الحمد لله رب العالمین والصلاة والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلیٰ آله وصحبه أجمعین وبعد!
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَارًا
نوح – 25
یہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈبو دیئے گئے اور جہنم میں پہنچا دیئے گئے اور اللہ کے سوا اپنا کوئی مددگار انہوں نے نہیں پایا۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے اچھے اعمال کے دنیا وآخرت میں نیک جزاء اور اچھے اثرات رکھے ہیں اسی طرح گناہوں اور بُرے اعمال کے بھی دنیا وآخرت میں بُرےاثرات رکھے ہیں ۔ درج ذیل میں انسان کی زندگی پر گناہوں اوربُرے کاموں کے چند بُرے اثرات کی تفصیل پیش خدمت ہے ۔
رزق میں تنگی :
انسان کی زندگی پر گناہوں کے دنیاوی نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہےکہ گناہوں کی وجہ سے انسان کی معاشی زندگی پریشان کن ہوجاتی ہے ، اللہ تعالی ایسے لوگوں کے ساتھ سختی کا معاملہ کرتا ہے جن کی زندگی گناہوں میں ملوث ہو ، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے زندگی کی پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ تک مسدود فرما دیتا ہے ۔ حصولِ رزق اور فراخئ معاش کے لیے ترکِ گناہ سےبہتر کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّه مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
الطلاق – 2/3
’’ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اور گناہوں سے باز آ جاتا ہے، اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گااور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جہاں اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔‘‘
وَمَن يَتَّقِ اللہَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْراً
الطلاق – 4
اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا۔
ان دونوں آیتوں کا مفہوم یہ ہوا کہ جو اللہ سے نہیں ڈرتا اور برائیوں کا ارتکاب کر لیتا ہے تو اس کی معاشی زندگی پریشان کن ہوجاتی ہے اوراس کی روزی اور رزق میں تنگی آجاتی ہے۔
رزق سے محرومی :
گناہوں کے دنیاوی نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہےکہ گناہوں کی وجہ سے انسان اللہ تعالی ٰکی عطا کردہ رزق سے ہی محروم ہوجاتا ہے۔ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
لَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ ، وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيبُهُ
بھلائی عمر کو زیادہ کر دیتی ہے اور تقدیر کو سوائے دعا کے کوئی چیز نہیں لوٹاتی، اور آدمی (حلال)رزق سے اپنی اس گناہ کی وجہ سے محروم کر دیا جاتا ہے جس کو وہ کر بیٹھتا ہے۔1
نعمتوں کا زوال :
گناہوں کے نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ گناہوں کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی مختلف نعمتوں سے محروم ہوجا تا ہے، اور مختلف مصائب اور پریشانیوں کے نزول کا سبب بنتا ہے، لہذا اگر اللہ نے آپ کو اپنی کسی نعمت سے نوازا ہے تو اس کی حفاظت کریں، نعمتوں کا دوام اور حفاظت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اور نیک کاموں کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔
وَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىٕنَّةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللہِ فَاَذَاقَهَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوْ عِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
النحل – 112
اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزه چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔
بیماریوں اور پریشانیوں کا نزول :
گناہوں کے دنیاوی نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ گناہوں کی وجہ سے دنیا میں کہیں زلزلے، کہیں طوفان، کہیں شدید سیلاب، کہیں شدید قحط، کہیں بھوک ، کہیں رزق میں بے برکتی ، کہیں آسمانی بلائیں، کہیں وبائیں اور کہیں لاعلاج بیماریاں نازل ہوتی ہیں یہ سب ہمارےگناہوں اور اپنے اعمال کے سبب ہیں۔ ہم جس قدر شدید گناہ کرتےہیں اسی قدر شدید قہر الہی نازل ہوتا ہےاور ایسی بیماریوں میں ہم گرفتار ہوتے ہیں جن کا علاج میسر نہیں ہوتا اور نشان عبرت بنے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
يا مَعْشَرَ المهاجرينَ ! خِصالٌ خَمْسٌ إذا ابتُلِيتُمْ بهِنَّ ، وأعوذُ باللهِ أن تُدْرِكُوهُنَّ : لم تَظْهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قَطُّ ؛ حتى يُعْلِنُوا بها ؛ إلا فَشَا فيهِمُ الطاعونُ والأوجاعُ التي لم تَكُنْ مَضَتْ في أسلافِهِم الذين مَضَوْا ، ولم يَنْقُصُوا المِكْيالَ والميزانَ إِلَّا أُخِذُوا بالسِّنِينَ وشِدَّةِ المُؤْنَةِ ، وجَوْرِ السلطانِ عليهم ، ولم يَمْنَعُوا زكاةَ أموالِهم إلا مُنِعُوا القَطْرَ من السماءِ ، ولولا البهائمُ لم يُمْطَرُوا ، ولم يَنْقُضُوا عهدَ اللهِ وعهدَ رسولِه إلا سَلَّطَ اللهُ عليهم عَدُوَّهم من غيرِهم ، فأَخَذوا بعضَ ما كان في أَيْدِيهِم ، وما لم تَحْكُمْ أئمتُهم بكتابِ اللهِ عَزَّ وجَلَّ ويَتَخَيَّرُوا فيما أَنْزَلَ اللهُ إلا جعل اللهُ بأسَهم بينَهم
اے مہاجرین کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے اور میں اللہ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم ان میں مبتلاہوجاؤ، کسی بھی قوم میں جب کھلے عام گناہ ہوتا ہے تو ان میں طاعون اور بھوک کی ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو ان کے پہلے لوگوں میں نہیں ہوئی ہوتیں، اور جب کوئی قو م پیمانہ اور تول کم کر دیتی ہے تو انہیں قحط، سخت مشقت اور ظالم بادشاہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور جب کوئی قوم اپنے مال کی زکاۃ روک لیتی ہے تو آسمان سے بارش رک جاتی ہے، اگر جانور نہ ہوں تو انہیں پانی کا ایک قطرہ نہ ملے، اور جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ کوئی دوسرا دشمن مسلط کر دیتا ہے، تو وہ ان کے ہاتھوں میں جو کچھ ہوتا اس میں سے کچھ چھین لیتے ہیں۔ اور جب کسی قوم کے حکمران اللہ کی کتاب سے فیصلے نہیں کرتے اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ انہیں آپس کے اختلافات میں مبتلا کر دیتا ہے۔2
مال ودولت میں بے برکتی :
گناہوں کے دنیاوی نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ گناہ گار کے کاموں سے برکت وسہولت اٹھالی جاتی ہے، جب کہ فرماں برداروں کے لیے کام یابی کی راہیں کھول دی جاتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الْبَيِّعانِ بالخِيارِ ما لَمْ يَتَفَرَّقا، فإنْ صَدَقا وبَيَّنا بُورِكَ لهما في بَيْعِهِما، وإنْ كَذَبا وكَتَما مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِما
بیع کرنے والے دونوں فریقوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور حقیقت کو واضح کریں تو ان کی بیع میں برکت ڈالی جاتی ہے، اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور ( عیب وغیرہ ) چھپائیں تو ان کی بیع سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔3
جو کوئی خرید وفروخت میں جھوٹ بولے تو اس کو مال میں بے برکتی کی سزا دی جاتی ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ اَلنَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَ، أَدَّى اَللَّهُ عَنْهُ، وَمَنْ أَخَذَهَا يُرِيدُ إِتْلَافَهَا، أَتْلَفَهُ اَللَّهُ
’’جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا۔ یعنی اس کے مال اور معیشت میں نقصان اور خسارہ واقع ہوجاتا ہے‘‘۔4
ماتحتوں کی نافرمانی :
گناہوں کے دنیاوی نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ الله کے نافرمان کو اپنے ماتحتوں کی نافرمانی کا صدمہ دیکھنا پڑتا ہے۔گناہگار کے خلاف اللہ کی نافرمان مخلوق جرأت مند ہو جاتی ہے، وہ اسے تکلیف اور ایذا دیتی ہیں، پھر شیطان بھی جری اور دلیر ہوجاتے ہیں اورانسانی شیطان بھی جری ہوجاتے ہیں۔ گھر کے لوگ،خدام ،نوکر چاکر، بیوی اور اولاد اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ اس کا نفس بھی دلیر ہوجاتا ہے۔ وہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو نفس سرکش ہوجاتا ہے۔ اللہ کی اطاعت ایک مضبوط قلعہ ہے۔ جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے ، وہ ایک مضبوط قلعہ میں داخل ہوتا ہے اور جو اس سے باہر نکلتا ہے، ڈاکو رہزن اس پر حملہ کردیتے ہیں۔ مشہور امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ما عملت ذنباً إلا وجدته في خلق زوجتي ودابتي
کہ جب کبھی مجھ سےکوئی گناہ سرزد ہو جاتاتو اس کا اثر میں اپنی بیوی اور اپنے جانوروں میں محسوس کر لیتا کہ وہ پوری طرح میرے فرماں بردار نہیں رہتے۔5
لوگوں میں قابل نفرت بن جانا :
گناہوں کے دنیاوی نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ گناہ کی وجہ سے انسان لوگوں کی نظروں میں ناپسندیدہ اور باعث نفرت بن جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:
إنَّ اللَّهَ إذا أحَبَّ عَبْدًا دَعا جِبْرِيلَ فقالَ: إنِّي أُحِبُّ فُلانًا فأحِبَّهُ، قالَ: فيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، ثُمَّ يُنادِي في السَّماءِ فيَقولُ: إنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلانًا فأحِبُّوهُ، فيُحِبُّهُ أهْلُ السَّماءِ، قالَ ثُمَّ يُوضَعُ له القَبُولُ في الأرْضِ، وإذا أبْغَضَ عَبْدًا دَعا جِبْرِيلَ فيَقولُ: إنِّي أُبْغِضُ فُلانًا فأبْغِضْهُ، قالَ فيُبْغِضُهُ جِبْرِيلُ، ثُمَّ يُنادِي في أهْلِ السَّماءِ إنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ فُلانًا فأبْغِضُوهُ، قالَ: فيُبْغِضُونَهُ، ثُمَّ تُوضَعُ له البَغْضاءُ في الأرْضِ
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے : میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو ، کہا : تو جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں ، کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے ، تم بھی اس سے محبت کرو ، چنانچہ آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں ، کہا : پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے ، اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بُلا کر فرماتا ہے : میں فلاں شخص سے بغض رکھتا ہوں ، تم بھی اس سے بغض رکھو ، تو جبرئیل علیہ السلام اس سے بغض رکھتے ہیں ، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے بغض رکھتا ہے ، تم بھی اس سے بغض رکھو ، کہا : تو وہ ( سب ) اس سے بغض رکھتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں بھی بغض رکھ دیا جاتا ہے ۔6
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ورأيت أقواما من المنتسبين إلى العلم، أهملوا نظر الحق -عز وجل- إليهم في الخلوات، فمحا محاسن ذكرهم في الجَلَوات، فكانوا موجودين كالمعدومين، لا حلاوة لرؤيتهم، ولا قلب يحن إلى لقائهم
اور میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو علم سے وابستہ تھےلیکن انہوں نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ اللہ تعالیٰ علیحدگی اور خلوت میں کیے جانے والے بد اعمالیوں پربھی نظر رکھتا ہے، چنانچہ اللہ نے دنیا میں ان علماء کے ذکرخیر کو مٹادیا ، تو گویا ان علماء کا دنیا میں موجود ہونا اورنہ ہونا برابرہے۔ کیونکہ ان کے خلوت میں کی جانے والی برائیوں کی وجہ سے اللہ نے ان کے وقار، عزت اور حیثیت ختم کردی ،چنانچہ ایسی کیفیت ہوجاتی ہے کہ دل میں نہ ان علماء کو دیکھنے کی مٹھاس باقی رہتی ہے ، اور نہ ان سے ملنے کی تڑپ رہتی ہے۔7
گناہ گار اہل ِدنیا کے لیے باعث تکلیف :
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجَنَازَةٍ فَقَالَ مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہ مَا الْمُسْتَرِيحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ فَقَالَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ وَالْبِلَادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ
حضرت قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ نے فرمایا : آرام پانے والا ہے یا اس سے آرام ملنے والا ہے ۔ انھوں ( صحابہ ) نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ ! آرام پانے والا یا جس سے آرام ملنے والا ہے سے کیا مراد ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : بندہ مومن دنیا کی تکا لیف سے آرام پاتا ہے اور فاجر بندے ( کے مرنے ) سے لوگ شہر درخت اور حیوانات آرام پاتے ہیں ۔8
شیطان کا مسلط ہونا :
گناہوں کے دنیاوی نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ گناہ کرنے والےپر شیطان مسلط ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ﴿٣٦﴾ وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٣٧﴾ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ
الزخرف – 36/37/38
جو شخص رحمٰن کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر شیطان مسلط کر دیتے ہیں۔ وہ شیطان اس کے ساتھ رہنے والا ہوتا ہے، یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہِ راست پر آنے سے روکتے ہیں، اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ سیدھی راہ پرچل رہے ہیں۔ قیامت کے روزانسان اس شیطان سے ان الفاظ میں شکایت کرے گا:کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق ومغرب کی دوری ہوتی، تُو تو بد ترین ساتھی نکلا۔
گناہ شیطان کا لشکر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ شیطان انسان کےساتھ اس طرح ہوتا ہے جیسے خون چلتا ہے بلکہ اس پر مزید یہ کہ انسان سوتا ہے، شیطان نہیں سوتا۔ انسان غافل ہوجاتا ہے لیکن شیطان غافل نہیں ہوتا۔ انسان شیطان کو نہیں دیکھتا، البتہ شیطان اور اُس کا کنبہ اُسے وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے انسان نہیں دیکھتے۔ شیطان اللہ کے خلاف ہمیں ورغلاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری لعنت، پھٹکار اور رحمتِ خداوندی سے دوری کا اصل سبب ہی شیطان ہے جو انسان کو جہنم کا ساتھی بنادینا چاہتا ہے۔
آج یہ زمینی آفتیں ، زلزلے ، خود کش حملے ، سیلاب کی ہلاکتیں ، یہ بے بس کردینے والی وبائی بیماریاں، یہ ظالم حکمران ، یہ کمر توڑتی مہنگائی، یہ لسانی عصبیت ، یہ انسانوں کا ذہنی انتشار، یہ بے سکونی ، یہ ناعاقبت اندیش حکمران طبقہ ، یہ رشوت خور اور سود خور ٹولہ ، ڈکیتیاں اور وارداتیں کرتے یہ انسان اور قتل وغارت گری سے کہرام مچتے گھر ان باتوں کا ثبوت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہو گئے ہیں ، ہم اللہ تعالیٰ کی جہنم سے بے خبر ہوگئے ہیں ۔ یہ سب ہمارے کرتوت اور شامتِ اعمال ہیں ، کیونکہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے اوامر کی حکم عدولی اور نواہی کو مذاق بنانا اپنا وطیرہ بنالیا ہے ۔ سنتِ رسول ﷺ کو ہم نے ترقی کی راہ میں حائل اور مخالفت کو ماڈرن ازم کا نام دے دیا ہے۔ موجودہ دور دین سے سرکشی کا دور ہے ، معصیت کا دور ہے ، بلاشبہ جو شخص اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ میں رہے گا۔
- (سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن:2022…علامہ البانی اس روایت کو حسن کہا ہے ؛ مسنداحمد5؍277 )
- (رواه ابن ماجه بسندصحيح. والسلسلة الصحيحة 106)
- أخرجه البخاري(2079 )،ومسلم(1532)
- رواه البخاري ( 2387 )
- حلية الأولياء لأبي نعيم، 8/109، وتاريخ دمشق لابن عساكر 48/ 383]
- صحيح مسلم. الرقم: 2637.
- ابن الجوزي في صيد الخاطر (ص/128 – 129)
- صحيح النسائي ، الرقم : 1929