عیدِ میلاد’’ تاریخ و ارتقاء‘‘

جشنِ عید میلاد النبیﷺ اور ہمارا معاشرہ!

بلا ناغہ ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ  کو عید میلاد النبی ﷺ کے نام پر جشن منایا جاتا ہے۔ ربیع الاول کے شروع ہوتے ہی اس جشن میلاد کی تقریبات کے انتظامات شروع ہوجاتے ہیں۔ نوجوان گلی کوچوں اور چوراہوں میں راہ گیروں کا راستہ روک کر زبردستی  چندے وصول کرتے ہیں۔  علما ءحضرات مسجدوں میں  جشن ولادت منانے کے لئے دست سوال دراز کرتے ہیں۔پھر بارہ ربیع الاول کو نبی اکرمﷺکے یومِ ولادت کی مناسبت سے جلوس نکالے جاتے ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، پرتکلف دعوتوں کا اہتمام کیا جاتااور گلیوں، بازاروں ، گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، تانگوں، گدھا گاڑیوں اور بسوں میں سوار ہوکر پورے ملک میں اللہ کے رسولﷺسے محبت کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ جشن، یہ میلاد اور یہ سلسلۂ تقریبات  اللہ کے رسولﷺ سے محبت کے اظہار کا ذریعہ گردانا جاتا ہے اس لئے چارو ناچار حُبّ ِرسولﷺ سے سرشار ہر پیروجوان حسب ِحیثیت اس میں شمولیت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ گورنمنٹ بھی عوام کے جذبات کا خیال رکھتے اور رسولِ اکرم ﷺ کی رسالت کا احترام کرتے ہوئے سرکاری طور پر چھٹی کا نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ حکومتی سطح پر بڑی بڑی سیرت کانفرنسوں کا بھی انعقاد کرتی ہے۔

نبی اکرم ﷺ سے محبت کا اظہار بجاہے اور آپﷺ کی عقیدت و احترام کا جذبہ بھی قابل تحسین ہےمگر ۔۔۔

دیکھنا یہ ہے کہ رسولِ اکرمﷺ سے محبت کا یہ طریقہ اور جشن و جلوس کا یہ سلسلہ رسولِ اکرمﷺ کے لائے ہوئے دین کی رو سے جائز بھی ہے یا نہیں.؟شریعت کی عدالت میں اس کی کوئی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ اور اللہ کی بارگاہ میں یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں.؟!عید ِمیلاد چونکہ رسولِ اکرمﷺ سے محبت کے جذبہ سے منائی جاتی ہے۔اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سرِدست رسولِ اکرمﷺسےمحبت اور اسکے معیار و تقاضے پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔

رسولِ اکرمﷺ سے محبت کا معیار !

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رسولِ اکرمﷺ سے سچی قلبی محبت جزوِایمان ہے اور وہ بندہ ایمان سے تہی دامن ہے جس کا دل رسولِ اکرمﷺ کی محبت سے خالی ہے۔ جیسا کہ جناب ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔” 

(بخاری: کتاب الایمان: باب حب رسول من الایمان؛۱۴)

صحیح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار کہلانے کا مستحق نہیں جب تک کہ اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے دل میں میری محبت نہ پیدا ہوجائے۔” (ایضاً ؛۱۵)
لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضا کیا ہے؟  کیا محض زبان سے محبت کا دعویٰ کردینا ہی کافی ہے یا اس کے لئے کوئی عملی ثبوت بھی مہیا کرنا ہوگا؟ صاف ظاہر ہے کہ محض زبانی دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے ساتھ عملی ثبوت بھی ضروری ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے جسم و جان پر اللہ کے رسولﷺ کے ارشادات و فرمودات کی حاکمیت ہو، اس کا ہر کام شریعت نبوی کے مطابق ہو، اس کا ہر قول حدیث ِنبوی ﷺکی روشنی میں صادر ہوتا ہو۔ اس کی ساری زندگی اللہ کے رسولﷺ کے اُسوئہ حسنہ کے مطابق مرتب ہو۔ اللہ کے رسولﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری ہی کو وہ معیارِ نجات سمجھتا ہو اور آپﷺ کی نافرمانی کو موجب ِعذاب خیال کرتا ہو۔ لیکن اگر اس کے برعکس کوئی شخص ہر آن اللہ کے رسولﷺ کی حکم عدولی کرتا ہو اور آپﷺ کی سنت و ہدایت کے مقابلہ میں بدعات و رسومات کو ترجیح دیتا ہو تو ایسا شخص ‘عشق رسول ﷺاور حُبّ ِرسولﷺ کا لاکھ دعویٰ کرے یہ کبھی اپنے دعویٰ میں سچا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اپنے تئیں سچا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے مگر اللہ کے رسولﷺ ایسے نافرمان اور سنت کے تارک سے بری ہیں کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

 ”فمن رغب عن سنتي فلیس مني”

صحیح البخاری : 5063

” جس نے میری سنت سے روگردانی کی، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔”

تیسری عید کہاں سے آئی ؟

؍ ربیع الاول کو نہ صرف رسولِ اکرمﷺ کے یومِ ولادت کی خوشی منائی جاتی ہے بلکہ اسے  ’’ تیسری عید ‘‘  سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں صرف دو عیدیں  (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہیں۔ ان دو عیدوں کو خوشی کا تہوار رسولِ اکرمﷺ نے بذاتِ خود اسی طرح مقرر فرمایا ہے جس طرح آپﷺ نے حلال و حرام کو متعین فرمایا ہے۔ جیسا کہ جناب انسؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺمدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ خوشی کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔ رسولِ اکرمﷺ کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ قدیم دورِ جاہلیت سے ہم اسی طرح یہ تہوار مناتے آرہے ہیں تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

 ”إن اللہ قد أبدلکم بھما خیرا منھما یوم الأضحٰی ویوم الفطر” 

سنن ابی داؤد، كتاب الصلاة، باب صلاة العدین : 1931

  ”اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو خوشی کے دن عطا فرمائے ہیں ؛ ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی ہے۔”

ان دونوں عیدوں کے موقع پر باادب طریقہ سے نمازِ عید ادا کی جاتی اور اللہ کا شکر بجا لایا جاتا ہے۔ نیز عیدالاضحی کے موقع پر جانور قربان کئے جاتے ہیں، مگر ۔۔۔۔ ۱۲؍ ربیع الاول کی ’’ عیدمیلاد‘‘ کو اوّل تو رسولِ اکرمﷺ نے مقرر ہی نہیں فرمایا پھر اسے عید قرار دینے والے اس روز نمازِ عید کی طرح کوئی نماز ادا نہیں کرتے اور نہ ہی عیدالاضحی کی طرح قربانیاں کرتے ہیں اور فی الواقع ایسا کیا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ یہ ‘عید’ ہے ہی نہیں مگر اس کے باوجود اسے عید ہی قرار دینا بے جا تحکم، ہٹ دھرمی اور شریعت کی خلاف ورزی نہیں تو پھر کیا ہے؟

یہ جشن ِولادت ہے یا جشنِ وفات ؟

۱۲؍ربیع الاول کے حوالہ سے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ رسولِ اکرمﷺ کی ولادت کا دن ہے حالانکہ ۱۲ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے پر مؤرخین کا ہرگز اتفاق نہیں۔

البتہ اس بات پر تقریباً تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول کو رسولِ اکرمﷺ کی وفات ہوئی۔

جیسا کہ مندرجہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے :

یومِ ولادت کی تاریخ !

تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی ولادت باسعادت سوموار کے دن ہوئی ۔

جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺ سے سوموار کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ”ذاک یوم ولدت فیہ ویوم بعثت أو أنزل علی فیہ” ”یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا۔”

(مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام ؛۱۱۶۲)

البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی تاریخ ولادت کیا ہے ؟ ۔

 حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ :  اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمﷺ عام الفیل  (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا) میں پیدا ہوئے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس میں بھی اختلاف نہیں کہ آپﷺ سوموار کے روز پیدا ہوئے۔

 نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپﷺ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپﷺ اس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟  اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔

 پھر حافظ ابن کثیرؒ نے ان اقوال میں سے دو کو راجح قرا ردیا، ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود ان دو میں سے آٹھ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔  (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ص۲۵۹ تا ۲۶۲؍ ج۲)

علاوہ ازیں بہت محققین نے ۱۲ کی بجائے ۹ ربیع الاول کو یومِ ولادت ثابت کیا ہے ۔

 مثلاً :

قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت دان:قسطنطنیہ (استنبول) کے معروف ماہر فلکیات اور مشہورہیئت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب ‘التقویم العربی قبل الاسلام’ میں ریاضی کے اصول و قواعد کی روشنی میں متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ:

 ”عام الفیل ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار کی صحت کو پیش نظر اور فرزند ِرسول ’’ جناب ابراہیم رضی اللہ عنہ‘‘ کے یومِ وفات پرسورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو رسولِ اکرمﷺ کی ولادت کی صحیح تاریخ ۹ ربیع الاول ہی قرار پاتی ہے اور شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے یومِ ولادت کا وقت ۲۰ ؍اپریل ۵۷۱ء بروز پیر کی صبح قرار پاتا ہے۔

” (بحوالہ محاضراتِ تاریخ الامم الاسلامیہ از خضری بک :ص۶۲ ج۱/ حدائق الانوار:ص۲۹ ؍ج۱)

  رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب ‘الرحیق المختوم’ کے مصنف کے بقول ”رسول اللہﷺ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر ۹؍ ربیع الاول سن۱، عام الفیل یوم دو شنبہ (سوموار) کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔” (ص:۱۰۱)
  برصغیر کے معروف مؤرخین مثلاً علامہ شبلی نعمانی، قاضی سلیمان منصور پوری، اکبر شاہ نجیب آبادی وغیرہ نے بھی ۹؍ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو ازروئے تحقیق جدید صحیح ترین تاریخ ولادت قرار دیا ہے۔

(دیکھئے:سیرت النبی از شبلی نعمانی : ص۱۷۱؍ ج۱/تاریخ اسلام از اکبر شاہ :ص۸۷ ؍ج۱/رحمۃ للعالمین از منصور پوری: ص۳۶۱ ج۲)

۱۲ ربیع الاول یوم وفات ہے  !

جمہور مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول رسولِ اکرمﷺ کا یوم وفات ہے۔

بطورِ مثال چند ایک حوالہ جات سپردِ قلم کئے جاتے ہیں:

  ابن سعد، جناب عائشہؓ اور جناب عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو فوت ہوئے۔

(طبقات ابن سعد : ص۲۷۲ ج۲)

 حافظ ذہبی نے بھی اسے نقل کیا ہے ۔      (دیکھئے تاریخ اسلام از ذہبی: ص۵۶۹)

 حافظ ابن کثیر ابن اسحق کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ ۱۲؍ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔

(البدایۃ والنھایۃ: ۲۵۵؍۵)

 مؤرخ ابن اثیرؒ رقم طراز ہیں کہ نبی اکرمﷺ ۱۲؍ ربیع الاول بروز سوموار فوت ہوئے۔      (اسدالغابۃ: ۴۱؍۱/الکامل:۲۱۹؍۴)

5۔ حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسے ہی جمہور کا موقف قرار دیا۔       (فتح الباری ۲۶۱؍۱۶)

6۔ محدث ابن حبان کے بقول بھی تاریخ وفات ۱۲ ربیع الاول ہے۔  (السیرۃ النبویۃ لابن حبان: ص۴۰۴)

7۔ امام نوویؒ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔  (شرح مسلم :۱۵؍۱۰۰)

 مؤرخ و مفسر ابن جریر طبریؒ نے بھی ۱۲؍ ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے۔      (تاریخ طبری:۲۰۷؍۳)

 امام بیہقی کی بھی یہی رائے ہے۔      (دلائل النبوۃ: ۲۲۵؍۷)

10۔ ملا علی قاریؒ کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔      (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ۱۰۴؍۱۱)

11۔سیرت نگار مولانا شبلی نعمانیؒ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔      (سیرت النبیﷺ: ص۱۸۳؍ج۲)

12۔. قاضی سلیمان منصور پوری کی بھی یہی رائے ہے۔  (رحمۃ للعالمین:ص۲۵۱ ج۱)

13۔ صفی الرحمن مبارکپوری کا بھی یہی فیصلہ ہے۔   (الرحیق: ص۷۵۲)

14۔ ابوالحسن علی ندوی کی بھی یہی رائے ہے۔   (السیرۃ النبویۃ: ص۴۰۴)

15۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ ۱۲ ربیع الاوّل کو فوت ہوئے۔   (ملفوظات)

ایک اور تاریخی حقیقت  !

گذشتہ حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول یومِ ولادت نہیں بلکہ یوم وفات النبیﷺ ہے اور برصغیر میں عرصۂ دراز تک اسے ‘۱۲ وفات’ کے نام ہی سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اس دن جشن اور خوشی منانے والوں پرجب یہ اعتراض ہونے لگے کہ یہ تو یوم وفات ہے اور تم وفات پر شادیانے بجاتے ہو!… تو اس معقول اعتراض سے بچنے کے لئے کچھ لوگوں نے اس کا نام ‘۱۲ وفات’ کی بجائے ‘عیدمیلاد’ رکھ دیا جیسا کہ روزنامہ ‘مشرق’ لاہور کی ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۴ء کی درج ذیل خبر سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے : ”اس سے پیشتر یہ یوم بارہ وفات کے نام سے منسوب تھا مگر بعد میں انجمن نعمانیہ ٹکسالی گیٹ کے زیر اہتمام پیر جماعت علی شاہ ، مولانا محمد بخش مسلم، نور بخش توکلی اور دیگرعلما نے ایک قرار داد کے ذریعے اسے ‘میلادالنبیﷺ ‘ کا نام دے دیا۔”

قصہ مختصر کہ اس روز جشن اور خوشیاں منانے والوں کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ وہ جس تاریخ کو خوشیاں مناتے ہیں، وہ نبی اکرم ﷺ کا یومِ پیدائش نہیں بلکہ یوم وفات ہے!

اگر یہ جشن ولادت ہے تو تب بھی بدعت ہے !

اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ۱۲؍ ربیع الاول ہی رسولِ اکرم ﷺ کا یومِ ولادت ہے تو تب بھی اس تاریخ کو جشن عید اور خوشیاں منانا اور اسے کارِ ثواب سمجھنا از روئے شریعت درست نہیں کیونکہ جب خود رسولِ اکرمﷺ نے اپنی ولادت کا ‘جشن’ نہیں منایا، کبھی ‘عیدمیلاد’ کا انتظام یا حکم نہیں فرمایا، نہ ہی صحابہ کرام نے کبھی یہ خود ساختہ ‘عیدمیلاد’ منائی اور نہ تابعین ، تبع تابعین، مفسرین ، محدثین اور ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ) سے اس کا کوئی ثبوت فراہم ہوتا ہے تو لامحالہ یہ دین میں اضافہ ہے جسے آپ بدعت کہیں یا کچھ اور… بہرصورت اگر اسے کارِ ثواب ہی قرار دینا ہے تو پھر اس ہٹ دھرمی سے پہلے اعلان کردیجئے کہ رسولِ اکرمﷺ سمیت تمام صحابہ، تابعین، تبع تابعین وغیرہ اس ثواب سے محروم رہے اور ہم گنہگار (نعوذ باللہ) ان عظیم لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں!

بدعت ِعیدمیلاد کا موجد کون؟

عیدمیلاد کاجشن ’’ سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں رافضی و غالی شیعہ جنہیں فاطمی بھی کہا جاتا ہے ‘‘ نے حُبّ ِنبویﷺاور حُبّ ِاہل بیت کی آڑ میں اس وقت جاری کیا جب انہیں مصر میں باقاعدہ حکومت و اقتدار مل گیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف’ میلاد النبیﷺ’ کا تہوار جاری کیا بلکہ جناب علی، جناب فاطمہ اور حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ‘میلاد’ بھی سرکاری سطح پر جاری کئے۔اس کے ثبوت اور حوالہ جات سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان فاطمیوں اور رافضیوں کے عقائد و اعمال پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔

چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ: ”یہ کافر و فاسق، فاجر و ملحد، زندیق و بے دین، اسلام کے منکر اور مجوسیت و ثنویّت کے معتقد تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا، زنا کو جائز، شراب اور خون ریزی کو حلال قرار دیا۔ یہ دیگر انبیاکرام ؑ کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن طعن کرتے تھے۔”  والعیاذ باللہ ۔

نیز لکھتے ہیں کہ:     ” فاطمی خلفاء بڑے مالدار، عیاش اور جابر و سرکش تھے۔ ان کے ظاہر و باطن میں نجاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ ان کے دورِ حکومت میں منکرات و بدعات ظہور پذیر ہوئیں.سلطان صلاح الدین ایوبی نے ۵۶۴ ہجری میں مصر پر چڑھائی کی اور ۵۶۸ ہجری تک ان کا نام و نشان مٹا دیا۔”   (البدایۃ والنھایۃ : ۱۱؍۲۵۵ تا ۲۷۱) ۔

بدعت ِعیدمیلاد اور میلاد حسن و حسین کے موجد یہی فاطمی شیعہ تھے اس کے ثبوت کے لئے چند حوالہ جات ذکر کئے جاتے ہیں :

  مصر ہی کے ایک معروف مفتی علامہ محمد بخیت اپنی کتاب ”أحسن الکلام فیما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ من الأحکام” میں صفحہ ۴۴،۴۵پر رقم طراز ہیں کہ:

”إن أول من أحدثھا بالقاھرة الخلفاء الفاطمیون وأولھم المعز لِدین اﷲ توجه من المغرب إلی مصر فی شوال سنة (۳۶۱ھ) إحدی وستین وثلاث مائة  ھجریة …”

” سب سے پہلے قاہرہ (مصر) میں عید ِمیلاد فاطمی حکمرانوں نے ایجاد کی اور ان فاطمیوں میں سے بھی المعزلدین اللہ سرفہرست ہے۔ جس کے عہد ِحکومت میں چھ میلاد ایجاد کئے گئے یعنی میلادالنبیﷺ، میلادِ علیؓ، میلادِ فاطمہؓ، میلادِ حسنؓ، میلادِ حسینؓ، اور حاکم وقت کا میلاد.. یہ میلاد بھرپور رسم و رواج کے ساتھ جاری رہے حتیٰ کہ افضل بن امیر الجیوش نے بالآخر انہیں ختم کیا۔”

  علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی اس بدعت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں :

”کان للخلفاء الفاطمیین فی طول السنة أعیاد ومواسم وھی موسم رأس السنة وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبیا ومولد علی بن أبی طالب ومولد فاطمة الزھرأ ومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفة الحاضر”

المواعظ و الاعتبار بذكر الخطط الآثار : ج 1/ص490

”فاطمی حکمران سال بھر میلاد، تہوار اور جشن مناتے رہتے۔اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز  (New year) پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا۔ اسی طرح میلاد النبیﷺ، میلادِ علیؓ، میلاد فاطمۃ الزہراؓ، میلادِ حسنؓ، میلاد حسینؓ اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا۔”

  علامہ ابوالعباس احمد بن علی قلقشندی بھی اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

” فاطمی حکمران ۱۲؍ ربیع الاول کو تیسرا جلوس نکالتے تھے اور اس جلوس کے موقع پر ان کا معمول یہ تھا کہ دارالفطرۃ (مقام) میں ۲۰ قنطار (پیمانہ) عمدہ شکر سے انواع و اقسام کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے ۳۰۰ خوبصوردات برتنوں میں ڈال لیا جاتا۔ پھر جب میلاد کی رات ہوتی تو شریک ِمیلاد مختلف لوگ مثلا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) داعی و مبلغ اور خطباء و قرأ حضرات، قاہرہ اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں کے اعلیٰ عہدیداران اور مزاروں وغیرہ کے دربان و نگران حضرات میں تقسیم کیا جاتا۔”

(دیکھئے: صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ، ج۳؍ ص۴۹۸ تا ۴۹۹)

بدعت ِمیلاد سے متعلقہ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: الابداع في مضار الابتداع  (ص۱۲۶) از شیخ علی محفوظ،  البدعۃ ضوابطھا وأثرھا السیئۃ في الأمۃ (ص ۱۶تا۲۱) از ڈاکٹر علی بن محمد ناصر، القول الفصل في حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل (ص۶۴ تا ۷۲) از شیخ اسماعیل بن محمد الانصاری، المحاضرات الفکریۃ، ص۸۴ از سیدعلی فکری … وغیرہ

بدعت ِمیلاد  ’’ مصر کے فاطمیوں سے عراق (اِربل و موصل) کے سنّیوں تک ‘‘

عیدوں اور میلادوں کا جو سلسلہ مصر کے رافضی حکمرانوں نے ایجاد کیا تھا، وہ اگرچہ خلیفہ افضل بن امیر الجیوش نے اپنے عہد ِحکومت میں ختم کردیا مگر اس کے مضر اثرات اطراف واکناف میں پھیل چکے تھے۔ حتیٰ کہ رافضی شیعوں سے سخت عداوت رکھنے والے سنی بھی ان کی دیکھا دیکھی عیدمیلاد منانے لگے۔ البتہ سنیوں نے اتنی ترمیم ضرور کرلی کہ شیعوں کی طرح میلادِ علیؓ، میلادِ حسنؓ و حسینؓ وغیرہ کی بجائے صرف میلاد النبیﷺ پر زور دیا۔

 چنانچہ ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المعروف ابوشامہ کے بقول :

”وکان أول من فعل ذلک بالموصل الشیخ عمر بن محمد الملا أحد الصالحین المشھورین وبه اقتدی فی ذلک صاحب إربل وغیرہ” 

الباعث علی انكار البدع و الحوادث، ص21

(سنیوں میں سے) سب سے پہلے موصل شہر میں عمر بن محمد ملا نامی معروف زاہد نے میلاد منایا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی ‘اربل’کے حاکم نے بھی (سرکاری طورپر) جشن میلاد منانا شروع کردیا۔” اربل کا یہ حاکم ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن بکتیکن بن محمد تھا جو مظفر الدین کوکبوری کے لقب سے معروف تھا۔ ۵۸۶ ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے اربل کا گورنر مقرر کیا مگر یہ بے دین، عیاش اور ظالم و سرکش ثابت ہوا جیسا کہ یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ : ”یہ گورنر بڑا ظالم تھا، عوام پر بڑا تشدد کرتا، بلا وجہ لوگوں کے اَموال ہتھیالیتا اور اس مال ودولت کو غریبوں، فقیروں پر خرچ کرتا اور قیدیوں کو آزاد کرنے میں صرف کرتااور ایسے ہی شخص کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ:

“کساعیة للخیر من کسب فرجھا  لک الویل لا تزنی ولا تتصدقی”

معجم البلدان ، ج/ْ1، ص /138

 یہ تو اس عورت کی طرح ہے جو بدکاری کی کمائی سے صدقہ خیرات کرتی ہے۔ اے بدکار عورت! تیرے لئے ہلاکت ہے۔نہ تو زنا کر اور نہ ایسی گندی کمائی سے صدقہ کر۔”

اسی ‘صاحب ِاربل’ ہی کے بارے میں امام سیوطی رقم طراز ہیں کہ ”وأول من أحدث فعل ذلک صاحب إربل الملک المظفر أبوسعید کوکبوري” (الحاوی للفتاوی: ص۱۸۹ ج۱)”سب سے پہلے (اربل میں) جس نے عید ِمیلاد کی بدعت ایجادکی، وہ اربل کا حاکم الملک المظفر ابوسعید کوکبوری تھا۔”

شاہِ اربل بدعت ِمیلاد کا انعقاد کس جوش و خروش اور اہتمام و انصرام سے مناتا تھا، اس کا تذکرہ ابن خلکان نے ان الفاظ میں کیا ہے:

”محرم کے شروع ہوتے ہی بغداد، موصل، جزیرہ، سنجار، نصیبین اور عجم کے شہروں سے فقہا، صوفیا، وعظا، قرأ اور شعرا حضرات اربل آنا شرو ع ہوجاتے اور شاہ اربل مظفرالدین کوکبوری ان ‘مہمانوں’ کے لئے چار چار، پانچ پانچ منزلہ لکڑی کے قبے تیار کرواتا۔ ان میں سب سے بڑا قبہ اور خیمہ خود بادشاہ کا ہوتا اور باقی دیگر ارکانِ حکومت کے لئے ہوتے۔ ماہِ صفر کے آغاز میں ان قبوں اور خیموں کو خوب سجا دیا جاتا اور ہر قبے میں آلاتِ رقص و سرود کا اہتمام کیا جاتا۔ ان دنوں لوگ اپنی کاروباری اور تجارتی مصروفیات معطل کرکے سیرو تفریح کے لئے یہاں جمع ہوتے۔ حاکم وقت ہر روز عصر کے بعد ان قبوں کی طرف نکلتا اور کسی ایک قبے میں رقص و سرود کی محفل سے لطف اندوز ہوتا۔ پھر وہیں محفل میں رات گزارتا اور صبح کے وقت شکار کے لئے نکل جاتا، پھربو قت ِدوپہر اپنے محل میں واپس لوٹ آتا۔ عید ِمیلاد تک شاہِ اربل کا یہی معمول رہتا۔ ایک سال ۸؍ربیع الاول اور ایک سال ۱۲؍ ربیع الاول کو عیدمیلاد منائی جاتی۔ اس لئے کہ (اس وقت بھی ) رسولِ اکرمﷺ کے یوم ولادت کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ عیدمیلاد سے دو دن پہلے شاہِ اربل اونٹوں، گائیوں اور بکریوں کی بہت بڑی تعداد اور طبلے، سارنگیاں وغیرہ کے ساتھ میلاد منانے نکلتا اور ان جانوروں کو ذبح کرکے شرکائے میلاد کی پرتکلف دعوت کی جاتی۔” (وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان لابن خلکان : ص۱۱۷ ؍ج۴)

سبط ابن جوزی کا بیان ہے کہ ”اس بادشاہ (کوکبوری) کے منعقد کردہ جشن میلاد کے دستر خوان پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے اس نے دستر خوان پر ۵ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ۱۰۰ گھوڑے، ایک لاکھ پیالے اور ۳۰ ہزار حلوے کی پلیٹیں شمار کیں۔ اس کے پاس محفل میلا دمیں بڑے بڑے مولوی اور صوفی حاضر ہوتے جنہیں وہ خلعت ِفاخرہ سے نوازتا، ان کے لئے خیرات کے دروازے کھول دیتا اور صوفیا کے لئے ظہر سے فجر تک مسلسل محفل سماع منعقد کراتا جس میں وہ بذاتِ خود شریک ہوکر رقص کرتا۔ ہر سال اس محفل میلاد پر یہ بادشاہ تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔” (مرآۃ الزمان: ص۲۸۱ ج۸)

بدعت ِمیلاد اور نفس پرست علمآء !

بدعت ِمیلاد جب شیعوں سے سنّیوں اور سنّیوں کے بھی بادشاہوں میں رائج ہوگئی تو اب ان بادشاہوں کے خلاف آواز حق بلند کرنا یا دوسرے لفظوں میں ان کے بدعات و خرافات پر مذمت کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس پرطرہ یہ کہ بعض خود غرض مولویوں نے بادشاہِ وقت کی ان تمام خرافات کو عین شریعت اور کارِ ثواب قرا ر دے دیا۔

 چنانچہ عمر بن حسن المعروف ابن دحیہ اندلسی نامی ایک مولوی نے ”التنویر في مولد البشیر والنذیر” نامی کتاب لکھی جس میں قرآن و سنت کے نصوص کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اور انہیں تاویلاتِ باطلہ کا لبادہ اوڑھا کر عید ِمیلاد کو شرعی امر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور بادشاہِ وقت سے ہزار دینار انعام حاصل کیا۔  (ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ۱۳؍۱۲۴/وفیات الاعیان: ۴؍۱۱۹/الحاوی للفتاوی: ۱؍۱۸۹)

واضح رہے کہ اس ابن دحیہ اندلسی کو محدثین نے ضعیف اور ناقابل اعتماد راوی قرار دیا ہے مثلاً امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ یہ متہم  (جس پر جھوٹ کاالزام ہو) راوی ہے۔ (میزان الاعتدال :۳؍۱۸۶) اسی طرح حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ”یہ ظاہری مذہب کا حامل تھا۔ ائمہ کرام اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔ خبیث اللسان، احمق، شدید متکبر، دینی اُمور میں کم علم اور بے عمل شخص تھا۔”

(لسان المیزان:ص۲۹۶؍ ج۴)

بدعت ِمیلاد برصغیر (لاہور) میں!

گذشتہ صفحات میں یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ :

بدعت ِمیلاد چوتھی صدی ہجری (۳۶۱ھ) میں مصر کے فاطمیوں (غالی شیعہ) نے ایجاد کی پھر چھٹی صدی ہجری میں سنیوں میں بھی یہ رواج پاگئی۔ تاہم گردشِ ایام کے ساتھ یہ بدعت طبعی موت مرگئی۔

پھر برسوں بعد برصغیر میں انگریز کے آخری دور میں یہ دوبارہ زندہ ہوگئی۔

 اس لئے کہ برصغیر کی عیسائی حکومت ہر ۲۵ دسمبر کوسرکاری سطح پر جناب عیسیٰ ؑ کے یومِ ولادت کا جشن مناتی تھی جس کی دیکھا دیکھی بعض کم علم مسلمانوں نے حب ِنبویﷺ کے احساس سے اپنے طور پر عیدمیلاد النبیﷺ منانا شروع کردی۔ اگرچہ بعض لوگ بدعت ِمیلاد کے قلابے اکبر دور سے ملاتے ہیں مگر معقول بات یہی دکھائی دیتی ہے کہ عیسائیوں کے کرسمس کے ردعمل میں مسلمانوں نے عید ِمیلاد کو رواج دیا۔

 اس سلسلے میں درج ذیل دو تاریخی حوالے قابل توجہ ہیں:

1۔  روزنامہ ‘کوہستان’ ۲۲؍ جولائی ۱۹۶۴ء میں احسان بی اے ‘لاہور میں عیدمیلاد النبیﷺ ‘ کی سرخی کے تحت لکھتے ہیں کہ:

”لاہور میں عیدمیلاد النبیﷺ کا جلوس سب سے پہلے ۵ ؍جولائی ۱۹۳۳ء مطابق ۱۲؍ربیع الاول ۱۳۵۲ھ کونکلا۔ اس کے لئے انگریزی حکومت سے باقاعدہ لائسنس حاصل کیا گیاتھا۔ اس کا اہتمام انجمن فرزندانِ توحید موچی دروازہ نے کیا۔ اس انجمن کامقصد ہی اس کے جلوس کا اہتمام کرنا تھا۔ انجمن کی ابتدا ایک خوبصورت جذبہ سے ہوئی۔ موچی دروازہ لاہور کے ایک پرجوش نوجوان حافظ معراج الدین اکثر دیکھاکرتے تھے کہ ہندو اور سکھ اپنے دھرم کے بڑے آدمیوں کی یاد بڑے شاندار طریقے سے مناتے ہیں اور ان دنوں ایسے لمبے لمبے جلوس نکالتے ہیں کہ کئی بازار ان کی وجہ سے بند ہوجاتے ہیں۔ حافظ معراج الدین کے دل میں خیال آیا کہ دنیا کے لئے رحمت بن کر آنے والے جناب محمدﷺ کی یاد میں اس سے بھی زیادہ شاندار جلوس نکلنا چاہئے … انہوں نے ایک انجمن قائم کی جس کا مقصد عیدمیلاد النبیﷺ کے موقع پر جلوس مرتب کرنا تھا۔ اس میں مندرجہ ذیل عہدیدار تھے:

 (۱) صدر: مستری حسین بخش (۲) نائب صدر: مہر معراج دین (۳) حافظ معراج الدین (۴)پراپیگنڈہ سیکرٹری: میاں خیر دین بٹ (بابا خیرا) (۵) خزانچی: حکیم غلام ربانی… اشتہارات کے ذریعہ جلوس نکالنے کے ارادہ کو مشتہر کیا گیا۔ چست اور چاق و چوبند نوجوانوں کی ایک رضا کار جماعت بنائی گئی اور جگہ جگہ نعتیں پڑھنے کاانتظام کیا گیا… الخ”

2۔ روزنامہ ‘مشرق’ مؤرخہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۸۴ء (۱۲؍ ربیع الاول ۱۴۰۴ھ) میں مصطفی کمال پاشا (صحافی)”لاہور میں ۱۲ ربیع الاول کا جلوس کیسے شروع ہوا؟” کی سرخی کے بعد لکھتے ہیں کہ:

”آزادی سے پیشتر ہندوستان میں حکومت ِبرطانیہ ۲۵ دسمبر کو جناب عیسیٰ ؑ کے یوم پیدائش کوبڑے تزک و احتشام کے ساتھ منانے کا انتظام کرتی اور اس روز کی فوقیت کو دوبالا کرنے کے لئے اس دن کو ‘بڑے دن’ کے نام سے منسوب کیا گیا … تاکہ دنیا میں ثابت کیا جاسکے کہ جناب مسیح ہی نجات دہندہ تھے۔

رسولِ اکرم پاکﷺ ۱۲؍ ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے اور اسی روز وفات پائی۔ کچھ لوگ اس یومِ مقدس کو ‘۱۲ وفات’ کے نام سے پکارتے ہیں۔ آزادی سے پیشتر اس یوم کے تقدس کے پیش نظر مسلمانانِ لاہور نے اظہارِ مسرت و عقیدت کے طور پر جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا… ان دنوں کانگریس اپنے اجتماع موری دروازہ میں منعقد کیا کرتی تھی اور اس کے مقابلہ میں مسلمان اپنے اجتماع موچی دروازہ لاہورمیں منعقد کرتے تھے، لہٰذا موچی دروازہ کو سیاسی مرکز ہونے کے علاوہ سب سے پہلے عیدمیلاد النبیﷺ کا جلوس نکالنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ علمی طور پر اس کی قیادت انجمن فرزندانِ توحید موچی گیٹ کے سپرد ہوئی۔ جس میں حافظ معراج دین… وغیرہ شامل تھے۔

انجمن کی زیر قیادت جلوس کو دلہن کی طرح سجایا جاتا۔ جلوس میں شامل نوجوانوں پرپھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتیں۔ سیاسی اور سماجی کارکنوں کے علاوہ جلوس کے آگے پہلوانوں کی ٹولی بھی شمولیت کرتی۔” واضح رہے کہ:

1۔ روزنامہ کوہستان نے انجمن فرزندانِ توحید کے عہد یداران کی تصاویر اخبارِ مذکور میں شائع کیں اور

2۔ روزنامہ مشرق نے اس لائسنس کا عکس بھی شامل اشاعت کیا جو (میلاد النبیﷺ کے جلوس کی اجازت کے لئے) حکومت ِبرطانیہ سے حاصل کیاگیاتھا۔

3۔علاوہ ازیں مذکورہ اخبارات کی فوٹو سٹیٹ تحریریں ماہنامہ ‘حرمین’ جامعہ علوم اثریہ، جہلم کے ادارہ کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔

بدعت ِعید میلاد سے متعلقہ شبہات کا ازالہ اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ !

عیدمیلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک تو باقی نہیں رہ جاتا مگر اس کے باوجود بعض علما اسے کسی نہ کسی طرح شرعی لبادہ پہنانا چاہتے ہیں خواہ اس کے لئے انہیں قرآنی آیات میں کھینچا تانی کرنا پڑے یاکفار (ابولہب وغیرہ) کے عمل سے استدلال کرنا پڑے مگر حق بہرحال حق ہے جوباطل کی ملمع سازیوں کے باوجود آخر کار نکھر ہی آتا ہے۔ اس لئے آئندہ سطور میں بدعت ِمیلاد کو جائز قرار دینے والوں کے دلائل کاجائزہ پیش کیا جاتا ہے :

قرآنی دلائل !

دلیل نمبر  (۱) :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾ قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا

یونس – 57/58

”اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جونصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں، ان کے لئے شفا ہے اور وہ رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے۔ (اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔”

 اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت وغیرہ رسولِ اکرمﷺ کی پیدائش اور تشریف آوری ہی پر موقوف ہے۔ اس لئے سب سے بڑی رحمت و نعمت تو خود رسولِ اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی ٹھہری، لہٰذا آپﷺ کی تشریف آوری پر خوشی منانا چاہئے اور فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا میں بھی خوشی منانے کا حکم ہے۔

 اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت وغیرہ رسولِ اکرمﷺ کی پیدائش اور تشریف آوری ہی پر موقوف ہے۔ اس لئے سب سے بڑی رحمت و نعمت تو خود رسولِ اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی ٹھہری، لہٰذا آپﷺ کی تشریف آوری پر خوشی منانا چاہئے اور فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا میں بھی خوشی منانے کا حکم ہے۔

جواب:

 سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید رسولِ اکرمﷺ پر نازل ہوا اور آپﷺ ہی حکم خداوندی سے اس کی قولی و عملی تفسیر و تشریح فرمایا کرتے تھے۔ آپﷺ کی رسالت وبعثت کے بعد ۲۳ مرتبہ یہ دن آیا مگر آپﷺ نے ایک مرتبہ بھی اس کی قولی و عملی تفسیر فرماتے ہوئے عید میلاد نہیں منائی اور نہ ہی صحابہ کرامؒ، تابعین عظام اور تبع تابعین، مفسرین و محدثین وغیرہ کو اس آیت میں عید میلاد نظر آئی مگر داد ہے ان نکتہ دانوں کے لئے جنہیں چودہ سو سال بعد خیال آیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیدمیلاد النبیﷺ منانے کا حکم دیا ہے اور ان پاکباز ہستیوں کو یہ نکتہ رسی نہ سوجھی کہ جنہیں نزولِ قرآن کے وقت براہِ راست یہ حکم دیا گیا۔

 حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں ولادتِ نبوی ﷺ یا عید میلاد کا کوئی ذکر و اشارہ تک بھی نہیں بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نزولِ قرآن کی نعمت پر خوش ہوجاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کے لئے اسے نازل کیا ہے۔

 علاوہ ازیں خوشی کا تعلق انسان کی طبیعت اورقلبی کیفیت سے ہوتا ہے نہ کہ وقت اور دن کے ساتھ۔ اس لئے اگر نزولِ قرآن یا صاحب ِقرآن (رسولِ اکرمﷺ) پر خوش و خرم ہونے کا حکم ہے تو یہ خوشی قلبی طور پر ہر وقت موجود رہنی چاہئے، نہ کہ صرف ۱۲ ربیع الاول کو اس خوشی کا اظہار کرکے پورا سال عدمِ خوشی میں گزار دیا جائے۔ اگر آپ کہیں کہ خوشی تو سارا سال رہتی ہے تو پھر آپ سے از راہِ ادب مطالبہ ہے کہ یا تو سارا سال بھی اسی طرح بھنگڑے ڈال کر اور جلوس نکال کر خوشی کا اظہار کیا کریں یا پھر باقی سال کی طرح۱۲؍ ربیع الاول کو بھی سادگی سے گزارا کریں۔

دلیل نمبر  (۲) :

وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ

الضحیٰ – 11

”اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ۔”

اس آیت سے بھی یہ کشید کیا جاتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُمت ِمسلمہ کے لئے سب سے بڑی نعمت ہیں لہٰذا اس نعمت ِعظمیٰ کا اظہار بھی بڑے پرشوکت جشن و جلوس سے کرنا چاہئے۔

جواب:

1۔  اس آیت میں اگرچہ انعاماتِ خداوندی کے اظہار کا ذکر ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا کسی نعمت کے اظہار کے لئے اسلام نے جلوس نکالنے کا حکم دیا ہے؟ مثلاً آپ کے گھر میں بیٹا پیدا ہو تو تحدیث ِنعمت کے طور پر آپ شہر بھر میں جلوس نکالیں گے؟ اگر آپ ہاں بھی کہہ دیں تواللہ کی نعمتیں شمار سے باہر ہیں، آخر کس کس نعمت پر جلوس نکالیں گے

 رسولِ اکرمﷺ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ِعظمیٰ ہیں مگر سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ صحابہ کرام نے اس نعمت ِعظمیٰ کی کس طرح قدر کی؟ کیا وہ رسولِ اکرمﷺ کا عید میلاد مناکر اور جلوس نکال کر رسولِ اکرمﷺ کی قدرومنزلت کا خیال کیا کرتے تھے یا آپﷺ کے اقوال و فرمودات پر عمل پیرا ہوکر اس نعمت کا اظہار کیا کرتے تھے؟ جس طرح صحابہ کرام کیا کرتے تھے، من و عن اسی طرح ہمیں بھی کرنا چاہئے۔اگر وہ جلوس نکالا کرتے تھے تو ہمیں بھی ان کی اقتدا کرنی چاہئے اگر ان سے رسولِ اکرمﷺ کی زندگی یا بعد از وفات ایک مرتبہ بھی جشن و جلوس منانا ثابت نہیں تو پھر کم از کم ہمیں بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنا چاہئے۔

3۔ یہ آیت رسولِ اکرمﷺ پرنازل ہوئی مگر آپﷺ نے زندگی بھر ایک مرتبہ بھی عید ِمیلاد نہیں منائی، پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اسے کارِ ثواب قرار دے کر دین میں اضافہ ، اپنے عملوں کو برباد اور اللہ کے رسولﷺ کی مخالفت کریں۔

دلیل نمبر  (۳، ۴، ۵)

وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّـهِ ۚ

إبراهیم – 5

”اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلاؤ۔”

وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا

مریم – 33

”اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے۔”

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ

الا نشراح – 4

”اور ہم نے آپﷺ کا ذکر بلند کردیا”

جواب:

ان تینوں آیات سے بھی عید ِمیلاد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں کہیں جشن عیدمیلاد کا ذکر نہیں۔اگر اس کا کوئی اشارہ بھی ہوتا تو وہ صحابہ کرام سے آخر کیسے مخفی رہ سکتا تھا؟!

آیت نمبر3  میں جناب موسیٰ ؑ کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قوم کو گذشتہ قوموں کے واقعات سے باخبر کریں کہ کس طرح ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے انہیں ہلاکت و عذاب سے دوچار کیا گیا اور اطاعت گزاروں کو کامیابی سے نوازا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنی اصول تفسیرکی کتاب ‘الفوز الکبیر’ میں قرآنِ مجید کے پانچ علوم میں سے ایک کا نام ‘علم التذکیر بایام اللہ’ رکھا جس میں گذشتہ اقوام کے عروج وزوال، انعام و اکرام یا ہلاکت و عذاب پر بحث کی جاتی ہے۔ اگر بالفرض اس آیت سے گذشتہ نبیوں کا میلاد منانا مراد ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ جناب موسیٰ ؑ نے گذشتہ نبیوں کا میلاد کیوں نہ منایا؟ اور رسولِ اکرمﷺ نے جناب موسیٰ ؑ و عیسیٰ ؑ وغیرہ کا میلاد کیوں نہ منایا؟

آیت نمبر4 میں جناب عیسیٰ ؑ کا ذکر ہے اور انہوں نے کبھی میلا دنہ منایا نہ ان کے حواریوں نے ایسا کیا البتہ ان کے آسمان پراٹھائے جانے کے عرصہ دراز بعد تقریباً ۳۳۶؁میں پہلی مرتبہ رومیوں نے اس بدعت کو دین عیسوی میں ایجاد کیا۔ روم کے عیسائی علما نے باہم مشورہ سے طے کیا کہ مقامی بت پرستوں کے مقابلہ میں مسیحیوں کی شناخت کے لئے بھی کوئی تہوار ہونا چاہئے۔ رومی بت پرست ۶؍ جنوری کو اپنے ایک دیوتا کے احترام میں تہوار مناتے تھے لہٰذا عیسائیوں نے بھی کرسمس کے لئے یہی تاریخ منتخب کی مگر بعد میں عیسائیوں نے ۲۵ دسمبر کو کرسمس منانے پر اتفاق کرلیا کیونکہ اس تاریخ کو سب سے بڑے دیوتا (یعنی سورج) کا تہوار منایا جاتا تھا ۔ پھر دین عیسوی کی اس بدعت کو جب اللہ کے رسولﷺ نے ہرگز اختیار نہیں کیا تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس کی بنیاد پر میلا دالنبیﷺ منائیں۔

علاوہ ازیں اگر یوم ولادت سے عید میلاد منانے کا جواز ہے تو پھر اس آیت میں موجود یَوْمَ أَمُوْتُ سے ‘یومِ سوگ ‘ بھی منانا چاہئے۔ اگر ‘یوم سوگ’ نہیں تو پھر جشن ولادت ہی کیوں؟

آیت نمبر5  میں اللہ کے رسولﷺ کی عظمت و رفعت کا ذکر ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے، بدعت ِمیلاد کے مرہون منت قرار نہیں دیا۔ لیکن اگر اللہ کے رسولﷺ کی رفعت و عظمت جشن میلاد ہی سے ممکن ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ جب تک یہ بدعت ایجاد نہیں ہوئی تھی تب تک رسولِ اکرمﷺ کی رفعت کیسے قائم رہی؟

اختلاف صرف اظہارِ خوشی کے طریقے پر ہے!

یہاں اس شبہ کا اِزالہ بھی ہوجانا چاہئے کہ میلا دنہ منانے والوں کے بارے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں رسولِ اکرمﷺ کی تشریف آوری اور رسالت پر شاید خوشی ہی نہیں ہے۔ ایسی بات ہرگز نہیں کیونکہ جسے اللہ کے رسولﷺ سے محبت ہی نہیں یا آپ ﷺ کی رسالت و بعثت پر خوشی ہی نہیں، وہ فی الواقع مسلمان ہی نہیں۔ البتہ اختلاف صرف اتنا ہے کہ اس خوشی کے اظہار کا شرعی طریقہ کیا ہونا چاہئے۔ اگر کہا جائے کہ جشن، جلوس، میلاد اور ہر من مانا طریقہ ہی جائز و مشروع ہے تو پھر پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ پھر صحابہ کرام کی رسولِ اکرمﷺ سے محبت مشکوک ٹھہرتی ہے، اس لئے کہ انہوں نے اظہارِ محبت کے لئے کبھی جشن میلاد نہیں منایا جبکہ آپﷺ کے فرمان پر وہ جان دینے سے بھی نہیں گھبرایا کرتے تھے!

حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے خوشی اور غمی کی حدود و قیود متعین کردی ہیں جن سے تجاوز ہرگز مستحسن نہیں۔ اس لئے شیعہ حضرات کا شہداے کربلا کے رنج و غم پر نوحہ و ماتم کرنا، تعزیے نکالنا، سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرنا جس طرح دینی تعلیمات کے منافی اور رنج و غم کی حدود سے اِضافی ہے اسی طرح بعض سنّیوں کا ۱۲؍ربیع الاول کو یومِ ولادت کی خوشی میں جلوس نکالنا، بھنگڑے ڈالنا، قوالیاں کرنا، رات کو بلا ضرورت قمقمے جلانا، چراغاں کرنا اور بے جا اِسراف کرنا بھی دینی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کے نزدیک جشن میلاد ‘برحق’ ہے تو پھر اسے چاہئے کہ دل پر ہاتھ رکھ کر شیعہ کے نوحہ و ماتم کو بھی برحق کہہ دے !

احادیث کے دلائل!

دلیل نمبر  (۱) :

قَالَ عُرْوَةَ وَثُوَیْبَةُ مَوْلَاةٌ لِأَبِي لَهَبٍ، کَانَ أَبُوْ لَهَبٍ أَعْتَقَهَا، فَأَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم، فَلَمَّا مَاتَ أَبُوْ لَهَبٍ أُرِیَهٗ بَعْضُ أَهْلِهٖ بِشَرِّ حِیْبَةٍ، قَالَ لَهٗ: مَاذَا لَقِیْتَ؟ قَالَ أَبُوْ لَهَبٍ: لَمْ أَلْقَ بَعْدَکُمْ غَیْرَ أَنِّي سُقِیْتُ فِي هٰذِهٖ بِعَتَاقَتِي ثُوَیْبَةَ.

صحیح البخاری، كتاب النكاح، باب وامهاتمك اللآتی ارضعنكم

”عروہ راوی کا بیان ہے کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی اور ابولہب نے اسے آزاد کردیا تھا۔ اس لونڈی نے نبی اکرمﷺ کو (بچپن میں) دودھ پلایا تھا۔ جب ابولہب فوت ہوا تو اس کے کسی عزیز نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بری حالت میں ہے تو اس سے پوچھا کہ کیسے گزر رہی ہے؟ ابو لہب نے کہا کہ تم سے جدا ہونے کے بعد کبھی آرام نہیں ہوا، البتہ مجھے یہاں (انگوٹھے اور انگشت ِشہادت کے درمیان گڑھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) سے پانی پلا دیا جاتا ہے اور یہ بھی اس و جہ سے کہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزادی بخشی تھی۔”

جواب :

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ روایت صحیح بخاری کی مسند روایتوں میں شامل نہیں بلکہ ان معلقات میں سے ہے جنہیں امام بخاری بغیر سند کے اَبواب کے شروع میں بیان کردیتے ہیں اور یہ روایت بھی عروہ تابعی سے مرسل مروی ہے اور محدثین کے نزدیک مرسل تابعی حجت نہیں۔

  پھر یہ مرسل روایت اہل سیر کی روایات کے خلا ف ہے، اس لئے کہ اکثر و بیشتر اہل سیر کے مطابق ابولہب نے اپنی لونڈی کو رسولِ اکرمﷺ کی پیدائش کے کافی عرصہ بعدآزاد کیا تھا مگر اس روایت سے اس کو ولادت نبوی ﷺکے موقع پر آزاد کرنے کا اشارہ ہے۔ ابن جوزی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ:

” ثویبہ رسولِ اکرمﷺ کے پاس اس وقت بھی آیا کرتی تھی جب آپﷺ نے جناب خدیجہؓ سے شادی کرلی تھی۔ اور ان دنوں بھی یہ ابو لہب کی لونڈی تھی مگر اس کے بعد ابولہب نے اسے آزا دکردیا۔” (الوفاباحوال المصطفیٰ : ص۱۰۷؍ ج۱)

حافظ ابن حجرؒ نے بھی یہ بات ذکر کی ہے۔ (فتح الباری:۹؍۱۴۵ اور الاصابہ:۴؍۲۵۰) اسی طرح ابن سعدؒ نے طبقات (۱؍۱۰۸) میں اور ابن عبدالبرؒ نے الاستیعاب (۱؍۱۲) میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ مذکورہ روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابولہب نے ثویبہ کو رسولِ اکرمﷺ کی ولادت پر آزا دنہیں کیا لیکن اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ اس نے ولادت ہی پر اسے آزاد کیا تھا تو پھر ابولہب کا یہ عمل اس وقت کا ہے کہ جب اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا کہ میرا بھتیجا نبی بنے گا بلکہ رسولِ اکرمﷺ کی پیدائش پراس نے بحیثیت ِچچا اپنی لونڈی آزاد کرکے مسرت کا اظہار کیا اور بچے کی پیدائش پرایسا اظہارِ مسرت بلا استثنائِ مسلم و غیر مسلم ہر شخص فطری طور پر کیا ہی کرتا ہے۔ چنانچہ ابولہب نے بھی اس فطری مسرت کا اظہار کیا مگر جب آپﷺ نے رسالت کا اعلان کیا تو یہی ابولہب آپﷺ کی مخالفت میں پیش پیش تھا اور اسی ابولہب کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورئہ لہب نازل فرمائی کہ :

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ﴿١﴾ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ﴿٢﴾ سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ

المسد – 1/3

”ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا۔ نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔ وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں داخل ہوگا۔”

۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ محض ایک خواب ہے اور شریعت نے نبی ورسول کے علاوہ کسی کے خواب کو حجت و برہان قرا رنہیں دیا۔

دلیل نمبر  (۲) :

نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ۶۳ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر فرمائے۔ اس سے بعض لوگ یہ نکتہ رسی کرتے ہیں کہ رسولِ اکرمﷺ کی عمر چونکہ ۶۳ سال تھی، اس لئے ہر سال کی خوشی میں آپﷺ نے ایک ایک اونٹ ذبح فرمایا۔ اس لئے ہمیں بھی رسولِ اکرمﷺ کے یومِ ولادت کی ہر سال خوشی منانا چاہئے۔

جواب :

   پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ اللہ کے رسولﷺ نے ۶۳ اونٹ اپنے دست مبارک سے قربان کئے مگر یہ کہاں سے نکل آیا کہ انہیں عیدمیلاد کی خوشی میں قربان کیا گیا تھا؟

  اگر بالفرض یہ عید میلاد کی خوشی میں ذبح کئے گئے تھے تو پھر عیدمیلاد ربیع الاوّل کی بجائے ذوالحجہ کو منانی چاہئے کیونکہ یہ واقعہ نو ذوالحجہ کا ہے!

 حقیقت یہ ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ۱۰۰ اونٹ نحر فرمائے۔ ان میں سے ۶۳ اونٹ تو آپﷺ نے اپنے دست ِمبارک سے نحر کئے جبکہ باقی ۳۷ اونٹ جناب علی نے آپﷺ کے حکم سے نحر کئے۔ اس لئے اگر ۶۳ اونٹ رسولِ اکرمﷺ کی ۶۳ سالہ زندگی کے ایام ولادت کی خوشی میں ذبح کئے گئے تو باقی ۳۷ اونٹ کس کے یوم ولادت کی خوشی میں تھے؟

دلیل نمبر  (3) :

3۔  بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسولِ اکرمﷺ سوموار کو روزہ رکھا کرتے تھے کیونکہ اس دن آپﷺ کی پیدائش ہوئی تھی اور اس دن روزہ رکھنا بطورِ شکرانہ تھا، اس لئے میلاد کی خوشی منانا چاہئے۔ کیونکہ شکرانہ خوشی اور نعمت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔

جواب:

  جن روایات میں سوموار کے روزے کا ذکر ہے، انہی میں یہ صراحت بھی ہے کہ آپﷺ جمعرات کا بھی روزہ رکھا کرتے تھے۔ اس لئے اگر بالفرض سوموار کا روزہ ولادت کی خوشی میں تھا تو پھر جمعرات کا روزہ کس خوشی میں تھا؟

 حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی میلا دکی خوشی کا روزہ نہ تھا بلکہ بعض صحابہ کے استفسار پر آپﷺ نے سوموار اور جمعرات کے روزے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ ”ہفتے کے ان دو دنوں میں بندوں کے اعمال اللہ کے رسولِ اکرم پیش ہوتے ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال جب اللہ کے رسولِ اکرم پیش ہوں تو میں نے روزہ رکھا ہو۔” (فتح الباری :۴؍۲۳۶)

3۔ اگر بالفرض رسولِ اکرمﷺ سوموار کا روزہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھتے تھے تو پھر چاہئے تو یہ تھا کہ آپﷺ سال بھر میں صرف اپنے یومِ تاریخ کا ایک ہی روزہ رکھتے مگر آپﷺ تو ہر ہفتے کی سوموار (اور جمعرات) کو روزہ رکھا کرتے تھے… اس سے بھی معلوم ہوا کہ یہاں بھی میلاد کی کوئی گنجائش نہیں۔

 اگر حدیث ِمذکور کی بنا پر خوشی اور میلاد ضروری ہے تو پھر کم از کم میلاد منانے والوں کو اس روز، روزہ رکھنا چاہئے کیونکہ اللہ کے رسولﷺ اس روز روزہ رکھا کرتے تھے۔ مگر میلاد منانے والے تو دعوتیں اڑاتے ہیں۔ بقول شخصے  رسولِ اکرم روزہ فرماتے ہیں اوریہ عید مناتے ہیں!

دلیل نمبر  (4)

4۔ بعض بھولے بسرے یہ اعتراض بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر یوم اقبال، یوم قائداعظم اور یوم سالگرہ منانا درست ہے تو پھر یومِ میلاد کیوں بدعت ہے؟

جواب:

 یہ اعتراض تب درست ہوسکتا تھا کہ جب یوم اقبال، یومِ قائد اور سالگرہ وغیرہ منانا دینی اعتبار سے مشروع و جائز ہوتا مگر جب یہ چیزیں بذاتِ خود غیر مشروع ہیں تو انہیں بنیاد بنا کر نئی چیز کیسے مشروع (جائز) ہوجائے گی؟ اسلام میں ایام پرستی کا کوئی تصور نہیں۔ اگر ایام پرستی کا اسلام نے لحاظ رکھا ہوتا تو ہر روز کسی نہ کسی نبی، ولی اور عظیم واقعہ کی یاد میں ایک نہیں، سینکڑوں جشن منانا پڑتے اور اُمت مسلمہ کو سال بھر ایام پرستی ہی سے فرصت نہ مل پاتی۔ علاوہ ازیں یوم اقبال اور یوم قائد وغیرہ منانے والے کیا اسلامی شریعت میں ایسا امتیازی مقام رکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے اس فعل کو دین و حجت قرا ر دے دیا جائے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر اسے بنیاد بنا کر عید ِمیلاد کا جواز کشید کرنا بھی درست نہیں بلکہ یہ تو  ‘بناء فاسد علیٰ الفاسد’ ہے! اسی طرح بچوں کی سالگرہ منانا غیرمسلموں کی نقالی ہے۔ اسلام میں اس کی بھی کوئی اصل نہیں۔ اور ویسے بھی یہ غیر معقول رسم ہے کہ ایک طرف کل عمر سے ایک سال کم ہورہا ہے اور دوسری طرف اس پر خوشی منائی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں غیر مسلموں کی تہذیب و تمدن اور خاص شعار پر مبنی کسی چیز میں نقالی کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:

”من تشبّه بقوم فھو منھم…”

سنن ابی داؤد، 4031

”جس نے کسی (غیر مسلم) قوم کی نقالی کی وہ انہی میں شمار ہوگا۔”

بدعت ِعیدمیلاد ؛ علماے کرام کی نظر میں !

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ:

”لم یفعله السلف الصالح مع قیام المقتضی له وعدم المانع منه ولو کان ھذا خیرا محضا أو راجحا لکان السلف أحق به منا فانھم کانوا أشد محبة لرسول اللہ وتعظیما له منا وھم علی الخیر أحرص وإنما کمال محبته وتعظیمه فی متابعته وطاعته واتباع امرہ وإحیاء سنته باطنا وظاھرا ونشرما بعث به والجھاد علی ذلک بالقلب والید واللسان فإن ھذہ طریقة السابقین الأولین المھاجرین والأنصار والذین اتبعوھم بإحسان”

اقتضاءالصراط المستقیم، ص: 295

” سلف صالحین نے محفل میلا دکا انعقاد نہیں کیاحالانکہ اس وقت اس کا تقاضا تھا اور اس کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی ۔ اگر یہ محض خیر و بھلائی ہی کا کام ہوتا یا اس میں خیر کا پہلو راجح ہوتا تو سلف صالحین اسے حاصل کرنے کے لئے ہم سے زیادہ حقدار تھے۔ وہ ہماری نسبت اللہ کے رسولﷺ سے بہت زیادہ محبت اور تعظیم و تکریم کرنے والے اور نیکی کے کاموں میں ہم سے زیادہ رغبت کرنے والے تھے۔ آپﷺ سے محبت وتکریم کا معیار یہ ہے کہ آپﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے، آپﷺ کی سنت کو ظاہری اور باطنی طور پر زندہ کیا جائے اور آپ کے لائے ہوئے دین کو آگے پھیلایا جائے اور اس مقصد کے لئے دل، ہاتھ اور زبان سے جہاد کیا جائے۔ مہاجرین و انصار جیسے ایمان میں سبقت کرنے والوں اور ان کی اچھے طریقے کے ساتھ پیروی کرنے والوں کا یہی طریقہ تھا۔”

تاج الدین الفاکہانیؒ :

شیخ تاج الدین عمر بن علی الفاکہانیؒ رقم طراز ہیں کہ ”بہت سے لوگوں نے بار بار مجھ سے عید میلاد النبی ﷺ کے بارے میں پوچھا کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے یا یہ دین میں ایک بدعت ہے؟ تو میں نے کہا کہ کتاب وسنت سے اس میلاد کی کوئی دلیل مجھے نہیں ملی اور علمائے اُمت جو دین میں ایک نمونہ اور سلف کے آثار پرگامزن رہنے والے تھے، ان میں سے بھی کسی سے اس کی مشروعیت منقول نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بدعت ہے جسے باطل پرستوں ، خواہش نفس کے پجاریوں اور پیٹ پرستوں نے گھڑا ہے۔” (الحاوی للفتاوی: ج۱؍ ص۱۹۰،۱۹۱)

ابن الحاجؒ :

ابوعبداللہ محمد بن محمد العبدری المعروف بابن الحاج رقم طراز ہیں کہ:

”ومن جملة ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادھم أن ذلک من أکبر العبادات وإظھار الشعائر ما یفعلونه فی شھر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات”

المدخل، ج/2 ، ص/229

”لوگوں کی جاری کردہ بدعات میں سے ایک بدعت ربیع الاول میں محفل میلاد کا قیام ہے۔ اس بدعت کو اختیار کرنے والے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ ایک سب سے بڑی عبادت اور شعائر ِاسلامیہ کے اظہار کا عمل ہے۔ حالانکہ یہی بدعت میلاد مزید کئی بدعات و محرمات پر بھی مشتمل ہے۔” نیز فرماتے ہیں کہ : ”محفل میلاد کے موقع پر اگر سماع و غنا کا بھی انتظام ہو تو یہ ظلمات بعضھا فوق بعض کی طرح ہے۔ اوراگر محفل میلاد سماع و غنا اور دیگر مفاسد سے مبرا ہو اور صرف لوگوں کے لئے میلاد کی نیت سے کھانے کا انتظام ہو تو تب بھی یہ بدعت ہے کیونکہ یہ دین میں اضافہ ہے ۔ سلف صالحین کے ہاں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، حالانکہ سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنا ہی زیادہ بہتر ہے۔”

مجدد الف ِثانیؒ :

موصوف اپنے کسی عقیدت مند کو عید ِمیلاد کے حوالہ سے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ:

”بہ نظر انصاف ببینند اگر فرضا جناب ایشاں دریں اوان در دنیا زندہ می بودند و ایں مجلس و اجتماع منعقدمے شد آیا بہ ایں راضی مے شد ند وایں اجتماع رامے پسندیدند یانہ؟ یقین فقیر آں است کہ ہرگز ایں معنی را تجویز نہ فرمودند بلکہ انکار مے نمودند مقصود فقیر اعلام بود قبول کنید یا نہ کنید ہیچ مضائقہ نیست و گنجائش مشاجرہ نہ۔ اگر مخدوم زادگان و یاران آنجاں برہماں وضع مستقیم باشند ما فقیراں را از صحبت ایشاں غیر از حرماں چارہ نیست” (مکتوب ۲۷۳ ، دفتر اول، حصہ پنجم ص ۲۴، نورکمپنی لاہور) ”انصاف سے دیکھئے اور بتائیے کہ اگر اس زمانے میں خود جناب (نبی اکرم ﷺ) دنیا میں زندہ ہوتے تو کیا آپﷺ اس مجلس میلاد کو پسند فرماتے؟ اور اس سے خوش ہوتے؟ فقیر کو یقین ہے کہ آپﷺ ہرگز اس کو جائز نہ سمجھتے بلکہ اس سے منع ہی فرماتے۔ فقیر کا کام تو بس مطلع کرنا ہے۔ لہٰذا آپ اسے قبول کریں یا ردّ، مجھے کوئی پرواہ نہیں اور نہ اس میں لڑائی جھگڑے کی کوئی گنجائش ہے۔ لیکن اگر آپ گذشتہ روش ہی پر رہے اور اسی حالت پر آپ کو اصرار رہا تو فقیر کو سوائے ترکِ ملاقات کے کوئی چارہ نہ ہوگا۔”

شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ :

آپ سے سوال کیا گیاکہ ربیع الاوّل کے دنوں میں رسولِ اکرمﷺ کی روحِ مبارک کو مختلف انواع کے کھانے کھلانے سے ثواب پہنچانا جائز ہے؟ تو آپ نے اس کا یہ جواب دیا کہ ”اس کام کیلئے وقت اور دن کا تعین کرنا اور مہینہ خا ص کرنا بدعت ہے اور سنت کے مخالف ہے اور سنت کی مخالفت حرام ہے لہٰذا یہ بالکل جائز نہیں۔”(فتاویٰ عزیزیہ: ص۹۳) نیز ”کسی پیغمبر کی ولادت کے دن کو عید کی طرح منانا جائز نہیں۔”  (تحفۃ اثنا عشریہ)

عبدالسمیع رام پوری  (خلیفہ احمدرضا خان بریلویؒ)

موصوف فرماتے ہیں کہ ”یہ سامانِ فرحت و سرود اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوا، یعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔”

(انوارِ ساطعہ: ص۱۵۹)

جشن عید میلاد کے نقصانات !

۱) دین اسلام میں ایک نئی چیز یعنی بدعت جاری کی گئی۔

۲) نبیﷺ کے یوم وفات کو یوم ولادت سمجھ کر جشن منانے کی رسم شروع کی گئی۔

۳) جشن میلاد نہ منانے والوں پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔

۴) جشن میلاد پرہر سال لاکھوں کروڑوں روپے ضائع کئے جاتے ہیں۔

۵) خانۂ کعبہ اور روضۂ نبویﷺ کے ماڈل بنا کر ان کے طواف کئے جاتے ہیں۔

۶) گلی، کوچوں میں پہاڑیاں بنا کر میلے لگائے جاتے ہیں۔

۷) میلا دکے جلوس میں بھنگڑے ، لڈیاں اور ناچ گانے جیسے بیہودہ کام کئے جاتے ہیں۔

۸) بینڈ باجوں اور اخلاق سوز گانوں کے ساتھ رسولِ اکرمﷺ کا یومِ ولادت منایا جاتاہے۔

۹) فلمی گانوں کی دھن و طرز پر نعتیں اور شرکیہ قوالیاں گائی جاتی ہیں۔

۱۰) ملحد و بے دین فنکاروں اور اداکاروں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔

۱۱) جشن میلاد کے نام پر جہالت اور فحاشی کوبھی عروج دیا جاتا ہے۔

۱۲) میلاد کی رات قمقمے روشن کرکے بلا ضرورت لائٹنگ کی جاتی ہے۔

عیدمیلاد منانے والوں سے چند سوالات !

۱) عید میلاد فرض (واجب) ہے، سنت ہے یا مستحب؟

۲) جو جشن میلاد نہیں مناتا، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

۳) اللہ کے رسولﷺ، صحابہ کرامؓ، تابعین عظامؒ، ائمہ کرام نے یہ جشن کیوں نہ منایا؟ (ضرورت نہ سمجھی یا کوئی رکاوٹ تھی یاسستی اور لاپرواہی کی یا خلافِ شرع سمجھا یا علم نہ تھا یا ترغیب نہیں دی گئی، یا دل حب ِرسول سے خالی تھا ؟ نعوذ باللہ)

۴) گذشتہ چودہ صدیوں میں صحابہ و تابعین سمیت جن مسلمانوں نے یہ جشن نہیں منایا، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

۵) بارہ ربیع الاول یوم وفات بھی ہے جہاں پیدائش اور وفات (یعنی خوشی اور غم) جمع ہوجائیں، وہاں خوشی کو ترجیح دی جاتی ہے یا غم کو؟

۶) یومِ ولادت کی خوشی منانا ضروری ہے تو یومِ وفات کا رنج و غم منانا کیوں ضروری نہیں؟ جبکہ بقولِ دونوں کی تاریخ بھی ایک ہی ہے؟

۷) اگر رسولِ اکرمﷺ کے یومِ ولادت کی خوشی میں جلوس نکالنا جائز ہے تو شیعوں کا اہل بیت کے رنج و غم میں ماتم نکالنا کیوں جائز نہیں؟

۸) اللہ کے رسولﷺ نے دو عیدیں مقرر فرمائی تھیں مگر یہ تیسری ‘عید’ کہاں سے آئی؟

۹) اگر یہ عید ہے تو اس دن اللہ کے رسولﷺ روزہ کیوں رکھتے تھے؟ عید کے روز تو روزہ رکھنا حرام ہے؟ ۱۰)  اگر یہ عید ہے تو باقی دو عیدوں کی طرح اس روز نمازِ عید کا اہتمام کیوں نہیں کیاجاتا؟

وآخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین

IslamFort: