گناہ گاروں پر شفقت
خطبہ اول:
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جو رحم کرنے والا نہایت مہربان ہے، کرم کرنے والا اور احسان کرنے والا ہے، میں اس کی حمد و ثنا کرتا ہوں اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں، وہ بڑا معاف کرنے والا وسیع مغفرت والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کی مہربانی تمام کائنات پر عام ہے، اور اس کی رحمت تمام انسانوں اور جنوں کو شامل ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں ان کے رب نے قیامت سے پہلے حق، عدل، معافی اور احسان کے ساتھ بھیجا، اللہ تعالیٰ درود و سلام اور برکتیں نازل فرمائے ان پر اور توبہ کرنے والے اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ان کے آل و اصحاب پر۔
اما بعد!
لوگو! میں خود کو اور آپ سبھی کو تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، اللہ سے ڈرو، اللہ آپ پر رحم فرمائے، اور اللہ کے فضل سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے، اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کر لے یہاں تک کہ سورج مغرب سے نکل جائے،
اللہ کے بندو! بے شک اللہ عزوجل نے بنی آدم میں کچھ فطری عادتیں، شہوتیں، میلان اور خواہشیں رکھی ہیں، اور انہیں آوامر و نواہی کے ساتھ مکلف ہونے کا دارومدار بنایا ہے، اور بطور امتحان و آزمائش یہ بھی لکھ دیا کہ ان سے کچھ نہ کچھ خلاف ورزیاں ہوں گی،
:اللہ نے فرمایا
لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ1
تاکہ اللہ جان لے کہ کون اس سے بن دیکھے ڈرتا ہے۔
أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ2
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’ سارے انسان خطا کارہیں اور خطاکاروں میں سب سے بہتروہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ توبہ کرنے والے اس کی طرف لوٹیں، رجوع کرنے والے اس کا رخ کریں، گناہوں سے پلٹنے والے اس کے سامنے بچھ جائیں،
أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ (صحیح مسلم:6965)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم (لوگ) گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تم کو (اس دنیا سے) لے جائے اور (تمہارے بدلے میں) ایسی قوم کو لے آئے جو گناہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔”
اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم صفات میں سے صفت رحمت ہے۔
اللہ نے فرمایا:
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ3
’’اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے‘‘۔
اور اس کے عظیم ترین اسمائے حسنیٰ میں سے دو نام رحمن و رحیم ہیں،
جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا:
وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ4
اور تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بھی مخلوق پر رحم کرنے کی ترغیب دی ہے،
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اللہ اپنے بندوں میں سے رحم کرنے والوں پر ضرور رحم کرتا ہے،
نبی ﷺ نے فرمایا:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ, ارْحَمُوا أَهْلَ الْأَرْضِ, يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ5
سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ ” رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرمائے گا ۔ تم اہل زمین پر رحم کرو ‘ آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت میں سے یہ ہے کہ اس نے ان پر اپنی کتابیں نازل کی، ان کی طرف اپنے رسول بھیجے، انہیں سزا دینے میں جلدی نہیں کی،
اللہ کا فرمان ہے:
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا6
اور اگر اللہ لوگوں کو اس کی وجہ سے پکڑے جو انھوں نے کمایا تو اس کی پشت پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑے اور لیکن وہ انھیں ایک مقرر مدت تک مہلت دیتا ہے، پھر جب ان کا مقرر وقت آجائے تو بے شک اللہ اپنے بندوں کو ہمیشہ سے خوب دیکھنے والا ہے۔
اور انہیں توبہ کی طرف اللہ نے بلایا، لوٹ آنے کی دعوت دی،
اللہ نے فرمایا کہہ دو:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ7
کہہ دے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔ بے شک وہی تو بے حدبخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
اللہ پاک نے ان سے گناہوں کے معاف کرنے اور برائیوں کے مٹانے کا وعدہ کیا فرمایا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ8
اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون گناہ بخشتا ہے؟ اور انھوں نے جو کیا اس پر اصرار نہیں کرتے، جب کہ وہ جانتے ہوں۔
اللہ پاک نے ان میں سے جو توبہ کریں اور لوٹ آئیں ان کے لیے ضمانت لی ہے کہ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا9
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا، نیک عمل تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ ہمیشہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ لوگوں پر مہربانی کریں، ان پر شفقت برتیں اور ان سے قبول کریں،
اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ10
پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقیناً وہ تیرے گرد سے منتشر ہوجاتے، سو ان سے در گزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر، پھر جب تو پختہ ارادہ کرلے تو اللہ پر بھروسا کر، بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ان مشرکین تک بھی پہنچی جنہوں نے آپ سے دشمنی کی، تاکہ اس ہولناکی کا انہیں سامنا نہ کرنا پڑے جو قیامت کے دن ان کی منتظر ہے، آپ کو بڑی خواہش رہی کہ وہ اسلام لے آئیں، آپ ڈرتے تھے کہ کہیں وہ شرک پر مر نہ جائیں اور جہنم کے عذاب کے مستحق ٹھہریں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایک سے زائد جگہوں پر اس کو بیان کرتے ہوئے فرمایا، پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے،
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا11
پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کرلینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔
اللہ تعالی کا فرمایا ہے:
فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ12
پس آپ ان پر غم کھا کھا کر اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالیں جو کچھ کر رہے ہیں اس سے یقیناً اللہ تعالیٰ بخوبی واقف ہے۔
مفسرین کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان پر افسوس کر کے اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالیں۔
اللہ کے بندو! اللہ کے واسطے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کے بندوں کے ساتھ مہربانی کرو، ان کی ساتھ بھلائی سے پیش آؤ، ان پر شفقت برتو
نبی ﷺ نے فرمایا؛
أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَبَالَ فِي طَائِفَةِ المَسْجِدِ، فَزَجَرَهُ النَّاسُ، «فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَضَى بَوْلَهُ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَنُوبٍ مِنْ مَاءٍ فَأُهْرِيقَ عَلَيْهِ»13
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص آیا اور اس نے مسجد کے ایک کونے میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اس کو منع کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں روک دیا۔ جب وہ پیشاب کر کے فارغ ہوا تو آپ نے اس ( کے پیشاب ) پر ایک ڈول پانی بہانے کا حکم دیا۔ چنانچہ بہا دیا گیا۔
تم تو صرف آسان کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، تنگی کرنے والے نہیں۔
نبیﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي بَعْضِ أَمْرِهِ، قَالَ: «بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا14
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو جب اپنے کسی معاملے کی ذمہ داری دے کر روانہ کرتے تو فرماتے: “خوشخبری دو، دور نہ بھگاؤ، آسانی پیدا کرو اور مشکل میں نہ ڈالو۔
مومن کو بہت زیادہ خبردار رہنا چاہیے کہ وہ خود اللہ کے راستے میں رکاوٹ نہ بن جائے، پتھر نہ بن جائے جو لوگوں کو اللہ کے دین سے بدظن کر دے یا ایسا پردہ نہ بن جائے جو اللہ تک پہنچنے میں حائل ہو جائے اور اسے خود اس کا شعور بھی نہ ہو، کیونکہ دل اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہی سبحانہ و تعالیٰ ان میں موجود ایمان و یقین، سچائی اور محبت کو جانتا ہے چاہے بندہ کتنے ہی گناہوں میں ملوث ہو یا کتنی ہی برائیاں کر چکا ہو، اور اپنے لیے آپ سب کے لیے اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔
خطبہ ثانی:
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے، بہت سے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے، میں اس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور اس کا شکر بجا لاتا ہوں، وہ لغزشوں سے درگزر کرتا ہے، عیبوں کو چھپاتا ہے، شکستہ کو جوڑتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ تھوڑے عمل پر بہت زیادہ اجر دیتا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں جو خوشخبری دینے والے، ڈرانے والے، روشن چراغ ہیں، اللہ ان پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرمائے اور ان کے آل و اصحاب پر جو شفقت کرنے والے اور آسانیاں پیدا کرنے والے تھے،
اما بعد!
اللہ کے بندو! کچھ مومن و مسلمان جب منکر کام یا خلاف ورزی دیکھتے ہیں تو دینی غیرت اور اللہ کی شریعت کی مخالفت پر انہیں غصہ آتا ہے، تو وہ برائی سے روکنے میں حد سے تجاوز کر بیٹھتے ہیں، اور انکار منکر میں شرعی طریقے سے آگے نکل جاتے ہیں، اللہ ہمیں سلامت رکھے بعض لوگوں کا تو یہ حال ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ کی خصوصیات اور ربوبیت کے خاص اختیارات میں جا گھستے ہیں، اور اللہ کی قسم یہ بہت بڑی خطا اور خطرناک لغزش ہے،
زمزم بن جوس الیمامی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا، اے یمامی! تم کسی شخص سے یہ مت کہو کہ اللہ کی قسم اللہ تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا، یا اللہ تمہیں جنت میں ہرگز داخل نہیں کرے گا، میں نے کہا، اے ابو ہریرہ! یہ تو ایسی بات ہے کہ اسے ہم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی یا دوست سے غصے میں کہہ دیتا ہے، آپ نے کہا تم یہ بات مت کہو
کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے، ایک بہت عبادت گزار تھا، دوسرا اپنے نفس پر زیادتی کرنے والا تھا، دونوں کے درمیان بھائی چارہ تھا، عبادت گزار ہمیشہ دوسرے کو گناہ کرتے دیکھتا تو کہتا اے بھائی باز آجا، وہ جواب دیتا مجھے میرے رب کے ساتھ چھوڑ دو، کیا تم کو مجھ پر داروغہ بنا کر بھیجا گیا ہے، ایک دن اس نے اسے ایک ایسا گناہ کرتے دیکھا جو اس کی نظر میں بڑا تھا تو اس نے کہا تیرا ستیاناس ہو، باز آجا، اس نے جواب دیا مجھے میرے رب کے ساتھ چھوڑ دو، کیا تم کو مجھ پر داروغہ بنا کر بھیجا گیا؟ تو عبادت گزار نے کہا اللہ کی قسم اللہ تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا یا تمہیں کبھی جنت میں داخل نہیں کرے گا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے دونوں کے پاس فرشتہ بھیجا اور اس نے ان کی روحیں قبض کر لیں، جب وہ اللہ کے حضور پیش ہوئے تو اللہ نے گناہ گار سے کہا جاؤ میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جاؤ، اور عبادت گزار سے کہا کیا تم مجھے جانتے تھے؟ کیا تم ان چیزوں پر قادر تھے جو میرے ہاتھ میں ہیں، اسے جہنم میں لے جاؤ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے، اس عبادت گزار نے ایسی بات کہی جس نے اس کی دنیا و آخرت دونوں کو برباد کر دیا،
اللہ کے بندو! جان لو گناہ سے نفرت اور انکار منکر گناہ گار کے ساتھ شفقت و نرمی برتنے اور عاصی پر رحم کرنے کے منافی نہیں، بلکہ ان دونوں کا اکٹھا پایا جانا کمال ایمان کی علامت ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا، پھر اللہ کی سب سے بہترین مخلوق محمد بن عبداللہ پر درود و سلام بھیجو، اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے،
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا15
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو (١)۔
اے اللہ! اپنے بندے اور رسول ہمارے نبی محمد ﷺپر رحمتیں، سلامتی، برکتیں اور مزید انعامات نازل فرما، اے اللہ! چاروں خلفائے راشدین ہدایت یافتہ اماموں ابو بکر و عمر و عثمان و علی سے اور باقی عشرہ مبشرہ سے اور بیعت رضوان والے صحابہ سے راضی ہو جا اور تمام صحابہ کرام، تابعین اور قیامت کے دن تک احسان کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں سے بھی راضی ہو جا۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، دین کے قلعہ کی حفاظت فرما، اپنے موحد بندوں کی مدد فرما، اے رب العالمین! اے اللہ! پریشان حال مسلمانوں کی پریشانی دور فرما، مصیبت زدوں کی مصیبت دور کر، قرض داروں کا قرض ادا کرا دے، ہمارے اور مسلمانوں کے بیماروں کو شفا دے، اے اللہ! ہمارے وطنوں میں امن عطا فرما، ہمارے سربراہان اور حکمران کی اصلاح فرما، حق اور توفیق اور درستی کے ساتھ ہمارے سربراہ اور حاکم خادم حرمین شریفین کی مدد فرما، اے اللہ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو ان امور کی توفیق دے جن میں ملک و قوم کی بھلائی اور اسلام و مسلمانوں کی عزت و سربلندی ہو، اے رب العالمین!
اے اللہ! ہماری سرحدوں اور مورچوں پر موجود ہمارے سپاہیوں کی حفاظت فرما، اے اللہ! اپنی آنکھ سے ان کی نگرانی فرما جو کبھی نہیں سوتی، اور اپنے ناقابل تسخیر سہارے کے ساتھ انہیں محفوظ رکھ، اے ذوالجلال والاکرام! اے اللہ! ہر جگہ ہمارے کمزور بھائیوں کا حامی و ناصر و معین و مددگار بن جا، اے اللہ! فلسطین میں اور ہر جگہ ان کی مدد فرما، اے اللہ! ان کی کمزوری کو طاقت میں، خوف کو امن میں، تنگی کو خوشحالی میں تبدیل کر دے، اے رب العالمین! اے اللہ! غاصب، ظالم، صیہونی یہودیوں کو اپنی گرفت میں لے لے، ہمیں اور پوری دنیا کو ان کے شر سے محفوظ رکھ، اے قوی و متین! اے اللہ! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما، سبحان ربک رب العزت عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمدللہ رب العالمین۔
خطبہ جمعہ مسجد الحرام،
تاریخ: 16 محرم 1447 ہجری بمطابق ب11 جولائی 2025 عیسوی۔
خطیب: فضیلۃ الشیخ بندر بلیلۃ حفظہ اللہ
_____________________________________________________________________________________________-
"جب جاوید احمد غامدی 'قرآن و سنت' کہتے ہیں تو 'سنت' سے ان کی مراد…
پراویڈنٹ فنڈ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر حکومت کی طرف سے یہ شرط لازمی…
"قرآن پر نقطے اور اعراب کب اور کیوں لگائے گئے؟ کیا یہ نقطے رسول اللہ…
اللہ رب العزت کے دو نام ”العزیز“ اور ”الحکیم“ کے کیا معنی ہیں؟ کیا یہ…
"قرآنِ مجید کی تفسیر کا صحیح مطالعہ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا قرآنِ کریم…