کریڈٹ کارڈ کا شرعی حکم

جدید بینکنگ کی پیچیدگیوں اور اس  کے مسائل سے متعلق ہمارے ہاں اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ “ کریڈٹ کارڈ “ اور “ ڈیبٹ کارڈ ” کا استعمال جائز ہے؟ اور یہ کہ ان کے حوالے سے شرعی احکامات کیا ہیں؟

کریڈٹ کارڈ کیا ہے؟

کریڈٹ کارڈ درحقیقت قرض (Loan) کی ایک صورت ہے۔ کسی بھی بینک سے جب آپ کوئی کریڈٹ  کارڈ لیتے ہیں تو وہ بنیادی طور پر اُس بینک سے آپ کا ایک معاہدہ ہوتا ہے کہ آپ ایک مخصوص رقم بینک کی اجازت سے ایک خاص مدت تک استعمال کرسکتے ہیں۔ پھر چاہے آپ اس رقم کو آن لائن خریداری میں خرچ کریں یا کسی شاپنگ مال میں خریداری کرکے خرچ کریں ، دونوں ہی صورتوں میں اُس تمام خریداری کی قیمت آپ کی طرف سے بینک ادا کرتا ہے۔ عام طور پر اس طرح کے کارڈز پر خریداری کی مدت ایک ماہ ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد بینک آپ سے رقم وصول کرتا ہے۔

کریڈٹ کارڈ کا حکم :

شرعی احکامات کی رُو سے کریڈٹ کارڈ حرام ہے۔ جیسا کہ ابتداء میں ہی اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ کریڈٹ کارڈ دراصل بینک اور صارف کے درمیان قرض کا ایک معاہدہ ہے اور اِس معاہدے کی شرائط و ضوابط میں ایک شق یہ بھی شامل ہوتی ہے کہ اگر صارف کی طرف سے قرضے کی ادائیگی میں تاخیر ہوتی ہے تو بینک کی طرف سے کچھ فیصد کے حساب سے حسبِ تاخیر اضافی رقم وصول کی جائیگی۔ قرض پر اضافی رقم کی وجہ سے یہ شق سُود کے لین دین میں بدل جاتی ہے جو کہ نصوصِ شرعیہ کے مطابق حرام ہے اور چونکہ یہ معاہدہ سُودی لین دین میں بدل گیا ہے تو اسی بنا پر یہ معاہدہ اور اِس کے مطابق لین دین دونوں حرام ہوں گے۔

اب یہاں کچھ احباب یہ کہتے ہیں کہ ہم تو پوری کوشش کرتے ہیں کہ مہینے سے پہلے ہی خرچ کی گئی رقم بینک کو ادا کردیں یا یہ کہ ہم تو اِس کارڈ کو اپنے اکاؤنٹ سے منسلک کر دیتے ہیں تاکہ ساتھ ساتھ رقم کی ادائیگی ہوتی رہے۔ بظاہر تو یہ بات مناسب لگتی ہے اور اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ لیکن یہاں درپیش مسئلہ اس بات کے بالکل برعکس ہے اور وہ مسئلہ اس معاہدے کی وہ شق ہے جو اسے سُود ی لین دین میں بدل دیتی ہے۔ ہم لاعلمی یا لاپرواہی کی وجہ سے جس بات کو نظرانداز کردیتے ہیں وہ اس حد تک سنگین مسئلہ ہے کہ ہم لاشعوری طور پر ایک کبیرہ گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں وہ بھی رضا کارانہ۔

حدیثِ نبوی (ﷺ) ہے:

لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ وَشَاهِدَهُ وَكَاتِبَهُ

(سنن ابی داؤد : 3333 )

رسولِ کریم ﷺ نے سُود لینے والے پر، سُود دینے والے پر ، سُود لکھنے والے پر اور سودی لین دین کے گواہوں پر لعنت کی ہے۔

حدیثِ نبوی ﷺ کے مطابق سُود لکھنے والوں میں وہ افراد بھی شامل ہو جاتے ہیں جو اِن اکاؤنٹس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور وہ افراد بھی جن کے معاہدوں میں کوئی سُودی شق یا شرط شامل ہو۔ اسی وجہ سے کریڈٹ کارڈ حرام ہے اور اس بات پر علماء کا اجماع و اتفاق ہے کہ اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔

مجبوری کی صورت میں :

البتہ اگر کوئی بہت ہی اضطراری کیفیت ہو یا ایسا کوئی معاملہ ہو جس میں کریڈٹ کارڈ کا استعمال ہی آخری حل ہو !!؟ مثال کے طور پر کچھ اشیاء ایسی ہیں جن کی خریداری صرف آن لائن ہی ہوسکتی ہے یا  یہ کہ صارف کو ملک سے باہر جانا ہے تو اس طرح کی صورتِ حال میں کریڈٹ کارڈ لیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس شرط پر کہ بینک اُس کارڈ پر سود چارج نہیں کرے گا اور صارف کی طرف سے کارڈ کے ذریعے خرچ کی گئی رقم فوری طور پر ادا ہو رہی ہو۔ اِس کی اجازت بھی انتہائی ضرورت کی بنیاد پر ہے اور اگر متبادل سہولت دستیاب ہے تو اُس کی موجودگی میں کریڈٹ کارڈ کا استعمال بالاتفاق حرام ہے۔

الشیخ عثمان صفدر حفظہ اللہ: آپ کراچی کے معروف دینی ادارہ المعہد السلفی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالشھادۃ العالیہ کی سند حاصل کی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، نیز اسلامک بینکنگ اور فنانس میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی جاری ہے۔ اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کے مدیر ، الھجرہ آن لائن انسٹیٹیوٹ کے مدیر ہیں ، البروج انسٹیٹیوٹ کراچی میں مدرس کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔