مسلمانوں ! اللہ کا تقوی اختیار کرو کہ اس کا تقوی سب سے زیادہ نفع بخش چیز ہے اور اللہ کی نافرمانی سے بچو کیونکہ وہ شخص خائب و خاسر اور نقصان اٹھانے والا ہو گیا جس نے اللہ کے احکام میں کمی کوتاہی کی ۔ ارشاد الہی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٧٠﴾ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
الاحزاب – 70/71
” اے ایمان والو ں! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور سیدھی بات کیا کرو ، وہ تمھارے اعمال کو درست کر دے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ بہت بڑی کامیابی و مراد پا گیا ” ۔
مسلمانوں ! بندے کا اپنے رب کی عبادت کرنا یہ اس کے اللہ کے سامنے خضوع و عاجزی کی رمز و دلیل صدق ہے ، اسی طرح یہ اس کے مطیع فرمان ہونے کی علامت بھی ہے اور یہ ایک ظاہر شریف اور باعث فخرعزت کا نشان بھی ۔ عبودیت و بندگی سب سے بلند ترین مقام ، سب سے بالا تر غایت و مقصود اور اعلی ترین مرتبہ و درجہ ہے ۔
مسلمانو ں! گزشتہ چند دنوں میں حجاج کرام نے ایک عظیم ترین عبادت سر انجام دی ہے اور قرب الہی کے حصول کے ایک عظیم ترین فریضہ کو ادا کیا ہے ۔ میقات پر آ کر انہوں نے اللہ کی خاطر خوبصورت سلے ہوئے کپڑے اتار دیئے ( اور دو چادریں اوڑھ لیں ) میدان عرفات میں توبہ کے آنسو ان کے رخساروں پر سے بہہ نکلے اور یہ ان کا اپنی کمیوں کوتاہیوں اور خطاؤں پر اظہار ندامت تھا ، اور ہر زبان میں تمام آوازوں نے اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے اور اس کے آگے اپنی محتاجی بیان کرتے ہوئے فضاؤں کو معمور کر دیا ۔ پھر یہ تمام لوگ رات گزارنے کے لئے مزدلفہ کی طرف روانہ ہو گئے ، اور اگلے دن مسلمانوں کا یہ جم غفیر جمرات پر رمی کے لئے جا نکلا پھر کعبہ شریف کا طواف اور صفا و مروہ کے مابین سعی کرنے کے لئے مکہ مکرمہ جا نکلے یہ انسان کی زندگی کا سب سے شاندار سفر اور تمام سیر و سیاحتوں سے خوبصورت ترین سیاحت ہے ۔
اس کے بعد وہ یوں لوٹے کہ حسب ارشاد الہی :
فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ
آل عمران – 170
” انھیں اللہ نے جس فضل و کرم سے نوازا ہے اس پر وہ بہت خوش و خرم ہیں ” ۔
قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
یونس – 58
اور ارشاد ربانی ہے :” کہہ دیں کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوا ہے لہذا چاہئے کہ لوگ اس سے خوش ہوں ” ۔
یہ نعمت دنیا جہاں کی تمام نعمتوں اور اس کے ساز و سامان سے زیادہ بہتر ہے ، کیونکہ وہ سب تو محض ایک خواب و خیال کی طرح ہیں اور بالآخر زوال پذیر ہیں ، اس دنیا سے ہی ختم ہو جانے والی ہیں اور یہ متاع دنیا آفات کا شکار ہو سکتی ہے اور چھن بھی سکتی ہے ،لیکن حجاج کرام کو ان کا حج مبارک ہو ، عبادت گزاروں کو ان کی عبادت مبارک ہو ، ان کے لئے نبی ﷺکا وہ ارشاد مبارک ہو جس میں آپ ﷺنے اپنے رب سے بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اللہ تعالی کہتا ہے :
” جب کوئی بندہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اورجب وہ ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر بڑھتا ہوں ، اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں ” ۔ ( صحیح بخاری )
حجاج بیت اللہ ! اللہ نے آپ کو جس عزت افزائی سے نوازا ہے اس پر اس کا شکر بجا لاؤ اور اس نے آپ کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ان پر اس کی حمد و ثناء بیان کرو ، اس کا فضل و کرم آپ پر مسلسل جاری ہے اور اس کی خیرات و برکات بلا انقطاع نازل ہو رہی ہیں اور ان عطاؤں کا دائرہ انتہائی وسیع ہو چکا ہے اور اس کے فضل و کرم کا آپ پر اتمام و اکمال ہو گیا ہے ۔
چنانچہ ارشاد الہی ہے:
وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ ۖ
النحل – 53
” تم جس بھی نعمت سے سرشار ہو یہ اللہ تعالی کی ہی دی ہوئی ہے ” ۔
اور دوسری جگہ فرمایا :
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
النحل – 18
” اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا بھی چاہو تو نہیں گن سکتے اور اللہ تعالی تو بڑا ہی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ” ۔
حجاج کرام ! اپنے رب سے ہر انعام کا گمان رکہو اور ہر بڑی بھلائی کی اس سے امید لگائے رہو ، اللہ سے اپنے حج کی قبولیت کی قوی امید رکہو اور اس کا بھی یقین و امید رکہو کہ وہ تمہارے سابقہ تمام گناہ بخش دے گا ۔ چنانچہ ایک قدسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
” میں اپنے بندے کے ظن کے مطابق ہی ( اس پر پورا اترتا ) ہوں ” ۔ ( بخاری و مسلم )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺکی وفات سے صرف تین دن پہلے آپ سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے :
” تم میں سے کوئی شخص ہرگز نہ مرے سوائے اس کے کہ وہ اپنے اللہ عز و جل سے حسن ظن رکھنے والا ہو “۔ ( صحیح مسلم )
مسلمانوں ! اے بیت اللہ العتیق کا حج کرنے والو ! اے روئے زمین کے دور دراز اور دشوار گزار راستوں سے آنے والو ! اور ہر طرف سے تلبیہ
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ
کہتے ہوئے آنے والو ! آپ کا حج تو مکمل ہو گیا ہے اور ان مشاعر مقدسہ و مقامات طاہرہ میں وقوف کر لینے اور ان شعائر دینیہ کو ادا کر لینے کے بعد آپ نے احرام کھول دیا اور بال کاٹ لئے اور ناخن تراش لئے ہیں اور اب آپ لوگ اپنے ملکوں کی طرف لوٹنے کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔
اب آپ کوشش کرکے گناہوں کے ارتکاب برائیوں اور حرام امور میں اپنے آپ کو لت پت کرنے سے بچائے رکھیں، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا
النحل – 92
” اور اس عورت کی طرح نہ ہو جانا جس نے محنت سے سوت کاتا پھر اسے توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے (رشہ رشہ ) کر دیا ” ۔
ایک احمق عورت و نادان اور بے عقل عورت سوت و اون کاتنے میں شب و روز بڑی جانفشانی و محنت کرتی ہے اور جب مضبوط دھاگہ تیار ہو جاتا ہے تو پھر اس کے بل کہولنے لگتی ہے اور اس کے مضبوط تیار ہو جانے کے بعد پھر اسے رواں دواں کر دیتی ہے ۔ اس عورت نے اپنی محنت و مشقت سے کیا پایا ؟ سوائے تھکن کے ، خبردار رہنا ! آپ لوگ بھی کہیں اس عورت کیطرح نہ ہو جانا اور اس عظیم فریضے کی ادائيگی کے ذریعے آپ نے نیکیوں کی جو شاندار عمارت تعمیر کی ہے اسے گرانے نہ لگ جانا اور جو اجر و ثواب آپ نے جمع کیا ہے گناہوں کے ذریعے اسے برباد نہ کرنے لگنا اور اللہ کے ساتھ آپ نے جو مضبوط ناطہ جوڑا ہے ، اس میں نقص نہ پیدا ہونے دینا ۔
حجاج کرام ! آپ نے اپنی زندگی کا ایک نیا اور صاف و سفید صفحہ کہولا ہے اور اسی حج کے بعد آپ نے صاف ستھرے و پاک لباس زیب تن کیا ہے ، خبردار ! رسواکن افعال ، تباہ کن کرتوت اور برے اعمال سے بچ کر رہنا ، وہ نیکی کتنی اچھی ہوتی ہے جس کے بعد بھی نیکی ہی کی جائے اور بہت ہی سخت برائی وہ ہوتی ہے جو کہ نیکی کے بعد کی جائے ۔
مسلمانوں ! حج مبرور و مقبول کی ایک نشانی اور اس کی قبولیت کی ایک علامت ہوتی ہے ، اس سلسلہ میں حضرت حسن بصری رحمۃ الله علیہ سے سوال کیا گیا کہ حج مبرور کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا :
” وہ حج جس سے فارغ ہو کر آپ اپنے گھروں کو یوں لوٹیں کہ دنیا سے دلچسپی باقی نہ رہے اور تمام تررغبت و توجہ آخرت پر مرکوز ہو جائے ” ۔
آپ کا یہ حج آپ کے لئے ہلاکتوں میں گر نے کی راہ میں رکاوٹ بن جانا چاہئے ، یہ تباہ کن لزرشوں کی راہ میں مانع بن جائے اور مزید خیرات و اعمال صالحہ سرانجام دینے کا باعث و ذریعہ ہو جائے ۔ اور یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ موت سے پہلے مومن کے لئے اعمال صالحہ کی کوئی انتہاء نہیں ہے ۔
مسلمانوں ! کتنی ہی خوب بات ہے کہ حاجی اپنے ملک و اہل خانہ کی طرف لوٹے تو اس کے کردار میں یہ حسین انقلاب آ چکا ہو کہ وہ اخلاق حسنہ سے مزین ہو ، عقل سلیم سے متصف ہو ، اس پر سکون و وقار جھلک رہے ہوں ، اپنی عزت و آبرو کو ہر عیب دار فعل سے بچا رہا ہو ، اس کی عادات پسندیدہ اور اطوار اچھے ہو چکے ہوں ۔
یہ کتنی ہی اچھی بات ہے کہ حاجی جب حج کر کے لوٹے تو وہ اپنے گھر والوں سے حسن معاملہ کا پابند ہو اور اپنی اولاد سے حسن معاشرت برتنے والا ہو، دل کا پاک صاف اور منھج حق و عدل اور میانہ روی پر کار بند ہو ، اس کا باطن اس کے ظاھر سے بھی اچھا ہو اور اس کے کردار کے مخفی پہلو اس کی نظر آنے والی روش سے بھی عمدہ ہوں ، جو شخص حج کر کے ان اوصاف جمیلہ و محاسن کو اپنا کر واپس لوٹتا ہے دراصل وہی ایسا شخص ہے جس نے اس عظیم فریضہ کی ادائيگی سے حقیقی طور پر استفادہ کیا ہے اس کے اسرار و رموز کو پایا ہے ، اس کے دروس کو اپنے دل میں جگہ دی ہے اور اس کے آثار اپنے کردار کا حصہ بنائے ہیں ۔
مسلمانوں ! حاجی جب سے حکم احرام میں داخل ہو کر لبیک پکارنا شروع کرتا ہے تب سے لےکر تمام مناسک و اعمال حج پورے کر لینے تک اس کے حج کے تمام اعمال و مناسک اسے اللہ کا تعارف کرواتے چلے جاتے ہیں ، اسے اس کی الوہیت و عبادت کے اکیلے لائق و سزاوار ہونے کے خصائص و حقوق کی یاد دلاتے جاتے ہیں اور یہ سکھلاتے جاتے ہیں کہ اس کے سوا عبادت کا حقیقی مستحق دوسرا کوئی نہیں ہے ۔
اسے یہ بھی یاد کرواتے ہیں کہ وہ صرف ایک اللہ ہی ہے جس کی طرف توجہ و رجوع کیا جائے اور اپنی جان صرف اس کے سپرد کی جائے ، وہ بے نیاز ہے اور ساری مخلوقات صرف اس ایک بے نیاز کے درکی محتاج ہے ، اسی سے مانگتی ہے ، ناپسندیدہ امور سے اسی کی پناہ چاہتی ہے ۔ اور مصائب و مشکلات یا کرب و بلا میں اسی سے مدد طلب کرتی ہے ۔
یہ سب کچھ یاد کر لینے اور سیکھ لینےکے بعد کسی حاجی کے لئے یہ کیسے بآسانی ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کے حقوق دعاء و پکار ، اسغاثہ ، طلب و مدد و استعانت ، ذبح و قربانی اور نذر و وغیرہ کو اللہ سے پھیر کر کسی اور کی طرف لے جائے ، اور وہ بھی کیا حج ہے جس کے بعد کوئی حاجی ایسے قبیح افعال اور صریح شرکیہ افعال سے ہاتھ رنگنے لگے ؟
مسلمانوں ! وہ بھی کیا حج ہے کہ جس کے بعد حاجی شعبدہ بازوں اور جادوگروں کے دروازوں کے چکر کاٹنے لگے ، برجوں کی خرافات ،نجومیوں یا کاھنوں اور پرندے اڑا کر فال نکالنے والے بہروپئے ٹھگوں کی باتوں کی تصدیق کرنے لگے ؟ درختوں سے تبرک حاصل کرنے لگے ، پتھروں کو چہونے چومنے لگے اور تعویذ گنڈے لٹکانے پر اتر آئے ؟
وہ بھی کیا حج ہے کہ جس کے بعد حاجی نماز ضایع کرنے لگے ؟ زکوٰۃکی ادائیگی روک دے ، سود کھانے لگے ؟ رشوت ستانی کرنے لگے ؟ شراب و منشیات اور مخدرات و نشہ آور اشیاء استعمال کرنے لگے ؟ رشتہ داروں سے قطع رحمی و قطع تعلقی کرنے لگے ؟ اور تباکن گناہوں اور برائیوں میں منہ مارنے لگے ؟
حجاج بیت اللہ العتیق ! اے وہ حاجی جو احرام کی حالت میں احرام کے محرمات و ممنوعات سے رکے رہے تھے اسلام میں کچھ محرمات و ممنوعات ایسے بھی ہیں جو کہ سدا ، ساری زندگی اور سال بھر ہر وقت ہی ممنوع و حرام ہیں ان کے قریب جانے اور ان کا ارتکاب کرنے سے بچو ۔ ارشاد الہی ہے :
تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ
البقرة – 187
” یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، ان کے قریب بھی نہ جاؤ ” ۔
دوسری جگہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :
تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
البقرة – 229
” یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور جس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا تو وہی لوگ ظالم ہیں ” ۔
مسلمانو ں! جس نے حج میں اللہ کی نداء پر لبیک کہا وہ حج کے بعد کسی ایسی دعوت و اصول ،کسی نظام و مذہب اور کسی ایسی نداء پر کیسے لبیک کہہ سکتا ہے جو کہ اللہ کے دین کے سراسر خلاف ہے وہ دین اسلام کہ جس کے سوا اللہ کسی سے دوسرا کوئی دین ہرگز قبول نہیں کرے گا ۔
ارشاد الہی ہے :
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آل عمران – 85
” جو شخص اسلام کے سوا کسی دین کو چاہے گا تو اس سے وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ شخص آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہو جائے گا ” ۔
جس نے حج میں اللہ تعالی کے لئے لبیک کہا وہ حج کے بعد اپنے معاملات کے فیصلے کرنے کروانے کے لئے اس کی شریعت اسلامیہ کے سوا کسی دوسرے نظام و قانون کو کیسے اپنائے گا ؟ اس کے حکم کے سوا کسی دوسرے کے قلم و فیصلے کو کیسے قبول کرے گا ؟ اور اس کے پیغام کے سوا کسی دوسرے کی بات پر کیسے کان دھرے گا ؟
جس نے حج میں اللہ کے لئے تلبیہ کہا اسے چاہئے کہ وہ ہر وقت اور ہر جگہ اسی کے احکام و اوامر پر لبیک کہے اور وہ چاہے جہاں بھی جا رہا اور چاہے جہاں بھی رہ رہا ہو وہ اطاعت الہی میں ذرہ بھرمتردد نہ ہو ، نہ اس سے لمحہ بھر رکنے پائے بلکہ وہ صرف اللہ کے سامنے خضوع و انکساری ، خشوع و عاجزی کرے اور اطاعت و فرمانبرداری اور سمع و طاعت صرف اسی کی کرے ۔
اے اللہ والے ! اے وہ شخص جس پر دنوں پر دن گزرتے چلے جا رہے ہیں اور ہر دن سورج چڑھتا اور ڈوبتا چلا جاتا ہے اور وہ گناہوں برائیوں اور مہلک کبائر میں مبتلا و غرق ہے ۔ اے وہ شخص جس پر خیرات و برکات اور فضائل و رحمات کے موسم آئے اور گزر گئے مگر وہ منکرات و عیوب اور کھیل کود میں ہی مشغول رہا !کیا تم نے حجاج کرام ، عمرہ کرنے والوں اور دوسرے عبادت گزاروں کے قافلے نہیں دیکھے ؟ کیا تم نے احرام باندھنے والوں کو اس فاخرانہ دنیوی لباس کو اتار کر دو چادروں میں لپٹے نہیں دیکھا ؟ کیا تم نے اللہ سے مانگنے والوں کو اس کی طرف دست سوال دراز کئے نہیں دیکھا ؟ کیا تم نے اپنے گناہوں پر شرمسار ہو کر توبہ تائب ہوتے لوگوں کو آنسوؤں کی جھڑی لگائے نہیں دیکھا ؟ کیا تم نے لبیک اللھم لبیک پکارنے والوں ، اللہ اکبر کے نعروں سے فضاؤں کو معمور و معطر کر دینے والوں اور لا الہ الا اللہ کے ورد و ذکر سے ان خلاؤں کو خوشبودار کر دینے والوں کی آوازین نہیں سنیں ؟
تجھے کیا ہو گیا ہے ؟ تجھ پر علی الاطلاق ساری عمر دنیا کا سب سے بہترین دن ( یوم عرفہ ) گزر گیا مگر تم خواہش نفس کی غلامی میں ہی بدمست و مدہوش پڑے ہو اور تم مضبوط زنجیر گناہ میں جکڑے ہوے ہو ۔ اے وہ حرمان نصیب ! جس کے شب و روز اور صبح و شام گناہوں میں ہی گزر رہے ہیں اور یہی کہے چلے جا رہے ہو کہ آج توبہ کر لوں گا ، کل توبہ تائب ہو جاؤں گا۔ اے وہ شخص جس کا دل خواہشات کے ہاتہوں میں کھلونا بنا ہوا ہے ! اور جہالت و نادانی کا جادو اس کے سر چڑھ کر بول رہا ہے ! اے وہ شخص جو شہوت پرستی کی کوٹھری میں قید ہو کر ہی رہ گیا ہے ۔ اس رات کو یاد کرو جو تمھیں قبر میں گزارنی ہو گی اور تم تن تنہا ہو گے اور تمہارا کوئی مونس و غمخوار نہ ہو گا ۔ جب تک تمھارے پاس مہلت موجود ہے فوری طور پر اس میں توبہ تائب ہو جاؤ اور تلافیء مافات کر لو قبل اس کے کہ گناہون کو کم کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل جائے اور فورا گناہوں اور برائیوں سے رک جاؤ ۔
یہ بات خوب ذہن نشین کر لیں کہ اللہ تعالی دن کے وقت ہاتھ بڑھاتاہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والا اس کے سامنے تائب ہو جائے اور رات کو دست اقدس دراز کرتا ہے تاکہ دن کو برائی کرنے والا توبہ کر لے ۔
اے وہ شخص ! جس نے طرح طرح کی عبادات سر انجام دیں ، اب اسی روش پر استقامت و پختگی اختیار کرو اور ہمیشہ عمل صالح سر انجام دیتے رہو کیوں آپ اس دنیا کے گھر میں کوئی مستقل نہیں رہنے والے ، اور اس دکھلاوے اور ریاکاری سے بچو ۔ کیونکہ بعض دفعہ خلوص نیت کسی معمولی سے کام کو بہت بڑا عمل بنا دیتی ہے اور کبھی نیت کا کھوٹ اور ریاکاری بہت بڑے عمل کو بہت ہی چھوٹا سا کام بنا کر رکھ دیتی ہے ۔
بعض سلف صالحین امت کا کہنا ہے :
جسے یہ بات خوشگوار ہو کہ اس کا عمل کامل ہو اسے چاہئے کہ وہ اپنی نیت کو صاف کرے ، اپنے عمل کے نامقبول ہونے سے ڈرتے رہیں ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺسے اس آیت کے بارے میں پوچھا جس میں ارشاد الہی ہے :
وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ
المؤمنون – 60
” اور وہ جو دے سکتے ہیں دیتے ہیں اور ان کے دل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ انھیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے ” ۔
( وہ کہتی ہیں کہ ) میں نے عرض کیا : کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں ؟ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : اے صدیق کی بیٹی ! وہ نہیں بلکہ اس آيت سے وہ لوگ مراد ہیں جو روزہ رکھتے ، نماز پڑھتے اور صدقہ بھی کرتے ہیں لیکن وہ ساتھ ساتھ ہی اس بات سے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کے یہ اعمال نامقبول نہ ہو جائيں ۔
انہی کے بارے میں آگے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
أُولَـٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ
المؤمنون – 61
سنن الترمذی ” یہی وہ لوگ ہیں جو نیکیاں کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ان کے لئے آگے نکل جاتے ہیں ” ۔
اللہ کے بندوں ! ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہو اور کتاب مبین میں اللہ کے اس قول حق کو ہمیشہ یاد رکہو :
إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
المائدة – 27
” اللہ صرف اہل تقوی سے ہی عمل قبول کرتا ہے ” ۔
مسلمانوں ! اللہ کا تقوی اختیار کرو کیونکہ اس کا تقوی ہی سب سے بہترین زاد سفر ہے اور یہی آخرت میں بہترین انجام کا باعث ہے ۔ یہ بات بھی پیش نظر رکھیں کہ یہ دنیا مقابلے اور دوڑ کا میدان ہے ۔ ایک قوم جو سبقت لے گئی وہ کامیاب ہو گئ ، جو لوگ پیچھے رہ گئے وہ خائب و خاسر ہوئے اور بازی ہار بیٹھے ۔ اللہ اس بندے پر رحم کرے ۔ جو دیکھتا ہے تو نظر تفکر سے دیکھتا ہے اور جب تفکر و تدبر کرتا ہے تو عبرت حاصل کرتا ہے اور صبر کا دامن تھام رکھتا ہے ، اور حق کی راہ میں پیش آمدہ مشکلات پر صرف وہی صبر کرتا ہے جو اتباع حق کی فضیلت کو جانتا اور اس کے اچھے انجام کی امید رکھتا ہے اور ارشاد الہی ہے :
إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
هود – 49
” بیشک اچھا انجام تو اہل تقوی کے لئے ہے ” ۔
اللہ والوں ! آپ دنیا میں موتوں کا نشانہ اور بلاؤں مصیبتوں کا ٹارگٹ و گھر ہو ، تم بعد میں آئے ہو اور کتنے ہی لوگ تم سے پہلے اس دنیا سے جا چکے ہیں اور کل تم چلے جاؤ گئے ( سلف بن جاؤ گے ) اور دوسرے لوگ تمھاری جگہ لے لیں گے ۔ اپنی زندگی و وقت حاضر سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے نفسوں کے ساتھ جہاد و مجاہدہ کرو کیونکہ یہ مجاہدہ ہی عباد ( عبادت گزاروں ) کا مال و متاع اور زھاّد ( اہل زہد) کا اصل سرمایہ و راس المال ہے ، اور یہی نفسوں کی درستگی و اصلاح کا اصل دار و مدار بھی ہے۔ میانہ روی اختیار کئے رہو ، سیدھے چلو اور اللہ کا قرب تلاش کرتے رہو ، صبح و شام اللہ کی عبادت کرتے جاؤ اور رات کا حصہ ( تہجد ) بھی نہ بہولو اور افراط و تفریط سے بچتے ہوئے معتدل مزاجی و اعتدال سے چلتے رہو تو ضرور منزل تک پہنچ جاؤ گے ۔
اے مسلمانوں ! جنہوں نے حج مکمل کر لیا ہے اور اب اللہ نے تم پر یہ انعام بھی فرما دیا ہے کہ آپ کو نبی ﷺکے پاک و طاہر شہر مدینہ منورہ تک بھی پہنچا دیا ہے ۔ جب آپ مدینہ طیبہ کی ارض پاک پر چل رہے ہوں تو یہ بات آپ کے پردہ ذہن سے محو نہیں ہونی چاہئے کہ یہ وہ شہر ہے جسے بنی نوع انسان کے سب سے معزز ترین دو قدموں کو بوسہ دینے کا شرف حاصل ہے اور یہ مدینہ طیبہ وہ شہر مقدس ہے جس میں سرور کونین حضرت محمد ﷺنے اپنی حیات طیبہ کے آخری دس سال بسر فرمائے ۔ لہذا ہر ممکن کوشش کریں کہ آپ نبی ﷺکی سنتوں کا علم حاصل کریں ، آپ ﷺکی سیرت کا مطالعہ کریں ، آپ ﷺکے نقش قدم پر چلیں ، آپ ﷺکا طریقہ و سنت اختیار کریں اور نظام مصطفی ﷺکی مکمل پیروی کریں ۔ اور یہ ہدف یا یہ مقصد آپ اسی وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ آپ اپنے رب کریم اور اپنے معبود حقیقی سے مدد طلب نہیں کریں گے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَمَن يَعْتَصِم بِاللَّـهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
آل عمران – 101
” اور جس نے اللہ ( کی ہدایت کی رسی ) کو مضبوطی سے پکڑ لیا وہ سیدھے راستے پر لگ گیا ” ۔
حجاج کرام ! آپ یہ حج آپ کی فتوحات میں سے پہلی فتح ، آپ کی فجر کا سپیدہءنور ، آپ کی صبح کی روشنی و چمک ، آپ کی ولادت ثانیہ یا نئی زندگی کا آغاز اور آپ کے ارادوں کے صدق و سچائی کا عنوان چاہئے ۔
اللہ تعالی آپ کے حج و سعی کو مبرور و مقبول فرمائے ۔ اور ان ایام مبارکہ کو ہمارے لئے اور آپ سب کے لئے بار بار لوٹائے اور امت اسلامیہ کو عزت و کرامت ، فتح و نصرت ، اقتدار و حکومت اور سرداری و رفعت جیسی عظمتوں سے ہمکنار کرے ۔ آمین ۔
و صلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آله و صحبه اجمعین
سبحان ربك رب العزﺓ عما یصفون و سلام علی المرسلین
و الحمد للہ رب العالمین