پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں،جس نے اپنے بندوں کو امیر یا غریب بنایا، تمام اوامر و نواہی پر اسی کا ثناء خواں اور شکر گزار ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے، اس نے اپنے بندوں کے فیصلے حق و عدل کے ساتھ کئے ہیں، اور عذاب کا حقدار بننے سے خبردار کیا، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ کی جود و سخا کی انتہا نہیں ہے، ،اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل پر، اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے جو کہ صاحب عزم و ہمت تھے۔
حمد و ثناء کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں ، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران – 102
اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں ہی آئے۔
امیری اور فقیری بندوں کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے؛ اللہ تعالی کسی کو فراوانی سے اس لئے نوازتا ہے تا کہ وہ دیکھے کہ بندہ حمد وشکر بجالاتا ہے یا سرکش بنتا ہے، اور کسی پر دنیاوی تنگی امتحان لینے کے لئے ڈالتا ہے کہ بندہ صبر و تحمل سے کام لیتا ہے یا جزع فزع کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
الانبیاء – 35
ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں خیر وشر سے آزماتے ہیں، اور ہماری طرف ہی تم لوٹائے جاؤ گے۔
لیکن مؤمن کی حالت تعجب خیز ہے؛ اگر تکلیف پہنچے تو صبر کرکے اسے اپنے لئے بھلائی میں بدل لیتا ہے، اور اگر خوشی ملے تب شکر کرکے نیکی کما لیتا ہے؛ چنانچہ مؤمن زحمت و رحمت کے لئے صبر و شکر سے کام لیتا نظر آتا ہے، جبکہ اللہ تعالی اس کی حالت کے بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہےاسی لئے فرمایا:
أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
الملک – 14
خبردار! جس نے پیدا کیا ہے وہ انتہائی باریک بین اورباخبر ذات ہے۔
زندگی کے پہیے میں اللہ کی جانب سے رزق کی کمی بیشی سب کے لئے امیری یا فقیری کا تعین کرتی ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا
الزخرف – 32
اور ہم نے سب لوگوں کی ایک دوسرے پر درجہ بندی کردی ہے، تا کہ وہ ایک دوسرے کی خدمات حاصل کرسکیں۔
یعنی : تم ایک دوسرے کو ضرورت کے وقت استعمال کرتے ہو؛ جس سے الفت و انس پیدا ہوتا ہے، اور مالدار لوگ اپنی دولت کی وجہ سے غریب لوگوں کو بطورِ مزدور رکھتے ہیں، اس سے دونوں ایک دوسرے کے لئے ذریعہ معاش ثابت ہوتے ہیں، ایک دولت تو دوسرا محنت کی وجہ سے معاون ثابت ہوتا ہے۔
بسا اوقات غربت ہی انسان کے لئے بہتر ہوتی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ
الشوریٰ – 27
اگر اللہ تعالی اپنے بندوں کے لئے رزق کی فرا وانی کر دیتا تو سب زمین پر فساد بپا کر دیتے۔
یعنی لوگ اللہ کی اطاعت کے لئے وقت نہ نکالتے، جس کی وجہ سے لوگ بغاوت، سرکشی، اور مخلوق پر جبر کرنے لگتے۔
وَلَكِنْ يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ
الشوریٰ – 27
لیکن اللہ تعالی اپنے اندازے کے مطابق رزق نازل فرماتا ہے، کیونکہ وہ اپنے بندوں کے بارے میں خبر اور بصیرت رکھتا ہے۔
اور اگر بندے کو غربت میں مبتلا کر دیا جائے، تو ایسے وقت میں صبر عظیم ترین عبادت ہے، چنانچہ آمدن کم ہونے کی وجہ سے زندگی میں کدورت آ جانے پر گھٹن محسوس ہو اور نہ ہی اس سے بد دل ہونا چاہیے؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺاور آپ کے صحابہ کرام کی زندگیاں گزر بسر پر مشتمل تھیں، حقیقت تو یہ ہے کہ دنیاوی رنگینیاں عارضی اور بے وقعت ہیں، ان کے نا ملنے پر افسوس و ملال نہیں ہونا چاہیے، بلکہ دل کو اطمینان بخشنے اور نعمتِ الہی کی قدر کروانے کے لئے نبی ﷺنے فرمایا: (جب کسی کی نظر جسمانی یا مادی نعمتوں سے مالا مال شخص پر پڑے تو وہ اپنے سے کم تر افراد پر اپنی نظریں دوڑائے) مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: (ایسا کرنے پر تم اللہ تعالی کی نعمتوں کی بے قدری نہیں کرو گے)۔
اسی لئے اسلام نے امیروں کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کو خاص طور پر دعوت دی ہے کہ اپنے دل کو غنی بنانے کے لئے نفسانی خواہشات کو کچل دیں،نعمت چاہے تھوڑی ہی کیوں نہ ہو دل کو اللہ کی تقسیم پر راضی رکھنے کے لئے قناعت پسند بنائیں، کیونکہ ازلی فیصلوں میں اللہ کی طرف سے تمہارے لئے لکھی ہوئی چیز تم سے کوئی چھین نہیں سکتا، چنانچہ نبی ﷺنے فرمایا: (اللہ کی تقسیم پر راضی ہو جاؤ تم سب سے بڑے سخی بن جاؤ گے) ترمذی
فقراء کے لئے باطنی، ظاہری، سلوکی، اور عملی آداب ہیں ہر غریب شخص کو انکا خیال کرنا چاہئے، چنانچہ:
باطنی ادب یہ ہے کہ: اللہ تعالی نے اسے غریب بنایا ہے ، اس بات کو کراہت کی نگاہ سے مت دیکھے، یعنی: اللہ تعالی کی مرضی کو برا مت جانے، کہ اللہ نے اسے غریب کیوں بنایا! جبکہ غربت کو برا سمجھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ظاہری ادب یہ ہے کہ:عفت و سفید پوشی میں اپنی غربت کو چھپا کر رکھے، شکوی شکایت نہ کرتا پھرے، انہی لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ
البقرة – 273
سفید پوشی کے باعث جاہل انہیں یہ سمجھے گا کہ بہت “امیر” آدمی ہے۔
سلوکی ادب یہ ہے کہ: کسی امیر شخص کی مالداری کی وجہ سے اس کے سامنے مت جھکے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ” اللہ تعالی سے ثواب لینے کی خاطر کسی امیر شخص کا کسی فقیر کے سامنے جھکنا کتنا اچھا عمل ہے”، اسی طرح غریب آدمی کو امیر لوگوں کے سامنے انکی جیب پر نظر رکھتے ہوئے حق بات کرنے سے گریز بھی نہیں کرنا چاہیے۔
جبکہ عملی ادب یہ ہے کہ :غربت کے باعث عبادت گزاری میں کمی نہ آنے دے، اور تھوڑا بہت ہی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے یہی “جُہد ِ مقل” یعنی : کمی کے باوجود اللہ کی راہ میں دینا ہے، جسکی فضیلت ان صدقات سے کہیں زیادہ ہے جو فراوانی کے وقت دئیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالی نے غریب لوگوں کی فضیلت کچھ ایسے بیان کی :
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ
الحشر – 8
غریب مہاجرین کے لئے (بھی) ہے جو اپنے گھروں اورجائیدادوں سے باہر نکال دیئے گئے ہیں۔
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ
البقرة – 273
(یہ صدقات) ان غریبوں کے لیے ہیں جو اللہ کے راستے میں روکے گئے ہیں، زمین میں سفر نہیں کر سکتے۔
ان دونوں مقامات پر اللہ تعالی نے اپنے اولیاء کی مدح میں ہجرت اور قید سے بھی پہلے فقیری اور غربت کو ذکر کیا ہے، اور اللہ تعالی اپنے محبوب لوگوں کی مدح محبوب صفات کے ساتھ ہی کرتا ہے، اگر فقیری اور غربت اللہ تعالی کو پسند نہ ہوتی تو اپنے محبوب بندوں کی کبھی ان الفاظ کے ساتھ تعریف نہ کرتا۔
اسی طرح نبی ﷺ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو مجھے اکثر غریب لوگ ہی نظر آئے)بخاری و مسلم
فقراء کی جانب سے اللہ تعالی کی تقسیم پر اظہار رضا مندی اور فضیلتِ فقیری کے باوجوداسلام نے امیر لوگوں کو غریب لوگوں کے ساتھ نیکی و احسان کی دعوت دیکر غربت کا حل نکالا ہے، چنانچہ فقراء کی کفالت، ان کے دکھ درد میں شرکت، اور ان کی مدد کے لئے ہر ممکنہ کوشش کرنے کی ترغیب دلائی، اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا: (بیواؤں اور مساکین کی مدد کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے –راوی کہتا ہے: میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا- وہ مسلسل قیام اور روزے رکھنے والے شخص کی طرح ہے) مسلم
اسی طرح اسلام نے غربت کے خاتمے کے لئے بیروزگاری، اور سستی کو ایک طرف اتار پھینکنے کا حکم دیتے ہوئے کام کرنے کی دعوت دی، تا کہ غریب لوگ معاشرے اور اپنے اہل خانہ پر بوجھ مت بنیں۔
غربت کا خاتمہ، اور تلاشِ رزق کے لئے کوشش، اسباب و وسائل بروئے کار لانا، شرعی حکم کی پاسداری ہے، جو کہ ایک اچھی عادت بھی ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:
فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
الملك – 15
دنیا کے [معاشی]راستوں میں دوڑ دھوپ کرو، اور اللہ کے رزق میں سے کھاؤ، اسی کی طرف واپس جانا ہے۔
حکم اسی لئے دیا ہے کہ غریب آدمی خود سے معاشرے کا سرگرم رکن بن جائے، اپنی کمائی کھائے، کمر سیدھی رکھے، عزت وآبرو کی حفاظت کرے، اولاد کی عزت افزا تربیت کرے، جو اچھے معاشرے کی بنیاد بن سکیں، انکی تعمیر و ترقی کے لئے کوششیں کرتا رہے، تا کہ ایک دن اولاد اطاعت و معرفتِ الہی کے لئے ممد و معاون ثابت ہو، جس سے نظریں آخرت کے لئے گڑ جائیں، یہی آخرت کی زندگی اچھی اور باقی رہنے والی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ غربت کے بعد فراخی کو اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺکے لئے بطورِ احسان پیش کیا، اور فرمایا:
وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى
الضحیٰ – 8
آپ مالی طور پر کمزور تھے، تو اللہ تعالی نے غنی بنا دیا۔
اسی لئے نبی ﷺ دعا بھی کیا کرتے تھے:
اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالعَفَافَ وَالغِنَى
یعنی: یا اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت، اور تونگری کا سوال کرتا ہوں۔ مسلم
اور نبی ﷺ نے اپنے صحابی اور خادم انس رضی اللہ عنہ کے لئے مالی فراوانی کی دعا فرمائی: (یا اللہ! انس کو مال و اولاد کثرت سے عنایت فرما، اور اس کے لئے بابرکت بنا) بخاری و مسلم
اللہ کے بندوں!
فراخ رزق نیک عمل کا پھل ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: (جو شخص اپنی عمر اور رزق زیادہ کروانا چاہتا ہے وہ صلہ رحمی کرے)بخاری و مسلم
ایسے ہی نبی ﷺ نے فرمایا: (اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اوپر والا خرچ کرنے والا ہاتھ ہے، اور نیچے والا سوالی ہاتھ ہے) بخاری و مسلم
اللہ کے بندوں!
دستکاری، ہنر مندی، یا زراعت ،شرف و عزت کا مقام ہے، جیسے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (کسی نے بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کبھی نہیں کھایا)بخاری
آپ سے یہ بھی پوچھا گیا: کونسا ذریعہ معاش بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا:(انسان اپنے ہاتھ سے کمائے، یا بیع مبرور) احمد
اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: (ایک شخص اپنی رسی کے ذریعے [جنگل]سے اپنی کمر پر لکڑیاں لاد کر فروخت کرے؛ تو اللہ تعالی اس کے چہرے کو [شرمندگی]سے محفوظ کردےگا، [یہ کام] لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے، وہ چاہیں اُسے دیں یا نا دیں)
یہی بہترین طرزِ زندگی ، اور سیدھا راستہ ہے، جبکہ مال جمع کرنے کے لئے لوگوں سے مانگتے پھرنا مذموم صفت، اور قبیح فعل ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: (ایک آدمی ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے، وہ جب قیامت کے دن آئے گا تو اس کے چہرے پر گوشت بالکل نہیں ہوگا) مسلم
ایسے ہی بھکاری پن کے خاتمے کے لئے آپ ﷺ نے فرمایا: (جو لوگوں سے اپنا مال زیادہ کرنے کے لئے مانگتاہے، وہ آگ کامطالبہ کرتا ہے، [اب اس کی ]مرضی کم لے یا زیادہ لے) مسلم
مذکورہ بالا تعلیمات کے ساتھ ساتھ صدقہ کرنے والے افراد کو بھی چاہئے کہ صرف ضرورت مند افراد کو صدقہ دیں، کسی اور کو مت دیں، آپ ﷺ نے فرمایا: (صاحب حیثیت، اور تندرست و توانا شخص کے لئے مانگنا جائز نہیں ہے) ترمذی
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: (تین قسم کے لوگ ہی مانگ سکتے ہیں: 1-بالکل کنگال شخص، 2- بہت بڑی چٹی پھرنے والا، 3- خون بہا ادا کرنے والا )ابو داود اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کے لئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لئے اور وہی ہمیں کافی ہے، سلامتی ہو اللہ کے چنیدہ افراد پر، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ آخرت میں بھی اور دنیا میں بھی اکیلا اور یکتا ہے ، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کےبرگزیدہ رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل ، تمام صحابہ کرام اور اطاعت گزاروں پر رحمت نازل فرمائے۔
حمدو ثناء کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔
کوئی شک نہیں کہ عالم اسلام میں آج غربت کی شرح ترقی کے وسائل کے بارے میں سرد مہری، سودی قرضوں کے بوجھ، اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کمزوری کی وجہ سے ہے۔
ایمانی کمزوری کی صورت میں غربت کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایسے ہی غربت کا شمار ان بڑے اسباب میں ہوتا ہے جن سے شرافت ختم، اور بے حیائی، چوری، رشوت، لوگوں کا مال ہڑپ کرنا عام ہوتا ہے، جبکہ جرائم کی شرح ، اور گھریلو لڑائی جھگڑوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات قتل تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے۔
آپ ﷺ سے پوچھا گیا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا(تم اللہ کا ہمسر بناؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے)سائل نے کہا اسکے بعد؟ آپ نے فرمایا: (تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ بیٹھ کر کھائیں گے)بخاری و مسلم
جبکہ اللہ تعالی نے بھی صاف فرمایا:
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ
الانعام – 151
تم اپنی اولاد کو فاقہ کشی کے ڈر سے مت قتل کرو، تمہیں بھی اور انکو بھی ہم ہی نے رزق دینا ہے۔
غربت کے معاشرے پربھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے کینہ، اور بغض پروان چڑھتا ہے، بسا اوقات ناامید غریب شخص پورے معاشرے پر اپنا بوجھ ڈال دیتا ہے، یہاں پر اہل علم ، دانشوروں، اور صاحب حیثیت افراد کو اپنا کردار پیش کرنا چاہیے کہ وہ اجر پانے ، اور معاشرے کو غربت کے منفی اثرات سے پاک کرنے کے لئے غربت کے خاتمے پر خلوص دل کے ساتھ کام کریں؛ چنانچہ غریب لوگوں کے لئے ملازمتیں پیدا کریں، انہیں اپنی کمپنیوں، کارخانوں میں کام کا موقع دیں، ان کی صلاحتیوں اور ہنرمندی میں مزید اضافہ کریں، اور ان کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ختم کریں، اس کے لئے فرمانِ الہی سن لیں:
وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا
المزمل – 20
جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پآؤ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔
اللہ کے بندوں!
رسولِ ہُدیٰ پر درود وسلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتابِ عزیز میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ اور اس کےفرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔
یا اللہ! محمد پر آپ کی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، اور محمدﷺپر آپ کی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے توں نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ! اپنے نبی کے چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، علی ، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! اپنے رحم و کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، اور کافروں کے ساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! اپنے دین، قرآن، سنت نبوی، اور اپنے مؤمن بندوں کو غالب فرما ۔
یا اللہ! جو دین کی مدد کرے تو اس کی مدد فرما، اور جو اسلام و مسلمانوں کو ذلیل کرنے کی کوشش کرے، ان سب کو رسوا فرما، یا اللہ! تیرے کلمے کی بلندی کے لئے مجاہدین کی ہر جگہ مدد فرما، یا اللہ! ان کی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، اور ان کے دلوں ثابت قدم بنا، انکے نشانوں کو درست فرما، ان کے دلوں کو آپس میں ملا دے، اور حق بات پر سب کو متحد فرما۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لئے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے۔
یا اللہ ! ہم تجھ سے ہدایت ، تقوی، پاکدامنی، اور غنی کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کوغلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لئے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔
یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے، ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریاں ختم کر دے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے انتہا تک ، اول سے آخر تک ، ہر قسم کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں، اور جنت میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم پر اپنی برکتوں، رحمتوں، فضل و رزق کھول دے، یا اللہ! ہم پر اپنی برکتوں، رحمتوں، فضل و رزق کھول دے، یا اللہ! ہمارے مال، اولاد، کاروبار، بیویوں، اولاد، صحت سب چیزوں میں برکت ڈال دے، اور ہم جہاں بھی جائیں یا اللہ ہمیں بابرکت بنا دے۔
یا اللہ! ہمارے دکھ درد، اور تکالیف کو دھو ڈال، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو معاف فرما، یا رب العالمین، یا اللہ! انہیں بخش دے، اور ان پر رحم فرما، یا اللہ! انہیں عافیت سے نواز اور انہیں معاف فرما، یا اللہ! ان کی عزت افزائی فرما، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، اور اس کو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کے لئے بنا لے، یا اللہ ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب اور تیری شریعت کو نافذ کرنے کی توفیق دے۔ یا اللہ! ہم تیرے در کے سوالی ہیں، تو غنی ہے ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما، اور ہمیں مایوس نہ کرنا، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! رحمت کی بارش ہو، عذاب، مشکلات، تباہی و بربادی کی بارش نہ ہو، یا اللہ! تیری رحمت کا صدقہ یا ارحم الراحمین!
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
الاعراف – 23
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
الحشر – 10
اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
البقرة – 201
ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی چیز ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔