فلاح و بہبود کے ایمانی ذرائع

پہلا خطبہ

تمام  تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، اس کی اطاعت کرنے والا خوش و خرم رہتا ہے وہ کبھی شکستہ دل نہیں ہوتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، اور اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے ہاتھ میں آسمان و زمین کی کنجیاں ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد  اللہ کے بندے ، اس کے رسول  اور چنیدہ نبی ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور برگزیدہ و متقی صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ جو متقی بن جائے وہ کامیاب و کامران  اور پاکیزہ  ہو جاتا ہے۔

مسلمانوں!

امت آج گھٹا ٹوپ فتنوں، مختلف مصیبتوں، خطرناک چیلنجز اور مکاری سے بھر پور منصوبہ بندیوں کے بھنور میں ہے، اہل اسلام چاہے حکمران ہوں یا عوام ان  حالات میں کسی مسیحا کے  منتظر ہیں  جو ان کے حالات درست  کر دے ، ان کی زندگی کو پر سعادت بنا دے، ان کیلیے خوشیاں اور خوشحالیاں  لے آئے، تنگی اور مصیبتیں ٹال دے، اس امت کی کامیابی اور کامرانی ، تمام خدشات اور صعوبتوں سے بچاؤ صرف اسی وقت ممکن ہے جب مکمل طور پر صرف ایک الہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیں، اپنی تمام سرگرمیاں، اور زندگی کے ہر شعبے میں اسی کی بات مانیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ

المؤمنون – 1

 یقیناً مومن فلاح پا گئے۔

اور آپ ﷺ کا فرمان ہے: (لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ دو، کامیاب ہو جاؤ گے) اسے ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔

مسلم اقوام!

امت اس وقت تک خوشحال نہیں ہو سکتی امت کے حالات اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتے جب تک اپنی زندگی کے تمام تر قوانین کو اور زندگی کے گوشوں کو اللہ تعالی کی شریعت کے تابع نہیں کر دیتی، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

الحج – 77

 اے ایمان والو! رکوع، سجدہ کرو،  اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور نیکیاں بجا لاؤ، تا کہ تم فلاح پاؤ۔

اور ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے: (وہ شخص کامیاب ہو گیا جو اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کر دے، اور وہ اسے گزر بسر کیلیے رزق عطا فرمائے نیز اللہ تعالی کی عطا کردہ عنایت پر قناعت کر لے) مسلم

مسلم معاشرے میں خوشحالی ، استحکام، فراوانی  اور امن و امان اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک مسلمان اپنا سب کچھ اللہ تعالی کے احکامات کے سپرد نہیں کرتے، اس کی شریعت نافذ  اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کرتے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

النور – 51

مومنین کو جب اللہ اور اس کے رسول کی جانب بلایا جاتا ہے تا کہ ان کے مابین فیصلہ کیا جائے تو وہ کہتے ہیں: ہم نے سن لیا اور ہم اس فیصلے کے فرمانبردار بھی ہو گئے، یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

امت اسلامیہ!

بد حالی کی کسی بھی صورت کو زائل کرنے کیلیے ہم جتنی مرضی جان لڑا لیں، جتنے مرضی طریقے استعمال کر لیں ان کا ازالہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم اپنی موجودہ حالت سے سچی توبہ نہیں کرتے، ہم ربانی اور ہمارے نبی ﷺ کی سنت کی مخالفت میں ڈوبے ہوئے ہیں، مختلف قسم کی مصیبتوں  اور دکھوں  سے نبرد آزما امت  کیلیے وقت آ چکا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کیلیے خشوع و خضوع اپنائے، رضائے الہی کے مطابق اپنی حالت درست کرنے کیلیے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ

الحدید – 16

 کیا ایمان والوں کیلیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکرِ الہی اور جو کچھ حق نازل کیا ہے اس کی وجہ سے پگھل جائیں۔

 اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

النور – 31

 اے مومنو! تم سب اللہ تعالی سے توبہ مانگو؛ تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔

وگرنہ جب تک ہم گناہوں کی ڈگر پر چلتے رہیں گے، پاپ  اور حرام کاموں میں پھنستے چلے جائیں گے ہم کامیابی کے راستے سے دور ہوتے جائیں گے، بہتری سے ہمارا فاصلہ بڑھتا جائے گا:

 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

المائدۃ – 90

 اے ایمان والو! شراب، جوا، تھان، پانسے سب گندی چیزیں اور شیطانی عمل ہیں ، ان سے بچو تا کہ تم فلاح پاؤ۔

آپ خود یہ دیکھ لیں کہ پوری امت آج انحطاط، داخلی انتشار، اختلافات، تنازعات اور ایسے لڑائی جھگڑوں میں جی رہی ہے جن کی وجہ سے قتل و غارت اور ہتک عزت کا بازار گرم ہے، سب ایک دوسرے کو ہیچ کرنے کیلیے سر گرداں ہیں ، ان کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق ہے:

وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ

الانفال – 46

 تنازعات میں مت پڑو ورنہ تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی۔

ان کے بارے میں مصطفی ﷺ کا فرمان بھی صادق آ رہا ہے: (ان کے حکمران اللہ کی کتاب کا نفاذ اور اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کو اختیار نہیں کریں گے تو اللہ تعالی انہیں داخلی انتشار میں مبتلا کر دے گا) اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور متعدد محدثین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

یہ دیکھ لیں امت آج سنگین قسم کی اقتصادی اور مالی زبوں حالی سے دو چار ہے، امت محمدیہ کیلیے مالی بحرانوں  اور زبوں حالی سے نکلنے کا راستہ  یہی ہے کہ اللہ تعالی کے پسندیدہ منہج پر چلیں ، جس وقت بھی اس منہج سے ہٹیں گے نقصانات ، تنگیاں اور آزمائشیں ہمیں گھیر لیں گی۔

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

آل عمران – 130

 اے ایمان والو! سود بڑھا چڑھا کر مت کھاؤ، اور اللہ تعالی سے ڈرو، تا کہ تم فلاح پاؤ۔

مذکورہ بالا حدیث کے بقیہ حصے میں ہے کہ: (ماپ تول میں کمی کریں گے تو انہیں قحط سالی، رزق کی تنگی اور حکمران کی جانب سے ظلم ان پر مسلط کر دیا جائے گا) مطلب یہ ہے کہ: جب بھی اپنے تجارتی اور اقتصادی لین دین میں اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت پر عمل نہیں کریں گے تو انہیں قحط سالی، زندگی میں مہنگائی اور آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں  کا سامنا کرنا پڑے گا، ان کی دولت ختم ہوتی جائے گی اور اللہ تعالی ان پر ایسا ظالم مسلط کر دے گا جس کا مقابلہ کرنے کی ان میں سکت نہیں ہو گی۔

مسلمانوں!

حصولِ کامیابی اس بات کے ساتھ منسلک ہے کہ پوری امت مضبوط قدموں اور ارادوں کے ساتھ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرے، معاملات سدھارنے کیلیے ایک دوسرے کو نصیحت کریں، سمت کا صحیح تعین کریں اس کیلیے اعلی منہج، برد بار اسلوب، بلند اہداف اور اعلی مقاصد مد نظر رکھیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

آل عمران – 104

  تم میں ایسی جماعت ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ “مِنْكُمْ” میں ” مِنْ” بعض کے معنی میں ہے، تاہم صحیح بات یہ ہے یہاں ” مِنْ”  بیانیہ ہے، تو مطلب یہ ہو گا کہ معاشرے کا ہر فرد نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔

جس وقت بھی مسلمان اس راستے سے ہٹیں گے تو خسارے اور تباہی میں لوٹ جائیں گے

 إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ

العصر – 2/3

 بیشک انسان خسارے میں ہے۔ ماسوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ، نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کی۔

اسلامی بھائیوں!

مسلمانوں کی کامیابی نبی ﷺ کے لائے ہوئے خالص اسلام کے نفاذ  میں پوشیدہ ہے، جو کہ دینِ اعتدال ہے، غلو  ، تشدد اور شدت پسندی  سے مبرّا ہے، خالص دینِ اسلام  افراط و تفریط سے دور اور اس کے احکامات قرآن  و سنت سے ثابت ہیں،  دین میں غلو یا تشدد کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں  پر بہت سنگین قسم کے فتنے  امڈ پڑے، لا تعداد نقصانات ہوئے؛ کیونکہ غلو اللہ تعالی کی مرضی اور مصطفی ﷺ کے طریقے سے متصادم  ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا

البقرۃ – 143

 اسی طرح ہم نے تمہیں سب سے بہترین امت بنایا۔

مسلم اقوام!

دنیاوی کامیابی جس کا مفہوم یہ ہے کہ : معاشرہ پھلے پھولے، سب لوگ خوش حال ہوں، ہر چیز کی ریل پیل ہو، دائمی برکتیں ملیں یہ سب کچھ محض حسی اسباب اپنانے سے نہیں ہو گا، بلکہ حقیقی اسباب بھی اس کیلیے بروئے کار لانا ہوں گے، اس کیلیے عقیدے پر استقامت اور تمام امور میں شرعی منہج کا التزام ضروری ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ

الطلاق – 2/3

 جو بھی تقوی الہی اختیار کرے تو اللہ اس کیلیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

الاعراف – 96

 اگر بستی والے ایمان لے آئیں اور متقی بن جائیں تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیں۔

امت اسلامیہ!

بہت سے مسلمانوں نے ایک دور  جسے استعماری کہتے ہیں حقیقت میں وہ تباہی کا دور تھا اس کے خاتمے کے بعد  اپنی زندگی میں دو صدیوں سے زیادہ عرصے تک درآمد شدہ نظریات اور افکار کو لاگو کرنے کا تجربہ کیا، ان کی وجہ سے اسلامی معاشروں میں فکری انحطاط، عسکری کمزوری، اقتصادی زبوں حالی، اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی ٹوٹ پھوٹ  ہی حصے میں آئی، ان در آمد شدہ افکار کی وجہ سے دنیا تو کسی کی نہیں بنی اور کچھ کے عقائد کو بھی خراب کر دیا، اس وقت سے لیکر اب تک کے عملی اقدامات کی روشنی میں زمینی حقائق یہ کہتے ہیں کہ اب امت کو کتاب و سنت کے نور کی جانب لوٹ جانا چاہیے، ان رہنما مآخذ کی روشنی کو اپنائیں۔

اور اب ان لوگوں کیلیے وقت آ گیا ہے جنہیں غیروں کی تہذیب  کے ٹیکے لگا کر مدہوش کر دیا گیا تھا ، جس تہذیب نے ایسی اقدار متعارف کروائیں کہ زمینی حقائق نے ان اقدار کو ثابت کر دیا کہ یہ جھوٹ ہیں، ظاہری چمک دمک ہیں، جہاں پر شخصی اور ذاتی مفادات کو تحفظ دینا ہو وہی پر یہ عیاں ہوتی ہیں، جن کی حقیقت کاغذ پر خوبصورت نقش و نگار سے زیادہ کچھ نہیں ، جب انہیں عملی طور پر نافذ کیا جائے تو مسلم خطوں کو تباہی سے دوچار کر دیں، ان کے وسائل کو تباہ کر دیں، مسلم ممالک  کی معدنیات  لوٹ لیں، اور اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ ایسی تہذیب کی مبادیات ہیں جو کہ ربانی اصلاحات اور نبوی رہنمائی کی قیود سے آزاد ہیں،  ان مبادیات کا مقصد اپنے علاوہ تمام دینی ، اخلاقی، ادبی اور انسانی اقدار کا خاتمہ ہے حالانکہ فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ

المائدۃ – 50

 یقین کرنے والی قوم کیلیے اللہ تعالی سے اچھا حکم کون دے سکتا ہے۔

آج مسلم خطوں میں جو کچھ بھی تباہی اور خانہ جنگی جاری ہے وہ بیان کردہ حقائق کے لیے معتبر ترین دلیل ہے، اس لیے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو، اپنے دین کی طرف لوٹ آؤ تمہارے حالات خود بخود سدھر جائیں گے۔

اللہ تعالی مجھے، آپ سب اور تمام مسلمانوں کو برکتیں عطا فرمائے، میں اللہ تعالی سے اپنے اور تمام سامعین کے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اسی سے بخشش طلب کریں، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

میں اپنے پروردگار کی حمد اور شکر گزاری کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں  کہ اللہ علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہی بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد: مسلمانوں!

امت اسلامیہ کے پاس سر بلندی اور نصرت کے ایسے اسباب ہیں جو کسی اور کے پاس نہیں ہیں، بہتری اور سعادت مندی کے ایسے ذرائع امت اسلامیہ کا امتیازی خاصہ ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہیں، امت مسلمہ کا شاندار اور تابناک ماضی اس بات کیلیے سب سے بڑی گواہی اور شاہد عدل ہے، لیکن یہ سب کچھ شرائط کے ساتھ مشروط ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ

محمد – 7

اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنا دے گا۔

اللہ تعالی کی جانب سے اس امت کے تحفظ کی ذمہ داری شریعتِ الہی اور احکاماتِ الہیہ کی تعمیل  سمیت حرام کردہ امور سے اجتناب کے ساتھ مشروط ہے۔

إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا

الحج – 38

  بیشک اللہ تعالی ایمان والوں کا دفاع فرماتا ہے۔

اس آیت کی ایک اور قراءت میں:

يَدْفَعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا

الحج – 38

  ہے ، اور صحیح حدیث میں ہے کہ: (تم اللہ تعالی کو یاد رکھو وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا)۔

امت اور اس کے معاشروں کا امن، استحکام، امان، خوشحالی سب چیزیں پوری امت کی جانب سے ایمان اور اس کے تقاضے ، اسلام اور اسلام کے حقوق پورے کرنے کے ساتھ مربوط ہے، یہ محض زبانی جمع خرچ نہ ہوں بلکہ قولی، عملی اور اعتقادی ہر اعتبار سے ان پر عمل پیرا ہوں: 

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ

الانعام – 82

 جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم کی آمیزش نہیں کی انہی لوگوں کیلیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔

امت مسلمہ کو دشمن پر اتنا ہی غلبہ حاصل ہو گا جس قدر امت کے پاس ایمان  ہو گا، جس قدر ایمان کے تقاضے پورے کئے جائیں گے، جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ بات کہی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

آل عمران – 139

کمزور مت پڑو اور غم مت کھاؤ، اور اگر تم مومن ہو تو تم ہی بلند ہو ۔

اور اسی طرح فرمایا:

وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ

الصافات – 173

 بیشک ہمارا لشکر ہی لازماً غالب آنے والا ہے۔

ابن کثیر رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالی:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

التوبة – 123

 اے ایمان والو! تم ان کفار سے قتال کرو جو تمہارے قریب ہیں، ان کے لیے تمہارے اندر سختی ہونی چاہیے  اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالی متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔

کے متعلق کہتے ہیں : “جب کبھی کسی مسلمان بادشاہ کی بادشاہی قائم ہوئی اور اس نے احکاماتِ الہیہ کی تعمیل کی ، اللہ تعالی پر بھروسا رکھا تو اللہ تعالی نے اس کے ہاتھوں بہت سے خطوں کو فتح کروایا، دشمنوں کے چنگل سے اسی قدر علاقے آزاد کروائے جس قدر اس میں اللہ تعالی کے ساتھ تعلق تھا” انتہی

اللہ تعالی نے ہمیں نبی کریم ﷺ پر درود سلام پڑھنے کا عظیم حکم دیا ہے۔

یا اللہ! ہمارے نبی محمد -ﷺ- پر ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر رحمتیں، برکتیں، سلامتی اور نعمتیں نازل فرما۔

یا اللہ! خلفائے راشدین، آلِ نبی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ! اچھے طریقے سے ان کے نقش قدم پر قیامت تک کیلیے چلنے والوں سے بھی راضی ہو جا۔

یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اسلام کے ذریعے مسلمانوں کے حالات درست فرما دے، یا اللہ! اسلام کے ذریعے ہمارے حالات اور ہماری زندگیاں خوشیوں اور مسرتوں سے بھر دے، یا اللہ! عقیدہ توحید کے ذریعے امت اسلامیہ کو خوش حال بنا دے، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! امت اسلامیہ کیلیے غلبہ، بلند مرتبہ اور سلطانی لکھ دے، یا اللہ! ساری امت کو تیری طرف مکمل طور پر رجوع کرنے والا بنا دے، یا اللہ! ساری امت کو تیری طرف مکمل طور پر رجوع کرنے والا بنا دے۔

یا اللہ! اسلام کے دشمنوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! وہ تجھ سے بالا تر نہیں ہیں! یا اللہ! اسلام کے دشمنوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! وہ تجھ سے بالا تر نہیں ہیں! یا اللہ! ان پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ان پر اپنے ناقابل شکست لشکر نازل فرما، یا اللہ! ان پر اپنے ناقابل شکست لشکر نازل فرما، یا قوی! یا عزیز! یا ذو الجلال والاکرام!

یا اللہ! تمام مومن اور مسلمان مرد و خواتین کو بخش دے، فوت شدگان اور بقید حیات تمام کی مغفرت فرما دے۔

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال، عافیت کی تبدیلی، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے تیری ہی پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہم آزمائشوں کی سختی، بد بختی ، برے تقدیری فیصلوں، اور دشمنوں کی پھبتی سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ اور رضا کا باعث بننے والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! انہیں وہی کام کرنے کی توفیق دے جو تجھے پسند ہیں، یا اللہ! ہمارے حکمران اور دیگر تمام مسلم حکمرانوں کو ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرما جس میں رعایا کی دینی اور دنیاوی خدمت ہو، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! یا غنی! یا حمید! یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلم خطوں میں بارشیں نازل فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلم خطوں میں بارشیں نازل فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلم خطوں میں بارشیں نازل فرما، یا غنی! یا حمید! یا ذوالجلال والاکرام!

اللہ کے بندو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام بھی اسی کی تسبیح بیان کرو ۔

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ

آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔

Recent Posts

منہجِ سلف سے کیا مراد ہے؟

منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…

19 hours ago

یا محمد ﷺ کہنا یا لکھنا کیسا ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…

2 days ago

ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد!؟

اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…

5 days ago

داتا اور مشکل کشا کون؟

اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…

5 days ago

مشکلات اور پریشانیوں کےحل کےلیے نسخہ؟

قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…

1 week ago

جنتی فرقہ کونسا ہے؟

فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…

1 week ago