فضائل و حقوق سرکارِ دو عالم ﷺ

پہلا خطبہ:

یقینا تمام  تعریفیں اللہ  کے لئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد  اللہ کے بندے اور اس کے رسول  ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں، اور سلامتی فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے؛ کیونکہ نعمتیں ہدایت والے راستے میں ملیں گی، اور من مانی بد بختی کا باعث ہے۔

مسلمانوں!

اللہ تعالی کے احسانات بہت بڑے اور  عظیم ہیں،  اور اللہ تعالی کی بڑی نعمتوں میں یہ شامل ہے کہ اس نے رسولوں کو  معرفتِ الہی، اور وحدانیت کے داعی بنایا، انبیاء خالق و مخلوق کے درمیان اوامر و نواہی بیان کرنے کے لئے واسطہ  اور سفیر ہیں:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ

النحل – 36

 اور ہم نے یقیناً ہر قوم میں [یہ دعوت دیکر] رسول بھیجے کہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اور طاغوت سے بچیں۔

سعادت و فلاح  ؛ دنیاوی ہو یا  اخروی  رسولوں  کے ذریعے ہی ممکن ہے، اچھے برے میں تفصیلی فرق  اُنہی سے ملتا ہے، حصولِ رضائے الہی صرف انہی کے راستے سے ممکن ہے، چنانچہ  شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں: “بندوں کے لئے پیغام رسالت انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں،  لوگوں کو پیغام رسالت  کی ہر چیز سے بڑھ کر ضرورت ہے؛ کیونکہ پیغام رسالت کائنات کے لئے روشنی، اور آب حیات  ہے،  اس لئے اُس دم تک کائنات قائم رہے گی جب تک رسولوں کے آثار باقی رہیں گے،  چنانچہ جس وقت رسولوں کے اثرات دنیا سے مکمل طور پر مٹ جائیں گے تو اللہ تعالی علوی اور سُفلی پوری کائنات کو تباہ کر کے قیامت قائم کر دے گا”۔

 اور سب سے افضل ترین نبی ہمارے پیارے پیغمبر ﷺہیں،  اس امت کی ترقی و شان و شوکت  آپ کی وجہ  سے حاصل ہوگی، ابن کثیر رحمہ اللہ  کہتے ہیں: “نیکیوں میں سب سے آگے نکلنے کا شرف اس امت کو اپنے نبی ﷺ کی وجہ سے ہی حاصل ہوا ہے”۔

آپ کی عظمت و شان  کی وجہ سے آپ کے صحابہ تمام انبیاء کے صحابہ سے افضل تھے، آپ کی صدی بہترین صدی ہے، اور اس صدی کو بھی آپ کی وجہ سے فضیلت ملی، اللہ کے فضل کی وجہ سے قیامت کے دن آپکے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔

اس امت کو نبی ﷺ کے ذریعے شرف بخشا گیا، اللہ تعالی نے آپ کو ساری مخلوق سے چنا، اور آپ کو اولادِ آدم   کا سربراہ بنایا،  اللہ تعالی نے آپ کو ساری مخلوقات پر فضیلت دی ، اور آپ نے سب سے افضل بن کر بھی دیکھایا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی نے آلِ اسماعیل سے کنانہ کو چنا،  پھر کنانہ سے قریش کو، اور قریش سے بنی ہاشم کو چنا، آخر میں مجھے بنی ہاشم  سے چنا) مسلم

اللہ تعالی نے آپ کو  شرف بخشتے ہوئے آپ کی عمر کی قسم اٹھائی،  اللہ تعالی نے آپ کا ذکر دیگر انبیاء کی طرح قرآن مجید میں  صرف نام لے کر نہیں کیا، بلکہ جب بھی ذکر کیا تو نبوت و رسالت  کے ساتھ متصف کر کے نام لیا، اللہ تعالی نے آپ کی شرح صدر فرمائی، آپ کی لغزشیں بھی معاف فرما دیں، اور آپ کی شان بلند فرمائی۔

اللہ تعالی نے اپنے انبیاء سے نبی ﷺ پر ایمان لانے کا پختہ وعدہ لیا، اور فرمایا:

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا

آل عمران – 81

 اور  جب اللہ تعالی نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ اگر میں تمہیں کتاب و حکمت عطا کروں پھر کوئی ایسا رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرتا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی، اللہ تعالی نے (یہ حکم دے کر نبیوں سے) پوچھا ؟ “کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو؟ اور میرے اس عہد کی ذمہ داری قبول کرتے ہو؟” نبیوں نے جواب دیا: “ہم اس کا اقرار کرتے ہیں”۔

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “آپ ہی امام اعظم ہیں کہ اگر کسی بھی زمانے میں آپ موجود ہوں گے تو آپ کی اطاعت دیگر تمام انبیاء کے مقابلے میں واجب ہوگی؛ یہی وجہ تھی کہ آپ نے بیت المقدس میں لیلۃ المعراج کو انبیاء کی امامت فرمائی”۔

اللہ تعالی  نے آپ کے ذریعے  نبوت و رسالت کا اختتام فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ

الاحزاب – 40

 محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں، لیکن  آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔

اللہ تعالی نے آپ کے ذریعے دین  مکمل فرمایا:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

المائدة – 3

 آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر دی، اور تمہارے لئے اسلام کو [بطورِ]دین  پسند کر لیا۔

اللہ تعالی نے دینِ محمدی کی حفاظت  اور آیات کے ذریعے تائید فرماتے ہوئے آپ پر افضل ترین کتاب نازل فرمائی ۔

نبی ﷺ پر ایمان، آپ سے محبت، آپ کی تصدیق دین کا بنیادی اصول ہے، رسالتِ محمدی کا اقرار وحدانیت الہی کے اقرار کیساتھ منسلک کیا گیا ، اللہ تعالی نے آپ کو عرب و عجم، جن و انس  سب کے لئے مبعوث بنا کر ارسال فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا

الاعراف – 158

 آپ کہہ دیں: لوگو! بیشک میں  تم سب کے لئے اللہ کا رسول ہوں۔

اللہ تعالی نے آپ کو رحمۃً للعالمین بنا کر بھیجا، ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “یقیناً سارے جہانوں کو آپ کی رسالت کا فائدہ ہوا” جبکہ مؤمنین پر آپ خصوصی رحم کرتے تھے، اللہ تعالی نے فرمایا:

 وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ

التوبة – 61

  اور تم میں سے ایمان لانے والوں کے لئے رحمت ہے۔

آپ نے ہر قسم کے بھلائی والے کام کے بارے میں اپنی امت کو بتلا دیا، اور ہر قسم کے شر سے اپنی امت کو خبردار بھی کیا، آپ ﷺکا فرمان ہے: (میری پاس بھلائی کی کوئی بات تم  سے پوشیدہ نہیں ہے) متفق علیہ

جو شخص نبی ﷺ پر ایمان نہ لائے اور اتباع  نہ کرے تو اللہ تعالی نے اسے جہنم کی دھمکی دی اور فرمایا:

وَمَنْ لَمْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًا

الفتح – 13

 جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے، تو ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

اہل کتاب پر بھی آپ ﷺ کی اتباع کرنا واجب ہے، چنانچہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  محمد کی جان ہے! اس امت میں سے کوئی یہودی یا عیسائی میرے بارے میں سنے، اور میری لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے بغیر مر جائے تو  وہ جہنمی ہوگا)۔

لوگوں کو  نبی ﷺ پر ایمان لانے کی ہر مکان و زمان، لیل و نہار، سفر و حضر، خلوت و جلوت، اجتماعی و انفرادی ہر حالت میں ضرورت رہی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “لوگوں کو کھانے پینے سے زیادہ انبیاء پر ایمان کی ضرورت ہے، بلکہ سانس لینے سے زیادہ  ایمان بالرسل اہم ہے؛ کیونکہ انبیا پر عدم ایمان کی صورت میں آگ ٹھکانہ ہوگی، یہی انجام رسولوں کی تکذیب اور اطاعت گزاری سے رو گردانی کرنے والوں کا  ہوگا۔

آپ ہی کے ذریعے ہمیں  اللہ تعالی نے پاکباز و پارسا بنایا، اور ہمیں وہ کچھ سیکھایا جو ہم نہیں جانتے تھے، فرمانِ باری تعالی ہے:

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

الجمعة – 2

 وہی تو ہے جس نے ان پڑھ  لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ،ان کی زندگی سنوارتا اور انہیں کتاب و حکمت  کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ یقیناً وہ اس سے پہلے صریح  گمراہی میں پڑے تھے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “ہمیں کوئی بھی نعمت ظاہری ہو یا باطنی  ملے، اور اس کی وجہ سے  ہمیں دینی فائدہ حاصل ہو یا کوئی دینی مصیبت  رفع ہو تو  اس  کا سبب محمد ﷺ ہیں، وہی بھلائی  کے لئے رہبر اور اچھائی کے لئے رہنما  ہیں۔

نبی ﷺ پر ایمان  اتباعِ نبوی سے ہی ممکن ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ

النساء – 80

 جو رسول اللہ [ﷺ]  کی اطاعت کرےگا اسی نے اللہ کی اطاعت کی۔

اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی اطاعت کا حکم قرآن مجید میں۔ سے زائد بار دیا ہے ، اور اطاعتِ نبوی کا اطاعت الہی کے ساتھ اور مخالفتِ نبوی کو مخالفتِ الہی  سے ملا کر ذکر فرمایا، اور کامیابی  آپ کی اطاعت میں ہی پنہاں ہے:

وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

الاحزاب – 71

اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرےگا تو وہ عظیم کامیابی پائے گا۔

تقوی کا سب سے بڑا ، بنیادی اور حقیقی  جز ایک اللہ کی  عبادت ، اور رسول اللہ ﷺ کی اتباع ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا

الحشر – 7

 تمہیں رسول جو کچھ دے اسے لے لو، اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاؤ۔

اطاعتِ نبوی میں ہی انسانی زندگی اور خوشحالی پنہاں ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ

الانفال – 24

اے ایمان والوں! اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جبکہ رسول تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لیے زندگی  بخش ہو ۔

آزمائش آپ کی مخالفت کی وجہ سے  ہوگی، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

النور – 63

 جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائیں یا انھیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے۔

رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرنے والے کو اللہ تعالی  ذلیل  کر دیتا ہے، اللہ تعالی  کا فرمان ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ

المجادلة – 20

 جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یقینا یہی لوگ ذلیل ترین ہیں ۔

آپ کی سنت سے بے رغبتی رسول اللہ ﷺ سے اعلان براءت ہے، آپکا فرمان ہے: (جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں) متفق علیہ

نبی ﷺ کا یہ  حق ہے کہ اللہ کی عبادت آپ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق کی جائے، من مانے اور خود ساختہ طریقے سے عبادت نہ کی جائے،  اور آپ ﷺ کی حدیث کے سامنے کسی کے موقف کی کوئی حیثیت نہیں ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں تھا تو وہ مرودو ہے) مسلم

آپ ﷺ کی محبت دین میں سب سے بڑا  واجب ہے ، لہذا نبی ﷺکے ساتھ محبت کے لئے یہی کافی نہیں ہے کہ برائے نام محبت ہو، بلکہ ساری مخلوق سمیت  اپنی جان سے زیادہ محبت ہونا لازمی ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے:  (تم میں سے اس وقت تک کوئی ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں) متفق علیہ

اسی طریقے سے انسان ایمان کی مٹھاس حاصل کر سکتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تین چیزیں جس میں پائی جائیں تو وہ حلاوتِ ایمان محسوس کرتا ہے: جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول دیگر ہر چیز سے محبوب ترین ہوں، انسان کسی سے محبت کرے تو اللہ کے لئے ، اللہ تعالی کی طرف ہدایت ملنے کے بعد دوبارہ کفر میں جانا ایسے ہی ناپسند کرے جیسے آگ میں جانا ناپسند کرتا ہے) متفق علیہ

سچی محبت کا اظہار اتباع سے ہوتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

آل عمران – 31

 آپ کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو پھر میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کریگا، اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا، اور اللہ تعالی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

آپ سے سچی محبت کرنے والا قیامت کے دن آپ ہی کے ساتھ ہوگا، چنانچہ ایک آدمی نے آپ ﷺ سے عرض کیا: “اللہ کے رسول! آپ ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو  کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے، لیکن انہیں مل نہیں سکا ؟!” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (ہر انسان اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا) متفق علیہ

آپ ﷺ سے محبت کا تقاضا ہے کہ آپ پر اور آپ کی شریعت پر ایمان لا کر آپ کی خیر خواہی کی جائے،  آپکے مقام و مرتبے کا مکمل احترام ، اطاعت نبوی پر کار بند رہنا، سنت نبوی کو اپنانا، علم حدیث کو عام کرنا، آپکے احکامات کی تعظیم کرنا، آپ کے چاہنے والوں سے محبت اور مخالفین سے دشمنی رکھنا ضروری ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے: (دین خیر خواہی کا نام ہے) [صحابہ کہتے ہیں]ہم نے پوچھا: کس کے لئے؟ تو آپ نے فرمایا: (اللہ کے لئے، کتاب اللہ، رسول اللہ،  مسلم حکمرانوں، اور عام مسلمانوں کے لئے) مسلم

آپ کی تعظیم و توقیر دین کی بنیاد اور آپ کی بعثت کا مقصد ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (8) لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا 

الفتح – 8/9

 بیشک ہم  نے آپ کو شاہد، مبشر، اور نذیر بنا  کر بھیجا[8] تا  کہ تم اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ، اور اس کی مدد  و توقیر کرو، پھر صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرو۔

حلیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “نبوی حقوق  عظیم الشان، معظم و مکرّم اور ہمارے لئے فرض و واجب بھی ہیں، ان کی اہمیت آقا کے اپنے غلام، اور والدین کے اپنی اولاد پر حقوق سے بھی زیادہ ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں آپ کے ذریعے اخروی آگ سے بچایا، اور آپ کی وجہ سے ہماری روح، بدن، عزت، مال، اہل  و عیال دنیا میں محفوظ ہوئے، اللہ تعالی نے ہمیں ہدایت دی، اور ہم نے آپ کی اطاعت کی اس طرح ہم جنتوں کے حقدار بنے”۔

آپ ﷺ کی صحیح ترین قدر آپکے صحابہ کرام نے کی، چنانچہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ” اللہ کی قسم ! میں بادشاہوں، قیصر و کسری، اور نجاشی کے دربار  میں بھی گیا ہوں! اللہ کی قسم !کسی بادشاہ کو اتنی تعظیم  اور توقیر نہیں ملتی جتنی محمد کے ساتھی محمد [ﷺ]کو دیتے ہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ [صلی اللہ علیہ وسلم] جب تھوکتے تو    وہ کسی صحابی کے ہاتھ پر گرتا، اور وہ اسے اپنے چہرے سمیت پورے جسم پر مل لیتا، اور جب  نبی  [ﷺ] انہیں کسی کام کا حکم دیتے تو لپک کر اس کی تعمیل کرتے، جس وقت آپ وضو کرتے تو  وضو کا گرتا ہوا پانی   پانے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے، جس وقت آپ گفتگو  کرتے تو سب اپنی آوازیں دھیمی کر لیتے، اور آپ کی تعظیم کرتے ہوئے کوئی بھی آنکھ بھر کر آپ کو نہ دیکھتا تھا” بخاری

آپ ﷺ سے شدید ترین محبت آپ کے صحابہ نے کی، چنانچہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : “میرے نزدیک نبی ﷺ سے بڑھ کر کوئی محبوب نہیں تھا، میری نگاہوں میں آپ سے بڑھ کر کسی کی اتنی قدر نہیں تھی، آپ کے مقام و مرتبے کا یہ عالم تھا کہ میرے اندر آپ ﷺ کو آنکھ بھر کر دیکھنے کی سکت  نہیں تھی، اگر مجھے آپ کا حلیہ بیان کرنے کا کہا جائے تو میرے لئے یہ نا قابل بیان ہے؛ کیونکہ میں نے کبھی آپ ﷺکو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا” مسلم

جو آپﷺ کی سیرت اور سنت کو سمجھ لے، یا منصفانہ طور پر اسے سن  ہی لے ، تو اس کا دل  خود بخود آپ کی تعظیم پر آمادہ  ہو جائے گا،آپ کے بارے میں عیسائی  بادشاہوں نے سنا تو وہ بھی آپ کی عظمت کے قائل ہوگئے،  اسی لئے ہرقل نے کہا تھا: “اگر میں آپ کے پاس ہوتا تو آپ کے قدم دھوتا” ۔ متفق علیہ

ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث میں صرف قدموں کو دھونے  کا تذکرہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ  ہرقل  اگر صحیح سلامت نبی ﷺ کے پاس پہنچ گیا تو  اسے  کسی منصب اور حکمرانی کی چاہت نہیں ہوگی،  بلکہ وہ حصولِ برکت  کا باعث بننے والے اعمال ہی کرے گا۔

نبی  کریم ﷺکے ساتھ ادب کی  اساس یہ ہے کہ  مسلمان اپنا سب کچھ  فرامین نبویﷺ کے حوالے کرتے ہوئے مکمل اطاعت گزاری اپنائیں،  آپ کی [ثابت شدہ]احادیث کو  مانیں اور ان کی تصدیق کریں۔

نبی کریم ﷺ کے ساتھ آداب  میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ کی بات کو عجیب و مشکل نہ سمجھیں ، بلکہ آپ کی بات کی وجہ سے لوگوں کی آراء کو عجیب اور مشکل جانیں، فرمانِ نبوی کے مقابلے میں قیاس نہ لائیں، اور آپ کی بات ماننے کے لئے کسی کی موافقت  کی شرط نہ لگائیں۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “وحی کے سامنے لوگوں کی آراء بالکل ایسے ہیں جیسے ایک بہت بڑے عالم کے سامنے  ایک عام  سادہ مقلد  آدمی ہو، بلکہ  لوگوں کی آراء وحی کے سامنے اس سے بھی کہیں زیادہ درجے ہیچ ہے”۔

آپ ﷺ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ  آپ کو عبدیت و رسالت کا وہی مقام و مرتبہ  دیا جائے جو اللہ تعالی نے آپ کو دیا ہے،  چنانچہ غلو کرتے ہوئے آپ کو ربوبیت کے درجے تک  پہنچانا اور آپ سے مانگنا بالکل غلط ہے،  اور آپ کی شان کمتر جانتے ہوئے آپ کی اتباع  نہ کرنا بھی غلط ہے۔

اس کے بعد: مسلمانوں!

ہمارے نبی رسول اللہ ﷺ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں،  اللہ تعالی نے انہیں اپنا حبیب بنایا، اور ہمیں بھی اُن سے محبت کرنے کا حکم دیا، انہیں  مبعوث فرما کر ہمیں آپ کی تصدیق کا حکم دیا، اللہ نے آپ کی تائید فرمائی اور ہمیں آپ کی سنت پر مضبوطی سے کاربند رہنے کا حکم دیا،  اللہ تعالی نے آپ کو شرف و مقام سے نوازا اور ہمیں آپکا دفاع کرنے کا حکم دیا،  کوئی شخص بھی آپ پر ایمان اور آپ کی اقتدا کیے بغیر  جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

انسان جس قدر نبی ﷺ کی اقتدا کرے اسکے درجات اتنے ہی بلند ہو جاتے ہیں،  اس کے برعکس اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ یا  سنت نبوی کے  ساتھ بغض رکھے تو اللہ تعالی اسے ذلیل و رسوا فرماتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ

الکوثر – 3

بیشک آپ کا دشمن ہی  بے نام و نشان ہوگا۔

ہر امت اپنے نبی اور نبی کے صحابہ پر فخر کرتی ہے، اور اس امت کے لئے عظیم شرف اپنے نبی کی تعظیم اور صحابہ کرام سے محبت ہے، اسی  کے باعث امت کو شان و شوکت، سعادت مندی، اور دیگر اقوام   پر ترقی  ملے گی۔

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

التوبة – 128

 یقیناً تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آگیا ہے، تمہاری تنگی اس کے لئے بارِ گراں ہے، وہ تمہارا بہت خیال کرتا ہے، اور  مؤمنوں  کے لئے نہایت رؤف و رحیم ہے۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اِس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی  بخشش چاہتا ہوں۔

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد  اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانوں!

اللہ تعالی نے صرف اپنے لئے  دائمی و سرمدی بقا رکھی ہے، اور اپنی مخلوقات کے لئے فنا کا حکم صادر فرمایا، زمین و آسمان کی ہر چیز زوال کی جانب رواں دواں ہے، اس لئے صرف وہی باقی بچے گا جو ہمیشہ زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی، اللہ تعالی کافر مان ہے:

كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ 

الرحمٰن – 26/27

 اس [زمین]پر موجود ہر چیز فنا ہو جائے گی، [26] اور تیرے رب ذو الجلال و الاکرام کی ذات باقی  رہے گی۔

إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمَّى

بیشک اللہ جو دے  اور جو لے سب کچھ اسی کا ہے، اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔

 آج عالم اسلام کو ایک بہت عظیم سانحہ  پیش آیا  کہ خادم  حرمین شریفین  شاہ عبد اللہ  رحمہ اللہ دنیا فانی سے کوچ کر گئے،  منفرد اور عظیم حکمران جس نے  اپنے تمام معاملات  کے لئے کتاب اللہ کو مشعل راہ بنایا،  بلادِ حرمین پر نفاذِ شریعت  جاری رکھا،  آپ اپنے دین  پر فخر کرتے تھے، آپ نے اسلامی شعائر کو  نمایاں کیا،  علَمِ توحید تھامے  شرک و بدعات و خرافات   سے نبرد آزما رہے،  اپنے کندھوں پر اسلام کی خدمت کا بوجھ اٹھایا،  اور بیت اللہ و مسجد نبوی کے لئے تاریخ میں سب سے بڑی  توسیع  کے احکامات صادر کیے،  قرآن مجید کے نسخے دنیا جہاں میں مفت تقسیم کیے جہاں لاکھوں افراد ان سے مستفید ہوتے ہیں،  مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے لئے ہمہ قسم  کے طور طریقے اور انداز اپنائے، ارد گرد کے تمام ممالک میں  سنگین بحرانوں کی اندھیریاں چلیں، لیکن اللہ کی مدد و نصرت کے بعد  اپنے دانشمندانہ فیصلوں  کے ذریعے  ملک کو امن و امان اور خوشحالی و ترقی  کے راستے پر گامزن رکھا،  انہیں اپنی رعایا کیساتھ بہت ہی  محبت و پیار تھا،  اپنی فطرت کے مطابق  صاف دل، پاک خلوت، اور کینے سے پاک سینے کے ساتھ زندگی گزاری، انہیں اپنی رعایا سے محبت تھی ؛ چنانچہ رعایا  بھی انہیں اپنا محبوب سمجھتی تھی،  یہی وجہ بنی کہ آپ بہت اچھے حکمران تھے،  آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تمہارے اچھے حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو، اور وہ تم سے محبت کریں،  اور وہ تمہارے لئے دعائیں کریں، اور تم ان کے لئے دعائیں کرو) مسلم

اس ملک پر فضلِ الہی  اور یہاں پر نفاذِ شریعت کی وجہ سے  اہل حل و عقد اور تمام رعایا شہزادہ  سلمان بن عبد العزیز کی اس ملک کے بادشاہ کے طور پر قرآن و سنت کی روشنی میں شرعی بیعت کرتے ہیں، اور بیعت کیساتھ محبت، انس اور دعا  بھی کرتے ہیں، اسی طرح انکے بھائی مِقرَن بن عبد العزیز کی ولی عہد کے طور پر بیعت کرتے ہیں، ان سے  شاہ سلمان بن عبد العزیز  کا بھر پور تعاون ، مدد،  اور تائید کی امید رکھتے ہیں، اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص ایسی حالت میں فوت ہوا کہ  اس کے گلے میں  بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا) مسلم

حکمران کا اپنی رعایا پر یہ حق ہے کہ نافرمانی کے کاموں سے ہٹ کر ہر کام میں انکی بات سنی جائے اور اس پر عمل کیا جائے،  ان کی خیر خواہی دل میں رکھیں، اور ان کے لئے دعا کریں۔

یا اللہ! فقید امت پر رحم فرما، یا اللہ! ان کے درجات علیین میں بلند فرما،  انہیں پہلے فوت شدہ مؤمنوں کیساتھ ملا دے،  اور اُنہیں انبیاء، صدیقین، شہداء، اور صالحین کیساتھ  جمع فرما،  یا اللہ! ان کی قبر کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنا،  یا اللہ! ان کی قبر کو کشادہ و منور فرما،  یا اللہ! بڑی گھبراہٹ کے دن انہیں پر امن بنا دے، تیرے نبی کے حوض پر جانے والوں میں شامل فرما،  تیرے نبی کے ہاتھوں سے جام پینے والوں میں سے بنا،  اور انہیں بغیر حساب و  کتاب علیین میں  داخل فرما،  یا اللہ! سوگواران اور رعایا کو اچھا بدل  عطا فرما، جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے خیر و برکت کا باعث بنے۔

یا اللہ!  ان پر رحم فرما، ان کے درجات بلند فرما،  ان کے گناہوں کو معاف فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! انہیں وسیع و عریض جنت میں جگہ نصیب فرما، یا ذالجلال و الاکرام!

یا اللہ! انہیں ان کی نیکیوں کا اچھا بدلہ عطا فرما،  یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لئے جو کچھ بھی کیا ہے سب پر بہترین بدلہ عطا فرما، اور ان کے لئے ثواب بڑھا چڑھا کر اپنے پاس محفوظ فرما۔

یا اللہ! خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کو اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کے لئے کام کرنے کی توفیق عطا فرما،  یا اللہ! ان کے ذریعے اپنا دین  بلند و بالا فرما،  اپنا کلمہ اس کے ذریعے بلند فرما،  یا اللہ! ان کے اقوال و افعال کو صحیح سمت عطا فرما،  یا اللہ! انہیں اسلام و مسلمانوں کے لئے باعث خیر بنا،  یا اللہ! ان کے ولی عہد کو اسلام و مسلمانوں  کے لئے بھلائی کے کاموں کی  توفیق عطا فرما،  یا اللہ! ان کے ذریعے دین غالب فرما، اور کلمۂِ اسلام کو  بلند فرما،  اور دونوں کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا قوی! یا عزیز!

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمارے ملک کو امن و امان کا گہوارہ بنا، ایمان کا  گڑھ بنا،  خوشحال، مستحکم، اور ترقی والا بنا، یا اللہ! امن و امان اور خوشحالی تمام اسلامی ممالک میں پھیلا دے۔

 یا اللہ! ساری دنیا میں خونِ مسلم کی حفاظت فرما،  اور انکے حالات درست فرما دے، یا ذالجلال و الاکرام!

یا اللہ! سب مسلمانوں کو اچھے انداز سے اپنی طرف رجوع کرنے والا بنا دے۔

یا اللہ! اسلامی ممالک کو دشمن قوتوں کے شر سے محفوظ فرما، یا قوی! یا عزیز! ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم ڈھائے، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل – 90

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے  منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔

تم صاحبِ عظمت و جلالت اللہ کو یاد رکھو ؛ وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ  اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ: آپ یعنی جناب عبد المحسن بن محمد بن عبد الرحمن القاسم القحطانی کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے گریجویشن کیا اور المعہد العالی للقضاء سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مسجد نبوی کی امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ محکمۃ الکبریٰ مدینہ منورہ میں قاضی (جسٹس ) بھی ہیں ۔