کرسمس کی حقیقت اور اس کی قباحتیں

کرسمس ڈے سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ ولادت منانا ہے۔ عیسائیوں کاعقیدہ ہے کہ 25 دسمبر کو حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی ہے، چنانچہ اسی خوشی میں وہ اس دن کو بطورِ عید مناتے ہیں اور خوشیوں کا اہتمام کرتے ہیں، دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے اور عالم عیسائیت میں بڑے بڑے مسیحی فرقے اس دن کو کرسمس کے نام سے ایک مقدس  مذہبی تہوارکے طور پر بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور دین اور مذہب کے نام پر کیا کیا خرافات انجام دی جاتی ہیں، آیئے! ذرا ان قباحتوں کا ملاحظہ کرتے ہیں۔

لفظ کرسمس کا معنیٰ

یونیورسٹی آف انڈریوس میں ’’شعبہ ٔ دینیات و تاریخ کلیسا ‘‘کے پروفیسر ڈاکٹر سموئیل بیکیاسکی کرسمس کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں: ’’کرسمس کا لفظ بائبل میں موجود نہیں ہے۔ یہ اصطلاح دو الفاظ Christ یعنی مسیح اور Mass یعنی کیتھولک رسم کو ملا کر بنائی گئی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایسی کیتھولک رسم جو 25 دسمبر کی رات کو مسیح کی ولادت کے دن کی یاد میں منائی جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ  ’’عہد نامہ جدید‘‘ میں مسیح کی ولادت کو ہر سال بحیثیت ِتہوار منانے کا اشارہ تک نہیں ہے ۔ اناجیل میں مسیح کی ولادت کا تذکرہ انتہائی مختصر ہے اور گنتی کی چند آیات پر مشتمل ہے ۔”1

پروفیسر ہربرٹ ڈبلیو آرم سٹرانگ کرسمس کے مفہوم کے متعلق لکھتے ہیں:

”لفظ کرسمس کا مطلب مسیح کی رسم ہے۔ یہ تہوار غیر عیسائی مشرکوں اور پروٹسٹینٹز کے ذریعے رومن کیتھولک چرچ میں رائج ہوا ہے، اُنہوں نے اسے کہاں سے لیا ہے؟ عہد نامہ جدید سے نہیں، بائیبل سے نہیں اور نہ ہی ان مستند حواریوں سے جو مسیح علیہ السلام کے تربیت یافتہ تھے بلکہ یہ تہوار چوتھی صدی عیسوی میں بت پرست اقوام کی طرف سے رومن کیتھولک کلیسا میں آیا ۔ ”2

عیسیٰ علیہ السلام کا یوم ولادت

اگرچہ دنیا بھرمیں عیسائی اقوام حضرت عیسیٰ کا یومِ پیدائش یعنی کرسمس کا دن ۲۵ دسمبر کو انتہائی جوش وخروش سے مناتی ہیں۔ لیکن عیسائیوں میں کچھ حقیقت پسند مکاتبِ فکر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ 25 دسمبر حضرت مسیحؑ کی ولادت کا دن نہیں بلکہ یہ دیگر بت پرست اقوام سے لی گئی ایک بدعت ہے۔ فقط یہی نہیں بلکہ تاریخِ کلیسا میں کرسمس کی تاریخ کبھی ایک جیسی نہیں رہی، کیونکہ جنابِ عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ پیدائش کسی بھی ذریعے سے قطعیت سے معلوم نہیں ہے۔

حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش موسم ِگرما میں ہوئی

قرآن حکیم اور بائیبل سے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش موسم گرما میں ہونا عین ثابت ہے اور دسمبر گرمی کا نہیں بلکہ سردی کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس کا مصدقہ ثبوت یہ ہے کہ قصص القرآن کے مطابق جب حضرت مریم علیہا السلام جناب عیسی کی پیدائش کے بعد کھجور کے درخت کے نیچے جا بیٹھیں تو اﷲ تعالی نے انھیں درخت پر لگی پکی ہوئی کھجوریں کھانے کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ کھجوریں موسم سرما میں نہیں بلکہ موسم گرما میں ہی پکتی ہیں۔ سورۃ مریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا ‎﴿٢٤﴾‏ وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا ‎﴿٢٥﴾‏فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا

مریم – 23/26

پھر درِد زه ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔ اتنے میں اسے نیچے سے ہی آواز دی کہ آزرده خاطر نہ ہو، تیرے رب نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے۔ اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، یہ تیرے سامنے تروتازه پکی کھجوریں گرا دے گا۔ اب چین سے کھا پی اور آنکھیں ٹھنڈی رکھ، اگر تجھے کوئی انسان نظر پڑ جائے تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ رحمنٰ کے نام کا روزه مان رکھا ہے۔ میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی۔

قرآن حکیم کے علاوہ  عیسائی دوستوں کی کتاب بائیبل سے بھی یہی ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش مبارک موسم گرما یا موسم بہار میں ہوئی۔ کیونکہ بائیبل میں درج پیدائش عیسی علیہ السلام کے مطابق جس روز حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے اس رات کچھ گڈریے اردگرد اپنی بھیڑ بکریاں چرا رہے تھے۔3

دسمبر کو ولادتِ مسیح کے طور پر مقرر کرنے کا باقاعدہ آغاز بالکل غیر واضح ہے۔ عہد نامہ جدید میں اس بارے میں کوئی سراغ نہیں ملتا ۔اس دن کی بنیاد کے متعلق ایک ہمہ گیر وضاحت یہ ہے کہ25دسمبر در حقیقت پاگان (مشرک)روم کے تہوار “Dies Solis Invicti Nati” (یعنی نا مغلوب ہونے والے سورج دیوتا کا یوم پیدائش )کی عیسائی شکل تھی۔جو کہ رومن سلطنت میں ایک مشہور مقدس دن تھا جسے سورج دیوتا کی حیاتِ نوکی علامت کے طور پر انقلابِ شمسی کے دوران منایا جاتا تھا ۔”4

کرسمس کی حقیقت

انسائیکلوپیڈیا امیریکانا میں”Christmas”کے موضوع پر تحریر کردہ مضمون میں اس عقدہ کو یوں کشا کیا گیا:  ”بہت سے مذہبی ماہرین کے مطابق عیسائی کلیسا کی ابتدائی صدیوں میں کرسمس نہیں منائی جاتی تھی… لوگ عیسیٰ کی پیدائش کی یاد میں چوتھی صدی عیسوی میں تہوار منانا شروع ہوئے ۔ پانچویں صدی عیسوی میں تو مغربی کلیسا نے اس تہوار کو اس دن منانے کا حکم دیا جس دن قدیم اہلِ روم اپنے سورج دیوتا کا جنم دن (25دسمبر) منایا کرتے تھے۔ جبکہ مسیح کے اصل یومِ پیدائش کا کسی کو کوئی خاص علم ہی نہ تھا۔”5

کیتھولک انسائیکلوپیڈیا میں بھی “Christmas” کے عنوان کے تحت یہ اعتراف ِ حقیقت کچھ اس طرح موجود ہے :  ”عید میلاد المسیح قدیم عیسائی کلیسا کے ابتدائی مقدّس تہواروں میں سے نہ تھی بلکہ اس تہوار کا اوّلین ثبوت مصر کے فرعو نوں سے ملتا ہے۔ عیسائیت کے اثر و رسوخ سے قبل یورپ خصوصاً روم اور اس کے ماتحت علاقوںمیں مشرکانہ تہوار (Pagan Customs) تقریباً یکم جنوری کے ارد گرد ہی منائے جاتے جو بعد ازاں عید میلاد المسیح یعنی کرسمس کی شکل اختیار کر گئے ۔”6

مارٹن کولنز اس سلسلے میں اپنے ریمارکس یوں دیتے ہیں:   ” نمرود کی نا گہانی موت (2167 BC)کے بعداس کی ماں سمیرامس نے اہلِ بابل میں اس عقیدے کا پرچار کیا کہ نمرود ایک دیوتا تھا۔اس نے یہ بھی کہا کہ اس کا بیٹا درخت کے تنے کی مانند ہے کہ جیسے سردیوں کے اختتام پر اس سے ایک نئی زندگی جنم لیتی ہے، ایسے ہی اس کے مردہ جسم سے اس کی سالگرہ کے دن ایک نئی زندگی جنم لے گی ۔اس کی سالگرہ کے دن اس کی ماں نے یہ اعلان کیا کہ نمرود ہر سر سبز درخت پر آئے گا اور وہاں تحائف چھوڑ کر جائے گا۔غالبا ً یہی کرسمس ٹری کی ابتدا بھی ہے۔اس طرح اس کی سالگرہ سردیوں کے انقلابِ شمسی یعنی دسمبر کے آخری ایام میں ایک عید کی حیثیت سے منائی جانے لگی۔ ”7

کرسمس ڈے عیسائی تعلیمات کی روشنی میں

بائبل میں بھی مشرکین کے میلوں ،عیدوں اور تہواروں میں شرکت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔فرمانِ باری تعالی ہے: ”اے اسرائیل کے گھرانے ! وہ کلام جو خداوند تم سے کرتا ہے سنو۔ خداوند یوں فرماتا ہے کہ تم دیگر اقوام کی روش اختیار نہ کرو۔”8

نیز یہ تہوار حضرت عیسیٰ کے سچے دین میں نہ تھا بلکہ بعد میں رومی پادریوں نے اسے دین کا شعار بنایا، اس لیے یہ عیسائیت میں بدعت ہے ۔ اور بدعت سے بائبل میں بھی بیسیوں مقامات پر منع کیا گیا ہے۔فرمانِ خداوند ہے: بدعات کرنے والے خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہوں گے ۔”9

نیز فرمایا: ”تم میں بھی جھوٹے اُستاد ہوں گے جو پوشیدہ طور پر ہلاک کرنے والی بدعتیں نکالیں گے…. اور اپنے آپ کو جلد ہلاکت میں ڈالیں گے۔”10

کرسمس ڈے کی شرعی قباحتیں

آئیے! اب کرسمس ڈے کی وہ خرابیاں اور قباحتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جن سے آگاہی حاصل کرنا ہر مسلمان کے لئے انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ لاشعوری میں گمراہی کا شکار نہ ہو اور اپنی دنیا و آخرت برباد نہ کر بیٹھے ۔

کفر وشرک

25 دسمبر کا دن عیسائیوں کی عید کا دن ہے ، جسے عیسائی کرسمس ڈے کے نام سے پکارتے ہیں ۔ عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام 25 دسمبر کو پیدا ہوئے اور ان کے عقیدے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں ، گویا عیسائیوں کے نزدیک 25 دسمبر کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ۔ العیاذ باللہ  ۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ انتہائی غلط عقیدہ ہے ، کسی کو اللہ کا بیٹا کہنے سے کفر وشرک لازم آتاہے ، اور یہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کیلئے سخت ترین کلمہ ہے۔

کیونکہ جب ہم لاشعوری میں کسی کو کرسمس کی مبارک دیتے ہیں تو ہم اس بات سے اتفاق کر رہے ہوتے ہیں کہ الله نے بیٹا جنا ہے،کیونکہ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے ۔ نعوذ باللہ..! جبکہ اس بات کا اقرار کفر و شرک تک پہنچا دیتا ہے ، جبکہ سورت اخلاص میں اللہ تعالیٰ ان باطل عقائد کا رد کر رہا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

کہہ دیجیئے وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے۔

اس سورت کریمہ میں کئی مذاہب  یعنی عیسائی، یہودی، مشرکینِ عرب، فلاسفہ اور ہندؤں کا رد ہے کیونکہ عیسائی حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں ۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں مانتے ہیں ۔ ہندو کروڑوں کی تعداد میں مخلوق کو خدا مانتے ہیں ۔  جبکہ فلاسفہ کہتے ہیں کہ عقول عشرہ اللہ تعالیٰ سے نکلی ہوئی ہیں اور کائنات کا نظام وہ چلا رہی ہیں اور اُن مسلمان کہلانے والوں کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور أئمہ اہل بیت اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور سے پیدا ہوئے ہیں۔

کرسمس ڈے! اللہ تعالیٰ کا شدید غیض وغضب کا سبب ہے

یعنی کسی کو اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹا کہنا اس قدر خطرناک وخوفناک بات ہے کہ اس کی وجہ سے کائنات کا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے ، زمین وآسمان پھٹ سکتے ہیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو سکتے ہیں ۔اللہ کا ارشاد گرامی ہے۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ‎﴿٨٨﴾‏ لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ‎﴿٨٩﴾‏ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ‎﴿٩٠﴾‏ أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا ‎﴿٩١﴾‏ وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا

مریم – 88/89/90/91/92

اور انھوں نے کہا رحمان نے کوئی اولاد بنا لی ہے۔ بلاشبہ یقینا تم ایک بہت بھاری بات کو آئے ہو۔ آسمان قریب ہیں کہ اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گر پڑیں۔ کہ انھوں نے رحمان کے لیے کسی اولاد کا دعویٰ کیا۔ حالانکہ رحمان کے لائق نہیں کہ وہ کوئی اولاد بنائے۔

ذرا تصور کیجئے اور ایک لمحہ کے لئےغور کیجئے کہ کیا عیسائیوں کو کرسمس ڈے کی مبارکبادی پیش کرکے ان کے کفر و شرک میں ہم شریک نہیں ہوں گے؟ کیا انہیں مبارکباد دے کر ہم ان کے اس باطل عقیدے کے اقرار و اعتراف کاجرمِ عظیم نہیں کریں گے؟۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :

ليسَ أحَدٌ -أوْ ليسَ شَيءٌ- أصْبَرَ علَى أذًى سَمِعَهُ مِنَ اللہِ إنَّهُمْ لَيَدْعُونَ له ولَدًا، وإنَّه لَيُعافيهم ويَرْزُقُهُمْ!

ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: اللہ تعالیٰ سے زیادہ كوئی بھی صبر كرنے والا نہیں اس تكلیف دہ بات پر جسے وہ سنتا ہے۔ لوگ اللہ كے لئے اولاد بناتے ہیں(اور اس كا شریك بناتے ہیں) جب كہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف كرتا رہتا ہے (اور ان سے درگزر كرتا رہتا ہے)۔ اور انہیں رزق دیتا رہتا ہے۔11

کرسمس ڈے، اللہ تعالیٰ کو گالی دینے کے مترادف ہے

حدیث قدسی ہے کہ:

قالَ اللہُ كَذَّبَنِي ابنُ آدَمَ ولَمْ يَكُنْ له ذلكَ، وشَتَمَنِي ولَمْ يَكُنْ له ذلكَ، فأمَّا تَكْذِيبُهُ إيَّايَ فَقَوْلُهُ: لَنْ يُعِيدَنِي، كما بَدَأَنِي، وليسَ أوَّلُ الخَلْقِ بأَهْوَنَ عَلَيَّ مِن إعادَتِهِ، وأَمَّا شَتْمُهُ إيَّايَ فَقَوْلُهُ: اتَّخَذَ اللَّهُ ولَدًا وأنا الأحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ ألِدْ ولَمْ أُولَدْ، ولَمْ يَكُنْ لي كُفْئًا أحَدٌ

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ”ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا۔ ’’مجھے جھٹلانا‘‘ یہ ہے کہ (ابن آدم) کہتا ہے کہ میں اس کو دوبارہ نہیں پیدا کروں گا حالانکہ میرے لیے دوبارہ پیدا کرنا اس کے پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں۔ اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ کہتا ہے کہ اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میں ایک ہوں۔ بےنیاز ہوں نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ ہی کوئی میرے برابر ہے۔12

کرسمس ڈے پر عیسائیوں کو مبارکباد کہنے کے لیے  میری کرسمس کہنے کا مطلب اللہ کو بیٹا ہونے کی مبارکباد دینی ہے ۔

کفار اور یہودو نصاریٰ کی مشابہت

کرسمس ڈے منانا کفارکی مشابہت ہے ، معلم انسانیت حضرت محمد ﷺ نے غیر قوم کے رسم ورواج، جشن و تہوار، عادات و اطوار کو اپنانے والے کو اپنے مذہب سے نکل کر انہیں کے مذہب میں داخل ہونے کے مترادف قرار دیا ہے۔ آنحضرت ﷺکا ارشاد مبارک ہے :

 من تشبَّهَ بقومٍ فهوَ منهم

یعنی جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے۔13

ان کے عقائد، عبادات اور عادات میں مشابہت رکھنا حقیقت میں ان کے باطل ادیان اور فاسد عبادات کے اظہار اور تبلیغ کا اہم ذریعہ ہے، اور ان کی عادتوں اور صفات میں ان کے ساتھ مشابہت رکھنا امت کی رسوائی، کمزوری، ذلت، پستی اور دست نگری کا احساس ہے۔ جس کام میں مسلمانوں کو مخالفت کا حکم دیا گیا ہے اس میں مخالفت دین میں مصلحت، اس کی بقا اور اس میں بگاڑ پیدا کرنے والے اسباب کی روک تھام کے لیے ہے۔ اسی طرح اس کام میں ان کی موافقت کرنا جس میں ان کی موافقت سے منع کیا گیا ہے، دین کے لیے نقصان دہ اور اسبابِ فساد میں پھنسانے والی ہے۔

دین میں بدعت

اصطلاحِ شرع میں بدعت سے مراد ہے، دین میں کوئی ایسا کام جاری کرنا جس کا پہلے وجود نہ ہو۔ یا دین میں کوئی ایسا امر ایجاد کرنا جو شریعت کے مشابہ ہو اور اس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب اور عبادت مقصود ہو۔

کرسمس ڈے دین ِ اسلام میں ایک بدعت ہے، اسلام میں مسلمانوں کے لئے دو عید مقرر ہیں ، تیسری عید کا وجود کہیں بھی نہیں ہے اوردینِ اسلام میں بدعت جاری کرنا کتاب و سنت اور اجماعِ امت کے اقوال کی روشنی میں حرام ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت و خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ اور جو انسان کے لیے جہنم کا موجب بننے کے لیے کافی ہے۔ بناء بریں بدعت ایک قابلِ نفرت اور مذموم فعل ہے اور اس کا فاعل بھی مذمت کے لائق ہے۔ امت کو اس کی برائی سے ڈرایا گیا اور اس کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔ چنانچ اللہ تعالیٰ نے بدعت ایجاد کرنے پر زجر و توبیخ فرمائی ے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

شَرَ‌عوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللہُ وَلَولا كَلِمَةُ الفَصلِ لَقُضِىَ بَينَهُم

شوریٰ – 21

کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔ اگر فیصلے کے دن کا وعده نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔

اس آیت میں بدعت ایجاد کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کی گئی ہے اور آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ شارع نے بدعت کو قبیح اور بدعت کے کام کو برا سمجھا ہے۔

صحیح مسلم میں حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک حدیث مذکور ہے جو بدعت کی مذمت اور اس کی حرمت کے لیے کافی ہے۔ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں:

وإياكم ومحدثاتِ الأمورِ فإنَّ كلَّ محدثةٍ بدعةٌ، وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ

رسول اللہ ﷺنے فرمایا) دین میں نئے نئے امور ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ دین میں ہر نیا کام جاری کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔14

دین میں غلو

یعنی غلو کے معنی حد سے نکل جانے کے ہیں، دین میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ اعتقاد و عمل میں دین نے جو حدود مقرر کی ہیں ان سے آگے بڑھ جائیں، مثلاً انبیاء کی تعظیم کی حد یہ ہے کہ ان کو خلقِ خدا میں سب سے افضل جانے، اس حد سے آگے بڑھ کر اُنھی کو خدا یا خدا کا بیٹا کہہ دینا اعتقادی غلو ہے۔ اسلام سے قبل ادیان و مذاہب میں بھی غلو پایا جاتا تھا۔ یہودیوں نے حضرت عزیر کی الوہیت کا دعویٰ کیا، جس کو روایات نے بھی بیان کیا ہے اور قرآن نے بھی اس کی عکاسی کی ہے۔ قرآن کریم نے ان کے خرافاتی نظریہ کو کچھ یوں نقل کیا ہے : 

وَ قَالَتِ الیَہُودُ عَزَیرٌ ابنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصاریٰ المَسِیحُ ابنُ اللّٰہُ ذٰلِکَ قَولُہُم   یُضَاہِئُونَ قَولَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِن قَبلِ قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ أنّٰی یُؤفَکُونَ

وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

التوبة – 30

اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں یہ سب ان کی زبانی باتیں ہیں ان باتوں میں وہ بالکل ان کے مثل ہیں، جو ان کے پہلے کفار کہتے تھے اللہ ان سب کو قتل کرے یہ کہاں بہکے چلے جارہے ہیں)۔

اسلام میں غلو فی الدین کی سخت ممانعت ہے اور قرآن کریم وحدیث رسول ﷺ میں اس کے دلائل موجود ہیں،  چنانچہ قرآن کریم میں عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق غلو کی مذمت اور عقیدہ تثلیث کی نفی کی گئی ہے ۔

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا

النساء – 171

اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو، مسیح عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) تو صرف اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کے کلمہ (کن سے پیدا شده) ہیں، جسے مریم (علیہا السلام) کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں اس لئے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ کہ تمہارے لئے بہتری ہے، اللہ عبادت کے ﻻئق تو صرف ایک ہی ہے اور وه اس سے پاک ہے کہ اس کی اوﻻد ہو، اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ کافی ہے کام بنانے واﻻ۔

قرآن کریم کے بعد حدیث رسول ﷺ میں غلو کے بارے میں سخت وعید آئی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

يا أيُّها النَّاسُ إيَّاكم والغُلوَّ في الدِّينِ فإنَّهُ أهْلَكَ من كانَ قبلَكُمُ الغلوُّ في الدِّينِ

اے لوگو! تم دین میں غلو کرنے سے بچو؛ کیوں کہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو کرنے ہی کی وجہ سے ہلاک کیا گیا تھا۔15

کفار کی تہواروں میں شرکت

کفار کے تہواروں میں شمولیت کرنا یا اس پر تہنیت دینا، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ یہ خاص اُن کے تہوار ہیں،  چار صورتوں سے خالی نہیں:

۔  حرام ۔  پہلی صورت یہ ہےکہ محض ایک سماجی لحاظ کے طور پر شریک ہو،  ان تہواروں کی تعظیم مقصود نہ ہو اور نہ یہ اعتقاد ہو کہ وہ لوگ کسی صحیح عقیدہ پر ہیں۔ خالی مبارکباد دینے والے شخص پر ایسی صورت کے صادق آنے کا امکان زیادہ ہے بہ نسبت ایسے شخص کے جو پہنچ کر اُن کی تقریب میں شریک ہوتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ کیونکہ اس سے اُن کے ایک باطل میں آدمی کی شرکت بہرحال ہو گئی ہے۔ نیز یہ ان کے شعائر کی تعظیم کا ایک ذریعہ بنتا ہے اور ان کے دین کو ایک طرح کی سندِ صحت عطا کرنا۔ سلف کی کثیر تعداد نے آیت 

وَالَّذِیْنَ لا یَشْہَدُوْنَ الزُوْرَ

الفرقان – 72

 کی تفسیر میں اس سے مراد ’’مشرکین کی عیدوں میں موجودگی دکھانا‘‘  ہی مراد لیا ہے۔

 نیز نبی ﷺ کا فرمان:

 إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً

(حدیث صحیحین) نہایت واضح دلیل ہے کہ عیدوں اور تہواروں کے معاملہ میں ہر قوم کا اختصاص ہے۔

2 ۔  شدید حرام :  دوسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت میں کسی ہوس کو دخل ہو، مثلاً یہ کہ وہاں شراب یا رقص یا عورتوں کا ہجو م  وغیرہ م دیکھنے کو ملے گا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرمت میں پہلے والی صورت سے زیادہ سنگین ہے۔

3۔ بدعت ضلالت: تیسری صورت یہ ہے کہ اس شرکت سے آدمی کا مقصد تقربِ خداوندی ہو، مثلاً یہ کہ عیسیٰ عليہ السلام اللہ کے ایک برگزیدہ رسول تھے لہٰذا میں تو عیسیٰ عليہ السلام کے میلاد میں شرکت کر رہا ہوں؛ جیساکہ بعض لوگ رسول اللہ ﷺ کا میلاد مناتے ہیں۔ اس کا حکم بدعتِ ضلالت ہوگی۔ یہ اپنی سنگینی میں میلاد منانے سے کہیں بڑھ کر ہے، کیونکہ یہ جس تقریب میں شرکت کرتا یا اس کی مبارکباد دیتا ہے اُس کے منانے والے (معاذ اللہ) ’اللہ کے بیٹے‘ کی پیدائش کا جشن منا رہے ہیں۔

4۔ کفر :  چوتھی صورت یہ ہے کہ آدمی اُن کے دین کو ہی سرے سے قابل اعتراض نہ جانتا ہو، بلکہ ان کے شعائر سے ہی راضی ہو اور ان کی عبادت کو ہی درست سمجھتا ہو، جیسا کہ ماضی میں یہ نظریہ یوں بیان کیا جاتا تھا کہ ’’سب ایک ہی معبود کو پوجتے ہیں بس راستے جدا جدا ہیں‘‘۔ اور جیسا کہ آج اس نظریہ کو ’’وحدتِ ادیان ‘‘ اور ’’اخوتِ مذاہب‘‘ جیسے  الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جوکہ درحقیقت فری میسن کے دیے ہوئے نعرے ہیں۔ تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ کفر ہے جوکہ آدمی کو ملت سے خارج کر دیتا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

آل عمران – 85

جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔

حرام کاموں میں شرکت :

کرسمس ڈے میں شرکت در اصل  شریعت کے حرام کردہ کاموں میں شریک ہونا ہے ،کیونکہ آج کل کرسمس ڈے میں رات کے بارہ بجنے کا رقص وشراب ، ناچ وگانے اور ہیجان انگیز موسیقی سے انتظارکیا جاتاہے،اور بارہ بجنے پر آتش بازی کی جاتی ہے،اور غبارے پھوڑے جاتے ہیں، اور اسلام میں ناچ گانا، شراب نوشی ، مرد وزن کا اختلاط اور فحاشی و بے حیائی سے سختی سے منع کرتا ہے، قرآن پاک میں سورہ فرقان کی آیت  :

وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا

الفرقان – 72

اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں۔

آیت میں لفظ ’’زُور‘‘ پر سلف کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے:

ابو بکر خلالؒ نے اپنی جامع میں پورے اِسناد کے ساتھ تابعی مفسر محمد بن سیرین رحمہ اللہ  سے آيت کی تفسیر نقل کی، فرمایا:

وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ

میں نصاریٰ کا تہوار ’’شعانین‘‘ آتا ہے۔ پھر تابعی مفسر مجاہدرحمہ اللہ سے نقل کیا کہ اس سے مراد ہے مشرکین کے تہوار ہے۔ پھر تابعی مفسر ربیع بن انس رحمہ اللہ سے نقل کیا، کہ اس سے مراد مشرکین کے تہوار ہے۔ اور اسی معنیٰ میں تابعی مفسر عکرمہ  رحمہ اللہ سے روایت ہوئی کہ: یہ ایک جشن تھا جو وہ زمانہ جاہلیت میں منایا کرتے تھے۔ قاضی ابو یعلی نے اس کو مسئلۃ فی النہی عن حضور أعیاد المشرکین کے تحت بیان کیا ہے۔

صحابہ کرام اور فقہائے اسلام کے فرامین عید کرسمس کے حوالے سے

سیدنا عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنه نے فرمایا: الله كے دشمنوں سے ان کے تہوار میں اجتناب کرو.غیر مسلموں کے تہوار کے دن ان کی عبادت گاہوں میں داخل نہ ہو،کیونکہ ان پر الله کی ناراضگی نازل ہوتی ہے16

حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رضی اللہ عنھما نے فرمایا: غیر مسلموں کی سر زمین میں رہنے والا مسلمان ان کے  نوروز(New Year) اور ان کی عید کو ان کی طرح منائے اور اسی رویّے پر اس کی موت ہو تو قیامت کے دن وہ ان غیر مسلموں کے ساتھ ہی اُٹھایا جائے گا۔17

کفار کی عید پر انہیں مبارکباد پیش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو صلیب کے آگے سجدہ کرنے پر مبارکباد پیش کرنا!۔18

اگر کوئی شخص پچاس سال اللہ کی عبادت کرے, پھر مشرکین کی عید کے موقع پر اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے کسی مشرک کو ایک انڈہ ہی تحفہ دے دے تو اس نے کفریہ کام کیا اور اپنے تمام اعمال ضائع کر لیے!۔19

شرکیہ وکفریہ کلمے

25 دسمبر کو  میری کرسمس  ‘ Merry Christmas’  یا ہپی کرسمس کہہ کر ایک دوسرے کو مبارکباد  دینا  شرک ہے اس بچیں اور اپنے مسلمان بہن بھائیوں‌ اور دوستوں کو اس شرک والی لعنت سے بچائیں۔ عام روٹین میں اگر آپ دیکھیں تو لوگ ہنسی خوشی ، مذاق میں یا طنزیہ طور پر یہ الفاظ دوسروں کو کہتے رہتے ہیں جن میں آپ کے دوست ، دُشمن ، رشتے دار ، گھر والے ، سب ہی آجاتے ہیں ۔ اُس وقت ہم ایسے الفاظ منہ سے نکال کر دوسروں کو ہنسا رہے ہوتے ہیں لیکن ایک بات کلیئر کر دوں کہ مذاق ہی مذاق میں وہ کُفر کر رہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھرا رہے ہوتے ہیں۔

قرآن نے ہمیں جگہ جگہ شرک سے ڈرایا ہے اور شرک کی جتنی اقسام ہو سکتی ہیں، ان کی ہر ممکن وضاحت کر کے اس کے قریب پھٹکنے سے بھی منع کر دیا ہے۔ شرک تو دور کی بات وہ تمام ذرائع جو شرک تک لے جانے کا موجب بن سکتے ہیں، ان ذرائع کو بھی ممنوع قرار دیا ہے۔ جو لوگ ’’میری کرسمس‘‘ کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں‌ لے کر فتویٰ‌ عائد کر رہے ہیں‌کہ کرسمس کی مبارکباد دینے میں‌ کچھ حرج نہیں۔ انہیں یا تو شرک کی قباحت و شناعت سے واقفیت نہیں، اور یا پھر وہ شریعت کا مزاج پہچاننے سے قاصر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا بندہ اور اس کا نبی ہی تسلیم کرتے ہیں، لیکن جب آپ ایک کرسچن کو اس کے غلیظ ترین عقیدہ پر تنبیہ کرنے کے بجائے اس کی خوشیوں کو بانٹنا چاہتے ہیں، تو یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مرادف ہے۔

کفار سے محبت و دوستی

​ کوئی بھی تہوار یا عید اس امت کی شریعت اور اس کے مناسک کا حصہ ہوتی ہے لہٰذا کسی قوم کی عیدوں پر موافقت ظاہر کرنا یا اس میں شرکت کرنا  اس کے باقی شعائر پر رضا مند ہونے جیسا ہے. عیسائی اس دن عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی یاد تازہ کرتے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام ہمارے لئے ایک نبی کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ عیسائی انہیں رب بھی مانتے ہیں ،عقیدہ تثلیث کی حامل ایک ایسی قوم جو اپنے نبی کو اپنے الٰہ کا بیٹا تصور کرتی ہو اور پوری دنیا میں گھوم گھوم کر اس نا قابل فہم اور ناقابل قبول شرکیہ عقیدے کو پھیلاتی ہو اور اس عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگاتی ہو انبیاء کی توہین پر مبنی اس عقیدہ اور اس سے جڑی عیدمیں شریک ہونا یا اس پر راضی وموافق ہونا ان سے محبت اور دوستی کی علامت ہے ۔ جو اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ

الممتحنة – 1

اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وه اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو، اگر تم میری راه میں جہاد کے لیے اور میری رضا مندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو)، تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیده پوشیده بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا اور وه بھی جو تم نے ﻇاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وه یقیناً راه راست سے بہک جائے گا۔

اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ فرما دیا کہ تم میں جو شخص مشرکوں کو اپنا دوست بنائے گا وہ دین اسلام کی سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو دوست بنانے سے شدت کے ساتھ منع فرمایا ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ

المائدۃ – 51

اے ایمان والو! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔

آیت کا حکم واضح ہے کہ ”اللہ کے دشمنوں سے دوستی بہتر نہیں ہے‘‘۔اس سے بڑی دشمنی، کا معاملہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ کے لئے اولاد گھڑ لیا جائے؟۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

  قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ ؟  قَالُوا:‏‏‏‏ كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا:‏‏‏‏ يَوْمَ الْأَضْحَى، ‏‏‏‏‏‏وَيَوْمَ الْفِطْرِ

نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے،تو لوگوں کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل تماشہ کیا کرتے تھے آپ نے فرمایا ان دونوں کی کیا حقیقت ہے؟ انہوں نے عرض کیا ان دو مواقع پر جاہلیت میں ہم کھیل تماشہ کر لیتے تھے۔ تب اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ نے ان دونوں کو بدل کر تمہیں ان سے بہتر تہوار دئے ہیں عید الاضحی اور عید الفطر۔20

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ جاہلیت میں منائی جانے والی کوئی خوشی یا اس کی ہلکی سی رمق بھی مسلمانوں کو مسرور کرے۔ اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے جاہلیت کے تہواروں کے بدلے مسلمانوں کو عیدین کا تحفہ دیا۔ اور ان کی متابعت کرنے سے منع فرمایاکیونکہ اللہ کے رسول ﷺ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ امت میں غیروں کی تقلید کا دروازہ اگر ذرا سا بھی کھلا رہ گیا تو پھر نہ جانے کتنے فتنوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ جیسا کہ آج ہمارے سامنے حالات ہیں سنت نبوی سے انحراف نے ہمارے سامنے کئی طرح کے مصائب لا دیئے ہیں۔ اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نیہر جگہ ہر موقع پر مسلمانوں کو’’خَالفُوالْمُشْرِکِیْنَ‘‘ کی ترغیب دی۔

درج بالاتمام دلائل سے کرسمس ڈے کی حقیقت واضح ہوگئی ، رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ اللہ تعالی امت مسلمہ کو مغربی بدتمیزی اور فرنگی بد تہذیبی سےمحفوظ رکھے،اورظاہری فریب کاری و ملمع سازی کی فریفتگی سے بچائے ،حضرت عیسی  علہ السلام سے متعلق جیسا عقیدہ رکھنے حکم دیاگیا اس سے تجاوز کرنے سے بچائے۔( آمین)

  1. The Date & Meaning of Christmas by Dr. Samuele Bacchiocchi, p.08
  2. The Plain Truth about Christmas by Pr. Hwrbert W Armstrong, p.02
  3. انجیل لوقا  2:08
  4. Encyclopedia Britannica, Chicago 2009 Deluxe Edition, Christmas۔
  5. Encyclopedia Ameracana, New York, 1944 Ed. (Christmas)
  6. Catholic Encyclopedia, Roman Catholic Church, 1911 Ed.: Christmas
  7. Forerunner Commentary by Martin G. Collins
  8. یرمیاہ 10؍1،2
  9. گلیتیوں5:21
  10. پطرس کا دوسرا خط 2:1
  11. أخرجه البخاري (6099)، ومسلم (2804)
  12. صحيح البخاري: 4974
  13. صحيح أبي داود : 4031
  14. صحيح أبي داود: 4607، وأحمد (17185)
  15. صحيح ابن ماجه : 2473
  16. سنن بيهقی9ج/ص 392_18862)، || مصنف عبد الرزاق : ١٦٠٩ ]
  17. ( سنن الکبریٰ للبیہقی: حدیث 18863 اسنادہ صحیح ؛ )
  18. ابن القيم رحمه الله  أحكام أهل الذمة : ٢١١/٣ ]
  19. امام ابو حفص كبير الحنفي ، الدر المختار : ٧٤٥/٦ ]
  20. ابو داؤد: کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین: 1134
الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ: