● برصغیر میں اسلامی مدارس کا قیام اورکفالت پہلے تو ریاستی ذمے داری ہوا کرتی تھی اور مدارس کا نظم ونسق چلانے کے لیے مستقل اوقاف قائم کیے گئے تھے۔ مگر جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا اور یہاں انگریز قابض ہو گیا تو یہ مدارس مختلف جمعیتوں اور اصحابِ ثروت مہتممین کی سرپرستی میں کام کرنے لگے۔
● دینی مدارس کا انتظام وانتصرام سنبھالنے والے شخص کو مہتمم کہا جاتا ہے جس کی بنیادی ذمے داری ادارے کی تعلیمی وانتظامی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں مہتمم کے منصب پر فائز بعض شخصیات کی علم پروری، طلبہ واساتذہ سے محبت اور اخلاص وللہیت کی ایسی روشن مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ مہتمم کے منصب پر فائز یہ عظماء جب عملا ایک خادم بن جاتے ہیں اور طلبہ کی خدمت ایک سعادت سمجھ کر بجا لاتے ہیں۔ یقینا یہ پڑھ کر انسان ورطہ حیرت میں پڑ جاتا اور ایمان وعمل کو ولولہ تازہ ملتا ہے۔
● ذیل میں ہم اپنے عہد کے تین نامور اہل حدیث اداروں کے تین مہتممین کے چند ایمان افروز واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں جو یقینا آج بھی ہم سب کے لیے بالعموم اور اربابِ مدارس کے لیے بالخصوص مشعلِ راہ ہیں۔ واللہ الموفق
ہندوستان میں دہلی کے علاقے پھاٹک حبش خان میں قائم ایک مدرسے کو دنیا مدرسہ میاں صاحب کے نام سے جانتی ہے جس کے مہتمم اور صدر مدرس شیخ الکل میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ (وفات: 1902ء) تھے۔ مدرسے کا یہ مہتمم اپنے طلبہ کا کس قدر خیر خواہ اور ان کی ضروریات کے بارے میں کتنا فکر مند تھا، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے دہلی کے حافظ محمد صدیق صاحب فرماتے ہیں:
ایک روز شام کے وقت بے حد بارش ہوئی، نیز سخت اولے پڑے اور بازاروں میں پانی بھر گیا۔ سردی کا موسم تھا، حضرت میاں صاحب مغرب کے بعد گھر تشریف لے جا چکے تھے، لیکن تمام طلباء مسجد میں رکے رہے اور اپنے کھانے کا بندوبست نہ کر سکے۔ رات گیارہ بجے کے قریب بارش تھمی تو مسجد کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ دروازہ کھولا گیا تو حضرت میاں صاحب مرحوم تھے جو اپنے گھر سے سارا کھانا اٹھا لائے تھے، تاکہ طلبا بھوکے نہ رہیں۔ اللہ اکبر! آج ایسے پاک نفس انسان کہاں ملتے ہیں !
نیز حافظ صاحب صدیق صاحب فرماتے ہیں کہ ہم صبح کی نماز حضرت میاں صاحب کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ آپ آخری عمر میں صبح کی نماز میں عموماً سورہ مرسلات پڑھا کرتےتھے۔ جب
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ
[سورۃ المرسلات :50]
اب اس قرآن کے بعد کس بات پر ایمان ﻻئیں گے؟
پر آتے تو آواز بھرا جاتی اور ایسی تاثیر پیدا ہو جاتی کہ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آتے۔ نماز میں ایسا لطف پھر کبھی نہیں ملا۔” (سفر نامہ حجاز، مولانا مہر ۔ ص: 59)
طلبہ کی ایسی خدمت حضرت میاں صاحب کا مستقل شعار تھا، جیسا کہ مولانا محمد اسحاق بھٹی نے اپنی کتاب ‘قصوری خاندان’ (ص:102) میں ایک ایسا ہی واقعہ لکھا ہے کہ جب سید عبد اللہ غزنوی اور مولانا غلام رسول قلعہ میہاں سنگھ والے حضرت میاں صاحب کے مدرسے میں پڑھنے کے لیے دہلی پہنچے اور اڈے پر اترے تو وہاں کھڑے ایک بوڑھے آدمی نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ جب غزنوی صاحب نے بتایا کہ مدرسہ میاں صاحب جانا ہے تو بزرگ نے ان کا سامان اٹھا لیا اور کہا کہ مجھے علم ہے، میں آپ کو وہاں پہنچا دیتا ہوں۔ جب یہ سب مسجد میں پہنچے تو وہ بوڑھا قلی سامان رکھ کر چلا گیا۔ دونوں حیران کہ یہ قلی کیسا عجیب آدمی ہے، اپنے پیسے بھی نہیں لیے اور غائب ہو گیا۔
جب یوں ہی کچھ دیر گزر گئی تو سید عبد اللہ نے وہاں موجود ایک شخص سے پوچھا: حضرت میاں صاحب کب آئیں گے؟ اس آدمی نے حیرانی سے جواب دیا: بھئی جو آپ کا سامان اٹھا کر لائے تھے، یہی تو میاں صاحب تھے، غالبا اب آپ کے کھانے کا بندوبست کرنے گھر گئے ہیں۔ اس پر دونوں حضرات بڑے نادم ہوئے۔ جب کچھ دیر بعد وہی “بوڑھا قلی” کھانا لے کر حاضر ہوا تو دونوں بزرگ معذرت کرنے لگے، جس پر میاں صاحب نے فرمایا: آپ لوگ تحصیلِ حدیث کے لیے تشریف لائے ہیں اور حدیث سوائے خدمتِ خلق کے اور کیا ہے؟ آج یہی حدیث کا پہلا سبق تھا۔
۔ حضرت میاں نذیر حسین صاحب ہی کے ایک شاگرد مولانا ابراہیم آروی( وفات:1901ء) نے آرہ شہر میں مدرسہ احمدیہ (1880ء) کے نام سے ایک دینی ادارہ قائم کیا تھا جس میں ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار طلبہ کا ہاسٹل بنایا گیا اور نصاب تعلیم میں پہلی مرتبہ اصلاح وتجدید کی کوشش ہوئی۔ مختلف علوم وفنون پرنئی کتب تیار ہوئیں، علوم آلیہ کے ساتھ علوم شرعیہ بالخصوص علم حدیث پر خصوصی توجہ دی گئی، نصاب میں انگلش زبان کی تعلیم لازم کی گئی، اور یہ سب کچھ ندوہ العلماء لکھنو کے قیام سے قبل کی بات ہے۔
مولانا آروی نے مدرسہ احمدیہ کی تعمیر وترقی میں اپنی عمر کھپا دی اور دن رات اسی کی فکر میں لگے رہتے۔ ہندوستان بھر کے زعماء واکابر سالانہ جلسہ ” مذاکرہ علمیہ” پر وہاں آتے اور مدرسے کے نصاب ونظام کے متعلق صلاح ومشورے ہوتے۔ مدرسے کی تعلیمی وانتظامی ضروریات ہوں یا مالی امور، سبھی کچھ مولانا آروی ہی کی سعی سے انجام پاتے، اور اس کے لیے آپ شب وروز کس قدر کوشاں رہتے، یہ جاننے کے لیے ایک عبرت انگیز واقعہ سنیے!
جناب محمد تنزیل صدیقی صاحب مدرسہ احمدیہ سے مولانا آروی کے غیر معمولی لگاو اور اخلاص وللہیت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” آپ کی عظمت سے متعلق ایک واقعہ ہے جس میں ہمارے لیے عبرت کے ہزاروں پہلو پنہاں ہیں۔ اور وہ یہ کہ مدرسہ احمدیہ کی ضروریات کی تکمیل میں جب کبھی مالی پریشانی لاحق ہوتی تھی تو یہ مردِ درویش آرہ اسٹیشن پر رات کی تاریکی میں قلی گیری کر کے اور پچھلے پہر بذات خود دارالاقامہ کے غسل خانے، پیشاب خانے اور پائے خانوں وغیرہ کی صفائی کر کے مالی بحران پر قابو پاتا تھا۔ کیا خیر القرون کو چھوڑ کر ماضی میں دور دور تک کہیں اس کی مثال ملتی ہے؟ اس دور میں تو اس کا تصور بھی نا ممکن ہے۔” (دبستان نذیریہ: 459/1)
۔ 1921ء میں دہلی میں دار الحديث رحمانیہ کے نام سے اپنے عہد کا ایک منفرد اورممتازادارہ قائم ہوا جس کے ایک مہتمم شیخ عطاء الرحمن صاحب( وفات: 1937ء) تھے۔ یہ بزرگ مدرسے کے اساتذہ کو بھائیوں کی طرح چاہتےاورطلبہ سے اولاد کی طرح محبت کرتے تھے۔ اسی بنا پران کو ابو الطلباء کہا جاتا تھا۔
شیخ صاحب دہلی شہر میں وسیع وعریض کاروبار کے مالک تھے جس کی آمدن لاکھوں میں تھی۔ اس قدر دولت مند ہونے کے باوجود طلبہ کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھتے۔ روزانہ گھر سے ڈیڑھ میل پیدل چل کر مدرسے آتے اور بلند وبالا چھت پر چڑھ کر فجر سے پہلے طلبہ کو جگاتے۔ کئی طلبہ اٹھنے میں کسل مندی کا مظاہرہ کرتے، اس کے لیے آپ کو تین تین مرتبہ بھی چھت پر چڑھنا پڑتا مگر کبھی طبیعت میں ملال اور تکدر پیدا نہیں ہوا۔
جب سے مدرسہ بنا تھا، عادت تھی کہ ہر جمعہ شام کے وقت سارے اساتذہ کو اپنے گھر کھانے پر بلاتے اور خصوصی پکوان تیار کروا کر ان کی تواضع کرتے۔ بعض اوقات طلبہ واساتذہ کو پکنک کے لے نہر کنارے لے جاتے اور بڑے اہتمام کے ساتھ پھل، مٹھائی، اور کھانے پینے کی مختلف اشیاء ساتھ لے جاتے۔ طلبہ جب کھیل کود اور کھانے پینے میں مگن ہوتے تو یہ انھیں دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہوتے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی طالب علم بیمار ہو جاتا تو خود جا کر اس کی بیمار پرسی کرتے۔ ڈاکٹر وحکیم کو ہدایتیں دیتے، پھر اپنے ہاتھ سے دوا بنا کر طالب علم کو پلاتے۔
کھانا مدرسے کے اندر ہی تیار ہوتا تھا اور اس کی نگرانی خود کیا کرتے۔ کبھی کبھار اچانک کھانا منگوا کر کھایا کرتے تاکہ یہ معلوم ہو کہ باورچی نے کھانا کیسا پکایا ہے۔ علماء اور طلباء کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا اپنے لیے باعث عزت سمجھتے تھے۔
درا الحدیث رحمانیہ کے شیخ الحدیث مولانا نذیراحمد رحمانی فرماتے ہیں کہ بارہا ایسا ہوا کہ اگر کبھی ہمارے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہو سکے بلکہ طلبہ واساتذہ کو کھانا کھلانے ہی میں لگے رہے تو کھانے کے بعد روٹی کے بچے کھچے ٹکڑوں اورجوٹھے سالن کے برتنوں کو اپنے آگے رکھ لیتے اور نہایت بے تکلفی کے ساتھ کھانے لگتے۔۔۔۔۔
اللہ اللہ، کون ہے جو کروڑ پتی ہونے کے باوجود ایسے اخلاق عالیہ سے متصف ہو!!! (دار الحديث رحمانیہ دہلی، تاریخ وتعارف۔ ص :60)