ڈینگی بخار طبی و شرعی رہنمائی اور احتیاطی تدابیر

خالق کائنات نے انسان کو روئے زمین پر سب سے عظیم اور معزز ترین مخلوق  بنایا ہے،انسانی ساخت اور اس کی تخلیق میں اتار چڑھاؤ موجود ہے۔ یہ پیدا ئش کے بعد بچپن ، لڑکپن اور جوانی کی منازل طے کرتا ہے تو بڑھاپے جیسی کمزوری و نکاہت کا بھی اسے سامنا کرنا پڑتا ہے ، زندگی کے نشیب و فراز اس کی تخلیق کا حصہ ہیں خوشحالی ہے تو کبھی غمی بھی آئے گی اور صحت ہے تو کبھی بیماری بھی لاحق ہوسکتی ہے ، خالق کائنات نے اگر ان امور کو انسانی تخلیق کا حصہ بنایا ہے  تو یہ حکمت سے خالی نہیں ساتھ ہی ان تمام احوال و ظروف کے مطابق شریعت کی تعلیمات ، آداب اور راہنمائیاں بھی موجود ہیں۔ جن پر کاربند رہنے والا شخص دنیا میں بھی  محفوظ و مامون رہتا ہے اور اخروی خیر بھی سمیٹتا ہے۔ اس مضمون میں بالخصوص ڈینگی بخار کے حوالےسے شرعی تعلیمات کا بیان مقصود ہے۔

ڈینگی بخار مچھروں کی ایک قسم (Aedes)کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو خود ڈینگی وائرس سے متاثر ہوتا ہے اور کاٹنے کے بعد خون میں وائرس کو منتقل کردیتا ہے۔ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والے امراض  میں سے ایک ہے ، ایک اندازے کے مطابق ہر سال  اس کے باعث  بیمار ہونے والوں کی تعداد ساڑھے نو  کروڑ سے متجاوز ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مچھر 10 سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت میں پرورش پاتا ہے اور اس سے کم یا زیادہ درجۂ حرارت میں مر جاتا ہے۔  گزشتہ کچھ برسوں سے  پاکستان میں بھی یہ مرض پایا گیا ہے۔ پاکستان اور پوری دنیا میں ڈینگی پھیلانے والا ایڈیِز ایجپٹی دھبے دار جلد والا یہ مچھر پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے بعد ستمبر سے لے کر دسمبر تک موجود رہتا ہے۔    البتہ بہت کم مریضوں میں یہ  جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

ڈینگی بخار کی علامات

ڈینگی بخار کی جو علامات بیان کی جاتی ہیں ۔ ان علامات میں سے چند ایک یہ ہیں۔

  • تیز بخار
  • شدید سردرد
  • قے، متلی
  • جوڑوں اور مسلز میں شدید تکلیف
  • جلد پر خارش (جو بخار ہونے کے بعد 2 سے 5 دن میں ہوتی ہے)
  • ناک، مسوڑوں سے  خون آنا  قابل ذکر ہیں۔

عام طور پر یہ معمولی حد تک ہوتی ہیں البتہ  سنگین علامات کے نتیجے میں خون کا اخراج بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے اور موت کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

ڈینگی کی تشخیص   

ڈینگی کی تشخیص ایک بلڈ ٹیسٹ  کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے۔

نیوکلیک ایسڈ ایمپلیفیکیشن ٹیسٹ(Nucleic acid amplification test)

یہ ٹیسٹ علامات ظاہر ہونے کے سات  یا اس سے کم دن میں  کیا جاتا ہے اور یہ انسان کے سیرم (Serum) میں وائرس کےجینیٹک میٹیریل  (The genetic material of the virus)کی موجودگی بتاتا ہے۔ 

  سیرولوجیکل ٹیسٹس   (Serological tests)

یہ علامات ظاہر ہونے کے سات دن بعد کیا جاتا ہے۔ خون میں وائرس کے خلاف بننے والی اینٹی باڈیز کی موجودگی  جاننے کے لیے یہ ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ ۔ آئی جی اے انفیکشن کے 5 دن بعد جبکہ آئی جی ایم دو  سے چار  ہفتوں بعد بنتی ہیں ۔دونوں ٹیسٹ کرنے کے بعد   مرض کے ابتدائی دنوں میں وائرس کا جینیٹک میٹریل کا مریض کے خون میں پایا جانا اور سات دنوں کے بعد کیے جانے والے ٹیسٹ میں اینٹی باڈیز  کی موجودگی سے ڈینگی کی تشخیص ہوجاتی ہے۔  مرض کی شدت علامات یا مرض کے اثرات سے واضح ہوجاتی ہے۔

ڈینگی کا علاج

  • ڈینگی بخار ہونے کی صورت میں آرا م کیا جائے ۔
  • کثرت سے پانی پیا جائے  ۔
  • ڈینگی کا مریض درد کش ادویات جیسے پیناڈول ،  پیراسیٹامول استعمال کرسکتا ہے مگر اسپرین سے گریز کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ خون کا اخراج بدتر کرسکتی ہے۔مزید اس  سلسلے میں ڈاکٹر  کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔

 احتیاطی تدابیر

اس سلسلے میں چند امور احتیاطی تدابیر کے طور پر اختیار کیے جائیں تو اس مرض سے بچا جاسکتا ہے ۔

  • ڈینگی  کے لیے ایک ویکسین ڈینگویکسیا  (Denguexia)  ہے  جوکہ سال میں  تین بار لگائی جاتی ہے  گوکہ یہ مکمل طور پر مؤثر نہیں البتہ کسی حد تک مفید ضرور ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ باقی احتیاطی امور کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
  • ان جگہوں سے گریز کریں جہاں مچھر بہت زیادہ ہوں اور مچھروں سے بچاؤ کے لیے درج ذیل اموراختیار کیے  جاسکتے ہیں ۔
  • گھر میں پنکھوں یا  ائیر کنڈیشنڈ (Air conditioned) کے استعمال  سے مچھر بھاگ جاتے ہیں۔
  • موسکیٹو ریپیلنٹس (Mosquito repellents) کا استعمال کریں ۔
  • آستینوں والی قمیض   اور جرابیں پہنیں  تاکہ  جسم کے ننگے حصے پر مچھر نہ کاٹیں ۔
  • کھڑکیاں اور دروازوں  کو بند رکھیں تاکہ مچھر نہ آئیں۔ اس حوالے سے شرعی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ  غروب آفتاب کے وقت کھڑکیاں دروازے بند  ہوں ۔
  • مچھروں سے بچاؤ کے نیٹ استعمال کریں۔
  • کھلے برتنوں  ، پرانے ٹائروں میں  پانی اکٹھا نہ ہونے دیں۔ اور انہیں کھلا نہ چھوڑیں ، ایسی جگہوں پر مچھر جمع ہوتے ہیں۔

شرعی رہنمائی

دین اسلام دستور حیات ہے ، انسانی ضرورت سے متعلقہ ہر اہم اصول بیان کردیا گیا ہے۔ جن میں سے چند ایک پیشِ خدمت ہیں۔ 

  • دین اسلام  صفائی اور طہارت کا حکم دیتا ہے ، اگر صفائی کے اصولوں پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو ں تو اس مرض کا کوئی نشان باقی نہ رہے کیونکہ مرض  مچھر کے کاٹنے کے باعث وجود میں آتا ہے اور مچھر گندگی کی جگہوں میں پایا جاتا ہے ۔ اس لیے اس کا بنیادی حل یہی ہے کہ حد درجہ گندگی سے محفوظ رہا جائے ۔ خود کو ، گھر ، دفتر اور ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔
  • طبی احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر مرض لاحق ہوجائے تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے صبر کرنا چاہیے  اور مایوسی سے خود کو بچانا چاہیے۔
  • علاج کروانا شرعاً جائز ہے اس لیے علاج کروایا جائے البتہ کسی شے میں علاج کی تاثیر فی نفسہ اس کی اپنی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور یہ علاج  و شفاء بھی اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے ہوگی ، اسی لیے ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں  تو  اللہ تعالیٰ مجھے شفاء دیتا ہے۔
  • بیمار آدمی صبر کرے  کیونکہ صبر کا اجربے حساب ہوتا ہے ۔ بیمار آدمی جب بیماری میں صبر اختیار کرتا ہے تو بیماری بھی اس کے لیے گناہوں کی معافی کا سبب بن جاتی ہے۔
  • اپنے رب سے تعلق کو مضبوط بنائیں   اس  کی مختلف صورتیں ہیں ۔مثلاً
  • مرض میں جتنی  بھی شدت ہو نماز ترک نہ کریں  ۔ نبی کریم ﷺ آخری ایام میں بھی نمازوں کے لیے بڑے فکر مند رہتے ،  بیماری کی شدت کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہوجاتی تو جب ہوش میں آتے نماز کی ہی فکر کرتے ۔ آپ ﷺ کی آخری وصیتوں میں سے ایک وصیت نماز کے بارے میں ہی تھی۔ نبی کریم ﷺ نماز کو آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ اس لیے بیماری کے دنوں میں  بھی نماز کا اہتمام کرنا فائدے سے خالی نہیں اس سے مرض کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا اور اللہ رب العالمین سے تعلق بھی مضبوط ہوجائے  گا۔ نماز کے تعلق سے شریعت نے یہ سہوت و رخصت رکھی ہے کہ بیمار بیٹھ کر ، لیٹ کر یا اشاروں سے جیسے اس کے لیے ممکن  ہو نماز ادا کرسکتا ہے۔
  • کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے اور استغفار کریں۔ ان دنوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر  کے لیے غنیمت سمجھا جائے ۔ قرآنی آیات ، مسنون اذکار پڑھ کر دم بھی کرنا چاہیے۔
  • دعائیں ۔ بیماری کے حوالے سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں ، التجائیں بھی کرنی چاہییں۔  اللہ تعالیٰ سے اپنی اور دوسروں کی بیماری کی شفاء مانگی جائے اور دیگر لوگوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

الشیخ ڈاکٹر حافظ محمد یونس اثری حفظہ اللہ: