متفرقات

غیرت کے نام پر قتل کرنے کی شرعی حیثیت

غیرت، جو کبھی عزت، وقار اور پاکیزگی کی حفاظت کی علامت تھی، آج اسلام سے دوری اور جہالت کی وجہ سے ظلم، قتل اور قانون شکنی کا جواز بن چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے شریعت کی تعلیمات کو چھوڑ کر جذبات اور جہالت پر مبنی رسم و رواج کو اپنا دین بنا لیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ مقدس جذبہ، جو عزت و وقار کی علامت تھا، آج انسانی حقوق کی پامالی اور ظلم و زیادتی کا سبب بن چکا ہے۔ خصوصاً قبائلی علاقوں میں، جہاں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات نہ صرف اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی اقدار اور ریاستی قانون کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ ان واقعات میں جہاں مقتولین کی زندگیاں ضائع ہوتی ہیں، وہیں معاشرہ عدل و انصاف کی اصل روح سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔
گزشتہ روز بلوچستان میں غیرت کے نام پر جو اندوہناک واقعہ پیش آیا ہے، اس نے ایک بار پھر ہمارے معاشرے کے اس دردناک پہلو کو اجاگر کیا ہے، جہاں “غیرت” کے نام پر انسانی جانوں سے کھیلا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ جذبات یا سطحی گفتگو سے ہٹ کر خالص اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے اور پرکھنے کا متقاضی ہے، تاکہ فیصلہ محض جذبات کی بنیاد پر نہیں، بلکہ شریعت کی ہدایت کے مطابق ہو۔ سب سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ پاکستانی معاشرے میں قبائلی روایات کے نام پر عورتوں پر ظلم اور قانون شکنی، اسلام کے سراسر خلاف ہے۔ یہ انحراف شریعت سے دوری اور دینی شعور کی کمی کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ اسلام تو ایک منظم اور باقاعدہ قانونی نظام رکھنے والا دین ہے جس میں جرم کا تعین، اس کی سزا اور اس سزا کے نفاذ کا مکمل اختیار ریاست اور قاضی کو حاصل ہے نہ کہ کسی عام فرد کو۔ عام فرد کا قاضی بن بیٹھنا اسلامی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ یہ قبیح رویہ نہ صرف انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے بلکہ دین اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی نظام کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔
ذیل میں ہم چند نکات کے ذریعے اس مسئلے کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے:
1- بیوی اور محارم پر غیرت کرنا، شرعی رو سے ایک مبارک اور قابل تعریف وصف ہے، بشرطیکہ اعتدال پر مبنی ہو، بصورت دیگر مذموم ہے۔1

2- اسلام نے انسانی جان کو بہت قیمتی قرار دیا ہے۔ لہذا شرعی دلیل اور عدالتی فیصلہ کے بغیر صرف ذاتی دعویٰ کی بنا پر غیرت کے نام پر کسی کو قتل کرنا بالاتفاق حرام اور قابل مؤاخذہ جرم ہے۔ ایسے شخص سے قصاص لیا جائے گا۔

3-پسند کی شادی ہرگز حرام نہیں، بلکہ لڑکی کی رضامندی نکاح کی شرط ہے۔ تاہم ولی کی اجازت کے بغیر خفیہ یا بھاگ کر کی گئی شادی شرعاً باطل ہے۔ مگر ایسی صورت میں لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کرنا سخت گناہ اور قابلِ سزا جرم ہے؛ اس کا شرعی حل صرف نکاح کو فسخ کرنا ہے، نہ کہ ظلم یا انتقام۔2

4- غیر شادی شدہ کی بدکاری یا خفیہ تعلق، اس کے قتل کو جائز نہیں بناتا، لہذا غیرت کے نام پر ایسے لوگوں کا قتل شرعاً حرام ہے۔3

5- اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی مرد کے ساتھ بھی دیکھ لے، تب بھی اسے قتل کرنے کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ بلکہ عدالت میں الزام ثابت کرنے کےلیے چار گواہ پیش کرنا ہوں گے۔ اگر ثبوت نہ دے سکا تو خود سزا پائے گا، اور اگر قتل کر دیا تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ جن4

قارئین کرام!
اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر خودساختہ غیرت کے نام پر کسی انسان کی جان لینا نہ صرف ایک شرعی جرم ہے، بلکہ یہ معاشرتی بگاڑ اور فساد فی الارض کا باعث ہے۔
اسلام ہمیشہ انسانی جان کی حرمت، عدل اور شفاف عدالتی طریقۂ کار کو مقدم رکھتا ہے۔ جو غیرت حدود شریعت سے ٹکرا جائے، وہ غیرت نہیں بلکہ سراسر جہالت ہے۔ اسلام ہمیں اس غیرت کی تعلیم دیتا ہے جو شرعی حدود کے تابع ہو۔ نہ کہ ایسی غیرت کا جو ذاتی انتقام، جھوٹی انا اور معاشرتی دباؤ پر مبنی ہو۔افسوس کہ آج بعض مسلمان شریعت کے نام پر وہ کچھ کر جاتے ہیں جو شرعی تعلیمات کے بالکل منافی ہے۔ وہ غیرت کے نام پر قتل کو جائز سمجھ کر نہ صرف انسانی جان لیتے ہیں، بلکہ اسلام کو بھی بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ قانون کو ہاتھ میں لینا، اور چار گواہوں کی شرط اور ریاستی فیصلے کو پس پشت ڈال کر بغیر شرعی ثبوت کے کسی پر الزام لگانا یہ انتہائی خطرناک جرم ہے اور اس کی بنیاد پر جان لینا تو ظلمِ عظیم ہے۔
اگر ہم واقعی غیرت مند مسلمان ہیں تو ہمیں اپنی غیرت کو شریعت کے تابع کرنا ہوگا، نہ کہ شریعت کو اپنی خودساختہ غیرت کے تابع۔ نیز ہمیں شریعت کی رہنمائی میں غیرت کے مفہوم کو بھی سمجھنا ہوگا، اور عدل و انصاف کو قائم رکھنے کے لیے قانون کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا، تاکہ ہم اپنی غیرت کو معاشرتی دباؤ اور خودساختہ جذبات سے آزاد کرسکیں۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے، اور یہی پرامن اور مہذب معاشرے کی بنیاد ہے۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین

_________________________________________________________________________________________

  1. (دیکھیے: سن ابی داؤد: 2659)
  2. (جامع ترمذی: 1101، سنن ابی داؤد:2083)
  3. (دیکھیے:صحيح بخاری: 6878)
  4. (صحیح بخاری :2671)
ظہیر شریف

اصل نام "خلیق الرحمن بن شریف طاہر" ہے۔ المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کے زیر انتظام چلنے والا معروف تعلیمی ادارہ جامعہ البیان کراچی سے متخرج اور کراچی یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔

Recent Posts

“کیا جاوید احمد غامدی صاحب حدیث کو مانتے ہیں؟”

"جب جاوید احمد غامدی 'قرآن و سنت' کہتے ہیں تو 'سنت' سے ان کی مراد…

6 days ago

Provident Fund حلال یا حرام؟

پراویڈنٹ فنڈ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر حکومت کی طرف سے یہ شرط لازمی…

2 weeks ago

“کیا قرآنِ مجید پر اعراب لگانا اور نمازِ تراویح بدعت ہیں؟”

"قرآن پر نقطے اور اعراب کب اور کیوں لگائے گئے؟ کیا یہ نقطے رسول اللہ…

2 weeks ago

خاموشی؛ ایک عظیم عبادت!

وہ کون سی دو خصلتیں ہیں جو عمل کے اعتبار سے آسان لیکن اجر کے…

2 weeks ago

اللہ تعالیٰ کے 2 پیارے نام اور ان کے معنی؟

اللہ رب العزت کے دو نام ”العزیز“ اور ”الحکیم“ کے کیا معنی ہیں؟ کیا یہ…

2 weeks ago

“قرآنِ مجید کی تفسیر پڑھتے ہوئے یہ غلطی ہرگز نہ کریں!”

"قرآنِ مجید کی تفسیر کا صحیح مطالعہ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا قرآنِ کریم…

2 weeks ago