پہلا خطبہ :
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ برتر و عظیم ،سخی و کریم کے لئے ہے۔وہ شبیہ اور ہم مثل سے بر تر ہےاور ہم سر و مددگار سے بالا ہے ۔میں اُس پاک ذات کی بھر پور حمد بیان کرتا ہوں،اُس کی ناراضگی اور سزا کے اسباب کو دور کرنے پر میں اُس کا شکر بجا لاتا ہوں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں وہ اکیلا ہے ، یکتا ہے ، اُس کا کوئی شریک نہیں۔توحید کی گواہی جو قیامت کے دن گواہی دینےوالے کےلئے امن بن کر آئے گی اور اِس کی وجہ سے اُس کا رب اُسے جنت میں داخل کرے گا۔میں گواہی دیتا ہوں ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اُس کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔اُن کے رب نے اُن کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اُمت کو بہترین اُمت بنایا۔
اللہ تعالیٰ کا دُرود و سلام اور برکتیں نازل ہوں آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی نیک و کار اور پاکباز آل پر جنہیں اِس دین کی وجہ سے غلبہ و اقتدار ملا اور آپ ﷺ کے بابرکت اور روشن اصحاب ِ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پرجو باہم حق و بھلائی کے معاون و مددگار تھے۔ پھر اُن کے تابعین پر اور پھر اُن کی اچھی طرح پیروی کرنے والوں پر کہ جن کو جب اُن کے رب کی نشانیوں پر یاد دہانی کرائی جاتی ہے تواُن کے ایمان میں بڑھوتری ہوتی ہے اور وہ اِس پر اندھے اور بہرے ہوکر نہیں رہ جاتے ہیں۔ اور بہت زیادہ سلامتی نازل ہو۔
اما بعد!
اے لوگو! میں آپ کو اور آپنے آپ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ،اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرماے۔ گردشِ تقدیر پر اٗس کی مدد طلب کرو۔اپنی محبت کو اللہ تعالیٰ کے لئے ترجیح دو ،دین میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی نگہداشت کرو۔ جو بڑی نیکی تم کرتے ہو اُسے اپنی نگاہ میں بڑا نہ سمجھو،اور کسی چھوٹی بُرائی کا جو تم ارکاب کرتے ہو اُسے حقیر نہ جانو۔جو گزر گئے ہیں اُن سےعبرت حاصل کرو اور دونو ں گروہوں کے انجام پر غور کرو۔ایک گروہ جوجنت میں داخل ہو گا،جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرے گا اور راضی ہوگا اور دوسرا وہ کہ جو جہنم میں جائے گا،جسے اللہ تعالیٰ ناپسند کرے گا اور راضی نہیں ہوگا۔پھر جب صُور پھونگا جائےگا تو نہ تواُن میں قرابتیں ہوں گی نہ ایک دوسرے کو پھوچھیں گے۔جن کے ترازوں کا پلڑا بھاری ہوگیا وہ تو نجات والے ہوگئے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہ وہی لوگ ہوں گے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیا اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔
مسلمانو! ایک اچھا مسلمان جب ایک ذمہ داری کے عہدے پر ہوتا ہےتو وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے سرمایوں کا وفادار محافظ ہوتا ہے۔وہ حق کی پاسداری کرتا ہے ، انصاف کو عام کرتا ہے اور قوم سے مخلص ہوتا ہے اور قوم کے سرمائے کا وفادار محافظ ہوتا ہے۔
مخلص ذمہ دار خود نیک ہوتا ہے ،دوسروں کی اصلاح کرتا ہے۔دُرستگی کا حکم دیتا ہے اور بد عنونی سے روکتا ہے ،اسلام نے اصلاح کو ایک ذمہ داری قرار دیا ہے جسے فرد کے ساتھ ساتھ معاشرہ بھی اُٹھا تا ہے اور وسیع معنی میں یہی احتساب ہے۔
احتساب اپن وسعت اور ہمہ گیری میں وہ نگہبانی اور نگرانی ہے کہ جس سے فرد ، معاشرہ ، اور ملکی بگاڑ، نافرمانی اوربدعنوانی ہوتی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
الحج – 41
یہ وه لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔
دوسرے جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
آل عمران – 104
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
التوبة – 71
مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا ﻻتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے واﻻ حکمت واﻻ ہے۔
بھائیو! احتساب سماجی عام و خاص سرگرمی کے لئے نگرانی ،ہدایت اور رہنمائی کرنے کا کام ہے۔جو دین کےاُصول ،شریعت کی رہنمائی ،اخلاقیات کے معیار کو قائم کرتا ہے اور اخلاقیات کے معیار کو قائم کرتا ہے اور کارکردگی کی استعداد کو بڑھاتاہے ۔ وہ ایسی نشاط و ادائیگی ہے جس سے دُرست رویہ حاصل ہوتا ہے اور دُنیا و آخرت میں انفرادی مفاد حاصل ہوتاہے۔ نیک کارکن ،نیک ملازم اور نیک شہری اپنے رب پر ایمان اور اپنے دینی جذبے کی وجہ سے اپنے کام کو انجام دینے میں محنت کرتا ہے اور اِس چیز کا حریص ہوتا ہے کہ غلط کاموں کو روکے اور اِن کی اطلاع اُن لوگوں کو دے جو اِن کو روک سکتے ہیں۔
نیک کارکن اپنے دین میں اتنا سچا، اپنے عمل میں اتنا اماندار،اپنے معاشرے کے لئے اتنا وفا داراور مفادِ عامہ کا اتنا حریص ہوتا ہےکہ وہ پختہ عمل ،محنت اور بہترین پیدا وار کی طرف امادہ ہوتاہے اور بدعنوانی اور انحراف سے راضی نہیں ہوتا ہے۔
مسلمانو! بدعنوانی ایک بگڑی ہوئی ،متنوع، بےلگام ،چھپی ہوئی،رازداری اور خوف سے گھری ہوئی روش ہے۔یہ دین سیاست ، معیشت ،معاشرت،تہذیب اور انتظامیہ تمام شعبے میں داخل ہوتی ہے ۔ بد انتظامی ،ملی بھگت اور لوٹ گھسوٹ ہے اور ممنوعہ خلاف ورزی اور سرگرمیوں کو انجام دینے میں سہولت فراہم کرنا ہے۔ شخصی سرکاری اور سماجی توانائیوں کے ناپسندیدہ استحصال کا نام بدعنوانی ہےجس کا مقصد اپنے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے لئے ناجائز اور حرام کمائی کو حاصل کرناہے ۔ یہ اقتدار و صلاحیت کا بُرا استحصال ہے جس میں شرعی احکام اخلاقی اقدار و معتبر کاموں کی مخالفت پائی جاتی ہے۔
بدعنوانی پھیلی ہوئی بیماری ہےاُسے حدیں محدود نہیں کرسکتیں اور نہ رکاوٹیں روک سکتی ہیں ،خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا اس لئے کہ اُنہیں اُن کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھادے تو ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں ہر وہ انحراف جو خاص و عام ملازمت کو اُس کے دھارے سے الگ کردے جس کے لئے وہ وضع کیا گیا ہےاور جس کی خدمت کے لئے وہ پایا جاتا ہے، وہ بدعنوانی جرم و خیانت ہے۔
مسلمانو! بدعنوانی ممالک کے پروگراموں اور منصوبوں میں ترجیحات کو ڈامہ ڈول کرتی ہے ،اُن کے سوتوں کو خشک کردیتی ہے۔ بدعنوانی سے عام خدمات کا معیار گر جاتا ہے، منصوبے ناکام ہوتے ہیں، ناقص عمل درامد سے پیداواری صلاحیت کمزور ہوتی ہے لوگوں کے منافع ضایع ہوتے ہیں،کام میں دلچسپی اور وقت کی قدر گھٹ جاتی ہے،ضابطوں کے نفاذمیں خلل پڑھتا ہے۔
بدعنوانی اُن خطرات سے چشم پوشی کا باعث بنتی ہے جو لوگوں کو اُن کےکھانے پینے ،اُن کی صحت اور تعلیمی سہولیات،اُن کی سڑکوں اور عوامی خدمات تک رسائی میں لاحق ہوتی ہے ۔ بدعنوانی ،سچائی ،امانت ،انصاف یا یکساں مواقع اور منصفانہ تقسیم پر مبنی اخلاقی اقدار کو غیر مستحکم کرتی ہے اور منفیت ذمہ دار ی کا عدمِ احساس ،بُرے اردوں اور ظلم کے احساس کو پھیلاتی ہے جس کی وجہ سے گھٹن ،نفرت ،تناؤ ،ناکامی ،اصلاح سے مایوسی کی کیفیات جنم لیتی ہیں۔ بدعنوانی ذاتی مفادات کو فیصلوں پر حاوی بنادیتی ہیں ۔حق اورملک کے لئے سچی وفاداری کو کمزورکرتی ہے ۔ مذہبی قبائلی یا علاقائی قابلِ مزمت عصبیت کو تقویت دیتی ہے ۔ اور اِس طرح اُس سے اخلاقی ہم آہنگی اور معاشرے کی قابلِ تعریف اور مستحکم اقدار کو درہم برہم کردیتی ہے۔
بدعنوانی معاشرے کے استحکام ،سلامی، اُن کی اخلاقی اقدار اور قانون کی حکمرانی کے لئے سنگین مشکلات پیدا کرتی ہے۔ بدعنوانی منظم جرائم اور معاشی جرائم سے وابستہ ہوتی ہے اور اِس میں وہ بھی شامل ہے کہ جسے “منی لانڈرنگ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بدعنوانی دُرست منصوبوں اور مثبت پالیسیوں کے نفاذ کے لئے رکاوٹ ہے، اسی طرح بہتر کی طرف تبدیلی کی کوششوں کو روک دیتی ہے بلکہ یہ ملکوں اور اداروں کو منہدم کرتی ہے، دولت کو تہس نہس کرتی ہے، انتظامیہ کو کھوکلا کرتی ہے اور انحرافات ،بُرائیوں اور معاشی اور معاشرتی بُرائیوں کے ساتھ چلتی ہے۔
بھائیو! بدعنوانی کے بہت سارے مظاہر ،شکلیں اور مختلف راستے ہیں۔ مال اور ملازمت سے جڑے معاملات میں غبن، رشوت اقتدار اور صلاحیت کا بُرا استعمال، کام کےرازوں کو افشاں کرنا یااُن معلومات کو چھپانا ہے جن کا حق یہ تھا کہ وہ سب کو معلوم ہوں اور اُن کا اعلان ہو اسی طرح دستاویزات، کاغذات اور فیصلوں میں چھیڑ چھاڑ اور جعل سازی ،کام اور ملازمت کے اوقات کار کا احترام نہ کرنا، کمزور کارکردگی، کام کے درمیان خارجی مطالہ میں لگنا یا اُن لوگوں کا استقبال کرنا جن کا کام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حیلے بہانے تلاش کرنا، تعلیمات اور ہدایات کی تنفیذ بھاگنا، لاپرواہ ہونا ، سرگرم مشارکے سے کنارہ کش ہونا ،عوامی مال کے استعمال میں تساہل برتنا چاہے وہ تھوڑا ہو اور اُس کا تعلق دفاتر کے لئے خریداری سے ہی کیوں نہ ہو۔اِسی طرح مبالغہ آمیز تقریبا کا انعقاد اوراُن پر خرچ کرنا اور مال کا غلط استعمال کرنا جعلی منصوبے بنانا اور ٹینڈرز و معیار کے ساتھ دھوکہ دہی کرنا۔
مسلمانو! اگر یہ بات اسی طرح ہے تو بدعنوانی کا مقابلہ کرنااور اُس کا انسداد دُرستگی ،اصلاح، دیانتداری ،شفافیت اور نگرانی کو لازم پکڑنا ضروری ہے ۔ یہی وہ کنجی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے خیر و فلاح توفیق و دُرستگی،سلامتی و اطمنان اور عادل کے پھیلنے کے اثرات کی طرف رہنمائی کریتی ہے۔
بھائیو! بدعنوانی کا مقابلہ کسی معین ادارے یاکسی خاص جماعت کی ذمہ داری نہیں ہے،بلکہ یہ دیانت، امانت ،اخلاق، ذمہ داری کے اعتبار سے تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے۔
مسلمانو! شفافیت انصاف اور اصلاحِ ملک کی ہیبت اور اُس کی عزت کی حفاظت کرتی ہے ملک اور اُس کے باشندوں کے درمیان باہمی ربط کو مضبوط کرتی ہے اور اداروں اور نظام میں اعتماد پیدا کرتی ہے ۔انتظامی ،مالی اور اخلاقی اعتبارسے تمام طرح کی سورتوں اور شکلوں میں بدعنوانی کا مقابلہ کرنے کے لئے شفافیت ،ملکوں کی قیادتوں کو بہت زیادہ قوت عطا کرتی ہے ۔شفافیت کے چانچنے کےپیمانے دیانت ،سچائی ،انصاف ،وضاحت اور شفافیت ہیں۔شفافیت کے ماحول میں سب سے بہتر ، سب سے عمدہ اور مناسب چیز پیش کرنےکےلئے شفاف منافست اور باوقار مقابلہ آرائی ہوتی ہے۔
اے مسلمانو! جو چیز اس پر مددگار ہوتی ہےوہ یہ ہےکہ ملازم کی ذمہ داریوں کو متعین کیا جائے ،رہنما دلائل صادر کئے جائیں،منظم طریقے سے اُن کو بیدار کیا جائے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
جنہیں آپ اُجرت پر رکھیں اُن میں سب سے بہتر وہ ہیں جو مضبوط و امانتدار ہو۔
کام کرنے میں محنت کے حقدار کو راسخ کیا جائے،وقت کی حفاظت کی جائے،حق کے ساتھ ایک دوسرے کو نصیحت کی جائے،صدق امانت ،اخلاص جیسے اخلاق کا انتظام کیا جائے، اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھا جائےاُس سےسچا تعلق قائم رکھا جائےاُس پر بھروسہ کیا جائے،عوامی فوائد و مفادات کا اہتمام کیا جائے۔حق کے ساتھ ذمہ داری کا احساس رکھا جائے۔تما م لوگوں کی طرف اعتماد کو قائم کیا جائے،ساتھی ہی آزادی اظہارِ رائے اور کشف حال واحوال اور بدعنوانوں کے سلسلے میں امانتدارانہ طریقے سے ریپورٹ عام کی جائے۔ یہ بات رہی ،اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرے ،خلل قوانین ،نظام یا دفعات میں نہیں ہے بلکہ خلل دراصل اداروں اور معاشروں اور لوگوں میں ہے۔
اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے اُس میں سے آخری گھر کی تلاش بھی رکھ اور دنیا وی حصے کو بھی نہ بھول۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سُلوک کر اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو۔یقین مان کہ اللہ تعالیٰ اُن چیزوں کو ناپسند کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو قرآن کریم اور سُنت ِ رسول ﷺ سے فائدہ پہنچائے ۔میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اپنے لئے اورآپ کے لئے اور دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ہر طرح گناہوں سے مغفرت طلب کرتاہوں، آپ بھی اُسی سے مغفرت طلب کریں۔ بےشک وہ بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ :
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو ذاتی کمال و صفاتی جمال سے متصف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبودِ برحق نہیں،وہ ہر طرح کی آواز سنتا ہے۔ میں اُس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہو ں اور اُس کا شکر بجالاتاہوں ،پے درپے بھر پور نعمتوں اور باتوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں۔ایسی گواہی جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے اعلیٰ درجوں تک پہنچائے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار و بنی محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔حق کی تعلیم دینے والے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے بُرائی سے بچانے والے ہیں۔
بے شُمار دُرود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر ،آپ ﷺ کی آل و اصحابِ کرام پر۔
مسلمانو! شفافیت اور اُس کے حاملین کے تحفظ اور بدعنوانی کے خلاف جنگ اور بدعنوانوں کے مقابلے کے معاملے میں مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ گناہ گاروں اور بدعنوانوں کو تلاش کیا جائے بلکہ اُس کے ساتھ اور اُس کےبرابر یہ بھی مقصد ہے کہ بدعنوانی سے جو نقصان ہوتا ہےاِس مقدار میں بیداری پیدا ری پیدا کی جائےکیوں کہ اس کا دینی ،سیاسی ،معالی ،معاشی ،امنی ،تہذیبی اور سماجی ہر طرح کا نقصان ہے ۔یہ سب ہوگا ہمہ گیر اصلاحی پروگرام اور تمام تر سرکاری و پرائیویٹ مشاری کے تعاون سے اور سماج کے تمام کاموں کی شراکت سے اور ملازمین کی آراء اور اُن کی تجویزوں اور اُن کی شکایاتوں اور اُن کے دلائل سننے کا موقع دے۔
اللہ اس کو نیکی اور کامیابی ، عزت و طاقت میں اضافہ کرے ۔ سنو ! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔
اور اپنے رب کے حکم میں اپنے نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجو:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی ان پر درود اورسلام بھیجی۔
اے اللہ نبی پر رحمتیں نازل فرما، اور ان کی بیویوں اور اہل وعیال پر ، جس طرح تو نے ابراہیم کے آل پر نازل کیا تھا، اور محمد پر برکت نازل فرما، اور ان کی بیویوں اور اہل وعیال پر، جس طرح تو نے ابراہیم کے آل پر نازل کیا تھا۔
اے اللہ! خلفاء راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، علی سے راضی ہو جا، اور تمام صحابہ و تابعین سے، اور قیامت تک ان کی اچھے سے پیروی کرنے والوں سے ، اور اپنے عقو، جو وو کرم سے ہم سے بھی، اے ارحم الراحمین۔
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت دے، اور دین کی حفاظت کر ، اس ملک اور تمام مسلم ملکوں کو مامون، محفوظ ، ترقی والا، خو شحال بنادے۔
اے اللہ اے حی و قیوم ! ہمارے تمام احوال کو درست کر دے، اور ہمیں ہمارے بھروسے پلک جھپکنے کے برابر بھی نہ چھوڑ۔
اے اللہ! غمزدہ مسلمانوں کے غم کو دور کر دے، پریشان حال کی پریشانی مٹادے، قرضداروں سے قرض چکا دے، ہمارے اور مسلمانوں کے پیاروں کو شفا دے۔ اے اللہ !ہر جگہ کے مسلمانوں کے حالات درست کر دے، اپنی رحمت سے ، اے ارحم الراحمین۔
اے اللہ! جو ہمارے اور ہمارے ملک اور امن کا برا چاہے اسے اس کی ذات میں مشغول کر دے، اس کی چال کو اس کی موت بنادے، اور اس ، اوراسی پر بری گردش ڈال دے، اے رب العالمین۔
اے اللہ! ہمارے ولی امر خادم حرمین شریفین کو اس کی توفیق دے جسے تو پسند کرتا اور جس سے راضی ہو ، ان کی پیشانی کو تقوی اور بھلائی کی طرف موڑ دے۔
اے اللہ !ان کو اور ان کے جانشین کو عباد وبلاد کی بھلائی کی توفیق دے۔
اے اللہ! انہیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت پر بہترین بدلہ دے۔اے اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی پسندیدہ چیز کی توفیق دے۔
اےاللہ! سرحد پر متعین ہماری فوج کی مدد کر ، اپنے اور ان کے دشمن کو برباد کر دے۔
اے اللہ !مسلم نوجوانوں اور دوشیزاؤں کی حفاظت فرما، ان کی امت اور وطن کو ان کے ذریعہ فائدہ پہونچا، ایمان کو ان کے نزدیک محبوب بنادے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کر دے، انہیں ہدایت یافتہ بنا۔
اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں بھی نیکی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ اللہ ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمارے عیوب کو چھپا دے، ہمارے معاملے کو آسان کر، اور ہماری نیک تمناؤں تک ہمیں پہونچا دے۔ہمارے رب ہماری دعا قبول کر لے تو سننے جائے والا ہے، ہماری توبہ قبول کرلے، تو توبہ قبول کرنے والا رحم والا ہے۔
خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ صالح بن حمید حفظه اللہ
15جمادی الاول 1444هـ بمطابق 9 دسمبر 2022