قرآن کریم کےمطابق مرد و زن کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےبلاامتیازمشیتِ ایزدی کےتحت پیدافرمایا۔قرآن کریم میں انسان کی پیدائش کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:
وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
(سورۃ فاطر: 11)
اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پھر نطفہ سے پیدا کیا ہے، پھر تمہیں جوڑا (میاں بیوی) بنایا، اور کسی عورت کو نہ کوئی حمل قرار پاتا ہے اور نہ وہ کوئی بچہ جنتی ہے مگر اسے اس کا علم ہوتا ہے، اور نہ کسی بڑی عمر والے کی عمر میں کوئی اضافہ ہوتا ہے، اور نہ اس کی عمر میں کوئی کمی ہوتی ہے، مگر یہ چیز لوح محفوظ میں لکھی ہوتی ہے، بے شک یہ کام اللہ کے لئے بڑا آسان ہے۔
اس سےظاہرہوتاہےکہ اولادکی تخلیق اللہ تعالیٰ کی منشاءسےہے،والدین پیدائش کامحض وسیلہ ہیں۔اکثر افراد بیٹی کی پیدائش کوعورت کاقصور گردانتےہیں اورنوبت طلاق تک جاپہنچتی ہے۔حالانکہ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی عمل اور انتہائی غلط رویہ ہےجس کاقلع قمع کرناضروری ہے۔
دورِ جاهلیت میں بیٹیوں كی حالتِ زار
اسلام سے پہلے جہالت کے زمانے میں عورت کی کوئی قیمت نہیں تھی ، وہ چاہے کوئی بھی ہو بلکہ عورت کو بچی پیدا ہونے کی شکل میں زندہ درگور کردیا جاتا تھا ، قرآنِ کریم میں اس کا ذکرموجود ہے۔ جب رحمت کائنات حضرت محمدﷺ جملہ کائنات کےلیےرحمت للعالمین بن کر تشریف لائے۔آپﷺ نےصنفِ نازک کووہ حقوق اور مقام ومرتبہ عطاکیا جوقبل ازاسلام کوئی تہذیب و مذہب دینے سےقاصر رہے۔
عورت اگر بیوی ہے
نبی كریم ﷺ جب دنیا میں رحمت للعالمین بن كر تشریف لائے تو عورت کو وہ مقام دیا کہ عورت اگر بیوی ہے تو دنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے چنانچہ ارشادِ نبوی ہے :
الدُّنْيَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا المَرْأَةُ الصَّالِحَةُ.
( صحيح مسلم : 1467)
یہ دنیا ساری مال و متاع ہے اور دنیا میں سے سب سے قیمتی چیز نیک بیوی ہے
عورت اگر ماں ہے
عورت اگر ماں ہے تو فرمایا اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ، جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے۔
أنَّ جاهِمةَ جاءَ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، فقالَ: يا رسولَ اللَّهِ ، أردتُ أن أغزوَ وقد جئتُ أستشيرُكَ ؟ فقالَ: هل لَكَ مِن أمٍّ ؟ قالَ: نعَم ، قالَ : فالزَمها فإنَّ الجنَّةَ تحتَ رِجلَيها
(صحيح النسائي: 3104)
حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ ( میرے والد محترم ) حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! میرا ارادہ جنگ کو جانے کا ہے جبکہ میں آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تیری والدہ ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا :’’ اس کے پاس ہی رہ ( اور خدمت کر ) ۔ جنت اس کے پاؤں تلے ہے ۔‘‘
عورت اگربہن یا بیٹی ہے
عورت اگربہن یا بیٹی ہے تو جہنم کی راہ میں دیوار هے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ کُنَّ لَه ثَلَاثُ بَنَاتٍ اَوْ ثَلَاثُ أخَوَاتٍ، أوْ بِنْتَانِ، أو أخْتَانِِ اِتَّقَی اللّٰہَ فِیْھِنَّ، وَاَحْسَنَ اِلَیْھِنَّ حَتّٰی یُبِنَّ أوْ یَمُتْنَ کُنَّ لَه حِجَابًا مِنَ النَّارِ
(مسند أحمد: 9043 بسند صحیح )
جس کی تین بیٹیاں،یا تین بہنیں،یا دو بیٹیاں،یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور ان کے ساتھ احسان کرے، یہاں تک کہ وہ اس سے جدا ہو جائیں یا فوت ہو جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پردہ ہوں گی۔
لوگ جس عورت کوزحمت اوررُسوائی کاسبب سمجھتے تھے۔سرورِ کونین ﷺنےاسی عورت کوبیٹی کےروپ میں باپ کے لیے رحمت، بھائی کےلیےعزت،بیوی کےروپ میں شوہر کےایمان کی محافظ اور ماں کےقدموں تلےجنت کی بشارت عطاکی۔مگر اس کے باوجود کچھ ناعاقبت اندیش آج بھی بیٹی کو اپنے لئے عار محسوس کرتے ہیں ، چنانچہ اس حوالے سے چند باتیں قرآن وھدیث کی روشنی میں قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ بیٹی کی شان وعظمت معلوم ہوسکے اور لوگوں کے دلوں میں زیادہ سے زیادہ بیٹی کی محبت اور پیار پیدا ہوسکے ۔
لڑکی یا لڑکا دینا اللہ کا فیصلہ ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
“لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَ ۔ اَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًا وَ يَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا اِنَّه عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ
(الشورٰی : 49، 50 )
“آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، وه جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۔وہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے، یا انھیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، یقیناً وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
اسحاق بن بشر سے مروی ہے کہ :
’’یہ آیت در اصل انبیاء کے متعلق نازل ہوئی ہے اور اس کا حکم عمومی ہے، لوط علیہ السلام کی صرف بیٹیاں تھیں، کوئی بیٹا نہیں تھا، اس کے برعکس ابراہیم علیہ السلام کے صرف بیٹے تھے، بیٹی کوئی نہیں تھی، نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کیے جبکہ یحیی بن زکریا علیہ السلام بے اولاد تھے۔ (تفسیر ابن عطية: 5/ 43(
عورت قصور وار نہیں
بیٹی یا بیٹا جنم دینا میاں بیوی دونوں کے اختیا رمیں نہیں ہے ، اس میں بیوی کا کوئی قصور نہیں ہے، بلکہ میاں بیوی دونوں بے قصور ہیں ، بیٹی یا بیٹا دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ،کیونکہ وہی مختار کل ہے ؛ وہی زمین وآسمان کا مالک ہے ، دنیا کے کسی نبی ،ولی ،پیر ،یا دستگیر کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ۔دنیا کےکتنے جابر وظالم بادشاہ ، حکمران ، سپہ سالار ،اورکتنے ماہر ڈاکٹر اور حکیم اولاد سے محروم رہے ، کتنے لوگ بیٹے کے لئے ترستے رہے ،اور کتنے لوگ بیٹی کی خواہش دل میں لیے دنیا سے چلے گئے ۔ یہ سب کچھ اللہ کی عطا ہےوہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے، جسے چاہتا ہےبیٹے اور بیٹیاں دونوں ملاکرعطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے ۔ نہ اس کو بیٹا دیتا ہے اور نہ ہی بیٹی ۔لہذا کسی کو ذرہ برابر بھی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اللہ کے نزدیک بیٹی کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیٹی کو مقدم کرتے ہوئے فرمایا :
يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَ
(سورۃ الشورٰی : 49)
’’وہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے‘‘
مذکورہ بالا آیت میں ہم اس بات کو محسوس کرسکتے ہیں کہ اللہ عز وجل نے بیٹوں سے قبل بیٹیوں کا ذکر فرمایااور علماء نے اس سلسلہ میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ :
بیٹوں پر بیٹیوں کے ذکر کو مقدم کرنے میں بیٹیوں کی اہمیت و فضیلت کو اجاگر کرنے اور ان کے تئیں مشفقانہ رویہ اختیار کرنے کی تاکید مقصود ہے، کیونکہ ہر دور میں بہت سے والدین میں بیٹی کی پیدائش پر بوجھ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کی پیدائش پراس حد تک نفرت انگیز طریقہ کار اختیار کیا جاتا تھاکہ وہ انہیں زندہ درگور کرنے سے بھی کتراتے نہ تھے۔ لہٰذا اس آیت میں گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ : تمہاری نگاہوں میں یہ کمتر اور حقیر بچی، میری نگاہوں میں سب سے زیادہ مقدم ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے بیٹیوں کا ذکر اس لئے فرمایا تاکہ ان کی صنفی نزاکت کی جانب توجہ مبذول کرے اور یہ کہ ان پر بہت زیادہ توجہ اور نگہبانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔”
امام ابن القیم رحمه الله فرماتے هیں :
وعندي وجه آخر :وهو أنه سبحانه قدم ما كانت تؤخره الجاهلية من أمر البنات، حتى كأن الغرض بيان أن هذا النوع المؤخر الحقير عندكم مقدم عندي في الذكر.
(تفسير القرآن الكريم – ابن القيم – ج 1،ص: 469)
میرے نزدیك اس كی ایك اور حكمت یه هے كه الله تعالٰ نے بیٹیوں كو اس لئے مقدم كیا كیونكہ اہل جاهلیت بیٹیوں كو مؤخر كیا كرتے تھے ۔گویا یه بیان كرنا مقصودتھاكہ تمهاری طرف سے نظر انداز كی هوئی یه حقیر چیز میرے نزدیك ذكر میں مقدم ہے ۔
لڑکیاں اور لڑکے دونوں اللہ کی نعمت ہیں۔ دونوں کی ضرورت ہے۔ عورتیں مرد کی محتاج ہیں، اور مرد عورتوں کے محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے دنیا میں ایسا نظام قائم کیا ہے کہ جس میں دونوں کی ضرورت ہے اور دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔
اللہ کی اِس حکمت اور مصلحت کی روشنی میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو ہم میں سے بعض احباب ایسے نظر آئیں گے کہ جن کے یہاں لڑکے کی بڑی آرزوئیں اور تمنائیں کی جاتی ہیں، جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس وقت بہت خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور اگر لڑکی پیدا ہوجائے تو غم اور دکھ کا اظہار کیا جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات بچی کی پیدائش پر شوہر اپنی بیوی پر، اسی طرح گھر کے دیگر افراد عورت پر ناراض ہوتے ہیں، حالانکہ اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں ہے ۔
بیٹی کی پیدائش پر افسردہ ہونا کافروں کی صفت ہے
چنانچہ قرآنِ مجید نے اِن ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے :
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ۔ يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
(سورۃ النحل: 59،58)
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا منہ دن بھر کالا رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس خوش خبری کی برائی کی وجہ سے جو اسے دی گئی۔ آیا اسے ذلت کے باوجود رکھ لے، یا اسے مٹی میں دبا دے۔ سن لو! برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔
یعنی لڑکی کی پیدائش کی خبر سن کر سارا دن غم کی وجہ سے اس کا منہ کالا رہتا ہے، مگر وہ غم سے بھرا ہونے کے باوجود اظہار نہیں کرتا۔ اپنے خیال میں اب وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا، اس لیے اس خوش خبری کو وہ اتنا برا سمجھتا ہے کہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے، آیا اسے اپنے پاس رکھے اور جاہل معاشرے کی نظر میں ذلیل ہو کر رہنا برداشت کرے یا اسے مٹی میں چھپا دے، یعنی زندہ دفن کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصاً متوجہ کرنے کے لیے فرمایا ’’ اَلَا ‘‘ سن لو، خبردار ہو جاؤ، یہ دونوں فیصلے ہی بہت برے ہیں۔ لڑکی کو حقیر اور ذلیل کر کے رکھنا بھی اور اسے زندہ درگور کرنا بھی۔
اولاد کو قتل کرنے کی ممانعت
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا
(سورۃ الإسراء : 31)
اور مفلسی کے اندیشہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ انھیں اور خود تمہیں بھی رزق ہم دیتے ہیں۔ انھیں قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیاکہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے :آپ ﷺ نے فرمایا:
أنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وهو خَلَقَكَ. قُلتُ: ثُمَّ أيٌّ؟ قالَ: ثُمَّ أنْ تَقْتُلَ ولَدَكَ خَشْيَةَ أنْ يَطْعَمَ معكَ. قُلتُ: ثُمَّ أيٌّ؟ قالَ: أنْ تُزَانِيَ بحَلِيلَةِ جَارِكَ.
(صحيح البخاري: 4761)
کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ کی وجہ سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسا؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔
اگرچہ اولاد میں لڑکے لڑکیاں دونوں شامل ہیں، مگر عرب کی تاریخ میں اکثر لڑکیوں ہی کو قتل کرنے کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَ اِذَا الْمَوْءدَةُ سُىِٕلَتْ
(سورہ التکویر : 8 )
’’اور جب زندہ دفن کی گئی سے پوچھا جائے گا۔‘‘ یہاں پر ’’الْمَوْءدَةُ ‘‘ مؤنث لانے سے ظاہر یہی ہے کہ زندہ درگور لڑکی ہی ہوتی تھی، لیکن اگر اسے ’’نفس موء ودہ‘‘ کہا جائے توپھر لڑکا لڑکی دونوں مراد ہو سکتے ہیں، کیونکہ ’’نفس‘‘ کا لفظ زبان عرب میں مؤنث ہے، سو معنی ہو گا : ’’اور جب زندہ درگور کی ہوئی جان سے سوال کیا جائے گا۔‘‘ اور اگرچہ عام طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ وہ لڑکی کو غیرت کی وجہ سے قتل کرتے تھے، مگر اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں ہو سکتا۔ اس نے مطلق اولاد لڑکے لڑکی دونوں کا ذکر فرمایا ہے اور قتل کا سبب موجودہ فقر یا آئندہ فقر کا خوف بیان فرمایا ہے، ہاں یہ درست ہے کہ اولاد کو قتل کا باعث فقر کے علاوہ بے جا غیرت بھی تھا۔
مفلسی کے ڈر سے قتل اولاد اور منصوبہ بندی
مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت پر عدم توکل یا براہ راست حملہ کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ تمہیں بھی تو ہم رزق دے ہی رہے ہیں اور جیسے تمہیں دے رہے ہیں ویسے تمہاری اولاد کو بھی ضرور دیں گے اور اگر تمہیں مفلسی کا اتنا ہی ڈر ہے تو پہلے تمہیں خود مر جانا چاہیے۔ اولاد کو کیوں مارتے ہو؟ تاکہ تمہاری یہ فکر ہی ختم ہوجائے اور آخر میں یہ فرما دیا کہ تمہارا یہ کام بہت بڑا گناہ کا کام ہے۔
عرب میں تو قتل اولاد کا سلسلہ انفرادی طور پر ہوتا تھا مگر آج کل ایسے ہی کام اجتماعی طور پر اور حکومتوں کی طرف سے ہو رہے ہیں اور حکومت کے ان محکموں کے لیے بڑے اچھے اچھے نام تجویز کیے جاتے ہیں جیسے محکمہ خاندانی منصوبہ بندی یا محکمہ بہبود آبادی۔ اور اس کام کا جذبہ محرکہ وہی ”مفلسی کا ڈر” ہے۔
اسلام میں بیٹی کی فضیلت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا
(سورۃ الکہف: 46)
مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب میں بہتر اور امید کی رو سے زیادہ اچھی ہیں۔ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقیات صالحات آپ کے رب کے ہاں ثواب میں اور امید کی رُو سے زیادہ اچھی ہیں۔] اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ’’الباقیات الصالحات ‘‘ یعنی باقی رہنے والی نیکیوں کو کو ثواب اور امید کے اعتبار سے مال اور بیٹوں سے بہتر قرار دیا۔
الباقیات الصالحات سے کیا مراد ہے ؟
الباقیات الصالحات کے بارے میں مفسرین کے ایک سے زیادہ اقوال ہیں۔ امام عبید بن عمیررحمہ اللہ جو کبار تابعین اور مکہ مکرمہ میں موجود تابعین کے ائمہ میں سے تھے، سنہ ۶۸ ہجری میں میں فوت ہوئے ۔ان کے قول کے مطابق الباقیات االصالحات سے مراد نیک بیٹیاں ہیں۔ چنانچہ علامہ قرطبی نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے آیت شریفہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
یَعْنِي الْبَنَاتِ الصَّالِحَاتِ ھُنَّ عِنْدَ اللّٰہِ لِآبَائِھِنَّ خَیْرٌ ثَوَابًا، وَخَیْرٌ أَمَلًا فِيْ الْآخِرَۃِ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ
( تفسیر القرطبي ، ج 10 ، ص: 415،416 )
یعنی نیك بیٹیاں الله تعالیٰ كے هاں اپنے احسان كرنے والے باپوں كے لئے آخرت میں ثواب اوراچھی امید كے اعتبار سے بہتر ہیں
بیٹیوں کو ناپسند کرنے کی ممانعت
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔
لَا تَكْرَهُوا الْبَنَاتِ، فَإِنَّهُنَّ الْمُؤْنِسَاتُ الْغَالِيَات
(السلسلة الصحیحة : 3206 )
بیٹیوں کو نا پسند نہ کرو کیونکہ یہ بہت پیار کرنے والی اور قیمتی چیزہیں ۔
بیٹی کو ناپسند کرنا حماقت اور خلاف فطرت ہے
انتہائی افسوس کی بات ہے کہہ بیٹی کو منحوس اور نامبارک سمجھی جانے والی زمانۂ جاہلیت کی یہ قبیح اور بری رسم آج بھی ہم مسلمانوں میں موجودہے، ہم مسلمانوں کی اکثریت بیٹی کی پیدائش کو اچھا نہیں سمجھتی،بیٹی کو بوجھ سمجھتی ہے، اور اُس کو انتہائی حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، آج بھی بعض لوگوں میں یہ جہالت پائی جاتی ہے کہ مرد ، بیوی کی حیثیت سے تو لڑکی کو پسند کرتا ہے مگر بیٹی کی حیثیت سے اسے ناپسند کرتا ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس کی بیوی بھی آخر کسی کی بیٹی ہے اور اگر بیٹی کا وجود ختم ہوجائے تو نہ کوئی بیوی بن سکے اور نہ ہی نسل انسانی آگے چل سکے، لہٰذا بیٹی کو ناپسند کرنا حماقت اور خلاف فطرت ہے۔
انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے
امام احمدکے صاحبزادے صالح بیان کرتے ہیں کہ جب ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی ، تو وہ فرماتے :
اَ لْأَنْبِیَاء کَانُوا آبَاء بَنَاتٍ۔
(تحفة المودود بأحکام المولود، ص: 32)
انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘
بیٹی دل كا ٹكرا هے
نبی کریم ﷺ نے اپنی بیٹی کو اپنا جگر گوشہ قرار دیتے ہوئے بیٹی کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی قرار دیا اورفرمایا:
فاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي، فمَن أغْضَبَها أغْضَبَنِي.
(صحيح البخاري: 3767)
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔
بیٹیاں اپنے والد کو جنت میں داخل کریں گی
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ما مِن رجلٍ تدرِكُ لَهُ ابنتانِ، فيُحسِنُ إليهما ما صحِبتاهُ أو صحبَهُما إلَّا أدخَلَتاهُ الجنَّةَ )
(صحيح ابن ماجه: 2975
جس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوئیں جب تک وہ اس کے پاس رہیں،اس نے ان سے اچھا سلوک کیا، تو وہ دونوں اسے جنت میں داخل کر دیں گی۔
بیٹیوں کی پرورش کرنے والے کو جنت میں نبی ﷺ کی صحبت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من عالَ جاريتينِ دخلتُ أنا وَهوَ الجنَّةَ كَهاتين وأشارَ بأصبُعَيْهِ”
( صحیح مسلم :2631)
”جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی تو وہ اور میں جنت میں اس طرح داخل ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں .آپ ﷺ نے کیفیت بتانے کیلئے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔
بیٹاں باپ کے لئے جہنم سے پردہ هیں
مَن كانَ لَهُ ثلاثُ بَناتٍ فصبرَ عليهنَّ، وأطعمَهُنَّ، وسقاهنَّ، وَكَساهنَّ مِن جِدَتِهِ كنَّ لَهُ حجابًا منَ النَّارِ يومَ القيامَةِ
(صحيح ابن ماجه: 2974، وأحمد :17403)
جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں ،اور وہ ان پر صبر کرے ،انہیں اپنی استطاعت کے مطابق کھلائے ،پلائے ،اورپہنائے ،توق وہ اس کے لئے روز قیامت جہنم کی آگ سے پردہ بن جائیں گی ۔
بیٹیاں جہنم سے نجات کا ذریعہ ہیں
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن ابتُلِيَ بشيءٍ منَ البَناتِ فصَبرَ عليهنَّ كنَّ لَهُ حِجابًا منَ النَّارِ “.
(صحيح الترمذي: 1913)
جو شخص بیٹیوں کی پرورش سے دوچار ہوجائے، اور اس نے ان کی پرورش میں آنے والی مصیبتوں پر صبرکیا تو یہ سب بیٹیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جائیں گی ”۔
بیٹی یا بهن كی اچھی تربیت دخولِ جنت کا ذریعہ ہے
مَنْ كان لهُ ثلاثُ بناتٍ أوْ ثلاثُ أَخَوَاتٍ ، أوْ بنَتَانِ ، أوْ أُخْتَانِ ، فَأحسنَ صُحْبَتَهُنَّ واتَّقَى اللهَ فيهِنَّ ؛ فَلهُ الجنةُ
(صحيح الترغيب: 1973 وصحيح الأدب المفرد: 59)
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” جس کے پاس تین لڑکیاں، یا تین بہنیں، یا دولڑکیاں، یادوبہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اوران کے حقوق کے سلسلے میں اللہ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے۔
بیٹیوں کو کھلانے پلانے والی والدہ کے لئے جنت واجب هے
دخَلت على عائشَةَ امرأةٌ معَها ابنتانِ لَها ، فأعطَتها ثلاثَ تمراتٍ ، فأعطَت كلَّ واحدةٍ منهما تمرةً ، ثمَّ صَدعتِ الباقيةَ بينَهُما ، قالت : فأتى النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ، فحدَّثتُهُ ، فقالَ : ما عجبُكِ ، لقد دخلَت بِهِ الجنَّةَ
(صحيح ابن ماجة : 2973)
ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئی، تو انہوں نے اس عورت کو تین کھجوریں دیں ، اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں بیٹیوں کو دی ، اور تیسری کھجور کے (بھی )دو ٹکڑے کر کے دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردی ، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺنے فرمایا : تمہیں تعجب کیوں ہے ؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگئی ہے۔
یہی واقعہ صحیح مسلم میں قدرے الفاط کے اختلاف کے ساتھ اس طرح موجود ہے ،ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ :
جَاءَتْنِي مِسْكِينَةٌ تَحْمِلُ ابْنَتَيْنِ لَهَا، فأطْعَمْتُهَا ثَلَاثَ تَمَرَاتٍ، فأعْطَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ منهما تَمْرَةً، وَرَفَعَتْ إلى فِيهَا تَمْرَةً لِتَأْكُلَهَا، فَاسْتَطْعَمَتْهَا ابْنَتَاهَا، فَشَقَّتِ التَّمْرَةَ، الَّتي كَانَتْ تُرِيدُ أَنْ تَأْكُلَهَا بيْنَهُمَا، فأعْجَبَنِي شَأْنُهَا، فَذَكَرْتُ الذي صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، فَقالَ: إنَّ اللَّهَ قدْ أَوْجَبَ لَهَا بهَا الجَنَّةَ، أَوْ أَعْتَقَهَا بهَا مِنَ النَّارِ.
(صحيح مسلم : 2630)
میرے پاس ایک مسکین عورت آئی، اس نے دو بچیاں اٹھائی ہوئی تھیں، میں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس نے ہر ایک بیٹی کو ایک ایک کھجور دی اور ایک خود کھانے کے لیے منہ کی طرف اٹھائی، لیکن اس کی دونوں بیٹیوں نے وہ کھجور بھی اس سے لینا چاہی، پس اس نے اس کھجور کے ٹکڑے کیے اور ان دونوں کو دے دیے، مجھے اس کی اس عمل نے تعجب میں ڈال دیا اور جب میں نے اس کا عمل رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں تعجب کیوں ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اسی کام کی وجہ سے اس کو جنت میں داخل کر دیا ہے اور جہنم سے آزاد کر دیا ہے۔
بیٹیوں پر رحم وكرم حصول جنت هے
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ عَالَ ثَلاثَاً مِنْ بَنَاتٍ ، يَكْفِيهِنَّ وَيَرْحَمُهُنَّ وَيَرْفُقُ بِهِنَّ ، فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ.
(سلسلة الأحاديث الصحيحة : 2492)
جس نے تین بیٹیوں کی پرورش اس طرح کی کہ ان کو پورا خرچ دیتا رہا، ان پر رحم و کرم کرتا رہا اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتا رہا تو وہ جنت میں ہو گا۔“
ایک بیٹی كی كفالت بھی ذریعہ جنت هے
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ کَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلٰی لَاْوَائِھِنَّ وَضَرَّائِھِنَّ، وَسَرَّائِھِنَّ، اَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّة بِفَضْلِ رَحْمَتِه اِیَّاھُنَّ، فَقَالَ رَجُلٌ: اَوْ ثِنْتَانِ یَا رَسُوْلَ الله ؟ قَالَ: ’’اَوْ ثِنْتَانِ‘‘ فَقَالَ رَجُلٌ: اَوْ وَاحِدَة یَا رَسُوْلَ الله ؟ قال:اَوْ وَاحِدَة
(مسند احمد: 9046 )
جس کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی تنگدستی اور خوشحالی پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ ان بچیوں پر رحمت کرنے کی وجہ سے اس شخص کو جنت میں داخل کر دے گا۔ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر دو بیٹیاں ہوں تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگرچہ دو ہوں۔ اس نے پھر کہا: اور اگر ایک ہو اے اللہ کے رسول!؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگرچہ ایک بھی ہو۔
بیٹی کا احترام
نبی کریم ﷺ جب حضرت فاطمۃ الزھراءؓ کو آتے دیکھتے تو ان کو خوش آمدید کہتے ، چنانچه حدیث میں آتا هے كه:
أَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي كَأنَّ مِشْيَتَهَا مَشْيُ النَّبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَقالَ النَّبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: مَرْحَبًا بابْنَتي، ثُمَّ أجْلَسَهَا عن يَمِينِهِ، أوْ عن شِمَالِهِ
(صحيح البخاري: 3623، صحيح مسلم: 2450)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے پاس تشریف لآئیں، ان کی چال نبی کریم ﷺ کی چال سے مشابہت رکھتی تھی۔ آپ ﷺ نے بیٹی سے فرمایا: خوش آمدید اے میری بیٹی! اس پھر آپ ﷺنے انہیں اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا۔
بیٹیاں باعث نحوست نہیں
بیٹیاں باعث نحوست یا کوئی ناپسندیدہ مخلوق نہیں، اگر بیٹیاں ناپسندیدہ مخلوق ہوتیں یا باعث نحوست هوتیں تو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ہاں بیٹیاں پیدا نہ ہوتیں حالانکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا ، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ۔ آپ ﷺ اپنی چاروں بیٹیوں سے بہت محبت فرماتے تھے ۔
بیٹی اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے
يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَ
(سورۃ الشورٰی : 49)
’’وہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے‘‘
اس آیت میں لڑکیوں کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ قرار دیا گیا ہے۔جو لوگ لڑکیوں کو نحوست یا عار کا باعث سمجھتے ہیں انھیں ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ کسی عام ذات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ تحفہ پرکو باعث نحوست سمجھ رہے ہیں ،ایسے لوگوں کو اللہ کا خوف کرنا چاہئے کہ اللہ کے تحفہ پر منہ چڑھانے کی وجہ سے کہیں اللہ کے غضب کا شکار نہ بن جائیں ۔
نبی ﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی الله عنهاسے محبت کا والہانہ انداز
نبی کریم ﷺ اپنی اولاد میں سب سے زیادہ اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہاا سے محبت کرتے تھے ، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشْبَهَ سَمْتًا، وَدَلًّا، وَهَدْيًا بِرَسُولِ اللَّهِ فِي قِيَامِهَا، وَقُعُودِهَا مِنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَكَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا، وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ مِنْ مَجْلِسِهَا فَقَبَّلَتْهُ وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا،
(صححه الألباني في صحيح أبي داود:5217)
ام امؤمنین سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کری ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طور و طریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ رضی الله عنہا سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا، وہ کہتی ہیں: جب وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اور جب نبی کریم ﷺ ن کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
بیٹی كی اولا سے پیار
نبی کریم ﷺ بیٹی كو نحوست کا باعث نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی بیٹی فاظمہ رضی اللہ عنہا کی طرح اپنے نواسوں اور نواسیوں سے بھی بہت پیار کرتے تھے : چنانچہ حدیث میں آتا ہے كه:
كُنْتُ مع رَسولِ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في سُوقٍ مِن أسْوَاقِ المَدِينَةِ، فَانْصَرَفَ فَانْصَرَفْتُ، فَقَالَ: أيْنَ لُكَعُ؟ -ثَلَاثًا- ادْعُ الحَسَنَ بنَ عَلِيٍّ. فَقَامَ الحَسَنُ بنُ عَلِيٍّ يَمْشِي وفي عُنُقِهِ السِّخَابُ، فَقَالَ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم بيَدِهِ هَكَذَا، فَقَالَ الحَسَنُ بيَدِهِ هَكَذَا، فَالْتَزَمَهُ فَقَالَ: اللَّهُمَّ إنِّي أُحِبُّهُ فأحِبَّهُ، وأَحِبَّ مَن يُحِبُّهُ.
( صحيح البخاري: 5884، ومسلم 2421)
میں مدینہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ نبی کریم ﷺ واپس ہوئے تو میں پھر آپ کے ساتھ واپس ہوا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا بچہ کہاں ہے۔ یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ حسن بن علی کو بلاؤ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما آ رہے تھے اور ان کی گردن میں ( خوشبودار لونگ وغیرہ کا ) ہار پڑا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگانے کے لیے اپنا هاتھ پھیلایا اور حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ہاتھ پھیلایا اور وہ نبی کریم ﷺ سے لپٹ گئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جو اس سے محبت رکھیں۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے محبت
اسی طرح اپنے نواسے حضرت حسن وحسین رضی الله عنهما سے بھی بہت پیار ومحبت کرتے اور انہیں اپنے کندھوں پر اٹھاتے ۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :
رَأَيْتُ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ وَاضِعًا الحَسَنَ بنَ عَلِيٍّ علَى عَاتِقِهِ، وَهو يقولُ: اللَّهُمَّ إنِّي أُحِبُّهُ فأحِبَّهُ.
(صحيح مسلم: 2422)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان كرتے هیں كه میں نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو رسول اللہﷺ کے کندھے پر دیکھا ، اور آپ فرما رہے تھے : اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما ۔
نواسی سے محبت
نبی کریم ﷺ اپنی بیٹی اور نواسوں کی طرح اپنی نو اسی سے بھی بہت پیار ومحبت کرتے ، انہیں گود میں اٹھائے ہوئے نماز ادا فرماتے۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كانَ يصلِّي وَهوَ حاملٌ أُمَامَةَ بنتَ زينبَ بنتِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فإذا سجدَ وضعَها وإذا قامَ حملَها
(صحيح أبي داود: 917)
رسول اللہ ﷺ امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ ﷺ کو بعض اوقات نماز پڑھتے وقت اٹھائے ہوتے تھے۔ سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے۔
سلف صالحین کے اقوال
عبید اللہ سعدی بیان کرتے ہیں، انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالی بیٹیوں والے شخص کو پسند کرتے ہیں، لوط علیہ السلام بھی بیٹیوں والے تھے، شعیب علیہ السلام بھی بیٹیوں والے تھے اور نبی کریم ﷺ کی بھی بیٹیاں تھیں۔ (النفقة على العيال، لابن أبي الدنيا : 95 ورجاله ثقات)
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جسے اللہ تعالی ایک بیٹی عطا کریں اور وہ اس سے حسنِ سلوک کرے تو اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کریں گے، جسے دو بیٹیاں دے کر آزمایا گیا اور وہ ان کی پرورش پر اجر کی امید رکھے تو وہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم کی آگ سے ڈھال ہوں گی اور جسے تین بیٹیوں کے ذریعے آزمایا گیا تو سلف صالحین تو اس شخص پر جہاد و صدقہ لازمی نہیں سمجھتے تھے۔‘‘(النقة علی العیال، لابن أبی الدنيا: 93 وسندہ صحیح)
⇚ کثیر بن عبید بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے رشتہ داروں میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ یہ نہیں پوچھتی تھیں کہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ بلکہ ان کا سوال ہوتا : کیا صحیح سلامت پیدا ہوا ہے؟ کہا جاتا جی ہاں ۔ تو آپ الحمد للہ رب العالمین پڑھتیں۔ (الأدب المفرد : 1256 و سندہ حسن)
امام احمد رحمہ اللہ کے بیٹے صالح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
’’جب بھی میرے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوتی تو والدِ محترم فرماتے: انبیاء علیہم السلام بھی بیٹیوں والے تھے اور بیٹیوں کے متعلق مروی روایات کو تو تم جانتے ہی ہو ۔ (سیرة الإمام أحمد لابنه ، ص : 41)
یعقوب بن بختان بیان کرتے ہیں کہ میری سات بیٹیاں پیدا ہوئیں، جب بھی بیٹی کی پیدائش کے بعد میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس جاتا تو فرماتے : اے ابو یوسف! انبیاء بھی بیٹیوں کے باپ ہوا کرتے تھے۔ (تحفة المودود، لابن القيم ،ص : 26)
علامہ شہاب الدین آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’عالی ظرف لوگوں کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے کہ عورتوں کے دل کا خصوصی خیال رکھا جائے کیونکہ یہ نازک مزاج ہوتی ہیں، اسی لیے بندے کے لیے مستحسن ہے کہ جب وہ اپنے بچوں کو کچھ دینا چاہے تو پہلے بیٹیوں کو دے۔‘‘ (تفسیر روح المعانی: 4/ 279)
اولادمیں فرق
اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے اسلام میں اس تفریق کی گنجائش نہیں ہے۔ جس طرح بیٹا والدین کے لیے نعمت اور ان کے پیار کا مستحق ہے اسی طرح بیٹی ان کے لیے رحمت اور ان کے پیار کی مستحق ہے ، اس فرق کو مٹانے کے لیے نبی کریم ﷺ نے لڑکیوں پر خصوصی شفقت کرنے کی ترغیب دی ہے۔ تو پھر بیٹیوں کی پیدائش سے ہم کیوں پریشان ہوں،اُن کے وجود کو ہم کیوں بوجھل سمجھیں اُس کی پیدائش سے دل تنگ کیوں ہوں اور اُن کی تعلیم و تربیت اور اُن کی پرورش سے ہم کیوں تہی دامنی کا ثبوت دیں؟ بالخصوص جب کہ اسلام نے اُن کی پیدائش کو مصیبت و ذلت سمجھنے سے منع کیا ہے اور اسے کافروں اور مشرکوں کا فعل اور اُن کاشعار قرار دیا ہے۔
آخری بات
تمام مسلمانوں سے گذارش هے كه وه اسلام میں بیٹی کے مقام کو سمجھیں والدین اپنی بیٹیوں کو اللہ کا خاص تحفہ سمجھیں ان کی شان عظمت جانیں ان کے مطابق ان سے سلوک کریں۔ بیٹیاں اپنے مقام پر رب کا شکر ادا کریں اور ایسی ہی بیٹی بن کر دکھائیں جیسی اسلام کو ان سے توقع ہے۔
اس طرح شوہر، ساس، سسر، اور ان کے خاندان والے اپنے گھروں میں لائی گئی دوسروں کی بیٹیوں کے متعلق یاد رکھیں کہ بہت ہی قیمتی متاع ان کے سپرد کی گئی ہے ماںباپ نے اپنا کلیجہ ان کے حوالے کیا ہے اس کا خیال کریں اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں جو طرز عمل آپ کریں گے وہ ہی آپ کی بہن اور بیٹیوں کے ساتھ کیا جائے گا لہذا اپنے لئے کانٹے نہ بوئیں۔
والدین اور بھائیوں سے گزارش
اپنی اولاد اور بہنوں میں برابری کریں اولاد میں برابری نہ ہونے اور بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دینے کے باعث بچیوں کی نشوونما نفسیاتی الجھنوں ، حسد اور نفرت کے ساتھ ہوتی ہے اور ایسی بچیاں بے حس اور خود غرض ہو جاتی ہیں ۔ بہت سے والدین جو اپنے بیٹے کو نازونخرے سے پالتے ہیں اس کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں اور بیٹی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بات بات پہ ٹوکتے ہیں ایسی بیٹیاں احساس ذمہ داری سے محروم ہو کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کی خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے
اللہ کے بندو ❗سسرال میں جانے کے بعد ان بیٹیوں بہنوں کو ناجانے کیا کیا مصائب سے گزرنا پڑے جب تک تمہارے ساتھ ہیں تب تک تو انہیں سکون پہنچنا چاہیے اور جب کبھی یہ بہن بیٹی سسرال سے واپس اپنے آبائی گھر لوٹے تو تیوری چڑھانے کی بجائے خوش دلی سے ملاقات کیا کرو ہوسکتا وہ سسرال کے ہزاروں دکھوں کی ستائی ہوئی چند ٹھنڈی سانسیں لینے تمہارے گھر آئی ہو
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…