پہلا خطبہ:
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے جنت الفردوس کو متقیوں کے لئے ضیافت کی جگہ بنائی، ان کے لئے اس کے راستوں کو آسان بنایا اور ان کے سالکین کے لیے اسے ہموار اور سازگار بنا دیا ہے۔ میں اس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں، اس نے اپنے بندوں کے لئے جنت میں ایسی دائمی نعمتیں رکھی ہیں، جن سے وہ نکلنا نہیں چاہیں گے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار ونبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں قول وعمل کے ذریعہ اپنے رب کے راستے کی طرف بلانے والے ہیں۔
اے اللہ! درود و سلام نازل ہو تیرے بندے اور رسول محمد ﷺ پر ،ان کی آل و اولاد اور ان کے صحابہ کرام پر۔ایسا دائمی درود و سلام نازل ہو جس سے ہم اس سے ایسی چیز کی امید رکھیں جو ثواب اور امید کے اعتبار سے بہت بہتر ہے۔
اما بعد!
اللہ کے بندوں! اللہ کا تقوی اختیار کرو آخرت کے دن کے لیے بہترین توشہ اختیار کرو اور یاد رکھو گے جو تم کرتے ہو اللہ رب العالمین ان تمام چیزوں سے بہت با خبر ہے۔
دنوں اور سالوں کے گزرنے میں تمہارے لئے بہترین عبرت و نصیحت ہونی چاہیے اور جان لو کہ اوقات خزانے ہیں ، تو انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ اپنے خزانے میں کیا رکھ رہا ہے جس سے تمہیں اس دن کوئی بے نیازی نہیں جس دن نگاہیں پتھرا جائیں گی۔ اس دن لوگ سارے جہاں کے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
مسلمانوں کو قرآن کی وصیتوں کی پیروی کرنا، اس کی نصیحتوں سے نصیحت حاصل کرنا، اس کی عبرتوں سے عبرت لینا,عقلمندوں کا طریقہ بصیرت والوں کا راستہ ہے۔ وہاں سے دنیا میں امیدوں کے پانے اور آرزؤں کےحصول اور آخرت میں رب کی خوشنودی سے سرفراز ہونے اور بلند جنتوں میں پہنچنے کا وسیلہ بناتے ہیں ۔معانی کو قریب اور حقائق کو واضح کرنے کے لئے لوگوں کے لیے مثالیں بیان کی گئیں جو شاندار منظر کشی اور بلیغ تشبیہ کی وجہ سے اچھی طرح قبول ویقین کرنے اور پوری طرح تسلیم کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ اُن ہی میں سے قول ِبلیغ کے وہ فنون ہیں جن کا اللہ تعالی نے اپنے نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا
النساء – 61
انہیں نصیحت کرتے رہیئے اور انہیں وه بات کہئے! جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو۔
جب نبی کریم ﷺ نے دنیاوی زندگی کی حقیقت اس میں دلوں کے مگن رہنے اور اس کی چمک دمک، آرائش، رعنائیوں میں لوگوں کے مبتلا ہونے کی طرف لوگوں کی نگاہوں کو مبذول کرنا چاہا تو آپ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ دنیا میٹھی اورہری بھری ہے اور اللہ تعالی اس میں تمہیں جانشین بنانے والا ہے۔ پھر وہ دیکھ لے گا کہ تم کیسا عمل کرتے ہو۔ صحیح مسلم
اس میں کوئی شک نہیں کہ مٹھاس اور ہریالی کانفوس میں نہایت اہم مقام ہیں اس لیے کہ وہ دونوں ان کی اُنسیت کا مقام ہیں اور اس سے لطف اندوز ہونے کا سبب ہیں کہ اس سے ایسی خوشی حاصل ہوتی ہے جو انہیں دنیا پر متوجہ ہونے اور اس کی طرف مائل ہونے پر ابھارتی ہے۔ اس توجہ اورمیلان میں لوگوں کا دو طرح کا موقف ہوتا ہے ،ایک عقل مندوں کا کہ جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت دی ہے تووہ راستوں میں سے سب سے درست راستے پر چلتے ہیں اور انہیں نہایت عمدہ مقصد کا راستہ ملتا ہے تو وہ جانتے ہیں کہ اگرچہ ان کے لئے درست ہے کہ وہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو نعمت ان کے لیے مقدر کی گئی ہے اس میں سے اپنا حصہ لے لیں۔
لیکن انہیں اس بات سے متنبہ بھی رہنا ہے کہ یہ نعمت اور اس کی ہریالی و تازگی اور چکا چوند، ہمیشہ والی نعمت اس ہمیشہ باقی رہنے والی تازگی اور اس وقت مشغول نہ کردیں جو فنا نہیں ہوگی۔ وہ متاع جسے اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کر رکھا ہے اور اس کے سلسلے میں اپنے قول کے ذریعے خبر دی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا ﴿٣٠﴾ أُولَٰئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۚ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا
الکھف – 30/31
اس معاملے میں نبی کریم ﷺ نے اپنے اس قول کے ذریعہ خبر دی ہے جسے شیخین نے اپنی صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے:” میں نے اپنے بندوں کے لئے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال بھی گزرا ہے۔ اگر جی چاہے تو یہ آیت بھی پڑھ لے:
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
السجدۃ – 17
کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیده کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔
اورجسے نبی کریم ﷺنے اپنے قول میں بیان فرمایا ہے کہ: جب اہل جنت جنت میں داخل ہوں گے تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: یقیناً تمہارے لیے یہ انعام بھی ہے کہ تم ہمیشہ صحت مند رہوں گے کبھی بیمار نہ پڑوگے اور یہ بھی تمہارے لئے ہے کہ زندہ رہو گے کبھی موت کا شکار نہیں ہو گے اور یہ بھی تمہارے لئے ہے کہ ہمیشہ ناز ونعم میں رہوگے ،کبھی زحمت نہ دیکھو گے۔ (صحیح مسلم بروایت ابی سعید الخذری رضی اللہ عنہ)
یہی اللہ عزوجل کا فرمان ہےکہ تمہیں ندا دے کر کہاجائے گا :
وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
الزخرف – 71
یہی وه بہشت ہے کہ تم اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنائے گئے ہو۔
نبی کریم ﷺ نے اس کی عظیم قدراور دنیا کی ہر نعمت سے اس کے بلند مقام کواپنی اس حدیث میں بیان فرمایا ہے جسے امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔وہ کہتے ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جنت میں تم میں سے ایک شخص کے کمان کی جگہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک کوڑے کی جگہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔
اللہ کے بندو! وہ ایسی نعمت ہے جس کے برابراور مساوی کوئی چیز نہیں، چہ جائیکہ کوئی اس پر فائق ہو یا اس سے زیادہ ہو تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ رب کے اوامر کو بجالاتے ہوئے خیر کے ابواب میں سے ہر باب میں ان کا بھرپور حصہ ہو۔ جیسے فرائض کو ادا کرے ،محارم سے رکے ،نوافل کے ذریعے اس کا قرب حاصل کرے اور ان تمام نفع بخش چیزوں میں مشغول ہو۔ ان کا فائدہ زمین میں رہ جاتا ہے اور ان تمام فضولیات اور بیکار کی باتوں سے دور رہے جو بے فائدہ ہوتی ہیں۔ کسی طرح اس بات پر یقین رکھتے ہو کہ جب وہ اچھے اعمال اور نیکیاں کر کے ابھی محدود عمر کو اپنی رب کی خوشنودی کا راستہ بنائیں گے تو ایسا کرکے وہ آج بورہے ہیں تاکہ کل اپنی کھیتی کا پھل کاٹیں۔ان کے ذہن میں ہمیشہ اپنے رب کا یہ قول مستحضر رہتا ہے:
وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا
الاسراء – 19
اور جس کا اراده آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہیئے، وه کرتا بھی ہو اور وه باایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی۔
تو وہ اس درست منہج اور نیک راستے کے ذریعے عام لوگوں میں سب سے بہتر ہے جو عظیم ربّانی حکم پر عمل کرتے ہیں:
وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
البقرۃ – 195
اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک واحسان کرو، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
تو انہوں نے اپنے نفس کے ساتھ حد درجہ احسان کیا ۔ایسا انھوں نے دنیاوی زندگی کو اللہ کی خوشنودی اورہمیشگی والی نعمت کے گھر جنت تک پہنچانے والی سیڑھی اور راستہ بنا کر کیا۔ ایسا کر کے وہ مخلوق میں سب سے اچھے بندوں میں سب سے عقلمند اور اللہ کے نزدیک سب سے معززبنے۔ اس کے برعکس ان لوگوں کا موقف ہے جن کے دلوں کو اللہ نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا اور انہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور ان کا معاملہ حد سے تجاوز کر گیا تووہ گمراہی کے راستے کی طرف مائل ہوگئے،سیدھے راستے سے پھر گئے تو وہ فرائض کے ادا کرنے سے رک گئے، اللہ کے محارم میں پڑ گئے، بہت زیادہ حرام کھانے لگے، بخالت ان کے نزدیک سخاوت کے قائم مقام ہو گئی تو ان کے مابین اسباب کٹ گئے ،رشتے کمزور ہو گئے اور کڑیاں ٹوٹ گئیں، فانی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا ان کی غایت ان کی کوشش کا مقصد ان کا سب سے بڑا ہدف اور ان کے علم کی انتہا بن گئی۔
انہوں نے اپنی آخرت کو بھلا دیا اور اس کے اجروثواب کی طرف نظر نہیں اٹھائی تو ان کا بدلہ ویسے ہی ہوا جیسا کہ اللہ تعالی نے کہا ہے :
مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا
الاسراء – 18
جس کا اراده صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائده) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بال آخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وه برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا۔
اور ان کے لئے اللہ کی مذمت اوروعید ثابت ہوئی جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿٣﴾ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿٤﴾ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ ﴿٥﴾ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ﴿٦﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ ﴿٧﴾ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ
التکاثر – 1/2/3/4/5/6/7/8
زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔ ہرگز نہیں تم عنقریب معلوم کر لو گے۔ ہرگز نہیں پھر تمہیں جلد علم ہو جائے گا۔ تو بیشک تم جہنم دیکھ لو گے۔ اور تم اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔ پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہوگا۔
اللہ کے بندوں! اللہ سے ڈرو ،ان لوگوں میں سے ہو جاؤ جنہوں نے اللہ کی جانب سے عطا کردہ چیزوں کے ذریعہ آخرت کے گھر کو تلاش کیا اور دنیا میں بھی اپنے قصے کو نہیں بھلایا ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور یہی لوگ عقل والے ہیں۔ اور تمہیں دنیا کی زندگی اپنی چکاچوند اور زینت کی وجہ سے دھوکے میں نہ ڈالے، اس لیے کہ رب سبحانہ و تعالی نے تمہارے لئے اس کی حقیقت اور اس کی صورتحال کو نہایت ہی واضح طریقے سے بیان فرما دیا ہے اور وہ کہنے والوں میں سب سے سچا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
الحدید – 20
خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا زینت اور آپس میں فخر (و غرور) اور مال واوﻻد میں ایک کا دوسرے سے اپنے آپ کو زیاده بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وه خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وه بالکل چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی تو نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو کتاب وسنت سے فائدہ پہنچائے۔ میں اپنی یہ باتیں کہتا ہوں اور اپنے لئے اور آپ سب کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے اللہ عزیز جلیل سے ہر طرح کے گناہوں سے مغفرت طلب کرتا ہوں یقیناً وہ معاف کرنے والا اور بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
دوسراخطبہ :
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور اس کی حمد بیان کرتے ہیں ۔اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ،اسی سے مغفرت سےچاہتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردارو نبی محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اللہ تعالی کا درود وسلام نازل ہو ان پر اور اوران کی آل و اولاد پر۔
اما بعد!
اللہ کے بندو! صحیح مسلم اور سنن الترمذی میں عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: وہ انسان کامیاب ہوا جو اسلام لے آیا اور اسے گزر بسر کے بقدر روزی ملی اور اللہ تعالی نے اسے جو دیا اس پر اسے قناعت کی توفیق بخشی ۔
ایک اور حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! تو آلِ محمد کی روزی کو زندگی برقرار رکھنے والی روزی بنا دے۔ متفق علیہ
اور ایک روایت میں کفافاً کا لفظ ہے یعنی ضرورت بھراور یہ وہ نبوی ہدایت ہے جو کس قدر عظیم اور عُمدہ ہے۔ اسے اختیار کرنے میں انجام کس قدر بہتر ہے، ایسا قناعت والا منہج اختیار کیا جائے جس سے نفس کو سکون ملتا ہے۔
اللہ کے بندو! اللہ کا تقوی اختیار کرو۔ یہ درست طریقہ سب سے بہتر توشہ ہے ، جو تم اللہ اور آخرت کے گھر کے سفر کے لیے تیار کرو،تو تم ان فلاح پانے والوں میں سے ہو گئے جنہیں اپنے رب کی مغفرت اور وہ جنت ملے گی جس کی کشادگی آسمانوں اور زمینوں کے بقدرہے اور جو متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالی نے تمہیں مخلوق کے سب سے بہترانسان پر درودسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ توسب سے سچی بات اور سب سے اچھے کلام میں اللہ رب العزت فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ! محمد ﷺ اور آلِ محمد ﷺ پر برکتیں نازل فرما ،جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم علیہ السلام پر برکتیں نازل فرمائیں۔
اے اللہ! تو تمام خلفاء اور چاروں خلفاءابوبکر، عمر ،عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا۔ تمام آل نبی ﷺ اور تمام صحابہ کرام سے اور جو حق کے ساتھ قیامت کے دن تک ان کی پیروی کرے اُن سے بھی۔
اے اللہ! توہمارے گناہوں کو معاف فرما۔
اے اللہ! تُو اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔
اے اللہ! تو اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔
اے اللہ! تودین کی حفاظت فرما ،دین کو محفوظ رکھ۔
اے اللہ! تو مسلمانوں کی صفوں کو متحد فرما دے، ان کی قلموں کومتحد فرمادے۔
اے رب العالمین! اے اللہ! تو اپنے نبی ﷺ کی سنت پر ہمیں جمع کر دے اوراس کی اتباع کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ! ہمارے ملکوں میں ہمیں محفوظ رکھنا، ہمارے سربراہان مملکت کو ان تمام چیزوں کی توفیق عطا فرما جس سے تو راضی ہوتا ہے۔
اے اللہ! جن کاموں کو تو پسند فرماتا ہے اُن کی انہیں توفیق عطا فرما۔
اے اللہ! تو ہمارے سربراہ مملکت اور ان کے ولی عہد کو ان تمام چیزوں کی توفیق عطا فرما جس میں اسلام اور مسلمانوں کی اور ملک کی بھلائی ہے۔
اے اللہ! تو ہماراتزکیہ فرما دے۔تو ہی ولی ہے اور مولا ہے۔
اے اللہ! تو ہمیں دین کی توفیق دے۔صحیح عمل کی توفیق دے۔
اے اللہ! ہماری آخرت کو بہتر بنا دے جہاں ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔
اےاللہ !موت کوہرطرح کے شر سے ہمارے لئے راحت بنا دے اورتمام منکرات سے بچنے کا سبب بنادے اور تو ہم پر رحم فرما ۔اور جب تو کسی قوم کو آزمائش میں ڈالنا چاہے تو ہمیں آزمائش کے بغیر اٹھالے ۔
اے اللہ! تو دنیا کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
اے اللہ! نعمتوں کے زائل ہونے سے ہم تیری پناہ مانگتے ہیں ۔
اے اللہ! ہر طرح کی ناراضگی سے ہم تیری پناہ مانگتے ہیں۔
اے اللہ! تو ہمیں عطا فرما ،تو ہمیں محروم نہ کر۔
اے اللہ! تو ہمارے لیے ہر طرح کی آسانی پیدا فرما۔
اے حی و قیوم! ہمارے حالات کو درست فرما دے۔ پلک جھپکنے کے برابر تو ہمیں اپنی رحمتوں سے دور نہ کر۔
اے اللہ! ہمارے جو دشمن ہیں ان کے لیے تو کافی ہو جا۔
اے اللہ! تو اپنے دشمنوں کے لیے بھی اور ہمارے دشمنوں کے لیے بھی ہمارے لیے کافی ہو جا ۔
اے اللہ! ہم انہیں تیرے سامنے کرتے ہے، ان کے سلسلے میں تو ہمارے لئے کافی ہوجا۔
اے اللہ! ہمارے مُردوں کی مغفرت فرما اوران پر رحم فرما۔
اے اللہ! ہماری نیکیوں کو قبول فرما اور نیک کاموں کی ہمیں توفیق عطا فرما ۔
اے اللہ! تو ہم پر رحم نہیں فرمائے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
اے اللہ! دنیا میں بھی بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا درود و سلام نازل ہو محمد ﷺ، آل محمد ﷺ پر اورہرطرح کی تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔
خطبة الجمعة مسجد حرام: فضیلة الشیخ ڈاکٹر اسامه خیاط حفظه اللہ
23 ذي الحجة 1443ھ بمطابق 22 جولائی 2022