہ عفو ودر گزر کے ساتھ لڑائی جھگڑے کی آواز کو دبا کر ختم کر دیں اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ نرم خوئی اور سہل پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ حسن معاشرت کے دامن کو تھامے رکھیں۔
کسی شاعر نے اپنی زوجہ کو مخاطب کر کے کہا:
(اے میری شریک حیات) میری طرف سے تجھے عفو و در گزر کے ساتھ ساتھ ہمیشہ مودت و محبت ہی ملے گی۔۔۔ بس جب تو مجھے سخت غضبناک دیکھے تو کچھ نہ بولنا۔ جسے غیظ و غضب بر انگیختہ کرے، اسے چاہیے کہ وہ شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگے، کیوں کہ غصہ شیطانی اشتعال سے جنم لیتا ہے۔ اور جو اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے ، اس کے طیش و غضب کی آگ بجھ جاتی ہے اور اس کی گرہیں کھل جاتی ہیں۔ چنانچہ ابو ہریرہ ٹی لینے سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی غیظ و غصے میں یہ کہ دے:
أعوذ باللہ
میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔
تو اس کا غصہ ٹھنڈ اوسرد پڑ جائے گا۔“ (اسے ابن عدی نے روایت کیا ہے)۔ اور سلیمان بن صر درضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ”دو آدمی نبی کریم صلی ﷺ کی موجودگی میں جھگڑ پڑے ، ہم آنحضرت ﷺ خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص دوسرے کو غصے کی حالت میں گالی دے رہا تھا اور اس کا چہرہ سرخ تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ: میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص اسے کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہو جائے۔ اگر یہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کہہ لے۔ “(بخاری و مسلم)۔
جس شخص کو غیظ و غضب کی حدت برانگیختہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ بیٹھ جائے، جیسا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جب تم میں سے کوئی شخص غصے کی حالت میں کھڑا ہو تو اسے بیٹھ جانا چاہیے ، ایسا کرنے سے اگر غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو ٹھیک، و گر نہ لیٹ جائے۔“ (اسے احمد وابو داود نے روایت کیا ہے)۔
بیٹھنے سے فتنہ وفساد کا استمرار ختم ہو جاتا ہے، اور غیظ وغضب کی شدت و حدت جاتی رہتی ہے، جبکہ کھڑا ہوا شخص بھڑکنے ، پکڑنے دھکڑ نے اور ہاتھا پائی کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، اور عین ممکن ہے کہ انتقامی کاروائی میں اس سے ایسا فعل سرزد ہو جائے جس پر اسے شرمساری و پشیمانی اٹھانی پڑے، جبکہ بیٹھا ہوا شخص ایسی حرکتوں سے دور رہتا ہے اور لیٹا ہوا شخص اس سے بھی زیادہ دور ہوتا ہے۔
میں نے جو کچھ کہا آپ لوگوں نے اسے سماعت کیا، میں اللہ تعالی سے استغفار کرتا ہوں آپ لوگ بھی اسی سے استغفار کرو، یقیناوہ بار بار رجوع کرنے والوں کے لیے ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ :
مسلمانو! جس قدر علم و معرفت کے ساتھ حلم و بردباری کو اور قدرت و طاقت کے ساتھ عفو و درگزر کو ایک ساتھ جمع کرنے کی فضلیت ہے اس طرح کسی اور چیز کو جمع کرنے کی فضیلت نہیں ہے اور قدرت و طاقت کے باوجود در گزر کرنا کینہ کپٹ کو ختم کر دیتا ہے۔ جب آپ کے پاس طاقت و غلبہ ہو تو احسان کیجیے ، جب آپ کامیاب ہو جائیں تو حسن سلوک کیجیے ، جب آپ کو والی بنایا جائے تو نرم دلی کا مظاہرہ کیجیے ، جس نے اپنے غصے کو بے لگام چھوڑ دیا اور غصہ دلانانے والے اپنے مد مقابل سے انتقام لے لیا تو اس نے اپنے غصے کو پورا کر لیا اور اپنا پورا حق لے لیا، تو اب نہ تو وہ شکریہ کا اہل رہا اور نہ ہی وہ لوگوں میں قابل ستائش و ذکر رہا۔
یاد رکھو!آپ کے ہاتھ کی قوت و وسعت اور قوی ہیکل بڑا جسم غصے کے وقت آپ کو خواتین، خادموں، کمزوروں اور مسکینوں پر ظلم وجور ، گالم گلوچ، تہمت بازی، برے سلوک اور حقارت پر ہر گز آمادہ نہ کرے، اور اپنے اوپر اللہ سبحانہ کی قدرت و طاقت کو ملحوظ خاطر رکھیے جو ذات عورتوں، خادموں اور کمزوروں پر تمہاری قدرت و طاقت سے بڑھ کر تمہارے اوپر غلبہ وطاقت رکھتی ہے۔
جیسا کہ ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ : ”میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا تو میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی: ” ابو مسعود ! جان لو، ابو مسعود جان لو! میں شدت غضب سے سمجھ نہیں پایا کہ آواز کس کی ہے۔ ” میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ تھے ، آپﷺ کی ہیبت کی وجہ سے میرے ہاتھ سے کوڑا گر گیا۔ آپﷺنے فرمایا: ابو مسعود ! جان لو، اس پر تمہارا جتنا اختیار ہے، اس کی نسبت اللہ تم پر زیادہ اختیار رکھتا ہے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ ! وہ اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ” دیکھو! اگر تم ایسانہ کرتے تو تمہیں آگ جھلساتی یا تمہیں آگ چھوتی۔“ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔
اگر آپ سزا دے کر تسلی و تشفی کے متمنی ہیں۔۔۔ تو عفو و در گزر کرنے میں جو اجر وثواب ہے اس سے بے رغبتی مت کیجیے۔
وطن ایک ہر ابھر ا سایہ دار درخت ہے، جس کا پھل امن وامان، اطمینان وسکون اور استحکام واستقلال ہے۔ م مملکت سعودی عرب اسلام اور سلامتی کا وطن ہے ، اس میں نہایت مقدس، محترم، معظم، معزز شہر مکہ مکرمہ ہے ، جہاں ابراہیم علیہ السلام کی نشانی، ان کی وراثت اور ہمارے نبی محمد ﷺ کا گھر اور ان کا وطن ہے۔ اور یہ پرامن ، امن وامان کا گہورا، اور محفوظ و مامون شہر ہے جس میں اللہ عزوجل نے دین کے آثار و معالم رکھ دیئے ہیں، اور اس میں زیارت کے لیے محفوظ گھر کعبہ ہے، اس میں مشعر حرام، عرفات، اور مقدس مشاعر ہیں۔
اس مملکت میں رسول اللہ ﷺ کا شہر مدینہ منورہ ہے جو ان کا گھر اور ہجرت گاہ ہے، جہاں ان کے منبر ، محراب ، قبر اور مدفن بھی ہیں۔اس میں آپ ﷺ کی نشانیاں، علامتیں، آباء واجداد کے نقوش، ان کی جائیداد، میراث اور لگائے ہوئے پودے ہیں، یہ وہ وطن ہے جس کے کارنامے ، خوبیاں اور اعمال بڑے تابناک ہیں اور اس کے محاسن و فضائل معروف و مشہور ہیں۔ یہ وہ وطن ہے جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے، اس کی عمارت اسلام کے ستون پر کھڑی ہے، شرعی احکام اس کا دستور و قانون ہیں، عدل کے پھولوں سے یہ ملک مزین ہے،محبت والفت کی وجہ سے یہ معزز ہے، حق اور سچے عزائم کی وجہ سے یہ کامیاب و کامران ہے ، اور جو عزم و حوصلے سے آگے نہیں بڑھتا ہے عجز وناکامی اسے پیچھے دھکیل دیتی ہے۔
تین صدی پہلے بانی مملکت امام محمد بن سعو د رحمہ اللہ کے ہاتھوں اس مبارک سرزمین کے اوپر ایک انصاف پرور حکومت کا سورج طلوع ہوا، پھر وہ توحید ، عزم راسخ، اور دور رس نگاہ کے ذریعہ لوگوں کو جنگ و جدال سے صلح و آشتی کی طرف، خوف و خطر سے امن وامان کی جانب، جہالت کی تاریکی سے علم کی روشنی کی طرف، اور افتراق وانتشار کی ذلت سے نکال کر وحدت و یگانگت، اور اجتماعیت اور ہم آہنگی کی طرف لے آئے، پھر آپ کے بعد آپ کے بیٹوں اور پوتوں نے اس ملک کی باگ ڈور کو سنبھالا، یہاں تک کہ اللہ نے امام المسلمین شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود کو حکومت عطا کی، تو فیصلوں میں آپ کی حکمت و دانائی، رائے و مشورے میں آپ کی دور بینی، عدل و انصاف میں آپ کی شجاعت و بہادری، اور عطیات و بخشش میں آپ کی ہمدردری و فیاضی چہار دانگ عالم میں مشہور ہو گئی، چنانچہ آپ اپنی بہادری، جوانمردی، خود داری اور شریعت کی پاسداری کے معاملے میں عظیم ترین بادشاہوں میں سے ایک تھے۔ پھر اللہ نے اس ملک پر اور اس کی رعایا پر اپنی رحمت و برکت کے دروازے کھول دیئے، پھر ان کے بعد اس جھنڈے کو ان کے نیکو کار بیٹوں نے اٹھایا جو ان کے منہج اور طریقے پر چلتے رہے، یہاں تک کہ یہ ملک امن و امان ، وحدت و یگانگت، شیرازہ بندی، اتحاد رائے، اور قیادت اور رعایا کے درمیان ہم آہنگی کے معاملے میں ضرب المثل بن گیا۔
میر اوطن بے مثل ہے۔۔۔ اس کا اعتراف ہر وہ شخص کرے گاجو اسے جانتا ہے میں اپنے وطن کا کوئی بدیل نہیں چاہتا۔۔۔ یہی وطن عزیز میرے لیے کافی ہے۔ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں اور آسائشوں پر اس کی حمد و ثنا بیان کرو، اپنے امن و استقرار کی پاسبانی کرو، فتنے کی آواز و پکار ، فتنے کی طرف بلانے والوں اور فتنے کی حمایت کرنے والوں سے بچ کر رہو، جھوٹی بے بنیاد افواہوں اور خبروں سے باز رہو، اختلاف و افتراق کو ہوا دینے والوں سے کنارہ کشی اختیار کرو، اپنے آس پاس کے علاقوں اور ملکوں کی طرف نظر دوڑاؤ کہ ان کے حالات کیسے بگڑ گئے ، جب ان میں نا اتفاقی نے جنم لیا، جب ان کی آراء و افکار اور خواہشات و نظریات میں تعارض و تضاد پیدا ہوا، ان کے رجحانات میں اختلاف رونما ہوا، ان کے اتحاد و اتفاق کا شیرازہ منتشر ہوا، ان کی بیجہتی اضطراب کا شکار ہو گئی ، ان کی ہم آہنگی و یگانگت پارہ پارہ ہوگئی، با ہمی نزاع و مخالفت نے زور پکڑ لیا، ان کی حالت یہ ہوگئی کہ پھر انہیں کوئی چیز متحد و یکجا نہیں کر سکی اور کوئی حکمت عملی یا تدبیر ان سے شر و فساد کو دور کرنے میں کار گر نہ ہو سکی، جس کی وجہ سے ان کا وطن تباہیوں کی دلدل میں جا پھنسا، ان کا امن و امان و ہمی اور خیالی بن گیا، ان کی زندگی اجیرن بن گئی ، ان کے عوام مختلف گروپوں اور گروہوں میں بٹ گئے ، جو اسلحے کے بغیر کسی سمجھوتے پر راضی ہی نہیں ہوتے اور لوگوں کے قتل عام پر فخر کرتے، لہذا ان سے نصیحت حاصل کرو، کیوں کہ خوش بخت و خوش نصیب وہ ہوتا ہے جو دوسروں سے عبرت پکڑتا ہے اور بد بخت وہ ہوتا ہے جو صرف اپنی ذات سے ہی نصیحت حاصل کرتا ہے۔اور سب سے زیادہ خبیث اور فسادی وہ شخص ہے جو اپنے ہی ملک کو تباہ و برباد کرنے، اس کے باشندوں میں جنگ و قتال برپا کرنے ، اس کے امن و امان کو پارہ پارہ کرنے اور اس کی شانتی و آشتی کو داؤ پر لگانے کے درپے رہے۔
اور ہم ہر اس دشمن سے کہنا چاہتے ہیں جو ہمارے ملک کے امن و استحکام اور عروج و ترقی کو ختم کرنے کا خواہاں ہے کہ : اے دشمن ! ہماراملک اور ہمارے اہداف تیری پہنچ سے کوسوں دور ہیں۔۔ تو اپنے ملک ہی میں خوب چیختا اور چلاتا رہ۔
راہ راست دکھانے والے، مخلوق کی سفارش کرنے والے احمد مجتبی ﷺ پر سب کثرت سے درودو سلام پڑھو، کیوں کہ جو مسلمانوں ان پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا۔
اے اللہ ! ہمارے نبی و سردار ، رحمت و ثواب کی خوشخبری دینے والے، عذاب و عقاب سے ڈرانے والے محمد ﷺ پر درود و سلام نازل فرما، جو روز قیامت صاحب شفاعت ہوں گے ، جن کی سفارش کو قبول کیا جائے گا، اے اللہ ! آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر رحمتیں نازل فرما، اور ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا۔ اے کریم اور بہت زیادہ عطا کرنے والے۔
اے اللہ ! اسلام و مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک و مشرکین کو ذلیل ورسوا فرما، دین کے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، تمام مسلم ممالک اور ہمارے ملک مملکت سعودی عرب کے خلاف سازش کرنے والوں کی سازش، مکر کرنے والوں کے فریب، اور بغض و حسد رکھنے والوں کے بغض وحسد سے اسے محفوظ فرما۔ اے تمام جہانوں کے پالنے والے۔
اے اللہ ! ہمارے پیشوا، حاکم، خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرما، اور انہیں نیکی و تقوی کے کاموں کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ ! اے تمام جہانوں کے پالنے والے ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو اسلام کی تقویت، اور مسلمانوں کی اصلاح کے کام سر انجام دینے کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ ! ہماری فوج اور ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما، اے تمام جہانوں کے پالنے والے۔
اے اللہ ! ہمارےبیماروں کو شفا عطا فرما اور مصیبت زدہ لوگوں کو عافیت عطا فرما، ہمارے فوت شدگان کی مغفرت فرما اور دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔اے تمام جہانوں کے پالنے والے۔
اے اللہ ! تباہ کن زلزلے کے متاثرین، پریشان حال اور مصیبت زدگان بھائیوں کا حامی و مدد گار بن جا۔ اس کے سبب جو لوگ فوت ہو گئے ہیں، انہیں شہدا میں شامل فرما۔ زخمیوں اور مریضوں کو شفادے، اے دعا قبول کرنے والے۔
اے اللہ ! تو انہیں امن امان عطا فرما اور اپنی حفاظت اور احسان کے سائے تلے جگہ دے، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
اے اللہ !صدقہ و خیرات کرنے والے محسنین جنہوں نے ان کی نصرت و مدد میں حصہ لیا، انہیں بہترین بدلہ عطا فرما۔ اے سارے جہانوں کے پالنے والے۔
اے اللہ ! ہماری دعا کو شرفِ قبولیت عطا فرما، اور ہماری پکار کو منظور فرما، اے عزت والے، عظمت والے اور نہایت رحم کرنے والے اللہ ۔
خطبة الجمعة مسجدالنبویﷺ: فضیلة الشیخ صلاح البدیر حفظه اللہ
04 شعبان 1444 ھ بمطابق 24 فروری 2023